خلاصہ تراویح 4 رمضان

  • آج چوتھی تراویح ہے اور اس میں سورۃ النساء کے اکثر حصے کی تلاوت کی جائے گی۔
  • جس زمانے میں یہ سورۃ نازل ہوئی اس میں ایک تو نئی منظم اسلامی سوسائٹی کی نشو نما تھی جس میں جاہلیت کے پرانے طریقوں کو مٹا کر اخلاق، تمدن، معاشرت، معیشت اور تدبیر مملکت کے نئے اصول رائج کیے جارہے تھے۔ اسلامی سوسائٹی کی تنظیم کے لیے سورة بقرہ میں جو ہدایات دی گئیں، اب یہ سوسائٹی ان سے زائد کی طالب تھی۔
  • دوسرے اس کشمکش کا مقابلہ جو مشرکین عرب، یہودی قبائل اور منافقین کی مخالف اصلاح طاقتوں کے ساتھ پوری شدت سے جاری تھی۔
  • تیسرے اسلام کی دعوت کو ان مزاحم طاقتوں کے علی الرغم پھیلانا اور مزید دلوں اور دماغوں کو مسخر کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس موقع پر جتنے خطبے نازل کیے گئے وہ سب انہی تین شعبوں سے متعلق تھے۔
  • اس سورۃ میں تفصیلاً خاندان کی تنظیم کےدرجِ ذیل اُصول بتائے گئے۔

 

  • نکاح پر پابندیاں عائد کی گئیں۔
  • معاشرے میں عورت اور مرد کے تعلقات کی حد بندی کی گئی۔
  • یتیموں کے حقوق متعین کیے گئے۔
  • وراثت کی تقسیم کا ضابطہ مقرر کیا گیا۔
  • معاشی معاملات کی درستی کے متعلق ہدایات دی گئیں۔
  • خانگی جھگڑوں کی اصلاح کا طریقہ سکھایا گیا۔
  • تعزیری قانون کی بنا ڈالی گئی۔
  • شراب نوشی پر پابندی عائد کی گئی۔
  • مسلمانوں کے اندر جماعتی نظم و ضبط (ڈسپلن) قائم کرنے کے متعلق ہدایات دی گئیں۔
  • طہارت و پاکیزگی کے احکام دیے گئے۔ (تیمم کی اجازت اور طریقہ)
  • قصر نماز اور صلاۃ الخوف کا تذکرہ
  • مدینہ میں منافق اور ضعیف الایمان لوگ ہر قسم کی خوفناک خبریں اڑا کر بدحواسی پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ حکم دیا گیا کہ ہر ایسی خبر ذمہ دار لوگوں تک پہنچائی جائے اور جب تک وہ کسی خبر کی تحقیق نہ کرلیں اس کی اشاعت کو روکا جائے۔
  • عرب کے مختلف علاقوں میں جو مسلمان کافر قبیلوں کے درمیان منتشر تھے اور بسا اوقات جنگ کی لپیٹ میں بھی آجاتے تھے ان کا معاملہ مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن تھا۔ اس مسئلہ میں ایک طرف اسلامی جماعت کو تفصیلی ہدایات دی گئیں اور دوسری طرف ان مسلمانوں کو بھی ہجرت پر ابھارا گیا تاکہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر دارالاسلام میں آجائیں۔
  • منافقین کے مختلف گروہ مختلف طرز عمل رکھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس قسم کے منافقوں سے کیا معاملہ کریں۔ ان سب کو الگ الگ طبقوں میں تقسیم کر کے ہر طبقہ کے منافقوں کے متعلق بتادیا گیا کہ ان کے ساتھ یہ برتاؤ ہونا چاہیے۔
  • غیر جانبدار معاہد قبائل کے ساتھ جو رویہ مسلمانوں کا ہونا چاہیے تھا اس کو بھی واضح کیا گیا۔
  • سب سے زیادہ اہم چیزیہ تھی کہ مسلمان کا اپنا کردار بےداغ ہو کیونکہ اس کشمکش میں یہ مٹھی بھر جماعت اگر جیت سکتی تھی تو اپنے اخلاق فاضلہ ہی کے زور سے جیت سکتی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کو بلند ترین اخلاقیات کی تعلیم دی گئی اور جو کمزوری بھی ان کی جماعت میں ظاہر ہوئی اس پر سخت گرفت کی گئی۔
  • دعوت و تبلیغ کا پہلو بھی اس سورة میں چھوٹنے نہیں پایا ہے۔
  • چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں، اس لیے تمہید اس طرح باندھی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں۔
  • آیت نمبر (۱) میں کہا گیا کہ” تم کو ایک جان سے پیدا کیا “ یعنی نوع انسانی کی تخلیق ابتداءً ایک فرد سے کی۔ دوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدم تھا جس سے دنیا میں نسل انسانی پھیلی۔
  • ” اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا “ ، اور ان سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیے۔
  • آیت نمبر ۲ سے ۶ یتیموں کے حقوق کے بارے میں ہیں، جس میں یتیموں کی سرپرستی اور ان سے محبت کی پُر زور تلقین کی گئی ہے۔ ان کے مال کی حفاظت، اس میں پوری دیانتداری کا اہتمام اور مال کو معروف انداز میں نشونما دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔  یتیم کا مال کھانے کو اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
  • تعداد ازواج: تعدد ازواج کی اجازت دی گئی ہے، جس کی تحدید چار تک کردی گئی ہے۔  تعدد  ازواج کی اجازت سے خاص حالات مین استفادہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے ازواج کے درمیان عدل و انصاف لازمی شرط ہے۔
  • وراثت: آیت نمبر ۱۲ تا ۱۴ وراثت کے اُصول و ضوابط کے بارے میں ہے۔  اس میں میراث پانے والے تمام ورثا کا تذکرہ ہے اور انکے حصے بھی متعین کیے گئے ہیں۔  خواتین کو انسانی تاریخ میں پہلی بار وراثت کا قانونی حق دیا گیا ہے۔
  • تقسیمِ وراثت کے حوالے سےیہ اُصول بھی بیان کیا گیا کہ فوت ہونے والے شخص کے ترکے میں سے سب سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا، پھر جو وصیت میت نے کی جو کہ ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہے، وہ پوری کی جائے گی اور اسکے بعد جو بچے گا اُس کو ورثا میں تقسیم کیا جائے گا۔ 
  • عورتوں کا مہر: اگلی آیات میں عورتوں سے متعلق احکامات ہیں جن میں انکے مہر کا ذکر بھی ہے جسے فرض قرار دیا گیا ہے۔  اور یہ بھی کہ مہر ایک بار دے دینے کے بعد واپس لینا جائز نہیں۔
  • محرّمات: آیت نمبر ۲۲ سے ۲۶ تک اُن خواتین کی فہرست مرتب کردی گئی ہے جن سے نکاح حرام ہے۔ یہ بھی جتا دیا گیا کہ اسلام میں خفیہ تعلقات اور چوری چھپے نکاح کی کوئی گنجائش نہیں۔
  • شوہر اور بیوی کا مقام: آیت نمبر ۳۴ میں مردوں کو گھر کا قوام یا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔  معاشی ذمہ داریاں سب کی سب مرد پر ڈال دی گئی ہیں اور عورت کو خاوند کی امانتوں کی حفاظت کرنے، نیز گھریلو معاملات کی دیکھ بھال اور تنظیم و تنسیق کی ذمہ داری سونپی گئی۔  میاں بیوی کے درمیان اختلاف اور تنازع پیدا ہونے کی صورت میں معاملے کو عدالتوں کے بجائے دونوں خاندانوں کے بزرگوں کو مداخلت کرکے گھر کے اندر ہی مصالحت کروانے کی ہدایت دی گئی ہے۔
  • تیمم: آیت نمبر ۴۳ میں نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جانے کا حکم دیا گیا ہے اور اسکے بعد تیمم کے مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔  تیمم کا یہ حکم غزوۃ بنی المصطلق کے موقع پر دیا گیا تھا، جب کہ پانی دستیاب نہیں تھا۔  تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ہاتھ مٹی یا اس جیسی کسی دوسری چیز پر مارے اور پھر اپنے پورے چہرے پر مسح کرے اور دوسری دفعہ ہاتھ مٹی  پر یا اس جیسی کسی چیز پر مارے اور دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کرے۔  تیمم پانی نہ ملنے کی صورت میں بھی کیا جاسکتا ہے اور کسی وجہ سے پانی کا استعمال مضرِ صحت ہونے کی صورت میں بھی۔  تیمم سے وضو بھی ہو جاتا ہے اور غسلِ واجب کی ضرورت ہو تو انسان پاک ہوجاتا ہے۔
  • اہلِ کتاب: آیت نمبر ۴۴ سے ۵۵ تک اہلِ کتاب خصوصاً یہودیوں کی بدعنوانیوں اور اللہ کی کتاب میں تحریف کا تذکرہ کرنے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے خلاف ان کی زہر افشانیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
