خلاصہ تراویح 26 رمضان

چھبیسویں   تراویح

آج چھبیسویں تراویح ہے اور اس میں 6 سورتوں کی تلاوت کی جائے گی جن میں سورۃ  الممتحنہ   سورۃ الصّف،   سورۃ الجمعہ،  سورۃ المنافقون ، سورۃ التغابن اور سورۃ الطلاق شامل ہیں۔

سورۃ المُمتحنۃ: یہ سورۃ  صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ۔

حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ کی گرفت (۱۔۹  اور  ۱۳):

  • جب قریش نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تو نبی کریم ﷺ نےخفیہ طور پر  مکہ پر چڑھائی کی تیاری شروع کردیں۔  حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ ایک بدری صحابی تھے۔   انہوں نے محض اپنے اہل و عیال کو  جو مکہ مکرمہ میں تھے بچانے کی خاطر فتح مکہ کے لیے آنحضورؐ کی روانگی سے قبل سردارانِ مکہ کو خفیہ طور پر ایک خط  کسی خاتون کے ہاتھ روانہ کیا تھا۔     جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبی کریم ﷺ کو دی۔       اگر بر وقت ناکام نہ کر دیا گیا ہوتا تو فتح مکہ کے موقع پر بڑا کشت و خون ہوتا، مسلمانوں کی بھی بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوتیں، قریش کے بھی بہت سے وہ لوگ مارے جاتے جو بعد میں اسلام کی عظیم خدمات انجام دینے والے تھے، وہ تمام فوائد بھی ضائع ہو جاتے جو مکہ کو پُر امن طریقہ سے فتح کرنے کی صورت میں حاصل ہو سکتے تھے۔  بظاہر تو یہ فعل غداری کے مترادف تھا لیکن حضورؐ نے اسے انکی محض ایک غلطی تصور کیا اور حضرت حاطبؐ نے بھی بغیر لاگ لپیٹ کے اعترافِ جرم کیا۔  حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ بن اسود کو بھیجا گیا اور رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے مقام پر انھوں نے خاتون سے خط برآمد کیا۔
  • ترجمہ: “اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو، تم اگر میری راہ جہاد کرنے کے لئے اور میری رضا جوئی کی خاطر ( وطن جھوڑ کر گھروں سے ) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ مت اپنے رب، اللہ پر ایمان لاۓ ہو۔ تم چپھا کر ان کو دوستانہ پیغام بھجتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں۔ جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا”۔

مسلم مرد یا عورت کے  کافر عورت    یا    مرد سے نکاح کی حیثیت (۱۰۔۱۱):

  • آیات 10۔11 میں ایک اہم معاشرتی مسئلے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت بڑی پیچیدگی پیدا کر رہا تھا۔ مکہ میں بہت سی مسلمان عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر کافر تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاتی تھیں۔ اسی طرح مدینہ میں بہت سے مسلمان مر د ایسے تھے جن بیویاں کافر تھیں اور وہ مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج باقی ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ فیصلہ فرما دیا کہ مسلمان عورت کے لیے کافر شوہر حلال نہیں ہے، اور مسلمان مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ مشرک بیوی کو اپنے نکاح میں رکھے۔

نو مسلم خواتین سے عہد (۱۲):

  • آیت 12 میں رسول ﷺکو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جو عورتیں اسلام قبول کریں ان سے آپ اُن سے ۶ بڑی بڑی برائیوں سے بچنے کا عہد لیں جو جاہلیت عرب کے معاشرے میں عورتوں کے اندر پھیلی ہوئی تھیں اور اس بات کا اقرار کرائیں کہ آئندہ وہ بھلائی کے ان تمام طریقوں کی پیروی کریں گی جن کا حکم اللہ کے رسول کی طرف سے ان کو دیا جائے۔

۱) وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی۔   ۲)چوری نہ کریں گی۔              ۳) زنا نہ کریں گی۔     ۴) اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔

۵) اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی۔        ۶)امرِ معروف میں آپکی (رسول اللہ ﷺ کی)  نافرمانی نہیں کریں گی۔

