خلاصہ تراویح 3 رمضان
- آج تیسری تراویح ہے اور اس میں سورۃ آلِ عمران کی مکمل تلاوت کی جائے گی۔
- سورۃ آلِ عمران ایک مدنی سورۃ ہے اوریہ سورۃ البقرۃ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ ان سورتوں کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ یہ سورتیں شمس و قمرکی مانند ہیں اور یہ کہ دونوں حشر کے دن دو بدلیوں کی صورت میں ظاہر ہوں گی۔ یہ سورۃ ۴ تقاریر پر مشتمل ہے۔
- پہلی تقریر آغاز سورت سے آیت نمبر ۳۲ تک ہے اور وہ غالباً جنگ بدر کے بعد قریبی زمانے ہی میں نازل ہوئی ہے۔
- دوسری تقریر آیت ۳۳ سے ۹۱ پر ختم ہوتی ہے۔ یہ سن ٩ ہجری میں وفد نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی۔
- تیسری تقریر آیت ۹۲ سے ۱۲۰ تک چلتی ہے اور اس کا زمانہ پہلی تقریر سے متصل ہی معلوم ہوتا ہے۔
- چوتھی تقریر آیت ۱۲۱ سے ختم سورت تک جنگ احد کے بعد نازل ہوئی ہے
- آیاتِ محکمات و متشابہات: آیت نمبر ۷ میں آتا ہے کہ “ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات ، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات”۔
- آیات محکمات سے مراد وہ آیات ہیں، جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے۔ احکام سے متعلق جتنی بھی آیات ہیں وہ سب محکم ہیں ‘ کہ یہ کرو یہ نہ کرو ‘ یہ حلال ہے یہ حرام !
- لیکن جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی بحث ہے ان کا فہم آسان نہیں ہے۔ اللہ کی ذات وصفات کا ہم کیا تصور کرسکتے ہیں ؟ اللہ کا ہاتھ ‘ اللہ کا چہرہ ‘ اللہ کی کرسی ‘ اللہ کا عرش ‘ ان کا ہم کیا تصور کریں گے ؟ اسی طرح فرشتے عالم غیب کی شے ہیں۔ عالم برزخ کی کیا کیفیت ہے ؟ قبر میں کیا ہوتا ہے ؟ ہم نہیں سمجھ سکتے۔ عالم آخرت ‘ جنت اور دوزخ کی اصل حقیقتیں ہم نہیں سمجھ سکتے۔ چنانچہ ہماری ذہنی سطح کے قریب لا کر کچھ باتیں ہمیں بتادی گئی ہیں۔
- آیات الملک: آیت نمبر ۲۶ اور ۲۷ آیات الملک کے نام سے معروف ہیں۔ اس میں اللہ رب العالمین نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا کہ وہ مالک الملک کی صفات بیان کردیں کہ حکومت اسی کا حق ہے، دنیا میں عارضی طور پر وہ کسی کو جب تک چاہے اقتدار دیتا ہے اور جب چاہے چھین لیتا ہے۔ عزت اور ذلت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ دن، رات اور کائنات کی ہر چیز اس کے حکم کے تابع ہے۔ وہ مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور زندہ کو مردہ سے۔
- مریمؑ، زکریاؑ اور عیسیؑ کا ذکر: آیت نمبر ۳۵ سے ۶۰ تک مریمؑ ، زکریا ؑ اور عیسیؑ کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے.
