خلاصہ تراویح 25 رمضان

پچیسویں   تراویح

آج  پچیسویں تراویح ہے اور اس میں 4 سورتوں کی تلاوت کی جائے گی جن میں سورۃ  الواقعہ   سورۃ الحدید،   سورۃ المجادلہ،  سورۃ الحشر ، شامل ہیں۔

سورۃ الواقعہ:

  • سورۃ واقعہ ایک مکی سورۃ ہے اور مکہ کے بھی درمیانی دور کی۔
  • اس کا موضوع آخرت، توحید اور قرآن کے متعلق کفار مکہ کے شبہات کی تردید ہے۔

پیش آنے والا واقعہ (۱۔۳):

  • کفار قیامت کا انکار کرتے تھے جس کے جواب میں فرمایا کہ جب وہ واقعہ پیش آجائے گا اس وقت کوئی یہ جھوٹ بولنے والا نہ ہوگا کہ وہ پیش نہیں آیا ہے، نہ کسی کی یہ طاقت ہوگی کہ اسے آتے آتے روک دے، یا واقعہ سے غیر واقعہ بنا دے۔ اس دن سب کچھ اُلٹ پلٹ ہوجائے گا، پوری زمین ایک ساتھ ہلاڈالی جائے گی،  پہاڑوں ریزہ ریزہ بن کر تیز آندھیوں میں اُڑ جائیں گے۔

روزِ قیامت انسانوں کے طبقات (۴۔۵۶):

  • اس وقت لازماً تمام انسان تین طبقات میں تقسیم ہوجائیں گے۔ ایک، دائیں ہاتھ والے یعنی عام صالحین، دوسرے بائیں ہاتھ والے یعنی ناکام لوگ جو دنیا میں آخرت کا انکار کرتے تھے اور مرتے دم تک کفر و شرک اور گناہ کبیرہ پر جمے رہے۔ تیسرے سابقین ۔   
  • اصحاب المیمنہ سے مراد دائیں ہاتھ والے ،  کامیاب و کامران لوگ یعنی اہل جنت  جن کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا  یہ خوش بخت اور خیر و برکت والے افراد ہونگے۔
  • اصحاب المشئمہ سے مراد بائیں ہاتھ والے، ناکام و نا مُراد لوگ یعنی اہلِ جہنم جن کا عمال نامہ بائیں ہاتھ میں ملے گا۔ یہ بدبخت  لوگ ہوں گے۔
  • تیسرے سبقت لے جانے والے، یعنی جو ایمان لانے میں، معرکۂ  حق و باطل میں، اللہ کی راہ میں مصائب برداشت کرنے میں اور ہر خیر اور بھلائی کے کام میں دوسروں سے سبقت لے جانے  والے اور آگے نکل جانے والوں کا درجہ عام مومنین صالحین سے بہرحال زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا یہی لوگ اللہ کے مقربین میں سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سب سے آگے یہی لوگ ہوں گے پھر ان کے بعد دائیں جانب صالحین مومنین اور بائیں جانب کافر و مشرک، سرکش اور خود سر یعنی اہل دوزخ ہوں گے۔

کامیاب لوگوں کی ضیافت اور ناکام لوگوں کی ذلالت(۱۲۔۵۶):

  • کامیاب لوگ آپس میں محفلیں سجائے بیٹھے ہونگے،  لذیز پھلوں اور معطر مشروبات انکے سامنے ہونگے،  خوبصورت آنکھوں والی حوریں انکی خدمت پر مامور ہونگی۔  وہاں انکے دل میں کسی کےلیے کوئی حسد، بغض اور کینہ وغیرہ نہیں ہوگا اسی لیے کوئی بیہودہ کلام نہیں سنیں گے۔
  • ناکام لوگ کی ضیافت کے کھولتا ہوا پانی ہوگا جسے وہ ایسے پئیں گے جیسے پیاس کی بیماری میں مبتلا اونٹ پیتا ہے،  زقّوم نامی کڑوا زہر کانٹے درخت انھیں کھانے میں ملے گا۔

دلائلِ توحید و آخرت (۵۷۔۷۴):

