خلاصہ تراویح 8 رمضان

  • آج آٹھویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ الانفال مکمل اور سورۃ التوبہ کی ۹۳ آیات پڑھی جائیں گی۔
  • سورۃ انفال مدنی سورۃ ہے۔ انفال سے مراد مالِ غنیمت ہے۔  یہ پوری جنگِ بدر کے منظر، پیش منظر اور پس منظرکو بیان کرتی ہے۔  جو کہ کفر و اسلام کی پہلی جنگ تھی اور اس میں مسلمانوں کو قابلِ ذکر مالِ غنیمت حاصل ہوا تھا۔ اس جنگ میں مشرکینِ کی تعداد ۱۰۰۰ تھی جو کہ اسلحہ و سازو سامان سے لیس تھے جبکہ مسلمان کُل ۳۱۳ تھے اور نہتے تھے۔
  • نبیؐ کی دُعا: ۱۷ رمضان المبارک ۲ ہجری کو بدر کا میدان سجا، اس سے پہلی رات آنحضورؐ سجدہ ریز ہو کر رو رو کر دُعا مانگتے رہے۔  آپ نے اللہ سے کہاکہ اے اللہ! یہ کفار سارے سازو سامان سے لیس تیرے دین کو مٹانے آئے ہیں اور اس کو بچانے کے لیے میں نے تیرے سامنے ۳۱۳ ہیرے پیش کردیے ہیں۔  پس تیری نصرت کا طالب ہوں جس کا تو نے وعدہ کیا ہے، اگر ایسا نہ ہوا اور یہ قیمتی ہیرے خاک میں مل گئے تو زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔  آپ کی آنکھیں برس رہیں تھیں اور کاندھے سے بار بار چادر گے جارہی تھی، جسے صدیقِ اکبر کاندھے پر رکھتے۔
  • مالِ غنیمت کی تقسیم: اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کو سورۃ کے شروع میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ملکیت قرار دیا۔  آیت نمبر 41 میں اپنی رحمتِ بے پایاں کا اظہار کرتے ہوئے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور اُس کے رسول کے نام محفوظ کرنے بعد 80% غازیوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا۔  جو نبیؐ کے  رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کیا جائے گا۔
  • ایک گروہ تمھارا: یہ ایک موقع تھا کہ ایک جانب قریش کا تجارتی قافلہ تھا جس کے پاس بے بہا قیمتی سامان تھا تو دوسری جانب قریش کا لشکر جنوب سے اُمڈ ا چلا آرہا تھا، جس کی قوت و شوکت سے سرزمینِ عرب مرعوب تھی۔  ایسے میں نبیؐ نے صحابہؓ سے مشاورت کی تھی۔  ظاہر ہے قافلہ پر قبضہ آسان تھا لیکن اللہ چاہتا تھا کہ اس موقع پر حق کو حق کردکھایا جائےاور باطل ، باطل ہو کر رہ جائے۔  اسی کیفیت کو آیت نمبر 7 اور 8میں بیان کیا گیا ہے۔
  • ایک ہزار فرشتوں کا لشکر: جنگ شروع ہونے سے پہلی والی رات رسول اللہ ﷺ کی گریہ و زاری کا ذکر ہم نے اوپر کیا۔  رسول اللہ ﷺ کے روئے جانے پر ابوبکرصدیقؓ کے بقول اپنے آقاکی یہ حالت دیکھ کر اُن کا کلیجہ منہ کو آنے لگا اور عرض گزار ہوئےیا رسول اللہ! اب بس کیجئے رسول اللہ یہ درخواست سن کر خاموش ہوگئے۔  اسی لمحے جبرائیل آگئے اور انھوں نے آنحضورﷺ کو خوشخبری دی اور آپؐ نے ابوبکرؓ کو بشارت دی۔  اس میں اللہ نے آپؐ سے ہزار فرشتوں کا لشکر مسلمانوں کی مدد کےلے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔  اس کا ذکر آیت نمبر 9 اور 10 میں ملتا ہے۔
  • آیت نمبر 15 تا 16 میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب کفار سے مڈ بھَیڑ ہو تو کبھی منہ نہ پھیرنا اور پیٹھ نہ دکھانا۔
  • کفار کی دُعاکا جواب: مشرکینِ مکہ جب مکہ سے روانہ ہوئے تھے تو ابوجہل نے خانہ کعبہ کے پردے سے لپٹ کر کامیابی کی دُعا مانگی تھی آیت نمبر 19 اللہ نے اسی کا جواب دیا ہے کہ اگرتم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا۔ اب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہترہے، ورنہ پھر پلٹ کر اُسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اس سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیّت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی۔ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے”۔
  • جنگی قیدی: کفار کی شکستِ فاش کے بعد آنحضورؐ نے بھاگتے ہوئے کفار کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔  جب کوئی گرفتار ہوجائے تو اسکی جان محترم ہوجاتی ہے اور تمام انسانی حقوق محفوظ ہوجاتے ہیں اور انکی ادائیگی اسلامی حکومت پر فرض ہوجاتی ہے۔   چنانچہ آیت نمبر 67 تا 69 میں بیان فرمایا! کہ حالتِ جنگ میں قیدی بنانا درست فعل نہیں  بلکہ جنگ کے دوران دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل دینا ضروری ہے۔  چونکہ یہ پہلا موقع تھا اور اللہ کے اِس اُصول کا پہلے سے علم نہیں تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف آئندہ نہ کرنے کی تنبیہ کرکے معافی کا اعلان بھی ان ہی آیات میں کردیا۔