 

 

سورۃ الصّف:

  • سورۃ الصّف ایک مدنی سورۃ ہے اور اپنے مضامین سے غزوۂ اُحد کے بعد کے زمانے کی لگتی ہے۔

وہ کہتے کیوں ہو جوکرتے نہیں (۱۔۴):

  • یہ بتانے کے بعد کہ اللہ کی تسبیح کائنات کی تمام مخلوقات کرتی ہیں ، کے بعد تمام ایمان لانے والوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں وہ لوگ جو کہیں کچھ اور کریں کچھ، اور نہایت محبوب ہیں وہ لوگ جو راہ حق میں لڑنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوں۔

نبی اسرائیل کی روش سے بچو (۵۔۷):

  • آیت 5 سے 7 تک رسول اللہ ﷺ کی امت کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رسول اور اپنے دین کے ساتھ تمہاری روش وہ نہ ہونی چاہیے جو موسیؑ اور عیسیٰ ؑ کے ساتھ بنی اسرائیل نے اختیار کی۔ حضرت موسیؑ کو وہ اللہ کا رسول جاننے کے باوجود جیتے جی تنگ کرتے رہے، اور حضرت عیسیٰ سے کھلی کھلی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود وہ ان کو جھٹلانے سے باز نہ آئے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس قوم کے مزاج کا سانچہ ہی ٹیڑھا ہو کر رہ گیا اور اس سے ہدایت کی توفیق سلب ہوگئے۔  یہ اس لیے ہوا کہ یہ  اللہ کا طریقہ نہیں ہے کہ جو لوگ خود ٹیڑھی راہ چلنا چاہیں انہیں وہ خواہ مخواہ سیدھی راہ چلائے، اور جو لوگ اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں ان کو زبردستی ہدایت سے سرفراز فرمائے۔

اللہ کا نور پھیل کر رہے گا(۸۔۱۳):

  • پھر آیت 8 ۔ 9 میں پوری تحدی کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ یہود و نصاریٰ اور ان سے ساز باز رکھنے والے منافقین اللہ کے اس نور کو بجھانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کرلیں، یہ پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا میں پھیل کر رہے گا اور مشرکین کو خواہ کتنا ہی ناگوار ہو، رسول برحق کا لایا ہوا دین ہر دوسرے دین پر غالب آ کر رہے گا۔ لہٰذا  دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرو۔ آخرت میں اس کا ثمر اللہ کے عذاب سے نجات، گناہوں کی مغفرت، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کا حصول ہے، اور دنیا میں اس کا انعام اللہ کی تائید و نصرت اور فتح ہے۔

انصار اللہ بنیں (۱۴):

  • آخر میں اہل ایمان کو تلقین کی گئی ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے اللہ کی راہ میں ان کا ساتھ دیا تھا اس طرح وہ بھی “انصار اللہ ” بنیں تاکہ کافروں کے مقابلہ میں ان کو بھی اسی طرح اللہ کی تائید حاصل ہو جس طرح پہلے ایمان لانے والوں کو حاصل ہوئی تھی۔

سورۃ الجمعہ:

  • سورۃ الجمعہ ایک مدنی سورۃ ہے جو دو حصوں میں نازل ہوئی ہوگی۔  پہلا رکوع غزوۂ خیبر کے بعد جبکہ دوسرا رکوع ہجرت کے فوری بعد۔

پیش آنے والا واقعہ (۱۔۸):

