خلاصہ تراویح 10 رمضان

  • آج دسویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ ھود کی بقیہ آیات (۵۰۔۱۲۹) اور سورۃ یوسف مکمل پڑی جائیگی۔

حضرت ہود ؑ (قومِ عاد):  آیت ۵۰ تا ۶۰

  • یہ قوم اپنی خوش حالی اور جسمانی قوت کی وجہ سے بہت متکبر ہوگئی تھی۔ حضرت ہودؑ انھیں ٹوکتے تو کہتے ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔  بلکہ اُلٹا ہودؑ کو طعنہ دیتے کہ ہمارے خداؤں کی گستاخی کی وجہ سے تمھارے اوپر ان معبودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے۔    چنانچہ ان پر باد صرصر(تیز آندھی) کی صورت میں اللہ کا عذاب آیا۔

حضرت صالح   ؑ (قومِ ثمود): آیت ۶۱ تا ۶۸

  • یہ بہت طاقتور اور ترقی یافتہ قوم تھی ۔ اس قوم نے بھی سرکشی کی اور اللہ اور اسکے رسول کا کھلم کھلا انکار کیا، حضرت صالح سے معجزہ مانگا۔  چنانچہ انھوں نے اللہ کے حکم سے ایک اونٹنی بطورِ معجزہ پیش کی طے پایا کہ ایک دن کنوئیں سے پانی اونٹنی پیے گی جبکہ دوسرے دن قوم کے باقی جانور۔   اُس اونٹنی کو قوم نے مار ڈالا او ر پھر 3 دن میں اللہ کا عذاب ایک سخت چنگھاڑ کی صورت میں آیا اور وہ  اپنے گھروں میں ایسے ختم ہوگئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔

حضرت ابراہیمؑ: آیت ۶۹ تا ۷۶

  • حضرت ابراہیمؑ کے پاس ۲ فرشتے انسانی شکل میں آئے۔ آپ نے  انھیں مہمان سمجھا اور بُھنا ہوا بچھڑا پیش کیا انھوں نے نہیں کھایا تو ابراہیمؑ ڈرے کہ کہیں کوئی دشمن تو نہیں۔  فرشتوں نے کہا کہ ڈرو نہیں ہم لوطؑ کی قوم کی جانب بھیجے گئے ہیں۔  ابراہیمؑ سمجھ گئےکہ عذاب کےلیے آئے ہیں۔  ابرہیم ؑ حلیم و بردبار تھے لہٰذا  انھوں نے اللہ سے عذاب ٹالنے کے لیے گریہ و زاری کی۔  مگر اللہ فیصلہ کرچکا تھا اس لیے اللہ نے ابراہیم ؑ کو اس سے روکا۔   اسی موقع پر فرشتوں نے ابراہیمؑ کو پیرانہ سالی میں اسحاق  ؑ کی پیدائش کی  اور اولادِ اسحاق  ؑ میں یعقوب ؑ کی خوشخبری دی۔  بیوی پاس ہی تھیں جس پر انھیں حیرت ہوئی۔ فرشتوں نے کہاابراہیمؑ کے اہل پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔

حضرت لوطؑ: آیت ۷۷ تا ۸۳

  • ان کی قوم کے لوگ بدکار تھے، عورتوں کے بجائے لڑکوں کی طرف مائل ہوتے تھے، دونوں فرشتے خوبصورت جوانوں کی شکل میں ابراہیم ؑ کی طرف سے لوطؑ کے پاس آئے، فوراً ہی  قوم کے بدکار لوگ بھی وہاں پہنچ گئے، حضرت لوط نے انھیں سمجھایا کہ لڑکیوں سے شادی کرلو، مگر وہ نہ مانے، ان پر اللہ کا عذاب آیا ، اس بستی کو زمین سے اٹھا کر الٹادیا گیا اور ان پر پتھروں کا عذاب نازل کیا گیا۔

حضرت شعیبؑ : آیت ۸۴ تا ۹۵

  • ان کی قوم کے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جنھوں نے نبی کی بات مانی بچ گئے، نافرمانوں پر چیخ کا عذاب آیا۔

حضرت موسی ؑ:     فرعون نے ان کی بات نہیں مانی ، اللہ نے اسے اور اس کے ماننے والوں کو ناکام کردیا۔

