خلاصہ تراویح 9 رمضان

  • آج نویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ التوبہ کی آخری 36 آیات، سورۃ یونس مکمل اور سورۃ ھود کی 49 آیات تلاوت کی جائینگی ۔
  • منافقین کی معذرتیں:             آنحضورؐ جب تبوک سے واپس پلٹے تو منافقین نے آکر جھوٹے عذر پیش کیے۔  آنحضورﷺ نے ان سے اعراض برتا مگر اللہ نے انکی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کے عذرات جھوٹے ہیں۔
  • مسجد ضرار: منافقین نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے مسجد ضرار بنائی تھی، اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کو اس میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا، نبی علیہ السلام کے حکم سے اس مسجد کو جلا دیا گیا۔ آیت نمبر 107-108
  • مومنین کی نو صفات:             آیت نمبر 112 میں مومنین کی صفات بیان کی گئیں: (1)توبہ کرنے والے (2)عبادت کرنے والے (3)حمد کرنے والے (4)روزہ رکھنے والے (5)رکوع کرنے والے (6)سجدہ کرنے والے (7)نیک کاموں کا حکم کرنے والے (8)بری باتوں سے منع کرنے والے (9)اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے
  • حضرت ابولبابہؓ اور دیگر۶ صحابہؓ اور انکی توبہ: آیت نمبر 102-103 میں اُن مخلص صحابہؓ کی طرف اشارہ ہے جو  غزوۂ تبوک پر جانے سے بغیر شرعی عذر کے پیچھے رہ گئے تھے۔  ان میں حضرت ابو لبابہؓ دیگر ۶ صحابہؓ تھے۔ انھیں  اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اُنھوں نے خود کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا۔  آنحضورؐ کی آمد پر جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اللہ اور اسکے رسولؐ کی جانب سے اپنے لیے ہونے والے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کرلیا۔  ان سب کو معاف کردیا گیا۔
  • غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص صحابہ:
  • (1)حضرت ہلالؓ بن اُمیہ (2)حضرت مرارہؓ بن ربیع (3)حضرت کعبؓ بن مالک :      ان تینوں سے پچاس دن کا بائیکاٹ کیا گیا، پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان وحی کے ذریعے کیا گیا۔    آیت نمبر 118
  • حضرت ہلالؓ اور مرارہؓ بدری صحابی تھی جبکہ کعبؓ بن مالک بدر کے علاوہ ہر معرکہ میں شامل تھے۔

سورۂ یونس:        یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ سلسلہ کلام پر غور کرنے سے محسوس ہوتاہے کہ یہ شروع سے آخر تک ایک ہی مربوط تقریر ہے جو بیک وقت نازل ہوئی ہوگی۔

  • سورۂ یونس میں چار باتیں یہ ہیں:
  1. عقیدۂ توحید کے حق میں دلائل
  2. عقیدۂ  آخرت کے حق میں دلائل
  3. عقیدۂ رسالت: (حضرت نوح ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور حضرت یونس علیہم السلام کے قصے ہیں)
  4. معجزۂ قرآنی:

توحید و آخرت کے حق میں دلائل:  )آیت 3۔12)

  1. 6 دنوں میں زمین و آسمانوں کو پیدا کیا
  2. تختِ سلطنت پر جلوہ گر ہو کر کائنات کا انتظام چلا رہا ہے۔
  3. اللہ ہی نے  سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں۔
  4. زندگی کے مشاہدے میں جو  چیز بھی آتی ہے وہ اللہ ہی کی پیدا کردہ ہے۔
  5.  انسان پر جب کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اللہ کو پکارتا ہے ، مگر جب مصیبت ٹل جاتی ہے  تو اللہ کو ایسے بھولتا ہے کہ گویا اُس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر اُس کو پکارا ہی نہ تھا ۔
  6. پیدائش کی ابتداء اسی نے کی،     اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے،  پھر دوبارہ زندہ کرے گا (آخرت)۔
  7. جو ایمان لائے اور عمل سے ثابت کیا انکو انصاف کے ساتھ بدلہ دیا جائے گا۔ (آخرت)۔
  8. جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا وہ  درد ناک سزا بھگتیں گے۔ (آخرت)۔
  9. حضرت نوح ؑ کا قصہ:  حضرت نوح ؑ نے اپنی قوم کو دعوت دی، انھوں نے بات نہیں مانی، سوائے کچھ لوگوں کے، اللہ تعالیٰ نے ماننے والوں کو نوح علیہ السلام کی کشتی میں محفوظ رکھا اور باقی سب کو جوکہ نافرمان تھے پانی میں غرق کردیا۔
  10. حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا قصہ:
  11. حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا، فرعون اور اس کے سرداروں نے بات نہ مانی، بلکہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر بتلایا اور ان کے مقابلے میں اپنے جادوگروں کو لے آیا، جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم کو لے کر کُوچ کریں اور اپنا مسکن فلسطین کو بنائیں چنانچہ ایک رات آپؑ قو م کو لے کر روانہ ہوگئے۔   فرعون کو اطلاع ملی تو وہ  اور اس کے ماننے والوں نے ان کا پیچھا کیا۔    بنی اسرائیل کے لیے سمندر میں راستہ بنا اور پار کر گئے لیکن فرعون اور اسکے ساتھی پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہوگئے۔

حضرت یونس ؑ کا قصہ :      حضرت یونس علیہ السلام کو قرآن میں صاحب الحوت /ذالنون ) یعنی مچھلی والا کے لقب سے بھی پکارا ہے۔    حضرت یونسؑ کے واقعے کے دو رخ ہیں:

  1. ایک ان کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، اس کا تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہے۔
  2. دوسرا ان کی قوم کا ان کی غیر موجودگی میں توبہ استغفار کرنا، سورۂ یونس میں اس طرف اشارہ ہے۔
  • حضرت یونس ؑاپنی قوم کے ایمان سے مایوس اور اللہ کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر ”نینوا“ کی سر زمین چھوڑ کر چلے گئے، آگے جانے کے لیے جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر میں طغیانی کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی، حضرت یونسؑ نے سمندر میں چھلانگ لگادی، ایک بڑی مچھلی نے انھیں نگل لیا، اللہ نے انھیں مچھلی کے پیٹ میں بھی بالکل صحیح و سالم زندہ رکھا، چند روز بعد مچھلی نے انھیں ساحل پر اگل دیا، ادھر یہ ہوا کہ ان کی قوم کے مرد اور عورتیں، بچے اور بڑے سب صحرا میں نکل گئے اور انھوں نے آہ و زاری اور توبہ و استغفار شروع کردیا اور سچے دل سے ایمان قبول کرلیا، جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ان سے ٹل گیا۔

معجزۂ قرآنی: 

  • یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہے۔
  • کفار قرآنِ پاک کو انسانی کلام کہتے تھے جس کے جواب میں آیت 38 میں چیلنج دیا گیا کہ ایک اللہ کو چھوڑ کر کسی کی بھی مدد لے لو اور قرآن تو چھوڑو اس کے جیسی ایک سورۃ ہی بنا لاؤ۔
  • آیت ۵۷۔۵۸ میں قرآن کو دلوں کے امراض کی شفاء اور اہلِ ایمان کےلیے رہنمائی اور رحمت کہا گیا ہے۔
  • سورۂ ھود: اس سورۃ کے مضمون پر غور کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسی دور میں نازل ہوئی ہوگی جس میں سورة ” یونس “ نازل ہوئی تھی۔ دونوں کا موضوعِ تقریر وہی ہے، مگر تنبیہ کا انداز اس سے زیادہ سخت ہے۔
  • حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓنے نبیؐ سے عرض کیا ” میں دیکھتا ہوں کہ آپ ؐ بوڑھے ہوتے جارہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے “؟ جواب میں حضورؐ نے فرمایا مجھ کو سورۂ ہود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے “۔
  • بے پایاں انعامات اور انسان کا رویہ: سورۃ کے آغاز میں اللہ ربّ العالمین نے اپنی نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے اور یہ کہ کائنات بنا کر وہ غافل نہیں ہوا بلکہ ہر چیز کا نظام وہی چلا رہا ہے۔   وہ انسانوں کو ۲ طرح آزماتا ہے کبھی نعمتیں عطا کرکے اور کبھی ان سے محروم کرکے۔  نیک انسان نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اور محرومی پر شکوہ نہیں کرتا۔  جبکہ اللہ سے غافل بندے نعمتیں ملنے پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور تنگدستی میں مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور قسمت کو کوسنے لگتے ہیں۔
  • قصۂ نوحؑ: حضرت نوحؑ کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔   طوفانِ نوحؑ کی آمد سے قبل انھیں اللہ نے ایک کشتی بنانے کا حکم دیا۔  جب کشتی تیار ہونے لگی تو پوری قوم نے ان کا مذاق اُڑایا۔  جب وقتِ عذاب آیا تو زمین نے نیچے سے پانی اُگلنا اور آسمان نے اوپر سے پرنالوں کی طرح برسانا شروع کردیا۔  کوئی گھر، کوئی درخت، کوئی چٹان ، کوئی پہاڑ ایسا نہ بچا جو اُس سیلاب سے محفوظ رہا ہو۔  صرف وہی انسان اور جانور پوری دنیا میں اس غرقابی سے محفوظ رہے جو کشتی میں سوار تھے۔  اور کشتی میں سوار ہونے کی شرط ایمان تھا۔  نوحؑ کی بیوی اور ایک بیٹا اس کشتی میں نہ بیٹھ سکے اور طوفان میں غرق ہوگئے۔
  • پھرکشتی ایک پہاڑ کوہِ جودی (جو آج کل ترکی میں ہے) پر جالگی اور اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ سارا پانی نگل لے اور آسمان کو حکم دیا کہ برسنا بند کردے۔  اس موقع پر اپنے بیٹے کو غرق ہوتے دیکھ کر نوحؑ کا دل اداس تھا۔  چنانچہ انھوں نے اللہ سے کہا کہ اے ربّ ، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے تو ربّ نے فرمایا! اے نوح ! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے (۴۶)۔ نوح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’ اے میرے ربّ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جائوں گا۔ ‘‘ (۴۷)
  • دو سبق: اوّل یہ کہ نبی بھی علم الغیب نہیں جانتا اور اسے بھی صرف اتنا ہی علم ہوتا ہے جو ربّ اُسے عطا کردے۔ دوسرے  یہ اللہ کےیہاں نجات نبی کے خونی رشتوں کی بھی نہیں اگر وہ اللہ ، اسکے رسول اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔  اسی لیے نبیؐ نے اپنے قریبی عزیزوں چچا عباسؓ،  پھوپھی صفیہؓ، اور بیٹی فاطمہؓ کے نام پکار کرکہا کہ دنیا میں مجھ سے جو کچھ مانگو گے ، میرے پاس ہوگا تو میں تمھیں دے دوں گا۔  لیکن آخرت میں تمھارے کام تمھارے اعمال ہی آئیں گے۔