خلاصہ تراویح 23 رمضان

تئیسویں   تراویح

آج کی تراویح میں سورۃ  الاحقاف،   سورۃ محمد،   سورۃ الفتح،  اور سورۃ الحجرات کی تلاوت کی جائے گی۔

سورۃ الاحقاف:

  • یہ ایک مکی سورۃ اور ۱۰ یا ۱۱ نبویؐ میں اُس وقت نازل ہوئی جب آپؐ طائف سے مکہ مکرمہ پلٹتے ہوئے وادیٔ نخلہ میں ٹہرے تھے۔

تاریخی پس منظر:

  • ۱۰ نبوی رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیے سخت ترین سال تھا۔ ۳ سال سے قریش کے تمام قبائل نے مل کر مسلمانوں کو بائیکاٹ کررکھا تھا اور سب شُعبِ ابی طالب  میں محصور تھے ۔  کسی قسم کی رسد ان تک نہ پہنچ سکتی تھی صرف حج کے زمانے میں کچھ خریداری کر سکتے تھے۔   کیفیت یہ تھی کہ بعض اوقات گھاس پھوس اور پتےّ کھانے کی نوبت آجاتی تھی۔
  • اللہ اللہ کرکے محاصرہ ختم ہوا تو آپؐ کی ڈھال چچا ابو طالب انتقال کرگئے، اور انکے ایک ماہ کے بعد ہی تحریک کی ریڑھ کی ہڈی خدیجہ الکبریٰ خالقِ حقیقی سے جاملیں۔  ان پے درپے صدموں کی وجہ اس سال کو نبیؐ عام الحُزن یعنی غم کا سال کہا کرتے تھے۔
  • ان دونوں ہستیوں کے انتقال کی وجہ سے قریش اور شیر ہوگئے اور مزید تنگ کرنا شروع کردیا، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا گھر سے باہر نکلنا بھی مشکل ہوگیا۔ ایسے میں آپ طائف کی جانب اس ارادے سے تشریف لے گئے کہ بنی ثقیف کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو انہیں کم از کم اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ آپ کو اپنے ہاں چین سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع دے دیں۔ آپ کو اس وقت کوئی سواری تک میسر نہ تھی۔ مکہ سے طائف تک کا سارا سفر آپ نے پیدل طے کیا۔
  •   توقعات کے برخلاف طائف والوں نے بات ماننے سے انکار کردیا اور طائف سے نکل جانے کا کہا،  جب وہاں سے جانے لگے تو سرداران نے آوارہ لڑکوں کو پیچھے لگا دیا جنھوں نے پتھر مار مار کر آپؐ کو لہو لہان کردیا اور نعلین مبارک خون سے پاؤں  میں چپک گئے۔
  • ایسے میں دل شکستہ طائف کے باہر ایک باغ کی دیوار کے ساتھ بیٹھ گئے اور ربّ سے مخاطب ہو کر کہا “” یا اللہ، میں تیرے ہی حضور اپنی بےبسی و بےچارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بےقدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین، تو سارے ہی کمزوروں کا ربّ ہے اور میرا ربّ بھی تو ہی ہے۔ مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے ؟ کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ سے درشتی کے ساتھ پیش آئے ؟ یا کسی دشمن کے حوالے جو مجھ پر قابو پالے ؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی مصیبت کی پروا نہیں، مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہوجائے تو اس میں میرے لیے زیادہ کشادگی ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی جو اندھیرے میں اجالا اور دنیا اور آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے، مجھے اس سے بچا لے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیرے عتاب کا مستحق ہوجاؤں۔ تیری مرضی پر راضی ہوں یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے۔ کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں “
  • اس کے بعد آپ چند روز نخلہ کے مقام پر جا کر ٹھہر گئے۔ پریشان تھے کہ اب کیسے مکہ واپس جاؤں۔ طائف میں جو کچھ گزری ہے اس کی خبریں وہاں پہنچ چکی ہوں گی۔ اس کے بعد تو کفار پہلے سے بھی زیادہ دلیر ہوجائیں گے۔ ان ہی ایام میں ایک روز رات کو آپ نماز میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا، انہوں نے قرآن سنا، ایمان لائے، واپس جا کر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ خوشخبری سنائی انسان چاہے آپ کی دعوت سے بھاگ رہے ہوں، مگر بہت سے جن اس کے گرویدہ ہوگئے ہیں اور وہ اسے اپنی جنس میں پھیلا رہے ہیں۔

 

 