  • آیات ۱۔۸ پہلے رکوع پر مشتمل ہیں اور یہ اس وقت نازل ہوئیں جب یہودیوں کی وہ تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں جو اسلام کی دعوت کا راستہ روکنے کے لیے پچھلے چھ سال کے دوران میں انہوں نے کی تھیں۔ پہلے مدینہ میں ان کے تین طاقتور قبیلے رسول اللہﷺ کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی تک کا زور لگاتے رہے اور نتیجہ یہ دیکھا کہ ایک قبیلہ پوری طرح تباہ ہو گیا اور دو قبیلوں کو جلا وطن ہونا پڑا۔ پھر وہ سازشیں کر کے عرب کے بہت سے قبائل کو مدینے پر چڑھا لائے ، مگر غزوہ احزاب میں ان سب نے منہ کی کھائی۔ اس کے بعد ان کا سب سے بڑا گڑھ خیبر رہ گیا تھا جہاں مدینہ سے نکلے ہوئے یہودیوں کی بھی بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی۔ ان آیات کے نزول کے وقت وہ بھی بغیر کسی غیر معمولی زحمت کے فتح ہو گیا، اور یہودیوں نے خود درخواست کر کے وہاں مسلمانوں کے کاشتکاروں کی حیثیت سے رہنا قبول کر لیا۔ اس آخری شکست کے بعد عرب میں یہودی طاقت کا بالکل خاتمہ ہو گیا۔
  • اللہ کی تسبیح کائنات کی تمام مخلوقات کرتی ہیں بتانے کے بعد یہودیوں کو مخاطب کرکے کہا جارہا ہے کہ وہی اللہ ہے جس نے کل تمھیں پیشوائی عطا کی تھی لیکن تم اس کا بار نہ اُٹھاسکے تھے ۔ اب ایک ان پڑھ قوم میں سے ہم نے اپنا نبی اُٹھایا ہے جو انھیں اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور یہ سارے انسانوں کےلیے نبی ہے۔  اگر تمھیں یہ گھمنڈ ہےکہ تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو پھر اللہ سے ملاقات کےلیے موت کی تمنا کرو۔  لیکن تمھارے کارنامے ایسے ہیں، جن کا تمھیں اچھی طرح ادراک ہے کہ تم کبھی ایسا نہیں کرو گے ۔
  • دوسرےرکوع میں اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کو ہدایت کی کہ جمعہ کے دن جب نماز کے لیے پکارا جائے تو اپنی خرید و فروخت مُراد دنیا کے کاموں کو چھوڑ کر نماز کی طرف دوڑیں اور نماز مکمل ہوجانے کے بعد اللہ کا فضل تلاش کرنےکےلیے دنیا کے کاموں میں مشغول ہوجائیں۔  آخر میں درپردہ یہ ہدایت بھی کہ یہودیوں کے سَبْت کے مقابلہ میں مسلمان جمعہ کے ساتھ وہ معاملہ نہ کریں جو یہودیوں نے سبت کے ساتھ کیا تھا۔   وجہ یہ تھی کہ جب مدینے میں ایک روز عین نماز جمعہ کے وقت ایک تجارتی قافلہ آیا اور اس کے ڈھول تاشوں کی آواز سن کر 12 آدمیوں کے سوا تمام حاضرین مسجد نبوی سے قافلے کی طرف دوڑ گئے ، حالانکہ اس وقت رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اس پر یہ حکم دیا گیا کہ جمعہ کی اذان ہونے کے بعد ہر قسم کی خرید و فروخت اور ہر دوسری مصروفیت حرام ہے۔ اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس وقت سب کام چھوڑ چھاڑ کر اللہ کے ذکر کی طرف دوڑیں۔ البتہ جب نماز ختم ہو جائے تو انہیں حق ہے کہ اپنے کاروبار چلانے کے لیے زمین میں پھیل جائیں

سورۃ المنافقون:

