خلاصہ تراویح 7 رمضان
- آج ساتویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ الاعراف مکمل پڑھی جائے گی۔
- اس سورة کی تقریر کا مرکزی مضمون دعوت رسالت ہے ساری گفتگو کا مدّعا یہ ہے کہ مخاطبوں کو خدا کے فرستادہ پیغمبر کی پیروی اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ لیکن اس دعوت میں انذار (تنبیہ اور ڈراوے) کا رنگ زیادہ نمایا پایا جاتا ہے۔
- دوران تقریر چونکہ خطاب کا رخ یہود کی طرف بھی پھر ا، اس لیے ساتھ ساتھ دعوت رسالت کے اس پہلو کو بھی واضح کردیا گیا ہے کہ پیغمبر پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ منافقانہ روش اختیا کرنے، اور سمع وطاعت کا عہد استوار کرنے بعد توڑ دینے، اور حق اور باطل سے واقف ہوجانے کے بعد باطل پرستی میں مستغرق رہنے کا انجام کیا ہے۔
- سورة کے آخر میں نبی ؐاور آپ کے صحابہؓ کو حکمت تبلیغ کے متعلق اہم ہدایات دی گئی ہیں اور خصوصیّت کے ساتھ انہیں نصیحت کی گئی ہے کہ مخالفین کی اشتعال انگیزیوں اور چیرہ دستیوں کے مقابلہ میں صبر و ضبط سے کام لیں اور جذبات کے ہیجان میں مبتلا ہو کر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو اصل مقصد کو نقصان پہنچانے والا ہو۔
- سورۂ اعراف میں درجِ ذیل 9 اہم نکات پر بحث کی گئی ہے:
- کامیابی و ناکامی
- آدم و حوا
- جنتی اور جہنمیوں کا مکالمہ
- اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل
- پاتچ قوموں کے قصے
- فرعون کا انجام
- أصحاب السبت کا ذکر
- عہد الست اور انسان
- قرآن کی عظمت
- ۱) کامیابی و نامی:
- سورۃ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ کتاب صدق و صفا، اللہ کی طرف سے محمدؐ کے قلب پر نازل کی گئی ہے۔ دلوں کی تنگی کا اس میں علاج ہے۔
- ۲) آدمؑ و ابلیس:
- آیت نمبر 11 سے 25 تک ایک بار پھر قصہ آدمؑ و ابلیس تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ابلیس کی ہٹ دھرمی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ساتھ ہی آدم و حوا علیہ السلام کی دُعا نقل کی گئی ہے جس کے الفاظ اللہ نے انھیں سکھائے تھے اور انکی ادائیگی کرکے انھوں نے توبہ کی تھی۔ تاہم فیصلہ یہی ہوا تھا کہ اب جنت کے بجائے زمین پر انسان کا ٹھکانا ہوگا اور اس دار العمل میں اپنے کردار سے جنت یا جہنم کا فیصلہ وہ خود کرے گا۔
۳) جنتیوں، جہنمیوں اور اصحاب الاعراف کا مکالمہ:
- اللہ کی آیات کو جھٹلانے او رسرکشی کرنے والوں کے بارے میں آیت نمبر 40 تا 41 میں فرمایا کہ جنت میں ان کا جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا۔ جنتی کہیں گے: ”ہم سے تو جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے ہوئے، کیا تمھارے ساتھ کیے گئے وعدے بھی پورے ہوئے؟“ جہنمی اقرار کریں گے۔
- آیت نمبر 44 سے 51 تک اصحاب الاعراف کا تذکرہ ہے: ایک گروہ ایسا بھی ہوگا جو نہ جنت میں ہوگا اور نہ جہنم میں وہ درمیانی مقام پر ہوگا۔ جنتیوں کو پکار کر سلام کرے گا۔ جہنمیوں کی جانب دیکھ کر دُعا کرے گا کہ اللہ ان سے بچا۔
