Khulasa Taraweeh – خلاصہ تراویح

  • آج کی پہلی تراویح میں سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ کے 21 رکوع شامل ہیں۔
  • نبی ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نماز مکمل نہیں ہوسکتی، “جب تک اس میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت نہ کی جائے”۔
  • سورۃ فاتحہ دراصل قرآن کا دیباچہ یا پیش لفظ ہے۔ اس کو فاتحہ الکتاب اور اُمّ الکتاب بھی کہا جاتا ہے۔
  • سورۃ الحجر، آیت نمبر ۸۷ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ “ہم نے تم کو سات ایسی آیات دے رکھی ہیں، جو بار بار دہرانے کے لائق ہیں اور تمھیں قرآنِ عظیم عطا کیا ہے”۔ آئمہ متَقدمین کے نزدیک، ان سات آیات کا مصداق سورۃ الفاتحہ ہے۔
  • سورۃ الفاتحہ مکی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہونے والی پہلی مکمل سورۃ ہے۔
  • دُعا کے الفاظ و آداب: ان آیات میں دراصل دُعا کے الفاظ اور دُعا کرنے کا سلیقہ سکھایا گیا ہے۔
  • پہلے رب کی تعریف و توصیف بیان کی گئی، پھر بندے کے مقامِ عبدیت اور محتاجیت کا تذکرہ اور پھر دُعا
  • سورۃ البقرۃ ایک مدنی سورۃ ہے۔ مکی سورتوں میں عقائد کی پختگی جبکہ مدنی سورتوں میں معاشی، معاشرتی، تمدنی، سیاسی ، قانونی اور دیگر احکامات نظر آتے ہیں۔ کیونکہ مدینہ پہنچ کر چھوٹا موٹا ریاستی ڈھانچہ تشکیل پاچکا تھا۔
  • اہل کتاب: مکہ کے برعکس مدینہ میں اہلِ کتاب سے بھی واسطہ تھا جو وحی، رسالت، کتاب وغیرہ سے واقف تھے۔   لہٰذا حسبِ حال ان سے خطاب کیا گیا اور انکی ضد، ہٹ دھرمی، عناد  اور دین بیزاری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی پوری تاریخ کا احاطہ بھی کیا گیا۔
  • منافقین: مدینہ میں اسلام مکہ کی طرح بہت کمزور نہیں تھا پھر چھوٹی موٹی ریاست بھی تشکیل پاچکی تھی۔ گو کہ اب بھی مسلمان ہونا ایک آزمائش ہی تھا لیکن پھر بھی کچھ دنیاوی مفادات کے حصول کا امکان بھی نظر آرہا تھا لہٰذا یہاں منافقین کا ایک عنصر ظہور پذیر ہوا۔ اس سورۃ میں جا بجا منافقین کے کردار پر بحث  کی گئی ہے۔
  • سورۃ کی ابتداء میں انسانوں کے تین طبقات کا تعارف کرایا گیا ہے اوّل اہلِ ایمان کا، دوسرے دین کا انکار کرنے والے کفار کا اور تیسرے دو منہ رکھنے والے منافقین کا۔ ساتھ ہی ان تینوں کے انجام سے بھی آگاہی دے دی گئی۔
  • مومنین کو جنت کی بشارت، کفار کو جہنم کی خبر اور منافقین کوجہنم کے سب سے نچلے درجے میں رکھنے کا عقدہ سنایا گیا ہے۔ کیونکہ منافقین دراصل کفار ہی کے ساتھی ہوتے ہیں اور اپنی دانست میں مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں لیکن دراصل وہ مسلمانوں کو نہیں بلکہ خود ہی کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔
  • کلامِ ربانی کا اعجاز: قرآنِ پاک کی حقانیت اور صداقت پر شک کرنے والوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ وہ اس قرآن کی سورتوں جیسی ایک ہی سورۃ بنا کر لے آئیں اور اس کام میں اپنے مدد گاروں کو بھی شامل کرلیں۔   اور پھر خود ہی بتادیا گیا کہ وہ کبھی ایسا نہیں کرسکتے۔  پھر تنبیہ بھی کردی گئی کہ ایسے لوگوں کے لیے آگ کے آلاؤ تیار کیے گئے ہیں۔  جس کا ایندھن اور پتھر ہونگے۔
  • قصہ آدم و ابلیس: قصہ آدمؑ و ابلیس وہ قصہ ہے جو ہر الہامی کتاب میں مذکور ہے۔ اس قصہ میں فرشتہ، انسان اور شیطان کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔  جس میں فرشتوں کا تعارف اس انداز میں کرایا گیا کہ یہ غلطیوں سے مبرّا مخلوق ہوتے ہیں، جبکہ انسان اور جن و مخلوق جنھیں عمل میں اختیار کی آزادی دی گئی ہے اور انسان غلطی کرکےا اللہ کی طرف رجوع کرلیتا ہے جبکہ تیسرا تعارف ابلیس کا ہے جو غلطی کرتا ہے اور اس پر بضد ہوجاتا ہے اور لعنت زدہ قرار پاتا ہے۔
  • بنی اسرائیل: قصہ آدم و ابلیس کے اختتام پر بنی اسرائیل کا تذکرہ تفصیل سے آتا ہےجو کہ پانچویں رکوع سے شروع ہو کر سولہویں رکوع تک چلتا ہے۔ اس میں اس قوم کے عروج و زوال کی داستان رقم ہے ساتھ ہی اس قوم پر جو انعامات و عنایات کی گئیں ان کی تفصیل ملتی ہے۔  اسی سلسلے میں اس قوم کی جانب سے انبیاء کرامؑ پر کیے جانے والے ظلم اور موسیٰؑ ، انکے معجزات کا تذکرہ بھی تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔
  • ابراہیم ؑ کا قصہ: بنی اسرائیل کے کارناموں کی تکمیل پر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کی شخصیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور انکی قربانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بتایا گیا کہ کس طرح انھوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔  خانۂ خدا کی تکمیل کے بعد ابراہیم ؑ کی دُعا کا ذکر جس میں انھوں نے بلادِ حرم کو امن والا بنانے کی استدعا کی اور ساتھ ہی یہاں کے رہنے والوں کے لیے رزق کی فراوانی کو حرفِ دعا بنایا۔
  • تحویلِ قبلہ: آیت نمبر ۱۴۲ سے تحویلِ قبلہ کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جو حضورﷺ کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ایک ہے۔ ہجرت کے بعد تقریباً ۱۷ ماہ بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز ادا کی جاتی رہی جبکہ خانہ کعبہ پشت کی جانب ہوتا تھا۔ نبیؐ کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ قبلہ قرار دے دیا جائے جسے اللہ نے پورا کردیا۔   اس پر مشرکین اور اہل کتاب نے چرچا شروع کردیا جس کا جواب بھی آنے والے آیتوں میں دیا گیا۔ تحویلِ قبلہ دراصل تبدیلی امامت کا اعلان تھا۔ یعنی اب امامت بنی اسرائیل سے لے کر بنی اسماعیل کے فرزند محمد ﷺ کی اُمت کے سپرد کردی گئی۔
  • جہاد، قتال اور شہادت: تبدیلی امامت کے بعد جہاد، قتال ، آزمائشِ جان و مال کا ذکر ، تجارت و کاروبار کے نقصانات اور خوف و بھوک کے اشارات ملتے ہیں۔ اور اس پر صبر کی تلقین کا حکم۔ ان ہی آیات میں شہید کےلیے دائمی زندگی کی بشارت دی گئی۔
  • مناسکِ حج: آیت نمبر ۱۵۸ سے مناسکِ حج سکھلائے گئے اور صفا مروہ کا تذکرہ ملتا ہے جس پر حاجرہ ؑ کی سعی وجدجہدنظر آتی ہے پھر کس طرح اسماعیلؑ کے ایڑھیاں رگڑنے سے زمزم کا چشمہ پھوٹنا بھی انہی آیات میں آتا ہے۔
  • اسکے بعد اللہ رب العالمین نے آفاق و انفس میں غور کرنے اور سامانِ عبرت پانے کی تلقین فرمائی ہے۔ زمین و آسمان کی تخلیق، رات اور دن کا فرق، سمندروں کا سینہ چیر کر چلنے والے جہاز اور کشتیاں، آسمان سے نازل ہونے والا پانی، زمین کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے رنگا رنگ جانور، حشرات الارض، ہر آن رنگ بدلتی ہوائیں اور ان کے دوش پر سفر کرتے بادل، سبھی تخلیقِ ربانی کا شاہکارہیں۔ انھیں دیکھ کر ایک خالق وحدہٗ لاشریک کے وجود کا پتہ چلتا ہے۔
  • اگر انسان اپنی بصیرت سے کام نہ لے تو پھر یہ ساری نشانیاں بھی اسے منزل سے ہمکنار نہیں کرسکتیں اور وہ بھٹکتا رہتا ہے اور اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹہرالیتا ہے۔ بتایا گیا کہ جن ہستیوں کو انسان نے شریک بنایا وہ خود روز آخرت اس کے خلاف ہونگی۔
  • حلال و حرام: اللہ تعالیٰ نے تمام پاکیزہ چیزیں مسلمانوں کے لیے حلال قرار دیں اور حرام چیزوں کا نام لے کر تذکرہ کردیا یہ بالکل بنی اسرائیل کے برعکس ہے۔

ان شاء اللہ آگے کل۔    فی امان اللہ

    • آج دوسری تراویح ہے اور یہ دوسرے پارے کے چھٹے رکوع آیت ۱۷۷ سے سورۃ البقرۃ کے آخر تک چلے گی۔
    • آیت البرّ: یہ بڑی جامع آیت ہے اس آیت میں نیکی کے روایتی تصور سے ہٹ کر نیکی کا حقیقی تصور پیش کیا گیا ہے۔  یعنی نیکی محض ظاہری شکل و صورت کا نام نہیں بلکہ ایمانیات اور اعمالِ صالحہ کا مجموعہ ہے۔   اور اعمالِ صالحہ میں محض عبادت نہیں بلکہ معاملات بھی شامل ہیں۔ اسی آیت میں  انفاق فی سبیل  اللہ کی ۶ مدّات بیان کی گئی ہیں  جن کے فوراً بعد مراسمِ عبودیت میں سے نماز اور زکوٰۃ کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔ پھر  اخلاق کو کردار کی پختگی کےلیے ایفائے عہد اور تنگی و مصیبت میں صبر کا مظاہرہ اور معرکۂ حق و باطل میں استقامت کا بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا ہے۔  اس سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ نہ تو تارکِ دنیا  کی ہے اور نہ چھوٹی چھوٹی فقہی موشگافیوں میں پڑ کر نیکی کا پندار اور خود ساختہ پیمانہ اختیار کرنے والے معاشرے کی ہے۔ بلکہ یہ تصویر خیر و بھلائی پر مبنی ہے۔
    • قانونِ قصاص: اسکے بعد قصاص کا قانون بیان کیا گیا ہے اور اسے حیات ِ انسانی کے تحفظ کی ضمانت قرار دیا گیا ہے۔ آج  دنیا میں انسانی جان کی بے حرمتی اور انسانی عزت و وقار کی پامالی، قصاص کا قانون معطل و منسوخ ہونے کی وجہ سے ہے۔  یہ قانون بحال ہوجائے تو کمزور اور مظلوم لوگ محفوظ و مامون ہوجائیں،  قانون پسند شہری عزت اور امن سے ہمکنار ہوجائیں اور انسانیت کے بھیس میں چھپے بھیڑیے کیفرِ کردار کو پہنچ جائیں۔  آج نام نہاد روشن خیال قصاص اور حدود کے قوانین کومنسوخ کرانا چاہتے ہیں۔  گویا جرائم پیشہ اور قاتل و قزاق ہمدردی کے مستحق ہیں۔
    • وصیت: آیت نمبر ۱۸۰ سے ۱۸۲ تک وصیت کی فرضیت کا ذکر ملتا ہے جب کہ وراثت کے بارے میں قانون وضع نہیں کیا گیا تھالیکن قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے، اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے، تو بہت سے وہ سوالات خود ہی حل ہو جائیں ، جو میراث کے بارے میں لوگوں کو اُلجھن میں ڈالتے ہیں۔ مثلاً اُن پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں۔
    • روزوں کی فرضیت: آیت نمبر ۱۸۳ سے ۱۸۷روزوں کی فرضیت اور اسکے احکام کے بارے میں ہیں۔ روزو ں کی فرضیت کا پہلا حکم ۲ ہجری میں نازل ہوا جس میں بلا عذر روزہ نہ رکھنے کی صورت میں اس کا فدیہ ادا کرنے کی گنجائش رکھی۔ اس سے اگلے سال ۳ ہجری میں اس رعایت کو خاص لوگوں جیسے معذور، بیمار اور مسافروں تک محدود کردیا گیا۔  اب اگر بغیر شرعی عذر کے ایک روزہ بھی کوئی چھوڑے اور اسکے بعد پوری زندگی بھی روزے رکھتا رہے تو اُس ایک کے برابر اجر و ثواب نہیں پاسکے گا۔  لیکن قضاء ساقط نہیں ہوتی۔  بہر حال معذور ۲ وقت کا کھانا کسی مسکین کو کھلادے تو روزہ کا اجر پا لے گا۔
    • ان ہی آیات میں روزہ کی غرض و غایت بیان کی گئی ہے اور وہ ہے تقویٰ کا حصول۔ روزہ کی حالت سےبہت قریب ہوجاتا ہے اور ہر وقت اللہ کے موجود ہونے کا تصور اسکے ذہن میں تازہ رھتا ہے۔ ان ہی میں قرآن کے نزول کا مہینہ رمضان کو قرار دیا گیا کیونکہ اسی ماہ وحی کا آغاز ہوا تھا اور اسی ماہ ربّ العالمین نے لوح محفوظ مکمل کردیا تھا۔
    • مظاہرِ قدرت: چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے بارے میں کفار نبی کریمﷺ سے سوال کیا کرتے تھے تو ان کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کے تعین کی علامتیں ہیں۔ نیز بتایا گیا کہ چونکہ حج جو فرض ہے اس کا تعین بھی چاند ہی سے ہوتا ہے۔
    • جہاد و قتال: آیت نمبر ۱۹۰ میں جہاد کرنے کا پہلی بار حکم دیا گیا ہے اور ۱۹۵ تک اس کا تذکرہ ملتا ہے۔   اس سے پہلے مسلمان کمزور اور منتشر تھے، تو ان کو صرف تبلیغ کا حکم تھا اور مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہدایت کی جاتی تھی۔ اب مدینے میں ان کی چھوٹی سی شہری ریاست بن جانے کے بعد پہلی مرتبہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس دعوت اصلاح کی راہ میں مسلح مزاحمت کرتے ہیں، ان کو تلوار کا جواب تلوار سے دو ۔ اس کے بعد ہی جنگ بدر پیش آئی اور لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔  
    • یہ بھی بتادیا گیا کہ تمہاری جنگ نہ تو اپنی مادی اغراض کے لیے ہو، نہ ان لوگوں پر ہاتھ اٹھاؤ، جو دین حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے، اور نہ لڑائی میں جاہلیت کے طریقے استعمال کرو۔ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی کرنا، دشمن کے مقتولوں کا مثلہ کرنا، کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا اور دوسرے تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال ” حد سے گزرنے “ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت وارد ہے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ قوت کا استعمال وہیں کیا جائے، جہاں وہ ناگزیر ہو، اور اسی حد تک کیا جائے، جتنی اس کی ضرورت ہو۔
    • جہاد کو دہشت گردی قرار دینے والوں کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے۔ جہاد تو ظلم اور دہشت گردی کے خاتمے کا ذریعہ ہے۔
    • عمرہ و حج کے احکام: آیت نمبر ۱۹۶ سے ۲۰۳ تک عمرہ و حج کے احکام و مسائل پر بات کی گئی ہے۔ چونکہ اسلام سے پہلے بھی حج ہوتا تھا لیکن اپنی اصلی شکل کھو بیٹھا تھا اور اس میں بھی شرک کی آمیزیش کردی گئی تھی ساتھ ہی حج کے میعارات تبدیل کردیے گئے تھے۔ جس کو اللہ سبحانہٗ نے ان آیتوں میں تفصیل کے ساتھ رفع کیا ہے اورحج کرنے کا طریقہ بتایا ہے ۔
    • آیت نمبر ۲۱۹ میں شراب اور جوئے کی حرمت کے بارے میں ابتدائی حکم ملتا ہے جس میں صرف انکو نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ بتدریج بعد میں ان کو مکمل طور پر حرام سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ میں قرار دیا گیا۔
    • آیت نمبر ۲۲۰ سے ۲۲۱ تک یتامیٰ کے حقوق، ضرورت از زائد مال کرنے کی تلقین اور مشرک عورتوں اور مردوں سے مسلم مردوں اور عورتوں کا نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا۔
    • عمرہ و حج کے احکام: آیت نمبر ۱۹۶ سے ۲۰۳ تک عمرہ و حج کے احکام و مسائل پر بات کی گئی ہے۔ چونکہ اسلام سے پہلے بھی حج ہوتا تھا لیکن اپنی اصلی شکل کھو بیٹھا تھا اور اس میں بھی شرک کی آمیزیش کردی گئی تھی ساتھ ہی حج کے میعارات تبدیل کردیے گئے تھے۔ جس کو اللہ سبحانہٗ نے ان آیتوں میں تفصیل کے ساتھ رفع کیا ہے اورحج کرنے کا طریقہ بتایا ہے ۔
    • آیت نمبر ۲۱۹ میں شراب اور جوئے کی حرمت کے بارے میں ابتدائی حکم ملتا ہے جس میں صرف انکو نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ بتدریج بعد میں شراب کو مکمل طور پر حرام سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ میں قرار دیا گیا۔
    • آیت نمبر ۲۲۰ سے ۲۲۱ تک یتامیٰ کے حقوق، ضرورت سےزائد مال صدقہ کرنے کی تلقین اور مشرک عورتوں اور مردوں سے مسلم مردوں اور عورتوں کا نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا۔
    • خواتین کے مسائل: آیت نمبر ۲۲۲ سے ۲۴۲ تک خواتین سے متعلق اُمور کے بارے میں احکامات دیے گئے ہیں۔
    • حیض کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ایک گندگی اور بیماری کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہا جائے اور انکے قریب نہ جایا جائے جب تک وہ پاک صاف نہ ہوجائیں۔
    • بتایا گیا کہ طلاق دینے کا طریقہ کیا ہو، ایک نشست میں ایک دی جائے اور ایک ماہ بعد پاک ہونے پردوسری اور اسی طرح تیسری۔ گویا کہ بتایا گیا کہ ایک ہی نشست میں ایک ساتھ ۳ طلاقیں دینا زیادتی اور جہالت ہے۔
    • عدت کے احکام بتائے گئے کہ طلاق یافتہ خاتون کی عدت تین ماہواری اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل ہے، جبکہ بیوہ ہونے والے خاتون کےلیے عدت کی مدت ۴ ماہ ۱۰ دن اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل ہے۔
    • رضاعت سے متعلق حکم دیا گیا کہ عورت کو اپنے بچے کو دودھ پلانے کی مدت ۲ سال ہے۔
    • طالوت اورجالوت: آیت نمبر ۲۴۷سے ۲۵۲تک بنی اسرائیل کے قصوں میں سے طالوت اور جالوت کا قصہ ملتا ہے۔ جس میں حضرت سموئیل ؑ نے طالوت کو اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل پر حاکم مقرر کیا تھا تاکہ وہ جالوت کے بڑے لشکر سے مقابلہ کرسکے۔ طالوت مالدار اور معروف حسب و نسب والے فرد نہ تھے بلکہ ایک عام سے نوجوان تھے جنھیں بنی اسرائیل اپنا سردار ماننے پر معترض ہوئے ۔   انھیں نبیؑ کی زبانی انھیں بتایا گیا کہ قیادت کا میعار علم، جسمانی صلاحیت، جرأت اور استقامت ہے نہ کہ مال و دولت اور جاہ و حشمت۔     اس جنگ میں بڑے ڈیل ڈول کے اور طاقتور ، آہنی اسلحے سے لیس جالوت کو بنی اسرائیل کے ایک کم عمر مجاہد داؤدؑ نے قتل کردیا تھا۔   جبکہ اس جنگ میں بنی اسرائیل بہت کمزور تھے اور منافقین انھیں چھوڑ گئے تھے۔
    • مسلمانوں کی بھی چھوٹی سی جمعیت نے سن ۲ ہجری میں کفار کی بڑی جمعیت کو اسی طرح شکست دی تھی اور کفار کا سردار ابو جہل دو کم عمر مجاہدین معاذؓ اور معوذؓ نے جہنم رسید کیا تھا۔ ان آیات سے پہلے جہاد کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔
    • آیت الکرسی: آیت نمبر ۲۵۵ حدیث کی رُو سے قرآن کی افضل ترین آیت ، آیت الکرسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان کی گئی ہے۔
    • اسکے فوری بعد بتادیا گیا کہ دین میں داخل کرنے کے لیے جبر اور قوت کا استعمال جائز نہیں۔ اپنی آزاد مرضی سے جو چاہے وہ دین میں داخل ہوجائے اور جو چاہے کفر کی روش اپنا لے۔ نتیجہ بھی بتادیا گیاکہ ایک روشنی ہے جبکہ دوسری تاریکی۔
    • اس سے یہ غلط فہمی نہ پیدا ہونے پائے کہ اللہ نے لوگوں کو آزادی دی ہے لہٰذا مسلمان ہونے کے بعد مرضی ہے اللہ کے احکامات پر عمل کریں اور مرضی ہو تو عمل نہ کریں۔ اسلام میں کسی کو مسلمان بنانے کے لیے قوت استعمال نہیں کی جاسکتی لیکن ایک اسلامی معاشرے میں میں اسلامی ریاست  میں فرائض پر عمل کا تقاضا کیا جاتا ہے اور کوتاہی کی صورت میں مؤاخذہ کیا جاسکتا ہے۔
    • حضرت ابراہیمؑ اور نمرود: آیت نمبر ۲۵۸ سے ۲۶۰ تک ابراہیم ؑ کا ایک بار پھر تذکرہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کیسے وہ وقت کے جابر ربوبیت کے دعوے دار نمرود کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ۔ اور اسے بتایا کہ  زندگی و موت اور سورج کے مشرق سے نکلنے اور مغرب میں غروب ہونے پر اُس کا کوئی اختیار نہیں بلکہ سب اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
    • آیت نمبر ۲۵۹ میں حضرت عزیرؑ کا ذکر ہے جنھوں نے تباہ شدہ بستی کے بارے میں قلب کے اطمینان کےلیے اللہ سے سوال پوچھا تھا کہ وہ کیسے دوبارہ اس کو زندہ کرے گا۔ اللہ نے اسی وقت حضرت عزیرؑ اور انکے گدھے کو ۱۰۰ سال کے لیے موت کی وادی میں سلادیا۔  پھر  انھیں زندہ کردیا۔
    • آیت نمبر ۲۶۰ میں ابراہیمؑ کےاسی طرح کے سوال کے جواب میں انھیں 4پرندے پالنے، پھر انھیں ذبح کرنے اور انکے گوشت آپس میں ملا کر  مختلف پہاڑوں  پررکھنے کا حکم دیا۔  پھر حکم دیا کہ ان کو اسی آواز میں پکارو جس میں تم انھیں پکارا کرتے تھے۔  چنانچہ ابراہیم ؑ نے ایسا ہی کی اور دیکھا کہ چاروں پرندے اپنی پہلے والے شکل میں صحیح سالم انکے سامنے موجود تھے۔
    • انفاق فی سبیل اللہ: آیت نمبر۲۶۱ سے ۲۷۴تک مسلسل انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اسی میں بتایا گیاکہ اللہ تعالیٰ مومن کے ایک خرچ کرنے پر ۷۰۰ گنا اجر عطافرماتا ہے اور چاہے تو اس سے بھی زیادہ دے۔    ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ اللہ کی راہ میں جس پر خرچ کیا جائے اُس پر کسی قسم کا احسان نہیں جتایا جائے ورنہ دنیا میں مال بھی گیا اور آخرت میں بھی سوائے رُسوائی کے کچھ نہیں ملے گا۔   ان ہی آیات میں وضاحت کی گئی کہ شیطان انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ مال خرچ کرنے سے مال میں کمی واقع ہوجائے گی اور غربت و افلاس ڈیرے ڈال دے گی۔   بتایا گیا کہ ان وسوسوں کو جھٹک دینے والے ہی دراصل کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔
    • سودکی حرمت: آیت نمبر ۲۷۵ تا ۲۷۹   م  سود کی حرمت سےمتعلق ہیں۔       دینا پر آج  سودی معیشت پورے آب و تاب سے مسلط ہے۔    سود کے پیچھے بدترین قسم کا لالچ اور کمینگی کی حد تک مال کی محبت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔  اللہ نے تجارت کو حلال اور سود  کو حرام قرار دے دیا۔   اور حدیث میں سود کی حرمت کے حوالے سے آتا ہے کہ یہ وہ گناہ ہے جیسے اپنی ماں سے بدکاری کرلی۔
    • اللہ تعالیٰ نے سود پرجو سخت وعید سنائی ہے شاید ہی کسی جرم کے بارے اتنی سخت وعید سنائی ہو۔ ہم سمجھتے ہیں یہ انتہا ہے اس فعل کے ناپاک ہونے اور اس سے روکنے کےلیے۔    ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ  “اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے ، اسے چھوڑ دو ، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔(278)۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ (279)”
    • آیتِ تدایُن: سورۃ بقرۃ کے آخری حصہ میں ادھار کےباہمی لین دین کے احکامات دیے گئے ہیں۔ اور بتایا گیا ہے کہ ادھار لیتے اور دیتے وقت ایک دستاویز تحریر کرلیا کرو اور اس پر ۲ گواہ بنالیا کرو۔  یہ قرآن کریم کے متن کے لحاظ سے طویل ترین آیت ہے۔  ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں کیا جاتا جس تنازعات کھڑے ہوجاتے ہیں اور حل میں مشکل ہوتی ہے۔
    • سورۃ کا آخری رکوع خواتیم بقرہ بھی کہلاتا ہے اور ان آیات کی بری برکات بیان کی گئی ہیں۔

     

     

      • آج تیسری تراویح ہے اور اس میں سورۃ آلِ عمران کی مکمل تلاوت کی جائے گی۔
      • سورۃ آلِ عمران ایک مدنی سورۃ ہے اوریہ سورۃ البقرۃ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ ان سورتوں کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ یہ سورتیں شمس و قمرکی مانند ہیں  اور یہ کہ  دونوں حشر کے دن دو بدلیوں کی صورت میں ظاہر ہوں گی۔        یہ سورۃ ۴ تقاریر  پر مشتمل ہے۔
      • پہلی تقریر آغاز سورت سے آیت نمبر ۳۲ تک ہے اور وہ غالباً جنگ بدر کے بعد قریبی زمانے ہی میں نازل ہوئی ہے۔
      • دوسری تقریر آیت ۳۳ سے ۹۱  پر ختم ہوتی ہے۔ یہ سن ٩ ہجری میں وفد نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی۔
      • تیسری تقریر آیت ۹۲ سے ۱۲۰ تک چلتی ہے اور اس کا زمانہ پہلی تقریر سے متصل ہی معلوم ہوتا ہے۔
      • چوتھی تقریر آیت ۱۲۱ سے ختم سورت تک جنگ احد کے بعد نازل ہوئی ہے
      • آیاتِ محکمات و متشابہات: آیت نمبر ۷ میں آتا ہے کہ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات ، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات۔
      • آیات محکمات سے مراد وہ آیات ہیں، جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے۔  احکام سے متعلق جتنی بھی آیات ہیں  وہ سب محکم ہیں ‘ کہ یہ کرو یہ نہ کرو ‘ یہ حلال ہے یہ حرام !
      • لیکن جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی بحث ہے ان کا فہم آسان نہیں ہے۔ اللہ کی ذات وصفات کا ہم کیا تصور کرسکتے ہیں ؟ اللہ کا ہاتھ ‘ اللہ کا چہرہ ‘ اللہ کی کرسی ‘ اللہ کا عرش ‘ ان کا ہم کیا تصور کریں گے ؟ اسی طرح فرشتے عالم غیب کی شے ہیں۔ عالم برزخ کی کیا کیفیت ہے ؟ قبر میں کیا ہوتا ہے ؟ ہم نہیں سمجھ سکتے۔ عالم آخرت ‘ جنت اور دوزخ کی اصل حقیقتیں ہم نہیں سمجھ سکتے۔ چنانچہ ہماری ذہنی سطح کے قریب لا کر کچھ باتیں ہمیں بتادی گئی ہیں۔
      • آیات الملک: آیت نمبر ۲۶ اور ۲۷ آیات الملک کے نام سے معروف ہیں۔ اس میں اللہ رب العالمین نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا کہ وہ مالک الملک کی صفات بیان کردیں کہ حکومت اسی کا حق ہے،  دنیا میں عارضی طور پر وہ کسی کو جب تک چاہے اقتدار دیتا ہے اور جب چاہے چھین لیتا ہے۔  عزت اور ذلت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔  دن، رات اور کائنات کی ہر چیز اس کے حکم کے تابع ہے۔  وہ مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور زندہ کو مردہ سے۔
      • مریمؑ، زکریاؑ اور عیسیؑ کا ذکر: آیت نمبر ۳۵ سے ۶۰ تک مریمؑ ، زکریا ؑ اور عیسیؑ کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے.
      • حضرت مریم (علیہا السلام) : حضرت مریم ؑ جب  ماں کے پیٹ ہی میں تھیں تو ان کی والدہ نے یہ منت مانی تھی کہ اس پیدا ہونے والے بچے کو اللہ تعالیٰ کے لیے نذر کردوں گی۔ کسی بچے کو اللہ تعالیٰ کے لیے نذر کرنے کا مقصد بنی اسرائیل میں یہ ہوتا تھا کہ اس کو معبد کی خدمت کے لیے خاص کردیا جائے گا۔ حضرت مریم کی والدہ کو توقع لڑکے کی ولادت کی تھی لیکن پیدا ہوئی لڑکی۔
      • یہ چیز ان کے لیے موجب تردد ہوئی کیونکہ ہیکل کی خدمت کے لیے لڑکیوں اور عورتوں کے لینے کا رواج نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کی والدہ کی نذر قبول فرما لی اور وہ ہیکل میں داخل کرلی گئیں۔ حضرت مریم (علیہا السلام) کی یہ ابتدائی سرگزشت اور آگے کے حالات کے بیان کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جس اللہ کی بندی کی زندگی پیدا ہونے کے پہلے ہی سے خدا اور اس کے ہیکل کی خدمت اور اللہ کی عبادت و اطاعت کے لیے وقف ہوچکی تھی اور پیدا ہونے کے بعد سے دمِ واپسیں تک اس کے لیے وقف رہی یہ کیسی خرد باختگی ہے کہ اس کو خدا کی بندی کے بجائے نعوذ باللہ خدا کی ماں بنا دیا گیا۔
      • حضرت مریم ؑ بیت المقدس میں عورتوں کے اعتکاف کرنے کے ایک کمرے میں رہا کرتی تھیں اور حضرت زکریاؑ انکی خبر گیری کرنے اُس ہجرے میں جاتے رہتے تھے۔
      • جہاں حضرت مریمؑ کے غیر معمولی روحانی کمال کا اظہار ہورہا تھا۔ حضرت زکریا جیسے صاحب کمال بھی ان کے پاس جاتے تو ان کے کمال روحانی کے نفحات محسوس کرتے یہاں تک کہ ایک روز وہ استعجاب و تحسین کے طور پر یہ بھی پوچھ بیٹھے کہ اے مریم ! یہ چیزیں تمہیں کہاں سے حاصل ہوتی ہیں۔  انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کے پاس سے۔
      • حضرت زکریا (علیہا السلام) : حضرت زکریا حضرت مریم کی علم و معرفت کی باتوں سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے پیرانہ سالی میں، بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود، اپنے لیے بھی ایسی ہی اولاد صالح کی دعا مانگی۔
      • جواب میں فرشتوں نے آواز دی، جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، کہ ” اللہ تجھے یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے والا بن کر آئے گا۔ اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہوگی۔ کمال درجہ کا ضابط ہوگا۔ نبّوت سے سرفراز ہوگا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا۔
      • زکریاؑ نے حیرت سے پوچھا میرے بیٹا کیسے ہوگا جبکہ میں بوڑھا اور بیوی بانجھ ہے۔ جواب ملا ایسا ہی ہوگا۔
      • حضرت عیسیٰ (علیہا السلام) : قصہ زکریا ؑ و یحیٰ ؑ  بیان کرنے کا  اصل مقصد عیسائیوں پر ان کے اس عقیدے کی غلطی واضح کرنا ہے کہ وہ مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور الٰہ سمجھتے ہیں۔ تمہید میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر اس وجہ سے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح مسیح (علیہ السلام) کی ولادت معجزانہ طور پر ہوئی تھی اسی طرح ان سے چھ ہی مہینہ پہلے اسی خاندان میں حضرت یحییٰ کی پیدائش بھی ایک دوسری طرح کے معجزے سے ہوچکی تھی۔ اس سے اللہ تعالیٰ عیسائیوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اگر یحیٰی (علیہ السلام) کو ان کی اعجازی ولادت نے الٰہ نہیں بنایا تو مسیح (علیہ السلام) محض اپنی غیر معمولی پیدائش کے بل پر الٰہ کیسے ہو سکتے ہیں۔
      • آیت نمبر ۴۵ میں اللہ نے مریمؑ کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ اور جب فرشتوں نے کہا ” اے مریم ! اللہ تجھے اپنے ایک فرمان کی خوش خبری دیتا ہے۔ اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا، دنیا اور آخرت میں معزز ہوگا، اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا
      • آیت نمبر ۴۷ میں آتا ہے کہ حضرت یہ سن کر مریم بولی ” پروردگار ! میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا “۔ جواب ملا ” ایسا ہی ہوگا،   اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۔ وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
      • آیت نمبر ۴۹ میں حضرت عیسیٰؑ بنی اسرائیل کو بتایا کہ میں تمھارے پاس رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور اللہ کی طرف سے مجھے جو معجزے عطا کیے گئے ہیں ان میں مٹی سے پرندے کی صورت کا ایک مسجمہ بنا کر پھونک مارنا اور اُس کا اللہ کے حکم سے پرندہ بن جانا،  اللہ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنا  اور االلہ ہی  کے اِذن سے مُردے کو زندہ کرنا شامل ہے۔ 
      • وفد نجران اور مباہلہ: ایک عیسائی وفد جس میں انکے علماء بھی تھے نجران سے مدینہ منورہ آیا تھا جس کی مہمان نوازی رسولِ اکرمﷺ نے کی تھی اور انھیں رہنے کی جگہ مسجدنبوی میں دی تھی۔   بعد ازاں انھیں اسلام کی دعوت دی  ۔  تاہم اس نے ہٹ دھرمی دکھائی اور اوپر کی تقریر میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کسی کا جواب بھی ان لوگوں کے پاس نہ تھا۔ اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ اچھا اگر تمہیں اپنے عقیدے کی صداقت کا پورا یقین ہے تو آؤ ہمارے مقابلہ میں دعا کرو کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو، تو ان میں سے کوئی اس مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس طرح یہ بات تمام عرب کے سامنے کھل گئی کہ نجرانی مسیحیت کے پیشوا اور پادری، جن کے تقدس کا سکہ دور دور تک رواں ہے، دراصل ایسے عقائد کا اتباع کر رہے ہیں جن کی صداقت پر خود انہیں کامل اعتماد نہیں ہے۔
      • اہلِ کتاب کو دعوت: آیت نمبر 64 سے 101تک اہلِ کتاب مختلف انداز میں مخاطب ہیں ان سے کہا جارہا ہے کہ  آؤ ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔   تم بھی ابراہیمؑ سے نسبت رکھتے ہو اور ہم بھی رکھتے ہیں۔  ابراہیمؑ تو یہودی تھے، نہ عیسائی بلکہ وہ تو یکسو مسلم تھے۔
      • آیت نمبر ۹۲ میں انفاق فی سبیل اللہ کی جانب اُبھارا گیا ہے کہ یہ انسانی معاشرے کےلیے اسی طرح ضروری ہے، جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا ضروری ہے۔ میدان جہاد کا تقاضا بھی جان سے زیادہ مال صرف کرنے کا ہے۔
      • خانہ کعبہ پہلا گھر اللہ کا:             حضرت ابراہیم ؑ کے کانہ کعبہ کی تعمیر کا تذکرہ اس سورۃ میں بھی دہرایا گیا ہے اور اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کی عبادت کےلیے سب سے پہلا عبادت خانہ مکہ معظمہ کا بیت اللہ ہے۔  روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اوّل بنیاد آدم ؑ نے رکھی تھی، جو اللہ کے حکم کے مطابق طے شدہ جگہ پر تھی۔  یہی وہ جگہ ہے جس کی تجدید صدیوں بعد حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے اسماعیلؑ نے دہرائی ۔
      • اللہ کی رسی: ۱۰۲ سے ۱۱۰ تک اتحادِ اُمہ کا درس دیا گیا ہے اور تفرقے بازی اور گروہ بندی سے منع کیا گیا ہے۔   بتایا گیاکہ اسلام سے روگردانی آگ کے گڑھے میں گر جانے کے مترادف ہے۔   لہٰذا اللہ کی رسی یعنی قرآن پاک کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑے رہنا چاہیے۔
      • امر بالمعروف و نہی عن المنکر:             اُمت مسلمہ کو اُس کا مقام یاد دلایا گیا کہ اس قوم کو اُٹھایا ہی اس لیے گیا ہے کہ یہ نیکی کا حکم کرے اور برائیوں سے روکے۔    اگر ساری امت یہ کام انجام نہیں دے پاتی تو اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے ایک جماعت تو ایسی ضرورہی ہونی چاہیے جو اپنے اس فریضے کو سنجیدگی اور استقلال کے ساتھ سر انجام دیتی رہے۔  یہی لوگ اہلِ خیر ہیں اور آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔
      • غزوۃٔ اُحد: آیت نمبر ۱۲۱ سے سورۃ کا مرکزی مضمون غزوۂ اُحد شروع ہوتا ہے جو سورۃ کے آخر تک چلتا ہے۔  جس کے پورے حالات کا جامع تجزیہ اس سورۃ میں کیا گیا ہے۔
      • آغاز میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کا گھر سے نکلنا، منافقین کی سازشیں اور بعض اہلِ ایمان کا ضعف کا تذکرہ کیا ہے۔ پھر غزوۃٔ بدر اور اس میں شاندار کامیابی کا ذکر فرمایا اور یہ پیغام اُمتِ مسلمہ کو سمجھادیا کہ فضائے بدر جب بھی پیدا ہوتی ہے، اللہ کے فرشتے نصرت کے لیے قطار اندر قطار نازل ہوتے ہیں۔
      • غزوۂ اُحد کے آغاز میں مسلمانوں کو کامیابی ملی تھی لیکن چند افراد کی غلطی سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ نبیؐ نے جنگ کے آغاز میں ۵۰  تیر اندازوں کی ڈیوٹی  مسلم فوج کے پیچھے پہاڑ کے ایک درّے پر لگائی تھی جہاں کفار کی فوجیں داخل نہ ہوسکیں اور ہدایت کی تھی کہ چاہے فتح ہو یا شکست جب تک اللہ کےنبیؐ حکم نہ دیں اپنی جگہ نہیں چھوڑنی لیکن ابتدائی فتح  نے جب کافروں کے قدم اُکھاڑدیے اور مسلم افواج مالِ غنیمت لوٹنے لگیں تو درّے پر متعین لوگوں نے مکمل فتح سمجھ کر درّہ چھوڑ دیا اور خالد بن ولید جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اپنے ساتھیوں کو لے کر پیچھے سے حملہ آور ہوگئے۔  آیت نمبر ۱۵۲ سے ۱۵۵ تک اس پوری کیفیت نقشہ کھینچا گیا ہے۔  اس میں رسول اللہ ﷺ کی عزیمت اور بہادری کو اللہ تعالیٰ نے زبردست تحسین کے ساتھ آیت نمبر ۱۵۳ میں بیان کردیا کہ یاد کرو جب تم بھاگے چلے جارہے تھے، کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش تمھیں نہ تھا اور رسول (میدان میں ڈٹا) تمھارے پیچھے سے تم کو پکار رہا تھا۔
      • ایک افواہ: آیت نمبر ۱۴۴ سے ۱۴۸ تک اُس افواہ کا تذکرہ ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ شہید کردیے گئے جس سے رہے سہے مسلمانوں کے بھی پیر اُکھڑ گئے تھے اور وہ دل برداشتہ ہوگئے تھے کہ اب کس کے لیے لڑیں۔  جس پر اللہ نے فرمایا کہ محمد ﷺ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں ، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ اُلٹے پائوں پھر جائو گے؟ یاد رکھو ! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا ، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا۔
      • اللہ سے شہید کی گفتگو اور مقامِ شہادت: حضرت جابرؓ کے والد حضرت عبداللہؓ بھی اس جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔  آنحضورﷺ نے انکے بارے میں فرمایا کہ عبداللہ سے اللہ نے بالمشافہ کلام فرمایا او رپوچھا کہ تمھاری کیا آرزو ہے کہ،  انھوں نے کہا کہ مجھے دنیا میں بھیج دیا جائے، میں تیرے راستے میں پھر لڑوں اور شہید کیا جاؤں ارشاد ہوا کہ یہ میری سنت نہیں کہ یہاں سے کسی کو واپس بھیجوں تو حضرت عبداللہ نے اپنے گھر والوں کو تسلی کی درخواست کی۔  اس پر آیت نمبر ۱۶۹ تا ۱۷۱ نازل ہوئیں۔
      • آخری رکوع: سورۃ کا آخری رکوع اہلِ ایمان کی صفات پر مشتمل ہے۔  جس میں ایمان و یقین، کائنات کی تخلیق پر غور و تفکر، اللہ کی طرف رُجوع اور اللہ کے راستے میں جان، مال اور ہر عزیز متاع کو قربان کردینے کی تلقین اور اس پر بے پناہ اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔  احد کا زخم بہت بڑا سانحہ تھا لیکن اس کے آگے کے مرحلے جس ہمت اور استقامت کا تقاضہ کرتے تھے، ان کے پیشِ نظر سورۃ کی آخری آیت میں اس کے لیے ہمیشہ ہمت باندھے رکھنے اور خطروں کو خاطر میں نہ لانے کی تلقین ان الفاظ میں فرمائی
      • اے ایمان والو! صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کےلیے کمر بستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اُمید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔

       

  • آج چوتھی تراویح ہے اور اس میں سورۃ النساء کے اکثر حصے کی تلاوت کی جائے گی۔
  • جس زمانے میں یہ سورۃ نازل ہوئی اس میں ایک تو نئی منظم اسلامی سوسائٹی کی نشو نما تھی جس میں جاہلیت کے پرانے طریقوں کو مٹا کر اخلاق، تمدن، معاشرت، معیشت اور تدبیر مملکت کے نئے اصول رائج کیے جارہے تھے۔ اسلامی سوسائٹی کی تنظیم کے لیے سورة بقرہ میں جو ہدایات دی گئیں، اب یہ سوسائٹی ان سے زائد کی طالب تھی۔
  • دوسرے اس کشمکش کا مقابلہ جو مشرکین عرب، یہودی قبائل اور منافقین کی مخالف اصلاح طاقتوں کے ساتھ پوری شدت سے جاری تھی۔
  • تیسرے اسلام کی دعوت کو ان مزاحم طاقتوں کے علی الرغم پھیلانا اور مزید دلوں اور دماغوں کو مسخر کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس موقع پر جتنے خطبے نازل کیے گئے وہ سب انہی تین شعبوں سے متعلق تھے۔
  • اس سورۃ میں تفصیلاً خاندان کی تنظیم کےدرجِ ذیل اُصول بتائے گئے۔

 

  • نکاح پر پابندیاں عائد کی گئیں۔
  • معاشرے میں عورت اور مرد کے تعلقات کی حد بندی کی گئی۔
  • یتیموں کے حقوق متعین کیے گئے۔
  • وراثت کی تقسیم کا ضابطہ مقرر کیا گیا۔
  • معاشی معاملات کی درستی کے متعلق ہدایات دی گئیں۔
  • خانگی جھگڑوں کی اصلاح کا طریقہ سکھایا گیا۔
  • تعزیری قانون کی بنا ڈالی گئی۔
  • شراب نوشی پر پابندی عائد کی گئی۔
  • مسلمانوں کے اندر جماعتی نظم و ضبط (ڈسپلن) قائم کرنے کے متعلق ہدایات دی گئیں۔
  • طہارت و پاکیزگی کے احکام دیے گئے۔ (تیمم کی اجازت اور طریقہ)
  • قصر نماز اور صلاۃ الخوف کا تذکرہ
  • مدینہ میں منافق اور ضعیف الایمان لوگ ہر قسم کی خوفناک خبریں اڑا کر بدحواسی پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ حکم دیا گیا کہ ہر ایسی خبر ذمہ دار لوگوں تک پہنچائی جائے اور جب تک وہ کسی خبر کی تحقیق نہ کرلیں اس کی اشاعت کو روکا جائے۔
  • عرب کے مختلف علاقوں میں جو مسلمان کافر قبیلوں کے درمیان منتشر تھے اور بسا اوقات جنگ کی لپیٹ میں بھی آجاتے تھے ان کا معاملہ مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن تھا۔ اس مسئلہ میں ایک طرف اسلامی جماعت کو تفصیلی ہدایات دی گئیں اور دوسری طرف ان مسلمانوں کو بھی ہجرت پر ابھارا گیا تاکہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر دارالاسلام میں آجائیں۔
  • منافقین کے مختلف گروہ مختلف طرز عمل رکھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس قسم کے منافقوں سے کیا معاملہ کریں۔ ان سب کو الگ الگ طبقوں میں تقسیم کر کے ہر طبقہ کے منافقوں کے متعلق بتادیا گیا کہ ان کے ساتھ یہ برتاؤ ہونا چاہیے۔
  • غیر جانبدار معاہد قبائل کے ساتھ جو رویہ مسلمانوں کا ہونا چاہیے تھا اس کو بھی واضح کیا گیا۔
  • سب سے زیادہ اہم چیزیہ تھی کہ مسلمان کا اپنا کردار بےداغ ہو کیونکہ اس کشمکش میں یہ مٹھی بھر جماعت اگر جیت سکتی تھی تو اپنے اخلاق فاضلہ ہی کے زور سے جیت سکتی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کو بلند ترین اخلاقیات کی تعلیم دی گئی اور جو کمزوری بھی ان کی جماعت میں ظاہر ہوئی اس پر سخت گرفت کی گئی۔
  • دعوت و تبلیغ کا پہلو بھی اس سورة میں چھوٹنے نہیں پایا ہے۔
  • چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں، اس لیے تمہید اس طرح باندھی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دوسری طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دوسرے کا خون اور گوشت پوست ہیں۔
  • آیت نمبر (۱) میں کہا گیا کہ” تم کو ایک جان سے پیدا کیا “ یعنی نوع انسانی کی تخلیق ابتداءً ایک فرد سے کی۔ دوسری جگہ قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلا انسان آدم تھا جس سے دنیا میں نسل انسانی پھیلی۔
  • ” اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا “ ، اور ان سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیے۔
  • آیت نمبر ۲ سے ۶ یتیموں کے حقوق کے بارے میں ہیں، جس میں یتیموں کی سرپرستی اور ان سے محبت کی پُر زور تلقین کی گئی ہے۔ ان کے مال کی حفاظت، اس میں پوری دیانتداری کا اہتمام اور مال کو معروف انداز میں نشونما دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔  یتیم کا مال کھانے کو اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
  • تعداد ازواج: تعدد ازواج کی اجازت دی گئی ہے، جس کی تحدید چار تک کردی گئی ہے۔  تعدد  ازواج کی اجازت سے خاص حالات مین استفادہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے ازواج کے درمیان عدل و انصاف لازمی شرط ہے۔
  • وراثت: آیت نمبر ۱۲ تا ۱۴ وراثت کے اُصول و ضوابط کے بارے میں ہے۔  اس میں میراث پانے والے تمام ورثا کا تذکرہ ہے اور انکے حصے بھی متعین کیے گئے ہیں۔  خواتین کو انسانی تاریخ میں پہلی بار وراثت کا قانونی حق دیا گیا ہے۔
  • تقسیمِ وراثت کے حوالے سےیہ اُصول بھی بیان کیا گیا کہ فوت ہونے والے شخص کے ترکے میں سے سب سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا، پھر جو وصیت میت نے کی جو کہ ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہے، وہ پوری کی جائے گی اور اسکے بعد جو بچے گا اُس کو ورثا میں تقسیم کیا جائے گا۔ 
  • عورتوں کا مہر: اگلی آیات میں عورتوں سے متعلق احکامات ہیں جن میں انکے مہر کا ذکر بھی ہے جسے فرض قرار دیا گیا ہے۔  اور یہ بھی کہ مہر ایک بار دے دینے کے بعد واپس لینا جائز نہیں۔
  • محرّمات: آیت نمبر ۲۲ سے ۲۶ تک اُن خواتین کی فہرست مرتب کردی گئی ہے جن سے نکاح حرام ہے۔ یہ بھی جتا دیا گیا کہ اسلام میں خفیہ تعلقات اور چوری چھپے نکاح کی کوئی گنجائش نہیں۔
  • شوہر اور بیوی کا مقام: آیت نمبر ۳۴ میں مردوں کو گھر کا قوام یا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔  معاشی ذمہ داریاں سب کی سب مرد پر ڈال دی گئی ہیں اور عورت کو خاوند کی امانتوں کی حفاظت کرنے، نیز گھریلو معاملات کی دیکھ بھال اور تنظیم و تنسیق کی ذمہ داری سونپی گئی۔  میاں بیوی کے درمیان اختلاف اور تنازع پیدا ہونے کی صورت میں معاملے کو عدالتوں کے بجائے دونوں خاندانوں کے بزرگوں کو مداخلت کرکے گھر کے اندر ہی مصالحت کروانے کی ہدایت دی گئی ہے۔
  • تیمم: آیت نمبر ۴۳ میں نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جانے کا حکم دیا گیا ہے اور اسکے بعد تیمم کے مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔  تیمم کا یہ حکم غزوۃ بنی المصطلق کے موقع پر دیا گیا تھا، جب کہ پانی دستیاب نہیں تھا۔  تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ہاتھ مٹی یا اس جیسی کسی دوسری چیز پر مارے اور پھر اپنے پورے چہرے پر مسح کرے اور دوسری دفعہ ہاتھ مٹی  پر یا اس جیسی کسی چیز پر مارے اور دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کرے۔  تیمم پانی نہ ملنے کی صورت میں بھی کیا جاسکتا ہے اور کسی وجہ سے پانی کا استعمال مضرِ صحت ہونے کی صورت میں بھی۔  تیمم سے وضو بھی ہو جاتا ہے اور غسلِ واجب کی ضرورت ہو تو انسان پاک ہوجاتا ہے۔
  • اہلِ کتاب: آیت نمبر ۴۴ سے ۵۵ تک اہلِ کتاب خصوصاً یہودیوں کی بدعنوانیوں اور اللہ کی کتاب میں تحریف کا تذکرہ کرنے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے خلاف ان کی زہر افشانیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
  • اطاعت اور اس کی حدود:             آیت نمبر ۵۹ میں ایمان والوں کو اللہ اور اسکے رسول اور اُن میں موجود صاحبِ امر افراد کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔  لیکن یہ اطاعت اللہ اور اسکے رسول کی تو غیر مشروط ہوگی تاہم اولی الامر کی اطاعت کے لیے شرط رکھی گئی ہے کہ ان کا حکم اللہ اور اُس  رسول کے احکامات کے متصادم نہ ہو۔  اگر وہ ایسا کریں تو انکی اطاعت جائز نہیں۔  دونوں فریقین کے درمیان تنازع پیدا ہونے کی صورت میں معاملہ اللہ اور اسکے رسول کے احکامات کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔
  • طاغوت: آیت نمبر ۶۰ میں ایک لطیف نکتہ اُٹھایا گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہنے کو تو ایمان لانے کا دعویٰ  کرتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ طاغوت سے کرائیں۔  حالانکہ طاغوت انھیں کفر کا حکم دیتا ہے۔     طاغوت سے مراد ہر وہ قوت، ہر وہ شخصیت، ہر وہ ادارہ،  ہر وہ منصب جو اللہ اور اسکےرسولﷺکے  حکم کے آگے تاویلیں تلاش کرے اور کوئی نیا حل پیش کرے۔
  • دار الاسلام اور دارالکفر:             آیت نمبر ۸۸ سے ۹۱ تک پھر آیت نمبر ۹۷ سے ۹۸ تک ایسے لوگوں پر تنقید کی گئی ہے کہ جو دالاسلام قائم ہوجانے کے بعد بھی دارلکفر میں بغیر شرعی عذر رہ رہے تھے۔  اس سے معلوم ہوا کہ جب اہلِ اسلام پر عرصۂ حیات تنگ کردیا جائےاور انکے لیے اپنے دین پر قائم رہنا مشکل ہوجائے توشرعی عذر کے بغیر ہجرت واجب ہوجاتی ہے۔  اور دوسری طرف اسلامی ریاست کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے افراد کی ہر طرح مدد کرے۔
  • مومن کا قتل اور قتلِ خطاء: آیت نمبر ۹۲ تا ۹۳ میں قتلِ خطا کے بارے میں کفارہ کے احکام ہیں۔  قتلِ خطا وہ جو قصداً نہ کیا گیا ہو ۔  اور قصداً قتل کرنے والے کے بارے میں اللہ کے غضب اور لعنت کی وعید سنائی گئی ہے۔
  • نمازِقصر و صلوٰۃ الخوف: آیت نمبر ۱۰۱ سے ۱۰۳ تک قصر نماز اور صلوٰۃ الخوف کا ذکر کیا گیا ہے۔ زمانہ امن کے سفر میں قصر یہ ہے کہ جن اوقات کی نماز میں چار رکعتیں فرض ہیں ان میں دو رکعتیں پڑھی جائیں۔  تاہم سفر کے دوران نبی کریم ﷺ فجر کی سنتوں اور عشاء کے وتر کا اہتمام فرماتے تھے۔
  • حالت جنگ میں قصر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جنگی حالات جس طرح بھی اجازت دیں، نماز پڑھی جائے۔
  • جماعت کا موقع ہو تو جماعت سے پڑھو ورنہ فرداً فرداً ہی سہی۔
  • قبلہ رخ نہ ہو سکتے ہو تو جدھر بھی رخ ہو۔
  • سواری پر بیٹھے ہوئے اور چلتے ہوئے بھی پڑھ سکتے ہو۔
  • رکوع و سجدہ ممکن نہ ہو تو اشارہ ہی سے سہی۔
  • ضرورت پڑے تو نماز ہی کی حالت میں چل بھی سکتے ہو۔ کپڑوں کو خون لگا ہوا ہو تب بھی مضائقہ نہیں۔
  • ان سب آسانیوں کے باوجود اگر ایسی پرخطر حالت ہو کہ کسی طرح نماز نہ پڑھی جاسکے تو مجبوراً موخر کی جائے جیسے جنگ خندق کے موقع پر ہوا۔
  • آیت نمبر ۱۰۷ سے ۱۱۵ تک منافقین کا تذکرہ ہے اور انھیں جہنم کے نچلے ترین درجے میں رکھنے کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
  • آیت نمبر ۱۱۶ سے ۱۲۶ تک توحید باری تعالیٰ کا بیان ہے اور اللہ کا اعلان کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے ، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔(116)
  • آیت نمبر ۱۲۷ سے ۱۳۰ تک پھر بیویوں کے حقوق کے بارے میں پھر ایک باب باندھا گیا ہے۔
  • اہم ہدایت: پانچویں پارے کے آخر میں اللہ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ایسی مجلسوں میں بیٹھنا، جہاں اللہ کی آیات کے خلاف ہرزہ سرائی کی جارہی ہو، اہلِ ایمان کے شایانِ شان نہیں۔ ایسی مجالس میں شرکت حرام ہے۔  آج کے دور میں ان آیات کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے جہاں شیطان ہر طرف ننگا ناچ ناچ رہا ہے۔

 

  • آج پانچویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ النساء کا آخری چوتھائی حصہ اور سورۃ مائدہ پوری شامل ہے۔
  • سورۃ النساء کا آج پڑھا جانے والا حصہ زیادہ تر اہل کتاب سے متعلق ہے۔ تاہم اس کے آغاز میں اہلِ ایمان کو ظلم و ستم کے ماحول میں جرأت و استقامت اختیار کرنے اور اپنی اخلاقی برتری کو قائم رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
  • آیت نمبر ۱۵۳ تا ۱۵۵ میں حضورﷺ کے خلاف اہلِ کتاب کی ریشہ دوانیوں کا تذکرہ کرکے آپ کو تسلی دلائی گئی ہے کہ آپؐ انکی شرارتوں پر دل گرفتہ نہ ہوں۔ اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام  جن سے اہلِ کتاب محبت و عقیدت کے دعوے کرتے ہیں، آپؐ سے زیادہ اس قوم کی اذیتوں کا شکار ہوئے۔
  • آیت نمبر ۱۵۶ تا ۱۵۸ میں ذکر ملتا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰؑ کو قتل کرنےکی کوشش کی لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انھیں آسمان پر اُٹھا لیا۔ اس پر بھی وہ فخر سے کہتے رہے کہ ہم نے عیسیٰؑ کو قتل کردیا۔  
  • آیت ۱۷۱ تا ۱۷۲ میں عیسائیوں کے اُس عقیدے کی نفی کی گئی ہے جس کی رو سے وہ تثلیث یعنی ۳ معبودوں کا شکار ہوئے۔
  • سورۃ المائدہ ایک مکی سورۃ ہے اور یہ صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔
  • یہ وہ وقت تھا جب اسلامی اصول اور نقطہ نظر کے مطابق مسلمانوں کی اپنی ایک مستقل تہذیب بن چکی تھی جو زندگی کی تمام تفصیلات میں دوسروں سے الگ اپنی ایک امتیازی شان رکھتی تھی۔
  • اخلاق، معاشرت، تمدن، ہر چیز میں اب مسلمان غیر مسلموں سے بالکل ممیز تھے۔
  • تمام اسلامی مقبوضات میں مساجد اور نماز باجماعت کا نظم قائم ہوگیا تھا۔ ہر بستی اور ہر قبیلے میں امام مقرر تھے۔ اسلامی قوانین دیوانی و فوجداری بڑی حد تک تفصیل کے ساتھ بن چکے تھے اور اپنی عدالتوں کے ذریعہ سے نافذ کیے جا رہے تھے۔
  • لین دین اور خریدو فروخت کے پرانے معاملات بند اور نئے اصلاح شدہ طریقے رائج ہوچکے تھے۔ وراثت کا مستقل ضابطہ بن گیا تھا۔ نکاح اور طلاق کے قوانین، پردہ شرعی اور استیذان کے احکام، اور زنا و قذف کی سزائیں جاری ہونے سے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی ایک خاص سانچے میں ڈھل گئی تھی۔
  • مسلمانوں کی نشست و برخاست، بول چال، کھانے پینے، وضع قطع اور رہنے سہنے کے طریقے تک اپنی ایک مستقل شکل اختیار کرچکے تھے۔
  • صلح حدیبیہ سے پہلے مسلمانوں کے راستہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ وہ کفار قریش کے ساتھ ایک مسلسل کشمکش میں الجھے ہوئے تھے اور انہیں اپنی دعوت کا دائرہ وسیع کرنے کی مہلت نہ ملتی تھی۔ اس رکاوٹ کو حدیبیہ کی ظاہری شکست اور حقیقی فتح نے دور کردیا۔ اس سے ان کو نہ صرف یہ کہ اپنی ریاست کے حدود میں امن میسر آگیا، بلکہ اتنی مہلت بھی مل گئ کہ گردوپیش کے علاقوں میں اسلام کی دعوت کے لے کر پھیل جائیں۔ چنانچہ اس کا افتتاح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایران، روم، مصر اور عرب کے بادشاہوں اور رئیسوں کو خطوط لکھ کر کیا اور اس کے ساتھ ہی قبیلوں اور قوموں میں مسلمانوں کے داعی خدا کے بندوں کو اسکے دین کی طرف بلانے کے لیے پھیل گئے۔
  • صلح حدیبیہ سے پہلے مسلمانوں کے راستہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ وہ کفار قریش کے ساتھ ایک مسلسل کشمکش میں الجھے ہوئے تھے اور انہیں اپنی دعوت کا دائرہ وسیع کرنے کی مہلت نہ ملتی تھی۔ اس رکاوٹ کو حدیبیہ کی ظاہری شکست اور حقیقی فتح نے دور کردیا۔
  • اس فتح سے ان کو نہ صرف یہ کہ اپنی ریاست کے حدود میں امن میسر آگیا، بلکہ اتنی مہلت بھی مل گئ کہ گردوپیش کے علاقوں میں اسلام کی دعوت کے لئے پھیل جائیں۔ چنانچہ اس کا افتتاح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایران، روم، مصر اور عرب کے بادشاہوں اور رئیسوں کو خطوط لکھ کر کیا اور اس کے ساتھ ہی قبیلوں اور قوموں میں مسلمانوں کے داعی خدا کے بندوں کو اسکے دین کی طرف بلانے کے لیے پھیل گئے۔
  • اس سورۃ میں درجِ ذیل مسائل و احکام کا احاطہ کیا گیا ہے:
  • مسلمانوں کے مذہبی، تمدنی اور سیاسی زندگی کے متعلق مزید احکام و ہدایات۔
  • اس سلسلہ میں سفر حج کے آداب مقرر کیے گئے، شعائر اللہ کے احترام اور زائرین کعبہ سے عدم تعرض کا حکم دیا گیا
  • کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کے قطعی حدود قائم کیے گئے اور دور جاہلیت کی خود ساختہ بندشوں کو توڑ دیا گیا
  • اہل کتاب کے ساتھ کھانے پینے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی
  • وضو اور غسل اور تیمم کے قاعدے مقرر کیے گئے
  • بغاوت اور فساد اور سرقہ کی سزائیں معین کی گئیں
  • شراب اور جوئے کو قطعی حرام کردیا گیا
  • قسم توڑنے کا کفارہ مقرر کیا گیا
  • قانون شہادت میں مزید چند دفعات کا اضافہ کیا گیا۔
  • مسلمانوں کو نصیحت۔ اب چونکہ مسلمان ایک حکمران گروہ بن چکے تھے، ان کے ہاتھ میں طاقت تھی، جس کا نشہ قوموں کے لیے اکثر گمراہی کا سبب بنتا رہا ہے، مظلومی کا دورخاتمہ پر تھا اور اس سے زیادہ سخت آزمائش کے دور میں وہ قدم رکھ رہے تھے، اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے بار بار نصیحت کی گئی کہ عدل پر قائم رہیں، اپنے پیش رو اہل کتاب کی روش سے بچیں، اللہ کی اطاعت و فرماں برداری اور اس کے احکام کی پیروی کا جو عہد انہوں نے کیا ہے اس پر ثابت قدم رہیں۔
  • یہودیوں اور عیسائیوں کو نصیحت۔ یہودیوں کا زور اب ٹوٹ چکا تھا اور شمالی عرب کے تقریبًا تمام یہودی بستیاں مسلمانوں کے زیر نگیں آگئی تھیں۔ اس موقع پر ان کو ایک بار پھر ان کے غلط رویہ پر متنبہ کیا گیا ہے اور انہیں راہ راست پر آنے کی دعوت دی گئی ہے۔
  • عیسائیوں کو بھی خطاب کر کے ان کے عقائد کی غلطیاں بتائی گئیں اور انہیں  ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔
  • آیت نمبر ۱ تا ۵ میں ایک اہم اخلاقی تعلیم دی گئی ہے اور وہ یہ کہ ایمان والو اللہ کی طرف سے قائم کردہ حدود و قیود کی پابندی کرو اور شعائر اللہ کی بے حرمتی مت کرنا۔ انہی آیات میں حلال و حرام کی تفصیل بیان کردی گئی ہے۔  ان ہی آیات میں اہلِ کتاب کی خواتین کے ساتھ نکاح کو حلال کیا گیا ہے۔  لیکن یاد رہے کہ مسلمان عورتوں کو اہلِ کتاب کے مردوں سے شادی کرنا جائز نہیں کیا گیا ہے۔
  • طہارت: آیت نمبر ۶ میں وضو کا طریقہ اور جنابت کی حالت میں غسل کا حکم وضو کو توڑنے والی وجوہات کا ذکر دیا گیا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی یاد دہانی کرائی گئی ہے جس کا حکم پہلے ہی سورۃ النساء میں آچکا ہے۔
  • اللہ کے پھٹکارے ہوئے: آیت نمبر۱۲ تا ۱۹ یہود و نصاریٰ کی بد عہدیاں اور اس کے نتیجے میں انسانی معاشروں میں رونما ہونے والے برے اثرات کا دلنشین انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے۔  انھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا اور راہِ راست پر چلنے کے نتیجے میں اللہ نے انھیں اپنی نصرت کا یقین دلایا تھا۔   لیکن انھوں نے راہِ راست کو چھوڑ دیاتو پھر اللہ نے ان پر پھٹکار کی ۔  وہی ان آیات میں بیان کی گئی ہے۔
  • تاریخی واقعہ: آیت نمبر ۱۹ تا ۲۶ میں اُس تاریخی واقعہ کا ذکر ہے کہ جب  اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرقِ آب کردیا اور بنی اسرائیل کو نجات دی۔  اسکے بعد موسیٰ   ؑاور ہارون ؑانھیں فلسطین کی طرف لے گئے تو انھوں وہاں بسنے والے بنی عمالقہ کے خوف سے داخل ہونے سے صاف انکار کردیا اور جہاد سے منہ موڑ کر موسیٰ اور ھارونؑ کو کہا کہ تم اور تمھارا خدا لڑے ہم نہیں لڑسکتے۔  تو اللہ انھیں ۴۰ سال تک بھٹکنے کے لیے اسی وادی میں چھوڑ دیا۔  جب یہ ساری نسل مر کھپ گئی تو نئی نسل کے افراد نے فلسطین فتح کیا۔
  • انسانیت کا پہلا قتل: آیت نمبر۲۷ تا ۳۱ میں آدمؑ کے دو بیٹوں کا ذکر ہے جب ان میں سے ایک نے اپنے ہی بھائی کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا اور یہ انسانی تاریخ کا پہلا قتل تھا۔ پھر ایک کوّے نے زمین کھود کر اسے بتایا کہ لاش کا کیا کرنا ہے۔  اس سے اگلی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ نے واضح بتادیا کہ ایک انسان کا بلا وجہ قتل کرنا پوری انسانیت کا قتل کرنا ہے۔
  • فساد و غارت گری: آیت نمبر۳۳ میں اللہ نے اپنے رسولؐ سے متحارب قوتوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ قوتیں زمین میں فساد پھیلاتی ہیں، قتل و غارت گری، ڈاکے  ان کا وطیرہ بن جاتا ہے۔  ان کی سزابھی بیان کی گئی ہے کہ ان کے جرم کے مطابق انھیں قتل کی سزا بھی دی جاسکتی ہے، سولی پر چڑھائے جاسکتے ہیں۔  ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کاٹ ڈالے جاسکتے ہیں اور انھیں جلا وطنی کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔  یہ سزائیں کوئی فرد یا گروہ نہیں دے گا بلکہ اسلامی عدالت و نظام نافذ کرے گا۔
  • چوری کی سزا: آیت نمبر۳۸  میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا بطورِ حد قرار دیا گیا ہے۔  لیکن احادیث میں آتا ہے کہ چھوٹی موٹی چوری مثلاً پھل، ترکاری اور کوئی اور کھانے کی چیز، پرندے کی چوری وغیرہ پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اسی طرح خیانت کرنےوالے کا ہاتھ بھی نہیں کاٹا جائے گا اور نہ ہی بیت المال سے چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔  لیکن ان چوریوں پر دیگر سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
  • جان کے بدلے جان: اللہ کے ہر نبی کی شریعت میں حدود کے قوانین بیان فرمائے گئے ہیں۔ آیت ۴۵ میں بطورِ خاص اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت ، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ مقرر کیا گیا۔  ان قوانین کو نافذ کرنا اسلامی ریاست کا کام ہے اور جو ریاست اس میں حیلے بہانے یا ہٹ دھرمی سے کام لے تو پھر اس کےلیے اعلان کردیا گیا کہ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔
  • یہودیوں کی تصویر: آیت نمبر۵۸  میں یہودیوں کی اُس حرکت کے بارے میں بتایا گیا کہ نماز، اذان اور دیگر شعائرِ اسلامی کا مذاق اُڑاتے ہیں۔  انھوں نے تو خود اپنی کتابوں کو چھوڑ دیا کہ وہ جو پابندیاں عائد کرتی ہیں، ان کے ساتھ مادی مفادات، ناجائز کمائی اور مادی ترقی کیسے کریں گے۔  اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ تورات و انجیل اور دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کے رب کی طرف سے بھیجی گئی تھیں تو آسمان سے بھی ان پر رزق برستا اور زمین بھی خزانے اُگلتی۔ 
  • حقِ تبلیغ: آیت نمبر ۶۷ میں حضورﷺ کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ اے پیغمبر ﷺ ، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اس ضمن میں آپ کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود لے لی ہے۔
  • قسم توڑنے کا کفارہ: آیت نمبر ۸۹ میں قسم توڑنے کا کفارہ بتایا گیا ہے کہ
    • دس مسکینوں کو ویسا کھانا کھلائے جو اپنے اہلِ خانہ کو کھلاتا ہے یا 
    • انھیں کپڑے پہنائے یا
    • ایک غلام کو آزاد کرے اور
    • جو اسکی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ تین دن روزے رکھے۔
  • شراب اور جوئے کی حرمت: سورۃ البقرہ اور سورۃ النساء میں  بتایا گیا تھا کہ شراب اور جواء اچھی چیزیں نہیں ہیں اور شیطانی کام ہیں۔  تاہم یہاں آیت نمبر۹۰ اور ۹۱ میں انھیں  قطعی طور پر حرام کردیا گیا۔

آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا! اللہ نے لعنت فرمائی ہے ، اس کے پینے اور پلانے والے پر، بیچنے اور خریدنے والے پر، تیار کرنے اور کرانے والے پر، اس کو ٹرانسپورٹ کرنے اور کرانے والے سب پر۔

  • احرام کےمسائل: آیت نمبر ۹۵ اور ۹۶ میں احرام اور اس کے مسائل بتائے گئے ہیں۔ نیز یہ بھی کہ احرام کی حالت میں خشکی کا شکار منع ہے جبکہ سمندر میں شکار کیا جاسکتا ہے۔
  • کثرتِ سوال : آیت نمبر ۱۰۱ اور ۱۰۲ میں غیر ضروری سوالات سے منع کیا گیا ہے۔ علم حاصل کرنے اور اپنی اصلاح کےلیے سوال کرنا تو مطلوب ہے لیکن محض سوال برائے سوال درست نہیں۔
  • گواہی کا نصاب: آیت ۱۰۶ تا ۱۰۸میں شہادت کا نصاب بتایا گیا ہے کہ دو صاحب عدل آدمی کسی معاملہ پر گواہ بنائے جائیں۔
  • قیامت کے دن انبیاء سے سوال: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام انبیاء سے سوال کریں گے کہ جن کی امتوں نے کج روی  اور ضلالت اختیار کی ہوگی۔   خصوصاً حضرت عیسیٰؑ کا ذکر ہے۔  تمام انبیاء بشمول عیسیٰؑ اس سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔
  • اختتام: سورۃ کا آغاز حدود کی پابندی سے ہوا  اور سورۃ کے آخر میں قیامت کے روز انسانوں کا فیصلہ سناتے ہوئے اللہ نے یہ میعار پیش کیا ہے کہ اس روز سچوں کو ان کی سچائی نفع دے گی۔ حدود کی پابندی کرنے والوں سے اللہ راضی ہوگا اور اجر ملنے پر وہ اللہ سے خوش ہونگے۔

 

  • آج چھٹی تراویح ہے اور اس میں سورۃ الانعام پوری پڑھی جائے گی۔
  • یہ سورۃ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی اور مکمل نازل ہوئی۔ یہ وہ وقت ہے جب قریش کے ظلم و ستم عروج پر ہیں،  کئی مسلمان حبشہ ہجرت کرچکے ہیں اور باقی رہ جانے والوں کی زندگی تنگ کردی گئی ہے۔   اب نہ ابو طالب حضورﷺ کی پیٹھ پر ہیں اور نہ ہر غمی و خوشی میں ساتھ دینے والی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ۔  اور یہ وہ وقت ہے کہ مکہ کے آس پاس کے لوگ بھی اسلام قبول کرتے جارہے ہیں۔
  • اس سورۃ میں عقائد کی پختگی، جاہلیت کی توہمات کی تردید، دعوتِ حق کے خلاف اعتراضات کے جواب، نبیﷺ اور انکے صحابہؓ کو تسلی اور منکرین و مخالفین کو نصیحت، تنبیہ اور تہدید پر بات کی گئی ہے۔
  • سورۃ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ انسان کا ذکر کیا ہے ۔ اور اپنی اس تخلیق پرانسان کو دعوتِ تفکر دی ہے۔ نیز یہ بھی اظہار کیا کہ انسان اس جانب توجہ نہیں دیتا۔
  • آیت نمبر ۶ تا ۱۸ میں دیگر اقوام کا ذکر کیا گیا کہ اللہ نے انھیں خوب ترقی دی اور حکومت و اقتدار عطا کیا لیکن انھوں نے شکر ادا کرنے کے بجائے  ناشکری کی۔  جس کے نتیجے میں اللہ نے انھیں تباہ کردیا اور انکی جگہ دوسری قوموں کو اُٹھایا۔  کفار نبی ﷺ کو دھمکیاں دے رہے تھے جس کے جواب میں آنحضورﷺ کو فرمایا گیا کہ کہو! کیا اللہ کو چھوڑ کر ، جو زمین و آسمان کا خالق اور روزی رساں ہے، کسی اور کو سرپرست بنالوں کہ بھی فرمایا کہ آپؐ کی سکی پرواہ نہ کریں۔
  • آیت نمبر ۲۷ تا ۳۲ یومِ حشر کا مختصرنقشہ کھینچا گیا ہے اور نبی ﷺ کو بتایا گیا ہے کہ آج اللہ کی تعلیمات ، آپ اور آخرت کے انکاری کل وہاں پچھتارہے ہوں گے اور تمنا کررہے ہوں گے کہ دوبارہ دنیا میں بھیج دیے جائیں اور پھر وہ نیک عمل کریں اور وہاں سزا سے بچ سکیں۔  لیکن یہ اللہ کی سنت نہیں کہ ایک بار وہاں بلانے کے بعد دوبارہ دنیا میں واپس بھیجے۔
  • کفارِ مکہ نے نبی کریم ﷺ کی تعلیم کو جھٹلادیا تھا اور مان کر نہیں دے رہے تھے۔ جس پر دل برداشتہ ہوجانا انسانی فطرت ہے۔  چنانچہ آیت نمبر ۳۳ تا ۳۶ میں اپنے رسولؐ کو اللہ نے تسلی دی ہے کہ آپ پہلے نبیؐ نہیں جن کی تکذیب کی جارہی ہے بلکہ آپ سے پہلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے، اور انھیں اذیتیں بھی پہنچائی گئی ہیں جس پر انھوں نے صبر کیا۔  لہٰذا غم نہ کریں ، آپ کے ربّ کی باتیں حق ہیں اور ان کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔
  • آیت نمبر ۳۶ سے ۳۹ تک اپنے نبی کو بتایا گیا کہ دعوتِ حق کا انکار کرنے والے دراصل مردہ لوگ ہیں ۔ اور یہ اللہ کا قاعدہ نہیں کہ زبردستی کسی کو دین پر چلائے، اگر ایسا ہوتا تو کوئی ایک فرد بھی کافر نہیں ہوتا۔
  • آیت ۴۰ تا ۴۵ میں بتایا گیا کہ جب انسان پر مصیبت آتی ہے اور سارے سہارے ختم ہوجاتے ہیں تو بالآخر وہ اللہ ہی کو پکارتا ہے۔  جبکہ خوشحالی کی حالت میں وہ اللہ کو بھول جاتا ہے۔  لیکن پھر بھی اللہ اپنی رحمتوں کے دروازے اس دنیا میں اس پر بند نہیں کرتا۔ باغی سمجھتے ہیں کہ انکی تمنائیں پوری ہورہی ہیں۔ جب وہ اس میں مگن ہوتےہیں تو اللہ ان پر عذاب نازل کردیتا ہے۔
  • خزانوں کا مالک کون؟: آیت نمبر ۵۰ میں توحید و رسالت کا مضمون بیان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اللہ کے نبی اللہ کے نمائندے ہوتے ہیں اسی لیے تمام خزانے اور  غیب کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور نبی تم ہی میں سے تم جیسا ایک انسان ہوتا ہے ، کھاتا ہے، پیتا ہے، شادی بیاہ کرتا ہے، معاش کی تگ و دو کرتا ہے تاکہ تمھیں عملی طور پر اللہ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرکے دکھائے۔  اگر وہ فرشتہ ہوتا تو ایسا نہیں کرسکتا تھا۔
  • معزز کون؟ قریش کے بڑے بڑے سرداروں اور کھاتے پیتے لوگوں کانبیؐ پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آپؐ کے آس پاس  ہماری قوم کے غلام، موالی اور ادنیٰ طبقہ کے لوگ جمع ہوگئے ہیں۔ بس یہی لوگ اللہ کو ہمارے درمیان ایسے ملے جن کو برگزیدہ کیا جاسکتا تھا ! پھر وہ ان ایمان لانے والوں کی خستہ حالی کا مذاق اڑانے پر ہی اکتفا نہ کرتے تھے، بلکہ ان سے جس جس سے کبھی پہلے کوئی اخلاقی کمزوری ظاہر ہوئی تھی اس پر بھی حرف گیریاں کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ فلاں جو کل تک یہ تھا اور فلاں جس نے یہ کیا تھا آج وہ بھی اس ” برگزیدہ گروہ “ میں شامل ہے۔ انہی باتوں کا جواب آیت نمبر ۵۲ میں دیا گیا ہے۔
  • ایک کھلی حقیقت: کافروں کا نبی کریمؐ سے مطالبہ تھا کہ اگر واقعی آپ اللہ کے نبی ہیں تو لے آئیں وہ عذاب جس سے ہمیں ڈراتے ہیں۔  اس کا جواب اور توحید کی حقانیت آیت نمبر 57 سے 67 تک بتائی گئی ہے۔  کہا گیا کہ جس چیز کی تم جلدی مچارہے ہو اس کا فیصلہ اللہ کرے گا، کب کرے گا یہ بھی اسی کو معلوم ہے۔  اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں، نہ کوئی مجرم چھپ سکتا ہے، نہ بھاگ کر فرار ہوسکتا ہے، بحر و بر کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں، درختوں سے گرنے والے پتوں تک کو وہ جانتا ہے، زمین کی اندھیری تہوں کے نیچے کوئی دانا ایسا نہیں جو اس کی نظروں سے اوجھل ہو، گویا ہر چیز اسکے سامنے کھلی کتاب ہے۔
  • ابراہیمؑ توحید کے علمبردار: چونکہ مشرکینِ مکہ ابراہیمؑ سے اپنی نسبت پر فخر کرتے تھے تو اللہ نے ابراہیم ؑ کے دورِ جوانی کا قصّہ بیان کیا کہ کس طرح انھوں نے ایک بت پرست گھر میں آنکھ کھولی اور وہ انہی پتھر کےاصنام سے کتنے بدظن تھے۔  قوم مٹی اور پتھر کے بتوں کو پوجتی تھی۔  چاند، سورج اور ستاروں کی پرستش کرتی تھی۔  ابراہیمؑ نے اس قوم کے سامنے انکے ایک ایک الہٰ کا ذکر کیااور چاند سورج کے غروب ہوجانے کے بعدقوم کےسامنے  یہ سوال اُٹھا کر سوچنے پر مجبور کردیا کہ یہ کیسے ربّ ہیں جنھیں زوال ہے۔  پھر اعلان کیا کہ نہ تو چاند ستاروں میں الوہیت ہے، نہ سورج اس کا اہل ہے۔  الہٰ توا ایک ہی ہے اور وہی ہے جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا۔  میں یکسو ہو کر اسکی جانب رُخ پھیررہا ہوں۔
  • اللہ کے انبیاء: آیت نمبر 85 تا 87 میں ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے جو اولولعزم انبیاء ؑ تشریف لائے ان کا ذکر کیا گیا ہے جن میں اسحاق، یعقوب، داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحیٰ، عیسیٰ، الیاس، اسماعیل، السیع، یونس، لوط علیہ السلام شامل ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ کہیں ان انبیاء نے بھی اگر شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غرق ہوجاتا۔
  • وجودِ باری تعالیٰ: آیت نمبر 95 سے 110 تک مسلسل اللہ رب العالمین انکار نہ کی جانے والی مثالیں پیش کرکے توحیدبیان کرتا ہے۔  نباتات سے لے کر جمادات تک، زمین سے لے آسمان تک، غلے، دانے اور سبزی سے لے میوہ جات و ثمرات تک، سلسلۂ موت و حیات سے  لے کر تبدیلی و تغیر دن رات تک ہر چیز اس بات کا ثبوت اور دلیل ہے کہ کوئی پیدا کرنے پیدا کررہا ہے، نظام چلانے والا نظام چلا رہا ہے اور ہر چیز کو پورے اندازے اور حکمت سے ساتھ کنٹرول کرنے والی کوئی قوت کارفرما ہے۔  یہی خالقِ کائنات ہے، اس کا نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ بیوی۔  وہ یکا و تنہا ہے۔  وہ تصورات سے بھی ماورا ہے، اپنی حکمتوں کے ذریعے ہر ذرہ میں نظر آتا ہے لیکن اس کی تجلی کو نظریں نہیں دیکھ سکتیں۔
  • شیاطین جنّ و انس: کائنات عبرت کی آنکھوں سے دیکھنے کے بجائے منکرینِ حق معجزات دکھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔  فرمایا گیا کہ اگر ان کو وہ سب معجزات دکھا بھی دیے جائیں جن کا یہ مطالبہ کرتے ہیں۔   فرشتے ان کے سامنےلاکھڑے کیے جائیں اور مردوں سے ان کی بات کرادی جائے ، تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں۔  اسکی وجہ انکی جہالت اور ہٹ دھرمی ہے۔  اپنے نبیؐ کو بتایا گیا کہ یہ شیطانی قوتیں جس طرح آپکی مخالفت کررہی ہیں بالکل اسی طرح گزرے ہوئے انبیاء کی بھی کرتی رہی ہیں۔ اللہ تو  انسان کو خیر و شر کے ذریعے آزمانا چاہتا ہے ورنہ تو سب کو ہدایت پر رکھ دیتا۔
  • حلال و حرام: آیت نمبر 118 تا 150 ایک بار پھر حلال و حرام کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔  اس تناظر میں اہلِ کتاب اور مشرکین کی تمام غلط رسومات کا تجزیہ کیا گیا ہے اور اہلِ ایمان کو اس تباہ کن رجحان سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
  • حرام اعمال: آیت نمبر 151 تا 153 ان اعمال کی تفصیل ہے جن کا کھانے پینے سے تعلق نہیں لیکن صریح حرام ہیں:
    • شرک
    • والدین کی نافرمانی
    • قتلِ اولاد (مفلسی کے ڈر یا کسی اور وجہ سے)
    • فحاشی (جلی و خفی)
    • قتلِ ناحق
    • مالِ یتیم کھانا
    • ناپ تول میں کمی
    • بے انصافی
    • عہد کی خلاف ورزی (بندو سے بھی اور اللہ سے بھی)
    • سیدھے راستے (نبیؐ کا راستہ) کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرنا
  • مقصدِ زندگی: آیت نمبر 161 تا 163 میں نبیﷺ کو مخاطب کرکے تمام انسانوں کو مقصدِ زندگی بتادیا گیا ہے کہ  “اے نبیؐ ان (اہلِ کتاب اور مشرکین) سے کہہ دو کہ یقینی طور پر مجھےمیرے ربّ نے  سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑ کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو! میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔
  • انجامِ کار: آیت 164 میں نبیؐ کو مخاطب کرکے منکرینِ حق کو پیغام دیا جارہا ہے کہ کائنات کی ساری چیزوں کا رب تو اللہ ہے، میرا رب کوئی اور کیسے ہوسکتا ہے ؟ ساری کائنات تو اللہ کی اطاعت کے نظام پر چل رہی ہو، اور کائنات کا ایک جُز ہونے کی حیثیت سے میرا اپنا وجود بھی اسی نظام پر عامل ہو، مگر میں اپنی شعوری و اختیاری زندگی کے لیے کوئی اور رب تلاش کروں ؟ کیسے ممکن ہے؟    تم مانو یا نہ مانو تمھاری مرضی ،  یاد رکھو!    ہر شخص خود ہی اپنے عمل کا ذمہ دار ہے، اور ایک عمل کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ہے۔
  • سورۃ کا اختتام: آخری آیت میں واضح کردیا گیا کہ
  • تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر تصرف کے اختیارات بخشے ہیں۔
  • دوسرے یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے، کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرف کے اختیارات دیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر، کسی کو زیادہ قوت کارکردگی دی ہے اور کسی کو کم۔
  • تیسرے یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے، پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے، اور جس کو جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح خدا کی امانت میں تصرف کیا، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا، اور کس حد تک اپنی قابلیت یا ناقابلیت کا ثبوت دیا۔ اسی امتحان کے نتیجہ پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے۔

 

  • آج ساتویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ الاعراف مکمل پڑھی جائے گی۔
  • اس سورة کی تقریر کا مرکزی مضمون دعوت رسالت ہے ساری گفتگو کا مدّعا یہ ہے کہ مخاطبوں کو خدا کے فرستادہ پیغمبر کی پیروی اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ لیکن اس دعوت میں انذار (تنبیہ اور ڈراوے) کا رنگ زیادہ نمایا پایا جاتا ہے۔
  • دوران تقریر چونکہ خطاب کا رخ یہود کی طرف بھی پھر ا،  اس لیے ساتھ ساتھ دعوت رسالت کے اس پہلو کو بھی واضح کردیا گیا ہے کہ پیغمبر پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ منافقانہ روش اختیا کرنے، اور سمع وطاعت کا عہد استوار کرنے بعد توڑ دینے، اور حق اور باطل سے واقف ہوجانے کے بعد باطل پرستی میں مستغرق رہنے کا انجام کیا ہے۔
  • سورة کے آخر میں نبی ؐاور آپ کے صحابہؓ کو حکمت تبلیغ کے متعلق  اہم ہدایات دی گئی ہیں اور خصوصیّت کے ساتھ انہیں نصیحت کی گئی ہے کہ مخالفین کی اشتعال انگیزیوں اور چیرہ دستیوں کے مقابلہ میں صبر و ضبط سے کام لیں اور جذبات کے ہیجان میں مبتلا ہو کر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو اصل مقصد کو نقصان پہنچانے والا ہو۔
  • سورۂ اعراف میں درجِ ذیل 9 اہم نکات پر بحث کی گئی ہے:
    • کامیابی و ناکامی
    • آدم و حوا
    • جنتی اور جہنمیوں کا مکالمہ
    • اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل
    • پاتچ قوموں کے قصے
    • فرعون کا انجام
    • أصحاب السبت کا ذکر
    • عہد الست اور انسان
    • قرآن کی عظمت
  • ۱) کامیابی و نامی:
  • سورۃ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ کتاب صدق و صفا، اللہ کی طرف سے محمدؐ کے قلب پر نازل کی گئی ہے۔  دلوں کی تنگی کا اس میں علاج ہے۔
  • ۲) آدمؑ و ابلیس:
  • آیت نمبر 11 سے 25 تک ایک بار پھر قصہ آدمؑ و ابلیس تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ابلیس کی ہٹ دھرمی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ساتھ ہی آدم و حوا علیہ السلام کی دُعا نقل کی گئی ہے جس کے الفاظ اللہ نے انھیں سکھائے تھے اور انکی ادائیگی کرکے انھوں نے توبہ کی تھی۔   تاہم فیصلہ یہی ہوا تھا کہ اب جنت کے بجائے زمین پر انسان کا ٹھکانا ہوگا اور اس دار العمل میں اپنے کردار سے جنت یا جہنم کا فیصلہ وہ خود کرے گا۔

۳) جنتیوں، جہنمیوں اور اصحاب الاعراف  کا مکالمہ:

  • اللہ کی آیات کو جھٹلانے او رسرکشی کرنے والوں کے بارے میں آیت نمبر 40 تا 41 میں فرمایا کہ جنت میں ان کا جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا۔ جنتی کہیں گے: ”ہم سے تو جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے ہوئے، کیا تمھارے ساتھ کیے گئے وعدے بھی پورے ہوئے؟“ جہنمی اقرار کریں گے۔
  • آیت نمبر 44 سے 51 تک اصحاب الاعراف کا تذکرہ ہے: ایک گروہ ایسا بھی ہوگا جو نہ جنت میں ہوگا اور نہ جہنم میں وہ درمیانی مقام پر ہوگا۔  جنتیوں کو پکار کر سلام کرے گا۔ جہنمیوں کی جانب دیکھ کر دُعا کرے گا کہ اللہ ان سے بچا۔ 
  • جہنمی جنت والوں سے کھانا پینا مانگیں گے، مگر جنتی ان سے کہیں گے: ”اللہ تعالیٰ نے کافروں پر اپنی نعمتیں حرام کر دی ہیں۔“ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم ان کو ایسے بھلادیں گے جیسے انھوں نے میں ہماری آج کی ملاقات کو بھلا دیا تھا۔

۴۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل:

  • آیت نمبر 54 میں اللہ نے اپنی تخلیق اور تسخیر کائنات کا ذکر فرمایا ساتھ ہی یہ نکتہ بھی بتادیا کہ خالق وہی ہے تو حکم اور قانون بھی اسی کا چلے گا۔ جن تخلیقات کا ذکر ملتا ہے وہ یہ ہیں:
  • (۱)بلند وبالا آسمان (۲)وسیع وعریض عرش (۳)رات اور دن کا نظام (۴)چمکتے شمس و قمر اور ستارے (۵)ہوائیں اور بادل (۶)زمین سے نکلنے والی نباتات

۵۔ پانچ قوموں کے قصے:

  • آیت نمبر 59سے93 تک مسلسل انبیائے کرامؑ کے احوال اور ان کی دعوت و عزیمت اور ان سے متعلقہ قوموں کی نافرمانیوں کی تفصیلات اور انکی پاداش میں دنیا میں ان پر عذاب کے احوال کا ذکر ملتا ہے۔
  • (۱)قوم نوحؑ (۲)قوم عاد (۳)قوم ثمود (۴)قوم لوطؑ اور (۵)قوم شعیبؑ
  • ان قصوں کی حکمتیں: (۱)تسلیّ رسولؐ (۲)اچھوں اور بروں کے انجام بتانا (۳)اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں (۴)رسالت کی دلیل کہ اُمّی ہونے کے باوجود پچھلی قوموں کے قصے بتا رہے ہیں (۵)انسانوں کے لیے عبرت و نصیحت

۴۔ فرعون کا انجام:

  • آیت نمبر 103 سے حضرت موسیٰ ؑ کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ اور جادوگروں کے آمنے سامنے ہونے کے بعد جادوگر حضرت موسیٰ ؑ کے معجزے کو سمجھ گئے تھے اور ایمان لے آئے تھے جس پر فرعون نے انھیں صولی چڑھا دیا تھالیکن انھوں نے کلمۂ حق نہیں چھوڑا  تھا۔  اس کے بعد فرعون نے بنی اسرائیل پر مزید ظلم بڑھادیے۔  بنی اسرائیل موسیٰ ؑ کا ساتھ دینے کے بجائے فرعون سے خوف زدہ ہوگئے۔  آخر کار موسیٰ ؑ اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے۔    ادھر فرعون کو پتہ چل گیا اور وہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ انکے پیچھے آیا۔  یہاں تک کہ سامنے سمندر آگیا ، جہاں اللہ نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی سمندر میں ماریں چنانچہ اس راستہ بن گیا اور بنی اسرائیل اس میں داخل ہو کر سمندر پار کرگئے۔  فرعون کی فوجیں جب پہنچیں تو انھوں نے راستہ دیکھا اور وہ بھی سمندر میں داخل ہوگئیں لیکن جیسے ہی وہ درمیان میں پہنچیں سمندراللہ کے حکم سے دوبارہ اپنی اصلی حالت میں واپس آگیا۔ یا اور فرعون اپنی فوج سمیت سمندر میں غرق ہوگیا۔
  • اسکے بعد ہی بنی اسرائیل نے فلسطین میں جانے سے انکار کردیا کیونکہ وہاں ایک مضبوط قوم آباد تھی اور یہ جہاد سے جی چرانے والے لوگ تھے، چنانچہ ۴۰ سال تک وادیوں میں بھٹکتے رہے۔  اسی اثناء میں موسیٰ ؑ اللہ ہم کلام ہونے اور ہدایات لینے پہاڑ پر اعتکاف کے لیے چلے گئے جہاں انھیں پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکامات دیے گئے۔  لیکن انکے پیچھے بنی اسرائیل نے ایک جادوگر سامری کے کہنے پر گائے کی پوجا شروع کردی۔

۵۔ اصحابِ السبت :

  • آیت نمبر 163 سے اس بستی کا ذکر کیا گیا ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی۔ بستی کے رہنے والوں نے اپنے لیے ایک دن آرام کا مانگا چنانچہ اللہ کی طرف سے انھیں ہفتہ کا دن دیا گیا اور ہر کسی قسم کا کام حرام کردیا گیا۔  لیکن بعد میں بستی کے رہنے والوں نے یوم سبت کی خلاف ورزیاں شروع کردیں اور بستی والے تین گروہوں میں بٹ گئے۔
    1. نافرمان اور فساق و فجار، جو دھڑلّے سے قانونِ خداوندی کو توڑ رہے تھے۔
    2. وہ نیک لوگ جو اپنی نیکی کے خول میں بند، امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے لاتعلق، کونوں کھدروں اور خانقاہوں میں بیٹھ گئے تھے۔
    3. وہ لوگ جو خود بھی برائی سے بچتے تھے اور برائی کرنے والوں کو دردِ دل اور خیر خواہی کےساتھ نیکی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے تھے۔
  • دوسرے گروہ والےتیسرے گروہ کے افرادسے کہتے تھے کرنے دو، جو کرتے ہیں۔ یہ اللہ اور انکا معاملہ ہے۔  جس پر تیسرے گروہ والوں نے کہا کہ ہم اوّل تو انکے ہمدرد ہیں انھیں جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں دوسرے پیشی کے روز اللہ سے کہہ سکیں گے کہ پرودگار ہم نے اپنی کوشش کی کہ نیکی کو فروغ دیں اور برائی کا سدِّباب کریں۔

۶۔ عہدِ الست اور انسان :

  • آیت نمبر 172 سے اس عہد کا تذکرہ شروع ہوتا ہے، جس کو عموماً عہدِ الست کہا جاتا ہے۔ یہ اللہ ربّ العالمین کا تمام بنی آدمؑ کی ارواح سے سوال تھا، جس میں اس نے فرمایا!  کیا میں تمھارا ربّ نہیں ہوں؟  تو سب نے جواب دیا تھا کہ کیوں نہیں، آپ ہی ہمارے ربّ ہیں۔  ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔  اللہ ربّ العالمین نے ہر انسان کے دل میں جو نفس لوامہ یعنی ضمیر کی آواز پیدا کی ہے ، یہ اسی عہد کے اثرات ہیں۔  لیکن بہت سے لوگ اس عہد کو بھول کر نفسِ امّارہ کے شکار ہو جاتے ہیں  اور ربّ کی نافرمانیاں کرتے ہیں گویا کہ اس کے باغی ہوجاتے ہیں۔  انہی لوگوں کو قرآن اگلی آیات میں فرمایا گیا کہ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔

۷۔قرآن کی عظمت:

  • سورۃ کے آخر میں قرآن کی عظمت کا تذکرہ ہے اور اسکو ایک معجزہ قرار دیا گیا ہے۔ اہلِ ایمان کو ہدایت دی گئی کہ کہ جب اس کی تلاوت کی جائے تو اسے توجہ سے سنیں اور خاموش رہیں۔ قرآن سے تعلق جوڑنے والے رحمت خداوندی کے مستحق بن جاتے ہیں۔
  • اس سورۃ کی آخری آیت، آیتِ سجدہ ہے۔ یعنی اس آیت پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ ترتیبِ تدوینی کے لحاظ سے پہلا مقام ہے جہاں سجدۂ تلاوت وارد ہوا ہے۔  قرآن مجید میں کُل ۱۴ مقام ایسے ہیں جہاں سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
  • نبیﷺ بسا اوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیتِ سجدہ آتی تو آپؐ خود بھی سجدہ میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا۔ حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کی جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا۔  فتح مکہ کے وقت آپؐ نے قرآن پڑھا اور آیتِ سجدہ آئی تو زمین والوں نے زمین پر اور سواریوں پر بیٹھے ہوؤں نے اپنی سواریوں پر جھک کر سجدہ کیا۔  دورانِ خطبہ آپؐ ایسی آیت آنے پر منبر سے اُتر کر سجدہ کیا کرتے تھے۔

 

  • آج آٹھویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ الانفال مکمل اور سورۃ التوبہ کی ۹۳ آیات پڑھی جائیں گی۔
  • سورۃ انفال مدنی سورۃ ہے۔ انفال سے مراد مالِ غنیمت ہے۔  یہ پوری جنگِ بدر کے منظر، پیش منظر اور پس منظرکو بیان کرتی ہے۔  جو کہ کفر و اسلام کی پہلی جنگ تھی اور اس میں مسلمانوں کو قابلِ ذکر مالِ غنیمت حاصل ہوا تھا۔ اس جنگ میں مشرکینِ کی تعداد ۱۰۰۰ تھی جو کہ اسلحہ و سازو سامان سے لیس تھے جبکہ مسلمان کُل ۳۱۳ تھے اور نہتے تھے۔
  • نبیؐ کی دُعا: ۱۷ رمضان المبارک ۲ ہجری کو بدر کا میدان سجا، اس سے پہلی رات آنحضورؐ سجدہ ریز ہو کر رو رو کر دُعا مانگتے رہے۔  آپ نے اللہ سے کہاکہ اے اللہ! یہ کفار سارے سازو سامان سے لیس تیرے دین کو مٹانے آئے ہیں اور اس کو بچانے کے لیے میں نے تیرے سامنے ۳۱۳ ہیرے پیش کردیے ہیں۔  پس تیری نصرت کا طالب ہوں جس کا تو نے وعدہ کیا ہے، اگر ایسا نہ ہوا اور یہ قیمتی ہیرے خاک میں مل گئے تو زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔  آپ کی آنکھیں برس رہیں تھیں اور کاندھے سے بار بار چادر گے جارہی تھی، جسے صدیقِ اکبر کاندھے پر رکھتے۔
  • مالِ غنیمت کی تقسیم: اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کو سورۃ کے شروع میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ملکیت قرار دیا۔  آیت نمبر 41 میں اپنی رحمتِ بے پایاں کا اظہار کرتے ہوئے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور اُس کے رسول کے نام محفوظ کرنے بعد 80% غازیوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا۔  جو نبیؐ کے  رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کیا جائے گا۔
  • ایک گروہ تمھارا: یہ ایک موقع تھا کہ ایک جانب قریش کا تجارتی قافلہ تھا جس کے پاس بے بہا قیمتی سامان تھا تو دوسری جانب قریش کا لشکر جنوب سے اُمڈ ا چلا آرہا تھا، جس کی قوت و شوکت سے سرزمینِ عرب مرعوب تھی۔  ایسے میں نبیؐ نے صحابہؓ سے مشاورت کی تھی۔  ظاہر ہے قافلہ پر قبضہ آسان تھا لیکن اللہ چاہتا تھا کہ اس موقع پر حق کو حق کردکھایا جائےاور باطل ، باطل ہو کر رہ جائے۔  اسی کیفیت کو آیت نمبر 7 اور 8میں بیان کیا گیا ہے۔
  • ایک ہزار فرشتوں کا لشکر: جنگ شروع ہونے سے پہلی والی رات رسول اللہ ﷺ کی گریہ و زاری کا ذکر ہم نے اوپر کیا۔  رسول اللہ ﷺ کے روئے جانے پر ابوبکرصدیقؓ کے بقول اپنے آقاکی یہ حالت دیکھ کر اُن کا کلیجہ منہ کو آنے لگا اور عرض گزار ہوئےیا رسول اللہ! اب بس کیجئے رسول اللہ یہ درخواست سن کر خاموش ہوگئے۔  اسی لمحے جبرائیل آگئے اور انھوں نے آنحضورﷺ کو خوشخبری دی اور آپؐ نے ابوبکرؓ کو بشارت دی۔  اس میں اللہ نے آپؐ سے ہزار فرشتوں کا لشکر مسلمانوں کی مدد کےلے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔  اس کا ذکر آیت نمبر 9 اور 10 میں ملتا ہے۔
  • آیت نمبر 15 تا 16 میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب کفار سے مڈ بھَیڑ ہو تو کبھی منہ نہ پھیرنا اور پیٹھ نہ دکھانا۔
  • کفار کی دُعاکا جواب: مشرکینِ مکہ جب مکہ سے روانہ ہوئے تھے تو ابوجہل نے خانہ کعبہ کے پردے سے لپٹ کر کامیابی کی دُعا مانگی تھی آیت نمبر 19 اللہ نے اسی کا جواب دیا ہے کہ اگرتم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا۔ اب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہترہے، ورنہ پھر پلٹ کر اُسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اس سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیّت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی۔ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے”۔
  • جنگی قیدی: کفار کی شکستِ فاش کے بعد آنحضورؐ نے بھاگتے ہوئے کفار کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔  جب کوئی گرفتار ہوجائے تو اسکی جان محترم ہوجاتی ہے اور تمام انسانی حقوق محفوظ ہوجاتے ہیں اور انکی ادائیگی اسلامی حکومت پر فرض ہوجاتی ہے۔   چنانچہ آیت نمبر 67 تا 69 میں بیان فرمایا! کہ حالتِ جنگ میں قیدی بنانا درست فعل نہیں  بلکہ جنگ کے دوران دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل دینا ضروری ہے۔  چونکہ یہ پہلا موقع تھا اور اللہ کے اِس اُصول کا پہلے سے علم نہیں تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف آئندہ نہ کرنے کی تنبیہ کرکے معافی کا اعلان بھی ان ہی آیات میں کردیا۔
  • سورۃ التوبہ: سورۃ التوبہ کا ایک نام سورۃ البرأۃ بھی ہے۔  یہ قرآن کی واحد سورۃ ہے جس کا آغاز بسم اللہ سے نہیں ہوتا۔   جسکی متعدد وجوہات مفسرین بیان کرتے ہیں۔ امام رازی ؒ لکھتے ہیں  کہ نبیؐ نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی  اس لیے صحابہؓ نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے۔ یہ  ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبیؐ سے جوں کا توں لینے اور جیسا دیا گیا تھا ویسا ہی اس کو محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔
  • مشرکین اور اعلانِ برأت: ۸ھ میں مکہ فتح ہوگیا تھا۔ بیش تر لوگ اسلام میں داخل ہوگئے تھے لیکن کئی افراد اور قبائل اب بھی اپنی پرانی ڈگر پر قائم تھے۔
  • لہٰذا مشرکین سے جو معاہدے ہوئے تھے ان سے براءت کا اعلان کیا گیا اور انھیں ۴ مہینے کی مہلت دی گئی کہ یا تو اسلام میں داخل ہوجائیں یا اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے حدودِ حرم سے باہر جابسیں ان پر تبدیلیٔ مذہب کےلیے کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی لیکن انھیں مسلم حکومت کے قوانین کی پابندی کرنی ہوگی۔
  • ۸ اور ۹ ذوالحجہ کو کافروں اور مسلمانوں نے اپنے اپنے طریقے کے مطابق کیے۔ ۹ ھ کے حج کے موقع پر  مشرکین کو حج بیت اللہ تعالیٰ سے منع کردیا گیا۔
  • غزوۂ حنین: آیت نمبر 25 میں غزوۂ حنین کا ذکر کیا گیا ہے شوال سن ٨ ھجری میں  مکہ اور طائف کے درمیان وادی حنین میں پیش آیا تھا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کی طرف سے ١٢ ہزار فوج تھی اور دوسری طرف کفار بہت کم تھے۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے مسلمانوں کا منہ پھیر دیا اور لشکر اسلامی بری طرح ت پسپا ہوا۔ اس وقت صرف نبیؐ اور چند صحابہؓ تھے جن کے قدم اپنی جگہ جمے رہے اور اسی ثابت قدمی سے دوبارہ فوج کی ترتیب قائم ہوسکی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی۔ ورنہ فتح مکہ سے جو کچھ حاصل ہوا تھا اس سے بہت زیادہ حنین میں کھو دینا پڑتا۔
  • مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز: منافقوں اور مسلمانوں میں امتیاز کرنے والی بنیادی چیز غزوۂ تبوک بنی، رومیوں کے ساتھ مقابلہ جو وقت کے سپر پاور تھے اور شدید گرمی اور فقر و فاقہ کے موقع پر پھل پکے ہوئے تھے، مسلمان سوائے چند کے سب چلے گئے، جبکہ منافقین نے بہانے تراشنے شروع کردیے، اس سورۃ میں منافقین کی مذمت ہے، یہاں تک فرمادیا کہ اے پیغمبر! آپ ان کے لیے70بار بھی استغفار کریں تو بھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت نہیں کرے گا اور اگر ان میں کسی کا انتقال ہوجائے تو آپ اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھیے گا، پھر ان مسلمانوں کا بھی ذکر ہے جو کسی وجہ سے اس غزوے میں نہ جاسکے۔
  • نکلو اللہ کی راہ میں ہلکے ہو یا بوجھل: آیت نمبر 41 حکم دیا گیا کہ نکلو اللہ کی راہ میں ہلکے ہو یا بوجھل۔ اس آیت  میں ایک تو اللہ کا حکم دوسرا رسولِؐ کا خطاب اس قدر انقلابی تھا کہ عورتوں نے اپنے زیور، ابوبکر نے سارا سازو سامان، عمرنے آدھی گرہستی، عثمان نے کئی سو مال سے لدے ہوئے اونٹ ، عبدالرحمن نے بغیر گنےزر و جواہر اور ابو عقیل نے ساری رات مزدوری کرکے حاصل شدہ کھجوریں اللہ کی راہ میں پیش کردیں۔
  • شرعی معذور اور حضورؐ کی محبت: جو لوگ کسی شرعی عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے، اُنھیں حضورؐ نے سفر کے دوران بھی یاد رکھااور فرمایا کہ تم جو قدم بھی اُٹھارہے ہو اور جو وادی طے کررہے ہو وہ تمھارے ساتھ ہیں۔  ان لوگوں کا تذکرہ آیت نمبر 92 میں کیا گیا ہے۔  ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھےکہ وہ جہاد سے محروم رہ گئے۔
  • الحمدُ للہ ۱۰ پارے مکمل ہوئے۔

