خلاصہ تراویح 16 رمضان

سولھویں تراویح

آج کی تراویح میں اُنیس وان سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ الفرقان کی باقی ماندہ آیات، سورۃ الشعراء مکمل اور سورۃ النمل کی ۵۹ آیات کی تلاوت کی جائے گی۔

آیت ۲۱۔۲۳:          کفار  نبی کریمﷺ سے مطالبہ کررہے تھے کہ آپ بھی انسان اور ہم بھی انسان لیکن ہم پر فرشتےکیوں نہیں اُترتے؟  یا اللہ تعالیٰ خود آکر ہمیں حکم دے دے۔  جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے کہ یہ خود تو مجرم لوگ ہیں اور جس روز فرشتے سامنے لائے جائیں گے (مُراد قیامت) وہ دن ان کےلیے اچھا نہیں ہوگا اور انکی چیخیں نکل رہی ہونگی۔

آیت ۲۵۔۲۹:          دنیا میں بُری صحبت انسان کو تباہ کردیتی ہے لیکن بہت کم لوگوں کی آنکھیں کھلتی ہیں۔  قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھ چبائے گا اور چیخے گا پکارے گا کہ کاش دنیا میں میں اللہ کے رسول کی بات مان لیتا اور فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا اور فلاں کو نہ بنایا ہوتا۔  اور اللہ کے نبیؐ گواہی دیں گے کہ “اے میرے ربّ! چمیری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا تھا”

آیت ۳۵۔۴۴:       آیت ۳۵ سے گزرے ہوئے انبیاء  اور گزری ہوئی قوموں کا عبرت کے لیے تذکرہ ملتا ہے۔  جن میں موسیٰؑ، ہارون ؑ، نوح ؑ،  قومِ عاد، ثمود اور قومِ الرس  اور بہت سی قومیں جو ان کے درمیان آئیں اور اللہ کی نافرمانیاں کیں تو اللہ نے انھیں سب کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔  اور جیسے آج ان مشرکینِ مکہ کو اللہ اُن اقوام کا حوالہ دے رہا ہے، اُن اقوام کو بھی پچھلیوں کا احوال بتاتا رہا ہے۔  پھر قومِ لوطؑ کا ذکر کیا جسے پلٹ دیا گیا تھا  اور پتھروں کی بارش برسائی گئی تھی۔    قریش اکثر کاروباری سفر کےلیے وہاں سے گزرا کرتے تھے جہاں یہ بستی ہوا کرتی تھی۔  پھر ایسے لوگوں کو جو سب حقائق سامنے آجانے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے انھیں جانوروں سے بھی  بدتر قرار دیا گیا۔

اللہ کی نشانیاں (۴۵۔۵۳):       آیت ۴۵ سے ۵۳ تک اللہ نے اپنی کچھ  نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے جیسے سائے کا پھیلنا اور سمٹنا،  رات آرام کےلیے اور دن کو روشن بنانا،  بارش کا برسانا اور زمین سے انسانوں اور جانورں کی خوراک کا بندوبست کرنا،  دو سمندروں کو ایک ساتھ چلانا جبکہ ان میں ایک کا پانی میٹھا اور دوسرے کا سخت کھارا جیسے کڑوا ہے۔  لیکن دونوں کے ذائقے ایک دوسرے کو تبدیل نہیں کرپاتے۔  انسان کی تخلیق اور اُس کے نسب و سسرال کے رشتہ داریاں، یہ سب اللہ رب العالمین کی قدرت کاملہ کے مظاہر ہے۔

جہادِ کبیر (۵۲):         اس آیت میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ “پس اے نبی ﷺ ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو” ۔  یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی تھی جبکہ جہاد کا حکم نہیں آیا تھا۔  لہٰذا قرآن کو لے کر زبردست جہاد کرنے مراد علمائے کرام “زبان و قلم، مال و  وسائل کا جہاد” لیتے ہیں۔  یعنی ایک بگڑے ہوئے معاشرے میں اسلحہ کے بجائے دعوت و تبلیغ سے جہاد کیاجائے گا۔