  • اس کے بعد آیت 57 سے آیت 74 تک اسلام کے ان دونوں بنیادی عقائد کی صداقت پر پے درپے دلائل دیے گئے ہیں جن کو ماننے سے کفار انکار کر رہے تھے، یعنی توحید اور آخرت۔ ان دلائل میں زمین و آسمان کی دوسری تمام چیزوں کو چھوڑ کر انسان کو خود اس کے اپنے وجود کی طرف اور اس غذا کی طرف جسے وہ کھاتا ہے اور اس پانی کی طرف جسے وہ پیتا ہے اور اس آگ کی طرف جس سے وہ اپنا کھانا پکاتا ہے، توجہ دلائی گئی ہے۔ اور اسے اس سوال پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ تو جس خدا کے بنانے سے بنا ہے اور جس کے دیے ہوئے سامان زیست پر پل رہا ہے اس کے مقابلے میں خود مختار ہونے، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی بجا لانے کا آخر تجھے حق کیا ہے ؟ اور اس کے متعلق تو نے یہ کیسے گمان کرلیا کہ وہ ایک دفعہ تجھے وجود میں لے آنے کے بعد ایسا عاجز و درماندہ ہوجاتا ہے کہ دوبارہ تجھ کو وجود میں لانا چاہے بھی تو نہیں لا سکتا ؟

قرآن ایک مضبوط و محکم کلام  (۷۵۔۸۲):

  • پھر آیت 75 سے 82 تک قرآن کے بارے میں ان کے شکوک کی تردید کی گئی ہے اور ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ بد نصیبو، یہ عظیم الشان نعمت تمہارے پاس آئی ہے اور تم نے اپنا حصہ اس نعمت میں یہ رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹی بےاعتنائی برتتے ہو۔ قرآن کی صداقت پر دو مختصر سے فقروں میں یہ بےنظیر دلیل پیش کی گئی ہے کہ اس پر کوئی غور کرے تو اس کے اندر ویسا ہی محکم نظام پائے گا جیسا کائنات کے تاروں اور سیاروں کا نظام محکم ہے، اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا مصنف وہی ہے جس نے کائنات کا یہ نظام بنایا ہے۔ پھر کفار سے کہا گیا ہے کہ یہ کتاب اس نوشتہ تقدیر میں ثبت ہے جو مخلوقات کی دسترس سے باہر ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ اسے محمد ؐکے پاس شیاطین لاتے ہیں، حالانکہ لوح محفوظ سے محمدؐ تک جس ذریعہ سے یہ پہنچتی ہے اس میں پاک نفس فرشتوں کے سوا کسی کا ذرہ برابر بھی کوئی دخل نہیں ہے۔

مرنے والے کو روک کیوں نہیں لیتے؟ (۸۳۔۹۵):

  • آخر میں انسان کو بتایا گیا ہے کہ تو کتنی ہی لن ترانیاں ہانکے اور اپنی خود مختاری کے گھمنڈ میں کتنا ہی حقائق کی طرف سے اندھا ہوجائے، مگر موت کا وقت تیری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ اس وقت تو بالکل بےبس ہوتا ہے۔ اپنے ماں باپ کو نہیں بچا سکتا۔ اپنی اولاد کو نہیں بچا سکتا۔ اپنے پیروں اور پیشواؤں اور محبوب ترین لیڈروں کو نہیں بچا سکتا۔ سب تیری آنکھوں کے سامنے مرتے ہیں اور تو دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اگر کوئی بالا تر طاقت تیرے اوپر فرمانروا نہیں ہے اور تیرا یہ زعم درست ہے کہ دنیا میں بس تو ہی تو ہے، کوئی خدا نہیں ہے، تو کسی مرنے والے کی نکلتی ہوئی جان کو پلٹا کیوں نہیں لاتا ؟
  • جس طرح تو اس معاملہ میں بےبس ہے اسی طرح خدا کے محاسبے اور اس کی جزا و سزا کو بھی روک دینا تیرے اختیار میں نہیں ہے۔ تو خواہ مانے یا نہ مانے، موت کے بعد ہر مرنے والا اپنا انجام دیکھ کر رہے گا۔ مقربین میں سے ہو تو مقربین کا انجام دیکھے گا۔ صالحین میں سے ہو تو صالحین کا انجام دیکھے گا۔ اور جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہو تو وہ انجام دیکھے گا جو ایسے مجرموں کے لیے مقدر ہے۔