  • سورۃ المنافقون ایک مدنی سورۃ ہے  جو غزوہ بنی مصطَلق کے بعد نازل ہوئی۔
  • جس خاص واقعہ کے بارے میں یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس کا ذکر کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مدینے کے منافقین کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے ، کیونکہ جو واقعہ اس موقع پر پیش آیا تھا وہ محض ایک اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا سلسلۂ واقعات تھا جو بالآخر اس نوبت تک پہنچا۔
  • مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے اَوس اور خز رج کے قبیلے آپس کی خانہ جنگیوں سے تھک کر ایک شخص کی قیادت پر قریب قریب متفق ہو چکے تھے اور اس بات کی تیاریاں کر رہے تھے کہ اس کو اپنا بادشاہ بنا کر باقاعدہ اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کر دیں ، حتیٰ کہ اس کے لیے تاج بنا بھی لیا گیا تھا۔ یہ قبیلہ خز رج کا رئیس عبداللہ بن اُبی بن سَلول تھا۔
  • اس کے بعد جب حضورؐ مدینے پہنچے تو انصار کے ہر گھرانے میں اسلام اتنا پھیل چکا تھا کہ عبداللہ بن ابی بے بس ہو گیا اور اس کو اپنی سرداری بچانے کی اس کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئی کہ خود بھی مسلمان ہو جائے۔ چنانچہ وہ اپنے ان بہت سے حامیوں کے ساتھ، جن میں دونوں قبیلوں کے شیوخ اور سردار شامل تھے ، داخل اسلام ہو گیا، حالانکہ دل ان سب کے جل رہے تھے ، اور خاص طور پر ابن ابی کو اس بات کا سخت غم تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بادشاہی چھین لی ہے۔ کئی سال تک اس کا یہ منافقانہ ایمان اور اپنی ریاست چھن جانے کا یہ غم طرح طرح کے رنگ دکھاتا رہا۔
  • عبداللہ بنا ابی اور اس کے ساتھی منافقین غزوہ بنی المصْطَلِق کی مہم میں رسول اللہﷺ کے ساتھ لشکر میں شامل تھے۔ اور انہوں نے بیک وقت دو ایسے عظیم فتنے اٹھا دیے جو مسلمانوں کی جمعیت کو بالکل پارہ پارہ کر سکتے تھے۔ مگر قرآن پاک کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت سے اہل ایمان کو جو بہترین تربیت ملی تھی اس کی بدولت ان دونوں فتنوں کا بر وقت قلع قمع ہو گیا اور یہ منافقین الٹے خود ہی رسوا ہو کر رہ گئے۔ ان میں سے ایک فتنہ حضرت عائشہ ؓ پر تہمت کا تھا ۔ اور دوسرا فتنہ یہ ہے کہ جس کا اس سورہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
  • بنی المصطلق کو شکست دینے کے بعد ابھی لشکر اسلام اس بستی میں ٹھیرا ہوا تھا جو مریسبع نامی کنویں پر آباد تھی کہ یکایک پانی پر دو صاحبوں کا جھگڑا ہو گیا۔ ان میں سے مہاجر تھے اور دوسرے صاحب انصار میں سے۔  زبانی ترش کلامی سے گزر کر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی اور مہاجر صحابی نے انصاری صحابی کے ایک لات رسید کر دی جسے اپنی قدیم یمنی روایات کی بنا پر انصار سخت توہین و تذلیل سمجھتے تھے۔ اس پر انھوں نے انصار کو مدد کے لیے پکارا، اور دوسرے نے مہاجرین کو آواز دی۔ ابن ابی نے اس جھگڑے کی خبر سنتے ہیں اَوس اور خز رج کے لوگوں کو بھڑکانا اور چیخنا شروع کر دیا کہ دوڑو اور اپنے حلیف کی مدد کرو۔ ادھر سے کچھ مہاجرین بھی نکل آئے قریب تھا کہ بات بڑھ جاتی ۔  شور سن کر رسول اللہﷺ نکل آئے اور آپ نے فرمایا :  یہ جاہلیت کی پکار کیسی؟ تم لوگ کہاں اور یہ جاہلیت کی پکار کہاں ؟ اسے چھوڑ دو، یہ بڑی گندی چیز ہے ‘‘۔اس پر دونوں طرف کے صالح لوگوں نے آگے بڑھ کر معاملہ رفع دفع  کردیا اور انصاری صحابی نے مہاجر صحابی کو معاف کر کے صلح کر لی۔