  • سورۃ التوبہ: سورۃ التوبہ کا ایک نام سورۃ البرأۃ بھی ہے۔  یہ قرآن کی واحد سورۃ ہے جس کا آغاز بسم اللہ سے نہیں ہوتا۔   جسکی متعدد وجوہات مفسرین بیان کرتے ہیں۔ امام رازی ؒ لکھتے ہیں  کہ نبیؐ نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی  اس لیے صحابہؓ نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے۔ یہ  ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبیؐ سے جوں کا توں لینے اور جیسا دیا گیا تھا ویسا ہی اس کو محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔
  • مشرکین اور اعلانِ برأت: ۸ھ میں مکہ فتح ہوگیا تھا۔ بیش تر لوگ اسلام میں داخل ہوگئے تھے لیکن کئی افراد اور قبائل اب بھی اپنی پرانی ڈگر پر قائم تھے۔
  • لہٰذا مشرکین سے جو معاہدے ہوئے تھے ان سے براءت کا اعلان کیا گیا اور انھیں ۴ مہینے کی مہلت دی گئی کہ یا تو اسلام میں داخل ہوجائیں یا اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے حدودِ حرم سے باہر جابسیں ان پر تبدیلیٔ مذہب کےلیے کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی لیکن انھیں مسلم حکومت کے قوانین کی پابندی کرنی ہوگی۔
  • ۸ اور ۹ ذوالحجہ کو کافروں اور مسلمانوں نے اپنے اپنے طریقے کے مطابق کیے۔ ۹ ھ کے حج کے موقع پر  مشرکین کو حج بیت اللہ تعالیٰ سے منع کردیا گیا۔
  • غزوۂ حنین: آیت نمبر 25 میں غزوۂ حنین کا ذکر کیا گیا ہے شوال سن ٨ ھجری میں  مکہ اور طائف کے درمیان وادی حنین میں پیش آیا تھا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کی طرف سے ١٢ ہزار فوج تھی اور دوسری طرف کفار بہت کم تھے۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے مسلمانوں کا منہ پھیر دیا اور لشکر اسلامی بری طرح ت پسپا ہوا۔ اس وقت صرف نبیؐ اور چند صحابہؓ تھے جن کے قدم اپنی جگہ جمے رہے اور اسی ثابت قدمی سے دوبارہ فوج کی ترتیب قائم ہوسکی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی۔ ورنہ فتح مکہ سے جو کچھ حاصل ہوا تھا اس سے بہت زیادہ حنین میں کھو دینا پڑتا۔
  • مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز: منافقوں اور مسلمانوں میں امتیاز کرنے والی بنیادی چیز غزوۂ تبوک بنی، رومیوں کے ساتھ مقابلہ جو وقت کے سپر پاور تھے اور شدید گرمی اور فقر و فاقہ کے موقع پر پھل پکے ہوئے تھے، مسلمان سوائے چند کے سب چلے گئے، جبکہ منافقین نے بہانے تراشنے شروع کردیے، اس سورۃ میں منافقین کی مذمت ہے، یہاں تک فرمادیا کہ اے پیغمبر! آپ ان کے لیے70بار بھی استغفار کریں تو بھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت نہیں کرے گا اور اگر ان میں کسی کا انتقال ہوجائے تو آپ اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھیے گا، پھر ان مسلمانوں کا بھی ذکر ہے جو کسی وجہ سے اس غزوے میں نہ جاسکے۔
  • نکلو اللہ کی راہ میں ہلکے ہو یا بوجھل: آیت نمبر 41 حکم دیا گیا کہ نکلو اللہ کی راہ میں ہلکے ہو یا بوجھل۔ اس آیت  میں ایک تو اللہ کا حکم دوسرا رسولِؐ کا خطاب اس قدر انقلابی تھا کہ عورتوں نے اپنے زیور، ابوبکر نے سارا سازو سامان، عمرنے آدھی گرہستی، عثمان نے کئی سو مال سے لدے ہوئے اونٹ ، عبدالرحمن نے بغیر گنےزر و جواہر اور ابو عقیل نے ساری رات مزدوری کرکے حاصل شدہ کھجوریں اللہ کی راہ میں پیش کردیں۔
  • شرعی معذور اور حضورؐ کی محبت: جو لوگ کسی شرعی عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے، اُنھیں حضورؐ نے سفر کے دوران بھی یاد رکھااور فرمایا کہ تم جو قدم بھی اُٹھارہے ہو اور جو وادی طے کررہے ہو وہ تمھارے ساتھ ہیں۔  ان لوگوں کا تذکرہ آیت نمبر 92 میں کیا گیا ہے۔  ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھےکہ وہ جہاد سے محروم رہ گئے۔
  • الحمدُ للہ ۱۰ پارے مکمل ہوئے۔