خلاصہ تراویح 24 رمضان

چوبیسویں   تراویح

آج کی تراویح میں 6 سورتوں کی تلاوت کی جائے گی جن میں سورۃ  قٓ،   سورۃ الذاریات،   سورۃ الطّور،  سورۃ  النجم ، سورۃ القمر اور سورۃ الرحمن شامل ہیں۔

سورۃ قٓ:

  • مضامین پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکہ معظمہ کا دوسرا دور ہے جو نبوت کے تیسرے سے پانچویں سال تک رہا۔
  • نبی کریمؐ اکثر عیدین کی نمازوں میں اس سورۃ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ اسکے علاوہ فجر اور جمعہ کی نماز میں بھی اکثر تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
  • دیگر مکی سورتوں کی طرح اس سورۃ میں بھی بنیادی عقائد، انسانی اعمال اور ان کے نتائج، جنت و دوزخ ، انعام و عذاب کا احاطہ کیا گیا ہے۔
  • پہلی آیت میں قرآن کی قسم کھا کر بتایا گیا کہ یہ کتاب عظمت و بزرگی والی ہے۔ اسکے بعد مشرکین کے اس تعجب کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس میں وہ کہا کرتے تھے کہ کیسے اللہ کا رسولؐ ہم جیسے انسانوں ہی میں سے ہوسکتاہے؟

مرنے کے بعد دوبارہ کیسے اُٹھائے جائیں گے؟  (۲۔۱۱):

  • رسولؐ اللہ نے جب مکہ معظمہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا تو لوگوں کو سب سے زیادہ اچنبھا آپ کی جس بات پر ہوا وہ یہ تھی کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ لوگ کہتے تھے یہ تو بالکل انہونی بات ہے۔ عقل باور نہیں کرتی کہ ایسا ہوسکتا ہے، آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہمارا ذرہ ذرہ زمین میں منتشر ہوچکا ہو تو ان پراگندہ اجزاء کو ہزارہا برس گزرنے کے بعد پھر اکٹھا کر کے ہمارا یہی جسم از سر نو بنادیا جائے اور ہم زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تقریر نازل ہوئی۔ اس میں بڑے مختصر طریقے سے چھوٹے چھوٹے فقروں میں ایک طرف آخرت کے امکان اور اس کے وقوع پر دلائل دیے گئے ہیں، اور دوسری طرف لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ تم خواہ تعجب کرو، یا بعید از عقل سمجھو، یا جھٹلاؤ، بہرحال اس سے حقیقت نہیں بدل سکتی حقیقت اور قطعی اٹل حقیقت یہ ہے کہ تمہارے جسم کا ایک ایک ذرہ جو زمین میں منتشر ہوتا ہے، اس کے متعلق اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں گیا ہے اور کس حال میں کس جگہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ اس کے لیے کافی ہے کہ یہ تمام منتشر ذرات پھر جمع ہوجائیں اور تم کو اسی طرح دوبارہ بنا کھڑا کیا جائے جیسے پہلے بنایا گیا تھا۔

دیگر اقوام اور انکا انجام  (۱۲۔۱۴):

  • ان آیات میں گزرے ہوئے انبیاء اور انکی اقوام کا ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے  ہر قوم نےآخرت کا وہ عقیدہ جو تمام انبیاء (علیہم السلام) پیش کرتے رہے ہیں کو جھٹلایا۔  حالانکہ وہی حقیقت کے عین مطابق ہے، اس کا انکار جس قوم نے بھی کیا وہ شدید اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہو کر رہی اور آخر کار اللہ کے عذاب نے آ کر اس کے وجود سے دنیا کو پاک کیا۔

اللہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے  (۱۶۔۱۸):

  • آیت نمبر ۱۶ میں فرمایا گیا کہ “ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اُس کے دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو ، ہم جانتے ہیں۔ہم اُس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔(۱۶) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔ (۱۷)

مجرمین  اور متقین کا انجام  (۱۹۔۳۵):