کتاب ِ حق (۲۔۱۴):

  • ان آیات میں فرمایا گیا کہ رسولِ رحمت ؐ کو جو کتاب دی گئی ہے وہ حق ہے لیکن منکرین کہتے ہیں کہ “یہ تو جادو ہے، یہ کتاب اِس نے خود گھڑلی ہے” ۔  جواباً فرمایا گیا کہ عقل کے اندھو تمھارے پاس تو علم کا کوئی ذریعہ نہیں۔  بنی اسرائیل کا عالم (مُراد عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ) اس کے حق ہونے پر شہادت دے چکا ہے اور وہ ایمان لے آیا ہے۔  اس سے پہلے موسیٰ کو دی گئی کتاب بھی رہنما اور رحمت بن چکی ہے۔

نیک  اور بدبخت  اولاد (۱۵۔۱۷):

  • اس آیت میں والدین کے حق میں نیکی اور حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ ایک اچھے انسان کی صفت یہ ہے کہ وہ والدین کا فرماں بردار اور اُن کے لیے صدقۂ جاریہ ہوتا ہے۔  اسکے برعکس کچھ بدبخت ایسے ہوتے ہیں جو والدین کے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں۔  آخرت کا انکار کرتے ہیں۔  یہی خسارے کا سودا کرنے والے ہیں۔  انکے حق میں جہنم کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

قومِ عاد (۲۱۔۲۸):

  • ان آیات میں قومِ عاد کا تذکرہ ملتا ہے جو قدیم زمانے میں اس سرزمین  کی سب سے طاقتور قوم تھی۔   جنھوں نے بغاوت اور سرکشی میں تمام حدیں پھلانگ دیں، پھر اللہ نے اُن پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔  وہ سمجھ رہے تھے کہ بادل اُن کی بستیوں کو سیراب کرنے کےلیے آئے ہیں، حالانکہ وہ عذاب تھا جس کا وہ بار بار مطالبہ کرتے تھے۔
  • قومِ عاد جس علاقے میں بستی تھی اُس کا نام احقاف تھا جو صحرائے ربع الخالی کے مغربی حصے میں واقع تھی۔ عمان سے لے کر یمن تک انکی حکومت تھی۔  موجودہ شہر مکلا (یمن) سے تقریباً ۱۲۵ میل شمال کے مقام پر ایک قبر ہے جسے حضرت ہودؑ کی قبر سے یاد کیا جاتا ہے۔

جنات کا اسلام لانا (۲۹۔۳۱):

  • طائف سے واپسی پر نبیؐ وادیٔ نخلہ میں کچھ عرصہ ٹہرے وہاں فجر یا عشاء یا تہجد کی نماز میں آپ تلاوتِ قرآن فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرأت سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس موقع پر جنّات حضور ؐکے سامنے نہیں تھے، نہ آپؐ نے ان کی آمد کو محسوس فرمایا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپؐ کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی۔     یہ مقام جہاں یہ واقعہ پیش آیا، یا تو الزیمہ تھا، یا السیل الکبیر، کیونکہ یہ دونوں مقام وادی نخلہ میں واقع ہیں۔

صبر کی تلقین (۳۵):

  • سورۃ کے آخر میں نبی کریم ﷺ کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ “ اے نبی، صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا ہے، اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کرو 37 ۔ جس روز یہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں معلوم ہوگا کہ جیسے دنیا میں دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے تھے”

سورۃ  محمدؐ:

  • اس کے مضامین یہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں اس وقت نازل ہوئی جب جنگ کا حکم تو دیا جا چکا تھا مگر ابھی جنگ عملا شروع ہوئی نہ تھی۔

تاریخی پس منظر:

  • اس سورۃ کے نزول کے وقت مکہ معظمہ میں خاص طور پر اور عرب کی سرزمین میں بالعموم ہر جگہ مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ مسلمان ہر طرف سے سمٹ کر مدینہ طیبہ میں جمع ہوگئے تھے۔  مدینے کی چھوٹی سی بستی ہر طرف سے کفار کے نرغے میں گھری ہوئی تھی اور وہ اسے مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے لیے دو ہی راستے تھے۔ یا تو وہ دین حق کی دعوت و تبلیغ ہی سے نہیں بلکہ اس کی پیروی تک سے دست بردار ہو کر جاہلیت کے آگے سپر ڈال دیں، یا پھر مرنے مارنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور سر دھڑ کی بازی لگا کر ہمیشہ کے لیے اس امر کا فیصلہ کردیں کہ عرب کی سرزمین میں اسلام کو رہنا ہے یا جاہلیت کو۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر مسلمانوں کو اسی عزیمت کی راہ دکھائی جو اہل ایمان کے لیے ایک ہی راہ ہے۔