  • ان واقعات میں ایک طرف تو عقل، فہم اور سمع و بصر والوں کے لیے نہ ختم ہونے والی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اور دوسری طرف حضور اکرمؐ اور مخلص اہلِ ایمان کے لیے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے، اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں پوری امت کو حکم ہے، استقامت کوئی آسان چیز نہیں ہے، بلکہ انتہائی مشکل صفت ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے، استقامت کا مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی ان تعلیمات کے مطابق گزاری جائے جن کے مطابق گزارنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔
  • قیامت کا تذکرہ: روزِ قیامت انسانوں کی دو قسمیں ہوں گی:
  • (۱)بد بخت لوگ (۲)نیک بخت لوگ
  • بدبختوں کے لیے ہولناک عذاب ہوگا جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
  • نیک بختوں کے لیے اللہ نے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بے حساب نعمتیں رکھی ہیں۔
  • سورۂ یوسفؑ:
  • اس سورۃ کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ نبیؐ کو قتل کردیں یا جلا وطن کریں یا قید کردیں۔ اس زمانہ میں بعض کفار مکہ نے (غالباً یہودیوں کے اشارے پر) نبی ؐکا امتحان لینے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا۔
  • چونکہ اہل عرب اس قصہ سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں کی روایات میں نہ پایا جاتا تھا، اور خود نبی ؐ کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا تھا، اس لیے انہیں توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا ٹال مٹول کرنے کے بعد کسی یہودی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے، اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائیگا۔ لیکن اس امتحان میں انہیں الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فوراً اسی وقت یوسف ؑ کا پورا قصہ آپؐ کی زبان پر جاری کردیا، بلکہ اس قصے کو قریش کے اس معاملہ پر چسپاں بھی کردیا جو وہ برادران یوسف کی طرح آنحضرت ؐکے ساتھ کر رہے تھے۔

مقاصد نزول :       اس طرح یہ قصہ دو اہم مقاصد کے لیے نازل فرمایا گیا تھا :