عباد الرحمن کی صفات (۶۳۔۷۷):           اللہ کے بندوں کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ یہ

  1. زمین پر نرم چال چلتے ہیں یعنی ان میں انکساری ہوتی ہے۔
  2. جاہلوں سے بحث و مباحثہ میں نہیں پڑتے بلکہ ایسے موقع پر سلام کر کے گزرجاتے ہیں۔
  3. اپنی راتیں ربّ کے حضور قیام و سجود میں گزارتے ہیں۔
  4. جہنم کے عذاب سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں۔
  5. مال کے خرچ میں اعتدال برتتے ہیں۔ نہ فضول خرچ ہوتے ہیں اور نہ بخیل۔
  6. شرک نہیں کرتے۔
  7. ناحق قتل و غارت گری سے اجتناب کرتے ہیں۔
  8. زنا کا ارتکاب نہیں کرتے۔
  9. جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔
  10. لغویات میں نہیں پڑتے
  • اللہ کی آیات پر غور و فکر کرتے ہیں۔
  • اپنے اہلِ خانہ کو بھی متقی بنانا چاہتے ہیں۔

سورۃ  الشعراء:

یہ سورۃ مکی ہے اور مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہے۔  

کفار نبی ؐکی مخالفت کررہے تھے اور طرح طرح کے بہانے بنارہے تھے جیسے۔ کبھی کہتے کہ تم نے ہمیں کوئی نشانی تو دکھائی ہی نہیں، پھر ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم نبی ہو۔ کبھی آپ کو شاعر اور کاہن قرار دے کر آپ کی تعلیم و تلقین کو باتوں میں اڑا دینے کی کوشش کرتے۔ اور کبھی کہتے کہ آپ کے  پیروکار یا تو چند نادان نوجوان ہیں، یا پھر ہمارے معاشرے کے ادنی طبقات کے لوگ، حالانکہ اگر اس تعلیم میں کوئی جان ہوتی تو اشراف قوم اور شیوخ اس کو قبول کرتے۔  نبیؐ ہر ممکن دلائل سے بات سمجھانے کی کوشش کرتے لیکن بے سود جس سے  آنحضورؐ غم میں اپنی جان گھلا رہے تھے۔

رحمت اللعالمینﷺ:              سورۃ کے آغاز میں نبیؐ کے اُن جذبات کا تذکرہ  کیا گیا ہے، جو انتہائے رحم اور انسانیت کی غمخواری و ہمدردی کی وجہ سے کود کوگھلائے چلے جارہے تھے۔ رب نے بہت پیار بھرے انداز میں فرمایا کہ “اے نبیﷺ شاید تم اس میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے”  پھر فرمایا کہ اگر ہم زبردستی انھیں مسلمان کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں لیکن انسان کو ہم نے اختیار کی آزادی دی ہے۔ فیصلہ وہ خود کرے تاکہ جزاء و سزا کے قانون کا اطلاق ہوسکے۔

تذاکرِ انبیاءؑ:             آیت 10 سے 189 مختلف انبیاء کی امتوں کے قصے بطور، مثال نبی کریم ؐ کے سامنے رکھے گئے جن میں موسیٰ ، ابراہیم، لوط، شعیبؑ، اصحاب الایکہ وغیرہ شامل ہیں۔   ان اقوام کے قصوں کی تفصیلات سورۃ البقرہ، الاعراف، ھود اور طٰہٰ میں آچکی ہیں۔

شیطان کن پر اُترتا ہے:              آیت 221 سے 223 میں اُن لوگوں کے بارے میں بتایا گیا کہ جن لوگوں پر  شیطان کا وار آسانی سے ہوتا ہے۔   ہ اوّل تو یہ لوگ جعل ساز اور بدکردار ہوتے ہیں اور دوسرے سنی سنائی باتیں آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں۔