قیدیوں کے بارے میں احکامات (پہلا رکوع):

  • جنگ بدر قریب تھی اور اسلام کی پہلی جنگ تھی۔   لہٰذا جنگی قیدیوں سے متعلق درجِ ذیل احکامات اس سورۃ میں نازل کیے گئے  ہیں:
    1. جنگ میں مسلمانوں کی فوج کا اصل ہدف دشمن کی جنگی طاقت کو توڑ دینا ہے، یہاں تک کہ اس میں لڑنے کی سکت نہ رہے اور جنگ ختم ہوجائے۔ اس ہدف سے توجہ ہٹا کر دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہ لگ جانا چاہیے۔
    2. جنگ میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمہیں اختیار ہے، خواہ ان پر احسان کرو، یا ان سے فدیہ کا معاملہ کرلو۔ اس سے عام قانون یہ نکلتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے۔
    3. اس آیت میں قتل کی صاف ممانعت بھی نہیں کی گئی ہے، لیکن اگر کوئی خاص وجہ ایسی ہو جس کی بنا پر اسلامی حکومت کا فرمانروا کسی قیدی یا بعض قیدیوں کو قتل کرنا ضروری سمجھے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ یہ ایک استثناء ہے جسے بضرورت ہی استعمال کیا جائے گا۔
    4. احسان میں چار چیزیں شامل ہیں : (۱)  یہ کہ قید کی حالت میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ (۲)   یہ کہ قتل یا دائمی قید کے بجائے ان کو غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالہ کردیا جائے۔ (۳)   یہ کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی بنا لیا جائے۔ (۴) یہ کہ ان کو بلا معاوضہ رہا کردیا جائے۔
    5. نبی ؐ اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ جنگی قیدی جب ایک حکومت کی قید میں رہے، اس کی غذا اور لباس، اور اگر وہ بیمار یا زخمی ہو تو اس کا علاج حکومت کے ذمہ ہے۔ قیدیوں کو بھوکا ننگا رکھنے، یا ان کو عذاب دینے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں ہے۔
    6. کوئی خدمت لے کر چھوڑنے کی مثال بھی جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے۔
    7. قیدیوں کے تبادلے کی متعدد مثالیں ہم کو نبیؐ کے عہد میں ملتی ہیں۔
  • جنت کے انعامات (دوسرا رکوع):
  • اس رکوع میں جنت کی نعمتیں بیان کی گئی ہیں اور آنحضورﷺ سے کہا گیا ہے کہ اپنے لیے بھی اللہ سے مغفرت طلب کریں اور مومن مردوں اور عورتوں کے قصور معاف کرنے کے لیے بھی اللہ سے استغفار کریں۔
  • تذکرۂ منافقین (تیسرا  اور چوتھا رکوع):
  • اس رکوع میں منافقین کا تذکرہ کرتے ہوئے انکے انجام سے باخبر کیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو دنیا ہی میں اندھا اور بہرا کردیا گیا ہے۔   اور جب انکی موت کا وقت آئے گا تو  فرشتے اِن کی روحیں قبض کرتے وقت ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے۔
  • اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت (چوتھا  رکوع):
  • اس رکوع میں اللہ اور اسکے رسولؐ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور مومنین کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس اطاعت سے منہ پھیرنا اپنے اعمال کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔
  • فرمایا گیا کہ “یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے”آخرت کے مقابلے میں اس دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ چند روز کا دل بہلاوا ہے۔ یہاں کی کامرانی و ناکامی کوئی حقیقی اور پائیدار چیز نہیں ہے جسے کوئی اہمیت حاصل ہو۔
  • آخری آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ اور اُس کا دین تمھارے محتاج نہیں۔ اگر تم اللہ کے احکام کی اطاعت نہ کروگے تو اللہ کسی اور قوم کو چُن لے گا ۔    وہ قوموں کو چنتا ہے، جب تک وہ اُس کا حق ادا کرتے رہیں، وہ اپنی نصرت و تائید سے انکی مدد کرتا رہتا ہے۔  جب وہ اپنےفرض سے کترانے لگیں تا اللہ انھیں ذلیل و خوار کردیتا ہے اور اُسکی جگہ کوئی تازہ دم قوم اپنے کام کےلیے کھڑی کردیتا ہے۔