  • آیت نمبر ۱۹ میں قیامت کے سب سے پہلے مرحلہ کا آغاز ہوتا ہے۔ فرمایا جاتا ہے کہ انسان موت سے بھاگا پھرتاہے  اور سمجھتا ہے کہ وہ کبھی نہیں مرے گا  اور آخر کار وہ دن بھی اچانک آن پہنچتا ہے جب اسکی جان کُنی کا وقت آن پہنچتا ہے۔  پھر اسی طرح ایک دن  اچانک قیامت آجائے گی اور پھر سب کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا جس کے بارے میں بار بار بتایا جاتا رہا۔    پھر ایک مجرم کی طرح اُسے ایک فرشتہ ہانک کر اللہ کے دربار میں پیش کرنے لے کر جائے گا جبکہ دوسرا  وہاں پہنچ کر اس کی کارگزاری بطور گواہ پیش کرے گا۔    کافر کے خلاف فیصلہ ہونے کی صورت میں انہی فرشتوں کو حکم ملے گا کہ لے جاؤ اور جہنم میں پھینک دو۔  ایسے میں شیطان اور اسکی تکرار ہوگی اور مجرم شیطان کو دوش دے گا جس پر شیطان کہے گا میں نے زبردستی اس کو سرکش نہیں بنایا تھا۔ یہ کم بخت تو خود نیکی سے بھاگتا تھا  اور بدی پر فریفتہ تھا۔ اسی لیے سمجھانے والوں کی کوئی بات اسے پسند نہ آئی اور میری ترغیبات پر پھسلتا چلا گیا۔  پھر دونوں کو اللہ سےجھاڑ لگے گی اور کہا جائے گا کہ میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
  • سب مجرمین کے فیصلے ہوجانے کے بعد جہنم سے پوچھا جائے گا کہ کیا تو بھر گئی؟ یہ وہ بھوکوں کی طرح چنگھاڑے گی کہ کچھ ہے تو لاؤ۔   دوسری طرف اللہ سے ڈرنے کے قریب جنت کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا یہ وہ چیز ہے جس  کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا تھا۔  جاؤ عیش کرو اس میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔  جو بھی انکی خواہش ہوگی آن کی آن میں پوری کردی جائے گی یہاں تک کہ اُنکی کوئی حسرت باقی نہیں رہے گی۔

جنت و دوزخ  (۳۰۔۳۵):

  • آخر میں بتایا گیا کہ یہ ایمان افروز باتیں دنیا والوں کے سامنے پیش کی جاتی ہیں مگر ان کی اکثریت قبول نہیں کرتی۔ جبکہ تم سے پہلے بڑی بری طاقتور قومیں گزر چکی ہیں لیکن جب ہم نے انھیں پکڑا تو انھیں کوئی جائے پناہ نہ مل سکی۔    رسول اللہ ﷺ کے توسط سے اہلِ ایمان کو تلقین کی گئی کہ دین کی راہ میں حائل مخالفتوں کے مقابلے میں صبر کریں، صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک مخصوص اوقات میں اللہ کی تسبیح کرتے رہیں، اسکے سامنے سجدہ ریز ہوں۔  پھر نبی ؐ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا کہ ا ے نبیؐ بس تم اس قرآن کے ذریعے ہر اس شخص کو خبردار کردو جو میری تنبیہ سے ڈرے۔ جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا وہ ضرور نصیحت پالے گا۔

سورۃ  الذاریات:

  • اس کے مضامین یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اسلام کے اوائل میں نازل ہونے والی صورت ہے جب دعوت کا آغاز ہوچکا تھا لیکن ظلم و تشدد کی چکی ابھی چلنی شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس کا بڑا حصہ آخرت سے متعلق ہے اور آخر میں توحید کی بات کی گئی ہے۔

آخرت کے دلائل (پہلا رکوع):