 

  • آج نویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ التوبہ کی آخری 36 آیات، سورۃ یونس مکمل اور سورۃ ھود کی 49 آیات تلاوت کی جائینگی ۔
  • منافقین کی معذرتیں:             آنحضورؐ جب تبوک سے واپس پلٹے تو منافقین نے آکر جھوٹے عذر پیش کیے۔  آنحضورﷺ نے ان سے اعراض برتا مگر اللہ نے انکی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کے عذرات جھوٹے ہیں۔
  • مسجد ضرار: منافقین نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے مسجد ضرار بنائی تھی، اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کو اس میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا، نبی علیہ السلام کے حکم سے اس مسجد کو جلا دیا گیا۔ آیت نمبر 107-108
  • مومنین کی نو صفات:             آیت نمبر 112 میں مومنین کی صفات بیان کی گئیں: (1)توبہ کرنے والے (2)عبادت کرنے والے (3)حمد کرنے والے (4)روزہ رکھنے والے (5)رکوع کرنے والے (6)سجدہ کرنے والے (7)نیک کاموں کا حکم کرنے والے (8)بری باتوں سے منع کرنے والے (9)اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے
  • حضرت ابولبابہؓ اور دیگر۶ صحابہؓ اور انکی توبہ: آیت نمبر 102-103 میں اُن مخلص صحابہؓ کی طرف اشارہ ہے جو  غزوۂ تبوک پر جانے سے بغیر شرعی عذر کے پیچھے رہ گئے تھے۔  ان میں حضرت ابو لبابہؓ دیگر ۶ صحابہؓ تھے۔ انھیں  اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اُنھوں نے خود کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا۔  آنحضورؐ کی آمد پر جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اللہ اور اسکے رسولؐ کی جانب سے اپنے لیے ہونے والے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کرلیا۔  ان سب کو معاف کردیا گیا۔
  • غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص صحابہ:
  • (1)حضرت ہلالؓ بن اُمیہ (2)حضرت مرارہؓ بن ربیع (3)حضرت کعبؓ بن مالک :      ان تینوں سے پچاس دن کا بائیکاٹ کیا گیا، پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان وحی کے ذریعے کیا گیا۔    آیت نمبر 118
  • حضرت ہلالؓ اور مرارہؓ بدری صحابی تھی جبکہ کعبؓ بن مالک بدر کے علاوہ ہر معرکہ میں شامل تھے۔

سورۂ یونس:        یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ سلسلہ کلام پر غور کرنے سے محسوس ہوتاہے کہ یہ شروع سے آخر تک ایک ہی مربوط تقریر ہے جو بیک وقت نازل ہوئی ہوگی۔

  • سورۂ یونس میں چار باتیں یہ ہیں:
  1. عقیدۂ توحید کے حق میں دلائل
  2. عقیدۂ  آخرت کے حق میں دلائل
  3. عقیدۂ رسالت: (حضرت نوح ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور حضرت یونس علیہم السلام کے قصے ہیں)
  4. معجزۂ قرآنی:

توحید و آخرت کے حق میں دلائل:  )آیت 3۔12)

  1. 6 دنوں میں زمین و آسمانوں کو پیدا کیا
  2. تختِ سلطنت پر جلوہ گر ہو کر کائنات کا انتظام چلا رہا ہے۔
  3. اللہ ہی نے  سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں۔
  4. زندگی کے مشاہدے میں جو  چیز بھی آتی ہے وہ اللہ ہی کی پیدا کردہ ہے۔
  5.  انسان پر جب کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے اللہ کو پکارتا ہے ، مگر جب مصیبت ٹل جاتی ہے  تو اللہ کو ایسے بھولتا ہے کہ گویا اُس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر اُس کو پکارا ہی نہ تھا ۔
  6. پیدائش کی ابتداء اسی نے کی،     اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے،  پھر دوبارہ زندہ کرے گا (آخرت)۔
  7. جو ایمان لائے اور عمل سے ثابت کیا انکو انصاف کے ساتھ بدلہ دیا جائے گا۔ (آخرت)۔
  8. جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا وہ  درد ناک سزا بھگتیں گے۔ (آخرت)۔
  9. حضرت نوح ؑ کا قصہ:  حضرت نوح ؑ نے اپنی قوم کو دعوت دی، انھوں نے بات نہیں مانی، سوائے کچھ لوگوں کے، اللہ تعالیٰ نے ماننے والوں کو نوح علیہ السلام کی کشتی میں محفوظ رکھا اور باقی سب کو جوکہ نافرمان تھے پانی میں غرق کردیا۔
  10. حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا قصہ:
  11. حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا، فرعون اور اس کے سرداروں نے بات نہ مانی، بلکہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر بتلایا اور ان کے مقابلے میں اپنے جادوگروں کو لے آیا، جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم کو لے کر کُوچ کریں اور اپنا مسکن فلسطین کو بنائیں چنانچہ ایک رات آپؑ قو م کو لے کر روانہ ہوگئے۔   فرعون کو اطلاع ملی تو وہ  اور اس کے ماننے والوں نے ان کا پیچھا کیا۔    بنی اسرائیل کے لیے سمندر میں راستہ بنا اور پار کر گئے لیکن فرعون اور اسکے ساتھی پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہوگئے۔

حضرت یونس ؑ کا قصہ :      حضرت یونس علیہ السلام کو قرآن میں صاحب الحوت /ذالنون ) یعنی مچھلی والا کے لقب سے بھی پکارا ہے۔    حضرت یونسؑ کے واقعے کے دو رخ ہیں:

  1. ایک ان کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، اس کا تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہے۔
  2. دوسرا ان کی قوم کا ان کی غیر موجودگی میں توبہ استغفار کرنا، سورۂ یونس میں اس طرف اشارہ ہے۔
  • حضرت یونس ؑاپنی قوم کے ایمان سے مایوس اور اللہ کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر ”نینوا“ کی سر زمین چھوڑ کر چلے گئے، آگے جانے کے لیے جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر میں طغیانی کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی، حضرت یونسؑ نے سمندر میں چھلانگ لگادی، ایک بڑی مچھلی نے انھیں نگل لیا، اللہ نے انھیں مچھلی کے پیٹ میں بھی بالکل صحیح و سالم زندہ رکھا، چند روز بعد مچھلی نے انھیں ساحل پر اگل دیا، ادھر یہ ہوا کہ ان کی قوم کے مرد اور عورتیں، بچے اور بڑے سب صحرا میں نکل گئے اور انھوں نے آہ و زاری اور توبہ و استغفار شروع کردیا اور سچے دل سے ایمان قبول کرلیا، جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ان سے ٹل گیا۔

معجزۂ قرآنی: 

  • یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہے۔
  • کفار قرآنِ پاک کو انسانی کلام کہتے تھے جس کے جواب میں آیت 38 میں چیلنج دیا گیا کہ ایک اللہ کو چھوڑ کر کسی کی بھی مدد لے لو اور قرآن تو چھوڑو اس کے جیسی ایک سورۃ ہی بنا لاؤ۔
  • آیت ۵۷۔۵۸ میں قرآن کو دلوں کے امراض کی شفاء اور اہلِ ایمان کےلیے رہنمائی اور رحمت کہا گیا ہے۔
  • سورۂ ھود: اس سورۃ کے مضمون پر غور کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسی دور میں نازل ہوئی ہوگی جس میں سورة ” یونس “ نازل ہوئی تھی۔ دونوں کا موضوعِ تقریر وہی ہے، مگر تنبیہ کا انداز اس سے زیادہ سخت ہے۔
  • حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓنے نبیؐ سے عرض کیا ” میں دیکھتا ہوں کہ آپ ؐ بوڑھے ہوتے جارہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے “؟ جواب میں حضورؐ نے فرمایا مجھ کو سورۂ ہود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے “۔
  • بے پایاں انعامات اور انسان کا رویہ: سورۃ کے آغاز میں اللہ ربّ العالمین نے اپنی نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے اور یہ کہ کائنات بنا کر وہ غافل نہیں ہوا بلکہ ہر چیز کا نظام وہی چلا رہا ہے۔   وہ انسانوں کو ۲ طرح آزماتا ہے کبھی نعمتیں عطا کرکے اور کبھی ان سے محروم کرکے۔  نیک انسان نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اور محرومی پر شکوہ نہیں کرتا۔  جبکہ اللہ سے غافل بندے نعمتیں ملنے پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور تنگدستی میں مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور قسمت کو کوسنے لگتے ہیں۔
  • قصۂ نوحؑ: حضرت نوحؑ کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔   طوفانِ نوحؑ کی آمد سے قبل انھیں اللہ نے ایک کشتی بنانے کا حکم دیا۔  جب کشتی تیار ہونے لگی تو پوری قوم نے ان کا مذاق اُڑایا۔  جب وقتِ عذاب آیا تو زمین نے نیچے سے پانی اُگلنا اور آسمان نے اوپر سے پرنالوں کی طرح برسانا شروع کردیا۔  کوئی گھر، کوئی درخت، کوئی چٹان ، کوئی پہاڑ ایسا نہ بچا جو اُس سیلاب سے محفوظ رہا ہو۔  صرف وہی انسان اور جانور پوری دنیا میں اس غرقابی سے محفوظ رہے جو کشتی میں سوار تھے۔  اور کشتی میں سوار ہونے کی شرط ایمان تھا۔  نوحؑ کی بیوی اور ایک بیٹا اس کشتی میں نہ بیٹھ سکے اور طوفان میں غرق ہوگئے۔
  • پھرکشتی ایک پہاڑ کوہِ جودی (جو آج کل ترکی میں ہے) پر جالگی اور اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ سارا پانی نگل لے اور آسمان کو حکم دیا کہ برسنا بند کردے۔  اس موقع پر اپنے بیٹے کو غرق ہوتے دیکھ کر نوحؑ کا دل اداس تھا۔  چنانچہ انھوں نے اللہ سے کہا کہ اے ربّ ، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے تو ربّ نے فرمایا! اے نوح ! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے (۴۶)۔ نوح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’ اے میرے ربّ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جائوں گا۔ ‘‘ (۴۷)
  • دو سبق: اوّل یہ کہ نبی بھی علم الغیب نہیں جانتا اور اسے بھی صرف اتنا ہی علم ہوتا ہے جو ربّ اُسے عطا کردے۔ دوسرے  یہ اللہ کےیہاں نجات نبی کے خونی رشتوں کی بھی نہیں اگر وہ اللہ ، اسکے رسول اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔  اسی لیے نبیؐ نے اپنے قریبی عزیزوں چچا عباسؓ،  پھوپھی صفیہؓ، اور بیٹی فاطمہؓ کے نام پکار کرکہا کہ دنیا میں مجھ سے جو کچھ مانگو گے ، میرے پاس ہوگا تو میں تمھیں دے دوں گا۔  لیکن آخرت میں تمھارے کام تمھارے اعمال ہی آئیں گے۔

 

  • آج دسویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ ھود کی بقیہ آیات (۵۰۔۱۲۹) اور سورۃ یوسف مکمل پڑی جائیگی۔

حضرت ہود ؑ (قومِ عاد):  آیت ۵۰ تا ۶۰

  • یہ قوم اپنی خوش حالی اور جسمانی قوت کی وجہ سے بہت متکبر ہوگئی تھی۔ حضرت ہودؑ انھیں ٹوکتے تو کہتے ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔  بلکہ اُلٹا ہودؑ کو طعنہ دیتے کہ ہمارے خداؤں کی گستاخی کی وجہ سے تمھارے اوپر ان معبودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے۔    چنانچہ ان پر باد صرصر(تیز آندھی) کی صورت میں اللہ کا عذاب آیا۔

حضرت صالح   ؑ (قومِ ثمود): آیت ۶۱ تا ۶۸

  • یہ بہت طاقتور اور ترقی یافتہ قوم تھی ۔ اس قوم نے بھی سرکشی کی اور اللہ اور اسکے رسول کا کھلم کھلا انکار کیا، حضرت صالح سے معجزہ مانگا۔  چنانچہ انھوں نے اللہ کے حکم سے ایک اونٹنی بطورِ معجزہ پیش کی طے پایا کہ ایک دن کنوئیں سے پانی اونٹنی پیے گی جبکہ دوسرے دن قوم کے باقی جانور۔   اُس اونٹنی کو قوم نے مار ڈالا او ر پھر 3 دن میں اللہ کا عذاب ایک سخت چنگھاڑ کی صورت میں آیا اور وہ  اپنے گھروں میں ایسے ختم ہوگئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔

حضرت ابراہیمؑ: آیت ۶۹ تا ۷۶

  • حضرت ابراہیمؑ کے پاس ۲ فرشتے انسانی شکل میں آئے۔ آپ نے  انھیں مہمان سمجھا اور بُھنا ہوا بچھڑا پیش کیا انھوں نے نہیں کھایا تو ابراہیمؑ ڈرے کہ کہیں کوئی دشمن تو نہیں۔  فرشتوں نے کہا کہ ڈرو نہیں ہم لوطؑ کی قوم کی جانب بھیجے گئے ہیں۔  ابراہیمؑ سمجھ گئےکہ عذاب کےلیے آئے ہیں۔  ابرہیم ؑ حلیم و بردبار تھے لہٰذا  انھوں نے اللہ سے عذاب ٹالنے کے لیے گریہ و زاری کی۔  مگر اللہ فیصلہ کرچکا تھا اس لیے اللہ نے ابراہیم ؑ کو اس سے روکا۔   اسی موقع پر فرشتوں نے ابراہیمؑ کو پیرانہ سالی میں اسحاق  ؑ کی پیدائش کی  اور اولادِ اسحاق  ؑ میں یعقوب ؑ کی خوشخبری دی۔  بیوی پاس ہی تھیں جس پر انھیں حیرت ہوئی۔ فرشتوں نے کہاابراہیمؑ کے اہل پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔

حضرت لوطؑ: آیت ۷۷ تا ۸۳

  • ان کی قوم کے لوگ بدکار تھے، عورتوں کے بجائے لڑکوں کی طرف مائل ہوتے تھے، دونوں فرشتے خوبصورت جوانوں کی شکل میں ابراہیم ؑ کی طرف سے لوطؑ کے پاس آئے، فوراً ہی  قوم کے بدکار لوگ بھی وہاں پہنچ گئے، حضرت لوط نے انھیں سمجھایا کہ لڑکیوں سے شادی کرلو، مگر وہ نہ مانے، ان پر اللہ کا عذاب آیا ، اس بستی کو زمین سے اٹھا کر الٹادیا گیا اور ان پر پتھروں کا عذاب نازل کیا گیا۔

حضرت شعیبؑ : آیت ۸۴ تا ۹۵

  • ان کی قوم کے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جنھوں نے نبی کی بات مانی بچ گئے، نافرمانوں پر چیخ کا عذاب آیا۔

حضرت موسی ؑ:     فرعون نے ان کی بات نہیں مانی ، اللہ نے اسے اور اس کے ماننے والوں کو ناکام کردیا۔

  • ان واقعات میں ایک طرف تو عقل، فہم اور سمع و بصر والوں کے لیے نہ ختم ہونے والی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اور دوسری طرف حضور اکرمؐ اور مخلص اہلِ ایمان کے لیے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے، اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں پوری امت کو حکم ہے، استقامت کوئی آسان چیز نہیں ہے، بلکہ انتہائی مشکل صفت ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے، استقامت کا مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی ان تعلیمات کے مطابق گزاری جائے جن کے مطابق گزارنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔
  • قیامت کا تذکرہ: روزِ قیامت انسانوں کی دو قسمیں ہوں گی:
  • (۱)بد بخت لوگ (۲)نیک بخت لوگ
  • بدبختوں کے لیے ہولناک عذاب ہوگا جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
  • نیک بختوں کے لیے اللہ نے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بے حساب نعمتیں رکھی ہیں۔
  • سورۂ یوسفؑ:
  • اس سورۃ کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ نبیؐ کو قتل کردیں یا جلا وطن کریں یا قید کردیں۔ اس زمانہ میں بعض کفار مکہ نے (غالباً یہودیوں کے اشارے پر) نبی ؐکا امتحان لینے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا۔
  • چونکہ اہل عرب اس قصہ سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں کی روایات میں نہ پایا جاتا تھا، اور خود نبی ؐ کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا تھا، اس لیے انہیں توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا ٹال مٹول کرنے کے بعد کسی یہودی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے، اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائیگا۔ لیکن اس امتحان میں انہیں الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فوراً اسی وقت یوسف ؑ کا پورا قصہ آپؐ کی زبان پر جاری کردیا، بلکہ اس قصے کو قریش کے اس معاملہ پر چسپاں بھی کردیا جو وہ برادران یوسف کی طرح آنحضرت ؐکے ساتھ کر رہے تھے۔

مقاصد نزول :       اس طرح یہ قصہ دو اہم مقاصد کے لیے نازل فرمایا گیا تھا :

  1. ایک یہ کہ محمد ؐکی نبوت کا ثبوت، اور وہ بھی مخالفین کا اپنا منہ مانگا ثبوت بہم پہنچایا جائے، اور ان کے خود تجویز کردہ امتحان میں یہ ثابت کردیا جائے کہ آپ سنی سنائی باتیں بیان نہیں کرتے بلکہ فی الواقع آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے۔ اس مقصد کو آیات ٣، ٧ اور پھر آیات ۱۰۲۔۱۰۳ میں بھی صاف صاف واضح کردیا گیا ہے۔
  2. دوسرے یہ کہ سردارانِ قریش اور محمد ؐکے درمیان اس وقت جو معاملہ چل رہا تھا اس پر برادرانِ یوسفؑ اور یوسفؑ کے قصے کو چسپاں کرتے ہوئے قریش والوں کو بتایا جائے کہ آج تم اپنے بھائی کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہو جو یوسفؑ کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ مگر جس طرح وہ خدا کی مشیت سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخرکار اسی بھائی کے قدموں میں آرہے جس کو انہوں نے کبھی انتہائی بےرحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا، اسی طرح تمہاری زور آزمائی بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے گی اور ایک دن تمہیں بھی اپنے اسی بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹا دینے پر تلے ہوئے ہو۔
  3. تعارف:   یوسفؑ حضرت یعقوبؑ کے بیٹے تھے، جن کا مسکن اور علاقہ فلسطین میں کنعان تھا۔  انکے 11 بھائی تھے جن میں سے ۱۰ دوسری مائیں تھیں جبکہ ایک سگا تھا جس کا نام بن یامین تھا۔   یوسفؑ اپنی اعلیٰ صفات کی وجہ سے والد بہت چہیتے تھے جس سے دوسرے بھائی حسد کرتے تھے۔   اسی دوران یوسفؑ کو ایک خواب نظر آیا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔  انھوں نے خواب اپنے والد کے سامنے بیان کردیا، باپ نےبیٹے سے کہا کہ اس کا تذکرہ کسی سے نہ کریں ایسا نہ ہو کہ انکے بھائی انکے خلاف کوئی سازش کرنے لگیں۔
  4. قتل کا ارادہ:         اُدھر بھائیوں نے یوسفؑ کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنے والد سے کہا کہ ہم جنگل کی سیر کو جارہے ہیں یوسفؑ کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔  باپ نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم کھیل کود میں منہمک ہوجاؤ اور یوسف ؑ کو بھیڑیا نہ اُچک لے جائے۔ تاہم بھائیوں کے اصرار پر اجازت دے دی۔ جنگل  جاکر انھوں نے  یوسف ؑ کو ایک کنوئیں میں پھینک دیا اور روتے دھوتے گھر آکر باپ کو کہانی سنائی کہ یوسفؑ کو بھیڑیا کھا گیا۔  ساتھ ہی انکی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا لیا ۔  یعقوبؑ نے فرمایا کہ تم جھوٹ کہہ رہے ہو، مگر میں پھر بھی صبر عظیم کروں گا۔
  5. مصر کا بازار اور یوسفؑ:     ادھر ایک قافلہ کا گزر ہوا اور اسنے پانی کے لیے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو اس میں یوسفؑ آگئے۔  قافلہ نے انھیں مصر کے بازار میں ایک حکومتی افسر کے ہاتھ فروخت کردیا۔  عزیزِ مصر کی بیوی انکے حسن و جمال پر فریفتہ ہوگئی اور ایک دن موقع پاکر انھیں بدکاری کی دعوت دی جسے یوسف ؑ نے ٹھکرادیا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔  اُس عورت نے پیچھے سے جو کرتا پکڑا تو وہ پھٹ گیا۔  اپنی حوس میں ناکامی پر اُس عورت نے اُلٹا نام یوسف ؑ کا لگا دیا کہ اس کا ارادہ خراب تھا۔  شواہد دیکھ کر اہلِ حل و عقد نے فیصلہ کیاکہ چونکہ کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہے لہٰذا عورت غلط ہے۔
  6. معاشرے کی بے راہ روی:    اُدھر جب شہر کی عورتوں میں اس معاملہ کی چہ مگوئیاں ہوئیں تو عزیز مصر کی بے حیاء عورت نے حکومتی افسران کی بیویوں کو جمع کیا اور سب کے ہاتھ پھل اور چھریاں دے دیں اور یوسف ؑ کو بلایا۔  جب وہ ان عورتوں کے سامنے آئے تو اُن کا حسن و جمال دیکھ کر سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں اور انھوں نے بجائے پھلوں کے اپنی انگلیاں کاٹ کر زخمی کرلیں۔  اور کہہ اُٹھیں حاشا للہ یعنی یہ شخص انسان نہیں ہے یہ تو کوئی فرشتہ ہے۔   اس سے اُس معاشرے کی بے راہ روی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
  7. یوسفؑ جیل میں:    جب عزیز مصر سے اپنی بیوی کی بے حیائی پر بس نہیں چلا تو اُس نے یوسفؑ کو جیل بھجوادیا۔  وہاں اُنھوں نے قیدیوں سامنے اپنا اور اپنے خاندان کا تعارف کرایا  اور توحید بھی پیش کی۔  اللہ نے آپؑ کو خوابوں کی تعبیر بتانے کا معجزہ عطا کیا تھا۔  قیدیوں میں سے دو قیدیوں نے خواب دیکھے اور آپ ؑ نے تعبیر بتائی جو پوری ہوئی۔  ان میں سے ایک کو سزائے موت ہوگئی اور دوسرے کو رہائی مل گئی جو بادشاہ کو شراب پلانے پر معمور تھا۔
  8. شاہِ مصر کا خواب اور اسکی تعبیر:     اس دوران بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جس سے وہ پریشان ہوگیا اور اسکی تعبیر اسے کوئی نہیں بتا سکا۔  اس کو شراب پلانے والا جو جیل سے رہا ہوا تھا اُس نے یوسفؑ کا ذکر کیا چنانچہ جیل میں آپ کو بادشاہ کا خواب بتایا گیا تو آپ نے اسکی تعبیر یہ بتائی کہ پہلے ۷ سال خوب اناج اُگے گا اور اسکے بعد ۷ سال قحط پڑے گا۔  لہٰذا پہلے سات سال میں اُگنے والے اناج کو احتیاط سے استعمال جائے تاکہ بعد کے دن پریشانی نہ ہو۔  بادشاہ نے آزادی کا پروانہ جاری کردیا لیکن یوسفؑ نے شرط رکھی کہ پہلے انکے ناکردہ جرم کی حقیقت لوگوں کے سامنے لائی جائے۔  چنانچہ اُن ہی عورتوں کو طلب کیا گیا اور عزیزِ مصر کی بیوی کو بھی جس نے ڈورے ڈالے تھے۔   اُس نے اور عورتوں نے حقیقت حال بیان کردی۔
  9. جیل سے ایوانِ اقتدار تک:    بادشاہ نے انھیں عزت سے بری کیا اور یوسف ؑ کو اپنی مملکت کے خزانوں کا وزیر بنادیا۔  کچھ عرصہ بعد ملک اک اقتدار مکمل طور پر انہی کے سپرد ہوگیا۔  اسی دور میں قحط سالی نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور مصر کے سوا کہیں غلہ نہ مل سکتا تھا۔  یوسفؑ کے ۱۰ بھائی غلہّ لینے آئے۔  جب وہ اپنا اپنا غلہ لے چکے تو کہا کہ ہمارا بوڑھا باپ اور چھوٹا بھائی گھر پر ہے ان کا حصہ بھی دے دیا جائے۔  یوسفؑ نے کہا باپ کا عذر تو معقول ہےلیکن بھائی کا غلہ آئندہ آؤ گے تو اسی کو ملے گا۔  یوسفؑ انھیں پہچان چکے تھے لہٰذا انکی رقم انہی کے تھیلوں میں ڈلوادی۔
  10. بنیامین کی آمد اور چوری کا الزام:      اگلی مرتبہ یعقوبؑ کی منت سماجت کرکےبھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے آئے جہاں چپکے سے یوسفؑ نے بنیامین کو بتادیا کہ میں تمھارا بھائی ہوں۔    چنانچہ اللہ کی بتائی ہوئی تدبیر سے غلہ  بوریوں میں غلہ ڈالتے ہوئے بنیامین کی بوری میں پیمانہ چھپوادیا۔  جب ان کا قافلہ چلا تو پیچھے ہرکارے دوڑائے جنھوں نے کہا کہ بادشاہ کا پیمانہ چوری ہوگیا ہے، تمھاری تلاشی ہوگی اور جس کے پاس نکلے گا ملکی قانون کے تحت اُسے روک لیا جائے گا۔  تلاشی لینے پرپیمانہ بنیامین کے تھیلے سے برآمد ہوا۔  بھائیوں نے کہا کہ اس کا بھائی بھی چور تھا۔ 
  11. اور راز کھلتا ہے:  سب بھائی اپنے قافلے والوں کے ساتھ کنعان چلے گئے اور اپنے بابا کو  سارا ماجرا سنایا۔  یعقوبؑ نے کہا کہ میرا بیٹا چور نہیں ہوسکتا۔  میں اس پر بھی صبر کروں گا۔ اور پھر انکی طرف سے منہ موڑ کر بیٹھ گئے اور ہائے میرے یوسف کہہ کہہ کر رونے لگے، یوسفؑ کی جدائی میں پہلےہی وہ رو رو کر اپنی بینائی   کھو چکے تھے۔  پھر بیٹوں سے کہا کہ جاکر یوسفؑ اور اسکے بھائی کی ٹوہ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔  (۸۷)
  12. یہ لوگ دوبارہ یوسفؑ کے دربار میں غلہ لینےگئے اور کہا کہ ہمارے پاس غلہ کے لیے پوری رقم نہیں ہے جو بھی تھوڑی بہت ہے لے کر ہمیں مکمل غلہ دے دیں، چاہے خیرات ہی سہی۔ (۸۸) یہ سن کر یوسفؑ سے نہ رہا گیا اور انھوں نے اُن سے سوال کیا کہ تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہی کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جب کہ تم نادان تھے؟(۸۹)  تب بھائیوں نے کہا کہ کیا تم یوسفؑ ہو؟  انھوں نے جواب دیا ہاںمیں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ (۹۰) پھر اُن سے کہا کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمھیں معاف کرے۔ (۹۲)
  13. یعقوب ؑ مصر میں:  یوسف ؑ نے بھائیوں سے کہا جاؤ ، میری یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پرڈال دو ، ان کی بینائی پلٹ آئے گی ، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ۔‘‘ (۹۳) ۔  ابھی قافلہ یہاں سے چلا ہی تھا کہ کنعان میں یعقوبؑ نے کہا کہ مجھے آج یوسف ؑ کی خوشبو آرہی ہے۔  گھر والوں نے اسے ان کا خبط قرار دیا۔    جس دن خوشخبری لانے والا کنعان پہنچا اور یوسفؑ کا کرتا اُنکے چہرے پر ڈالا تو انکی بینائی لوٹ آئی۔  بینائی کی یہ بحالی یوسفؑ کا معجزہ تھا۔
  14. یعقوبؑ بمع اپنی آل کے مصر پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور یہ سب لوگ یوسفؑ کے سامنے تعظیماً جھک گئے۔  جس پر یوسفؑ نے اپنے بابا سے کہا کہ یہ تھی تعبیر میرے اُس خواب کی جو میں نے آپ کو سنایا تھا۔
  15. تاریخ خود کو دھراتی ہے:    یہ پورا واقعہ بیان کرنے کے بعد قریش کو بتایا جارہا ہےکہ جو تاریخ مصر میں رقم ہوئی تھی وہی اب یہاں لکھی جارہی ہے۔  حضورؐ شعب ابی طالب میں بھی محصور رہے، غارِ ثور میں بھی پناہ لینا پڑی، قریشِ مکہ نے سر کی قیمت بھی مقرر کی، بار بار مدینے پر حملے بھی ہوئے اور بالآخرسب زیرِ نگیں ہوگئے۔
  16. آخر میں فرمایا گیا کہ!  یہ قصے محض محفلیں گرمانے کے لیے نہیں، عقل و ہوش رکھنے والوں کےلیے عبرت کا سامان ہیں۔  ہی قرآن کا اسلوب ہے اور اسی نقطۂ نظر سے قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

 

  • آج گیارہویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ الرعد، ابراہیم، الحجر مکمل اور النحل کی ۹۴ آیات تلاوت کی جائینگی۔

سورۃ الرعد: 

یہ سورة بھی زمانہ قیامِ مکہ کے آخری دورمیں نازل ہوئی جب مشرکین کے مظالم عروج پر تھے اور نہ مانوں کی گردان جاری تھی۔

سورۂ رعد میں چار اہم باتیں ہیں:           ۱۔ قرآن کی حقانیت                 ۲۔ توحید                  ۳۔ قیامت  ۴۔ رسالت

  1.  قرآن کی حقانیت:

سورۃ کے آغاز میں اعلان کردیا گیا کہ یہ اُس کتابِ الٰہی کی آیات ہیں، اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے ان مخالفین کو چیلنج کرنے کے لیے جو قرآن کریم کو معاذ اللہ انسانی کاوش قرار دیتے ہیں۔

  1. توحید:

آسمانوں اور زمین، سورج اور چاند، رات اور دن، پہاڑوں اور نہروں ، غلہ جات اور مختلف رنگوں، ذائقوں اور خوشبوؤں والے پھلوں کو پیدا کرنے والا وہی ہے اور موت اور زندگی ، نفع اور نقصان اس اکیلے کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ نے انسانوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔

  1. قیامت:

مشرکوں کو تو اس پر تعجب ہوتا ہے کہ مردہ ہڈیوں میں زندگی کیسے ڈالی جائے گی، جبکہ درحقیقت باعثِ تعجب بعث بعد الموت نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کا تعجب سے یہ کہنا باعث تعجب ہے۔

  1. رسالت:

ہر قوم کے لیے کوئی نہ کوئی پیغمبر بھیجا جاتا رہا اور اللہ کے رسولوں کو قومیں جھٹلاتی رہیں، اس لیے حضورؐ کے ساتھ جو رویہ اُن کی قوم نے اختیار کیا تھا وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔  اللہ نے رسول بھیجے تو اُن کے بیوی بچے بھی تھے۔  کفار کا یہ اعتراض کہ رسول کوئی مافوق الفطرت فرد ہونا چاہیے، لغو قرار دیا گیا (۳۹)۔

