خلاصہ تراویح 13 رمضان

آج تیرہویں تراویح ہے ۔  اس میں سورۃ کہف کا بقیہ حصہ،  سورۃ مریم اور  سورۃ طٰہٰ کی مکمل تلاوت کی جائے گی۔

  • واقعہ موسیٰ ؑ و خضر ؑ:       پندرھویں پارے  کے آخر میں دوسرے سوال کا جواب دیا جاتا ہے جوقصۂ موسیٰ اور خضر  ؑ ہےکیا جاتا ہے۔  یہ قصہ مکمل سولہویں پارے میں ہوتا ہے۔  تمام انبیاء کی طرح موسیٰ ؑ کو بھی  جب نبوت ملی تو کٹھن مراحل سے گزارا گیا۔  حکم ملا کہ مصر سے سوڈان کی جانب سفر کریں۔  راستے میں ایک مقام پر  2 دریاء آپس میں ملتے ہیں وہاں ایک شخص ملے گا جس کے ساتھ موسیٰؑ کو کچھ وقت گزارنا ہوگا۔  اس مقام کی نشانی بتائی گئی تھی کہ بُھنی ہوئی مچھلی جو کھانے کے لیے رکھی تھی زندہ ہو کر دریاء میں چلی جائے گی۔  چنانچہ یہیں موسیٰؑ کی ملاقات خضرؑ سےہوگی۔ 
  • موسیٰؑ اور خضرؑ کی ملاقات: ملاقات ہوئی تو موسیٰ نے خضرؑ سے کہا کہ آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ آپ سے دانش سیکھوں۔  خضرؑ نے کہا کہ رہ تو سکتے ہیں لیکن میرے کام ایسے ہیں کہ آپ کو تعجب ہوگا اور صبر نہیں کرسکیں گے۔  موسیٰؑ نے وعدہ کیا کہ میں صبر کروں گا۔  چنانچہ دونوں ساتھ ہوگئے اور خضرؑ نے کہا کہ میرے ساتھ رہیے لیکن جو بھی دیکھیں کسی قسم کا سوال نہیں کیجئے گا جب تک میں خود وضاحت نہ کردوں۔
  • پہلا عجیب منظر: موسیٰؑ اور خضرؑ سوال نہ کرنے کے وعدہ کے ساتھ چل پڑے اور ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔  کچھ دیر بعد خضر ؑ نے کشتی کے پیندے میں سوراخ کردیا۔  موسیٰؑ نے ٹوکا تو خضرؑ نے کہا کہ میں نے تمھیں کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے جواباً موسیٰ ؑ نے معذرت کی کہ اُن سے بھول ہوگئی۔  کشتی کو وہیں چھوڑ کر وہ خشکی کے راستے چل پڑے۔
  • دوسرا عجیب منظر: آگے بڑھے تو اس سے بھی عجیب واقعہ پیش آگیا۔  سامنے سے ایک خوبصورت بچہ چلا آرہا تھا کہ  خضرؑ نے اسے قتل کردیا۔  موسیٰ ؑ کے خاموش رہنا بہت مشکل تھا، سرزنش والے انداز میں خضر ؑ کو کہا کہ بلاوجہ ایک ننھی سی جان کو قتل کردیا۔  خضرؑ نے پھر کہا کہ میں نے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے۔  اس پر موسیٰ ؑ نے معذرت کی  اور کہا اب سوال کروں تو اپنے سے الگ کردیجئے گا۔
  • تیسرا عجیب منظر: سفر جاری رہا ایک بستی میں پہنچے جہاں کے لوگوں نے اجنبی مہمانوں کو کھانا پینا دینے سے بھی انکار کردیا۔ ایسی بستی میں ایک دیوار گرتی نظر آئی تو خضرؑ نے بڑھ کر اُسے درست کردیا۔  موسیٰ ؑ نے پھر کہا کہ بغیر مزدوری کے ایسی بستی میں دیوار کا بنانا سمجھ سے بالا تر ہے۔  خضرؑ نے کہا اب میرا اور تمھارا ساتھ ختم ہوا۔ آؤ تمھیں حقیقت بتا دیتا ہوں۔
