خلاصہ تراویح 14 رمضان

آج چودھویں تراویح ہے ، یہ سترھویں پارے پر مشتمل ہے ۔ جس میں سورۃ الانبیاء اور سورۃ الحج  کی مکمل تلاوت کی جائے گی

  • سورۃ الانبیاء: سورۃ الانبیاء ایک مکی سورۃ ہے اور جیسے کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ مکی سورتوں میں اسلام کے بنیادی عقائد کی پختگی کی بات کی گئی ہے۔  جن میں عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت اور عقیدہ آخرت شامل ہیں۔  اس سورۃ میں بھی قیامت سے بات کو شروع کیا گیا پھر عقیدہ رسالت کی بات ہے اور آخر میں اللہ کی تخلیقات اور نشانیاں گنوا کر عقیدہ توحید کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔
  • قیامت:
  • بتایا گیا ہے کہ قیامت کا وقوع اور حساب کا وقت بہت قریب آگیا ہے، لیکن اس ہولناک دن سے انسان غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اسکے بعد انسان کی اس روش کا ذکر کیا گیا کہ دنیا کی چکا چوند میں گرفتار ہوکریہ بھول بیٹھا ہے  اور جب اسے یاد کرانے رسولؐ کو بھیجا گیا تو اس نے غیر سنجیدہ لیا اور انھیں ماننے سے انکار کیا ۔  کبھی کہتے ہیں یہ نبیؐ تمھارے ہی جیسا تو انسان ہے، کبھی کہتے ہیں یہ شاعر ہے،            جبکہ ان سے پہلے بھی انبیاء انسان ہی بھیجے گئے فرشتے نہیں۔
  • ان ہی جیسے لوگ تھے جو ان سے پہلے ان ہی کی طرح اللہ کا عذاب طلب کرتے تھے۔  جب اللہ نے عذاب بھیجا تو انھیں پیس کررکھ دیا اور آن وہ قصۂ پارینہ بن گئے۔
  • تخلیق کائنات: آیت 30 سے 33 تک تخلیق کائنات کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا  کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے (Mass) کی سی تھی، بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اجرام فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے۔
  • پانی سے ہر جاندار کی پیدائش: اسی آیت میں بتایا گیا کہ کسی بھی جاندار شے کی پیدائش پانی کے عمل دخل کے بغیر نہیں ہوئی۔ ہر وہ چیز جس میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہوں اس کی زندگی کا سبب پانی ہی ہوتا ہے اور اس میں نباتات، حیوانات سب شامل ہیں۔ اور ایسی تمام اشیاء پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔
  • موت: آیت 35میں موت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے اسی آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ خیر اور شر انسان کی آزمائش کے لیے ہیں۔  یعنی مومن مصیبت میں صبر کے ساتھ خوش ہوتا ہے جبکہ اللہ کا باغی خوشی میں مستی کی وادیوں میں گم ہوجاتا ہے اور غمی میں مایوسی کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔
  • میزانِ عدل: کفار کو مختلف پیرایوں میں سمجھانے کے ساتھ ساتھ تنبیہ بھی کی گئی ہے ۔  آیت 44 میں فرمایا گیا کہ قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے ، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا ۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے ۔ اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔
  • تذکرۂ ابراہیمؑ:             آیت 51 تا 71  ابراہیمؑ کا  ذکر چلتا ہے جس میں بتایا گیا کہ ابراہیمؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو بتوں کی پوجا کرتے دیکھا تو اس سے منع کیا اور بتایا کہ تمھارے ارباب یہ نہیں بلکہ تمھارا ربّ تو وہ ہے جس نے زمین و آسمان پیدا کیے۔   اور انھیں خبردار کردیا کہ تمھاری غیر موجودگی میں ضرور تمھارے بتوں کی خبر لوں گا۔  چنانچہ جس دن وہ لوگ کسی تہوار کے منانے میں شہر سے باہر نکلے ہوئے تھے تو ابراہیمء انکے عبادت خانہ میں جاگھسے اور بتوں کو مختلف سمتوں سے توڑ پھوڑ دیا اور کلہاڑا سب سے بڑے بت کے کاندھے پر رکھ کر وہا ں سے چلے گئے۔  جب یہ لوگ واپس آئے اور اپنے معبودوں کی یہ حالات دیکھی تو سمجھ گئےکہ ضرور ابراہیمؑ نے کی ہوگی۔
  • چنانچہ ابراہیمؑ کو پکڑ کر لایا گیا اور پوچھا گیا کہ تم نے یہ حرکت کی ہے تو اُنھوں نے جواب دیا کہ اِن کے سرادار نے یہ کام کیا ہے جس کے کاندھے پر کلہاڑی بھی ہے۔ یہ سن کر وہ سب شرمندہ تو ہوئے لیکن ہٹ دھرمی زندہ باد۔  بولے تو جانتا ہے یہ بول نہیں سکتے۔  اس پر ابراہیمؑ نے کہا کہ پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ تُف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو ۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے ‘‘۔ اللہ کے نبیؑ کی جانب سے بھرے دربار میں پیغامِ ربّانی پہنچانے اور اتمامِ حجت کی تکمیل ہوچکی تھی۔   جواباً باطل پرستوں نے وہی حربہ استعمال کیا جو ہمیشہ سے اہلِ حق کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔  انھوں نے  پھر ابراہیم ؑ کو سزا دینے کے لیے ایک بہت بڑا الاؤ روشن کیا گیا  اور  انہوں نے کہا ! جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خدائوں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔‘‘ اور انھیں جلانے کی غرض سے اس میں پھینک دیا گیا۔    آگ کو جلانے کی قوت دینے والا اللہ ہے لہٰذا اُس نے فوراً حکم دیا ’’ اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم ؑ پر۔
  • اب ابراہیمؑ نے اپنے گھر کو خیر باد کہا، بیوی سارہؑ اور اپنے بھتیجے لوطؑ کے ساتھ اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ عراق چھوڑا اور فلسطین کو اپنا مسکن بنا لیا۔
  • حضرت ابراہیمؑ نے حضرت لوطؑ کو شرق اردن کے علاقے میں روانہ کیا، جہاں لوطؑ ایک بد فطرت قوم کے درمیان فریضۂ دعوت ادا کرتے رہے۔ بدکاروں اس بستی پر اتمامِ حجت ہو گیا۔ اور اُس قوم کو اللہ نے عذاب سے دوچار کیا۔
  • آیت 76-77میں نوحؑ اور انکی قوم کا تذکرہ ہے جس نے طویل جدوجہد کے بعد بات مان کر نہیں دی اور آخر کار زبردست قسم کے طوفان نے سب کو غرق کردیا سوائے اُس زمینی مخلوق کے جو انکی کشتی میں سوار تھی۔
  • داؤد و سلیمان ؑ: آیت 78-82میں  داؤدؑ اور سلیمان ؑ کا تذکرہ ہے۔  جس میں اُس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ کسی کھیتی والے کی کھیتی کسی دوسرے فرد کی بکریاں رات کے وقت چر گئیں مقدمہ داؤد ؑ کے پاس آیا تو انھوں نے فیصلہ دیا کہ کھیتی کی مالیت کی مقدار  بکریاں کھیتی والے کو دے دی جائیں۔  اتفاقاً بکریاں اتنی ہی تھیں جتنی کھیتی کی مالیت۔