  • ہواؤں کی قسم کھا کر بات کو شروع کیا گیا کہ قسم اُن ہواؤں کی جو گر دو غبار اُڑانے والی ہیں، اور کروڑوں گیلن پانی اُٹھا نے والے بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیے پھرتی ہیں اور جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے اُسے برسا کر پھر سُبک رفتاری سے چلتی رہتی ہیں۔  ان میں اللہ کی قدرت کی ایک بڑی نشانی ہے ۔     جس طرح یہ انسان کے مشاہدے میں آتی رہتی ہیں اور سچ ہے بالکل اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ ایک دن سب کا حساب کتاب ہوگا، اچھے اور برے عمل کے بارے میں باز پرس ہوگی اور اچھے اعمال کا اچھا اجر ملے گا جبکہ برے اعمال کی درد ناک سزا دی جائے گی۔
  • پھر مختلف شکلوں کے آسمان ک قسم کھائی گئی۔ جس سے مراد فضا میں بکھرے ہوئے بادل ہیں جو مختلف شکلوں کے ہوتے ہیں۔  جس طرح بادل مختلف شکلوں کے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح آخرت کے بارے میں مختلف انسانوں کے تصورات مختلف ہیں کوئی اسے مانتا ہے اور کوئی اس کا مذاق اُڑاتا ہے۔  لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے ایک دن برپا ہونا ہے اور جو دانشور اپنے اٹکل پچو مارتے ہیں وہ دنیا کی حد تک درست یا غلط ہوسکتے ہیں لیکن آخرت کے لیے حق وہی ہے جو اللہ نے بتادیا ہے۔ آخرت برپا ہونے  پر  انکی سب قیاس آرائیاں غلط ثابت ہونگی جب اِن جھٹلانے والوں کو آگ پر تپایا جائے گا اور نیکو کاروں کو جنتوں میں داخل کیا جائے گا جہاں ہر قسم کی نعمتیں اُن کو فراہم کی جائیں گی۔
  • دنیا میں ان نیکو کاروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ راتوں کو اپنے پرودگار کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں، راتوں کے پچھلے پہر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اپنا مال ضرورت مندوں پر خرچ کرتے ہیں۔

سرکش قومیں (دوسرا رکوع):

  • دوسرے رکوع میں حضرت ابراہیم ؑ کے پاس فرشتوں کی آمد کا تذکرہ ہے۔ جنھوں نے انھیں ایک بیٹے کی خوشخبری سنائی اور پھر قومِ لوطؑ کی طرف عذاب کےلیے روانہ ہوئے۔  اس مجرم قوم کی نشان زدہ پتھروں سے بارش کی گئی تھی۔  اسکے بعد موسیؑ اور انکے مخالف فرعون کا تذکرہ ملتا ہے کہ کس طرح اس نے سرکشی کی اور بالآخر اپنے حواریوں کے ساتھ سمندر میں غرق کردیا گیا،  قومِ عاد، قومِ ثمود اور قومِ کی تباہی کی  مختصر تذکیر بھی کرائی گئی ہے۔  تفصیل ہم گزشتہ خلاصوں میں بیان کرچکے ہیں۔

توحید کے دلائل (تیسرا رکوع):

  • تیسرے رکوع میں توحید سے متعلق کچھ دلائل جیسے آسمان  اور زمین کی تخلیق،  تمام مخلوقات کے جوڑے  بیان کرکے،  حضرت ِانسان کو کہا گیا کہ “فَفِرُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ دوڑو اللہ کی طرف”۔   اور بتایا گیا کہ میں نے کسی انسان کو اللہ نے اس کے سوا پیدا نہیں کیا وہ  اسکی بندگی کرے، جس کے بدلے وہ کوئی مفاد نہین چاہتا۔  لیکن جو ایسا نہیں کریں گے تو اپنی جانوں پر ظلم کریں گے اور اس کا بھیانک بدلہ لینے کے لیے تیار رہیں۔

سورۃ  الطّور:

مضامین کی اندرونی شہادت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی مکہ معظمہ کے اسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورة ذاریات نازل ہوئی تھی۔

آخرت کے دلائل (پہلا رکوع):

