خلاصہ تراویح 11 رمضان

  • آج گیارہویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ الرعد، ابراہیم، الحجر مکمل اور النحل کی ۹۴ آیات تلاوت کی جائینگی۔

سورۃ الرعد: 

یہ سورة بھی زمانہ قیامِ مکہ کے آخری دورمیں نازل ہوئی جب مشرکین کے مظالم عروج پر تھے اور نہ مانوں کی گردان جاری تھی۔

سورۂ رعد میں چار اہم باتیں ہیں:           ۱۔ قرآن کی حقانیت                 ۲۔ توحید                  ۳۔ قیامت  ۴۔ رسالت

  1.  قرآن کی حقانیت:

سورۃ کے آغاز میں اعلان کردیا گیا کہ یہ اُس کتابِ الٰہی کی آیات ہیں، اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے ان مخالفین کو چیلنج کرنے کے لیے جو قرآن کریم کو معاذ اللہ انسانی کاوش قرار دیتے ہیں۔

  1. توحید:

آسمانوں اور زمین، سورج اور چاند، رات اور دن، پہاڑوں اور نہروں ، غلہ جات اور مختلف رنگوں، ذائقوں اور خوشبوؤں والے پھلوں کو پیدا کرنے والا وہی ہے اور موت اور زندگی ، نفع اور نقصان اس اکیلے کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ نے انسانوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔

  1. قیامت:

مشرکوں کو تو اس پر تعجب ہوتا ہے کہ مردہ ہڈیوں میں زندگی کیسے ڈالی جائے گی، جبکہ درحقیقت باعثِ تعجب بعث بعد الموت نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کا تعجب سے یہ کہنا باعث تعجب ہے۔

  1. رسالت:

ہر قوم کے لیے کوئی نہ کوئی پیغمبر بھیجا جاتا رہا اور اللہ کے رسولوں کو قومیں جھٹلاتی رہیں، اس لیے حضورؐ کے ساتھ جو رویہ اُن کی قوم نے اختیار کیا تھا وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔  اللہ نے رسول بھیجے تو اُن کے بیوی بچے بھی تھے۔  کفار کا یہ اعتراض کہ رسول کوئی مافوق الفطرت فرد ہونا چاہیے، لغو قرار دیا گیا (۳۹)۔

سورۃ ابراھیم: 

عام انداز بیان مکہ کے آخری دور کی سورتوں کا سا ہے۔ سورة رعد سے قریب زمانہ ہی کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے۔

اس سورۃ میں بھی مکی سورتوں کی طرح عقائد کی پختگی کا ذکر ہے  یعنی توحید، رسالت و آخرت۔

ہر نبی اپنی قوم کی زبان پر ہوتا ہے: (آیت۴)

سورۃ کے شروع میں یہ حقیقت بیان کی گئی کہ جب بھی کسی قوم کی جانب رسول آیا تو اسی زبان کا بولنے والا انسان تھا اور اس پر جو وحی نازل کی گئی وہ اسی قوم کی زبان میں نازل ہوئی۔  ہر قوم میں نبی بھیجے گئے لیکن انھوں نے اس نبی کو جھٹلایا اور کہا کہ تم تو ہم ہی جیسے ہو۔  اس پر انبیاء نے کہا کہ بلاشبہ ہم تم ہی میں سے ہیں لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے۔

ظالموں کا انجام: (آیت ۲۱۔۲۲)

کفار و منافقین جب اللہ کے سامنے جمع کیے جائیں گے تو انکے کمزور اپنے پیشواؤں سے خود کو بچانے کا کہیں گے جس پر وہ کہیں گے، آج تو ہم اور تم ایک جیسے ہیں آج بچنے کی کوئی صورت نہیں۔  اور جب فیصلہ چکا دیا جائےتو تو یہ لوگ شیطان کو دوش دیں گے جس پر وہ کہے گا  کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میرے وعدے جھوٹے تھے۔  میں نے تمھارے ساتھ غلط کام کرنے کی زبردستی تو کی نہیں تھی بس تمھیں دعوت دی تھی باقی کام تم نے خود کیا ہے اس لیے مجھے ملامت نہیں کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری۔

کلمۂ طیبہ اور کلمۂ خبیثہ: (آیت۲۴۔۲۶)

کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے درخت کی سی ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں اور شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی سایہ دار اور پھل دار ہوں جبکہ کلمہ خبیثہ کی مثال اُس جھاڑ جھنکار کی مانند ہے جسے زمین سے اُکھاڑ پھینکا جاتا ہے اور اس میں قوت و استحکام نہیں۔

ابراہیمؑ کی دُعائیں: (آیت ۳۵۔۴۱)

حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ تعمیر کرنے کے بعد جو دُعائیں کی تھیں یہاں اُن کا تذکرہ کیا ہے جو یہ ہیں:

  1. اے اللہ اس شہر (مکہ) کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
  2. مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔
  3. اس محترم گھر کی طرف لوگوں کے دلوں میں آنے کا شوق پیدا فرما۔
  4. یہاں کے رہنے والوں کو پھل بھی دے اور لوگوں کا محبوب بھی بنادے۔