  1. ایک یہ کہ محمد ؐکی نبوت کا ثبوت، اور وہ بھی مخالفین کا اپنا منہ مانگا ثبوت بہم پہنچایا جائے، اور ان کے خود تجویز کردہ امتحان میں یہ ثابت کردیا جائے کہ آپ سنی سنائی باتیں بیان نہیں کرتے بلکہ فی الواقع آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے۔ اس مقصد کو آیات ٣، ٧ اور پھر آیات ۱۰۲۔۱۰۳ میں بھی صاف صاف واضح کردیا گیا ہے۔
  2. دوسرے یہ کہ سردارانِ قریش اور محمد ؐکے درمیان اس وقت جو معاملہ چل رہا تھا اس پر برادرانِ یوسفؑ اور یوسفؑ کے قصے کو چسپاں کرتے ہوئے قریش والوں کو بتایا جائے کہ آج تم اپنے بھائی کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہو جو یوسفؑ کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ مگر جس طرح وہ خدا کی مشیت سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخرکار اسی بھائی کے قدموں میں آرہے جس کو انہوں نے کبھی انتہائی بےرحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا، اسی طرح تمہاری زور آزمائی بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے گی اور ایک دن تمہیں بھی اپنے اسی بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹا دینے پر تلے ہوئے ہو۔
  3. تعارف:   یوسفؑ حضرت یعقوبؑ کے بیٹے تھے، جن کا مسکن اور علاقہ فلسطین میں کنعان تھا۔  انکے 11 بھائی تھے جن میں سے ۱۰ دوسری مائیں تھیں جبکہ ایک سگا تھا جس کا نام بن یامین تھا۔   یوسفؑ اپنی اعلیٰ صفات کی وجہ سے والد بہت چہیتے تھے جس سے دوسرے بھائی حسد کرتے تھے۔   اسی دوران یوسفؑ کو ایک خواب نظر آیا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔  انھوں نے خواب اپنے والد کے سامنے بیان کردیا، باپ نےبیٹے سے کہا کہ اس کا تذکرہ کسی سے نہ کریں ایسا نہ ہو کہ انکے بھائی انکے خلاف کوئی سازش کرنے لگیں۔
  4. قتل کا ارادہ:         اُدھر بھائیوں نے یوسفؑ کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنے والد سے کہا کہ ہم جنگل کی سیر کو جارہے ہیں یوسفؑ کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔  باپ نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم کھیل کود میں منہمک ہوجاؤ اور یوسف ؑ کو بھیڑیا نہ اُچک لے جائے۔ تاہم بھائیوں کے اصرار پر اجازت دے دی۔ جنگل  جاکر انھوں نے  یوسف ؑ کو ایک کنوئیں میں پھینک دیا اور روتے دھوتے گھر آکر باپ کو کہانی سنائی کہ یوسفؑ کو بھیڑیا کھا گیا۔  ساتھ ہی انکی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا لیا ۔  یعقوبؑ نے فرمایا کہ تم جھوٹ کہہ رہے ہو، مگر میں پھر بھی صبر عظیم کروں گا۔
  5. مصر کا بازار اور یوسفؑ:     ادھر ایک قافلہ کا گزر ہوا اور اسنے پانی کے لیے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو اس میں یوسفؑ آگئے۔  قافلہ نے انھیں مصر کے بازار میں ایک حکومتی افسر کے ہاتھ فروخت کردیا۔  عزیزِ مصر کی بیوی انکے حسن و جمال پر فریفتہ ہوگئی اور ایک دن موقع پاکر انھیں بدکاری کی دعوت دی جسے یوسف ؑ نے ٹھکرادیا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔  اُس عورت نے پیچھے سے جو کرتا پکڑا تو وہ پھٹ گیا۔  اپنی حوس میں ناکامی پر اُس عورت نے اُلٹا نام یوسف ؑ کا لگا دیا کہ اس کا ارادہ خراب تھا۔  شواہد دیکھ کر اہلِ حل و عقد نے فیصلہ کیاکہ چونکہ کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہے لہٰذا عورت غلط ہے۔
  6. معاشرے کی بے راہ روی:    اُدھر جب شہر کی عورتوں میں اس معاملہ کی چہ مگوئیاں ہوئیں تو عزیز مصر کی بے حیاء عورت نے حکومتی افسران کی بیویوں کو جمع کیا اور سب کے ہاتھ پھل اور چھریاں دے دیں اور یوسف ؑ کو بلایا۔  جب وہ ان عورتوں کے سامنے آئے تو اُن کا حسن و جمال دیکھ کر سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں اور انھوں نے بجائے پھلوں کے اپنی انگلیاں کاٹ کر زخمی کرلیں۔  اور کہہ اُٹھیں حاشا للہ یعنی یہ شخص انسان نہیں ہے یہ تو کوئی فرشتہ ہے۔   اس سے اُس معاشرے کی بے راہ روی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
  7. یوسفؑ جیل میں:    جب عزیز مصر سے اپنی بیوی کی بے حیائی پر بس نہیں چلا تو اُس نے یوسفؑ کو جیل بھجوادیا۔  وہاں اُنھوں نے قیدیوں سامنے اپنا اور اپنے خاندان کا تعارف کرایا  اور توحید بھی پیش کی۔  اللہ نے آپؑ کو خوابوں کی تعبیر بتانے کا معجزہ عطا کیا تھا۔  قیدیوں میں سے دو قیدیوں نے خواب دیکھے اور آپ ؑ نے تعبیر بتائی جو پوری ہوئی۔  ان میں سے ایک کو سزائے موت ہوگئی اور دوسرے کو رہائی مل گئی جو بادشاہ کو شراب پلانے پر معمور تھا۔
