خلاصہ تراویح 15 رمضان
آج پندرھویں تراویح ہے ، اس میں اٹھارھواں پارہ مکمل تلاوت کیا جائے گا ۔ جس میں سورۃ المومنون، سورۃ النور مکمل اور سورۃ الفرقان کی ابتدائی ۲۰ آیات شامل ہیں۔
- سورۃ المومنون: سورۃ المومنون مکہ کے درمیانی دور کی سورۃ ہے۔ اس وقت تک قریشِ مکہ سے نبی ؐ کی کشمکش تو برپا تھی لیکن انکے مظالم عروج پر نہیں پہنچے تھے۔ اس سورۃ کی ابتدائی 10 آیات کے بارے میں نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقیناً جنت میں جائے گا۔
- فلاح پانے والے لوگ: آیت 1میں فرمایا گیا کہ فلاح پاگئے ایمان والے۔ اور پھر آیت2 سے انکی صفات بتائی گئیں۔
- نماز میں خشوع: خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک جانا، دب جانا، اظہار عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے، اعضاء ڈھیلے پڑجائیں، نگاہ پست ہوجائے، آواز دب جائے، اور ہیبت زدگی کے سارے آثار اس پر طاری ہوجائیں۔ جو اس حالت میں عموماً ہوجایا کرتے ہیں ۔
- لغویات سے دور رہتے ہیں: ” لغو ” ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، لایعنی اور لا حاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو، وہ سب ” لغویات ” ہیں۔
- زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں: تیسری صفت یہ ہے کہ اہل ایمان زکوٰۃ کے طریقے پر کاربند ہوتے ہیں۔ یعنی محض زکوٰۃ دینے کی بات نہیں کی گئی، اس سے بڑھ کر ایک جامع تصور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مال کو پاکیزہ بنانے کےلیے زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں اور زندگی کے ہر پہلو کا تزکیہ کرنے کے لیے فکر مند اور کوشاں رہتے ہیں۔ اس میں اپنی زندگی کے تزکیے کے ساتھ ساتھ گرد و نواح کے ماحول کا تزکیہ بھی شامل ہے۔
- اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں: پہلا مطلب یہ کہ اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپا کر رکھتے ہیں، یعنی عریانی سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھولتے۔ دوسرا یہ کہ وہ اپنی عصمت و عفت کو محفوظ رکھتے ہیں، یعنی صنفی معاملات میں آزادی نہیں برتتے اور قوت شہوانی کے استعمال میں بےلگام نہیں ہوتے۔
- اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں: ” امانات ” کا لفظ جامع ہے ان تمام امانتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے، یا معاشرے نے، یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں۔ اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور اللہ کے درمیان، یا انسان اور انسان کے درمیان، یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں۔
- اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں: ” نمازوں کی محافظت ” کا مطلب یہ ہے کہ وہ اوقات نماز، آداب نماز، ارکان و اجزائے نماز، غرض نماز سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ جسم اور کپڑے پاک رکھتے ہیں۔ وضو ٹھیک طرح سے کرتے ہیں۔ صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں، وقت ٹال کر نہیں پڑھتے۔ نماز کے تمام ارکان پوری طرح سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ایک بوجھ کی طرح جلدی سے اتار کر بھاگ نہیں جاتے۔ اور جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے بندہ اپنے خدا سے کچھ عرض کر رہا ہے۔
- یہی لوگ وارث ہیں (۱۰) جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔(۱۱)