  • اس طرح بکریوں والا فردکنگال ہوجاتا۔ پاس ہی سلیمانؑ بیٹھے تھے انھوں نے فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا کہ بکریاں کھیتی والے کو بطورِ رہن دے دی جائیں جن سے  وہ دودھ اور اُون کی صورت فائدہ اُٹھائے اور بکریوں کا مالک اس کی کھیتی کی حفاظت کرے تاوقت یہ کہ کھیتی پھر اپنی پرانی حالت میں واپس آجائے۔  اس طرح دونوں میں سے کسی کا بھی نقصان نہ ہوگا۔  اسی کو رب نے فرمایا کہ  “اُس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان ؑ کو سمجھا دیا حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔
  • حضرت داؤد (علیہ السلام) آواز اس قدر سریلی اور خوشگوار تھی کہ جب آپ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرتے تو پہاڑوں میں گونج پیدا ہوتی اور یوں معلوم ہوتا کہ پہاڑ بھی آپ کے ساتھ ساتھ حمدوثنا کررہے ہیں۔ یہی حال پرندوں کا تھا جہاں آپ حمدوثنا کرتے وہاں پرندے اکٹھے ہوجاتے اور آپ کے ہمنواء بن جاتے تھے۔  اسی کو اللہ نے فرمایا! اور داؤد کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا کہ وہ ان کے ہمراہ تسبیح کیا کریں اور یہ تسخیر ہم ہی کرنے والے تھے۔
  • داؤدؑ کو اللہ نے زرّہ بنانے کی مہارت بھی عطا فرمائی تھی۔ انکا معجزہ تھا کہ ہاتھ میں لوہے کو پگھلادیتے تھے۔
  • آیت 81-82 میں اللہ تعالیٰ نے سلیمانؑ کے اُس معجزے کا ذکر کیا ہے جس کے تحت ہوا اُنکی تابع تھی۔ اُسے حکم دیتے اور آناً فاناً ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جایا کرتے تھے۔  اسی طرح جنات آپ کے تابع کردیے گئے تھے اور اُن سے سلیمانؑ کام لیا کرتے تھے۔
  • حضرت ایوب ؑ: آیت 83-84 میں حضرت ایوبؑ کا تذکرہ ملتا ہے۔   آپؑ، یوسفؑ اور شعیبؑ کے درمیانی دور میں عیسیؑ کی پیدائش سے تقریباً ۱۰۰۰سال قبل مبعوث کئے گئے۔ آپ نہایت صابر تھے۔ آپ کا ابتدائی زمانہ نہایت خوشحالی کا دور تھا۔ مال ، اولاد، بیویاں، جائیداد غرضیکہ سب کچھ وافر مقدار میں عطا ہوا تھا اور آپ کثرت اموال و اراضی میں مشہور تھے۔ اس دور میں آپ ہمیشہ اللہ کا شکر بجا لاتے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوسری طرح آزمانا چاہا اور آپ پر ابتلا کا دور جو آیا کہ ہر چیز ہاتھ سے نکل گئی۔ اور اپنا یہ حال تھا کہ کسی طویل بیماری میں مبتلا ہوگئے۔
  • ایسے بیمار پڑے کہ ایک بیوی کے سوا سب نے ساتھ چھوڑ دیا۔ بلکہ لوگوں نے اپنی بستی سے باہر نکال دیا۔ اس ابتلاء کے طویل دور میں آپ نے صبر استقامت کا ایسا بےمثال مظاہرہ کیا جو ضرب المثل بن چکا ہے۔ صحیح روایات کے مطابق آپ کے ابتلاء کا دور ١٢ سال ہے۔ پھر جب اللہ سے اپنی بیماری کے لئے دعا کی تو اس دعا میں شکایت نام کو نہیں تھی۔ کہا تو صرف اتنا کہا کہ پروردگار ! میں طویل مدت سے بیمار ہوں اور تو ارحم الراحمین ہے۔
  • دیگر انبیاءؑ کا ذکر:    آیت 85-91 تک دیگر انبیاءؑ کا ذکر ملتا ہے جن میں اسماعیلؑ، ادریسؑ، ذوالکفلؑ، یونسؑ، زکریاؑ، یحیٰؑ اور عیسیٰؑ شامل ہیں۔  یونسؑ کے ذکر میں بتایا گیا کہ کس طرح وہ مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تھے اور پھر انھیں اللہ نے اُس کے پیٹ ہی میں دُعا سکھائی تھی جسے آیتِ کریمہ کہا جاتا ہے۔  آپؑ نے یہ دعا مانگی تو مچھلی نے ربّ کے حکم سے ساحل سمندر پر اُگل دیا۔