  • اطاعت اور اس کی حدود:             آیت نمبر ۵۹ میں ایمان والوں کو اللہ اور اسکے رسول اور اُن میں موجود صاحبِ امر افراد کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔  لیکن یہ اطاعت اللہ اور اسکے رسول کی تو غیر مشروط ہوگی تاہم اولی الامر کی اطاعت کے لیے شرط رکھی گئی ہے کہ ان کا حکم اللہ اور اُس  رسول کے احکامات کے متصادم نہ ہو۔  اگر وہ ایسا کریں تو انکی اطاعت جائز نہیں۔  دونوں فریقین کے درمیان تنازع پیدا ہونے کی صورت میں معاملہ اللہ اور اسکے رسول کے احکامات کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔
  • طاغوت: آیت نمبر ۶۰ میں ایک لطیف نکتہ اُٹھایا گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہنے کو تو ایمان لانے کا دعویٰ  کرتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ طاغوت سے کرائیں۔  حالانکہ طاغوت انھیں کفر کا حکم دیتا ہے۔     طاغوت سے مراد ہر وہ قوت، ہر وہ شخصیت، ہر وہ ادارہ،  ہر وہ منصب جو اللہ اور اسکےرسولﷺکے  حکم کے آگے تاویلیں تلاش کرے اور کوئی نیا حل پیش کرے۔
  • دار الاسلام اور دارالکفر:             آیت نمبر ۸۸ سے ۹۱ تک پھر آیت نمبر ۹۷ سے ۹۸ تک ایسے لوگوں پر تنقید کی گئی ہے کہ جو دالاسلام قائم ہوجانے کے بعد بھی دارلکفر میں بغیر شرعی عذر رہ رہے تھے۔  اس سے معلوم ہوا کہ جب اہلِ اسلام پر عرصۂ حیات تنگ کردیا جائےاور انکے لیے اپنے دین پر قائم رہنا مشکل ہوجائے توشرعی عذر کے بغیر ہجرت واجب ہوجاتی ہے۔  اور دوسری طرف اسلامی ریاست کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے افراد کی ہر طرح مدد کرے۔
  • مومن کا قتل اور قتلِ خطاء: آیت نمبر ۹۲ تا ۹۳ میں قتلِ خطا کے بارے میں کفارہ کے احکام ہیں۔  قتلِ خطا وہ جو قصداً نہ کیا گیا ہو ۔  اور قصداً قتل کرنے والے کے بارے میں اللہ کے غضب اور لعنت کی وعید سنائی گئی ہے۔
  • نمازِقصر و صلوٰۃ الخوف: آیت نمبر ۱۰۱ سے ۱۰۳ تک قصر نماز اور صلوٰۃ الخوف کا ذکر کیا گیا ہے۔ زمانہ امن کے سفر میں قصر یہ ہے کہ جن اوقات کی نماز میں چار رکعتیں فرض ہیں ان میں دو رکعتیں پڑھی جائیں۔  تاہم سفر کے دوران نبی کریم ﷺ فجر کی سنتوں اور عشاء کے وتر کا اہتمام فرماتے تھے۔
  • حالت جنگ میں قصر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جنگی حالات جس طرح بھی اجازت دیں، نماز پڑھی جائے۔
  • جماعت کا موقع ہو تو جماعت سے پڑھو ورنہ فرداً فرداً ہی سہی۔
  • قبلہ رخ نہ ہو سکتے ہو تو جدھر بھی رخ ہو۔
  • سواری پر بیٹھے ہوئے اور چلتے ہوئے بھی پڑھ سکتے ہو۔
  • رکوع و سجدہ ممکن نہ ہو تو اشارہ ہی سے سہی۔
  • ضرورت پڑے تو نماز ہی کی حالت میں چل بھی سکتے ہو۔ کپڑوں کو خون لگا ہوا ہو تب بھی مضائقہ نہیں۔
  • ان سب آسانیوں کے باوجود اگر ایسی پرخطر حالت ہو کہ کسی طرح نماز نہ پڑھی جاسکے تو مجبوراً موخر کی جائے جیسے جنگ خندق کے موقع پر ہوا۔
  • آیت نمبر ۱۰۷ سے ۱۱۵ تک منافقین کا تذکرہ ہے اور انھیں جہنم کے نچلے ترین درجے میں رکھنے کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
  • آیت نمبر ۱۱۶ سے ۱۲۶ تک توحید باری تعالیٰ کا بیان ہے اور اللہ کا اعلان کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے ، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔(116)
  • آیت نمبر ۱۲۷ سے ۱۳۰ تک پھر بیویوں کے حقوق کے بارے میں پھر ایک باب باندھا گیا ہے۔
  • اہم ہدایت: پانچویں پارے کے آخر میں اللہ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ایسی مجلسوں میں بیٹھنا، جہاں اللہ کی آیات کے خلاف ہرزہ سرائی کی جارہی ہو، اہلِ ایمان کے شایانِ شان نہیں۔ ایسی مجالس میں شرکت حرام ہے۔  آج کے دور میں ان آیات کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے جہاں شیطان ہر طرف ننگا ناچ ناچ رہا ہے۔