سورۃ ابراھیم: 

عام انداز بیان مکہ کے آخری دور کی سورتوں کا سا ہے۔ سورة رعد سے قریب زمانہ ہی کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے۔

اس سورۃ میں بھی مکی سورتوں کی طرح عقائد کی پختگی کا ذکر ہے  یعنی توحید، رسالت و آخرت۔

ہر نبی اپنی قوم کی زبان پر ہوتا ہے: (آیت۴)

سورۃ کے شروع میں یہ حقیقت بیان کی گئی کہ جب بھی کسی قوم کی جانب رسول آیا تو اسی زبان کا بولنے والا انسان تھا اور اس پر جو وحی نازل کی گئی وہ اسی قوم کی زبان میں نازل ہوئی۔  ہر قوم میں نبی بھیجے گئے لیکن انھوں نے اس نبی کو جھٹلایا اور کہا کہ تم تو ہم ہی جیسے ہو۔  اس پر انبیاء نے کہا کہ بلاشبہ ہم تم ہی میں سے ہیں لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے۔

ظالموں کا انجام: (آیت ۲۱۔۲۲)

کفار و منافقین جب اللہ کے سامنے جمع کیے جائیں گے تو انکے کمزور اپنے پیشواؤں سے خود کو بچانے کا کہیں گے جس پر وہ کہیں گے، آج تو ہم اور تم ایک جیسے ہیں آج بچنے کی کوئی صورت نہیں۔  اور جب فیصلہ چکا دیا جائےتو تو یہ لوگ شیطان کو دوش دیں گے جس پر وہ کہے گا  کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میرے وعدے جھوٹے تھے۔  میں نے تمھارے ساتھ غلط کام کرنے کی زبردستی تو کی نہیں تھی بس تمھیں دعوت دی تھی باقی کام تم نے خود کیا ہے اس لیے مجھے ملامت نہیں کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری۔

کلمۂ طیبہ اور کلمۂ خبیثہ: (آیت۲۴۔۲۶)

کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے درخت کی سی ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں اور شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی سایہ دار اور پھل دار ہوں جبکہ کلمہ خبیثہ کی مثال اُس جھاڑ جھنکار کی مانند ہے جسے زمین سے اُکھاڑ پھینکا جاتا ہے اور اس میں قوت و استحکام نہیں۔

ابراہیمؑ کی دُعائیں: (آیت ۳۵۔۴۱)

حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ تعمیر کرنے کے بعد جو دُعائیں کی تھیں یہاں اُن کا تذکرہ کیا ہے جو یہ ہیں:

  1. اے اللہ اس شہر (مکہ) کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
  2. مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔
  3. اس محترم گھر کی طرف لوگوں کے دلوں میں آنے کا شوق پیدا فرما۔
  4. یہاں کے رہنے والوں کو پھل بھی دے اور لوگوں کا محبوب بھی بنادے۔

پھر اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کی عطا پر اللہ کا شکر ادا کیا۔

  1. اپنے لیے، اپنے والدین اور تمام مومنین کے  لیے مغفرت مانگی۔  جسے ہر نماز میں آج بھی مسلم اُمہ مانگتی ہے۔

حضرت ابراہیمؑ کی تمام دُعائیں قبول ہوئیں سوائے والد کی مغفرت کے چونکہ وہ مشرک تھا۔

اختتامِ سورۃ:

سورۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے منکرینِ اسلام کو تنبیہ کی ہے کہ یومِ آخرت انکی چالیں انہی پر پلٹ دی جائیں گی۔  اُس روز مجروموں کو دیکھو گے کہ وہ بے نقاب ہو کر حاجرو ہوں گے۔ ان کے ہاتھ پاؤں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ تارکول کے لباس پہنے ہوں گے اور آگ کے شعلے اُن کے چہروں پر چھائے جا رہے ہوں گے۔

سورۃ الحجر:

یہ بھی ایک مکی سورۃ ہے مضامین اور انداز بیان سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اس سورة کا زمانہ نزول سورة ابراہیم سے متصل ہے۔ سورۃ کا مضمون دین کا مذاق اُڑانے والوں کو تنبیہ اور آنحضورؐ کی تسلی اور ہمت افزائی ہے۔

سورۃ الحجر میں تقریباً اُن ہی موضوعات کی تذکیر ہوئی ہے جنھیں سورۃ ابراہیم میں بیان کیا گیا ہے۔  ماسوائے اس کے کہ اس میں قصۂ آدمؑ و ابلیس کو پھر بیان کیا گیا ہے، اصحابِ الایکہ کا ذکر ہے ۔  یہ شعیب ؑ کی قوم کے لوگ تھےجنھیں بنو مدیان بھی کہا جاتا ہے۔  ایکہ اُن کے اُس علاقے کا نام تھا جو آج کل تبوک کے نام سے معروف ہے۔  اسی طرح اس سورۃ میں اصحاب الحجر کا ذکر ملتا ہے۔  اصحاب الحجر دراصل قومِ ثمود کا دوسرا نام ہے، چونکہ انکے شہر کا نام حجر تھا اس مناسبت سے انھیں اصحاب الحجر کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور اُن پر جو عذاب بھیجا گیا، اُس طرف اشارہ ہے۔

سورۃ النحل:

سورۃ النحل بھی مکہ کے آخری دور کی سورتوں میں سے ایک ہے۔  یہ ہجرتِ حبشہ کے بعد نازل ہوئی، مضمون سے پتہ چلتا ہےکہ یہ سورۃ الانعام کے فوری بعد نازل ہوئی ہوگی۔

 اس سورۃ کا موضوع اور مضمون شرک کا ابطال، توحید کا اثبات، دعوتِ پیغمبر کو نہ ماننے کے برے نتائج پر تنبیہ و فہمائش، اور حق کی مخالفت و مزاحمت پر زجرو توبیخ ہے۔

  • سورۃ کا آغاز ہے اس اعلان سے کیا گیا ہےکہ آگیا اللہ کا فیصلہ، اب اس کےلیے جلدی نہ مچاؤ  اس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بدعملی کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا اور آخری فیصلہ کن قدم اٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا۔  یہاں غالباً مراد نبیؐ کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت ہے ، جس کا حکم تھوڑی ہی مدت بعد دے دیا گیا۔  اور ہجرت ہی دراصل اسلام کی سربلندی اور فتح کی علامت بنی۔
  • اللہ کی نشانیاں (۴۔۲۲): اللہ نے انسان کی تخلیق اور اُس کی اصل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایک بوند سے پیدا ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے صریحاً جھگڑالو ہوگیا۔   ان ہی آیات میں اللہ نے دیگر نشانیاں گنوائیں جن میں انسان کے لیے مفید جانور، آسمان سے بارش پھر اس سے کھیتیاں، پھلوں کا پیدا ہونا،  رات اور دن کا آنا جانا،  دنیا میں بے شمار رنگ برنگی دیگر نعمتیں، سمندر اور اس سے حاصل ہونے والی خوراک، اس کے ذریعے تجارت، اس  سے حاصل ہونے والی قیمتی اشیاء جن سے زیورات کا کام لیا جاتا ہے، پہاڑ اور تاروں کا ذکر پھرفرمایا کہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے۔ اور آخر میں دعوت فکر یہ کہہ کر کہ  پھر کیوں تم اللہ کو چھوڑ کو دوسری ہستیوں کو پکارتے ہو۔
  • ایمان والوں اور کفار کا انجام (۲۷۔۳۲): کفار اور ایمان والوں کے انجام کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ قیامت کے روز اللہ کفار کو  ذلیل و خوار کرے گا اور اُن سے سوال کیا جائے گا،  بتاؤ کہاں ہیں تمھارے وہ شریک جنھیں تم اللہ کے سوا دنیا میں معبود تسلیم کرتے تھے ،  کفار فرشتوں سےکہیں گے ہم نے تو وہ قصور نہیں کیے جو تم گنوارہے ہو جس پر وہ جواب دینگے کہ اللہ تمھارے تمام کرتوتوں سے واقف ہے۔  اور انھیں جہنم میں دھکیل دیا جایا جائے گا جبکہ مومنین کو انکے ایمان وعمل  کی جزاء کے طور پر جنت میں داخل کردیا جائےگا جہاں فرشتے سلام کرتے ہوئے ان کا استقبال کریں گے۔
  • دودھ اور شہد(۶۵۔۶۹): ان آیات میں پھر نعمتوں کا ذکر ملتا ہے کہ کیسے اللہ بارش برساتا ہے اور مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے جس سے پھل پھول نکلتے ہیں،  پھر مویشیوں کے پیٹ سے دودھ نکلتا ہے جو کہ خون اور گوبر جیسی ناپاک چیزوں کے درمیان سے ہوتا ہوا آتا ہے  اور کیسا شفاف ہوتا ہے، شہد کی مکھی کے شہد پیدا کرنے کا پروسس بتا یا گیا کہ ایک ہی پروسس سے مختلف رنگ کا شہد نکلاتا ہے جس میں ربّ نے غذا بھی رکھی اور شفاء بھی۔
  • انسان کی زندگی کے درجات:            آیت  70 میں بتایا گیا کہ انسان زمین پر کس طرح اللہ کی نافرمانیاں کرتا ہے جبکہ خود کو نہیں دیکھتا کہ بچپن میں کس طرح محتاج تھا ایک ایک ضرورت کے لیے،  پھر اس کو جوانی ملی جس میں زمین کےسینے پر یہ اکڑ کر چلنے کے قابل ہوا اور پھر اسکو ہم بڑھاپے میں لے جاتے ہیں  اور بچپن کی طرح دوسروں کا محتاج بنا دیتے ہیں۔  اور آخر کار تمھیں زندگی والا ربّ موت کی وادی میں لے جاتا ہے۔
  • خاندان ایک نعمت : آیت نمبر 72میں اللہ نے انسان کے خاندانی نظام کا تذکرہ کیا کہ اللہ نے انسانوں ہی کی جنس سے جوڑے پیدا کیے، جن سے انسانی افزائش ہوئی اور پہلے بیٹا بیٹی، پھر پوتا پوتی، عطا کیے اور ان سے نسل کو آگے چلایا۔
  • آقا و غلام، گونگا و بہرہ:    آیت نمبر 75-76 میں اللہ نے آقا و غلام کی مثال پیش کی  جس میں ایک بااختیار ہے اور دوسرا بے اختیار،   ایک رزق دینے والا ہے دوسرے رزق لینے والا،   ایک گونگا بہرا ہے  اور دوسرا انصاف کا حکم دیتا ہے۔  اور پھر سوال کیا کہ یہ آپس میں برابر ہوسکتے ہیں؟   یعنی جب ایسا نہیں ہوسکتا تو اللہ اور جنھیں اے انسان تو اللہ کا شریک ٹہراتا ہے کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟
  • انسان کی زندگی کے درجات:            آیت  70 میں بتایا گیا کہ انسان زمین پر کس طرح اللہ کی نافرمانیاں کرتا ہے جبکہ خود کو نہیں دیکھتا کہ بچپن میں کس طرح محتاج تھا ایک ایک ضرورت کے لیے،  پھر اس کو جوانی ملی جس میں زمین کےسینے پر یہ اکڑ کر چلنے کے قابل ہوا اور پھر اسکو ہم بڑھاپے میں لے جاتے ہیں  اور بچپن کی طرح دوسروں کا محتاج بنا دیتے ہیں۔  اور آخر کار تمھیں زندگی والا ربّ موت کی وادی میں لے جاتا ہے۔
  • خاندان ایک نعمت : آیت نمبر 72میں اللہ نے انسان کے خاندانی نظام کا تذکرہ کیا کہ اللہ نے انسانوں ہی کی جنس سے جوڑے پیدا کیے، جن سے انسانی افزائش ہوئی اور پہلے بیٹا بیٹی، پھر پوتا پوتی، عطا کیے اور ان سے نسل کو آگے چلایا۔
  • آقا و غلام، گونگا و بہرہ:    آیت نمبر 75-76 میں اللہ نے آقا و غلام کی مثال پیش کی  جس میں ایک بااختیار ہے اور دوسرا بے اختیار،   ایک رزق دینے والا ہے دوسرے رزق لینے والا،   ایک گونگا بہرا ہے  اور دوسرا انصاف کا حکم دیتا ہے۔  اور پھر سوال کیا کہ یہ آپس میں برابر ہوسکتے ہیں؟   یعنی جب ایسا نہیں ہوسکتا تو اللہ اور جنھیں اے انسان تو اللہ کا شریک ٹہراتا ہے کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟

 

  • آج بارہویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ النحل کی آیت 90 تا 128، سورۃ بنی اسرائیل مکمل، اور  سورۃ الکہف کی 74 آیات کی تلاوت کی جائے گی۔ اس طرح آج ۱۵ پارے مکمل ہوجائیں گے۔

عظیم اور جامع آیت:  آیت نمبر 90 قرآن کریم کی جامع ترین آیت ہے جس میں پوری اسلامی تعلیمات کو چند الفاظ میں سمودیا گیا ہے ۔ اسی لئے سلف صالحین کے عہد مبارک سے آج تک دستور چلا آرہا ہے کہ جمعہ و عیدین کے خطبوں کے آخر میں یہ آیت تلاوت کی جاتی ہے ۔

 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کا حکم دیا ہے اور تین چیزوں سے منع فرمایا ہے ۔ جن تین چیزوں کا حکم دیا ہے وہ ہیں : 1 ۔ عدل  2 ۔ احسان      3 ۔ اہل قرابت کو بخشش

 جن تین چیزوں سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہیں ۔    1 ۔ فحش کام         2 ۔ برے کام         3 ۔ ظلم وزیادتی

اوپر کی 3 بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ 3 برائیوں سے روکتا ہے، جو انفرادی حیثیت سے افراد کو اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں۔  فحاشی!  جس کا اطلاق تمام بے ہودہ اور شرم ناک افعال پر ہوتا ہے۔  منکر! جس سے مراد ہر وہ برائی ہے، جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں۔    بغی!   جس کے معنی اپنی حدود سے تجاوز کرنا اور دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرنا ہے۔

ایفائے عہد:           آیت 91-92 میں ایفائے عہد کا حکم دیتے ہوئے ایک مثال بیان فرمائی گئی ہے جو بڑی دل نشین ہے۔  جو لوگ اپنے معاہدے توڑ دیتے ہیں، وہ اپنی نیکیوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور اُن اُس عورت سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنا کاتا ہوا سوت کاتنے کے بعد خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے۔

تلاوتِ قرآن اور شیطان سے پناہ:آیت 98 میں حکم  جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو

قرآن اور اہلِ ایمان (۱۰۲۔۱۰۵):        قرآن کے بارے میں مخالفانہ پروپیگنڈا کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اس قرآن کو پاک روح (جبرئیل امین) لے کر آتے ہیں جس میں کسی قسم کی آمیزیش وہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی محمد ؐ کو کوئی انسان یہ املا کراتا ہے ۔  حقیقت تو یہ ہے کہ جو اللہ کی آیات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا اُسے اللہ درست بات تک پہنچنےکی توفیق بھی نہیں دیا کرتا۔

مجبوراً کلمۂ کفر کی اجازت(۱۰۶):      مکہ میں اہلِ ایمان کےلیے زمین انتہائی تنگ کردی گئی تھی اور اُن کی جان پر بن گئی تھی۔  ایسے میں اہلِ ایمان کو کلمۂ کفر کہنے کی اجازت دے دی گئی بشرطیکہ دل میں زرّہ برابر بھی شک نہ جگہ نہ بنائی ہو۔

مُردار کھانے کی اجازت:       آیت 115 میں اجازت دی گئی ہے کہ اگر کوئی اس حد تک مجبور ہوجائے کہ حرام نہ کھائے تو جسم و زندگی کا رشتہ قائم نہ رکھ سکے گا تو  وہ حرام کی چیزوں یعنی مُردار، خون، سؤر کا گوشت، ایسے جانور کا گوشت جس پر ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو،  کو اس قدر کھا سکتا ہے کہ اسکی سانس کا جسم سے رشتہ برقرار رہ سکے۔

حضرت ابراہیمؑ اور سیدنا محمدﷺ:       سورۃ کے آخر میں سیدنا ابراہیمؑ کی تعریف کرتے ہوئے انھیں اپنی ذاتی میں پوری اُمت قرار دیا گیا ہے، انھیں ایمان میں یکسو اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا بتایا گیا ہے اور اعلان کیا گیا کہ وہ آخرت میں صالحین میں سے ہونگے۔  پھر نبیؐ کو مخاطب کرکےاُنھیں اور  اُمت کو ہدایت  کی گئی کہ لوگوں کو اللہ کے دین کے راستے طرف حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلائیں۔  اسکے باوجود اگر کوئی ماننے سے انکار کردے اور بحث و مباحثہ میں اُلجھائے تو بھی حُسنِ کلام، حُسنِ دلائل اور حُسنِ اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

سورۃ بنی اسرائیل /الاسراء: یہ سورۃ معراج کےموقع پر نازل ہوئی اور یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔  یوں یہ سورۃ النحل سے متصل سورۃ ہے جو مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی۔ اس سورت میں تنبیہ، تفہیم اور تعلیم، تینوں ایک متناسب انداز میں جمع کردی گئی ہیں۔

  • تنبیہ، کفار مکہ کو کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے انجام سے سبق لو اور خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر، جس کے ختم ہونے کا زمانہ قریب آلگا ہے، سنبھل جاؤ۔
  • تفہیم کے پہلو میں بڑے دلنشین طریقے سے انسانی سعادت و شقاوت و فلاح کو سمجھا یا گیا ہے اور اِن شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو ان بنیادی حقیقتوں کے بارے میں کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے۔ اور استدلال کے ساتھ بیچ بیچ میں منکر ین کی جہالتوں پر ڈانٹ ڈپٹ بھی کی گئی ہے۔
  • تعلیم کے پہلو میں اخلاق اور تمدن کے وہ اہم اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر زندگی کے نظام کو قائم کرنا دعوت محمدی ؐکے پیش نظر تھا۔ یہ گویا اسلام کا منشور تھا جو اسلامی ریاست کے قیام سے 1سال پہلے اہل عرب کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
  • سفرِ معراج (۱۔۲): پہلی آیت میں سفرِ معراج کا تذکرہ ہے۔ یہ سفر ایک رات میں مکمل ہوا پہلے مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ لےجایا گیا اور پھر وہاں سے آسمانوں پر سدرۃ المنتہیٰ تک۔ اس معاملہ سے مقصود کیا تھا : (لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا) تاکہ اللہ کی نشانیاں رسول ؐ کے  مشاہدہ میں آجائیں۔ یعنی دلائلِ حقیقت کا عینی مشاہدہ کرلیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ وحی کی تکمیل تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا : (وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ) اسی طرح حضرت موسیٰ کا معاملہ وحی بھی کوہ طور کے اعتکاف میں مکمل ہوا تھا۔
  • خود پڑھ اپنی کتاب (۱۳۔۱۴): سورۃ کے آغاز ہی میں بنی اسرائیل کی بد عہدیوں اور اُن پر آنے والے مسلسل عذاب کا تذکرہ ملتا ہے۔  اس کے بعد اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر انسان کا نصیب ہم نے اُس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک رجسٹر اُس کےلیے نکالیں گے، جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا۔  کہا جائے گا پڑھ اپنا نامۂ اعمال، اپنا حساب نکالنے کےلیے تو خود ہی کافی ہے۔  گویا ہر انسان کا ریکارڈ اُس کے ساتھ ساتھ بنتا جارہا ہے۔ قیامت میں خود اُس کے اعضاء گواہی دیں گے۔

نبیؐ کی دعوت کا منشور (۲۳۔۳۹):      ان آیات میں وہ بنیادی اصول پیش کیے گئےجن پر اسلام پوری انسانی زندگی کے نظام کی عمارت قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ گویا نبی ؐکی دعوت کا منشور ہے جسے مکی دور کے خاتمے اور مدنی دور کے نقطۂ    آغاز پر پیش کیا گیا، تاکہ دنیا بھر کو معلوم ہوجائے کہ اس اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد کن فکری، اخلاقی، تمدنی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی۔

  1. عبادت صرف اللہ کی کی جائے۔
  2. والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کیا جائے اور اُن سےاُونچی آواز میں بات بھی نہ کی جائے، ہمیشہ انکےلیے دعا کی جائے۔
  3. رشتہ دار، مساکین و مسافروں کو اُن کا حق دیا جائے۔
  4. فضول خرچی سے بچا جائے، کیونکہ فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں۔
  5. حاجت مندوں کی امداد نہ کی جاسکے تو انھیں نرم جواب دیا جائے، جھڑکا نہ جائے۔
  6. افلاس کے اندیشے سے اپنی اولاد کو قتل نہ کیا جائے، رازق تو سب کا اللہ ہے۔
  7. زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو۔   یعنی اُن راستوں پر قدم ہی نہ رکھو جو اس برائی کی سرحد تک لے جائیں۔
  8. کسی شخص کو ناحق قتل نہ کرو۔
  9. مقتول کے ورثاء کو حق ہے کہ وہ  قصاص میں قاتل کے قتل کا مطالبہ کریں، جسے حکومت عملی جامہ پہنائے۔
  10. یتیم کے مال کی حفاظت کرو، اُس میں سے کچھ غبن و غصب نہ کرو اور اُس کے جوان ہونے پر اُسکے حوالے کردو۔
  11. عہد کی پابندی کرو۔
  12. ناپ اور تول میں انصاف کرو۔
  13. کسی ایسی چیز کی ٹوہ میں نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو یعنی تجسس سے بچو۔
  14. زمین میں اکڑکر مت چلو،  نہ تو تم اسے پھاڑ سکتے ہو اور پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔
  15. توحید باری تعالیٰ (۴۰۔۴۴): ان آیات میں توحید باری تعالیٰ بیان کی گئی ہے۔
  16. عقیدۂ رسالت و آخرت (۴۵۔۵۲):        ان آیات میں عقیدۂ رسالت و آخرت بیان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ کفار سوال کرتے ہیں کہ ایک بار مرنے کے بعد مٹی ہوجائیں تے تو پھر کیسے دوبارہ اُٹھائے جاسکتے ہیں؟  جواب میں بتایا گیا تم پتھر یا لوہا بھی ہوجاؤ یا اس سے بھی زیادہ سخت چیز، پھر بھی تم اُٹھ کر رہو گے۔ اور وہی تمھیں دوبارہ اُٹھائے گا جس نے پہلی بار تمھیں پیدا کیا تھا۔  اُسکے پکارتے ہی ایسے اُٹھ آؤ گے جیسے ابھی لیٹے تھے یعنی مدت تھوڑی۔
  17. ابلیس کا اللہ کو چیلنج (۶۱۔۶۵):  تخلیقِ آدمؑ پر اللہ کا فرشتوں کو سجدہ کا حکم اور ابلیس کا انکار،  پھر تکرار کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔  اللہ سے مہلت مانگی اور چیلنج کیا کہ چونکہ میں اسکی وجہ سے ذلیل کیا گیا ہوں لہٰذا میں اس کو قامت تک بھٹکاتا رہوں گا۔  اللہ نے بھی اس کا چیلنج قبول کیا اور کہا کہ میرے بندوں پر تیرا زور نہیں چلے گا۔      اب جو بھی انسان شیطان کی چال بازیوں میں آتا ہے تو گویا شیطان کی جانب سے اللہ کو دیےگئے  چیلنج میں اُسے کامیابی دلوانے کی کوشش کرتا ہے۔
  18. نماز کی فرضیت و اوقات(۷۸۔۷۹):      نماز کی فرضیت سفرِ معراج ہی میں ہوئی تھی گویا کہ یہ اللہ کی طرف سے اُمت کے لیے معراج کا تحفہ تھا۔  آیت نمبر ۷۸ میں پانچوں نمازوں کے اوقات کا تعین کیا گیا ہے جو زوالِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور طلوعِ فجر تک رہتا ہے۔  آیت نمبر ۷۹ میں تہجد کا ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ پر فرض کی گئی تھی اور اسکے صلے میں اُن سے مقامِ محمود کا وعدہ کیا گیا تھا۔   یہ نماز امتیوں کے لیے گو کہ نفل ہے لیکن اللہ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
  19. روح کی حقیقت(۸۵):          رُوح پر انسانوں نے بڑی بحثیں کی ہیں۔ مختلف نظریات قائم کیے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جسم اور مادّے اور مرئی اور حِسّی دُنیا میں تو انسان نے اپنے جوہر دکھائے ہیں مگر رُوح کے بارے میں وہ بالکل بے بس نظر آتا ہے۔  اللہ نے فرمایا! اور وہ تم سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دو کہ رُوح میرے رب کے حکم میں سے ہے اور انہیں تو بس تھوڑا ہی سا علم عطا ہوا ہے
  20. رسول انسان یا فرشتہ(۹۵): کفار کا اعتراض تھا کہ کسی بشر کے بجائے کسی فرشتے کو اُن کی طرف رسول ہو کر آنا تھا تو ان سے کہہ دو کہ اگر زمین میں انسانوں کے بجائے فرشتے بستے تب تو ہم لازماً آسمان سے کوئی فرشتہ ہی اتارتے لیکن زمین میں انسان رہتے ہیں تو آخر انسانوں کی طرف کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجنے کے کیا معنی ؟ رسول اس لیے آتا ہے کہ اس کی زندگی لوگوں کے لیے اسوہ اور نمونہ بنے۔ آخر کسی فرشتہ کی زندگی انسانوں لیے اسوہ اور نمونہ کس طرح بن سکتی۔
  21. رسول انسان یا فرشتہ(۱۰۵۔۱۰۶): فرمایا گیا کہ اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے کوئی مانتا ہے مانے اور جو نہیں مانتا نہ مانے۔  نبیؐ آپ کا کام تو بس اتنا ہےکہ اس کا پیغام لوگوں تک پہنچادیں اور ماننے والوں کو خوشخبریاں اور نہ ماننے والوں کو کل کے انجام سے باخبر کردیں۔     اس قُرآن کو تو ہم نے بتدریج اتارا ہے تاکہ انسان اسے آسانی سے سیکھ سکیں۔ ورنہ تو ہمارے اختیار میں تھا کہ یکمشت نازل کردیتے۔
  22. اللہ رحمن بھی ہے:  مشرکین رحمن کے نام سے چڑتے تھے۔  فرمایا گیاکہ!  ان سے کہو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن  کہہ کر، تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔  وہ تعریف کا حقدار ہے اور ہر قسم کے شریک سے پاک ہے۔
  23. سورۃ الکہف:        سابق سورة کی طرح یہ سورة بھی آنحضرتؐ کی مکی زندگی کے اس دور میں نازل ہوئی ہے جب حق و باطل کی کشمکش اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ قریش اپنے تمام حربوں کے ساتھ قرآن کی دعوت کو مٹا دینے پر تل گئے تھے اور یہود و نصاری نے بھی در پردہ قریش کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کردی تھی تاکہ انہی کے ہاتھوں یہ دعوت اپنے مرکز ہی میں ختم ہوجائے، اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے خود انہیں میدان میں اترنا نہ پڑے ۔  یہودیوں کے کہنے سے قصۂ یوسفؑ کی طرح  مشرکینِ مکہ نے تین سوال نبی کریمﷺ کے سامنے رکھے تھے۔
  24. ۱)  اصحابِ کہف کون تھے؟              ۲)  قصۂ موسیٰ و خضر کی حقیقت کیا ہے؟       ۳)  ذولقرنین کون تھا؟
  25. ان سوالات کی حقیقت:         یہ قصے عرب کی تاریخ، شعر و ادب اور قصے کہانیوں میں ناپید تھے۔  البتہ یہود و نصاریٰ کی کتب میں ان کا تذکرہ موجود تھا۔  چونکہ مشرکین کا خیال تھا کہ محمد ؐ خود مضامین گھڑتے ہیں یا کسی سے سیکھتے ہیں اس لیے ان سوالات کے جوابات نہیں دے پائیں گے۔  یا کسی سے پوچھیں گے تو آپؐ کا راز فاش ہوجائے گا۔
  26. اللہ کی تعریف اور قرآن کی حقانیت سے کلام کا آغاز کیا گیا۔  پھر چھٹی آیت میں نبیؐ کی اُس کیفیت کو بیان کیا گیا کہ وہ مخالفین کے لیے بھی نہایت غم گسار ہیں اور ان کے غم میں گھلے جاتے ہیں۔
  27. اصحابِ کہف کون تھے؟
  28. اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ 7 نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لائے تھے اور ہم نے انکو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔  ان کا واقعہ دقیانوس کے دورِ اقتدار کا ہے۔  دقیانوس دین کے پیروکاروں پر ظلم و ستم ڈھانے میں بہت بدنام تھا۔   لیکن ان نوجوانوں نے اُس کے ظلم کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے ایک غار میں پناہ لے لی ساتھ میں ان کے ایک کتا بھی تھا۔  انھوں نے اللہ سے اسکی رحمتِ خاص کی دعا مانگی تو اللہ نے انھیں سالہا سال کےلیے گہری نیند سُلادیا۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ اُس غار میں تقریباً 309 سال سوتے رہے۔  صاحبِ تفہیم القرآن کی تحقیق کے  مطابق یہ 196 سال سوئے۔
  29. جب حقیقت کھلی:   جب تک یہ سوتے رہے اللہ تعالیٰ انھیں کروٹیں دلواتا رہا اور غار کا دھانہ ایسا تھا کہ سورج کی روشنی براہِ راست ان پر نہیں پڑتی تھی۔  جب بیدار ہوئے تو ایک ساتھی کو کھانا لانے بازار بھیجا جو پرانے زمانے کے لباس میں اور پرانے سکے کے ساتھ بازار جاتا ہے اور بات بادشاہِ وقت تک پہنچ جاتی ہے۔  چنانچہ بادشاہ اور اسکے درباری غار کے دھانے تک آتے ہیں اور اُن نوجوانوں سے حال احوال معلوم کرتے ہیں۔  راز فاش ہونے پر اللہ تعالیٰ انھیں موت دے دیتا ہے۔
  30. جب حقیقت کھلی:   جب تک یہ سوتے رہے اللہ تعالیٰ انھیں کروٹیں دلواتا رہا اور غار کا دھانہ ایسا تھا کہ سورج کی روشنی براہِ راست ان پر نہیں پڑتی تھی۔  جب بیدار ہوئے تو ایک ساتھی کو کھانا لانے بازار بھیجا جو پرانے زمانے کے لباس میں اور پرانے سکے کے ساتھ بازار جاتا ہے اور بات بادشاہِ وقت تک پہنچ جاتی ہے۔  چنانچہ بادشاہ اور اسکے درباری غار کے دھانے تک آتے ہیں اور اُن نوجوانوں سے حال احوال معلوم کرتے ہیں۔  راز فاش ہونے پر اللہ تعالیٰ انھیں موت دے دیتا ہے۔
  31. گمراہی کی دوسری صورت:  اُن کی زندگی میں گمراہی کی صورت یہ تھی کہ توحید پرستوں پر ظلم  ڈھایا جاتا تھا۔  اب گمراہی کی ایک دوسری صورت بنی  اور وہ یہ کہ اُن کو مقدس بنا کر اُن کی قبریں سجدہ گاہ بناے کا فیصلہ ہوا۔   (آیت:   ۲۱)
  32. ان شاء اللہ کی اہمیت:          آنحضورؐ نے مذکورہ سوالات سُن کر مشرکین کو جواب دیا کہ ان کے جوابات کل دوں گا اور یہ نہیں کہا کہ اگر اللہ نے چاہا۔  جس پر اللہ تعالیٰ نے وحی میں تاخیر کی اور وحی آنے پر متنبہ کردیا کہ کسی چیزکے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کردوں گا اِلّا یہ کہ اللہ چاہے۔  مسلمانوں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
  33. دو مالکانِ باغات:  مذکورہ سوالوں سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ نے مزید تذکیر کے عنوان نازل فرمائے۔  جن میں سے ایک باغ والوں کا قصہ بھی ہے۔  جن میں ایک باغ کا مالک بہت خوش حال تھا لیکن اپنی خوشحالی اور باغ کی شادابی پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنی قابلیت سمجھتا تھا۔  جبکہ دوسرے باغ کا مالک مالی اور باغ کی شادابی کے لحاظ سے کمزور تھا لیکن وہ اللہ کا شکر گزار تھا۔ دونوں میں مکالمہ ہوا تو پہلے نے گھمنڈ اختیار کیا جبکہ دوسرے نے کہا کہ بندے کو اترانے کے بجائے اللہ کی طرف رُجوع کرنا چاہیے۔  آخر اللہ نے مغرور کے باغ کو تباہ و برباد کردیا۔
  34. واقعہ موسیٰ و خضر  ؑ:        پندرھویں پارے کے آخر میں قصہ آدم و ابلیس پر پھر روشنی ڈالی گئی اور اسکے بعد دوسرے سوال کا جواب دیا جاتا ہے اور قصۂ موسیٰ اور خضر  ؑ بیان کیا جاتا ہے۔  یہ قصہ مکمل سولہویں پارے میں ہوتا ہے لہٰذا تفصیل ان شاء اللہ کل رکھیں گے۔  آج بس ایک تعارف رکھ دیتے ہیں تمام انبیاء کی طرح موسیٰ ؑ کو بھی  جب نبوت ملی تو مراحل بڑے کٹھن تھے۔  انھیں حکم ملا کہ وہ مصر سے سوڈان کی جانب سفر کریں۔  راستے میں ایک مقام پر  دو دریاء آپس میں ملتے ہیں وہاں ایک شخص آپ کو ملے گا جس کے ساتھ موسیٰؑ کو کچھ وقت گزارنا ہوگا۔  اس مقام کی نشانی بتائی گئی تھی کہ بھنی ہوئی مچھلی جو کھانے کے لیے رکھی تھی زندہ ہو کر دریاء میں چلی جائے گی۔  چنانچہ یہیں موسیٰؑ کی ملاقات خضرؑ سےہوئی۔  باقی کل

 

آج تیرہویں تراویح ہے ۔  اس میں سورۃ کہف کا بقیہ حصہ،  سورۃ مریم اور  سورۃ طٰہٰ کی مکمل تلاوت کی جائے گی۔