  • اس رکوع میں آخرت کی شہادت دینے والے چند حقائق و آثار کی قسم کھا کر پورے زور کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ یقیناً واقع ہو کر رہے گی اور کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اسے برپا ہونے سے روک دے۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیش آئے گی تو اس کے جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوگا، اور اسے مان کر تقویٰ کی روش اختیار کرلینے والے کس طرح اللہ کے انعامات سے سرفراز ہوں گے۔

منکرینِ حق کے رویّوں پر تنقید (دوسرا  رکوع):

  • دوسرے رکوع میں منکرینِ حق کے اس رویے پر تنقید کی گئی ہے جو وہ رسول اللہﷺ کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کیے ہوئے تھے۔ وہ آپ کو کبھی کاہن، کبھی مجنون اور کبھی شاعر قرار دے کر عوام الناس کو آپ کے خلاف بہکاتے تھے تاکہ لوگ آپ کے لائے ہوئے پیغام کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ کریں۔
  • وہ آپ کی ذات کو اپنے حق میں ایک بلائے ناگہانی سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ کوئی آفت ان پر نازل ہوجائے تو ہمارا ان سے پیچھا چھوٹے۔
  • وہ آپ پر الزام لگاتے تھے کہ یہ قرآن آپ خود گھڑ گھڑ کر خدا کے نام سے پیش کر رہے ہیں اور یہ معاذاللہ ایک فریب ہے جو آپ نے بنا رکھا ہے۔
  • وہ آپ کی دعوت و تبلیغ سے ایسی بیزاری کا اظہار کرتے تھے جیسے آپ کچھ مانگنے کے لیے ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے آپ سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔
  • وہ آپس میں بیٹھ بیٹھ کر سوچتے تھے کہ آپ کے خلاف کیا چال ایسی چلی جائے جس سے آپ کی اس دعوت کا خاتمہ ہوجائے۔
  • اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی رویے پر تنقید کرتے ہوئے پے در پے کچھ سوالات کیے ہیں جن میں سے ہر سوال یا تو ان کے کسی اعتراض کا جواب ہے یا ان کی کسی جہالت پر تبصرہ۔ پھر فرمایا ہے کہ ان لوگوں کو آپ کی نبوت کا قائل کرنے کے لیے کوئی معجزہ دکھانا قطعی لا حاصل ہے، کیونکہ یہ ایسے ہٹ دھرم لوگ ہیں انہیں خواہ کچھ بھی دکھا دیا جائے، یہ اس کی کوئی تاویل کر کے ایمان لانے سے گریز کر جائیں گے۔
  • اس رکوع کے آغاز میں بھی رسول اللہ ﷺ کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان مخالفین کے الزامات و اعتراضات کی پروا کیے بغیر اپنی دعوت کا کام مسلسل جاری رکھیں، اور آخر میں بھی آپ کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ صبر کے ساتھ ان مزاحمتوں کا مقابلہ کیے چلے جائیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آجائے۔ آپؐ  اپنے رب کی حمد و تسبیح سے وہ قوت حاصل کرتے رہیں جو ایسے حالات میں اللہ کا کام کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

سورۃ  النجم:

  • یہ ایک مکی سورۃ ہے اور ۵ نبوی میں نازل ہوئی۔  یہ قرآن مجید کی وہ پہلی سورة ہے جسے رسول اللہﷺنے قریش کے ایک مجمع عام میں سنایا تھا۔ مجمع میں کافر اور مومن سب موجود تھے۔ آخر میں جب آپ نے آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ فرمایا تو تمام حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے اور مشرکین کے وہ بڑے بڑے سردار تک، جو مخالفت میں پیش پیش تھے سجدہ کیے بغیر نہ رہ سکے۔

 

 

 (پہلا رکوع):