شاعروں کے پیچھے چلنے والے لوگ:            چونکہ کفار نبیؐ کو شاعر یا انکی باتیں بیان کرنے والا کہا کرتے تھے تو آیت ۲۲۴ میں بتایا گیا کہ شعراء کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں۔   یعنی رسول اللہ ﷺ تو ایک طرف انتہائی سنجیدہ، مہذب، شرافت کا پیکر، راستباز اور خدا ترس ہیں۔ جنکی بات بات میں ذمہ داری کا احساس ہے۔ برتاؤ میں لوگوں کے حقوق کا پاس ولحاظ ہے۔ معاملات میں کمال درجہ کی دیانت و امانت ہے اور زبان جب کھلتی ہے خیر ہی کے لیے کھلتی ہے، شر کا کلمہ کبھی اس سے ادا نہیں ہوتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ ان لوگوں کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے، ایک بلند اور پاکیزہ نصب العین ہے۔  جبکہ

 شاعروں کے پیچھے چلنے والے لوگوں کی ایک متعین راہ نہیں ہوتی   بلکہ ان کا تو سَنِ فکر ایک بےلگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے اور جذبات یا خواہشات و اغراض کی ہر نئی رَو   اِن کی زبان سے ایک نیا مضمون ادا کراتی ہے جسے سوچنے اور بیان کرنے میں اس بات کا کوئی لحاظ سرے سے ہوتا ہی نہیں کہ یہ بات حق اور صدق بھی ہے۔ کبھی ایک لہر اٹھی تو حکمت و موعظت کی باتیں ہونے لگیں اور کبھی دوسری لہر آئی تو اسی زبان سے انتہائی گندے سفلی جذبات کا ترشح شروع ہوگیا۔ کبھی کسی سے خوش ہوئے تو اسے آسمان پر چڑھا دیا اور کبھی بگڑ بیٹھے تو اسی کو تحت الثریٰ میں جا گرایا۔ ایک بخیل کو حاتم اور ایک بزدل کو رستم و اسفندیار پر فضیلت دینے میں انہیں ذرا تامل نہیں ہوتا اگر اس سے کوئی غرض وابستہ ہو۔

آخری آیت میں ایسے شعراء کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جن کے اشعار ایمان کی روشنی سے منور اور اعمالِ صالحہ کی زینت سے مزین ہوتے ہیں۔  وہ ظالموں کے مقابلے پر اپنی زبان و قلم استعمال کرتے ہیں۔

سورۃ النمل:

سورۃ النمل بھی اپنے مضمون کے اعتبار سے ایک مکی سورۃ ہے جو وسطی دور میں نازل ہوئی۔  آج کی تراویح میں اسکی ۵۹ آیات پڑھی جائیں گی۔

سورۃ کی ابتدائی آیات میں بتایا گیا کہ قرآن ایک کتاب مبین اور رشد و ہدایت کا ذریعہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔  اور جو آخرت کو نہیں مانتے وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔  آیت نمبر ۷ سے ۱۴ تک موسیٰ ؑ سے متعلق واقعات  کا ذکر ہے، جب انکو نبوت عطا کی گئی اور معجزے دیے گئے۔ پھر وہ فرعون کے دربار میں پہنچے اور اسکو دعوت حق پیش کی۔ فرعون نے انکار کیا اور اپنی قوم کے ساتھ تباہی کے گھاٹ اُتر گیا۔

 حضرت سلیمان ؑ:       آیت ۱۵ سے ۴۴ تک حضرت سلیمان ؑ سے متعلق واقعات ملتے ہیں۔  حضرت سلیمان ؑحضرت داؤدؑ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے، ان کا اصل عبرانی نام سولومون تھا جو سلیم کا ہم معنی ہے965 قبل مسیح میں حضرت داؤد کے جانشین ہوئے اورتقریبا چالیس سال فرمانروا رہے۔   پرندوں اور حشرات الارض کی بولیوں کا علم، ہوا اور جنات پر کنٹرول انکے معروف معجزات تھے۔