سورۃ الحدید:

  • سورۃ الحدید ایک مدنی سورۃ ہے۔ اس کے مضامین پر غور کرنے سے لگتا ہے کہ یہ صلح حدیبیہ اور غزوۂ اُحد کے درمیان کسی وقت نازل ہوئی ہوگی۔
  • اس کا موضوع انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین ہے۔ اسلام کی تاریخ کے اس نازک ترین دور میں، جبکہ عرب کی جاہلیت سے اسلام کا فیصلہ کن معرکہ برپا تھا، یہ سورة اس غرض کے لیے نازل فرمائی گئی تھی کہ مسلمانوں کو خاص طور پر مالی قربانیوں کے لیے آمادہ کیا جائے ۔

اللہ کی صفات (۱۔۶):

  • مالی قربانیوں پر آمادہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں جیسےزمین و آسمان کی تمام مخلوق زبانِ حال سے اللہ کی تسبیح بیان کررہی ہے۔  چونکہ اللہ ہر چیز کا خالق ہےاس نے جو چیز بھی جس مقصد کے لیے بنائی  وہ ہمیشہ اپنی تخلیق کا مقصد پورا کرتی اور مثبت نتائج پیدا کرتی ہیں اور یہی بات اللہ تعالیٰ کی کمال حکمت پر دلیل ہے۔ 

خرچ کرو اللہ کی راہ میں (۷۔۱۹):

  • ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی راہ خدا میں مال صرف کرنے سے پہلو تہی نہ کرے۔ ایسا کرنا صرف ایمان ہی کے منافی نہیں ہے بلکہ حقیقت کے اعتبار سے بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہ مال دراصل خدا ہی کا مال ہے جس پر تم کو خلیفہ کی حیثیت سے تصرف کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ کل یہی مال دوسروں کے پاس تھا، آج تمہارے پاس ہے، اور کل کسی اور کے پاس چلا جائے گا۔ آخر کار اسے خدا ہی کے پاس رہ جانا ہے جو کائنات کی ہر چیز کا وارث ہے۔ تمہارے کام اس مال کا کوئی حصہ اگر آسکتا ہے تو صرف وہ جسے تم اپنے زمانہ تصرف میں خدا کے کام پر لگا دو ۔
  • خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینا اگرچہ ہر حال میں قابل قدر ہے، مگر ان قربانیوں کی قدر و قیمت مواقع کی نزاکت کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے۔ ایک موقع وہ ہوتا ہے جب کفر کی طاقت بڑی زبردست ہو اور ہر وقت یہ خطرہ ہو کہ کہیں اسلام اس کے مقابلہ میں مغلوب نہ ہوجائے۔ دوسرا موقع وہ ہوتا ہے جب کفر و اسلام کی کشمکش میں اسلام کی طاقت کا پلڑا بھاری ہوجائے اور ایمان کو دشمنان حق کے مقابلہ میں فتح نصیب ہو رہی ہو۔ یہ دونوں حالتیں اپنی اہمیت کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں اس لیے جو قربانیاں ان مختلف حالتوں میں دی جائیں وہ بھی اپنی قیمت میں برابر نہیں ہیں۔ جو لوگ اسلام کے ضعف کی حالت میں اس کو سربلند کرنے کے لیے جانیں لڑائیں اور مال صرف کریں ان کے درجہ کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو اسلام کے غلبے کی حالت میں اس کو مزید فروغ دینے کے لیے جان و مال قربان کریں۔
  • راہ حق میں جو مال بھی صرف کیا جائے وہ اللہ کے ذمے قرض ہے، اور اللہ اسے نہ صرف یہ کہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس دے گا بلکہ اپنی طرف سے مزید اجر بھی عنایت فرمائے گا۔
  • آخرت میں نور انہی اہل ایمان کو نصیب ہوگا جنہوں نے راہ خدا میں اپنا مال خرچ کیا ہو۔ رہے وہ منافق جو دنیا میں اپنے ہی مفاد کو دیکھتے رہے اور جنہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں رہی کہ حق غالب ہوتا ہے یا باطل، وہ خواہ دنیا کی اس زندگی میں مومنوں کے ساتھ ملے جلے رہے ہوں، مگر آخرت میں ان کو مومنوں سے الگ کردیا جائے گا، نور سے وہ محروم ہوں گے اور ان کا حشر کافروں کے ساتھ ہوگا۔
  • مسلمانوں کو ان اہل کتاب کی طرح نہ ہوجانا چاہیے جن کی عمریں دنیا پرستی میں بیت گئی ہیں اور جن کے دل زمانہ دراز کی غفلتوں سے پتھر ہوگئے ہیں۔ وہ مومن ہی کیا جس کا دل خدا کے ذکر سے نہ پگھلے اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے نہ جھکے۔
  • اللہ کے نزدیک صدیق اور شہید صرف وہ اہل ایمان ہیں جو اپنا مال کسی جذبہ ریا کے بغیر صدق دل سے اس کی راہ میں صرف کرتے ہیں۔