- حضرت مریم (علیہا السلام) : حضرت مریم ؑ جب ماں کے پیٹ ہی میں تھیں تو ان کی والدہ نے یہ منت مانی تھی کہ اس پیدا ہونے والے بچے کو اللہ تعالیٰ کے لیے نذر کردوں گی۔ کسی بچے کو اللہ تعالیٰ کے لیے نذر کرنے کا مقصد بنی اسرائیل میں یہ ہوتا تھا کہ اس کو معبد کی خدمت کے لیے خاص کردیا جائے گا۔ حضرت مریم کی والدہ کو توقع لڑکے کی ولادت کی تھی لیکن پیدا ہوئی لڑکی۔
- یہ چیز ان کے لیے موجب تردد ہوئی کیونکہ ہیکل کی خدمت کے لیے لڑکیوں اور عورتوں کے لینے کا رواج نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کی والدہ کی نذر قبول فرما لی اور وہ ہیکل میں داخل کرلی گئیں۔ حضرت مریم (علیہا السلام) کی یہ ابتدائی سرگزشت اور آگے کے حالات کے بیان کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جس اللہ کی بندی کی زندگی پیدا ہونے کے پہلے ہی سے خدا اور اس کے ہیکل کی خدمت اور اللہ کی عبادت و اطاعت کے لیے وقف ہوچکی تھی اور پیدا ہونے کے بعد سے دمِ واپسیں تک اس کے لیے وقف رہی یہ کیسی خرد باختگی ہے کہ اس کو خدا کی بندی کے بجائے نعوذ باللہ خدا کی ماں بنا دیا گیا۔
- حضرت مریم ؑ بیت المقدس میں عورتوں کے اعتکاف کرنے کے ایک کمرے میں رہا کرتی تھیں اور حضرت زکریاؑ انکی خبر گیری کرنے اُس ہجرے میں جاتے رہتے تھے۔
- جہاں حضرت مریمؑ کے غیر معمولی روحانی کمال کا اظہار ہورہا تھا۔ حضرت زکریا جیسے صاحب کمال بھی ان کے پاس جاتے تو ان کے کمال روحانی کے نفحات محسوس کرتے یہاں تک کہ ایک روز وہ استعجاب و تحسین کے طور پر یہ بھی پوچھ بیٹھے کہ اے مریم ! یہ چیزیں تمہیں کہاں سے حاصل ہوتی ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کے پاس سے۔
- حضرت زکریا (علیہا السلام) : حضرت زکریا حضرت مریم کی علم و معرفت کی باتوں سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے پیرانہ سالی میں، بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود، اپنے لیے بھی ایسی ہی اولاد صالح کی دعا مانگی۔
- جواب میں فرشتوں نے آواز دی، جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، کہ ” اللہ تجھے یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے والا بن کر آئے گا۔ اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہوگی۔ کمال درجہ کا ضابط ہوگا۔ نبّوت سے سرفراز ہوگا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا۔
- زکریاؑ نے حیرت سے پوچھا میرے بیٹا کیسے ہوگا جبکہ میں بوڑھا اور بیوی بانجھ ہے۔ جواب ملا ایسا ہی ہوگا۔
- حضرت عیسیٰ (علیہا السلام) : قصہ زکریا ؑ و یحیٰ ؑ بیان کرنے کا اصل مقصد عیسائیوں پر ان کے اس عقیدے کی غلطی واضح کرنا ہے کہ وہ مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور الٰہ سمجھتے ہیں۔ تمہید میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر اس وجہ سے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح مسیح (علیہ السلام) کی ولادت معجزانہ طور پر ہوئی تھی اسی طرح ان سے چھ ہی مہینہ پہلے اسی خاندان میں حضرت یحییٰ کی پیدائش بھی ایک دوسری طرح کے معجزے سے ہوچکی تھی۔ اس سے اللہ تعالیٰ عیسائیوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اگر یحیٰی (علیہ السلام) کو ان کی اعجازی ولادت نے الٰہ نہیں بنایا تو مسیح (علیہ السلام) محض اپنی غیر معمولی پیدائش کے بل پر الٰہ کیسے ہو سکتے ہیں۔
- آیت نمبر ۴۵ میں اللہ نے مریمؑ کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ “اور جب فرشتوں نے کہا ” اے مریم ! اللہ تجھے اپنے ایک فرمان کی خوش خبری دیتا ہے۔ اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا، دنیا اور آخرت میں معزز ہوگا، اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا”