- جہنمی جنت والوں سے کھانا پینا مانگیں گے، مگر جنتی ان سے کہیں گے: ”اللہ تعالیٰ نے کافروں پر اپنی نعمتیں حرام کر دی ہیں۔“ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم ان کو ایسے بھلادیں گے جیسے انھوں نے میں ہماری آج کی ملاقات کو بھلا دیا تھا۔
۴۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل:
- آیت نمبر 54 میں اللہ نے اپنی تخلیق اور تسخیر کائنات کا ذکر فرمایا ساتھ ہی یہ نکتہ بھی بتادیا کہ خالق وہی ہے تو حکم اور قانون بھی اسی کا چلے گا۔ جن تخلیقات کا ذکر ملتا ہے وہ یہ ہیں:
- (۱)بلند وبالا آسمان (۲)وسیع وعریض عرش (۳)رات اور دن کا نظام (۴)چمکتے شمس و قمر اور ستارے (۵)ہوائیں اور بادل (۶)زمین سے نکلنے والی نباتات
۵۔ پانچ قوموں کے قصے:
- آیت نمبر 59سے93 تک مسلسل انبیائے کرامؑ کے احوال اور ان کی دعوت و عزیمت اور ان سے متعلقہ قوموں کی نافرمانیوں کی تفصیلات اور انکی پاداش میں دنیا میں ان پر عذاب کے احوال کا ذکر ملتا ہے۔
- (۱)قوم نوحؑ (۲)قوم عاد (۳)قوم ثمود (۴)قوم لوطؑ اور (۵)قوم شعیبؑ
- ان قصوں کی حکمتیں: (۱)تسلیّ رسولؐ (۲)اچھوں اور بروں کے انجام بتانا (۳)اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں (۴)رسالت کی دلیل کہ اُمّی ہونے کے باوجود پچھلی قوموں کے قصے بتا رہے ہیں (۵)انسانوں کے لیے عبرت و نصیحت
۴۔ فرعون کا انجام:
- آیت نمبر 103 سے حضرت موسیٰ ؑ کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ اور جادوگروں کے آمنے سامنے ہونے کے بعد جادوگر حضرت موسیٰ ؑ کے معجزے کو سمجھ گئے تھے اور ایمان لے آئے تھے جس پر فرعون نے انھیں صولی چڑھا دیا تھالیکن انھوں نے کلمۂ حق نہیں چھوڑا تھا۔ اس کے بعد فرعون نے بنی اسرائیل پر مزید ظلم بڑھادیے۔ بنی اسرائیل موسیٰ ؑ کا ساتھ دینے کے بجائے فرعون سے خوف زدہ ہوگئے۔ آخر کار موسیٰ ؑ اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے۔ ادھر فرعون کو پتہ چل گیا اور وہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ انکے پیچھے آیا۔ یہاں تک کہ سامنے سمندر آگیا ، جہاں اللہ نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی سمندر میں ماریں چنانچہ اس راستہ بن گیا اور بنی اسرائیل اس میں داخل ہو کر سمندر پار کرگئے۔ فرعون کی فوجیں جب پہنچیں تو انھوں نے راستہ دیکھا اور وہ بھی سمندر میں داخل ہوگئیں لیکن جیسے ہی وہ درمیان میں پہنچیں سمندراللہ کے حکم سے دوبارہ اپنی اصلی حالت میں واپس آگیا۔ یا اور فرعون اپنی فوج سمیت سمندر میں غرق ہوگیا۔
- اسکے بعد ہی بنی اسرائیل نے فلسطین میں جانے سے انکار کردیا کیونکہ وہاں ایک مضبوط قوم آباد تھی اور یہ جہاد سے جی چرانے والے لوگ تھے، چنانچہ ۴۰ سال تک وادیوں میں بھٹکتے رہے۔ اسی اثناء میں موسیٰ ؑ اللہ ہم کلام ہونے اور ہدایات لینے پہاڑ پر اعتکاف کے لیے چلے گئے جہاں انھیں پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکامات دیے گئے۔ لیکن انکے پیچھے بنی اسرائیل نے ایک جادوگر سامری کے کہنے پر گائے کی پوجا شروع کردی۔
۵۔ اصحابِ السبت :