  • واقعہ موسیٰ ؑ و خضر ؑ:       پندرھویں پارے  کے آخر میں دوسرے سوال کا جواب دیا جاتا ہے جوقصۂ موسیٰ اور خضر  ؑ ہےکیا جاتا ہے۔  یہ قصہ مکمل سولہویں پارے میں ہوتا ہے۔  تمام انبیاء کی طرح موسیٰ ؑ کو بھی  جب نبوت ملی تو کٹھن مراحل سے گزارا گیا۔  حکم ملا کہ مصر سے سوڈان کی جانب سفر کریں۔  راستے میں ایک مقام پر  2 دریاء آپس میں ملتے ہیں وہاں ایک شخص ملے گا جس کے ساتھ موسیٰؑ کو کچھ وقت گزارنا ہوگا۔  اس مقام کی نشانی بتائی گئی تھی کہ بُھنی ہوئی مچھلی جو کھانے کے لیے رکھی تھی زندہ ہو کر دریاء میں چلی جائے گی۔  چنانچہ یہیں موسیٰؑ کی ملاقات خضرؑ سےہوگی۔ 
  • موسیٰؑ اور خضرؑ کی ملاقات: ملاقات ہوئی تو موسیٰ نے خضرؑ سے کہا کہ آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ آپ سے دانش سیکھوں۔  خضرؑ نے کہا کہ رہ تو سکتے ہیں لیکن میرے کام ایسے ہیں کہ آپ کو تعجب ہوگا اور صبر نہیں کرسکیں گے۔  موسیٰؑ نے وعدہ کیا کہ میں صبر کروں گا۔  چنانچہ دونوں ساتھ ہوگئے اور خضرؑ نے کہا کہ میرے ساتھ رہیے لیکن جو بھی دیکھیں کسی قسم کا سوال نہیں کیجئے گا جب تک میں خود وضاحت نہ کردوں۔
  • پہلا عجیب منظر: موسیٰؑ اور خضرؑ سوال نہ کرنے کے وعدہ کے ساتھ چل پڑے اور ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔  کچھ دیر بعد خضر ؑ نے کشتی کے پیندے میں سوراخ کردیا۔  موسیٰؑ نے ٹوکا تو خضرؑ نے کہا کہ میں نے تمھیں کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے جواباً موسیٰ ؑ نے معذرت کی کہ اُن سے بھول ہوگئی۔  کشتی کو وہیں چھوڑ کر وہ خشکی کے راستے چل پڑے۔
  • دوسرا عجیب منظر: آگے بڑھے تو اس سے بھی عجیب واقعہ پیش آگیا۔  سامنے سے ایک خوبصورت بچہ چلا آرہا تھا کہ  خضرؑ نے اسے قتل کردیا۔  موسیٰ ؑ کے خاموش رہنا بہت مشکل تھا، سرزنش والے انداز میں خضر ؑ کو کہا کہ بلاوجہ ایک ننھی سی جان کو قتل کردیا۔  خضرؑ نے پھر کہا کہ میں نے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے۔  اس پر موسیٰ ؑ نے معذرت کی  اور کہا اب سوال کروں تو اپنے سے الگ کردیجئے گا۔
  • تیسرا عجیب منظر: سفر جاری رہا ایک بستی میں پہنچے جہاں کے لوگوں نے اجنبی مہمانوں کو کھانا پینا دینے سے بھی انکار کردیا۔ ایسی بستی میں ایک دیوار گرتی نظر آئی تو خضرؑ نے بڑھ کر اُسے درست کردیا۔  موسیٰ ؑ نے پھر کہا کہ بغیر مزدوری کے ایسی بستی میں دیوار کا بنانا سمجھ سے بالا تر ہے۔  خضرؑ نے کہا اب میرا اور تمھارا ساتھ ختم ہوا۔ آؤ تمھیں حقیقت بتا دیتا ہوں۔
  • کشتی میں سوراخ کرنے کی حکمت: کشتی چند غریب مزدوروں کی تھی اور دریاء اکے دوسرے کنارے ایک ظالم بادشاہ لوگوں کی کشتیوں پر قبضہ کررہا تھا۔  چنانچہ میں نے اسے عیب دار کر دیا تاکہ وہ قبضہ نہ کرسکے اور مزدور بعد میں اس کی مرمت کرکے پھر کام میں لے آئیں۔
  • بچہ قتل کرنے کی حکمت: مقتول لڑکا متقی والدین کا بیٹا تھا لیکن اُس کے اندر سرکشی و کفر کے جراثیم پائے جاتے تھے۔  ہمیشہ اندیشہ ہوا کہ یہ والدین کو تنگ کرے گا۔  اس لیے ہم نے چاہا کہ اس سرکش و نافرمان کی جگہ اللہ ان کو ایسی اولاد دے جو پاک نفس اور ہمدردی کرنے والی ہو۔
  • دیوار کی مرمت کی حکمت : یہ دیوار درحقیقت 2 یتیموں کی تھی، ان کے باپ نے، جو ایک نیک آدمی تھا، اس کے نیچے ایک دفینہ محفوظ کیا تھا کہ اس کے بعد یہ اس کے بچوں کے کام آئے گا، اگر یہ دیوار گرجاتی تو دفینہ بستی کے لوگوں کے ہاتھ لگ جاتا اور یہ یتیم اس سے محروم ہوجاتے۔ اس وجہ سے تمہارے رب نے یہ چاہا کہ یہ دیوار ان بچوں کے جوان ہونے تک قائم رہے تاکہ وہ جوان ہو کر اپنا دفینہ خود نکالیں۔ میں جو بھی کیا خود نہیں کیا بلکہ اللہ کے حکم سے کیا۔
  • خضر ؑ کون تھے؟: خضرؑ اگر انسان ہوں تو خداکی بھیجی ہوئی شریعت کے مطابق کسی دور میں بھی پہلے دو کام اُن کےلیے کسی صورت بھی جائز نہ تھے۔  اگر کسی کو کسی کے بارے میں علم بھی ہوجائے کہ اُس کے ارادے خراب ہیں تب بھی اُسے قتل نہیں کیا جاسکتا۔  البتہ تکوینی احکام، جن میں اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو ذمہ داریاں سونپتا ہے، اُن  میں اللہ کے حکم کے مطابق فرشتے اس طرح کی خدمات سرانجام دیتے رہتے ہیں۔     (تفہیم القرآن)
  • واضح ہوا کہ خضرؑ کوئی انسان یا ولی اللہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے مقرب فرشتوں میں سے ایک ہیں، جن کے ذمہ تکوینی احکام لگتے رہتے ہیں اور وہ اُن کی تنفیذ کرتے ہیں۔
  • ذوالقرنین کون تھے؟: آیت 83 تا 101میں قریش کے تیسرے سوال کا جواب ذوالقرنین کے بارے میں بیان ہے۔  قُرآن نے جو صفات ذوالقرنین کی بیان کی ہیں اُن میں اُسے 2 سینگوں والا کہا گیا ہے (یعنی طاقت کی علامت)،    دوسرے یہ کہ وہ بڑا فرماں روا اور فاتح تھا، جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی تھیں،  تیسرے یاجوج ماجوج کے حملوں کو روکنے کےلیے شمالی سرحدوں پر ایک مستحکم دیوار بنائی تھی۔ چوتھے وہ اللہ کی عبادت کرنے والا عادل تھا۔

قصہ ذوالقرنین:    

  1. یہودیوں پر اس بادشاہ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے بابل کی اسیری سے ان کو نجات دلائی اور اس کی مدد سے بیت المقدس اور ہیکل کی ازسر نو تعمیر ہوئی۔ یہود کے انبیاء نے ان کی پیشین گوئی بھی کی تھی۔
  2.  وہ مغرب کی جانب ملک پر ملک فتح کرتا ہوا خشکی کے آخری سرے تک پہنچ گیا جس کے آگے سمندر تھا۔ اور وہاں غروب آفتاب کے وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سورج سمندر کے سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔   وہاں ایک قوم ملی جس پر اللہ نے اس صورت حال میں اس کے ضمیر کے سامنے یہ سوال رکھ دیا کہ یہ تیرے امتحان کا وقت ہے۔ یہ قوم تیرے آگے بےبس ہے۔ تو ظلم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور شرافت کا سلوک کرنا چاہے تو یہ بھی تیرے اختیار میں ہے۔  چنانچہ اس نے اعلان کردیا کہ جو ظلم کرے گا اسے سزا دیں گے اور جو ایمان لایا اور اس پر عمل کیا اس سے نرمی کا معاملہ کریں گے۔
  3. پھر  وہ ممالک فتح کرتا ہوا مشرق کی جانب ایسے علاقے تک پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا کی سرحد ختم ہوگئی تھی اور آگے ایسی وحشی قوموں کا علاقہ تھا جو عمارتیں بنانا تو درکنار خیمے بنانا تک نہ جانتی تھیں۔
  4. پھر وہ اگلی مہم پر نکلا اور اُن  دو پہاڑوں  کے پاس پہنچ گیا جہاں یاجوُج ماجوُج کا علاقہ تھا،  ان پہاڑوں سے مراد کا کیشیا کے وہ پہاڑی سلسلے ہو سکتے ہیں جو بحر خَز َر (کیسپین) اور بحر اسود کے درمیان واقع ہیں۔   وہاں کے رہنے والوں نے جو ذوالقرنین اور اسکی فوج کی زبان نہیں سمجھتے تھے کسی طرح یہ بات ذوالقرنین کو بتائی کہ یاجوج و ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں، لہٰذا ان سے ہمیں محفوظ کر جس کے لیے تو چاہے تو ہم ٹیکس کی ادائیگی یا کوئی معاوضہ بھی تجھے دے سکتے ہیں۔   (یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولی، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں)۔  ذوالقرنین نے انکی مدد بغیر کسی معاوضہ کے کی بس اُنھیں اپنا ہاتھ بٹانے کا کہا اور دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک آہنی دیوار تعمیر کردی۔  پھر کہا کہ یہ لازوال نہیں ہے بلکہ جب تک میرا ربّ چاہے گا قائم رہے گی۔
  5. یہ قصہ بیان کرتے ہوئے دراصل قریش کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ معمولی حیثیت اور سرداری کے خمار نے تمھیں اتنا خود سر بنا دیا ہے تم صداقت کی آواز سننے کے روادار نہیں ہو، نظامِ عدل لانے والے کی جان کے دشمن ہو اور دوسری جانب  ذو القرنین کو دیکھو محض ایک فاتح ہی نہ تھا، بلکہ توحید اور آخرت کا قائل تھا، عدل و انصاف اور فیاضی کے اصولوں پر عامل تھا، اور تم لوگوں کی طرح کم ظرف نہ تھا کہ ذرا سی سرداری ملی اور سمجھ بیٹھے کہ ہم چومن دیگرے نیست۔
  6. سورۃ کا اختتام:      سورۃ کے آخر میں اللہ ربّ العالمین نے تمام مضامین کو سمیٹتے ہوئے آخرت کی منظر کشی کی ہے۔  منکرینِ حق کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ قیامت کو اُن کے پلّے کچھ نہیں ہوگا اور اہلِ ایمان کو خوشخبری کہ جنھوں نے اپنے عمل سے ایمان کو ثابت کیا ، انکی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
  7. حقیقت:   آخر میں ایک حقیقت بتادی گئی کہ  اے نبیؐ، کہو اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں ، بلکہ اگراتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کم پڑ جائے گی۔

سورۃ مریم:         

  • یہ ایک مکی سورۃ ہے اور اس کا زمانہ نزول ہجرت حبشہ سے پہلے کا ہے۔ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مہاجرین اسلام جب نجاشی کے دربار میں بلائے گئے تھے اس وقت حضرت جعفر ؓبن ابی طالب نے یہی سورة بھرے دربار میں تلاوت کی تھی۔ ہجرتِ حبشہ سے قبل مکہ کے حالات اتنے شدید تھے کہ بعض صحابہؓ کرام نے مظالم سے تنگ آکر حضورؐ سے شکایت کی۔ آپؐ نے ۵ نبوی میں اپنے اصحابؓ سے فرمایا کہ اچھا ہو کہ تم لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کرجاؤ، وہاں ایک ایسا بادشاہ حکمران ہے، جس کے ملک میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ صدق و بھلائی کی سرزمین ہے۔  اللہ جب تک اس مصیبت سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں کرتا، تم لوگ وہیں ٹہرے رہو۔ اسی ارشادِ نبویؐ کے بعد ۸۳ صحابہؓ اور ۱۱ صحابیاتؓ نے حبشہ ہجرت کی۔  قریش نے پیچھا کیا لیکن مسلم مہاجرین ہاتھ نہ لگے اور حبشہ پہنچ گئے۔  چنانچہ معروف مقررین کوتحفے تحائف کے ساتھ مسلمانوں کو واپس لانے کے لیے حبشہ بھیجا۔ جو ناکام لوٹے۔
  • آیت نمبر 2 تا 15میں زکریاؑ کی دُعا اور یحیی ؑ کی پیدائش کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کی تفصیل سورۃ آلِ عمران کے رُکوع نمبر 4 میں ہم بیان کرچکے ہیں۔
  • آیت نمبر 16 تا 36 حضرت مریمؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش قصہ شروع ہوتا ہے اسکو بھی سورۃ آلِ عمران میں تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے بعد جب مریم ؑ کی قوم نے اُن سے کہا کہ اے ہارون کی بہن ، نہ تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی۔‘‘  تو اللہ کے حکم سے مریم ؑ نے  اللہ کے حکم سے بچہ کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ اس سے پوچھ لو۔  جس پر انھوں نےکہا کہ یہ بچہ کیسے بولے گا تو گہوارے میں لیٹے عیسیٰؑ نے معجزانہ طور پر اللہ کے حکم سے بولنا شروع کردیا اور کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ، اور نبی بنایا، اور بابرکت کیا جہاں بھی میں رہوں ، اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں۔ اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا ، اور مجھ کو جبار اور شقی نہیں بنایا۔ سلام ہے مجھ پر جب کہ میں پیدا ہوا اور جب کہ میں مروں اور جب کہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں۔‘‘ (۳۰۔۳۳)
  • اس معجزہ کو دیکھ کر قوم کے بہت سے لوگ عیسیٰؑ کی بزرگی کے قائل ہوگئے لیکن اللہ کی واحدانیت کا اقرار کرنے کے بجائے  اُنھیں اللہ کا بیٹا قرار دے ڈالا۔  جس پر  اللہ نے آیت نمبر ۳۵ میں اس کی تردید کی کہ یہ اللہ کا کام نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے، وہ پاک ذات ہے  وہ جب فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو جا، اور بس وہ ہو جاتی ہے(۳۵)۔
  • چونکہ عیسیٰؑ کے پیروکار بھی ابراہیم ؑ کو پیشوا ماننے کے قائل ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آیت 42 تا 50 میں ان کا اور انکے باپ آزر کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا جس میں ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ کا شرک کرنے سے واضح طور پر انکار کیا تھا یہاں تک کہ انھیں اپنے گھر والے اور ملک بھی چھوڑنا پڑا تھا۔  پھر ربّ نے انھیں ایسی بزرگی دی کہ یہود، ہنود، نصرانی اور مسلم سب انھیں اپنا امام و پیشوا مانتے ہیں۔
  • آیت 51-58 موسیٰ ؑ، اسماعیلؑ، اور ادریس ؑاور نوحؑ کا  تذکرہ کیا گیا کہ یہ سب اللہ کے نبی اور فرمانبردار تھے ۔
  • سورۃ کے آخر میں حضورؐ کو تسلی دی گئی ہے کہ اہلِ خیر و ایمان کےلیے رحمن لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کردے گا۔ رہے منکرین و معاندین تو اُن کی فکر نہ کرو۔  اُن کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔
  • سورۃ طٰہٰ: یہ بھی ایک مکی سورۃ ہے اور اس کا زمانہ نزول ہجرت حبشہ کے فوری بعد کا ہے۔  اس سورۃ کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہے۔  اس سورۃ کو پڑھ کر ایک ایسا شخص ایمان لایا کہ جس کے ایمان لانے کے بعد پہلی بار علی الاعلان خانہ کعبہ میں نماز ادا کی گئی،  جس کے قدموں کی آہٹ سے شیطان بھاگ جاتا تھا،  اور جس کے بارے میں حضورؐ نے فرمایا ! کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا۔  واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ عمر،  نبیؐ کے قتل کے ارادہ سے نکلے تو کسی نے کہا کہ پہلے اپنے بہن و بہنوئی کی خبر تو لے لو دونوں ایمان لاچکے ہیں۔  چنانچہ آپ انکے گھر گئے باہر سے کچھ پڑھنے کی آواز آئی،  گھر میں داخل ہوئے تو انھوں نے چھپا دیا۔  پوچھنے پر نہیں بتایا تو عمر نے پہلے بہنوئی  کو مارا اور بہن بچانے آئیں تو انھیں بھی زد و کوب کیاجس سے انکا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔  یہ دیکھ کر پشیمان ہوئے اور پوچھا اچھا دکھاؤ کیا پڑھ رہے تھے ، بہن نے پہلے قسم لی کہ پھاڑیں گے نہیں ، پھر انھیں غسل کرایا  اور وعدہ کرنے پر انھیں چند اوراق دیے جن پر سورۃ طٰہٰ لکھی ہوئی تھی۔  پڑھتے گئے،  روتے گئے  اور کہا کیا خوب آیات ہیں۔  اور سیدھے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور ایمان لے آئے۔

سورۃ طٰہٰ:                        آیت 1تا 8  ربّ نے اپنے محبوب کو مخاطب کرکے فرمایا! کہ ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ اسکے بعد اپنی ربوبیت کو اپنی چند نعمتیں گنوا کر بیان کیا  کہ زمین کے اوپر اور اسکے نیچے اور آسمانوں کے نیچے اور انکے اوپر جو کچھ بھی ہے سب اُسی ربّ کا پیدا کردہ ہے ۔  لہٰذا اسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

قصہ موسیٰ   ؑ:      آیت 9-98 میں                   1)    موسیٰ  ؑ کی پیدائش سے پنگھوڑے  میں دریاء کی موجوں پر،

  1. پھر فرعون کے محل سے قبطی کے قتل تک
  2. پھر آپؑ کی شعیب ؑکے پاس پہنچنے سے انکی صاحبزادی سے نکاح تک
  3. پھر  مدین سے واپسی پر وادیٔ طویٰ  میں اور وہاں سے کوہِ طور پر اللہ سے کلام کرنے تک
  4. پھر کوہِ طور سے فرعون کو چیلنج  کرنے تک
  5. پھر فرعون کے غرقاب ہونے سے وادیٔ سینا تک اور وادیٔ  سے دوبارہ  کوہِ طور اللہ سے ہدایت کی الواح لینے تک
  6. کی تفصیل ملتی ہے۔ جسے ہم سورۃ بقرہ،  سورۃ الاعراف ، سورہ  ہود کی تلخیص میں  بیان کرچکے ہیں۔
  7. قیامت کا نقشہ (۱۰۵۔۱۱۱):  قصۂ موسیٰ  ؑ و فرعون کے آخر میں قیامت کا تذکرہ ملتا ہے۔  فرمایا!  یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟  کہو کہ میرا رب اُن کو دھول بنا کر اُڑا دے گا اور زمین کو چٹیل میدان بنادے گا کہ اس میں تم کوئی بل اور سلوٹ نہ دیکھو گے۔ اُس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے ، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا۔ اور آوازیں رحمان کے آگے دب جائیں گی ، ایک سرسراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے۔ اُس روز شفاعت کارگر نہ ہوگی ، اِلاّ یہ کہ کسی کو رحمان اس کی اجازت دے اور اس کی بات سننا پسند کرے ۔ وہ لوگوں کا اگلا پچھلا سب حال جانتا ہے اور دوسروں کو اس کا پورا علم نہیں ہے۔ لوگوں کے سر اُس حیّ و قیوم کے آگے جھک جائیں گے ۔ نامراد ہوگا جو اُس وقت کسی ظلم کا بارِ گناہ اٹھائے ہوئے ہو ۔
  8. آدم و ابلیس (۱۱۵۔۱۲۳):ان آیات میں وہ بھولا ہوا سبق قرآن یاد دلا رہا ہے  جو انسان کو اس کی پیدائش کے آغاز میں دیا گیا تھا اور جسے یاد دلاتے رہنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا، اور جسے یاد دلانے کے لیے قرآن سے پہلے بھی بار بار ” ذکر ” آتے رہے ہیں۔  وہ ہے آدم کی پیدائش، ابلیس کا بہکانا،  پھر آدم و حوا کی توبہ،  ابلیس کا اکڑ جانا۔  اور دونوں کا زمین پر بھیج دیا جانا۔
  9. جامع ہدایات (آخری آیات):   
  10. آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے جامع ہدایات دی ہیں۔  آنحضورﷺ کو صبر اور تسلیم و عبادت کی تلقین فرمائی ہے اور ساتھ ہی اپنے اہل و عیال کو بھی نماز کا حکم دینے کی ہدایت فرمائی ہے۔
  11. فرمایا گیا کہ جو لوگ معجزات دیکھ لینے کے باوجود بھی ایمان نہیں لاتے انھیں صاف الفاظ میں کہہ دیں کہ میں بھی فیصلے کا انتظار کر رہا ہوں،  تم بھی انتظار کرو۔  عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ کون سیدھے راستے پر ہے۔
  12. الحمد للہ تیرھویں تراویح کا خلاصہ اپنے اختتام  کو پہنچا۔  چودھویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔ تب تک کے لیے اجازت ۔         اللہ حافظ

 

آج چودھویں تراویح ہے ، یہ سترھویں پارے پر مشتمل ہے ۔ جس میں سورۃ الانبیاء اور سورۃ الحج  کی مکمل تلاوت کی جائے گی

  • سورۃ الانبیاء: سورۃ الانبیاء ایک مکی سورۃ ہے اور جیسے کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ مکی سورتوں میں اسلام کے بنیادی عقائد کی پختگی کی بات کی گئی ہے۔  جن میں عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت اور عقیدہ آخرت شامل ہیں۔  اس سورۃ میں بھی قیامت سے بات کو شروع کیا گیا پھر عقیدہ رسالت کی بات ہے اور آخر میں اللہ کی تخلیقات اور نشانیاں گنوا کر عقیدہ توحید کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔
  • قیامت:
  • بتایا گیا ہے کہ قیامت کا وقوع اور حساب کا وقت بہت قریب آگیا ہے، لیکن اس ہولناک دن سے انسان غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اسکے بعد انسان کی اس روش کا ذکر کیا گیا کہ دنیا کی چکا چوند میں گرفتار ہوکریہ بھول بیٹھا ہے  اور جب اسے یاد کرانے رسولؐ کو بھیجا گیا تو اس نے غیر سنجیدہ لیا اور انھیں ماننے سے انکار کیا ۔  کبھی کہتے ہیں یہ نبیؐ تمھارے ہی جیسا تو انسان ہے، کبھی کہتے ہیں یہ شاعر ہے،            جبکہ ان سے پہلے بھی انبیاء انسان ہی بھیجے گئے فرشتے نہیں۔
  • ان ہی جیسے لوگ تھے جو ان سے پہلے ان ہی کی طرح اللہ کا عذاب طلب کرتے تھے۔  جب اللہ نے عذاب بھیجا تو انھیں پیس کررکھ دیا اور آن وہ قصۂ پارینہ بن گئے۔
  • تخلیق کائنات: آیت 30 سے 33 تک تخلیق کائنات کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ بتایا گیا  کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے (Mass) کی سی تھی، بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اجرام فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے۔
  • پانی سے ہر جاندار کی پیدائش: اسی آیت میں بتایا گیا کہ کسی بھی جاندار شے کی پیدائش پانی کے عمل دخل کے بغیر نہیں ہوئی۔ ہر وہ چیز جس میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہوں اس کی زندگی کا سبب پانی ہی ہوتا ہے اور اس میں نباتات، حیوانات سب شامل ہیں۔ اور ایسی تمام اشیاء پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔
  • موت: آیت 35میں موت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے اسی آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ خیر اور شر انسان کی آزمائش کے لیے ہیں۔  یعنی مومن مصیبت میں صبر کے ساتھ خوش ہوتا ہے جبکہ اللہ کا باغی خوشی میں مستی کی وادیوں میں گم ہوجاتا ہے اور غمی میں مایوسی کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔
  • میزانِ عدل: کفار کو مختلف پیرایوں میں سمجھانے کے ساتھ ساتھ تنبیہ بھی کی گئی ہے ۔  آیت 44 میں فرمایا گیا کہ قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے ، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا ۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے ۔ اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔
  • تذکرۂ ابراہیمؑ:             آیت 51 تا 71  ابراہیمؑ کا  ذکر چلتا ہے جس میں بتایا گیا کہ ابراہیمؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو بتوں کی پوجا کرتے دیکھا تو اس سے منع کیا اور بتایا کہ تمھارے ارباب یہ نہیں بلکہ تمھارا ربّ تو وہ ہے جس نے زمین و آسمان پیدا کیے۔   اور انھیں خبردار کردیا کہ تمھاری غیر موجودگی میں ضرور تمھارے بتوں کی خبر لوں گا۔  چنانچہ جس دن وہ لوگ کسی تہوار کے منانے میں شہر سے باہر نکلے ہوئے تھے تو ابراہیمء انکے عبادت خانہ میں جاگھسے اور بتوں کو مختلف سمتوں سے توڑ پھوڑ دیا اور کلہاڑا سب سے بڑے بت کے کاندھے پر رکھ کر وہا ں سے چلے گئے۔  جب یہ لوگ واپس آئے اور اپنے معبودوں کی یہ حالات دیکھی تو سمجھ گئےکہ ضرور ابراہیمؑ نے کی ہوگی۔
  • چنانچہ ابراہیمؑ کو پکڑ کر لایا گیا اور پوچھا گیا کہ تم نے یہ حرکت کی ہے تو اُنھوں نے جواب دیا کہ اِن کے سرادار نے یہ کام کیا ہے جس کے کاندھے پر کلہاڑی بھی ہے۔ یہ سن کر وہ سب شرمندہ تو ہوئے لیکن ہٹ دھرمی زندہ باد۔  بولے تو جانتا ہے یہ بول نہیں سکتے۔  اس پر ابراہیمؑ نے کہا کہ پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ تُف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو ۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے ‘‘۔ اللہ کے نبیؑ کی جانب سے بھرے دربار میں پیغامِ ربّانی پہنچانے اور اتمامِ حجت کی تکمیل ہوچکی تھی۔   جواباً باطل پرستوں نے وہی حربہ استعمال کیا جو ہمیشہ سے اہلِ حق کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔  انھوں نے  پھر ابراہیم ؑ کو سزا دینے کے لیے ایک بہت بڑا الاؤ روشن کیا گیا  اور  انہوں نے کہا ! جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خدائوں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔‘‘ اور انھیں جلانے کی غرض سے اس میں پھینک دیا گیا۔    آگ کو جلانے کی قوت دینے والا اللہ ہے لہٰذا اُس نے فوراً حکم دیا ’’ اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم ؑ پر۔
  • اب ابراہیمؑ نے اپنے گھر کو خیر باد کہا، بیوی سارہؑ اور اپنے بھتیجے لوطؑ کے ساتھ اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ عراق چھوڑا اور فلسطین کو اپنا مسکن بنا لیا۔
  • حضرت ابراہیمؑ نے حضرت لوطؑ کو شرق اردن کے علاقے میں روانہ کیا، جہاں لوطؑ ایک بد فطرت قوم کے درمیان فریضۂ دعوت ادا کرتے رہے۔ بدکاروں اس بستی پر اتمامِ حجت ہو گیا۔ اور اُس قوم کو اللہ نے عذاب سے دوچار کیا۔
  • آیت 76-77میں نوحؑ اور انکی قوم کا تذکرہ ہے جس نے طویل جدوجہد کے بعد بات مان کر نہیں دی اور آخر کار زبردست قسم کے طوفان نے سب کو غرق کردیا سوائے اُس زمینی مخلوق کے جو انکی کشتی میں سوار تھی۔
  • داؤد و سلیمان ؑ: آیت 78-82میں  داؤدؑ اور سلیمان ؑ کا تذکرہ ہے۔  جس میں اُس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ کسی کھیتی والے کی کھیتی کسی دوسرے فرد کی بکریاں رات کے وقت چر گئیں مقدمہ داؤد ؑ کے پاس آیا تو انھوں نے فیصلہ دیا کہ کھیتی کی مالیت کی مقدار  بکریاں کھیتی والے کو دے دی جائیں۔  اتفاقاً بکریاں اتنی ہی تھیں جتنی کھیتی کی مالیت۔
  • اس طرح بکریوں والا فردکنگال ہوجاتا۔ پاس ہی سلیمانؑ بیٹھے تھے انھوں نے فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا کہ بکریاں کھیتی والے کو بطورِ رہن دے دی جائیں جن سے  وہ دودھ اور اُون کی صورت فائدہ اُٹھائے اور بکریوں کا مالک اس کی کھیتی کی حفاظت کرے تاوقت یہ کہ کھیتی پھر اپنی پرانی حالت میں واپس آجائے۔  اس طرح دونوں میں سے کسی کا بھی نقصان نہ ہوگا۔  اسی کو رب نے فرمایا کہ  “اُس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان ؑ کو سمجھا دیا حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔
  • حضرت داؤد (علیہ السلام) آواز اس قدر سریلی اور خوشگوار تھی کہ جب آپ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرتے تو پہاڑوں میں گونج پیدا ہوتی اور یوں معلوم ہوتا کہ پہاڑ بھی آپ کے ساتھ ساتھ حمدوثنا کررہے ہیں۔ یہی حال پرندوں کا تھا جہاں آپ حمدوثنا کرتے وہاں پرندے اکٹھے ہوجاتے اور آپ کے ہمنواء بن جاتے تھے۔  اسی کو اللہ نے فرمایا! اور داؤد کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا کہ وہ ان کے ہمراہ تسبیح کیا کریں اور یہ تسخیر ہم ہی کرنے والے تھے۔
  • داؤدؑ کو اللہ نے زرّہ بنانے کی مہارت بھی عطا فرمائی تھی۔ انکا معجزہ تھا کہ ہاتھ میں لوہے کو پگھلادیتے تھے۔
  • آیت 81-82 میں اللہ تعالیٰ نے سلیمانؑ کے اُس معجزے کا ذکر کیا ہے جس کے تحت ہوا اُنکی تابع تھی۔ اُسے حکم دیتے اور آناً فاناً ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جایا کرتے تھے۔  اسی طرح جنات آپ کے تابع کردیے گئے تھے اور اُن سے سلیمانؑ کام لیا کرتے تھے۔
  • حضرت ایوب ؑ: آیت 83-84 میں حضرت ایوبؑ کا تذکرہ ملتا ہے۔   آپؑ، یوسفؑ اور شعیبؑ کے درمیانی دور میں عیسیؑ کی پیدائش سے تقریباً ۱۰۰۰سال قبل مبعوث کئے گئے۔ آپ نہایت صابر تھے۔ آپ کا ابتدائی زمانہ نہایت خوشحالی کا دور تھا۔ مال ، اولاد، بیویاں، جائیداد غرضیکہ سب کچھ وافر مقدار میں عطا ہوا تھا اور آپ کثرت اموال و اراضی میں مشہور تھے۔ اس دور میں آپ ہمیشہ اللہ کا شکر بجا لاتے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوسری طرح آزمانا چاہا اور آپ پر ابتلا کا دور جو آیا کہ ہر چیز ہاتھ سے نکل گئی۔ اور اپنا یہ حال تھا کہ کسی طویل بیماری میں مبتلا ہوگئے۔
  • ایسے بیمار پڑے کہ ایک بیوی کے سوا سب نے ساتھ چھوڑ دیا۔ بلکہ لوگوں نے اپنی بستی سے باہر نکال دیا۔ اس ابتلاء کے طویل دور میں آپ نے صبر استقامت کا ایسا بےمثال مظاہرہ کیا جو ضرب المثل بن چکا ہے۔ صحیح روایات کے مطابق آپ کے ابتلاء کا دور ١٢ سال ہے۔ پھر جب اللہ سے اپنی بیماری کے لئے دعا کی تو اس دعا میں شکایت نام کو نہیں تھی۔ کہا تو صرف اتنا کہا کہ پروردگار ! میں طویل مدت سے بیمار ہوں اور تو ارحم الراحمین ہے۔
  • دیگر انبیاءؑ کا ذکر:    آیت 85-91 تک دیگر انبیاءؑ کا ذکر ملتا ہے جن میں اسماعیلؑ، ادریسؑ، ذوالکفلؑ، یونسؑ، زکریاؑ، یحیٰؑ اور عیسیٰؑ شامل ہیں۔  یونسؑ کے ذکر میں بتایا گیا کہ کس طرح وہ مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تھے اور پھر انھیں اللہ نے اُس کے پیٹ ہی میں دُعا سکھائی تھی جسے آیتِ کریمہ کہا جاتا ہے۔  آپؑ نے یہ دعا مانگی تو مچھلی نے ربّ کے حکم سے ساحل سمندر پر اُگل دیا۔
  • نبی کریم ﷺ: آخری رکوع میں قیامت کا تذکرہ اور نبیؐ کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا کہ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ
  • سورۃ الحج: سورۃ الحج ایک مکی و مدنی مشترکہ سورۃ ہے کیونکہ اس کا پہلا  حصہ مکہ کے آخری دور میں جبکہ دوسرا حصہ مدنی دور میں نازل ہوا۔   یہ بھی ممکن ہے کہ پوری سورۃ ہجرت کے بعد ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو۔
  • قیامت کی کیفیت: سورۃ کی ابتداء بنی نوع انسان کو مخاطب کرکے ربّ کے غضب اور قیامت کی ہولناکی سے ڈرایا گیا ہے۔  پھر قیامت کی مختصر سی تصویر کشی کی گئی ہے کہ اس میں دودھ پلانے والی ماں اپنے بچہ کو بدحواسی میں دودھ پلانا بھول جائے گی، اور خوف کا یہ عالم ہوگا کہ مارے خوف کے حاملہ خواتین کا حمل گر جائے گا اور لوگ مدھوش ہوجائیں گے جبکہ وہ نشہ کیے ہوئے نہ ہونگے۔
  • لیث بعد الموت: آیت 5 تا 7  میں زندگی بعد الموت  کے لیے  انسان کی تخلیق کے مراتب  اور زمین کی پیداوار کو بطورِ دلیل پیش کیا گیا ہے۔ آدم کے پتلے کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے بنایا۔ جب اس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی تو وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ پھر آگے توالد و تناسل سے آدم کی اولاد پھیلی۔ نطفہ  بنا اور اس نطفہ کے ایک قطرہ کے ہزاروں جاندار جرثوموں میں کوئی ایک آدھ جرثومہ عورت کے خلیۂ بیضہ سے ملااور انسان کی تخلیق کا عمل شروع ہوا۔
  • پھر رحم مادر کے اندھیروں میں نطفہ کے بعد جما ہوا خون، پھر  جما ہوا خون سےگوشت کے لوتھڑے میں تبدیل ہوا۔  پھر اس گوشت کے لوتھڑے میں آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ سب اعضاء کے نقوش بنے،  پھر اسی لوتھڑے میں ہڈیاں اور عضلات بنے  تاآنکہ مقررہ وقت کے بعد انسان کا بچہ پیدا ہوجاتا ہے۔  پھر وہ رب پروش کے عمل سے گزارتا ہوا جوانی عطا کرتا ہے، اور پھر بڑھاپے کی اس نہج پر پہنچادیتا ہے کہ وہ دوسروں کا مجبور ہوجاتا ہے، چل نہیں سکتا، کھا نہیں سکتا، یاد نہیں رکھ سکتا اور زمین پر بوجھ بن جاتا ہے۔ پھر وقت مقررہ پر کبھی بچپن میں، کبھی جوانی میں اور کبھی بڑھاپے میں موت کے ذریعے اس زندگی کو ختم کردیتا ہے۔
  • اسی طرح سوکھی پڑی زمین پر پانی برستا ہے اور یکایک اس پر سبزہ اُگنا شروع ہوجاتا ہے جو غذا اور لباس میں کام آتا ہے۔
  • مُراد یہ کہ جب وہ ربّ پہلی بار تخلیق کی قدرت پر قادر ہےتو دوبارہ کیونکہ اُٹھانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ لہٰذا قیامت حق ہے اور آکر رہے گی اور بنی نوع انسان کا دوبارہ اُٹھایا جانا بھی حق ہے۔  اُس دن ذرہ ذرہ کا حساب لیا جائے گا۔
  • اک سجدہ جو تجھے گِراں گزرتا ہے: آیت 18 میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے وہ سب جو آسمانوں  اور زمین میں  ہیں، سورج ، چاند اور تارے ۔  پہاڑ ،  درخت اور جانور،  بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں ؟ (مُراد منافق ہوسکتے ہیں)  اللہ کے آگے سربسجود ہیں ۔  یہ آیت سجدہ ہے۔
  • شعائر اللہ و مناسک حج: آیت نمبر 29 تا 37 تک خانہ کعبہ، شعائر اللہ، مناسکِ حج اور قربانی کا تذکرہ ملتا ہے۔
  • جہاد فی سبیل اللہ کی اجازت: آیت 39 میں اُن مظلومین کو جن کے خلاف ظلم کا بازار گرم تھا ، پہلی بار لڑنے کی اجازت دی جارہی ہے جبکہ بعد میں سورۃ بقرہ آیت 190-191میں لڑنے کا باقاعدہ حکم جاری کردیا گیا ۔
  • اللہ کے خالص بندے اور اقتدار: آیت 41 میں بتایا گیا کہ اللہ کے دین سے مخلص بندوں کو جب زمین میں اقتدار ملے تو وہ اس پر نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے،  نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکنے والے ہونگے۔
  • نبیؐ کو تسلّی: آیت 45-43 میں نبیؐ کو تسلی دی گئی کہ  صرف آپکو ہی مشرکین نہیں جھٹلارہے،  بلکہ آپؐ سے پہلے قومِ نوحؑ، عاد، ثمود، ابراہیمؑ، لوطؑ ،  اہلِ مدین اور بنی اسرائیل  بھی اپنے انبیاء کو جھٹلاکر عذاب کی زد میں آچکے ہیں۔
  • مہاجرین کا اجر: آیت 58 میں مہاجرین کی ستائش کی گئی ہے اور ان سے اچھے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔  اس مقام پر مہاجرین کا ذکر اور پھر ان سے بہتر اجر کا ہجرتِ حبشہ کرنے والوں  اور کچھ مسلمان مدینہ منورہ بھی جاچکے تھے کی ستائش کی جارہی ہے اور مکہ میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں کو ہجرتِ مدینہ کی ترغیب دی جارہی ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ نے کچھ دن بعد خود ہجرت کرجانا تھا۔
  • ضَعُفَ الطاَّلبُ والمطلوب: آیت 73 میں بہت خوبصورت مثال کے ذریعے پرودگار نے شرک کا بطلان کرتے ہوئے فرمایاہے کہ اللہ کو چھوڑ کر جن جن لوگوں کو تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے اُن کی مثال ایسے ہے کہ وہ سارے مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اور پیدا کرنا تو دور کی بات ہے، اگر مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اُسے واپس بھی نہیں لے سکتے۔   مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔
  • وَجَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ ۭ:   سورۃ کی آخری آیت میں کہا گیا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرو اللہ کی راہ میں جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔  کیونکہ ربّ نے اُمتِ مسلمہ کو اپنے کام کے لیے چن لیا ہے۔  یہ انتہائی جامع آیت ہے۔  اس آیت میں ملتِ ابراہیمی کا تصور بھی دیا گیا ہے، جو جہاد کے حوالے سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ دُنیا کے کسی خطے میں بھی اگر ملتِ اسلامیہ پر ظلم ڈھایا جائےتو پوری اُمت کو اس ظلم کے ازالے کے لیے اُٹھ کھڑے ہونا چاہے۔  قومیتوں کے بُت پاش پاش کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ نے تمھارا نام تو مسلم رکھا ہے  دنیا اور آخرت میں تمھاری اصل پہچان تو یہ ہے۔ پس نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو ، اور اللہ سے وابستہ ہو جائو۔ وہ ہے تمہارا مولیٰ ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار ہے۔
  • الحمد للہ آج چودھویں تراویح کا خلاصہ مکمل ہو۔ پندرھویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔ تب تک کے لیے اجازت ۔  اللہ حافظ