سورۃ  الفتح:

  • روایات اس پر متفق ہیں کہ اس کا نزول ذی القعدہ 6 ھ میں اس وقت ہوا تھا جب آپ کفار مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لے جا رہے تھے۔

تاریخی پس منظر:

  • جس پس منظر میں اس سورۃ کا نزول ہوا وہ کچھ اس طرح ہے کہ                 ۶                  ؁ھ میں نبی کریمؐ نے ایک خواب دیکھا کہ اپنے صحابہؓ کے ساتھ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا فرما یا ہے۔  چونکہ نبی کا خواب جھوٹا نہیں ہوتا بلکہ وحی ہی کی ایک شکل ہوتی ہے چنانچہ تمام تر نا مساعد حالات کے باجود آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو سفر کا حکم دیا اور کوچ فرمایا۔  اس سفر میں ۱۴۰۰ صحابہ کرامؓ آپ کے ساتھ تھے۔  کسی قسم کا اسلحہ ساتھ نہیں لیا ماسوائے ایک ایک تلوار کے جو کہ اُس وقت قاعدے کے تحت جائز تھی۔  قافلہ نے حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا جہاں سے آگے قریش مکہ نے اس کو بڑھنے نہیں دیا۔  چنانچہ حضرت عثمانؓ بن عفان کو  بات چیت کرنے مکہ بھیجا گیا  جن کے ساتھ قریشِ مکہ نے بات چیت کرنے اپنے ایک سردار سہیل بن عمرو  کی قیادت میں ایک وفد بھیجا۔   چنانچہ کچھ ایسی شرائط کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا جس میں بظاہر مسلمانوں کو دبایا جارہا تھا۔   طے ہوا کہ
    1. طرفین کے درمیان ۱۰ سال تک جنگ نہیں ہوگی،
    2. مسلمان اس سال واپس چلے جائیں اور اگلے سال عمرہ کرنے آئیں،
    3. قبائل عرب کو اختیار ہوگا کہ جو قبیلہ فریقین میں سے جس کا حلیف بننا چاہے بن جائے،
    4. اس دوران قریش کا جو شخص بھاگ کر مدینے جائے گا اسے واپس کردیا جائے گا مگر مدینہ سے جو شخص قریش کے پاس واپس چلا جائے گا اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

فتح مبین (۱۔۳):

  • سورۃ الفتح کی پہلی ہی آیت میں اللہ نے اپنے نبیؐ کو خوشخبری دی کہ اُنھیں (اس معاہدے کے ذریعہ) فتح مبین عطا کردی گئی ہے۔ جو شرائط معاہدے میں طے کی گئی تھیں اُن سے بظاہر صحابہؓ کو محسوس ہو رہا تھا کہ شاید یہ شرائط اُن کے حق میں نہیں ہیں۔  لیکن اللہ کے رسولﷺ نے اِ س موقع پر فرمایا “قسم ہے اُس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، یقیناً یہ فتح ہے” (مسند احمدؒ   ۔  ا بوداؤدؒ)

مومنین کا انعام اور منافقین کی سزا (۴۔۶):

  • ان آیات میں اہلِ ایمان کے دلوں پر سکینت نازل فرمانے اور اُن کے ایمان کی افزائش کا تذکرہ کیا ہے۔ مومن مردوں اور عورتوں کےلیے جنت اور عظیم کامیابی کی خوشخبری جبکہ مشرک اور منافق مردوں اور عورتوں پر اپنے غضب اور لعنت کی وعید سنائی ہے۔

بیعتِ رضوان (۱۰):

  • حضرت عثمان ؓ کو جب رسول اللہ ﷺ نے قریش سے بات چیت کرنے مکہ بھیجا تھا تو مسلمانوں کو ایک خبر ملی کہ عثمانؓ کو انھوں نے قتل کردیا۔ اُس وقت رسول ﷺ نے کہا کہ ہم اس کا بدلہ لیں گے جس کےلیے سب صحابہؓ نے آپ ؐ کے ہاتھ پر خون کے آخری قطرہ بہانے تک لڑنے کی بیعت کی جسے بیعتِ رضوان سے یاد کیا جاتا ہے۔  اس موقع پر حضورؐ نے حضرت عثمانؓ کی جانب سے اپنا دوسرا رکھا اور کہاکہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔  اس آیت میں اُسی بیعت سے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ صحابہؓ نبیؐ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کررہے تھے بلکہ دراصل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے۔  اور انکے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ تھا۔  اصحابِ بیعتِ رضوان کا اہلِ بدر کے بعد سب سے عظیم مقام و مرتبہ ہے۔