  8. شاہِ مصر کا خواب اور اسکی تعبیر:     اس دوران بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جس سے وہ پریشان ہوگیا اور اسکی تعبیر اسے کوئی نہیں بتا سکا۔  اس کو شراب پلانے والا جو جیل سے رہا ہوا تھا اُس نے یوسفؑ کا ذکر کیا چنانچہ جیل میں آپ کو بادشاہ کا خواب بتایا گیا تو آپ نے اسکی تعبیر یہ بتائی کہ پہلے ۷ سال خوب اناج اُگے گا اور اسکے بعد ۷ سال قحط پڑے گا۔  لہٰذا پہلے سات سال میں اُگنے والے اناج کو احتیاط سے استعمال جائے تاکہ بعد کے دن پریشانی نہ ہو۔  بادشاہ نے آزادی کا پروانہ جاری کردیا لیکن یوسفؑ نے شرط رکھی کہ پہلے انکے ناکردہ جرم کی حقیقت لوگوں کے سامنے لائی جائے۔  چنانچہ اُن ہی عورتوں کو طلب کیا گیا اور عزیزِ مصر کی بیوی کو بھی جس نے ڈورے ڈالے تھے۔   اُس نے اور عورتوں نے حقیقت حال بیان کردی۔
  9. جیل سے ایوانِ اقتدار تک:    بادشاہ نے انھیں عزت سے بری کیا اور یوسف ؑ کو اپنی مملکت کے خزانوں کا وزیر بنادیا۔  کچھ عرصہ بعد ملک اک اقتدار مکمل طور پر انہی کے سپرد ہوگیا۔  اسی دور میں قحط سالی نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور مصر کے سوا کہیں غلہ نہ مل سکتا تھا۔  یوسفؑ کے ۱۰ بھائی غلہّ لینے آئے۔  جب وہ اپنا اپنا غلہ لے چکے تو کہا کہ ہمارا بوڑھا باپ اور چھوٹا بھائی گھر پر ہے ان کا حصہ بھی دے دیا جائے۔  یوسفؑ نے کہا باپ کا عذر تو معقول ہےلیکن بھائی کا غلہ آئندہ آؤ گے تو اسی کو ملے گا۔  یوسفؑ انھیں پہچان چکے تھے لہٰذا انکی رقم انہی کے تھیلوں میں ڈلوادی۔
  10. بنیامین کی آمد اور چوری کا الزام:      اگلی مرتبہ یعقوبؑ کی منت سماجت کرکےبھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے آئے جہاں چپکے سے یوسفؑ نے بنیامین کو بتادیا کہ میں تمھارا بھائی ہوں۔    چنانچہ اللہ کی بتائی ہوئی تدبیر سے غلہ  بوریوں میں غلہ ڈالتے ہوئے بنیامین کی بوری میں پیمانہ چھپوادیا۔  جب ان کا قافلہ چلا تو پیچھے ہرکارے دوڑائے جنھوں نے کہا کہ بادشاہ کا پیمانہ چوری ہوگیا ہے، تمھاری تلاشی ہوگی اور جس کے پاس نکلے گا ملکی قانون کے تحت اُسے روک لیا جائے گا۔  تلاشی لینے پرپیمانہ بنیامین کے تھیلے سے برآمد ہوا۔  بھائیوں نے کہا کہ اس کا بھائی بھی چور تھا۔ 
  11. اور راز کھلتا ہے:  سب بھائی اپنے قافلے والوں کے ساتھ کنعان چلے گئے اور اپنے بابا کو  سارا ماجرا سنایا۔  یعقوبؑ نے کہا کہ میرا بیٹا چور نہیں ہوسکتا۔  میں اس پر بھی صبر کروں گا۔ اور پھر انکی طرف سے منہ موڑ کر بیٹھ گئے اور ہائے میرے یوسف کہہ کہہ کر رونے لگے، یوسفؑ کی جدائی میں پہلےہی وہ رو رو کر اپنی بینائی   کھو چکے تھے۔  پھر بیٹوں سے کہا کہ جاکر یوسفؑ اور اسکے بھائی کی ٹوہ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔  (۸۷)
  12. یہ لوگ دوبارہ یوسفؑ کے دربار میں غلہ لینےگئے اور کہا کہ ہمارے پاس غلہ کے لیے پوری رقم نہیں ہے جو بھی تھوڑی بہت ہے لے کر ہمیں مکمل غلہ دے دیں، چاہے خیرات ہی سہی۔ (۸۸) یہ سن کر یوسفؑ سے نہ رہا گیا اور انھوں نے اُن سے سوال کیا کہ “تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہی کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جب کہ تم نادان تھے؟(۸۹)  تب بھائیوں نے کہا کہ کیا تم یوسفؑ ہو؟  انھوں نے جواب دیا ہاںمیں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ (۹۰) پھر اُن سے کہا کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمھیں معاف کرے۔ (۹۲)
  13. یعقوب ؑ مصر میں:  یوسف ؑ نے بھائیوں سے کہا “جاؤ ، میری یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پرڈال دو ، ان کی بینائی پلٹ آئے گی ، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ۔‘‘ (۹۳) ۔  ابھی قافلہ یہاں سے چلا ہی تھا کہ کنعان میں یعقوبؑ نے کہا کہ مجھے آج یوسف ؑ کی خوشبو آرہی ہے۔  گھر والوں نے اسے ان کا خبط قرار دیا۔    جس دن خوشخبری لانے والا کنعان پہنچا اور یوسفؑ کا کرتا اُنکے چہرے پر ڈالا تو انکی بینائی لوٹ آئی۔  بینائی کی یہ بحالی یوسفؑ کا معجزہ تھا۔
  14. یعقوبؑ بمع اپنی آل کے مصر پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور یہ سب لوگ یوسفؑ کے سامنے تعظیماً جھک گئے۔  جس پر یوسفؑ نے اپنے بابا سے کہا کہ یہ تھی تعبیر میرے اُس خواب کی جو میں نے آپ کو سنایا تھا۔
  15. تاریخ خود کو دھراتی ہے:    یہ پورا واقعہ بیان کرنے کے بعد قریش کو بتایا جارہا ہےکہ جو تاریخ مصر میں رقم ہوئی تھی وہی اب یہاں لکھی جارہی ہے۔  حضورؐ شعب ابی طالب میں بھی محصور رہے، غارِ ثور میں بھی پناہ لینا پڑی، قریشِ مکہ نے سر کی قیمت بھی مقرر کی، بار بار مدینے پر حملے بھی ہوئے اور بالآخرسب زیرِ نگیں ہوگئے۔
  16. آخر میں فرمایا گیا کہ!  یہ قصے محض محفلیں گرمانے کے لیے نہیں، عقل و ہوش رکھنے والوں کےلیے عبرت کا سامان ہیں۔  ہی قرآن کا اسلوب ہے اور اسی نقطۂ نظر سے قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