 

آج پندرھویں تراویح ہے ، اس میں اٹھارھواں پارہ مکمل  تلاوت کیا جائے گا ۔ جس میں سورۃ المومنون، سورۃ النور مکمل اور سورۃ الفرقان کی ابتدائی  ۲۰ آیات شامل ہیں۔

  • سورۃ المومنون: سورۃ المومنون مکہ کے درمیانی  دور کی سورۃ ہے۔  اس وقت تک قریشِ مکہ سے نبی ؐ کی کشمکش تو برپا تھی لیکن انکے مظالم عروج پر نہیں پہنچے تھے۔  اس سورۃ کی ابتدائی 10 آیات کے بارے میں نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقیناً جنت میں جائے گا۔
  • فلاح پانے والے لوگ: آیت 1میں فرمایا گیا کہ فلاح پاگئے ایمان والے۔ اور پھر آیت2 سے انکی صفات بتائی گئیں۔
  1. نماز میں خشوع: خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک جانا، دب جانا، اظہار عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے، اعضاء ڈھیلے پڑجائیں، نگاہ پست ہوجائے، آواز دب جائے، اور ہیبت زدگی کے سارے آثار اس پر طاری ہوجائیں۔ جو اس حالت میں عموماً ہوجایا کرتے ہیں ۔ 
  1. لغویات سے دور رہتے ہیں: ” لغو ” ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، لایعنی اور لا حاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو، وہ سب ” لغویات ” ہیں۔
  2. زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں: تیسری صفت یہ ہے کہ اہل ایمان زکوٰۃ کے طریقے پر کاربند ہوتے ہیں۔  یعنی محض زکوٰۃ دینے کی بات نہیں کی گئی، اس سے بڑھ کر ایک جامع تصور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مال کو پاکیزہ بنانے کےلیے زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں اور زندگی کے ہر پہلو کا تزکیہ کرنے کے لیے فکر مند اور کوشاں رہتے ہیں۔  اس میں اپنی زندگی کے تزکیے کے ساتھ ساتھ گرد و نواح کے ماحول کا تزکیہ بھی شامل ہے۔
  3. اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں: پہلا مطلب یہ کہ اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپا کر رکھتے ہیں، یعنی عریانی سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھولتے۔ دوسرا یہ کہ وہ اپنی عصمت و عفت کو محفوظ رکھتے ہیں، یعنی صنفی معاملات میں آزادی نہیں برتتے اور قوت شہوانی کے استعمال میں بےلگام نہیں ہوتے۔ 
  1. اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں: ” امانات ” کا لفظ جامع ہے ان تمام امانتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے، یا معاشرے نے، یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں۔ اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور اللہ کے درمیان، یا انسان اور انسان کے درمیان، یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں۔
  2. اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں:     ” نمازوں کی محافظت ” کا مطلب یہ ہے کہ وہ اوقات نماز، آداب نماز، ارکان و اجزائے نماز، غرض نماز سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ جسم اور کپڑے پاک رکھتے ہیں۔ وضو ٹھیک طرح سے کرتے ہیں۔ صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں، وقت ٹال کر نہیں پڑھتے۔ نماز کے تمام ارکان پوری طرح سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ایک بوجھ کی طرح جلدی سے اتار کر بھاگ نہیں جاتے۔ اور جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے بندہ اپنے خدا سے کچھ عرض کر رہا ہے۔
  3. یہی لوگ وارث ہیں (۱۰) جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔(۱۱) 

تخلیقِ انسان اور اللہ کی نعمتیں: آیت 12-22  میں تخلیقِ انسان کے مدارج  بیان کیے گئے ہیں۔  یعنی کہ پانی کی بوندسے لے کر خون کا لوتھڑا، بوٹی، ہڈیاں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھانے کا مرحلہ، یہ اُس خالق کی تخلیق ہے۔   اس تخلیق کے تذکرہ کے بعد موت اور زندگی بعد الموت کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔  اس کے بعد آسمان اور سیاروں کا تذکرہ۔  آسمان سے بارش کا نزول اور اسکے نتیجے میں انواع و اقسام کے پھل، میوے، غلے اور سبزیوں کا اُگنا خصوصاً ذکر ہے زیتون کا۔  پھر ایک بڑی نعمت یعنی جانوروں کا ذکر ہے جن کے پیٹ سے خون اور گوبر کے درمیان سے شفاف دودھ نکلتا ہے۔  پھر سواریوں کے ایک اور ذریعے کشتیوں کا ذکر بھی کیا گیا ۔

ذکرِ انبیاء:     آیت 23 سے 56 تک  نوح ؑ، دیگر نافرمان اقوام اور موسیٰ و ھارون ؑاور عیسیٰ  ؑ کا ذکر ملتا ہے۔  اور نبی ؐ کو بتادیا جائےکہ دلبرداشتہ نہ ہونا ، آپ اکیلے نہیں ہیں جنکی نافرمانی کی جارہی ہے بلکہ آپ سے پہلے کے انبیاء کو بھی جھٹلایا جاتا رہا ہے۔ 

ایمان والوں کی صفات:  آیت 57-61  میں ایمان والوں کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔  یعنی یہ  لوگ اپنے رب کے خوف سے ڈرنے والے ہوتے ہیں، رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں،  رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، اور وہ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو بھی دیں اور ان کے دلوں کو دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں، وہی بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے ہیں۔

انکار کرنے والوں کا انجام:    آیت 62-77  میں بتایا کہ اللہ لوگوں کو ظلم نہیں کرتا بلکہ ایک کتاب ہے جس میں سب کے اعمال لکھے جارہے ہیں۔  انہی کے مطابق قیامت کے دن فیصلہ کیا جائے گا اور جب کفار کو عذاب دیا جائے گا تو یہ چیخیں گے فریادیں کریں گے تو انھیں جھڑک دیا جائے گا۔ اور یاد دلایا جائے گا کہ جب میرے انبیاء آکر یاد دلاتے تھے تو تم ان پھر بھپتیاں کستے تھے انھیں مجنون، شاعر، جادوگر اور جانے کیا کیا بنا دیا کرتے تھے اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے تھے۔  اسی کی پاداش میں انھیں عذاب دیا جائے گا۔ 

سورۃ النور:     سورۃ النور ایک مدنی سورۃ ہے۔ یہ سورت غزوہ بنی الْمُصْطَلِق کے بعد نازل ہوئی ہے۔ خود قرآن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نزول واقعہ اِفْک کے سلسلے میں ہوا ہے ۔ جس کا ذکر دوسرے اور تیسرے رکوع میں ملتا ہے ۔

  • اس سورۃ میں کئی احکام و قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ یہی وہ سورۃ ہے جو تاریخِ اسلام کے اس عظیم الشان واقعی کی وضاحت کرتی ہے، جس میں پاک دامن اُم المومنین سیدہ عائشہؓ پر نہایت گھناؤنی سازش کے ذریعے ایک تہمت لگائی گئی پھر اس کاجواب خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے دیا۔
  • اس سورۃ میں جو احکام و ہدایات دی گئی ہیں اُنکی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

۱)  زنا کی سزا        ۲) بدکاروں سے نکاح کی ممانع     ۳)  قذف کی سزا           ۴)  لعان

۵)  سیدہ عائشہ ؓ کی عفت پر اللہ کی گواہی ۶)  فحاشی و بے حیائی ۷)  گھر میں داخلے کے آداب

۸)  غضِ بصر کا حکم  

  • زنا کی سزا (۲): زنا کا عام مفہوم جس سے ہر شخص واقف ہے، یہ ہے کہ ” ایک مرد اور ایک عورت بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتہ زن و شوہر ہو، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں “۔ اس فعل کا اخلاقاً بُرا ہونا، یا مذہبا ً        گناہ ہونا، یا معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابل اعتراض ہونا، ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں۔ اور اس میں بجز اُن متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی نفس پرستی کے تابع کردیا ہے،کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے۔
  • زانی مرد اور زانیہ عورت کے لیے سزا مقرر کی گئی ہے جو کہ ۱۰۰ کوڑے ہے۔ حدیث میں اس کی تشریح ملتی ہے کہ یہ ایسے زانی اور زانیہ کی سزا ہے جو شادی شدہ نہ ہوں جبکہ شادی شدہ کی سزا سنگسار ہے۔
  • بدکاروں سے نکاح کی ممانعت (۳ اور ۲۶): زانی مرد اور زانیہ عورت جبکہ وہ تائب نہ ہوں کے لیے پاکباز عورتوں اور پاکباز مردوں سے نکاح کی ممانعت اس آیت میں ملتی ہے۔ گویا کہ ان کا معاشرتی بائیکاٹ کردیا جائے۔ 
  • قذف کی سزا (۴۔۵): کسی پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگانے کو قذف کہا جاتا ہے۔ اسکے کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ نے 80 کوڑے کی سزا رکھی ہے اور ساتھ ہی عمر بھر گواہی کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا ہے، سوائے سچی توبہ کے۔
  • لعان (۶۔۱۰): جو مرد اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے اور اُس کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو اسے لعان کہا جاتا ہے۔   قاعدہ مقرر کیا گیا ہے کہ  الزام لگانے والے مرد کو چار بار اللہ کی قسم کھانا ہوگی کہ وہ اپنے بیان میں سچا ہے۔    ان چار قسموں کے بعد اسے پانچویں قسم کھانی ہوگی کہ اگر وہ اپنے بیان میں جھوٹا ہے تو اللہ کی لعنت ہو اس پر۔
  • عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہےکہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھائے کہ یہ شخص اپنے الزام میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر مرد سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب ٹوٹے۔
  • حضورؐ کے دور میں ایسے کیس آئے دونوں جانب سے قسمیں ہونے کے بعد آپؐ کسی بھی سزا نہیں دی لیکن دونوں کے درمیان علیحدگی کروادی، بچہ ماں سے منسوب کردیااور نان و نفقہ باپ پر نہیں لگایا اور نسب باپ سے نہیں جوڑا۔ اسکے ساتھ حکم دیا کہ اصل فیصلہ قیامت کے دن اللہ کرے گا۔ یہ بھی حکم دیا کہ بچہ کو حرامی نہ کہا جائے۔ 
  • سیدہ عائشہ ؓ کی عفت پر اللہ کی گواہی (۱۱۔۲۰): غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر حضرت عائشہ ؓ رفع حاجت کے لیے گئیں توواپسی پر انھیں محسوس ہوا کہ انکے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا ہے۔  وہ اس کی کی تلاش میں لگیں تو پیچھے سے قافلہ روانہ ہوگیا۔   چار آدمیوں نے اُٹھا کر اُن کا ہودہ اونٹ پر رکھ دیا، چونکہ اُن کا وزن ہلکا تھا لہٰذا وہ وزن محسوس نہ کرسکے۔  جب وہ ہار لے کر پلٹیں تو وہاں کوئی نہ تھا۔ آخر اپنی چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئیں اور دل میں سوچ لیا کہ آگے جا کر جب یہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو خود ہی ڈھونڈتے ہوئے آجائیں گے۔
  • اسی حالت میں اُن کو نیند آگئی۔ صبح کے وقت سفوان بن معطل سُلَمِی(بدری صحابیؓ) اس جگہ سے گزرے جہاں وہ سورہی تھیں اور اُنھیں  دیکھتے ہی پہچان گئے، کیونکہ پردے کا حکم آنے سے پہلے وہ اُنھیں بارہا دیکھ چکے تھے۔  بعض محدثین اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ؐنے ان کو اس خدمت پر مقرر کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں کوچ کرنے کی وجہ سے اگر کسی کی کوئی چیز چھوٹ گئی ہو تو صبح اسے تلاش کر کے لیتے آئیں ۔ 
  • عائشہؓ کو دیکھ کر انہوں نے اونٹ روک لیا اور بےساختہ ان کی زبان سے نکلا ” اِنَّا للہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ، رسولؓ اللہ کی بیوی یہیں رہ گئیں “۔ اس آواز سے انکی آنکھ کھل گئی اور اٹھ کر فوراً اپنے منہ پر چادر ڈال لی۔ انہوں نے اُن سے کوئی بات نہ کی، لا کر اپنا اونٹ انکے پاس بٹھا دیا اور الگ ہٹ کر کھڑے ہوگئے۔آپؓ اونٹ پر سوار ہوگئیں اور وہ نکیل پکڑ کر روانہ ہوگئے۔ دوپہر کے قریب لشکر کو جالیا جبکہ وہ ابھی ایک جگہ جا کر ٹھہرا ہی تھا اور لشکر والوں کو ابھی یہ پتہ نہ چلا تھا کہ عائشہؓ پیچھے چھوٹ گئی ہیں۔ اس پر بہتان اٹھانے والوں نے بہتان اٹھا دیے اور ان میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی تھا۔ مگروہ  اس سے بے خبر تھیں کہ اُن  پر کیا باتیں بن رہی ہیں۔
  • منافقین کے سوا خود مسلمانوں میں سے جو لوگ اس فتنے میں شامل ہوگئے تھے ان میں مسطح، حسَّان بن ثابت، اور حمنہ بنت جحش قابلِ ذکر ہیں۔
  • چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے عائشہؓ کی برأت کا اعلان فرمایا۔ آیت نمبر 11 تا 20 وہی آیات ہیں۔ 
  • فحاشی و بے حیائی (۱۹): فحاشی بے حیائی سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے مراد فحش پھیلانے کے تمام ذرائع  ہیں۔ اس کا اطلاق عملاً بد کاری کے اڈوں پر  ، بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں، اشعار، گانوں، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی ہوتا ہے۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آجاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اور اب نیٹ، موبائل، سوشل میڈیا جو بھی ان مقاصد کےلیے استعمال کیا جائے سب اسی کا حصہ ہے۔  قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔
  • غضِ بصر کا حکم (۳۰۔۳۱): مردوں اور عورتوں کو غضِ بصر کا حکم دیا گیا۔ عورتوں کےلیے پردہ ضروری قرار دیا گیا اور غیر محرموں سے میل ملاپ ممنوع ٹہرایا گیا۔  عورتوں کو اگر چہ باہر جانے کی اجازت ہے لیکن بناؤ سنگھار کرنے، اپنی نمائش کرنےاور مخلوط محفلوں کی زینت بننے سے منع کیا گیا ہے۔ 
  • گھر میں داخلے کے آداب (۲۷۔۲۹ پھر ۵۸ ۔۶۱): گھروں میں داخل ہونے کے لیے گھر والوں سے اجازت کو ضروری قرار دیا گیا اور اگر گھر والے دستک کا جواب نہ دیں یا بصراحت ملاقات سے معذرت کردیں تو آنے والے کو بغیر بُرا مانے واپس چلے جانا چاہیے۔
  • لونڈی غلام اور غیرسمجھدار بچے مالک یا والدین کی خواب گاہوں میں فجر سے پہلے، ظہر کے بعد اور عشاء کے بعد اجازت لیے بغیر نہ آئیں کیونکہ یہ پردے کے اوقات ہیں۔ بچے بالغ ہوجائیں تو کسی بھی وقت اجازت کے بغیر نہ آئیں۔

سورۃ الفرقان:

  • سورۃ الفرقان ایک مکی سورۃ ہے اور مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہے۔
  • اس میں ان شبہات و اعتراضات پر کلام کیا گیا ہے جو قرآن، اور محمدؐ کی نبوت، اور آپ کی پیش کردہ تعلیم پر کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے۔ آخر میں اہل ایمان کی اخلاقی خوبیوں کا ایک نقشہ کھینچ کر عوام الناس کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ اس کسوٹی پر کس کر دیکھ لو، کون کھوٹا ہے اور کون کھرا۔ 
  • پہلی آیت سے اللہ کی توحید بیان کی جارہی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ قرآن ایک کسوٹی ہے ۔  پھر داعیٔ حق کی شخصیت کے بارے میں مخالفین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ مختلف انداز میں حق و باطل کا موازنہ کرکے اہلِ باطل کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔  آج جو ابتدائی ۲۰ آیات تلاوت کی جائیں گی اُن میں کم و بیش وہ مضامین ہیں جو اس سے قبل سورۃ الاسراء میں گزر چکے ہیں۔  یوں یہ سابقہ مضامین کا اعادہ اور تذکیر ہے۔
  • الحمد للہ آج ۱۸ پارے مکمل ہوئے۔ ۱۹ ویں کے ساتھ  ان شاءاللہ کل پھر حاضر ہوں گے۔  ہمارے ساتھ رہیے گا۔

 

سولھویں تراویح

آج کی تراویح میں اُنیس وان سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ الفرقان کی باقی ماندہ آیات، سورۃ الشعراء مکمل اور سورۃ النمل کی ۵۹ آیات کی تلاوت کی جائے گی۔

آیت ۲۱۔۲۳:          کفار  نبی کریمﷺ سے مطالبہ کررہے تھے کہ آپ بھی انسان اور ہم بھی انسان لیکن ہم پر فرشتےکیوں نہیں اُترتے؟  یا اللہ تعالیٰ خود آکر ہمیں حکم دے دے۔  جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے کہ یہ خود تو مجرم لوگ ہیں اور جس روز فرشتے سامنے لائے جائیں گے (مُراد قیامت) وہ دن ان کےلیے اچھا نہیں ہوگا اور انکی چیخیں نکل رہی ہونگی۔

آیت ۲۵۔۲۹:          دنیا میں بُری صحبت انسان کو تباہ کردیتی ہے لیکن بہت کم لوگوں کی آنکھیں کھلتی ہیں۔  قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھ چبائے گا اور چیخے گا پکارے گا کہ کاش دنیا میں میں اللہ کے رسول کی بات مان لیتا اور فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا اور فلاں کو نہ بنایا ہوتا۔  اور اللہ کے نبیؐ گواہی دیں گے کہ “اے میرے ربّ! چمیری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا تھا”

آیت ۳۵۔۴۴:       آیت ۳۵ سے گزرے ہوئے انبیاء  اور گزری ہوئی قوموں کا عبرت کے لیے تذکرہ ملتا ہے۔  جن میں موسیٰؑ، ہارون ؑ، نوح ؑ،  قومِ عاد، ثمود اور قومِ الرس  اور بہت سی قومیں جو ان کے درمیان آئیں اور اللہ کی نافرمانیاں کیں تو اللہ نے انھیں سب کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔  اور جیسے آج ان مشرکینِ مکہ کو اللہ اُن اقوام کا حوالہ دے رہا ہے، اُن اقوام کو بھی پچھلیوں کا احوال بتاتا رہا ہے۔  پھر قومِ لوطؑ کا ذکر کیا جسے پلٹ دیا گیا تھا  اور پتھروں کی بارش برسائی گئی تھی۔    قریش اکثر کاروباری سفر کےلیے وہاں سے گزرا کرتے تھے جہاں یہ بستی ہوا کرتی تھی۔  پھر ایسے لوگوں کو جو سب حقائق سامنے آجانے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے انھیں جانوروں سے بھی  بدتر قرار دیا گیا۔

اللہ کی نشانیاں (۴۵۔۵۳):       آیت ۴۵ سے ۵۳ تک اللہ نے اپنی کچھ  نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے جیسے سائے کا پھیلنا اور سمٹنا،  رات آرام کےلیے اور دن کو روشن بنانا،  بارش کا برسانا اور زمین سے انسانوں اور جانورں کی خوراک کا بندوبست کرنا،  دو سمندروں کو ایک ساتھ چلانا جبکہ ان میں ایک کا پانی میٹھا اور دوسرے کا سخت کھارا جیسے کڑوا ہے۔  لیکن دونوں کے ذائقے ایک دوسرے کو تبدیل نہیں کرپاتے۔  انسان کی تخلیق اور اُس کے نسب و سسرال کے رشتہ داریاں، یہ سب اللہ رب العالمین کی قدرت کاملہ کے مظاہر ہے۔

جہادِ کبیر (۵۲):         اس آیت میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ “پس اے نبی ﷺ ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو” ۔  یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی تھی جبکہ جہاد کا حکم نہیں آیا تھا۔  لہٰذا قرآن کو لے کر زبردست جہاد کرنے مراد علمائے کرام “زبان و قلم، مال و  وسائل کا جہاد” لیتے ہیں۔  یعنی ایک بگڑے ہوئے معاشرے میں اسلحہ کے بجائے دعوت و تبلیغ سے جہاد کیاجائے گا۔

عباد الرحمن کی صفات (۶۳۔۷۷):           اللہ کے بندوں کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ یہ

  1. زمین پر نرم چال چلتے ہیں یعنی ان میں انکساری ہوتی ہے۔
  2. جاہلوں سے بحث و مباحثہ میں نہیں پڑتے بلکہ ایسے موقع پر سلام کر کے گزرجاتے ہیں۔
  3. اپنی راتیں ربّ کے حضور قیام و سجود میں گزارتے ہیں۔
  4. جہنم کے عذاب سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں۔
  5. مال کے خرچ میں اعتدال برتتے ہیں۔ نہ فضول خرچ ہوتے ہیں اور نہ بخیل۔
  6. شرک نہیں کرتے۔
  7. ناحق قتل و غارت گری سے اجتناب کرتے ہیں۔
  8. زنا کا ارتکاب نہیں کرتے۔
  9. جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔
  10. لغویات میں نہیں پڑتے
  • اللہ کی آیات پر غور و فکر کرتے ہیں۔
  • اپنے اہلِ خانہ کو بھی متقی بنانا چاہتے ہیں۔

سورۃ  الشعراء:

یہ سورۃ مکی ہے اور مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہے۔  

کفار نبی ؐکی مخالفت کررہے تھے اور طرح طرح کے بہانے بنارہے تھے جیسے۔ کبھی کہتے کہ تم نے ہمیں کوئی نشانی تو دکھائی ہی نہیں، پھر ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم نبی ہو۔ کبھی آپ کو شاعر اور کاہن قرار دے کر آپ کی تعلیم و تلقین کو باتوں میں اڑا دینے کی کوشش کرتے۔ اور کبھی کہتے کہ آپ کے  پیروکار یا تو چند نادان نوجوان ہیں، یا پھر ہمارے معاشرے کے ادنی طبقات کے لوگ، حالانکہ اگر اس تعلیم میں کوئی جان ہوتی تو اشراف قوم اور شیوخ اس کو قبول کرتے۔  نبیؐ ہر ممکن دلائل سے بات سمجھانے کی کوشش کرتے لیکن بے سود جس سے  آنحضورؐ غم میں اپنی جان گھلا رہے تھے۔

رحمت اللعالمینﷺ:              سورۃ کے آغاز میں نبیؐ کے اُن جذبات کا تذکرہ  کیا گیا ہے، جو انتہائے رحم اور انسانیت کی غمخواری و ہمدردی کی وجہ سے کود کوگھلائے چلے جارہے تھے۔ رب نے بہت پیار بھرے انداز میں فرمایا کہ “اے نبیﷺ شاید تم اس میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے”  پھر فرمایا کہ اگر ہم زبردستی انھیں مسلمان کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں لیکن انسان کو ہم نے اختیار کی آزادی دی ہے۔ فیصلہ وہ خود کرے تاکہ جزاء و سزا کے قانون کا اطلاق ہوسکے۔

تذاکرِ انبیاءؑ:             آیت 10 سے 189 مختلف انبیاء کی امتوں کے قصے بطور، مثال نبی کریم ؐ کے سامنے رکھے گئے جن میں موسیٰ ، ابراہیم، لوط، شعیبؑ، اصحاب الایکہ وغیرہ شامل ہیں۔   ان اقوام کے قصوں کی تفصیلات سورۃ البقرہ، الاعراف، ھود اور طٰہٰ میں آچکی ہیں۔

شیطان کن پر اُترتا ہے:              آیت 221 سے 223 میں اُن لوگوں کے بارے میں بتایا گیا کہ جن لوگوں پر  شیطان کا وار آسانی سے ہوتا ہے۔   ہ اوّل تو یہ لوگ جعل ساز اور بدکردار ہوتے ہیں اور دوسرے سنی سنائی باتیں آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں۔

شاعروں کے پیچھے چلنے والے لوگ:            چونکہ کفار نبیؐ کو شاعر یا انکی باتیں بیان کرنے والا کہا کرتے تھے تو آیت ۲۲۴ میں بتایا گیا کہ شعراء کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں۔   یعنی رسول اللہ ﷺ تو ایک طرف انتہائی سنجیدہ، مہذب، شرافت کا پیکر، راستباز اور خدا ترس ہیں۔ جنکی بات بات میں ذمہ داری کا احساس ہے۔ برتاؤ میں لوگوں کے حقوق کا پاس ولحاظ ہے۔ معاملات میں کمال درجہ کی دیانت و امانت ہے اور زبان جب کھلتی ہے خیر ہی کے لیے کھلتی ہے، شر کا کلمہ کبھی اس سے ادا نہیں ہوتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ ان لوگوں کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے، ایک بلند اور پاکیزہ نصب العین ہے۔  جبکہ

 شاعروں کے پیچھے چلنے والے لوگوں کی ایک متعین راہ نہیں ہوتی   بلکہ ان کا تو سَنِ فکر ایک بےلگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے اور جذبات یا خواہشات و اغراض کی ہر نئی رَو   اِن کی زبان سے ایک نیا مضمون ادا کراتی ہے جسے سوچنے اور بیان کرنے میں اس بات کا کوئی لحاظ سرے سے ہوتا ہی نہیں کہ یہ بات حق اور صدق بھی ہے۔ کبھی ایک لہر اٹھی تو حکمت و موعظت کی باتیں ہونے لگیں اور کبھی دوسری لہر آئی تو اسی زبان سے انتہائی گندے سفلی جذبات کا ترشح شروع ہوگیا۔ کبھی کسی سے خوش ہوئے تو اسے آسمان پر چڑھا دیا اور کبھی بگڑ بیٹھے تو اسی کو تحت الثریٰ میں جا گرایا۔ ایک بخیل کو حاتم اور ایک بزدل کو رستم و اسفندیار پر فضیلت دینے میں انہیں ذرا تامل نہیں ہوتا اگر اس سے کوئی غرض وابستہ ہو۔

آخری آیت میں ایسے شعراء کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جن کے اشعار ایمان کی روشنی سے منور اور اعمالِ صالحہ کی زینت سے مزین ہوتے ہیں۔  وہ ظالموں کے مقابلے پر اپنی زبان و قلم استعمال کرتے ہیں۔

سورۃ النمل:

سورۃ النمل بھی اپنے مضمون کے اعتبار سے ایک مکی سورۃ ہے جو وسطی دور میں نازل ہوئی۔  آج کی تراویح میں اسکی ۵۹ آیات پڑھی جائیں گی۔

سورۃ کی ابتدائی آیات میں بتایا گیا کہ قرآن ایک کتاب مبین اور رشد و ہدایت کا ذریعہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔  اور جو آخرت کو نہیں مانتے وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔  آیت نمبر ۷ سے ۱۴ تک موسیٰ ؑ سے متعلق واقعات  کا ذکر ہے، جب انکو نبوت عطا کی گئی اور معجزے دیے گئے۔ پھر وہ فرعون کے دربار میں پہنچے اور اسکو دعوت حق پیش کی۔ فرعون نے انکار کیا اور اپنی قوم کے ساتھ تباہی کے گھاٹ اُتر گیا۔

 حضرت سلیمان ؑ:       آیت ۱۵ سے ۴۴ تک حضرت سلیمان ؑ سے متعلق واقعات ملتے ہیں۔  حضرت سلیمان ؑحضرت داؤدؑ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے، ان کا اصل عبرانی نام سولومون تھا جو سلیم کا ہم معنی ہے965 قبل مسیح میں حضرت داؤد کے جانشین ہوئے اورتقریبا چالیس سال فرمانروا رہے۔   پرندوں اور حشرات الارض کی بولیوں کا علم، ہوا اور جنات پر کنٹرول انکے معروف معجزات تھے۔

چیونٹیوں کی وادی:     آیت  ۱۸ اور ۱۹  میں آتا ہے کہ سلیمان ؑ پرندوں اور لشکر کے ساتھ کہیں سفر پر تھے تو ان کا گزر وادیٔ نمل پر سے ہوا۔  لشکر کو آتا دیکھ کر ایک چیونٹی (غالباً انکی سردار ہوگی) نے کہا کہ سب فوراً اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ورنہ سلیمان کا لشکر تمھیں کچل دے گا جس کا انھیں علم بھی نہیں ہوگا۔  یہ سن کر سلیمان ؑ ہنس دیے اور اللہ سے دُعا کی کہ” اے میرے ربّ مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کرتا ہوں”

علمائے حیوانات کی جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جس طرح انسان اپنے اجتماعی اور سیاسی نظام کے لئے چند مخصوص ضوابط کی پابندی کرتا ہے۔ چیونٹی جیسے حقیر ترین جانور کی بستیوں میں بھی اسی سے ملتا جلتا نظام پایا جاتا ہے۔ آدمیوں کی طرح چیونٹیوں کے بھی خاندان اور قبائل ہوتے ہیں ان میں باہمی تعاون اور تقسیم کار کا اصول اور نظام حکومت کے ادارے پائے جاتے ہیں ان کی بھی زبان ہے جس کو سب چیونٹیاں سمجھتی ہیں۔

