خلاصہ تراویح 5 رمضان

  • آج پانچویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ النساء کا آخری چوتھائی حصہ اور سورۃ مائدہ پوری شامل ہے۔
  • سورۃ النساء کا آج پڑھا جانے والا حصہ زیادہ تر اہل کتاب سے متعلق ہے۔ تاہم اس کے آغاز میں اہلِ ایمان کو ظلم و ستم کے ماحول میں جرأت و استقامت اختیار کرنے اور اپنی اخلاقی برتری کو قائم رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
  • آیت نمبر ۱۵۳ تا ۱۵۵ میں حضورﷺ کے خلاف اہلِ کتاب کی ریشہ دوانیوں کا تذکرہ کرکے آپ کو تسلی دلائی گئی ہے کہ آپؐ انکی شرارتوں پر دل گرفتہ نہ ہوں۔ اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام  جن سے اہلِ کتاب محبت و عقیدت کے دعوے کرتے ہیں، آپؐ سے زیادہ اس قوم کی اذیتوں کا شکار ہوئے۔
  • آیت نمبر ۱۵۶ تا ۱۵۸ میں ذکر ملتا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰؑ کو قتل کرنےکی کوشش کی لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انھیں آسمان پر اُٹھا لیا۔ اس پر بھی وہ فخر سے کہتے رہے کہ ہم نے عیسیٰؑ کو قتل کردیا۔  
  • آیت ۱۷۱ تا ۱۷۲ میں عیسائیوں کے اُس عقیدے کی نفی کی گئی ہے جس کی رو سے وہ تثلیث یعنی ۳ معبودوں کا شکار ہوئے۔
  • سورۃ المائدہ ایک مکی سورۃ ہے اور یہ صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔
  • یہ وہ وقت تھا جب اسلامی اصول اور نقطہ نظر کے مطابق مسلمانوں کی اپنی ایک مستقل تہذیب بن چکی تھی جو زندگی کی تمام تفصیلات میں دوسروں سے الگ اپنی ایک امتیازی شان رکھتی تھی۔
  • اخلاق، معاشرت، تمدن، ہر چیز میں اب مسلمان غیر مسلموں سے بالکل ممیز تھے۔
  • تمام اسلامی مقبوضات میں مساجد اور نماز باجماعت کا نظم قائم ہوگیا تھا۔ ہر بستی اور ہر قبیلے میں امام مقرر تھے۔ اسلامی قوانین دیوانی و فوجداری بڑی حد تک تفصیل کے ساتھ بن چکے تھے اور اپنی عدالتوں کے ذریعہ سے نافذ کیے جا رہے تھے۔
  • لین دین اور خریدو فروخت کے پرانے معاملات بند اور نئے اصلاح شدہ طریقے رائج ہوچکے تھے۔ وراثت کا مستقل ضابطہ بن گیا تھا۔ نکاح اور طلاق کے قوانین، پردہ شرعی اور استیذان کے احکام، اور زنا و قذف کی سزائیں جاری ہونے سے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی ایک خاص سانچے میں ڈھل گئی تھی۔
  • مسلمانوں کی نشست و برخاست، بول چال، کھانے پینے، وضع قطع اور رہنے سہنے کے طریقے تک اپنی ایک مستقل شکل اختیار کرچکے تھے۔
  • صلح حدیبیہ سے پہلے مسلمانوں کے راستہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ وہ کفار قریش کے ساتھ ایک مسلسل کشمکش میں الجھے ہوئے تھے اور انہیں اپنی دعوت کا دائرہ وسیع کرنے کی مہلت نہ ملتی تھی۔ اس رکاوٹ کو حدیبیہ کی ظاہری شکست اور حقیقی فتح نے دور کردیا۔ اس سے ان کو نہ صرف یہ کہ اپنی ریاست کے حدود میں امن میسر آگیا، بلکہ اتنی مہلت بھی مل گئ کہ گردوپیش کے علاقوں میں اسلام کی دعوت کے لے کر پھیل جائیں۔ چنانچہ اس کا افتتاح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایران، روم، مصر اور عرب کے بادشاہوں اور رئیسوں کو خطوط لکھ کر کیا اور اس کے ساتھ ہی قبیلوں اور قوموں میں مسلمانوں کے داعی خدا کے بندوں کو اسکے دین کی طرف بلانے کے لیے پھیل گئے۔