  • اس کے بعد ہر وہ شخص جس کے دل میں نفاق تھا عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا اور ان لوگوں نے جمع ہو کر اس سے کہا کہ ’’اب تک تو تم سے امیدیں وابستہ تھیں اور تم مدافعت کر رہے تھے ، مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمارے مقابلے میں ان کنگلوں کے مدد گار بن گئے ہو ‘‘۔ ابن ابی پہلے ہی کھول رہا تھا۔ ان باتوں سے وہ اور بھی زیادہ بھڑک اٹھا کہنے لگا ’’ یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ تم نے ان لوگوں کو اپنے ملک میں جگہ دی، ان پر اپنے مال تقسیم کیے ، یہاں تک کہ اب یہ پھل پھول کر خود ہمارے ہی حریف بن گئے۔ ہماری اور ان قریش کے کنگلوں کی حالت پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کر، تا کہ تجھی کو پھاڑ کھائے۔ تم لوگ ان سے ہاتھ روک لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں۔ خدا کی قسم، مدینے واپس پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا بنے وہ ذلیل کو نکال دے گا‘‘۔
  • مجلس میں اتفاق سے حضرت زیدؓ بن ارقم بھی موجود تھے جو اس وقت ایک کم عمر لڑکے تھے۔ انہوں نے یہ باتیں سن کر اپنے چچا سے ان کا ذکر کیا، اور ان کے چچا نے جو انصار کے رئیسوں میں سے تھے ، جا کر رسول اللہ صﷺ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کردیا۔ حضرت نے زیدؓ کو بلا کر دریافت کیا تو انہوں نے جو کچھ سنا تھا من و عن دہرا دیا۔ حضورؐ نے فرمایا شاید تم ابن ابی سے ناراض ہو۔ ممکن ہے تم سے سننے میں کچھ غلطی ہو گئی ہو۔ ممکن ہے تمہیں شبہ ہو گیا ہو کہ ابن ابی یہ کہہ رہا ہے۔ مگر زیدؓ نے عرض کیا نہیں حضور، خدا کی قسم میں نے اس کو یہ باتیں کہتے سنا ہے۔ اس پر حضورؐ نے ابن ابی کو بلا کر پوچھا تو وہ صاف مکر گیا اور قسمیں کھانے لگا کہ میں نے یہ باتیں ہر گز نہیں کہیں۔ انصار کے لوگوں نے بھی کہا کہ حضورؐ، لڑکے کی بات ہے۔ شاید اسے وہم ہو گیا ہو۔ یہ ہمارا شیخ اور بزرگ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک لڑکے کی بات کا اعتبار نہ فرمایئے۔ قبیلے کے بڑے بوڑھوں نے زیدؓ کو بھی ملامت کی اور وہ بیچارے رنجیدہ ہو کر اپنی جگہ بیٹھ رہے۔ مگر حضورؐ زید کو بھی جانتے تھے اور عبداللہ بن ابی کو بھی، اس لیے آپ سمجھ گئے کہ اصل بات کیا ہے۔
  • حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے آ کر عرض کیا ’’ مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ یا اگر مجھے یہ جازت دینا مناسب خیال نہیں فرماتے تو خود انصار ہی میں سے کسی کو حکم دیجیے ۔ کہ وہ اسے قتل کر دیں ‘‘۔ مگر حضورؐ نے فرمایا، ’’ ایسا نہ کرو۔
  • رفتہ رفتہ یہ بات تمام انصار میں پھیل گئی اور ان میں ابن ابی کے خلاف سخت غصہ پیدا ہو گیا۔ لوگوں نے ابن ابی سے کہا جا کر رسول اللہ ﷺ سے معافی مانگو۔مگر اس نے تڑخ کر جواب دیا ’’ تم نے کہا کہ ان پر ایمان لاؤ۔ میں ایمان لے آیا تم نے کہا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ دو۔ میں نے زکوٰۃ بھی دے دی۔ اب بس یہ کسر رہ گئی ہے کہ میں محمدؐ کو سجدہ کروں ‘‘۔ ان باتوں سے اس کے خلاف مومنین انصار کی ناراضی اور زیادہ بڑھ گئی اور ہر طرف سے اس پر پھٹکار پڑنے لگی۔ جب یہ قافلہ مدینہ طیبہ میں داخل ہونے لگا تو عبداللہ بن ابی کے صاحبزادے ، جن کا نام بھی عبداللہ ہی تھا، تلوار سونت کر باپ کے آگے کھڑے ہو گئے اور بولے ،’’ آپ نے کہا تھا کہ مدینہ واپس پہنچ کر عزت والا ذیل کو نکال دے گا، اب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ عزت آپ کی ہے یا اللہ اور اس کے رسولؐ کی۔ خدا کی قسم، آپ مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کو اجازت نہ دیں ’’۔ اس پر ابن ابی چیخ اٹھا،’’ خز رج کے لوگو ! ذرا دیکھو، میرا بیٹا ہی مجھے مدینہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے ‘‘۔ لوگوں نے یہ خبر حضورؐ تک پہنچائی اور آپ نے فرمایا ’’ عبداللہ سے کہو، اپنے باپ کو گھر آنے دے ‘‘۔ عبد اللہؓ نے کہا ’’ ان کا حکم ہے تو اب آپ داخل ہو سکتے ہیں ‘‘۔