بدوی قبائل کے حیلے بہانے (۱۱۔۱۴):

  • اس آیت میں اُن قبائل کی منافقت کا پردہ چاک کیا گیا جو بظاہر تو مسلمان ہوچکے تھے لیکن ایمان انکے حلقوں سے نیچے نہیں اُترا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضورؐ نے عمرہ پر چلنے کی منادی کرائی تو انھیں سانپ سونگھ گیا اور مختلف حیلے بہانوں سے ساتھ چلنے سے معذرت کرلی۔  وہ سمجھ رہے تھے کہ نبیؐ اور انکے ساتھ جانے والے صحابہؐ اب واپس نہیں آئیں گے کیونکہ ایک سال پہلے غزوہ خندق میں کفار کی مدینہ منورہ پر چڑھائی نے انھیں خوف زدہ کیا ہوا تھا۔    چنانچہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے ذریعے ان کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتا رہا ہے کہ “یہ کہیں گے کہ ہمیں ہمارے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول رکھا تھا،  آپؐ ہمارے لیے دعائے مغفرت کریں، یہ لوگ وہ باتیں کہتے ہیں جو انکے دلوں میں نہیں ہوتیں”  لہٰذا حضورؐ کو حکم دیا گیا کہ ان سے کہہ دیجئے کہ” اللہ اور اس کے رسول پر جو لوگ ایمان نہ رکھتے ہوں ایسے کافروں کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کررکھی ہے۔ اور اگر اب بھی وہ غیر مخلصانہ روش چھوڑ دیں اللہ کو غفور الرحیم پائیں گے۔

جہاد میں شرکت نہ کرنے کی رعایت (۱۷):

  • اس آیت میں جن لوگوں کو شریک ِجہاد ہونے سے معاف رکھا گیا ہے وہ دو قسم کے لوگ ہیں۔
    1. جو جسمانی طور پر جنگ کے قابل نہ ہوں، مثلا کم سن لڑکے، عورتیں، مجنون، اندھے، ایسے مریض جو جنگی خدمات انجام نہ دے سکتے ہوں، اور ایسے معذور جو ہاتھ یا پاؤں بیکار ہونے کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہ لے سکیں۔
    2. وہ لوگ جن کے لیے معقول اسباب سے شاملِ جہاد ہونا مشکل ہو، مثلا غلام، یا جن کے لیے آلات جنگ اور دوسرے ضروری وسائل فراہم نہ ہوسکیں، یا ایسے قرض دار جنہیں جلدی اپنا قرض ادا کرنا ہو اور قرض خواہ انہیں مہلت نہ دے رہا ہو، یا ایسے لوگ جن کے والدین یا اُن میں سے کوئی ایک زندہ ہو اور وہ اس کا محتاج ہو کہ اولاد اس کی خبر گیری کرے۔ یا اگر  والدین مسلمان ہوں تو اولاد کو کسی وجہ سے جہاد کی اجازت نہ دیں ، لیکن اگر وہ کافر ہوں تو ان کے روکنے سے کسی شخص کا رک جانا جائز نہیں ہے۔

بیعتِ رضوان کے شرکاء اور خیبر کی فتح (۱۸۔۱۹):

  • آیت ۱۸ میں ایک بار پھر بیعتِ رضوان کا ذکر کیا گیا اور انکے شرکاء کے لیے خصوصی تحفہ فتح خیبر کی نوید سنائی جس میں بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آنے والا تھا۔   چنانچہ ۷ ہجری میں خیبر فتح ہوا اور اس میں صرف بیعت رضوان میں شامل صحابہؓ کو ساتھ لیا گیا اور انھیں ہی تمام مالِ غنیمت ملا۔    نبی کریمؐ نے  کچھ حبشہ سے واپس آنے والے مہاجرین اور دوسی و اشعری صحابیوں کو بھی عنایت کیا لیکن غالب گمان یہی ہے کہ یا تو یہ اللہ کے نبیؐ نےاپنے حصے میں سے دیا یا بیعت رضوان کے صحابہؓ کی رضا مندی سے۔

محمدﷺ کفار پر سخت اور اہلِ ایمان پر رحیم (۲۹):