- آیت نمبر 163 سے اس بستی کا ذکر کیا گیا ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی۔ بستی کے رہنے والوں نے اپنے لیے ایک دن آرام کا مانگا چنانچہ اللہ کی طرف سے انھیں ہفتہ کا دن دیا گیا اور ہر کسی قسم کا کام حرام کردیا گیا۔ لیکن بعد میں بستی کے رہنے والوں نے یوم سبت کی خلاف ورزیاں شروع کردیں اور بستی والے تین گروہوں میں بٹ گئے۔
- نافرمان اور فساق و فجار، جو دھڑلّے سے قانونِ خداوندی کو توڑ رہے تھے۔
- وہ نیک لوگ جو اپنی نیکی کے خول میں بند، امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے لاتعلق، کونوں کھدروں اور خانقاہوں میں بیٹھ گئے تھے۔
- وہ لوگ جو خود بھی برائی سے بچتے تھے اور برائی کرنے والوں کو دردِ دل اور خیر خواہی کےساتھ نیکی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے تھے۔
- دوسرے گروہ والےتیسرے گروہ کے افرادسے کہتے تھے کرنے دو، جو کرتے ہیں۔ یہ اللہ اور انکا معاملہ ہے۔ جس پر تیسرے گروہ والوں نے کہا کہ ہم اوّل تو انکے ہمدرد ہیں انھیں جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں دوسرے پیشی کے روز اللہ سے کہہ سکیں گے کہ پرودگار ہم نے اپنی کوشش کی کہ نیکی کو فروغ دیں اور برائی کا سدِّباب کریں۔
۶۔ عہدِ الست اور انسان :
- آیت نمبر 172 سے اس عہد کا تذکرہ شروع ہوتا ہے، جس کو عموماً عہدِ الست کہا جاتا ہے۔ یہ اللہ ربّ العالمین کا تمام بنی آدمؑ کی ارواح سے سوال تھا، جس میں اس نے فرمایا! کیا میں تمھارا ربّ نہیں ہوں؟ تو سب نے جواب دیا تھا کہ “کیوں نہیں، آپ ہی ہمارے ربّ ہیں”۔ ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ اللہ ربّ العالمین نے ہر انسان کے دل میں جو نفس لوامہ یعنی ضمیر کی آواز پیدا کی ہے ، یہ اسی عہد کے اثرات ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ اس عہد کو بھول کر نفسِ امّارہ کے شکار ہو جاتے ہیں اور ربّ کی نافرمانیاں کرتے ہیں گویا کہ اس کے باغی ہوجاتے ہیں۔ انہی لوگوں کو قرآن اگلی آیات میں فرمایا گیا کہ “وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں “۔
۷۔قرآن کی عظمت:
- سورۃ کے آخر میں قرآن کی عظمت کا تذکرہ ہے اور اسکو ایک معجزہ قرار دیا گیا ہے۔ اہلِ ایمان کو ہدایت دی گئی کہ کہ جب اس کی تلاوت کی جائے تو اسے توجہ سے سنیں اور خاموش رہیں۔ قرآن سے تعلق جوڑنے والے رحمت خداوندی کے مستحق بن جاتے ہیں۔
- اس سورۃ کی آخری آیت، آیتِ سجدہ ہے۔ یعنی اس آیت پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ ترتیبِ تدوینی کے لحاظ سے پہلا مقام ہے جہاں سجدۂ تلاوت وارد ہوا ہے۔ قرآن مجید میں کُل ۱۴ مقام ایسے ہیں جہاں سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
- نبیﷺ بسا اوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیتِ سجدہ آتی تو آپؐ خود بھی سجدہ میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا۔ حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کی جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا۔ فتح مکہ کے وقت آپؐ نے قرآن پڑھا اور آیتِ سجدہ آئی تو زمین والوں نے زمین پر اور سواریوں پر بیٹھے ہوؤں نے اپنی سواریوں پر جھک کر سجدہ کیا۔ دورانِ خطبہ آپؐ ایسی آیت آنے پر منبر سے اُتر کر سجدہ کیا کرتے تھے۔