  • صلح حدیبیہ سے پہلے مسلمانوں کے راستہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ وہ کفار قریش کے ساتھ ایک مسلسل کشمکش میں الجھے ہوئے تھے اور انہیں اپنی دعوت کا دائرہ وسیع کرنے کی مہلت نہ ملتی تھی۔ اس رکاوٹ کو حدیبیہ کی ظاہری شکست اور حقیقی فتح نے دور کردیا۔
  • اس فتح سے ان کو نہ صرف یہ کہ اپنی ریاست کے حدود میں امن میسر آگیا، بلکہ اتنی مہلت بھی مل گئ کہ گردوپیش کے علاقوں میں اسلام کی دعوت کے لئے پھیل جائیں۔ چنانچہ اس کا افتتاح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایران، روم، مصر اور عرب کے بادشاہوں اور رئیسوں کو خطوط لکھ کر کیا اور اس کے ساتھ ہی قبیلوں اور قوموں میں مسلمانوں کے داعی خدا کے بندوں کو اسکے دین کی طرف بلانے کے لیے پھیل گئے۔
  • اس سورۃ میں درجِ ذیل مسائل و احکام کا احاطہ کیا گیا ہے:
  • مسلمانوں کے مذہبی، تمدنی اور سیاسی زندگی کے متعلق مزید احکام و ہدایات۔
  • اس سلسلہ میں سفر حج کے آداب مقرر کیے گئے، شعائر اللہ کے احترام اور زائرین کعبہ سے عدم تعرض کا حکم دیا گیا
  • کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کے قطعی حدود قائم کیے گئے اور دور جاہلیت کی خود ساختہ بندشوں کو توڑ دیا گیا
  • اہل کتاب کے ساتھ کھانے پینے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی
  • وضو اور غسل اور تیمم کے قاعدے مقرر کیے گئے
  • بغاوت اور فساد اور سرقہ کی سزائیں معین کی گئیں
  • شراب اور جوئے کو قطعی حرام کردیا گیا
  • قسم توڑنے کا کفارہ مقرر کیا گیا
  • قانون شہادت میں مزید چند دفعات کا اضافہ کیا گیا۔
  • مسلمانوں کو نصیحت۔ اب چونکہ مسلمان ایک حکمران گروہ بن چکے تھے، ان کے ہاتھ میں طاقت تھی، جس کا نشہ قوموں کے لیے اکثر گمراہی کا سبب بنتا رہا ہے، مظلومی کا دورخاتمہ پر تھا اور اس سے زیادہ سخت آزمائش کے دور میں وہ قدم رکھ رہے تھے، اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے بار بار نصیحت کی گئی کہ عدل پر قائم رہیں، اپنے پیش رو اہل کتاب کی روش سے بچیں، اللہ کی اطاعت و فرماں برداری اور اس کے احکام کی پیروی کا جو عہد انہوں نے کیا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
  • یہودیوں اور عیسائیوں کو نصیحت۔ یہودیوں کا زور اب ٹوٹ چکا تھا اور شمالی عرب کے تقریبًا تمام یہودی بستیاں مسلمانوں کے زیر نگیں آگئی تھیں۔ اس موقع پر ان کو ایک بار پھر ان کے غلط رویہ پر متنبہ کیا گیا ہے اور انہیں راہ راست پر آنے کی دعوت دی گئی ہے۔
  • عیسائیوں کو بھی خطاب کر کے ان کے عقائد کی غلطیاں بتائی گئیں اور انہیں  ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔
  • آیت نمبر ۱ تا ۵ میں ایک اہم اخلاقی تعلیم دی گئی ہے اور وہ یہ کہ ایمان والو اللہ کی طرف سے قائم کردہ حدود و قیود کی پابندی کرو اور شعائر اللہ کی بے حرمتی مت کرنا۔ انہی آیات میں حلال و حرام کی تفصیل بیان کردی گئی ہے۔  ان ہی آیات میں اہلِ کتاب کی خواتین کے ساتھ نکاح کو حلال کیا گیا ہے۔  لیکن یاد رہے کہ مسلمان عورتوں کو اہلِ کتاب کے مردوں سے شادی کرنا جائز نہیں کیا گیا ہے۔