  • کشتی میں سوراخ کرنے کی حکمت: کشتی چند غریب مزدوروں کی تھی اور دریاء اکے دوسرے کنارے ایک ظالم بادشاہ لوگوں کی کشتیوں پر قبضہ کررہا تھا۔  چنانچہ میں نے اسے عیب دار کر دیا تاکہ وہ قبضہ نہ کرسکے اور مزدور بعد میں اس کی مرمت کرکے پھر کام میں لے آئیں۔
  • بچہ قتل کرنے کی حکمت: مقتول لڑکا متقی والدین کا بیٹا تھا لیکن اُس کے اندر سرکشی و کفر کے جراثیم پائے جاتے تھے۔  ہمیشہ اندیشہ ہوا کہ یہ والدین کو تنگ کرے گا۔  اس لیے ہم نے چاہا کہ اس سرکش و نافرمان کی جگہ اللہ ان کو ایسی اولاد دے جو پاک نفس اور ہمدردی کرنے والی ہو۔
  • دیوار کی مرمت کی حکمت : یہ دیوار درحقیقت 2 یتیموں کی تھی، ان کے باپ نے، جو ایک نیک آدمی تھا، اس کے نیچے ایک دفینہ محفوظ کیا تھا کہ اس کے بعد یہ اس کے بچوں کے کام آئے گا، اگر یہ دیوار گرجاتی تو دفینہ بستی کے لوگوں کے ہاتھ لگ جاتا اور یہ یتیم اس سے محروم ہوجاتے۔ اس وجہ سے تمہارے رب نے یہ چاہا کہ یہ دیوار ان بچوں کے جوان ہونے تک قائم رہے تاکہ وہ جوان ہو کر اپنا دفینہ خود نکالیں۔ میں جو بھی کیا خود نہیں کیا بلکہ اللہ کے حکم سے کیا۔
  • خضر ؑ کون تھے؟: خضرؑ اگر انسان ہوں تو خداکی بھیجی ہوئی شریعت کے مطابق کسی دور میں بھی پہلے دو کام اُن کےلیے کسی صورت بھی جائز نہ تھے۔  اگر کسی کو کسی کے بارے میں علم بھی ہوجائے کہ اُس کے ارادے خراب ہیں تب بھی اُسے قتل نہیں کیا جاسکتا۔  البتہ تکوینی احکام، جن میں اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو ذمہ داریاں سونپتا ہے، اُن  میں اللہ کے حکم کے مطابق فرشتے اس طرح کی خدمات سرانجام دیتے رہتے ہیں۔     (تفہیم القرآن)
  • واضح ہوا کہ خضرؑ کوئی انسان یا ولی اللہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے مقرب فرشتوں میں سے ایک ہیں، جن کے ذمہ تکوینی احکام لگتے رہتے ہیں اور وہ اُن کی تنفیذ کرتے ہیں۔
  • ذوالقرنین کون تھے؟: آیت 83 تا 101میں قریش کے تیسرے سوال کا جواب ذوالقرنین کے بارے میں بیان ہے۔  قُرآن نے جو صفات ذوالقرنین کی بیان کی ہیں اُن میں اُسے 2 سینگوں والا کہا گیا ہے (یعنی طاقت کی علامت)،    دوسرے یہ کہ وہ بڑا فرماں روا اور فاتح تھا، جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی تھیں،  تیسرے یاجوج ماجوج کے حملوں کو روکنے کےلیے شمالی سرحدوں پر ایک مستحکم دیوار بنائی تھی۔ چوتھے وہ اللہ کی عبادت کرنے والا عادل تھا۔