دنیا کی زندگی ناپائیدار ہے (۲۰۔۲۱):

  • دنیا کی زندگی محض چند روز کی بہار اور ایک متاع غرور ہے۔ یہاں کا کھیل کود، یہاں کی دلچسپیاں، یہاں کی آرائش و زیبائش، یہاں کی بڑائیوں پر فخر، اور یہاں کا دھن و دولت، جس میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوششیں کرتے ہیں، سب کچھ ناپائدار ہے۔ اس کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جو پہلے سر سبز ہوتی ہے، پھر زرد پڑجاتی ہے اور آخر کار بھس بن کر رہ جاتی ہے۔ پائیدار زندگی دراصل آخرت کی زندگی ہے جہاں بڑے نتائج نکلنے والے ہیں۔ تمہیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنی ہے تو یہ کوشش جنت کی طرف دوڑنے میں صرف کرو۔

مومن اور منافق کا فرق (۲۲۔۲۱):

  • دنیا میں راحت اور مصیبت جو بھی آتی ہے اللہ کے پہلے سے لکھے ہوئے فیصلے کے مطابق آتی ہے۔ مومن کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ مصیبت آئے تو ہمت نہ ہار بیٹھے، اور راحت آئے تو اترا نہ جائے۔ یہ تو ایک منافق اور کافر کا کردار ہے کہ اللہ اس کو نعمت بخشے تو وہ اپنی جگہ پھول جائے، فخر جتانے لگے، اور اسی نعمت دینے والے خدا کے کام میں خرچ کرتے ہوئے خود بھی تنگ دلی دکھائے اور دوسروں کو بھی بخل کرنے کا مشورہ دے۔

مومن اور منافق کا فرق (۲۳۔۲۴):

  • اللہ نے اپنے رسول کھلی کھلی نشانیوں اور کتاب اور میزان عدل کے ساتھ بھیجے تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور اس کے ساتھ لوہا بھی نازل کیا تاکہ حق قائم کرنے اور باطل کا سر نیچا کرنے کے لیے طاقت استعمال کی جائے۔ اس طرح اللہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون لوگ ایسے نکلتے ہیں جو اس کے دین کی حمایت و نصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اس کی خاطر جان لڑا دیں۔ یہ مواقع اللہ نے تمہاری اپنی ہی ترقی و سرفرازی کے لیے پیدا کیے ہیں، ورنہ اللہ اپنے کام کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے۔

مومنین کے لیے دوہرا اجر (۲۵۔۲۹):

  • اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے انبیاؑء آتے رہے جن کی دعوت سے کچھ لوگ راہ راست پر آئے ۔ پھر عیسیٰ ؑ آئے جن کی تعلیم سے لوگوں میں بہت سی اخلاقی خوبیاں پیدا ہوئیں، مگر ان کی امت نے رہبانیت کی بدعت اختیار کرلی۔ اب اللہ تعالیٰ نے محمد ؐکو بھیجا ہے۔ ان پر جو لوگ ایمان لائیں گے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کریں گے، اللہ ان کو اپنی رحمت کا دہرا حصہ دے گا اور انہیں وہ نور بخشے گا جس سے دنیا کی زندگی میں وہ ہر ہر قدم پر ٹیڑھے راستوں کے درمیان سیدھی راہ صاف دیکھ کر چل سکیں گے۔   اللہ انھیں دوہرا اجر دے گا اور وہی فضل عظیم کا مالک ہے۔