  • نبی کریم ﷺ: آخری رکوع میں قیامت کا تذکرہ اور نبیؐ کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا کہ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ
  • سورۃ الحج: سورۃ الحج ایک مکی و مدنی مشترکہ سورۃ ہے کیونکہ اس کا پہلا  حصہ مکہ کے آخری دور میں جبکہ دوسرا حصہ مدنی دور میں نازل ہوا۔   یہ بھی ممکن ہے کہ پوری سورۃ ہجرت کے بعد ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو۔
  • قیامت کی کیفیت: سورۃ کی ابتداء بنی نوع انسان کو مخاطب کرکے ربّ کے غضب اور قیامت کی ہولناکی سے ڈرایا گیا ہے۔  پھر قیامت کی مختصر سی تصویر کشی کی گئی ہے کہ اس میں دودھ پلانے والی ماں اپنے بچہ کو بدحواسی میں دودھ پلانا بھول جائے گی، اور خوف کا یہ عالم ہوگا کہ مارے خوف کے حاملہ خواتین کا حمل گر جائے گا اور لوگ مدھوش ہوجائیں گے جبکہ وہ نشہ کیے ہوئے نہ ہونگے۔
  • لیث بعد الموت: آیت 5 تا 7  میں زندگی بعد الموت  کے لیے  انسان کی تخلیق کے مراتب  اور زمین کی پیداوار کو بطورِ دلیل پیش کیا گیا ہے۔ آدم کے پتلے کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے بنایا۔ جب اس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی تو وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ پھر آگے توالد و تناسل سے آدم کی اولاد پھیلی۔ نطفہ  بنا اور اس نطفہ کے ایک قطرہ کے ہزاروں جاندار جرثوموں میں کوئی ایک آدھ جرثومہ عورت کے خلیۂ بیضہ سے ملااور انسان کی تخلیق کا عمل شروع ہوا۔
  • پھر رحم مادر کے اندھیروں میں نطفہ کے بعد جما ہوا خون، پھر  جما ہوا خون سےگوشت کے لوتھڑے میں تبدیل ہوا۔  پھر اس گوشت کے لوتھڑے میں آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ سب اعضاء کے نقوش بنے،  پھر اسی لوتھڑے میں ہڈیاں اور عضلات بنے  تاآنکہ مقررہ وقت کے بعد انسان کا بچہ پیدا ہوجاتا ہے۔  پھر وہ رب پروش کے عمل سے گزارتا ہوا جوانی عطا کرتا ہے، اور پھر بڑھاپے کی اس نہج پر پہنچادیتا ہے کہ وہ دوسروں کا مجبور ہوجاتا ہے، چل نہیں سکتا، کھا نہیں سکتا، یاد نہیں رکھ سکتا اور زمین پر بوجھ بن جاتا ہے۔ پھر وقت مقررہ پر کبھی بچپن میں، کبھی جوانی میں اور کبھی بڑھاپے میں موت کے ذریعے اس زندگی کو ختم کردیتا ہے۔
  • اسی طرح سوکھی پڑی زمین پر پانی برستا ہے اور یکایک اس پر سبزہ اُگنا شروع ہوجاتا ہے جو غذا اور لباس میں کام آتا ہے۔
  • مُراد یہ کہ جب وہ ربّ پہلی بار تخلیق کی قدرت پر قادر ہےتو دوبارہ کیونکہ اُٹھانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ لہٰذا قیامت حق ہے اور آکر رہے گی اور بنی نوع انسان کا دوبارہ اُٹھایا جانا بھی حق ہے۔  اُس دن ذرہ ذرہ کا حساب لیا جائے گا۔
  • اک سجدہ جو تجھے گِراں گزرتا ہے: آیت 18 میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے وہ سب جو آسمانوں  اور زمین میں  ہیں، سورج ، چاند اور تارے ۔  پہاڑ ،  درخت اور جانور،  بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ؟ (مُراد منافق ہوسکتے ہیں)  اللہ کے آگے سربسجود ہیں ۔  یہ آیت سجدہ ہے۔
  • شعائر اللہ و مناسک حج: آیت نمبر 29 تا 37 تک خانہ کعبہ، شعائر اللہ، مناسکِ حج اور قربانی کا تذکرہ ملتا ہے۔