  • غروب ہونے والے ستارے کی قسم کھاکر کفار مکہ کو بتایا جا رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جن کی سیرت و کردار سے تم بچپن سے واقف ہو وہ  تمہارے یہ رفیق تاریکی میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں ٹھیک صراط مستقیم پر چل رہے ہیں نہ وہ راستہ بھولے ہیں کہ ادھر ادھر پھرتے رہیں اور نہ ہی راستہ سے بہکے ہوئے ہیں۔  وہ اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتے بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے جبرئیل امین ہماری جانب سے وحی لاتے ہیں اور انھیں بتاتے ہیں تاکہ یہ تمھیں آگاہ کریں۔  اب تم اللہ کا مقابلہ لات، عزیٰ اور منات (مشرکین کے دیوی دیوتا) سے کرتے ہو جن کے نام بھی تمھارے آباؤ اجداد نے خود ہی رکھ لیے ہیں۔جبکہ   آخرت کا پورا اختیار تو اللہ ہی کو  ہے۔

 (دوسرا  رکوع):

  • اگر آسمان کے سارے فرشتے مل کر بھی تمہاری سفارش کریں تو وہ تمہارے کسی کام نہ آسکے گی پھر تمہارے ان معبودوں کی تو حیثیت ہی کیا ہے۔ سفارش تو اسی کے حق میں مقبول ہو سکے گی جس کے حق میں اللہ چاہے گا اور اللہ مشرکوں کے حق میں فیصلہ کرچکا ہے کہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا تو وہ تمہارے حق میں سفارش کیسے کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سفارش تو وہ کرسکے گا جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سفارش کرنے کی اجازت ہوگی خواہ یہ انسان ہوں یا فرشتے۔
  • کفار کا تذکرہ کرنے کے بعد اہلِ ایمان کو تسلی دی گئی اور فرمایا کہ نیک رویہ اختیار کرنے والوں کےلیے بہت اچھی جزا ہےیہ وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے گناہوں سے بچتے ہیں، اعمالِ فاحشہ سے پرہیز کرتے ہیں۔ اگر ان سے کوئی گناہ بھول چوک سے سرزد بھی ہوجائے تو نادم ہوتےہیں اور اللہ انھیں معاف کردیا کرتا ہے۔

 (تیسرا   رکوع):

  • آیت ۳۳۔۳۴ قریش کے سردار  ولید بن مغیرہ کے متعلق نازل ہوئیں۔  وہ رسول اللہﷺکی دعوت سے کافی حد تک متاثر ہوچکا تھا اور قریب تھا کہ ایمان لے آئے۔ اس کے ایک مشرک دوست کو جب اس صورت حال کا پتہ چلا تو اسے کہنے لگا : جس آخرت سے تم ڈرتے ہو اس کا میں ذمہ لیتا ہوں کہ اگر تمہیں عذاب ہوا تو تمہاری سزا میں اپنے سر لے لوں گا بشرطیکہ تم مجھے اتنا اتنا مال دے دو ۔ چنانچہ ولید بن مغیرہ اس کے چکمے میں آگیا۔ اس کی بات کو قبول کرتے ہوئے طے شدہ مال کی ایک قسط اسے ادا بھی کردی لیکن بعد میں اس نے کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر مزید مال دینے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔    لیکن اسلام کا راستہ روکنے کو اس نے اپنا مشن بنا لیا تھا۔
  • موسیؑ اور ابراہیم کے صحیفوں کا ذکر کرتے ہوئے آخرت سے متعلق انکی کچھ تعلیمات کو اس لیے نقل کیا گیا کہ انہیں معلوم ہوجائے کہ نبی کریم کوئی نیادین اور زندگی اور زندگی کے لیے کوئی انوکھا نظام لے کر نہیں آئے، بلکہ یہ انہی سچائیوں کی دعوت دے رہے ہیں جن کی دعوت پہلے انبیاء دیتے رہے ہیں، خصوصاً حضرت ابراہیم خلیل اللہ جن کی تم اولاد ہونے پر فخر کرتے ہو۔
  • اہلِ اسلام کو تسلی دی گئی کہ یہ کافر اپنی قوت کے بل پر حق کا راستہ نہیں روک سکتا، اللہ اس سے پہلے بڑے بڑے طاقت ور لوگوں کو فنا کے گھاٹ اُتار چکا ہے۔ زمین پر جگہ جگہ ان کےکھنڈرات اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار عبرت کےلیے کافی ہیں۔
  • آخر میں اس سورت کا اختتام ہو رہا ہے کہ اے مکہ کے باشندو ! کلام الٰہی سن کر تم غرور ونخوست سے اکڑتے ہوئے بڑی بےپروائی سے گزر جاتے ہو۔ یہ مہلت کی گھڑیاں ختم ہونے والی ہیں۔ پھر واویلا کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ تمہاری نجات اسی میں ہے کہ تمام معبودان باطل سے رشتہ توڑ کر اپنے حقیقی خالق اور سچے معبود کی عبادت میں مصروف ہوجاؤ۔