  • آخری آیت میں فرمایا گیا کہ محمدؐ اپنے ایمان کی پختگی، اُصول کی مضبوطی، سیرت کی طاقت، اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلے میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں۔ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انہیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں۔  جبکہ اہل ایمان کے لیے وہ نرم ہیں، رحیم و شفیق ہیں، ہمدرد و غمگسار ہیں۔ اصول اور مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی و ساز گاری پیدا کردی ہے۔

سورۃ  الحجرات:

  • روایات اس پر متفق ہیں کہ اس کا نزول ذی القعدہ 6 ھ میں اس وقت ہوا تھا جب آپ کفار مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لے جا رہے تھے۔

تاریخی پس منظر:

  • یہ مدنی دور کے آخر کی سورۃ ہے اور مختلف مواقع پر نازل شدہ احکام و ہدایات کا مجموعہ ہے جنہیں مضمون کی مناسبت سے یکجا کردیا گیا ہے۔
  • اس سورت کا موضوع مسلمانوں کو ان آداب کی تعلیم دینا ہے جو اہل ایمان کے شایان شان ہیں۔

رسولﷺ کے ساتھ معاملات کے آداب (۱۔۵):

  1. مومن کے لیے جائز نہیں کہ اپنی رائے اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر مقدم رکھے یا معاملات میں آزادانہ رائے قائم کرے۔
  2. اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو۔
  3. نبیؐ کو اُنکے گھر کے باہر سے آواز دے کر عام آدمیوں کی طرح نہیں بلاؤ۔

خبر کی تحقیق (۶):

  • اس آیت میں  ہدایت دی گئی ہے کہ ہر خبر پر یقین کرلینا اور اس پر کوئی کاروائی کر گذرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی اطلاع ملے تو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خبر ملنے کا ذریعہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ قابل اعتماد نہ ہو تو اس پر کاروائی کرنے سے پہلے تحقیق کرلینا چاہیے کہ خبر صحیح ہے یا نہیں۔

مسلم گروہوں کی آپس میں لڑائی (۹):

  • اس آیت میں بتایا گیا کہ اگر کسی وقت مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔

اجتماعی فساد برپا کرنے والی  باتوں سے اجتناب (۱۰۔۱۲):

  • ان آیات میں مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ جیسے  ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، ایک دوسرے پر طعن کرنا، ایک دوسرے کے بُرے  نام رکھنا، بد گمانیاں کرنا، دوسرے کے حالات کی کھوج کرید کرنا، لوگوں کی پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرنا، یہ وہ افعال ہیں جو بجائے خود بھی گناہ ہیں اور معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نام بنام ان کا ذکر فرما کر انہیں حرام قرار دے دیا ہے۔

قومی و نسلی امتیازات پر ضرب (۱۳):

  • آیت ۱۳ میں قومی اور نسلی امتیازات پر ضرب لگائی گئی ہے جو دنیا میں عالمگیر فسادات کے موجب ہوتے ہیں۔ قوموں اور قبیلوں اور خاندانوں کا اپنے شرف پر فخر و غرور، اور دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا، اور اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے دوسروں کو گرانا، ان اہم اسباب میں سے ہے جن کی بدولت دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سی آیت فرما کر اس برائی کی جڑ کاٹ دی ہے کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے پیدا ہوئے ہیں اور قوموں اور قبیلوں میں ان کا تقسیم ہونا تعارف کے لیے ہے نہ کہ تفاخر کے لیے، اور ایک انسان پر دوسرے انسان کی فوقیت کے لیے اخلاقی فضیلت کے سوا اور کوئی جائز بنیاد نہیں ہے۔
  • ایمان کا زبانی دعویٰ کافی نہیں (۱۴۔۱۸):
  • آخر میں کو بتایا گیا ہے کہ اصل چیز ایمان کا زبانی دعوی نہیں بلکہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کو ماننا، عملا ًفرمانبردار بن کر رہنا، اور خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کھپا دینا ہے۔ حقیقی مومن وہی ہیں جو یہ روش اختیار کرتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو دل کی تصدیق کے بغیر محض زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور پھر ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ گویا اسلام قبول کر کے انہوں نے کوئی احسان کیا ہے، تو دنیا میں ان کا شمار مسلمانوں میں ہوسکتا ہے، معاشرے میں ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک بھی کیا جاسکتا ہے، مگر اللہ کے ہاں وہ مومن قرار نہیں پاسکتے۔

الحمد للہ آج ۲۶ سپارے مکمل ہوئے۔   ۲۷ ویں سپارے کا خلاصہ ان شاء اللہ کل۔  ہمارے ساتھ رہیے گا۔        جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