قصہ ذوالقرنین:    

  1. یہودیوں پر اس بادشاہ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے بابل کی اسیری سے ان کو نجات دلائی اور اس کی مدد سے بیت المقدس اور ہیکل کی ازسر نو تعمیر ہوئی۔ یہود کے انبیاء نے ان کی پیشین گوئی بھی کی تھی۔
  2.  وہ مغرب کی جانب ملک پر ملک فتح کرتا ہوا خشکی کے آخری سرے تک پہنچ گیا جس کے آگے سمندر تھا۔ اور وہاں غروب آفتاب کے وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سورج سمندر کے سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔   وہاں ایک قوم ملی جس پر اللہ نے اس صورت حال میں اس کے ضمیر کے سامنے یہ سوال رکھ دیا کہ یہ تیرے امتحان کا وقت ہے۔ یہ قوم تیرے آگے بےبس ہے۔ تو ظلم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور شرافت کا سلوک کرنا چاہے تو یہ بھی تیرے اختیار میں ہے۔  چنانچہ اس نے اعلان کردیا کہ جو ظلم کرے گا اسے سزا دیں گے اور جو ایمان لایا اور اس پر عمل کیا اس سے نرمی کا معاملہ کریں گے۔
  3. پھر  وہ ممالک فتح کرتا ہوا مشرق کی جانب ایسے علاقے تک پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا کی سرحد ختم ہوگئی تھی اور آگے ایسی وحشی قوموں کا علاقہ تھا جو عمارتیں بنانا تو درکنار خیمے بنانا تک نہ جانتی تھیں۔
  4. پھر وہ اگلی مہم پر نکلا اور اُن  دو پہاڑوں  کے پاس پہنچ گیا جہاں یاجوُج ماجوُج کا علاقہ تھا،  ان پہاڑوں سے مراد کا کیشیا کے وہ پہاڑی سلسلے ہو سکتے ہیں جو بحر خَز َر (کیسپین) اور بحر اسود کے درمیان واقع ہیں۔   وہاں کے رہنے والوں نے جو ذوالقرنین اور اسکی فوج کی زبان نہیں سمجھتے تھے کسی طرح یہ بات ذوالقرنین کو بتائی کہ یاجوج و ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں، لہٰذا ان سے ہمیں محفوظ کر جس کے لیے تو چاہے تو ہم ٹیکس کی ادائیگی یا کوئی معاوضہ بھی تجھے دے سکتے ہیں۔   (یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولی، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں)۔  ذوالقرنین نے انکی مدد بغیر کسی معاوضہ کے کی بس اُنھیں اپنا ہاتھ بٹانے کا کہا اور دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک آہنی دیوار تعمیر کردی۔  پھر کہا کہ یہ لازوال نہیں ہے بلکہ جب تک میرا ربّ چاہے گا قائم رہے گی۔
  5. یہ قصہ بیان کرتے ہوئے دراصل قریش کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ معمولی حیثیت اور سرداری کے خمار نے تمھیں اتنا خود سر بنا دیا ہے تم صداقت کی آواز سننے کے روادار نہیں ہو، نظامِ عدل لانے والے کی جان کے دشمن ہو اور دوسری جانب  ذو القرنین کو دیکھو محض ایک فاتح ہی نہ تھا، بلکہ توحید اور آخرت کا قائل تھا، عدل و انصاف اور فیاضی کے اصولوں پر عامل تھا، اور تم لوگوں کی طرح کم ظرف نہ تھا کہ ذرا سی سرداری ملی اور سمجھ بیٹھے کہ ہم چومن دیگرے نیست۔
  6. سورۃ کا اختتام:      سورۃ کے آخر میں اللہ ربّ العالمین نے تمام مضامین کو سمیٹتے ہوئے آخرت کی منظر کشی کی ہے۔  منکرینِ حق کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ قیامت کو اُن کے پلّے کچھ نہیں ہوگا اور اہلِ ایمان کو خوشخبری کہ جنھوں نے اپنے عمل سے ایمان کو ثابت کیا ، انکی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
  7. حقیقت:   آخر میں ایک حقیقت بتادی گئی کہ  اے نبیؐ، کہو اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں ، بلکہ اگراتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کم پڑ جائے گی۔

سورۃ مریم:         