  • طہارت: آیت نمبر ۶ میں وضو کا طریقہ اور جنابت کی حالت میں غسل کا حکم وضو کو توڑنے والی وجوہات کا ذکر دیا گیا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی یاد دہانی کرائی گئی ہے جس کا حکم پہلے ہی سورۃ النساء میں آچکا ہے۔
  • اللہ کے پھٹکارے ہوئے: آیت نمبر۱۲ تا ۱۹ یہود و نصاریٰ کی بد عہدیاں اور اس کے نتیجے میں انسانی معاشروں میں رونما ہونے والے برے اثرات کا دلنشین انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے۔  انھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا اور راہِ راست پر چلنے کے نتیجے میں اللہ نے انھیں اپنی نصرت کا یقین دلایا تھا۔   لیکن انھوں نے راہِ راست کو چھوڑ دیاتو پھر اللہ نے ان پر پھٹکار کی ۔  وہی ان آیات میں بیان کی گئی ہے۔
  • تاریخی واقعہ: آیت نمبر ۱۹ تا ۲۶ میں اُس تاریخی واقعہ کا ذکر ہے کہ جب  اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرقِ آب کردیا اور بنی اسرائیل کو نجات دی۔  اسکے بعد موسیٰ   ؑاور ہارون ؑانھیں فلسطین کی طرف لے گئے تو انھوں وہاں بسنے والے بنی عمالقہ کے خوف سے داخل ہونے سے صاف انکار کردیا اور جہاد سے منہ موڑ کر موسیٰ اور ھارونؑ کو کہا کہ تم اور تمھارا خدا لڑے ہم نہیں لڑسکتے۔  تو اللہ انھیں ۴۰ سال تک بھٹکنے کے لیے اسی وادی میں چھوڑ دیا۔  جب یہ ساری نسل مر کھپ گئی تو نئی نسل کے افراد نے فلسطین فتح کیا۔
  • انسانیت کا پہلا قتل: آیت نمبر۲۷ تا ۳۱ میں آدمؑ کے دو بیٹوں کا ذکر ہے جب ان میں سے ایک نے اپنے ہی بھائی کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا اور یہ انسانی تاریخ کا پہلا قتل تھا۔ پھر ایک کوّے نے زمین کھود کر اسے بتایا کہ لاش کا کیا کرنا ہے۔  اس سے اگلی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ نے واضح بتادیا کہ ایک انسان کا بلا وجہ قتل کرنا پوری انسانیت کا قتل کرنا ہے۔
  • فساد و غارت گری: آیت نمبر۳۳ میں اللہ نے اپنے رسولؐ سے متحارب قوتوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ قوتیں زمین میں فساد پھیلاتی ہیں، قتل و غارت گری، ڈاکے  ان کا وطیرہ بن جاتا ہے۔  ان کی سزابھی بیان کی گئی ہے کہ ان کے جرم کے مطابق انھیں قتل کی سزا بھی دی جاسکتی ہے، سولی پر چڑھائے جاسکتے ہیں۔  ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کاٹ ڈالے جاسکتے ہیں اور انھیں جلا وطنی کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔  یہ سزائیں کوئی فرد یا گروہ نہیں دے گا بلکہ اسلامی عدالت و نظام نافذ کرے گا۔
  • چوری کی سزا: آیت نمبر۳۸  میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا بطورِ حد قرار دیا گیا ہے۔  لیکن احادیث میں آتا ہے کہ چھوٹی موٹی چوری مثلاً پھل، ترکاری اور کوئی اور کھانے کی چیز، پرندے کی چوری وغیرہ پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اسی طرح خیانت کرنےوالے کا ہاتھ بھی نہیں کاٹا جائے گا اور نہ ہی بیت المال سے چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔  لیکن ان چوریوں پر دیگر سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