پھر اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کی عطا پر اللہ کا شکر ادا کیا۔

  1. اپنے لیے، اپنے والدین اور تمام مومنین کے  لیے مغفرت مانگی۔  جسے ہر نماز میں آج بھی مسلم اُمہ مانگتی ہے۔

حضرت ابراہیمؑ کی تمام دُعائیں قبول ہوئیں سوائے والد کی مغفرت کے چونکہ وہ مشرک تھا۔

اختتامِ سورۃ:

سورۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے منکرینِ اسلام کو تنبیہ کی ہے کہ یومِ آخرت انکی چالیں انہی پر پلٹ دی جائیں گی۔  اُس روز مجروموں کو دیکھو گے کہ وہ بے نقاب ہو کر حاجرو ہوں گے۔ ان کے ہاتھ پاؤں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ تارکول کے لباس پہنے ہوں گے اور آگ کے شعلے اُن کے چہروں پر چھائے جا رہے ہوں گے۔

سورۃ الحجر:

یہ بھی ایک مکی سورۃ ہے مضامین اور انداز بیان سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اس سورة کا زمانہ نزول سورة ابراہیم سے متصل ہے۔ سورۃ کا مضمون دین کا مذاق اُڑانے والوں کو تنبیہ اور آنحضورؐ کی تسلی اور ہمت افزائی ہے۔

سورۃ الحجر میں تقریباً اُن ہی موضوعات کی تذکیر ہوئی ہے جنھیں سورۃ ابراہیم میں بیان کیا گیا ہے۔  ماسوائے اس کے کہ اس میں قصۂ آدمؑ و ابلیس کو پھر بیان کیا گیا ہے، اصحابِ الایکہ کا ذکر ہے ۔  یہ شعیب ؑ کی قوم کے لوگ تھےجنھیں بنو مدیان بھی کہا جاتا ہے۔  ایکہ اُن کے اُس علاقے کا نام تھا جو آج کل تبوک کے نام سے معروف ہے۔  اسی طرح اس سورۃ میں اصحاب الحجر کا ذکر ملتا ہے۔  اصحاب الحجر دراصل قومِ ثمود کا دوسرا نام ہے، چونکہ انکے شہر کا نام حجر تھا اس مناسبت سے انھیں اصحاب الحجر کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور اُن پر جو عذاب بھیجا گیا، اُس طرف اشارہ ہے۔

سورۃ النحل:

سورۃ النحل بھی مکہ کے آخری دور کی سورتوں میں سے ایک ہے۔  یہ ہجرتِ حبشہ کے بعد نازل ہوئی، مضمون سے پتہ چلتا ہےکہ یہ سورۃ الانعام کے فوری بعد نازل ہوئی ہوگی۔

 اس سورۃ کا موضوع اور مضمون شرک کا ابطال، توحید کا اثبات، دعوتِ پیغمبر کو نہ ماننے کے برے نتائج پر تنبیہ و فہمائش، اور حق کی مخالفت و مزاحمت پر زجرو توبیخ ہے۔