تخلیقِ انسان اور اللہ کی نعمتیں: آیت 12-22 میں تخلیقِ انسان کے مدارج بیان کیے گئے ہیں۔ یعنی کہ پانی کی بوندسے لے کر خون کا لوتھڑا، بوٹی، ہڈیاں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھانے کا مرحلہ، یہ اُس خالق کی تخلیق ہے۔ اس تخلیق کے تذکرہ کے بعد موت اور زندگی بعد الموت کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد آسمان اور سیاروں کا تذکرہ۔ آسمان سے بارش کا نزول اور اسکے نتیجے میں انواع و اقسام کے پھل، میوے، غلے اور سبزیوں کا اُگنا خصوصاً ذکر ہے زیتون کا۔ پھر ایک بڑی نعمت یعنی جانوروں کا ذکر ہے جن کے پیٹ سے خون اور گوبر کے درمیان سے شفاف دودھ نکلتا ہے۔ پھر سواریوں کے ایک اور ذریعے کشتیوں کا ذکر بھی کیا گیا ۔
ذکرِ انبیاء: آیت 23 سے 56 تک نوح ؑ، دیگر نافرمان اقوام اور موسیٰ و ھارون ؑاور عیسیٰ ؑ کا ذکر ملتا ہے۔ اور نبی ؐ کو بتادیا جائےکہ دلبرداشتہ نہ ہونا ، آپ اکیلے نہیں ہیں جنکی نافرمانی کی جارہی ہے بلکہ آپ سے پہلے کے انبیاء کو بھی جھٹلایا جاتا رہا ہے۔
ایمان والوں کی صفات: آیت 57-61 میں ایمان والوں کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی یہ لوگ اپنے رب کے خوف سے ڈرنے والے ہوتے ہیں، رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں، رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، اور وہ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو بھی دیں اور ان کے دلوں کو دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں، وہی بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے ہیں۔
انکار کرنے والوں کا انجام: آیت 62-77 میں بتایا کہ اللہ لوگوں کو ظلم نہیں کرتا بلکہ ایک کتاب ہے جس میں سب کے اعمال لکھے جارہے ہیں۔ انہی کے مطابق قیامت کے دن فیصلہ کیا جائے گا اور جب کفار کو عذاب دیا جائے گا تو یہ چیخیں گے فریادیں کریں گے تو انھیں جھڑک دیا جائے گا۔ اور یاد دلایا جائے گا کہ جب میرے انبیاء آکر یاد دلاتے تھے تو تم ان پھر بھپتیاں کستے تھے انھیں مجنون، شاعر، جادوگر اور جانے کیا کیا بنا دیا کرتے تھے اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے تھے۔ اسی کی پاداش میں انھیں عذاب دیا جائے گا۔
سورۃ النور: سورۃ النور ایک مدنی سورۃ ہے۔ یہ سورت غزوہ بنی الْمُصْطَلِق کے بعد نازل ہوئی ہے۔ خود قرآن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نزول واقعہ اِفْک کے سلسلے میں ہوا ہے ۔ جس کا ذکر دوسرے اور تیسرے رکوع میں ملتا ہے ۔
- اس سورۃ میں کئی احکام و قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ یہی وہ سورۃ ہے جو تاریخِ اسلام کے اس عظیم الشان واقعی کی وضاحت کرتی ہے، جس میں پاک دامن اُم المومنین سیدہ عائشہؓ پر نہایت گھناؤنی سازش کے ذریعے ایک تہمت لگائی گئی پھر اس کاجواب خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے دیا۔
- اس سورۃ میں جو احکام و ہدایات دی گئی ہیں اُنکی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
۱) زنا کی سزا ۲) بدکاروں سے نکاح کی ممانع ۳) قذف کی سزا ۴) لعان
۵) سیدہ عائشہ ؓ کی عفت پر اللہ کی گواہی ۶) فحاشی و بے حیائی ۷) گھر میں داخلے کے آداب
۸) غضِ بصر کا حکم
- زنا کی سزا (۲): زنا کا عام مفہوم جس سے ہر شخص واقف ہے، یہ ہے کہ ” ایک مرد اور ایک عورت بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتہ زن و شوہر ہو، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں “۔ اس فعل کا اخلاقاً بُرا ہونا، یا مذہبا ً گناہ ہونا، یا معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابل اعتراض ہونا، ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں۔ اور اس میں بجز اُن متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی نفس پرستی کے تابع کردیا ہے،کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے۔