- آیت نمبر ۴۷ میں آتا ہے کہ “حضرت یہ سن کر مریم بولی ” پروردگار ! میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا “۔ جواب ملا ” ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۔ وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
- آیت نمبر ۴۹ میں حضرت عیسیٰؑ بنی اسرائیل کو بتایا کہ میں تمھارے پاس رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور اللہ کی طرف سے مجھے جو معجزے عطا کیے گئے ہیں ان میں مٹی سے پرندے کی صورت کا ایک مسجمہ بنا کر پھونک مارنا اور اُس کا اللہ کے حکم سے پرندہ بن جانا، اللہ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنا اور االلہ ہی کے اِذن سے مُردے کو زندہ کرنا شامل ہے۔
- وفد نجران اور مباہلہ: ایک عیسائی وفد جس میں انکے علماء بھی تھے نجران سے مدینہ منورہ آیا تھا جس کی مہمان نوازی رسولِ اکرمﷺ نے کی تھی اور انھیں رہنے کی جگہ مسجدنبوی میں دی تھی۔ بعد ازاں انھیں اسلام کی دعوت دی ۔ تاہم اس نے ہٹ دھرمی دکھائی اور اوپر کی تقریر میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کسی کا جواب بھی ان لوگوں کے پاس نہ تھا۔ اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ اچھا اگر تمہیں اپنے عقیدے کی صداقت کا پورا یقین ہے تو آؤ ہمارے مقابلہ میں دعا کرو کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو، تو ان میں سے کوئی اس مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس طرح یہ بات تمام عرب کے سامنے کھل گئی کہ نجرانی مسیحیت کے پیشوا اور پادری، جن کے تقدس کا سکہ دور دور تک رواں ہے، دراصل ایسے عقائد کا اتباع کر رہے ہیں جن کی صداقت پر خود انہیں کامل اعتماد نہیں ہے۔
- اہلِ کتاب کو دعوت: آیت نمبر 64 سے 101تک اہلِ کتاب مختلف انداز میں مخاطب ہیں ان سے کہا جارہا ہے کہ آؤ ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ تم بھی ابراہیمؑ سے نسبت رکھتے ہو اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ ابراہیمؑ تو یہودی تھے، نہ عیسائی بلکہ وہ تو یکسو مسلم تھے۔
- آیت نمبر ۹۲ میں انفاق فی سبیل اللہ کی جانب اُبھارا گیا ہے کہ یہ انسانی معاشرے کےلیے اسی طرح ضروری ہے، جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا ضروری ہے۔ میدان جہاد کا تقاضا بھی جان سے زیادہ مال صرف کرنے کا ہے۔
- خانہ کعبہ پہلا گھر اللہ کا: حضرت ابراہیم ؑ کے کانہ کعبہ کی تعمیر کا تذکرہ اس سورۃ میں بھی دہرایا گیا ہے اور اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ “اس کی عبادت کےلیے سب سے پہلا عبادت خانہ مکہ معظمہ کا بیت اللہ ہے”۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اوّل بنیاد آدم ؑ نے رکھی تھی، جو اللہ کے حکم کے مطابق طے شدہ جگہ پر تھی۔ یہی وہ جگہ ہے جس کی تجدید صدیوں بعد حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے اسماعیلؑ نے دہرائی ۔
- اللہ کی رسی: ۱۰۲ سے ۱۱۰ تک اتحادِ اُمہ کا درس دیا گیا ہے اور تفرقے بازی اور گروہ بندی سے منع کیا گیا ہے۔ بتایا گیاکہ اسلام سے روگردانی آگ کے گڑھے میں گر جانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا اللہ کی رسی یعنی قرآن پاک کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑے رہنا چاہیے۔
- امر بالمعروف و نہی عن المنکر: اُمت مسلمہ کو اُس کا مقام یاد دلایا گیا کہ اس قوم کو اُٹھایا ہی اس لیے گیا ہے کہ یہ نیکی کا حکم کرے اور برائیوں سے روکے۔ اگر ساری امت یہ کام انجام نہیں دے پاتی تو اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے ایک جماعت تو ایسی ضرورہی ہونی چاہیے جو اپنے اس فریضے کو سنجیدگی اور استقلال کے ساتھ سر انجام دیتی رہے۔ یہی لوگ اہلِ خیر ہیں اور آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔
- غزوۃٔ اُحد: آیت نمبر ۱۲۱ سے سورۃ کا مرکزی مضمون غزوۂ اُحد شروع ہوتا ہے جو سورۃ کے آخر تک چلتا ہے۔ جس کے پورے حالات کا جامع تجزیہ اس سورۃ میں کیا گیا ہے۔
- آغاز میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کا گھر سے نکلنا، منافقین کی سازشیں اور بعض اہلِ ایمان کا ضعف کا تذکرہ کیا ہے۔ پھر غزوۃٔ بدر اور اس میں شاندار کامیابی کا ذکر فرمایا اور یہ پیغام اُمتِ مسلمہ کو سمجھادیا کہ فضائے بدر جب بھی پیدا ہوتی ہے، اللہ کے فرشتے نصرت کے لیے قطار اندر قطار نازل ہوتے ہیں۔
- غزوۂ اُحد کے آغاز میں مسلمانوں کو کامیابی ملی تھی لیکن چند افراد کی غلطی سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ نبیؐ نے جنگ کے آغاز میں ۵۰ تیر اندازوں کی ڈیوٹی مسلم فوج کے پیچھے پہاڑ کے ایک درّے پر لگائی تھی جہاں کفار کی فوجیں داخل نہ ہوسکیں اور ہدایت کی تھی کہ چاہے فتح ہو یا شکست جب تک اللہ کےنبیؐ حکم نہ دیں اپنی جگہ نہیں چھوڑنی لیکن ابتدائی فتح نے جب کافروں کے قدم اُکھاڑدیے اور مسلم افواج مالِ غنیمت لوٹنے لگیں تو درّے پر متعین لوگوں نے مکمل فتح سمجھ کر درّہ چھوڑ دیا اور خالد بن ولید جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اپنے ساتھیوں کو لے کر پیچھے سے حملہ آور ہوگئے۔ آیت نمبر ۱۵۲ سے ۱۵۵ تک اس پوری کیفیت نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کی عزیمت اور بہادری کو اللہ تعالیٰ نے زبردست تحسین کے ساتھ آیت نمبر ۱۵۳ میں بیان کردیا کہ “یاد کرو جب تم بھاگے چلے جارہے تھے، کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش تمھیں نہ تھا اور رسول (میدان میں ڈٹا) تمھارے پیچھے سے تم کو پکار رہا تھا”۔
- ایک افواہ: آیت نمبر ۱۴۴ سے ۱۴۸ تک اُس افواہ کا تذکرہ ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ شہید کردیے گئے جس سے رہے سہے مسلمانوں کے بھی پیر اُکھڑ گئے تھے اور وہ دل برداشتہ ہوگئے تھے کہ اب کس کے لیے لڑیں۔ جس پر اللہ نے فرمایا کہ “محمد ﷺ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں ، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ اُلٹے پائوں پھر جائو گے؟ یاد رکھو ! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا ، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا”۔
- اللہ سے شہید کی گفتگو اور مقامِ شہادت: حضرت جابرؓ کے والد حضرت عبداللہؓ بھی اس جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔ آنحضورﷺ نے انکے بارے میں فرمایا کہ عبداللہ سے اللہ نے بالمشافہ کلام فرمایا او رپوچھا کہ تمھاری کیا آرزو ہے کہ، انھوں نے کہا کہ مجھے دنیا میں بھیج دیا جائے، میں تیرے راستے میں پھر لڑوں اور شہید کیا جاؤں” ارشاد ہوا کہ یہ میری سنت نہیں کہ یہاں سے کسی کو واپس بھیجوں تو حضرت عبداللہ نے اپنے گھر والوں کو تسلی کی درخواست کی۔ اس پر آیت نمبر ۱۶۹ تا ۱۷۱ نازل ہوئیں۔
- آخری رکوع: سورۃ کا آخری رکوع اہلِ ایمان کی صفات پر مشتمل ہے۔ جس میں ایمان و یقین، کائنات کی تخلیق پر غور و تفکر، اللہ کی طرف رُجوع اور اللہ کے راستے میں جان، مال اور ہر عزیز متاع کو قربان کردینے کی تلقین اور اس پر بے پناہ اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ احد کا زخم بہت بڑا سانحہ تھا لیکن اس کے آگے کے مرحلے جس ہمت اور استقامت کا تقاضہ کرتے تھے، ان کے پیشِ نظر سورۃ کی آخری آیت میں اس کے لیے ہمیشہ ہمت باندھے رکھنے اور خطروں کو خاطر میں نہ لانے کی تلقین ان الفاظ میں فرمائی
- اے ایمان والو! صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کےلیے کمر بستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اُمید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