سورۃ المجادلہ:

ظہار کے شرعی احکام (۱۔۶):

  • ایک صحابیہ خولہ بنت ثعلبہ کو ان کے شوہر اَوْس بن صامت انصاری نے عرب قاعدے کے مطابق  غصے میں آ کر اَنْت عَلَیّ کَظَہرِ اُمیّ کہہ کیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ” تجھ سے مباشرت کرنا میرے لیے ایسا ہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں “۔  اہل عرب کے نزدیک طلاق کے بعد تو رجوع کی گنجائش ہو سکتی تھی، مگر ظہار کے بعد رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔
  • یہ صحابیہ حضور ﷺ کے پاس آئیں اور شکایت کی کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور میرے شوہر نے مجھے ایسے کہہ دیا۔ اگر ہم دونوں کی جدائی ہوگئی تو میں مصیبت میں پڑجاؤں گی اور میرے بچے تباہ ہوجائیں گے، عین اسی حالت میں رسول اللہﷺ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں۔
  • تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے ۔ یہ لوگ ایک سخت، ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔
  • اللہ نے قانون بنادیا کہ اس کی اسلام میں تو کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم  آئندہ اگر کوئی ایسا کرے تو اسے سزا کے طور پر اپنی بیوی سے رُجوع کرنے سے پہلے اُسے ایک غلام آزاد کرنا ہوگا،  اگر اسکی استطاعت نہیں رکھتا تو متواتر ۶۰ روزے رکھے،  اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو تو وہ ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔  یعنی اس کو ایک کھیل نہ بنالے کیونکہ یہ ماں  اور بیوی دونوں کی  حرمت کے ساتھ مذاق ہے۔

منافقین کے رویے (۷۔۱۰):

  • آیات ۷ تا ۱۰ میں منافقین کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ وہ آپس میں خفیہ سرگرمیاں کر کے طرح طرح کی شرارتوں کے منصوبے بناتے تھے، اور ان کے دلوں میں جو بغض چھپا ہوا تھا اس کی اظہار رسول ﷺ کو یہودیوں کی طرح ایسے طریقے سلام کرکے کرتے تھے جس سے دعا کے بجائے بددعا کا پہلو نکلتا تھا۔ یعنی سلام علیک یا اباالقاسم  (آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں اے ابوالقاسم)  کہنے کی بجائے کہا کرتے تھے سام علیک  یا ابالقاسم جس کے معنی ہوتے ہیں تمھیں موت آئے اے ابوالقاسم۔ جسکے جواب میں رسول اللہ ﷺ انھیں وعلیکم کہا کرتے تھے۔
  • اس سلسلہ میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ منافقین کی یہ سرگوشیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، اس لیے تم اللہ کے بھروسے پر اپنا کام کرتے رہو۔ا ور اس کے ساتھ ان کو یہ اخلاقی تعلیم بھی دی گئی ہے کہ سچے اہل ایمان کا کام گناہ اور ظلم و زیادتی اور رسول کی نافرمانی کے لیے سرگوشیاں کرنا نہیں ہے، وہ اگر آپس میں بیٹھ کر تخلیے میں کوئی بات کریں تو وہ نیکی اور تقویٰ کی بات ہونی چاہیئے۔

مجلسی تہذیب کے آداب (۱۱۔۱۳):