دوسرا رکوع:

  • سورۃ کے دوسرے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کا تذکرہ کرکے فرمایا کہ یہ بہت محبوب چیزیں ہیں۔ ان کی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ کے ذکر سے غافل ہوجانے کاخطرہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا اس معاملے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔  موت سے قبل خرچ کرنے کی تلقین فرمائی گئی۔  موت آجائے تو جس طرح توبہ اور اسلام قبول نہیں ہوتا۔  اسی طرح اس وقت انفاق کا موقع بھی ہاتھ سے چلا جاتا ہے۔

 

 

سورۃ التغابن:

  • سورۃ التغابن کو اکثر مفسرین مدنی سورۃ شمار کرتے ہیں۔

بنی نوع انسان سے خطاب (۱۔۴):

  • تمام انسانوں کو خطاب کر کے چند مختصر فقروں میں انہیں چار بنیادی حقیقتوں سے آگاہ کیا گیا ہے :
  • اول یہ کہ یہ کائنات، جس میں تم رہتے ہو، بےخدا نہیں ہے بلکہ اس کا خالق اور مالک اور فرمانروا ایک ایسا قادر مطلق ہے جس کے کامل اور بےعیب ہونے کی شہادت اس کائنات کی ہر چیز دے رہی ہے۔
  • دوسرے یہ کہ یہ کائنات بےمقصد اور بےحکمت نہیں ہے بلکہ ۔ بلکہ اس غلط فہمی سے باہر نکلو کہ یہ ایک فضول تماشا ہے جو بے مقصد ہی شروع ہوا اور بے مقصد ہی ختم ہوجائے گا۔
  • تیسرے یہ کہ تمہیں جس بہترین صورت کے ساتھ اللہ نے پیدا کیا ہے اور پھر جس طرح کفر و ایمان کے اختیار کی آزادی دی۔ اس سے اللہ یہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کو کس طرح استعمال کرتے ہو۔
  • چوتھے یہ کہ تمہیں اپنے خالق کی طرف پلٹ کر جانا ہے ،جس سے تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں، جس پر دلوں کے چھپے ہوئے خیالات تک روشن ہیں۔

 کفار  سے خطاب (۵۔۱۰):