  • جان کے بدلے جان: اللہ کے ہر نبی کی شریعت میں حدود کے قوانین بیان فرمائے گئے ہیں۔ آیت ۴۵ میں بطورِ خاص اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت ، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ مقرر کیا گیا۔  ان قوانین کو نافذ کرنا اسلامی ریاست کا کام ہے اور جو ریاست اس میں حیلے بہانے یا ہٹ دھرمی سے کام لے تو پھر اس کےلیے اعلان کردیا گیا کہ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔
  • یہودیوں کی تصویر: آیت نمبر۵۸  میں یہودیوں کی اُس حرکت کے بارے میں بتایا گیا کہ نماز، اذان اور دیگر شعائرِ اسلامی کا مذاق اُڑاتے ہیں۔  انھوں نے تو خود اپنی کتابوں کو چھوڑ دیا کہ وہ جو پابندیاں عائد کرتی ہیں، ان کے ساتھ مادی مفادات، ناجائز کمائی اور مادی ترقی کیسے کریں گے۔  اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ تورات و انجیل اور دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کے رب کی طرف سے بھیجی گئی تھیں تو آسمان سے بھی ان پر رزق برستا اور زمین بھی خزانے اُگلتی۔ 
  • حقِ تبلیغ: آیت نمبر ۶۷ میں حضورﷺ کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ اے پیغمبر ﷺ ، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اس ضمن میں آپ کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود لے لی ہے۔
  • قسم توڑنے کا کفارہ: آیت نمبر ۸۹ میں قسم توڑنے کا کفارہ بتایا گیا ہے کہ
    • دس مسکینوں کو ویسا کھانا کھلائے جو اپنے اہلِ خانہ کو کھلاتا ہے یا 
    • انھیں کپڑے پہنائے یا
    • ایک غلام کو آزاد کرے اور
    • جو اسکی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ تین دن روزے رکھے۔
  • شراب اور جوئے کی حرمت: سورۃ البقرہ اور سورۃ النساء میں  بتایا گیا تھا کہ شراب اور جواء اچھی چیزیں نہیں ہیں اور شیطانی کام ہیں۔  تاہم یہاں آیت نمبر۹۰ اور ۹۱ میں انھیں  قطعی طور پر حرام کردیا گیا۔

آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا! اللہ نے لعنت فرمائی ہے ، اس کے پینے اور پلانے والے پر، بیچنے اور خریدنے والے پر، تیار کرنے اور کرانے والے پر، اس کو ٹرانسپورٹ کرنے اور کرانے والے سب پر۔

  • احرام کےمسائل: آیت نمبر ۹۵ اور ۹۶ میں احرام اور اس کے مسائل بتائے گئے ہیں۔ نیز یہ بھی کہ احرام کی حالت میں خشکی کا شکار منع ہے جبکہ سمندر میں شکار کیا جاسکتا ہے۔
  • کثرتِ سوال : آیت نمبر ۱۰۱ اور ۱۰۲ میں غیر ضروری سوالات سے منع کیا گیا ہے۔ علم حاصل کرنے اور اپنی اصلاح کےلیے سوال کرنا تو مطلوب ہے لیکن محض سوال برائے سوال درست نہیں۔
  • گواہی کا نصاب: آیت ۱۰۶ تا ۱۰۸میں شہادت کا نصاب بتایا گیا ہے کہ دو صاحب عدل آدمی کسی معاملہ پر گواہ بنائے جائیں۔
  • قیامت کے دن انبیاء سے سوال: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام انبیاء سے سوال کریں گے کہ جن کی امتوں نے کج روی  اور ضلالت اختیار کی ہوگی۔   خصوصاً حضرت عیسیٰؑ کا ذکر ہے۔  تمام انبیاء بشمول عیسیٰؑ اس سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔
  • اختتام: سورۃ کا آغاز حدود کی پابندی سے ہوا  اور سورۃ کے آخر میں قیامت کے روز انسانوں کا فیصلہ سناتے ہوئے اللہ نے یہ میعار پیش کیا ہے کہ اس روز سچوں کو ان کی سچائی نفع دے گی۔ حدود کی پابندی کرنے والوں سے اللہ راضی ہوگا اور اجر ملنے پر وہ اللہ سے خوش ہونگے۔