  • آیت ۱۱ تا ۱۳ میں مسلمانوں کو مجلسی تہذیب کے کچھ آداب سکھائے گئے ہیں اور بعض ایسے معاشرتی عیوب کو دور کرنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں جو پہلے بھی لوگوں میں پائے جاتے اور آج بھی پائے جاتے ہیں کہ
  • جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ دوسروں کو تنگ نہ کرنا چاہیے۔ نہ اس بات میں اپنی ہتک محسوس کرنا چاہیے۔
  • اہل مجلس جب دیکھیں کہ جگہ تنگ ہو رہی ہے اور نئے آنے والوں کو جگہ نہیں مل رہی تو انہیں مجلس کا حلقہ وسیع کرلینا چاہیے۔ سکڑ کر اور سمٹ کر بیٹھ جانا چاہیے۔ تاکہ آنے والوں کے لیے جگہ بن جائے۔
  • ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ مجلس میں رسول اللہﷺ کے قریب ہو کر بیٹھے ۔ تو ایسی صورت میں کسی کے لئے، خواہ وہ عزت اور مرتبہ میں بڑا ہو، یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔
  • حفظ مراتب کا بھی ایک مقام ہے۔ اگر کوئی چھوٹا کسی بڑے کو آتے دیکھ کر از راہ تواضع اور آنے والے کا احترام کرتے ہوئے اپنی جگہ اس کے لیے چھوڑ کر خود پیچھے ہٹ جائے تو یہ چیز چھوٹے کی عزت اور درجات کی بلندی کا سبب بن جائے گی۔
  • اگر میر ِمجلس ‘ مجلس کو برخاست کرنے اور چلے جانے کا حکم دے یا کسی ایک شخص کو کسی مصلحت کی بنا پر چلے جانے کو کہے تو اسے اس حکم میں نہ عار محسوس کرنی چاہیے اور نہ اسے اس کی تعمیل میں اپنی توہین محسوس کرنا چاہیے۔
  • ٨۔ اگر کھانا کھانے کی مجلس ہو تو کھانے سے فراغت کے بعد باتوں میں مشغول ہو کر میزبان کو پریشان اور تنگ نہ کرنا چاہیے بلکہ فراغت کے بعد جلد اجازت لے کر رخصت ہوجانا چاہیے۔

دین میں مخلص اہلِ ایمان  کا میعار (۱۴۔۲۲):

  • آیت ۱۴ سے آخر سورہ تک مسلم معاشرے کے لوگوں کو جن میں مخلص اہل ایمان اور منافقین اور مذبذبین سب ملے جلے تھے، بالکل دو ٹوک طریقے سے بتایا گیا کہ دین میں آدمی کے مخلص ہونے کا معیار کیا ہے۔
  • ایک قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اسلام کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں، اپنے مفاد کی خاطر اس دین سے غداری کرنے میں کوئی تامل نہیں کرے جس پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور اسلام کے خلاف طرح طرح کے شبہات اور وسوسے پھیلا کر اللہ کے بندوں کو اللہ کی راہ پر آنے سے روکتے ہیں، مگر چونکہ وہ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہیں، اس لیے ان کا جھوٹا اقرار ایمان ان کے لیے ڈھال کا کام دیتا ہے۔
  • دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اللہ کے دین کے معاملہ میں کسی اور کا لحاظ تو درکنا، خود اپنے باپ، بھائی، اور اولاد اور خاندان تک کی پروا نہیں کرتے۔ ان کا حال یہ ہے کہ جو خدا اور رسول اور اس کے دین کا دشمن ہے اس کے لیے ان کے دل میں کوئی محبت نہیں ہے۔  غزوۂ بدر  میں حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح نے اپنے باپ عبداللہ بن جرّاح کو،  حضرت مصعب ؓ بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا،  حضرت عمرفاروقؓ نے اپنے ماموں کا گلا کاٹا،  اور دیگر صحابہؓ نے بھی ایسے ہی کارنامے انجام دیے۔
  • اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں صاف فرما دیا ہے کہ پہلی قسم کے لوگ چاہے کتنی ہی قسمیں کھا کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلائیں، درحقیقت وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں، اور اللہ کی پارٹی میں شامل ہونے کا شرف صرف دوسری قسم کے مسلمانوں کو حاصل ہے۔ وہی سچے مومن ہیں۔ ان ہی سے اللہ راضی ہے۔ فلاح وہی پانے والے ہیں۔

سورۃ الحشر:

بنی نُضَیر انجامِ عبرت (۱۔۴):