  • جہاد فی سبیل اللہ کی اجازت: آیت 39 میں اُن مظلومین کو جن کے خلاف ظلم کا بازار گرم تھا ، پہلی بار لڑنے کی اجازت دی جارہی ہے جبکہ بعد میں سورۃ بقرہ آیت 190-191میں لڑنے کا باقاعدہ حکم جاری کردیا گیا ۔
  • اللہ کے خالص بندے اور اقتدار: آیت 41 میں بتایا گیا کہ اللہ کے دین سے مخلص بندوں کو جب زمین میں اقتدار ملے تو وہ اس پر نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے،  نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکنے والے ہونگے۔
  • نبیؐ کو تسلّی: آیت 45-43 میں نبیؐ کو تسلی دی گئی کہ  صرف آپکو ہی مشرکین نہیں جھٹلارہے،  بلکہ آپؐ سے پہلے قومِ نوحؑ، عاد، ثمود، ابراہیمؑ، لوطؑ ،  اہلِ مدین اور بنی اسرائیل  بھی اپنے انبیاء کو جھٹلاکر عذاب کی زد میں آچکے ہیں۔
  • مہاجرین کا اجر: آیت 58 میں مہاجرین کی ستائش کی گئی ہے اور ان سے اچھے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔  اس مقام پر مہاجرین کا ذکر اور پھر ان سے بہتر اجر کا ہجرتِ حبشہ کرنے والوں  اور کچھ مسلمان مدینہ منورہ بھی جاچکے تھے کی ستائش کی جارہی ہے اور مکہ میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں کو ہجرتِ مدینہ کی ترغیب دی جارہی ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ نے کچھ دن بعد خود ہجرت کرجانا تھا۔
  • ضَعُفَ الطاَّلبُ والمطلوب: آیت 73 میں بہت خوبصورت مثال کے ذریعے پرودگار نے شرک کا بطلان کرتے ہوئے فرمایاہے کہ اللہ کو چھوڑ کر جن جن لوگوں کو تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے اُن کی مثال ایسے ہے کہ وہ سارے مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اور پیدا کرنا تو دور کی بات ہے، اگر مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اُسے واپس بھی نہیں لے سکتے۔   مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔
  • وَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ ۭ:   سورۃ کی آخری آیت میں کہا گیا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرو اللہ کی راہ میں جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔  کیونکہ ربّ نے اُمتِ مسلمہ کو اپنے کام کے لیے چن لیا ہے۔  یہ انتہائی جامع آیت ہے۔  اس آیت میں ملتِ ابراہیمی کا تصور بھی دیا گیا ہے، جو جہاد کے حوالے سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ دُنیا کے کسی خطے میں بھی اگر ملتِ اسلامیہ پر ظلم ڈھایا جائےتو پوری اُمت کو اس ظلم کے ازالے کے لیے اُٹھ کھڑے ہونا چاہے۔  قومیتوں کے بُت پاش پاش کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ نے تمھارا نام تو مسلم رکھا ہے  دنیا اور آخرت میں تمھاری اصل پہچان تو یہ ہے۔ پس نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو ، اور اللہ سے وابستہ ہو جائو۔ وہ ہے تمہارا مولیٰ ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار ہے۔
  • الحمد للہ آج چودھویں تراویح کا خلاصہ مکمل ہو۔ پندرھویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔ تب تک کے لیے اجازت ۔  اللہ حافظ