  • کفار کو تاریخ کی جانب توجہ دلائی گئی کہ قوموں پر قومیں اٹھتی رہیں اور بالآخر تباہی سے دوچار ہوتی رہیں۔ انسان اپنی عقل سے ہزار توجیہات کرتا رہا ہے، مگر اللہ اصل حقیقت بتاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قوموں کی تباہی کے بنیادی اسباب صرف دو تھے :
  • ایک یہ کہ انھوں نے رسولوں کی بات ماننے سے انکار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور وہ خود ہی اپنے فلسفے گھڑ گھڑ کر ایک گمراہی سے دوسری گمراہی میں بھٹکتی چلی گئیں۔
  • دوسرے یہ کہ انہوں نے آخرت کے عقیدے کو بھی رد کردیا اور اپنے زعم میں یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ اس چیز نے ان کی پوری زندگی کو بگاڑ کر رکھ دیا اور ان کے اخلاق و کردار کی گندگی اس حد تک بڑھی کہ آخر کار اللہ کے عذاب نے آ کر دنیا کو ان کے وجود سے پاک کیا۔
  • تاریخ انسانی کے یہ دو سبق آموز حقائق بیان کر کے منکرین حق کو دعوت دی گئی کہ وہ ہوش میں آئیں اور اللہ اور اس کے رسول اور اس نور ہدایت (قرآن) پر ایمان لے آئیں ۔ اس کے ساتھ ان کو خبردار کیا گیاکہ وہ دن آنے والا ہے جب تمام اولین و آخرین ایک جگہ جمع کیے جائیں گے اور تم میں سے ہر ایک کا غبن سب کے سامنے کھل جائے گا۔ پھر اسی بنیاد پر تمھاری قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔پہلا گروہ ابدی جنت کا حق دار ہوگا اور دوسرے گروہ کے حصے میں دائمی جہنم آئے گی۔

اہلِ ایمان سے خطاب (۱۱۔۱۸):

  • اس کے بعد ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کو مخاطب کر کے چند اہم ہدایات انہیں دی جاتی ہیں :
  • ایک یہ کہ دنیا میں جو مصیبت بھی آتی ہے، اللہ کے اذن سے آتی ہے۔ ایسے میں جو شخص ایمان پر ثابت قدم رہے، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے۔ اگر گھبراہٹ یا جھنجلاہٹ میں مبتلا ہو کر جو آدمی ایمان کی راہ سے ہٹ جائے، اس کی مصیبت تو اللہ کے اذن کے بغیر دور نہیں ہو سکتی، البتہ وہ ایک اور مصیبت، جو سب سے بڑی مصیبت ہے، مول لے لیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا دل اللہ کی ہدایت سے محروم ہوجاتا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ مومن کا کام صرف ایمان لے آنا ہی نہیں ہے بلکہ ایمان لانے کے بعد اسے عملاً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرناہے۔
  • تیسرے یہ کہ مومن کا اعتماد اپنی طاقت یا دنیا کی کسی طاقت پر نہیں بلکہ صرف اللہ پر ہونا چاہیے۔
  • چوتھے یہ کہ مومن کے لیے اس کا مال اور اس کے اہل و عیال ایک بہت بڑی آزمائش ہیں کیونکہ زیادہ تر انہی کی محبت انسان کو ایمان وطاعت کی راہ سے منحرف کرتی ہے۔ لہٰذا اُنہیں اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے تاکہ یہ زر پرستی کے فتنوں سے محفوظ رہیں۔
  • پانچویں یہ کہ ہر انسان اپنی استطاعت کی حد تک ہی مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کرے۔ البتہ مومن کو جس بات کی کوشش کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اپنی حد تک اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنے میں وہ کوئی کسر اٹھا نہ رکھے ۔
  • سورۃ الطلاق:

سورۃ  طلاق ایک مدنی سورۃ ہے  جس میں طلاق کے مسائل آئے ہیں۔  حضرت عبداللہ مسعود ؓ اسے سورۃ النساء القصریٰ  (یعنی چھوٹی سورۃ النساء) بھی کہتے تھے۔

پیش آنے والا واقعہ (۱۔۳):