  • مسلمان جب مدینہ منورہ ہجرت کرکے پہنچے تو وہاں اَوس اور خزرج کے علاوہ کچھ یہودی قبائل بھی آباد تھے اور مدینہ منورہ کی معشیت پر ان کا مکمل قبضہ تھا انہی میں ایک قبیلہ بنی نُضَیر تھا۔ ہجرت کے بعد ان قبائل سے مسلمانوں کے معاہدے ہوگئے۔ لیکن غزوۂ بدر کے موقع پر انھوں نے اس کی پاسداری نہیں کی۔   بنی نضیر کا سردار کعب بن اشرف غزوہ بدر کے بعد مکہ پہنچا اور قریش والوں کو اشتعال انگیز مرثیےکہہ انتقام پر اُکسایا ۔  دوسری طرف مدینہ واپس آکر جلن نکالنے کے لیے ایسی غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفاء  خواتین کے معاشقوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی شرارتوں سے تنگ آ کر رسول اللہ ﷺ نے اُسے قتل کرا دیا۔
  • جب قریش اُحد کے معرکےکےلیے مدینہ پر چڑھ آئے تو ان یہودی قبائل نے معاہدے کی پہلی اور صریح خلاف ورزی اس طرح کی کہ مدینہ کی مدافعت میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوئے، حالانکہ وہ اس کے پابند تھے۔ پھر جب معرکہ احد میں مسلمانوں کو نقصان عظیم پہنچا تو ان کی جرأتیں اور بڑھ گئیں، یہاں تک کہ بنی نضیر نے رسول اللہ ﷺ کےقتل کی باقاعدہ ایک سازش کی جس کی عین وقت اطلاع اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبی ؐ کو کردی اور یہ سازش  ناکام ہو گئی۔  چنانچہ حضورؐ نے ان کو بلاتا خیر یہ الٹی میٹم بھیج دیا کہ تم نے جو غداری کرنی چاہی تھی وہ میرے علم میں آ گئی ہے۔ لہٰذا دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاؤ، اس کے بعد اگر تم یہاں ٹھیرے رہے تو جو شخص بھی تمہاری بستی میں پایا جائے گا۔ اس کی گردن مار دی جائے گی۔ ربیع الاول 4 ھ میں رسول اللہﷺنے ان کا محاصرہ کر لیا، اور صرف چند روز کے محاصرہ کے بعدوہ اس شرط پر مدینہ چھوڑ دینے کے لیے راضی ہو گئے کہ اسلحہ کے سوا جو کچھ بھی وہ اپنے اونٹوں پر لاد کر لے جا سکیں گے لے جائیں گے۔   جبکہ عددی اعتبار سے انکی تعداد مسلمانوں سے کم نہ تھی، مال و دولت مسلمانوں سے کہیں زیادہ تھا، جنگی سامان کی بھی انکے پاس  کمی نہ تھی۔
  • اس ہی بنی نضیر کے تناظر میں عبرت کے لیے ابتدائی چار آیت کا نزول کیا گیا ہے۔ آیت 5 میں قانون جنگ کا یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے دشمن ے علاقے میں جو تخریبی کار روائی کی جائے وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔

مفتوحہ علاقہ کی تقسیم (۶۔۱۰):

  • آیت 6 سے 10 تک یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کی زمینوں اور جائدادوں کا بندوبست کس طرح کیا جائے جو جنگ یا صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک مفتوحہ علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اس لیے یہاں اس کا قانون بیان کر دیا گیا۔

جنگِ بنی نُضَیر اور منافقین (۱۱۔۱۷):

  • آیت 11 سے 17 تک منافقین کے اس رویہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو انہوں نے جنگ بنی نضیر کے موقع پر اختیار کیا تھا، اور ان اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے جو در حقیقت ان کے اس رویہ کی تہہ میں کام کر رہے تھے۔

بے عمل مسلمان اور ایمان کا تقاضہ (۱۸۔۲۴):

  • آخری رکوع پورا ایک نصیحت ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کی گروہ میں شامل ہو گئے ہوں، مگر ایمان کی اصل روح سے خالی رہیں۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، تقویٰ اور فسق میں حقیقی فرق کیا ہے، جو قرآن کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے، اور جس خدا پر ایمان لانے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ کن صفات کا حامل ہے۔

الحمد للہ آج 25 ویں تراویح کا خلاصہ  مکمل ہوا۔

 26 ویں تراویح کا  خلاصہ ان شاء اللہ کل۔  ہمارے ساتھ رہیے گا۔        جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