- زانی مرد اور زانیہ عورت کے لیے سزا مقرر کی گئی ہے جو کہ ۱۰۰ کوڑے ہے۔ حدیث میں اس کی تشریح ملتی ہے کہ یہ ایسے زانی اور زانیہ کی سزا ہے جو شادی شدہ نہ ہوں جبکہ شادی شدہ کی سزا سنگسار ہے۔
- بدکاروں سے نکاح کی ممانعت (۳ اور ۲۶): زانی مرد اور زانیہ عورت جبکہ وہ تائب نہ ہوں کے لیے پاکباز عورتوں اور پاکباز مردوں سے نکاح کی ممانعت اس آیت میں ملتی ہے۔ گویا کہ ان کا معاشرتی بائیکاٹ کردیا جائے۔
- قذف کی سزا (۴۔۵): کسی پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگانے کو قذف کہا جاتا ہے۔ اسکے کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ نے 80 کوڑے کی سزا رکھی ہے اور ساتھ ہی عمر بھر گواہی کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا ہے، سوائے سچی توبہ کے۔
- لعان (۶۔۱۰): جو مرد اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے اور اُس کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو اسے لعان کہا جاتا ہے۔ قاعدہ مقرر کیا گیا ہے کہ الزام لگانے والے مرد کو چار بار اللہ کی قسم کھانا ہوگی کہ وہ اپنے بیان میں سچا ہے۔ ان چار قسموں کے بعد اسے پانچویں قسم کھانی ہوگی کہ اگر وہ اپنے بیان میں جھوٹا ہے تو اللہ کی لعنت ہو اس پر۔
- عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہےکہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھائے کہ یہ شخص اپنے الزام میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر مرد سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب ٹوٹے۔
- حضورؐ کے دور میں ایسے کیس آئے دونوں جانب سے قسمیں ہونے کے بعد آپؐ کسی بھی سزا نہیں دی لیکن دونوں کے درمیان علیحدگی کروادی، بچہ ماں سے منسوب کردیااور نان و نفقہ باپ پر نہیں لگایا اور نسب باپ سے نہیں جوڑا۔ اسکے ساتھ حکم دیا کہ اصل فیصلہ قیامت کے دن اللہ کرے گا۔ یہ بھی حکم دیا کہ بچہ کو حرامی نہ کہا جائے۔
- سیدہ عائشہ ؓ کی عفت پر اللہ کی گواہی (۱۱۔۲۰): غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر حضرت عائشہ ؓ رفع حاجت کے لیے گئیں توواپسی پر انھیں محسوس ہوا کہ انکے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا ہے۔ وہ اس کی کی تلاش میں لگیں تو پیچھے سے قافلہ روانہ ہوگیا۔ چار آدمیوں نے اُٹھا کر اُن کا ہودہ اونٹ پر رکھ دیا، چونکہ اُن کا وزن ہلکا تھا لہٰذا وہ وزن محسوس نہ کرسکے۔ جب وہ ہار لے کر پلٹیں تو وہاں کوئی نہ تھا۔ آخر اپنی چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئیں اور دل میں سوچ لیا کہ آگے جا کر جب یہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو خود ہی ڈھونڈتے ہوئے آجائیں گے۔
- اسی حالت میں اُن کو نیند آگئی۔ صبح کے وقت سفوان بن معطل سُلَمِی(بدری صحابیؓ) اس جگہ سے گزرے جہاں وہ سورہی تھیں اور اُنھیں دیکھتے ہی پہچان گئے، کیونکہ پردے کا حکم آنے سے پہلے وہ اُنھیں بارہا دیکھ چکے تھے۔ بعض محدثین اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ؐنے ان کو اس خدمت پر مقرر کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں کوچ کرنے کی وجہ سے اگر کسی کی کوئی چیز چھوٹ گئی ہو تو صبح اسے تلاش کر کے لیتے آئیں ۔