سورۃ  القمر:

  • اس کے نزول کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب ” انشقاق قمر ” کا معجزہ رونما ہوا، اور یہ معجزہ مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پانچ سال پہلے منی کے میدان میں ظہور پذیر ہوا۔

تاریخی پس منظر:

کفارِ مکہ آئے روز ایسے معجزات کا مشاہدہ کرتے رہتے تھے جن کو دیکھنے کے بعد کوئی سلیم الطبع انسان حضورؐ کی رسالت کا انکار نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن عقل کے اندھے ان کو جادو کہہ کر ٹال دیا کرتے۔ آخر کار ایک رات ان کی فرمائش پر ” شق القمر ” کا معجزہ دکھایا گیا۔ مکہ کے سارے باشندے منیٰ کے کھلے میدان میں حاضر تھے۔ آسمان پر چاند چمک رہا تھا۔ سرور کائنات ﷺنے انگلی کا اشارہ کیا۔ اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چاند کا کرہ دو ٹکڑے ہوگیا۔ دیکھنے والوں کو یوں محسوس ہوا کہ اس کا ایک حصہ پہاڑ کے اس طرف اور دوسرا دوسری طرف چلا گیا ہے۔ پھر وہ آناً فاناً جڑ گیا۔ کفار یہ دیکھ کر تصویر حیرت بن گئے ان کے پاس حضور کی رسالت کے انکار کا اب کوئی عذر باقی نہ رہا۔ اتنے میں ابوجہل بولا کہ بڑا زبردست جادوگر ہے اس کا جادو آسمان پر بھی اثر کرتا ہے۔

مالا بار کا راجہ:        سیّد مودودیؒ نے مالا بار کی تاریخ کا یہ واقعہ بھی نقل فرمایا کہ راجہ کے روزنامچوں میں اس تاریخ  میں لکھا ہوا موجود ہے کہ راجہ اور اس کے درباری سمندر کے کنارے ٹہل رہے تے کہ اُنھوں نے یہ حیران کُن منظر دیکھا۔

قرآن کو نصیحت کےلیے آسان بنایا گیا:

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک جانب تو یہ معجزہ دکھایا تو دوسری جانب چھوٹی چھوٹی آیات میں تاریخِ انسانی کے پانچ اہم واقعات کو پیش کرکے دعوتِ فکر دی۔  قومِ نوحؑ، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط اور فرعون میں سے ہر قوم کے  تاریخی واقعات بیان کرنے کے بعد۔  اس  آیت  کو دہرایا کہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ   یعنی ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟  جس سے قائین کو تنبیہ کی گئی کہ قرآن کوئی مُعمّوں کی کتاب نہیں جس کو سمجھنا ان کے بس سے باہر ہو۔ یہ تو ایک کھلی اور واضح کتاب ہے۔ جو شخص بھی خلوص نیت سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے لیے اس کو سمجھنا آسان ہوگا۔

قیامت کا نقشہ:

آخر میں قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ اس روز کفار منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے اور   نصیحت حاصل کرنے والوں کا خوش نما انجام  ہوگا اور بڑے ذی اقتدار بادشاہِ حقیقی کا تقرب انھیں حاصل ہوگا۔

سورۃ  الرحمٰن:

  • اس مبارک سورة کا پہلا کلمہ الرحمٰن ہے۔ یہی اس کا نام ہے۔ نیز اس سورة میں اللہ تعالیٰ کی شان رحمانیت کی تجلّیاں ہر سُو جلوہ طراز ہیں۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ ایک مکی سورۃ ہے۔

تاریخی پس منظر:

  • حضرت عروہ ابن زبیر سے مروی ہے کہ ایک روز صحابہ کہنے لگے کہ قریش نے آج تک قرآن کو سنا نہیں، بغیر سنے اس کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی صاحب ہمت کر کے اور بلند آواز سے ان کو قرآن حکیم سنائے تو کتنا اچھا ہو۔ حضرت ابن مسعود نے کہا یہ سعادت میں حاصل کروں گا۔ صحابہ نے کہا تمہارا سنانا مناسب نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں کمزور اور ضعیف سمجھ کر زدو کو ب کریں۔ کسی ایسے آدمی کو یہ فریضہ انجام دینا چاہیے جس کا قبیلہ زور آور ہو تاکہ اس کے خوف سے کوئی کافر اس پر دست درازی نہ کرسکے۔ لیکن ابن مسعود نے ان کی ایک نہ سنی۔ اٹھے، مقام ابراہیم کے پاس جاکر کھڑے ہوگئے۔ اور اپنی سریلی آواز سے بلند آواز میں سورة الرحمٰن کی تلاوت شروع کردی۔ قریش جو اپنی اپنی مجلسیں جمائے بیٹھے تھے، پہلے تو انہوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ بعد میں جب انہیں پتہ چلا کہ یہ قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں تو اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے قریب آکر مارنا شروع کیا۔ بڑی بیدردی سے انہیں پیٹا، یہاں تک کہ ان کا چہرہ زخمی ہوگیا۔
  • تاریخی پس منظر:
  • اس سورۃ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی مختلف نعمتوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کے مشاہدے میں رات  اور دن آتی رہتی ہیں ۔  پھر اسکے بعد انسانوں اور جنّوں سے سوال کیا ہے کہ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ   13 ؀  یعنی پس اے جن و انس تم اپنے ربّ کون کون سے نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ یہ آیت اس سورۃ میں ۳۱ بار دھرائی گئی ہے۔  اصل میں لفظ آلاء استعمال ہوا ہے ہر بار  جملے کے اعتبار سے یہ اپنے ایک الگ معنی دے رہا ہے۔  جن میں نعمت،  عجائب، قدرت،  خوبیاں، اوصافِ حمیدہ ، کرشمے، کمالات، احسانات، انعامات، وغیرہ شامل ہیں۔
  • حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ایک دفعہ صحابہؓ سے فرمایا کہ تم سے تو جن ہی اچھے ہوئے کہ جب میں فَبِاَيِّ اٰلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ پڑھتا تو وہ اس کے جواب میں یوں کہتے ہیں    لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ  (اے ہمارے پروردگار ! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ سب حمد و ثنا تیرے ہی لیے ہے) لہذا جب کوئی شخص یہ آیت پڑھے تو اس کا یہی جواب دینا چاہیے۔ علاوہ ازیں اس آیت اور اس کے بعد کی آیات میں دونوں طرح کی مکلف مخلوق یعنی جنوں اور انسانوں کو مشترکہ طور پر خطاب کیا گیا ہے۔  اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ نبی کریم ﷺ انسانوں اور جنوں دونوں کے نبی تھی۔
  • اس سورۃ میں جنت و جہنم کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے کہ اپنے سامنے نظر آتی ہیں۔ اس میں عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جو اسلامی نظام کے قیام ہی سے ممکن ہے۔   فرمایا کہ دنیا کی ہر چیز فنا کے گھاٹ اُتر جائے گی اور صرف تیرے رب کی ذات ِ جلیل و کریم ہی باقی رہنے والی ہے۔ 

الحمد للہ آج 24 ویں تراویح کا خلاصہ  مکمل ہوا۔

 25 ویں تراویح کا  خلاصہ ان شاء اللہ کل۔  ہمارے ساتھ رہیے گا۔        جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