  • یہ ایک مکی سورۃ ہے اور اس کا زمانہ نزول ہجرت حبشہ سے پہلے کا ہے۔ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مہاجرین اسلام جب نجاشی کے دربار میں بلائے گئے تھے اس وقت حضرت جعفر ؓبن ابی طالب نے یہی سورة بھرے دربار میں تلاوت کی تھی۔ ہجرتِ حبشہ سے قبل مکہ کے حالات اتنے شدید تھے کہ بعض صحابہؓ کرام نے مظالم سے تنگ آکر حضورؐ سے شکایت کی۔ آپؐ نے ۵ نبوی میں اپنے اصحابؓ سے فرمایا کہ اچھا ہو کہ تم لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کرجاؤ، وہاں ایک ایسا بادشاہ حکمران ہے، جس کے ملک میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ صدق و بھلائی کی سرزمین ہے۔  اللہ جب تک اس مصیبت سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں کرتا، تم لوگ وہیں ٹہرے رہو۔ اسی ارشادِ نبویؐ کے بعد ۸۳ صحابہؓ اور ۱۱ صحابیاتؓ نے حبشہ ہجرت کی۔  قریش نے پیچھا کیا لیکن مسلم مہاجرین ہاتھ نہ لگے اور حبشہ پہنچ گئے۔  چنانچہ معروف مقررین کوتحفے تحائف کے ساتھ مسلمانوں کو واپس لانے کے لیے حبشہ بھیجا۔ جو ناکام لوٹے۔
  • آیت نمبر 2 تا 15میں زکریاؑ کی دُعا اور یحیی ؑ کی پیدائش کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کی تفصیل سورۃ آلِ عمران کے رُکوع نمبر 4 میں ہم بیان کرچکے ہیں۔
  • آیت نمبر 16 تا 36 حضرت مریمؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش قصہ شروع ہوتا ہے اسکو بھی سورۃ آلِ عمران میں تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے بعد جب مریم ؑ کی قوم نے اُن سے کہا کہ اے ہارون کی بہن ، نہ تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی۔‘‘  تو اللہ کے حکم سے مریم ؑ نے  اللہ کے حکم سے بچہ کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ اس سے پوچھ لو۔  جس پر انھوں نےکہا کہ یہ بچہ کیسے بولے گا تو گہوارے میں لیٹے عیسیٰؑ نے معجزانہ طور پر اللہ کے حکم سے بولنا شروع کردیا اور کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ، اور نبی بنایا، اور بابرکت کیا جہاں بھی میں رہوں ، اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں۔ اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا ، اور مجھ کو جبار اور شقی نہیں بنایا۔ سلام ہے مجھ پر جب کہ میں پیدا ہوا اور جب کہ میں مروں اور جب کہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں۔‘‘ (۳۰۔۳۳)
  • اس معجزہ کو دیکھ کر قوم کے بہت سے لوگ عیسیٰؑ کی بزرگی کے قائل ہوگئے لیکن اللہ کی واحدانیت کا اقرار کرنے کے بجائے  اُنھیں اللہ کا بیٹا قرار دے ڈالا۔  جس پر  اللہ نے آیت نمبر ۳۵ میں اس کی تردید کی کہ یہ اللہ کا کام نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے، وہ پاک ذات ہے  وہ جب فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو جا، اور بس وہ ہو جاتی ہے(۳۵)۔
  • چونکہ عیسیٰؑ کے پیروکار بھی ابراہیم ؑ کو پیشوا ماننے کے قائل ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آیت 42 تا 50 میں ان کا اور انکے باپ آزر کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا جس میں ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ کا شرک کرنے سے واضح طور پر انکار کیا تھا یہاں تک کہ انھیں اپنے گھر والے اور ملک بھی چھوڑنا پڑا تھا۔  پھر ربّ نے انھیں ایسی بزرگی دی کہ یہود، ہنود، نصرانی اور مسلم سب انھیں اپنا امام و پیشوا مانتے ہیں۔
  • آیت 51-58 موسیٰ ؑ، اسماعیلؑ، اور ادریس ؑاور نوحؑ کا  تذکرہ کیا گیا کہ یہ سب اللہ کے نبی اور فرمانبردار تھے ۔
  • سورۃ کے آخر میں حضورؐ کو تسلی دی گئی ہے کہ اہلِ خیر و ایمان کےلیے رحمن لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کردے گا۔ رہے منکرین و معاندین تو اُن کی فکر نہ کرو۔  اُن کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔
  • سورۃ طٰہٰ: یہ بھی ایک مکی سورۃ ہے اور اس کا زمانہ نزول ہجرت حبشہ کے فوری بعد کا ہے۔  اس سورۃ کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہے۔  اس سورۃ کو پڑھ کر ایک ایسا شخص ایمان لایا کہ جس کے ایمان لانے کے بعد پہلی بار علی الاعلان خانہ کعبہ میں نماز ادا کی گئی،  جس کے قدموں کی آہٹ سے شیطان بھاگ جاتا تھا،  اور جس کے بارے میں حضورؐ نے فرمایا ! کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا۔  واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ عمر،  نبیؐ کے قتل کے ارادہ سے نکلے تو کسی نے کہا کہ پہلے اپنے بہن و بہنوئی کی خبر تو لے لو دونوں ایمان لاچکے ہیں۔  چنانچہ آپ انکے گھر گئے باہر سے کچھ پڑھنے کی آواز آئی،  گھر میں داخل ہوئے تو انھوں نے چھپا دیا۔  پوچھنے پر نہیں بتایا تو عمر نے پہلے بہنوئی  کو مارا اور بہن بچانے آئیں تو انھیں بھی زد و کوب کیاجس سے انکا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔  یہ دیکھ کر پشیمان ہوئے اور پوچھا اچھا دکھاؤ کیا پڑھ رہے تھے ، بہن نے پہلے قسم لی کہ پھاڑیں گے نہیں ، پھر انھیں غسل کرایا  اور وعدہ کرنے پر انھیں چند اوراق دیے جن پر سورۃ طٰہٰ لکھی ہوئی تھی۔  پڑھتے گئے،  روتے گئے  اور کہا کیا خوب آیات ہیں۔  اور سیدھے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور ایمان لے آئے۔