چیونٹیوں کی وادی:     آیت  ۱۸ اور ۱۹  میں آتا ہے کہ سلیمان ؑ پرندوں اور لشکر کے ساتھ کہیں سفر پر تھے تو ان کا گزر وادیٔ نمل پر سے ہوا۔  لشکر کو آتا دیکھ کر ایک چیونٹی (غالباً انکی سردار ہوگی) نے کہا کہ سب فوراً اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ورنہ سلیمان کا لشکر تمھیں کچل دے گا جس کا انھیں علم بھی نہیں ہوگا۔  یہ سن کر سلیمان ؑ ہنس دیے اور اللہ سے دُعا کی کہ” اے میرے ربّ مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کرتا ہوں”

علمائے حیوانات کی جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جس طرح انسان اپنے اجتماعی اور سیاسی نظام کے لئے چند مخصوص ضوابط کی پابندی کرتا ہے۔ چیونٹی جیسے حقیر ترین جانور کی بستیوں میں بھی اسی سے ملتا جلتا نظام پایا جاتا ہے۔ آدمیوں کی طرح چیونٹیوں کے بھی خاندان اور قبائل ہوتے ہیں ان میں باہمی تعاون اور تقسیم کار کا اصول اور نظام حکومت کے ادارے پائے جاتے ہیں ان کی بھی زبان ہے جس کو سب چیونٹیاں سمجھتی ہیں۔

ہُد ہُد کہاں ہے؟ (۲۰۔۲۷):       حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو کسی موقع پر ہدہد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہدہد کی متعلق مشہور ہے کہ جس مقام پر پانی سطح زمین سے نزدیک تر ہو اسے معلوم ہوجاتا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ انھیں یہی ضرورت تھی یا کچھ اور تھی، انہوں نے پرندوں کے لشکر میں ہدہد کو تلاش کیا لیکن وہ وہاں نہ ملا۔ آپ کو اس بات کا سخت رنج ہوا اور فرمایا کہ یا تو وہ اپنی غیر حاضری کا کوئی معقول وجہ پیش کرے۔ ورنہ میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح ہی کر ڈالوں گا۔  

  ہدہد حضرت سلیمان کے لشکر سے غائب ہو کر یمن کے علاقہ سبا میں پہنچا تھا۔ یہاں کے لوگ تجارت پیشہ اور آسودہ حال تھے۔ کچھ دیر بعد ہدہد حضرت سلیمان کے پاس حاضر ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں اہل سبا کے کچھ ایسے یقینی حالات معلوم کرکے آرہا ہوں جن کی تاحال آپ کو کچھ خبر نہیں ہے۔ اور وہ یقینی خبر یہ کہ سبا کا ملک ایک زرخیز و شاداب علاقہ ہے ان لوگوں کو وہاں سب ضروریات زندگی وافر مقدار میں میسر ہیں۔ ان لوگوں پر حکمران ایک عورت ہے۔ (ملکہ بلقیس ) جو بڑے عالی شان تخت پر بیٹھ کر حکمرانی کر رہی ہے۔ اس کا تخت سونے کا ہے۔ جس میں ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے ہیں اور اس وقت ایسا تخت کسی بادشاہ کے پاس نہیں ہے۔ مذہبی لحاظ سے یہ لوگ مشرک اور آفتاب پرست ہیں۔ اور اپنے اس مذہب پر خوش اور نازاں ہیں۔ سورج پرستی کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔

ملکۂ سبا اور کابینہ کا اجلاس (۲۹۔۳۷):        سلیمانؑ نے اسی وقت ہدہد کے ہاتھ ایک خط ملکہ سبا کو بھیجا جس میں اپنا تعارف کرایا تھا اور اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔  ملکہ نے خط پڑھ کر اپنی کابینہ کا اجلاس طلب کیا۔  اُس کے وزرا اور فوجی افسران طاقت کے گھمنڈ میں تھے۔  انھوں نے کہا ہم بہت طاقتور ہیں آپ جو کہیں گی ہم حکم مانیں گے۔  چنانچہ اُس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ جب کسی علاقے میں داخل ہوجاتے ہیں تو بڑی خون ریزی اور فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے۔  بستیاں اُجڑ جاتی ہیں اور عزت والے رُسوا و ذلیل ہوجاتے ہیں۔  میں نے فیصلہ کیا ہے بادشاہ کی خدمت میں تحفے تحائف بھیج دوں تاکہ وہ حملہ نہ کرے۔  جب سلیمانؑ کے پاس ملکہ سبا کا وفد تحفے تحائف لے کر پہنچا تو انھوں نے کہا مجھے ان تحفے تحائف کی ضرورت نہیں، اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔  جاؤ یہ تحفے لے جاؤ  اور کہہ دو اپنی ملکہ سے کہ اگر میری دعوت قبول نہیں تو مقابلے کے لیے تیار ہوجاؤ۔

ملکہ سبا کا تخت سلیمانؑ کے دربار میں (۳۸۔۴۰):         سلیمان ؑ نے درباریوں سے پوچھا کون ملکہ کا تخت یہاں لے کر آئے گا۔   وہاں موجود ایک طاقتور جن نے کہا کہ آپؑ کا دربار ختم ہونے سے پہلے  میں وہ تخت یہاں لاسکتا ہوں۔  وہاں موجود ایک شخص نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا نے کہا کہ میں پلک جھپکنے سے پہلے ہی وہ تخت پیش کرسکتا ہوں۔  چنانچہ ایسا ہی ہوا۔  یہ شخص کون تھا کوئی نہیں جانتا۔

ملکہ سلیمانؑ کے دربار میں (۴۱۔۴۴):       ادھر سلیمانؑ کا خط پا کر ملکہ اپنے منتخب درباریوں کے ساتھ حضرت سلیمان ؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کےلیے چل پڑی تھی۔  اُن کا محل اتنا شاندار تھا کہ اُ س میں شیشے کا چمکتا ہوا فرش تھا جس پر پانی کے حوض کا گمان ہوتا تھا۔  ملکہ آئی تواس نے اپنے پائنچے سمیٹے کہ پانی میں نہ ہوجائیں۔  مگر اسے بتایا گیا کہ یہ شیشے کا شفاف فرش ہے۔  اس موقع پر ملکہ نے شرک سے برأت کا اعلان کردیا اور مسلمان ہوگئی۔

حضرت صالح   ؑ و لوطؑ (۴۵۔۵۹):                آیت ۴۵ سے ۵۹ تک حضرت صالح و لوط ؑ کا تذکرہ ملتا ہے۔  جیسا کہ گزشتہ دروس میں ذکر کرچکے ہیں کہ صالح اور لوطؑ کو انکی قوموں نے جھٹلایا۔  حضرت صالحؑ کو قتل کرنےکی سازش بھی کی گئی اور ہر قبیلے کے سردار کو قتل کرنے والی ٹیم میں شامل کیا گیا۔  ۹ افراد اس کے لیے تیار ہوئے اور قسمیں کھائیں۔  ادھر رسولِ اکرمﷺ کے دشمن بھی یہی سازشیں کررہے تھے اور دوسری طرف اللہ اپنی چال چل رہا تھا۔     لوطؑ کاپورا واقعہ گزشتہ دروس میں تفصیل سے آچکا ہے۔

الحمد للہ آج کی تراویح کا خلاصہ مکمل ہوا۔  ان شاء اللہ سترھویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  اللہ حافظ