  • سورۃ کا آغاز ہے اس اعلان سے کیا گیا ہےکہ آگیا اللہ کا فیصلہ، اب اس کےلیے جلدی نہ مچاؤ  اس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بدعملی کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا اور آخری فیصلہ کن قدم اٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا۔  یہاں غالباً مراد نبیؐ کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت ہے ، جس کا حکم تھوڑی ہی مدت بعد دے دیا گیا۔  اور ہجرت ہی دراصل اسلام کی سربلندی اور فتح کی علامت بنی۔
  • اللہ کی نشانیاں (۴۔۲۲): اللہ نے انسان کی تخلیق اور اُس کی اصل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایک بوند سے پیدا ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے صریحاً جھگڑالو ہوگیا۔   ان ہی آیات میں اللہ نے دیگر نشانیاں گنوائیں جن میں انسان کے لیے مفید جانور، آسمان سے بارش پھر اس سے کھیتیاں، پھلوں کا پیدا ہونا،  رات اور دن کا آنا جانا،  دنیا میں بے شمار رنگ برنگی دیگر نعمتیں، سمندر اور اس سے حاصل ہونے والی خوراک، اس کے ذریعے تجارت، اس  سے حاصل ہونے والی قیمتی اشیاء جن سے زیورات کا کام لیا جاتا ہے، پہاڑ اور تاروں کا ذکر پھرفرمایا کہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔ اور آخر میں دعوت فکر یہ کہہ کر کہ  پھر کیوں تم اللہ کو چھوڑ کو دوسری ہستیوں کو پکارتے ہو۔
  • ایمان والوں اور کفار کا انجام (۲۷۔۳۲): کفار اور ایمان والوں کے انجام کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ قیامت کے روز اللہ کفار کو  ذلیل و خوار کرے گا اور اُن سے سوال کیا جائے گا،  بتاؤ کہاں ہیں تمھارے وہ شریک جنھیں تم اللہ کے سوا دنیا میں معبود تسلیم کرتے تھے ،  کفار فرشتوں سےکہیں گے ہم نے تو وہ قصور نہیں کیے جو تم گنوارہے ہو جس پر وہ جواب دینگے کہ اللہ تمھارے تمام کرتوتوں سے واقف ہے۔  اور انھیں جہنم میں دھکیل دیا جایا جائے گا جبکہ مومنین کو انکے ایمان وعمل  کی جزاء کے طور پر جنت میں داخل کردیا جائےگا جہاں فرشتے سلام کرتے ہوئے ان کا استقبال کریں گے۔
  • دودھ اور شہد(۶۵۔۶۹): ان آیات میں پھر نعمتوں کا ذکر ملتا ہے کہ کیسے اللہ بارش برساتا ہے اور مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے جس سے پھل پھول نکلتے ہیں،  پھر مویشیوں کے پیٹ سے دودھ نکلتا ہے جو کہ خون اور گوبر جیسی ناپاک چیزوں کے درمیان سے ہوتا ہوا آتا ہے  اور کیسا شفاف ہوتا ہے، شہد کی مکھی کے شہد پیدا کرنے کا پروسس بتا یا گیا کہ ایک ہی پروسس سے مختلف رنگ کا شہد نکلاتا ہے جس میں ربّ نے غذا بھی رکھی اور شفاء بھی۔
  • انسان کی زندگی کے درجات:            آیت  70 میں بتایا گیا کہ انسان زمین پر کس طرح اللہ کی نافرمانیاں کرتا ہے جبکہ خود کو نہیں دیکھتا کہ بچپن میں کس طرح محتاج تھا ایک ایک ضرورت کے لیے،  پھر اس کو جوانی ملی جس میں زمین کےسینے پر یہ اکڑ کر چلنے کے قابل ہوا اور پھر اسکو ہم بڑھاپے میں لے جاتے ہیں  اور بچپن کی طرح دوسروں کا محتاج بنا دیتے ہیں۔  اور آخر کار تمھیں زندگی والا ربّ موت کی وادی میں لے جاتا ہے۔
  • خاندان ایک نعمت : آیت نمبر 72میں اللہ نے انسان کے خاندانی نظام کا تذکرہ کیا کہ اللہ نے انسانوں ہی کی جنس سے جوڑے پیدا کیے، جن سے انسانی افزائش ہوئی اور پہلے بیٹا بیٹی، پھر پوتا پوتی، عطا کیے اور ان سے نسل کو آگے چلایا۔
  • آقا و غلام، گونگا و بہرہ:    آیت نمبر 75-76 میں اللہ نے آقا و غلام کی مثال پیش کی  جس میں ایک بااختیار ہے اور دوسرا بے اختیار،   ایک رزق دینے والا ہے دوسرے رزق لینے والا،   ایک گونگا بہرا ہے  اور دوسرا انصاف کا حکم دیتا ہے۔  اور پھر سوال کیا کہ یہ آپس میں برابر ہوسکتے ہیں؟   یعنی جب ایسا نہیں ہوسکتا تو اللہ اور جنھیں اے انسان تو اللہ کا شریک ٹہراتا ہے کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟
  • انسان کی زندگی کے درجات:            آیت  70 میں بتایا گیا کہ انسان زمین پر کس طرح اللہ کی نافرمانیاں کرتا ہے جبکہ خود کو نہیں دیکھتا کہ بچپن میں کس طرح محتاج تھا ایک ایک ضرورت کے لیے،  پھر اس کو جوانی ملی جس میں زمین کےسینے پر یہ اکڑ کر چلنے کے قابل ہوا اور پھر اسکو ہم بڑھاپے میں لے جاتے ہیں  اور بچپن کی طرح دوسروں کا محتاج بنا دیتے ہیں۔  اور آخر کار تمھیں زندگی والا ربّ موت کی وادی میں لے جاتا ہے۔
  • خاندان ایک نعمت : آیت نمبر 72میں اللہ نے انسان کے خاندانی نظام کا تذکرہ کیا کہ اللہ نے انسانوں ہی کی جنس سے جوڑے پیدا کیے، جن سے انسانی افزائش ہوئی اور پہلے بیٹا بیٹی، پھر پوتا پوتی، عطا کیے اور ان سے نسل کو آگے چلایا۔
  • آقا و غلام، گونگا و بہرہ:    آیت نمبر 75-76 میں اللہ نے آقا و غلام کی مثال پیش کی  جس میں ایک بااختیار ہے اور دوسرا بے اختیار،   ایک رزق دینے والا ہے دوسرے رزق لینے والا،   ایک گونگا بہرا ہے  اور دوسرا انصاف کا حکم دیتا ہے۔  اور پھر سوال کیا کہ یہ آپس میں برابر ہوسکتے ہیں؟   یعنی جب ایسا نہیں ہوسکتا تو اللہ اور جنھیں اے انسان تو اللہ کا شریک ٹہراتا ہے کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