سورۃ طٰہٰ:                        آیت 1تا 8  ربّ نے اپنے محبوب کو مخاطب کرکے فرمایا! کہ ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ اسکے بعد اپنی ربوبیت کو اپنی چند نعمتیں گنوا کر بیان کیا  کہ زمین کے اوپر اور اسکے نیچے اور آسمانوں کے نیچے اور انکے اوپر جو کچھ بھی ہے سب اُسی ربّ کا پیدا کردہ ہے ۔  لہٰذا اسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

قصہ موسیٰ   ؑ:      آیت 9-98 میں                   1)    موسیٰ  ؑ کی پیدائش سے پنگھوڑے  میں دریاء کی موجوں پر،

  1. پھر فرعون کے محل سے قبطی کے قتل تک
  2. پھر آپؑ کی شعیب ؑکے پاس پہنچنے سے انکی صاحبزادی سے نکاح تک
  3. پھر  مدین سے واپسی پر وادیٔ طویٰ  میں اور وہاں سے کوہِ طور پر اللہ سے کلام کرنے تک
  4. پھر کوہِ طور سے فرعون کو چیلنج  کرنے تک
  5. پھر فرعون کے غرقاب ہونے سے وادیٔ سینا تک اور وادیٔ  سے دوبارہ  کوہِ طور اللہ سے ہدایت کی الواح لینے تک
  6. کی تفصیل ملتی ہے۔ جسے ہم سورۃ بقرہ،  سورۃ الاعراف ، سورہ  ہود کی تلخیص میں  بیان کرچکے ہیں۔
  7. قیامت کا نقشہ (۱۰۵۔۱۱۱):  قصۂ موسیٰ  ؑ و فرعون کے آخر میں قیامت کا تذکرہ ملتا ہے۔  فرمایا!  یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟  کہو کہ میرا رب اُن کو دھول بنا کر اُڑا دے گا اور زمین کو چٹیل میدان بنادے گا کہ اس میں تم کوئی بل اور سلوٹ نہ دیکھو گے۔ اُس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے ، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا۔ اور آوازیں رحمان کے آگے دب جائیں گی ، ایک سرسراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے۔ اُس روز شفاعت کارگر نہ ہوگی ، اِلاّ یہ کہ کسی کو رحمان اس کی اجازت دے اور اس کی بات سننا پسند کرے ۔ وہ لوگوں کا اگلا پچھلا سب حال جانتا ہے اور دوسروں کو اس کا پورا علم نہیں ہے۔ لوگوں کے سر اُس حیّ و قیوم کے آگے جھک جائیں گے ۔ نامراد ہوگا جو اُس وقت کسی ظلم کا بارِ گناہ اٹھائے ہوئے ہو ۔
  8. آدم و ابلیس (۱۱۵۔۱۲۳):ان آیات میں وہ بھولا ہوا سبق قرآن یاد دلا رہا ہے  جو انسان کو اس کی پیدائش کے آغاز میں دیا گیا تھا اور جسے یاد دلاتے رہنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا، اور جسے یاد دلانے کے لیے قرآن سے پہلے بھی بار بار ” ذکر ” آتے رہے ہیں۔  وہ ہے آدم کی پیدائش، ابلیس کا بہکانا،  پھر آدم و حوا کی توبہ،  ابلیس کا اکڑ جانا۔  اور دونوں کا زمین پر بھیج دیا جانا۔
  9. جامع ہدایات (آخری آیات):   
  10. آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے جامع ہدایات دی ہیں۔  آنحضورﷺ کو صبر اور تسلیم و عبادت کی تلقین فرمائی ہے اور ساتھ ہی اپنے اہل و عیال کو بھی نماز کا حکم دینے کی ہدایت فرمائی ہے۔
  11. فرمایا گیا کہ جو لوگ معجزات دیکھ لینے کے باوجود بھی ایمان نہیں لاتے انھیں صاف الفاظ میں کہہ دیں کہ میں بھی فیصلے کا انتظار کر رہا ہوں،  تم بھی انتظار کرو۔  عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ کون سیدھے راستے پر ہے۔
  12. الحمد للہ تیرھویں تراویح کا خلاصہ اپنے اختتام  کو پہنچا۔  چودھویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔ تب تک کے لیے اجازت ۔         اللہ حافظ