  • اس سورۃکے احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ہدایات کو پھر سے ذہن میں تازہ کر لیا جائے جو طلاق اور عدت کے متعلق اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہو چکی ہیں:
  1. ایک مرد زیادہ سے زیادہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے سکتا ہے ۔
  2. ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت گزر جانے کے بعد وہی مرد و عورت پھر نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اس کے لیے تحلیل کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ لیکن اگر مرد تین طلاق دے دے تو عدت کے اندر رجوع کا حق ساقط ہو جاتا ہے ، اور دوبارہ نکاح بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک عورت کا نکاح کسی اور مرد سے نہ ہو جائے اور وہ کبھی اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے دے ۔
  3. مدخولہ عورت، جس کو حیض آتا ہو، اس کی عدت طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض کا آنا ہے ۔ ایک  یا دو   طلاق کی صورت میں اس عدت کے معنی یہ ہیں کہ عورت ابھی تک اس شخص کی زوجیت میں ہے اور وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کر سکتا ہے ۔ لیکن اگر مرد تین طلاق دے چکا ہو تو یہ عدت رُجوع کی گنجائش کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اس لیے ہے کہ اس کے ختم ہونے سے پہلے عورت کسی اور شخص سے نکاح نہیں کر سکتی۔
  4. غیر مدخولہ عورت، جسے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے ، اس کے لیے کوئی عدت نہیں ہے ۔ وہ چاہے تو طلاق کے بعد فوراً نکاح کر سکتی ہے ۔
  5. جس عورت کا شوہر مر جائے اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے ۔
  • اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سورۃ طلاق ان قواعد میں سے کسی قاعدے کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے ، بلکہ دو مقاصد کے لیے نازل ہوئی ہے ۔
  • ایک یہ کہ مرد کو طلاق کا جو اختیار دیا گیا ہے اس استعمال کرنے کے ایسے حکیمانہ طریقے بتائے جائیں جن سے حتی الامکان علیٰحدگی کی نوبت نہ آنے پائے، اور علیٰحدگی ہو تو آخر میں جب موافقت کے سارے امکانات ختم ہو چکے ہوں۔ کیونکہ اللہ نے شریعت میں طلاق کی گنجائش صرف ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر رکھی گئی ہے ، ورنہ اللہ تعالیٰ اس بات کو سخت ناپسند فرماتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان جو ازدواجی تعلق قائم ہو چکا ہو وہ پھر کبھی ٹوٹ جائے ۔  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ’’ اللہ نے کسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا ہے جو طلاق سے بڑھ کر اسے ناپسند ہو‘‘(ابو داؤد)۔
  • دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورہ بقرۃکے احکام کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دے کر اسلام کے عائلی قانون کے اس شعبہ کی تکمیل کر دی جائے ۔ اس سلسلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن مدخولہ عورتوں کو حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، طلاق کی صورت میں ان کی عدت کیا ہو گی۔ اور جو عورت حاملہ ہو اسے اگر طلاق دے دی جائے یا اس کا شوہر مر جائے تو اس کی عدت کی مدت کیا ہے ۔ اور مختلف قسم کی مطلقہ عورتوں کے نفقہ اور سکونت کا انتظام کس طرح کیا جائے ۔
  • جن عورتوں کو حیض آنا بند ہوگیا ہو یا ابھی آنا شروع ہی نہ ہو، تو ایسی عورتوں کی عدت کی مدت تین مہینے ہے۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل  ہے۔
  • طلاق یافتہ حاملہ عورتوں کا نان و نفقہ شوہر پر اس وقت تک فرض ہے جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جاۓ۔   اور پھر وضع حمل  کے بعد اگر وہ بچے کو دودھ پلائیں بچے کا  باپ اُنھیں اُس کی اُجرت ادا کرے گا۔ اجرت کا معاملہ باہمی گفت و شنید سے طے کیا جائے گا۔
  • آخری رُکوع میں واضح کردیا گیا کہ اللہ کے احکامات سے روگردانی کرنے کے صلے میں پہلے بھی کئی لوگوں کو تباہی سے دوچار کیا اور اللہ پھر اس کا اعادہ کرسکتا ہے۔ پھر نتیجہ کے طورپر جہنم ان کا مقدر ہوگی۔   تمام قوانین و قواعد اللہ تعالیٰ اس لیے بیان کرتا ہے کیونکہ وہی اس کائنات کا خالق ہے اور وہی اس کے نظام کو صحیح خطوط پر قائم رکھ سکتا ہے۔

الحمد للہ آج 26 ویں تراویح کا خلاصہ  مکمل ہوا۔

 27 ویں تراویح کا  خلاصہ ان شاء اللہ کل۔  ہمارے ساتھ رہیے گا۔        جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