- عائشہؓ کو دیکھ کر انہوں نے اونٹ روک لیا اور بےساختہ ان کی زبان سے نکلا ” اِنَّا للہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ، رسولؓ اللہ کی بیوی یہیں رہ گئیں “۔ اس آواز سے انکی آنکھ کھل گئی اور اٹھ کر فوراً اپنے منہ پر چادر ڈال لی۔ انہوں نے اُن سے کوئی بات نہ کی، لا کر اپنا اونٹ انکے پاس بٹھا دیا اور الگ ہٹ کر کھڑے ہوگئے۔آپؓ اونٹ پر سوار ہوگئیں اور وہ نکیل پکڑ کر روانہ ہوگئے۔ دوپہر کے قریب لشکر کو جالیا جبکہ وہ ابھی ایک جگہ جا کر ٹھہرا ہی تھا اور لشکر والوں کو ابھی یہ پتہ نہ چلا تھا کہ عائشہؓ پیچھے چھوٹ گئی ہیں۔ اس پر بہتان اٹھانے والوں نے بہتان اٹھا دیے اور ان میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی تھا۔ مگروہ اس سے بے خبر تھیں کہ اُن پر کیا باتیں بن رہی ہیں۔
- منافقین کے سوا خود مسلمانوں میں سے جو لوگ اس فتنے میں شامل ہوگئے تھے ان میں مسطح، حسَّان بن ثابت، اور حمنہ بنت جحش قابلِ ذکر ہیں۔
- چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے عائشہؓ کی برأت کا اعلان فرمایا۔ آیت نمبر 11 تا 20 وہی آیات ہیں۔
- فحاشی و بے حیائی (۱۹): فحاشی بے حیائی سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے مراد فحش پھیلانے کے تمام ذرائع ہیں۔ اس کا اطلاق عملاً بد کاری کے اڈوں پر ، بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں، اشعار، گانوں، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی ہوتا ہے۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آجاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اور اب نیٹ، موبائل، سوشل میڈیا جو بھی ان مقاصد کےلیے استعمال کیا جائے سب اسی کا حصہ ہے۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔
- غضِ بصر کا حکم (۳۰۔۳۱): مردوں اور عورتوں کو غضِ بصر کا حکم دیا گیا۔ عورتوں کےلیے پردہ ضروری قرار دیا گیا اور غیر محرموں سے میل ملاپ ممنوع ٹہرایا گیا۔ عورتوں کو اگر چہ باہر جانے کی اجازت ہے لیکن بناؤ سنگھار کرنے، اپنی نمائش کرنےاور مخلوط محفلوں کی زینت بننے سے منع کیا گیا ہے۔
- گھر میں داخلے کے آداب (۲۷۔۲۹ پھر ۵۸ ۔۶۱): گھروں میں داخل ہونے کے لیے گھر والوں سے اجازت کو ضروری قرار دیا گیا اور اگر گھر والے دستک کا جواب نہ دیں یا بصراحت ملاقات سے معذرت کردیں تو آنے والے کو بغیر بُرا مانے واپس چلے جانا چاہیے۔
- لونڈی غلام اور غیرسمجھدار بچے مالک یا والدین کی خواب گاہوں میں فجر سے پہلے، ظہر کے بعد اور عشاء کے بعد اجازت لیے بغیر نہ آئیں کیونکہ یہ پردے کے اوقات ہیں۔ بچے بالغ ہوجائیں تو کسی بھی وقت اجازت کے بغیر نہ آئیں۔
سورۃ الفرقان:
- سورۃ الفرقان ایک مکی سورۃ ہے اور مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہے۔
- اس میں ان شبہات و اعتراضات پر کلام کیا گیا ہے جو قرآن، اور محمدؐ کی نبوت، اور آپ کی پیش کردہ تعلیم پر کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے۔ آخر میں اہل ایمان کی اخلاقی خوبیوں کا ایک نقشہ کھینچ کر عوام الناس کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ اس کسوٹی پر کس کر دیکھ لو، کون کھوٹا ہے اور کون کھرا۔
- پہلی آیت سے اللہ کی توحید بیان کی جارہی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ قرآن ایک کسوٹی ہے ۔ پھر داعیٔ حق کی شخصیت کے بارے میں مخالفین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف انداز میں حق و باطل کا موازنہ کرکے اہلِ باطل کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔ آج جو ابتدائی ۲۰ آیات تلاوت کی جائیں گی اُن میں کم و بیش وہ مضامین ہیں جو اس سے قبل سورۃ الاسراء میں گزر چکے ہیں۔ یوں یہ سابقہ مضامین کا اعادہ اور تذکیر ہے۔
- الحمد للہ آج ۱۸ پارے مکمل ہوئے۔ ۱۹ ویں کے ساتھ ان شاءاللہ کل پھر حاضر ہوں گے۔ ہمارے ساتھ رہیے گا۔