ہُد ہُد کہاں ہے؟ (۲۰۔۲۷):       حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو کسی موقع پر ہدہد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہدہد کی متعلق مشہور ہے کہ جس مقام پر پانی سطح زمین سے نزدیک تر ہو اسے معلوم ہوجاتا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ انھیں یہی ضرورت تھی یا کچھ اور تھی، انہوں نے پرندوں کے لشکر میں ہدہد کو تلاش کیا لیکن وہ وہاں نہ ملا۔ آپ کو اس بات کا سخت رنج ہوا اور فرمایا کہ یا تو وہ اپنی غیر حاضری کا کوئی معقول وجہ پیش کرے۔ ورنہ میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح ہی کر ڈالوں گا۔  

  ہدہد حضرت سلیمان کے لشکر سے غائب ہو کر یمن کے علاقہ سبا میں پہنچا تھا۔ یہاں کے لوگ تجارت پیشہ اور آسودہ حال تھے۔ کچھ دیر بعد ہدہد حضرت سلیمان کے پاس حاضر ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں اہل سبا کے کچھ ایسے یقینی حالات معلوم کرکے آرہا ہوں جن کی تاحال آپ کو کچھ خبر نہیں ہے۔ اور وہ یقینی خبر یہ کہ سبا کا ملک ایک زرخیز و شاداب علاقہ ہے ان لوگوں کو وہاں سب ضروریات زندگی وافر مقدار میں میسر ہیں۔ ان لوگوں پر حکمران ایک عورت ہے۔ (ملکہ بلقیس ) جو بڑے عالی شان تخت پر بیٹھ کر حکمرانی کر رہی ہے۔ اس کا تخت سونے کا ہے۔ جس میں ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے ہیں اور اس وقت ایسا تخت کسی بادشاہ کے پاس نہیں ہے۔ مذہبی لحاظ سے یہ لوگ مشرک اور آفتاب پرست ہیں۔ اور اپنے اس مذہب پر خوش اور نازاں ہیں۔ سورج پرستی کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔

ملکۂ سبا اور کابینہ کا اجلاس (۲۹۔۳۷):        سلیمانؑ نے اسی وقت ہدہد کے ہاتھ ایک خط ملکہ سبا کو بھیجا جس میں اپنا تعارف کرایا تھا اور اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔  ملکہ نے خط پڑھ کر اپنی کابینہ کا اجلاس طلب کیا۔  اُس کے وزرا اور فوجی افسران طاقت کے گھمنڈ میں تھے۔  انھوں نے کہا ہم بہت طاقتور ہیں آپ جو کہیں گی ہم حکم مانیں گے۔  چنانچہ اُس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ جب کسی علاقے میں داخل ہوجاتے ہیں تو بڑی خون ریزی اور فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے۔  بستیاں اُجڑ جاتی ہیں اور عزت والے رُسوا و ذلیل ہوجاتے ہیں۔  میں نے فیصلہ کیا ہے بادشاہ کی خدمت میں تحفے تحائف بھیج دوں تاکہ وہ حملہ نہ کرے۔  جب سلیمانؑ کے پاس ملکہ سبا کا وفد تحفے تحائف لے کر پہنچا تو انھوں نے کہا مجھے ان تحفے تحائف کی ضرورت نہیں، اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔  جاؤ یہ تحفے لے جاؤ  اور کہہ دو اپنی ملکہ سے کہ اگر میری دعوت قبول نہیں تو مقابلے کے لیے تیار ہوجاؤ۔

ملکہ سبا کا تخت سلیمانؑ کے دربار میں (۳۸۔۴۰):         سلیمان ؑ نے درباریوں سے پوچھا کون ملکہ کا تخت یہاں لے کر آئے گا۔   وہاں موجود ایک طاقتور جن نے کہا کہ آپؑ کا دربار ختم ہونے سے پہلے  میں وہ تخت یہاں لاسکتا ہوں۔  وہاں موجود ایک شخص نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا نے کہا کہ میں پلک جھپکنے سے پہلے ہی وہ تخت پیش کرسکتا ہوں۔  چنانچہ ایسا ہی ہوا۔  یہ شخص کون تھا کوئی نہیں جانتا۔

ملکہ سلیمانؑ کے دربار میں (۴۱۔۴۴):       ادھر سلیمانؑ کا خط پا کر ملکہ اپنے منتخب درباریوں کے ساتھ حضرت سلیمان ؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کےلیے چل پڑی تھی۔  اُن کا محل اتنا شاندار تھا کہ اُ س میں شیشے کا چمکتا ہوا فرش تھا جس پر پانی کے حوض کا گمان ہوتا تھا۔  ملکہ آئی تواس نے اپنے پائنچے سمیٹے کہ پانی میں نہ ہوجائیں۔  مگر اسے بتایا گیا کہ یہ شیشے کا شفاف فرش ہے۔  اس موقع پر ملکہ نے شرک سے برأت کا اعلان کردیا اور مسلمان ہوگئی۔

حضرت صالح   ؑ و لوطؑ (۴۵۔۵۹):                آیت ۴۵ سے ۵۹ تک حضرت صالح و لوط ؑ کا تذکرہ ملتا ہے۔  جیسا کہ گزشتہ دروس میں ذکر کرچکے ہیں کہ صالح اور لوطؑ کو انکی قوموں نے جھٹلایا۔  حضرت صالحؑ کو قتل کرنےکی سازش بھی کی گئی اور ہر قبیلے کے سردار کو قتل کرنے والی ٹیم میں شامل کیا گیا۔  ۹ افراد اس کے لیے تیار ہوئے اور قسمیں کھائیں۔  ادھر رسولِ اکرمﷺ کے دشمن بھی یہی سازشیں کررہے تھے اور دوسری طرف اللہ اپنی چال چل رہا تھا۔     لوطؑ کاپورا واقعہ گزشتہ دروس میں تفصیل سے آچکا ہے۔

الحمد للہ آج کی تراویح کا خلاصہ مکمل ہوا۔  ان شاء اللہ سترھویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  اللہ حافظ

سترھویں تراویح

آج کی تراویح میں بیس وان سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ النمل  کے آخری ۳ رکوع ، سورۃ القصص مکمل اور سورۃ  العنکبوت کے ۴ رکوع جو کہ ۴۴ آیات پر مشتمل ہیں کی تلاوت کی جائے گی۔

النمل:     اللہ کے سوا کون ؟      (۶۰۔۶۵):        اللہ اور اسکے رسولؐ کا مسلسل انکار کرنے والوں کے لیے اللہ نے چند سوال اُٹھائے ہیں اور ساتھ ہی سوال کیا ہے کہ کوئی دُوسرا خدا بھی (ان کاموں میں شریک ہے)؟  

  • بھلا وہ کون ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا
  • آسمان سے پانی کون برساتا ہے پھر اُس سے زمین میں باغ اور درخت اُگاتا ہے؟
  • کس نے زمین کو جائے قرار دیا؟
  • کس نے زمین پر دریاء بہائے؟
  • کس نے زمین پر پہاڑوں کو میخیں بنا کر کھڑا کیا؟
  • کون ہے جس نے دو پانیوں (میٹھے اور کڑوے) کو ساتھ چلایا لیکن ایک دوسرے کو ملنے نہیں دیا؟
  • کون ہے جو بے قرار کی دُعا سنتا ہے اور اسکی تکلیف دُور کرتا ہے؟
  • کون ہے جس نے تمھیں (انسان کو) زمین میں خلیفہ بنایا؟
  • کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے؟
  • کون اپنی رحمت کے ساتھ ہواؤں کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟
  • کس نے تخلیق کی ابتداء کی اور کون دوبارہ اعادہ کرے گا؟
  • کون ہے جو آسمان اور زمین سے تمھیں رزق دیتا ہے؟

اپنی یہ نعمتیں گنوانے کے بعداللہ نے سب منکرینِ حق کو چیلنج کیا کہ “کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (ان کاموں میں حصہ دار) ہے؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو”۔  پھر کہا گیا کہ جنھیں تم اپنا معبود کہتے ہو وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کب اُٹھائے جائیں گے کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔

اندھے اور بہرے لوگ:            دوسرے رکوع میں آخرت کا انکار کرنے والوں کو بتایا گیا کہ تم جس بات کے منکر ہو، کیا عجیب کہ وہ تمھارے قریب آپہنچی ہو۔  اے ناشکرے لوگو!  اپنے رب کے فضل اور رحمت کا حق ادا کرو۔  اسی میں تمھاری بھلائی ہے۔  مُردے جس طرح نہیں سُن سکتے، اُسی طرح حق کا انکار کرنے والے بہرے بن کر حق سے نا آشنا رہتے ہیں۔  دل اندھے ہوجائیں تو اللہ کے رسول بھی لوگوں کو راہِ راست پر نہیں لاسکتے۔  ہاں جن کے دلوں میں اللہ کی محبت اور خوف ہو، اُنھیں ایمان کی توفیق بھی ملتی ہے اور فرماں برداری کے سلیقے بھی آجاتے ہیں۔

علاماتِ قیامت:                        قربِ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت آیت نمبر ۸۲ میں بیان کی گئی ہے کہ انسانوں کے سامنے زمین سے ایک جانور نکلے گا اور ان سے بات کرے گا۔  وہ بتائے گا کہ لوگ اللہ کی آیات کے منکر تھے۔  رسول ؐ اللہ نے فرمایا کہ یہ وہ وقت ہوگا جب آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور اُسی وقت دن دہاڑے یہ جانور بھی زمین سے نمودار ہوجائے گا۔  پھر سب اگلے اور پچھلے فوج در فوج میدانِ حشر میں جمع کیے جائیں گے۔  منکرینِ حق کو گھیر لیا جائے گا اور اُنکی زبانوں پر تالے پڑجائیں گے اور جسمِ کے اعضاء کو قوتِ گویائی دے کرانکے خلاف گواہی دلوائی جائےگی۔

مراحلِ قیامت:         ان ہی آیات میں مراحلِ قیامت بیان کیے گئے ہیں۔  پہلا صور پھونکا جائے گا اور سب آسمان و زمین کی مخلوق خوف کھائے گی۔  پھر پہاڑ، بادلوں کی طرح اُرجائیں گے۔  قیامت برپا ہوجائے گی اور اس کےبعد دوسرا صور پھونکا جائے گا۔  جس کے بعد سب لوگ اُٹھ کھڑے ہونگے۔  اورمیدانِ حشر میں جمع ہوجائیں گے۔  جو نیکو کار ہونگے وہ ڈر اور خوف سے محفوظ ہونگے۔  اور منکرینِ حق اوندھے منہ جہنم کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔

سورۃ القصص:           یہ سورۃ،  الشعراء، النمل کے بعد نازل ہونے والی ایک سورۃ ہے جو کہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی تھیں۔  اس لحاظ سے بھی ان تینوں میں قریبی تعلق ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کے مختلف اجزاء جو اِن میں بیان کیے گئے ہیں وہ باہم مل کر ایک پورا قصہ بن جاتے ہیں۔

  • موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کے قصے کے مختلف اجزاء سورۃ البقرہ، الاعراف ،  یونس،  ہود ، الاسراء ۔ مریم،  طٰہٰ ، المومنون،  الشعراء، النمل، العنکبوت،  المومن، الزخرف ، الدخان،  الذاریات،  النازعات میں موقع محل کی مناسبت سے دیے جانے کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ
    • ۱س قوم پراللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ انعام و اکرامات کیے۔
    • منکرینِ حق کو بتا دیا جائے کہ حق کے انکاری تم پہلے نہیں ہو بلکہ تم سے پہلے بھی اس طرح ہوچکا ہے۔ لیکن آخر کار حق ہی غالب آکر رہا۔
    • نبی کریمؐ کو بتانا مقصود تھا کہ صرف آپؐ کی راہ میں ہی روڑے نہیں اٹکائے جارہے بلکہ موسیٰ  ؑ کے ساتھ بھی بڑے منظم انداز میں یہ سب ہوچکا ہے۔  لیکن بالآخر کامیابی داعیانِ حق ہی کے حصے میں آئی لہذا دلبرداشتہ ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
  • موسیٰ ؑ کے واقعات جو اس سورۃ میں بیان ہوئے  کی تلخیص کچھ اس طرح ہے کہ
    • فرعون نے معاشرے میں طبقاتی تقسیم کررکھی تھی۔ اُمراء کے طبقے کو نوازتا تھا جبکہ عوام الناس پر ظلم کرتا تھا۔
    • بنی اسرائیل کی ہر پیدا ہونے والی لڑکی کو زندہ چھوڑ دیتا تھا جبکہ لڑکے کو قتل کرادیتا تھا۔ کیونکہ نجومیوں نےبنی اسرائیل کے کسی نوزائیدہ  لڑکے کو اس کے اقتدار کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا تھا۔  جبکہ اللہ نے اسکے اقتدار کے خاتمہ کا فیصلہ کرلیا تھا۔
    • موسیٰ ؑ کی ماں اپنے حمل کو چھپائے چھپائے پھریں،  وضع حمل پر انھیں خوف ہوا  کہ فرعون کو پتہ چل گیا تو قتل کردے گا،  چنانچہ بچہ کو ایک پنگھوڑے میں ڈال کر دریاء کے حوالے کردیا۔  پنگھوڑا ملکہ کو مل گیا اور اس نے اس بچے کو اپنا بیٹا بنا کر پالنے کا فیصلہ کرلیا۔
    • بچہ کسی کا دودھ نہیں پی رہا تھا، بچہ کی بہن کی رسائی دربار تک ہوئی اور اس نے مشورہ دیا کہ میں ایک عورت کا پتہ بتاتی ہوں شائد یہ اُس کا دودھ پی لے۔  چنانچہ موسیٰ  ؑ کی والدہ کو بچے تک رسائی مل گئی اور وہ انہی کی گود میں پلنے لگے۔
    • جوان ہوئے تو ایک دن شاہی محلات سے شہر میں ایسے وقت گئے جب سناٹے کی کیفیت تھی۔ دیکھا کہ دو افراد ایک بنی اسرائیل کا شخص اور دوسرا مصری قبطی آپس میں گتھم گتھا ہیں۔  بنی اسرائیلی نے انھیں مدد کے لیے پکارا۔   آپؑ نے زیادتی کرنے والے کو پہلے منع کیا ہوگا نہ مانا تو ایک گھونسا اُس کے رسید کردیا۔  جس سے حیرت انگیز طور پر وہ فوراً مر گیا۔  اسکی انھوں نے اللہ سے معافی مانگی کیونکہ قتل کرنے کا ان کا ارادہ نہیں تھا۔
    • دوسرے دن صبح سویرے پھر شہر میں ڈرتے ہوئے گئے تو دیکھا کہ وہی جھگڑنے والا بنی اسرائیلی پھر کسی اور سے لڑ رہا ہے اور موسیٰ ؑ کو مدد کےلیے پکار رہا ہے۔ جس پر آپ ؑ اُس پر ناراض ہوئے اور اُس پر حملہ کرنا چاہا تو اُس نے کل کے واقعہ کو باآوازِ بلند دھرا دیا ۔  جس سے سب کو پتہ چل گیا، کہ کل کا قتل کس نے کیا ہے۔
    • اُدھر شاہی دربار میں موسیٰ ؑکو سزا کے طور پر قتل کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی تھی۔ جسے ایک شخص نے انھیں بتادیا۔
    • چنانچہ آپؑ اکیلے ہی وہاں سے فرار ہوگئے۔ اور مدین کا رُخ کیا۔  راستے میں ایک کنواں نظر آیا جہاں سے لوگ اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلارہے تھے۔  پاس ہی دو لڑکیاں کھڑی انتظار کررہی تھیں۔   آپ نے انھیں اپنی خدمات پیش کیں اور انکی بکریوں کو کنوئیں سے پانی نکال کر پلادیا۔
    • لڑکیوں نے گھر جاکر اپنے باپ سے ذکر کیا تو انھوں نے موسیٰ ؑ کو بلا بھیجا اور انکی شرافت سے متاثر ہوکر ایک لڑکی انکے نکاح میں دینے کا عقدہ اس شرط کے ساتھ  سنایا کہ موسیٰ  ؑ ۸ سال انکے ساتھ رہ کر خدمت کریں گے۔
    • موسیٰ ؑ نے ۱۰ سال انکی خدمت کی اور اسکے بعد اپنی بیوی بچوں کو لے کر واپس مصر کی جانب روانہ ہوئے۔  سردی کا زمانہ تھا، راستے میں ایک جگہ پہاڑ پر آگ نظر آئی تو بیوی بچوں کو ایک جگہ بیٹھا کر آگ لینے پہاڑ پر پہنچے جس کا نام کوہِ طور تھا۔
    • وہاں پہنچے تو وادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں ایک درخت سے پکارا گیا کہ ’’ اے موسیٰ ؑ! میں ہی اللہ ہوں ، سارے جہان والوں کا مالک۔‘‘  آپ کو نبوت عطا کی گئی اور اللہ  سبحانہٗ وتعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا  اور کلیم اللہ بن گئے۔  اس موقع پر دو معجزات بھی آپ کو عطا کیے گئے۔  ایک لاٹھی کا سانپ بن جانا اور دوسرے ہاتھ کو بغل میں ڈال کر نکالنے سے سفید چمکدار بن جانا۔
    • حکم ہوا فرعون کے دربار میں جاکر یہ دو نشانیاں پیش کراور پیغامِ حق پیش کر۔ جس پر موسیٰ ؑ نے کہا کہ میں تو قاتل ہوں ، ڈرتا ہوں کہیں مجھے مار ہی نہ ڈالیں۔  لہٰذا میرے بھائی ہارونؑ بات کرنےمیں تیز ہیں انھیں میرا مدد گار بنادے۔  چنانچہ انکی درخواست کو قبول کیا گیا۔
    • فرعون کے دربار میں اپنے بھائی کے ساتھ پہنچے اور معجزات پیش کیے تو کہا گیا کہ یہ تو صریح جادو ہے۔
    • فرعون نے پورے ملک سے جادوگر بلائےاور مقابلے پر لے آیا لیکن جادوگر موسیٰ ؑ کے معجزہ کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ حق ہے اور ایمان لے آئے ۔  جنھیں فرعون نے قتل کرادیا۔
    • اللہ کے حکم سے موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے چلے تو فرعون نے ان کو سمندر کے کنارے جالیا۔  چنانچہ اللہ کے حکم سے سمندر میں بنی اسرائیل کے لیے خشک راستہ بن گیا اور وہ وہاں سے گزر گئے جبکہ انکے پیچھے فرعون اور اس کا لشکر آیا تو اللہ نے انھیں غرق کردیا۔
    • موسیٰ ؑ کو اللہ نے احکام کی لکھی ہوئی تختیاں عطا کیں جب وہ قوم کو چھوڑ کر اعتکاف کرنے چلے گئے تھے اور اللہ سے ہم کلام ہوئے۔
    • بنی اسرائیل کو  سمندر پار کرکے  فلسطین میں جانا تھا لیکن وہاں ایک عمالقہ نامی جنگجو قوم بستی تھی۔  اُس سے ڈر کر انھوں نے جانے سے انکار کردیا اور جہاد سے منہ موڑ لیا چنانچہ اللہ نے انھیں وادی میں بھٹکنے کےلیے چھوڑ دیا جہاں وہ چالیس سال رہے اور مر کھپ گئے۔  پھر انکی نسل فلسطین میں داخل ہوئی۔

ہدایت صرف اللہ کے اختیار میں ہے (۵۶):                 حضور ؐ جس طرح ٹوٹ کر اپنی قوم کے ایک ایک فرد کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر میں خود کو گھلا رہے تھے اور ان کے ایمان نہ لانے پر اداس رہتے تھے۔  اس پر اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ ہدایت دینا محمد ؐآپ کا کام نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کا کام ہے۔  روایات میں آتا ہے کہ نبی کریمؐ کے چچا ابو طالب نے ہر موقع پر آپؐ کی سرپرستی اور حمایت کی۔   ہر مشکل اور ابتلاء میں آپ کا ساتھ دیا، اس کے باوجود اسلام میں داخل نہ ہوئے۔  آپؐ نے اُنکے آخری وقت میں اُن سے کہا تھا کہ میرے کان ہی میں کلمہ پڑھ دیں لیکن وہ محروم رہے۔

روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ جہنم میں سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ملے گا۔  انھیں دوزخ کی آگ میں جلایا نہیں جائے گا، صرف جہنم کی آگ کے تسمے اُن کے بوٹوں میں ڈالے جائیں گے اوراِس سے بھی اُن کا دماغ کھولنے لگے گا۔

معیشت کے اُجڑنے کا ڈر (۵۷۔۶۰):          مشرکینِ مکہ اسلام لانے سے اس لیے بھی ڈرتے تھے کہ اگر اسلام قبول کرلیا  تو دیگر مضبوط قوتیں انھیں مغلوب کرلیں گی اور انھیں اپنی سرزمین سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔  جس پر اللہ نے جواب دیا کہ انھیں اس زمین پر امن، رزق کی فراوانی ہم ہی نے عطا فرمائی ہے ۔  ورنہ ان سے پہلے کتنی ہی بستیاں ہم نے ایسی اُجاڑ دیں جو مضبوط معیشت کے HUB  کہلاتے تھے۔  انھیں بھی ہجت تمام کیے بغیرتباہ نہیں کیا۔  یعنی انھیں سمجھانے کےلیے پہلے انبیاء بھیجے جب وہ قریش کی طرح اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو ہم نے انھیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔  آج بھی دنیا میں قائم مسلم حکومتیں حق کہنے اور حق نافذ کرنے میں یہی بہانہ تراشتی ہیں کہ ہم  نے حق کے نفاذ کی کوششیں کیں تو  ہماری معیشت تباہ ہوجائے گی۔

قارون کا انجام (۷۶۔۸۲):       قارون بنی اسرائیل کا ایک مالدار شخص تھا جس کی مثال اللہ قریش کو دے رہا ہے جنھیں اپنی معیشت اجڑنے کا ڈر تھا کہ  قارون بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد تھا ۔ (روایات میں آتا ہے کہ یہ موسیٰ ؑ کا چچا زاد بھائی تھا)  جس کو  اتنا مال و متاع عطا کیا گیا تھا کہ اسکے خزانوں کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت لے کر چلتی تھی۔  لوگ اسکے مال پر رشک کرتے تھے لیکن ربّ کی نافرمانی کی سزا کے طور پر ایک دن پورے مال سمیت اسے زمین میں دھنسا دیا گیا تو اسکے مال پر رشک کرنے والوں نے اپنی سوچوں پر افسوس کیا اور تائب ہوگئے۔

آخری آیات میں اللہ کی جانب سے واضح کیا گیا کہ “آپ تو اس بات کے امیدوار نہ تھے کہ آپؐ پر کتاب نازل کی جائے۔   یہ تو آپؐ کے رب کی مہربانی ہے کہ اس نے تمھیں نوازا۔  بظاہر خطاب نبیؐ سے ہے لیکن سنایا مخالفین کو جارہا ہے جو کسی بھی طرح ایمان لانے کے لیے تیار نہ تھے۔

سورۃ العنکبوت:         سورۃ العنکبوت ہجرتِ حبشہ سے کچھ عرصہ پہلے نازل ہونے والی سورۃ ہے۔

ایمان اور آزمائش (۱۔۷):         یہ وہ وقت تھا  کہ مکہ معظمہ میں جو شخص بھی اسلام قبول کرتا تھا اس پر مصیبتوں  کا ایک طوفان ٹوٹ پڑا تھا، کوئی غلام یا غریب ہوتا تو اس کو بری طرح مارا پیٹا جاتا اور سخت ناقابل برداشت اذیتیں دی جاتیں، کوئی دکاندار یا کاریگر ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کردیے جاتے یہاں تک کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی، کوئی کسی بااثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور اس کی زندگی اجیرن کردیتے تھے۔ ان حالات نے مکہ میں ایک سخت خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کردیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تو نبی ؐ کی صداقت کے قائل ہوجانے کے باوجود ایمان لاتے ہوئے ڈرتے تھے، اور کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد جب دردناک اذیتوں سے دورچار ہوتے تو پست ہمت ہو کر کفار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں کوئی تنزل پیدا نہ کیا تھا، لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔

اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لیے ہیں، کوئی شخص محض ایمان کے  زبانی دعوےکر کے ان کا مستحق نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر مدعی کو لازماً آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے دعوے کی صلاحیت کا ثبوت دے۔ ہماری جنت اتنی سستی نہیں ہے اور نہ دنیا ہی میں ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں ہیں کہ تم بس زبان سے ہم پر ایمان لانے کا اعلان کرو اور ہم وہ سب کچھ تمہیں بخش دیں۔ ان کے لیے تو امتحان شرط ہے، ہماری خاطر مشقتیں اٹھانی ہوں گی، جان و مال کا زیاں برداشت کرنا ہوگا، طرح طرح کی سختیاں جھیلنی ہوں گی، خطرات، مصیبتیں اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا، خوف سے بھی آزمائے جاؤ گے اور لالچ سے بھی، ہر چیز جسے عزیز و محبوب رکھتے ہو، ہماری رضا پر اسے قربان کرنا پڑے گا اور ہر تکلیف جو تمہیں ناگوار ہے، ہمارے لیے برداشت کرنی ہوگی، تب کہیں یہ بات کھلے گی کہ ہمیں ماننے کا جو دعوی تم نے کیا تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا۔

حقوقِ والدین (۹):    والدین کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔  اور بتایا گیا کہ اگر وہ اللہ کے دین سے انکار کرنے کا کہیں تو انکا حکم ماننا درست نہیں۔

انبیائے سابقین ():  

  • سب سے پہلے حضرت نوحؑ کا ذکر ہے جن کے بارے میں فرمایا گیا کہ انھوں نے ۹۵۰ سال اللہ کے دین کی دعوت پہنچائی اور اسکے بعد تمام ظالموں کی تباہی کی بد دعا مانگی۔
  • ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کا ذکر ملتا ہے۔ پھر جو ان کو امامت عطا کی گئی اور جن نعمتوں سے نوازا گیا، اُن کا تذکرہ ہے۔
  • لوطؑ ، انکے ساتھ اسحاقؑ اور یعقوب ؑ کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ آخر میں شعیب ؑ کی قوم کا ذکر ہے۔  پھر عاد، ثمود، قارون، فرعون اور ہامان سب منکرین اور باغیوں پر بھیجے والے عذاب کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔
  • اللہ کو چھوڑ کر جن جن ہستیوں کو لوگ اپنی اطاعت اور سرپرستی کا مالک بناتے ہین، اُن کی مثال مکڑی جیسی بیان کی گئی ہے۔ وہ بھی اپنا گھر بناتی ہےلیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہی ہوتا ہے۔

الحمد للہ آج کی تراویح کا خلاصہ مکمل ہوا۔  ان شاء اللہ اٹھارویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  اللہ حافظ

اٹھارھویں  تراویح

آج کی تراویح میں اکیس واں سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ  العنکبوت کے باقی  ۳ رکوع ، سورۃ الروم مکمل،  سورہ لقمان مکمل اور سورۃ السجدۃ مکمل اور سورۃ الاحزاب کے پہلے ۳ رکوع (۲۷ آیات) کی تلاوت کی جائے گی۔

العنکبوت:   تلاوتِ قرآن اور نمازکی ادائیگی      (۴۵):      خطاب بظاہر نبی ؐ سے ہے، مگر دراصل مخاطب تمام اہل ایمان ہیں۔ ان پر جو ظلم و ستم اس وقت توڑے جارہے تھے اور ایمان پر قائم رہنے میں جن شدید حوصلہ شکن مشکلات سے ان کو سابقہ پیش آرہا تھا، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پچھلے چار رکوعوں میں صبر وثبات اور توکل علی اللہ کی مسلسل تلقین کرنے کے بعد اب انہیں عملی تدبیر یہ بتائی جارہی ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں، کیونکہ یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبردست صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔

 تلاوت قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جبکہ وہ قرآن کے محض الفاظ پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے، اور اس کی نماز صرف بدن کی حرکتوں  تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے دل کا وظیفہ اور اس کے اخلاق و کردار کی قوت بن جائے۔

قرآن ایک زندہ معجزہ   (۴۸۔۵۱):               بتایا جارہا ہے کہ نبیؐ اُمّی تھے یعنی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن پاک آپکی نہ تو تخلیق ہے اور نہ کاوش بلکہ یہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے۔  پھر یہ کفار سوال کرتے ہیں کہ آپؐ نبی ہونےکا دعویٰ کرتے ہیں تو کوئی معجزہ کیوں پیش نہیں کرتے جس طرح پچھلے انبیاء پیش کرتے تھے۔  جس کا جواب دیا جارہا ہے کہ اُن انبیاء کے معجزات تو اُنکی زندگی تک محدود رہتے تھے  لیکن محمد ؐ کو اللہ نے قرآن جیسا زندہ و جاوید معجزہ عطا کیا ہے جو بالکل اسی طرح قیامت تک کےلیے ہے جس طرح محمدؐ قیامت تک کےلیے نبی ؐ ہیں۔  یہ قرآن کا معجزہ ہی تو ہے کہ جس طرح ربّ نے نازل کیا بالکل اسی طرح آج تک اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔  پھر اتنی ضخیم  کتاب لوگ باآسانی حفظ کرلیتے ہیں جس میں ایک لفظ تو کیا حرف کی غلطی بھی نہیں ہوتی،   وہ لوگ بھی باآسانی یاد کرلیتے ہیں جنکی مادری زبان عربی نہیں ہوتی۔  بعض محققین کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً ۸ لاکھ قرآن کے حفاظ موجود ہیں۔

ہجرت کی ترغیب   (۵۶۔۶۰):    چونکہ مکہ میں ظلم و ستم اپنے عروج پر پہنچ چکے تھا اس لیے اللہ تعالیٰ اس آیت میں مسلمانوں کو ترغیب دلا رہا ہے کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، کہیں اور چلے جاؤ۔  اور اگلی ہی  آیت میں بتادیا گیاکہ موت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں،  موت تو ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا ذائقہ سب نے چکھنا ہے اور جہاں ہو یہ آکر رہے گی۔  یہ بھی بتادیا گیا کہ کہیں اور جانے کے لیے تمھیں رزق کا خوف بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ رازق اللہ تعالیٰ ہے وہ تو چرند پرند سب کو رزق عطا فرماتا ہے تو تم جب اسکی راہ میں نکلو گے تو تمھیں کیوں عطا نہیں فرمائے گا۔  اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہجرت کرنے والوں کو اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق تمام انعامات و اکرامات سے نوازا۔

مجاہدہ اور اللہ کی نصرت (۶۹):    سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے جس صبر و آزمائش کی تلقین کی تھی۔  سورۃ کے آخر میں اس مضمون کو بہت نفیس انداز میں بند کیا کہ جو کوئی اللہ کی راہ میں مشقتیں برداشت کرے گا، اللہ انھیں کامیابی کے راستے پر چلائے گا وہ کامیابی دنیا میں بھی ہوگی اور آخرت میں بھی۔

سورۃ الروم:              سورۃ الروم ایک مکی سورۃ ہےاور نبوت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی جب کہ قریش نے آپ کی مخالفت شروع کردی تھی۔

فتح و نصرت اللہ کے ہاتھ ہے  (۲۔۶):          سورۃ کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا گیا ہے کہ “رومی قریب کی سر زمین میں مغلوب ہو گئے ہیں (۲) اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے۔(3)

سورة روم کی ان ابتدائی آیات میں دو ایسی پیشین گوئیاں کی گئی ہیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی رسالت کی حقانیت پر زبردست دلیل ہیں۔ ان میں پہلی پیشین گوئی یہ ہے کہ اگر آج روم شکست کھا گیا ہے تو چند ہی سالوں میں روم پھر ایران پر غالب آجائے گا۔ اور دوسری پیشین گوئی یہ تھی کہ اگر آج مسلمان مشرکین مکہ کے ہاتھوں مظلوم ہیں۔ تو ان کو بھی اُسی دن مشرکین مکہ پر غلبہ حاصل ہوگا جس دن روم ایران پر غالب آئے گا اور قرآن نے یہ دونوں پیشین گوئیاں ایسے وقت میں بیان کیں جبکہ ان پیشین گوئیوں کے پورا ہونے کے دور دور تک کہیں آثار نظر نہیں آرہے تھے۔

تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جس زمانہ میں آپؐ کو نبوت عطا ہوئی (٦١٠ ء میں) اس وقت عرب کے اطراف میں دو بڑی طاقتیں Super Power موجود تھیں۔ ایک روم کی عیسائی حکومت جو دو باتوں میں مسلمانوں سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں اہل کتاب تھے، دوسرے دونوں آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ لہذا مسلمانوں کی ہمدردیاں انھیں کے ساتھ تھیں۔ مسلمانوں کی عیسائی حکومت سے ہمدردی کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی اسی زمانہ میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور قریشیوں نے مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کے باوجود حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور قریش کی سفارت کو بری طرح ناکام ہو کر وہاں سے واپس آنا پڑا تھا۔

 اور دوسری ایران کی حکومت جو دو وجوہ سے مشرکین مکہ سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں مشرک تھے۔ ایرانی دو اللہؤں کے قائل اور آتش پرست تھے اور مشرکین بت پرست تھے اور دوسرے یہ کہ دونوں آخرت کے منکر تھے۔ انہی وجوہ کی بنا پر مشرکین مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔

٦١٤ ء میں خسرو پرویز نے روم کو ایک مہلک اور فیصلہ کن شکست دی۔ شام ، مصر اور ایشائے کوچک کے سب علاقے رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ہرقل قیصر روم کو ایرانی فوجوں نے قسطنطنیہ میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور کردیا اور رومیوں کا دارالسلطنت بھی خطرہ میں پڑگیا۔ بڑے بڑے پادری قتل یا قید ہوگئے۔ بیت المقدس عیسائیوں کی سب سے زیادہ مقدس صلیب بھی ایرانی فاتحین اٹھا لے گئے اور قیصر روم کا اقتدار بالکل فنا ہوگیا۔ یہ خبر مشرکین مکہ کے لئے بڑی خوش کن تھی انہوں نے مسلمانوں کو چھیڑنا شروع کردیا۔

۱۰۰  اونٹوں کی شرط:  اُبیّ بن خلف نے حضرت ابوبکرؓسے کہا  کہ جس طرح ایران نے روم کو ختم کر ڈالا ہے ایسے ہی ہم بھی تمہیں مٹا ڈالیں گے۔  آؤ میرے ساتھ شرط لگاؤ، اگر 3 سال کے اندر رُومی غالب آگئے تو میں تمھیں 10 اونٹ دوں گا ورنہ 10 اونٹ تمھیں مجھے دینا ہونگے۔  شرط لگ گئی اور آنحضورؐ کو علم ہوا تو فرمایا کہ الفاظ میں  فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ہے اور بضع کا اطلاق 3 سے 9 تک ہر ہندسے پر ہوتا ہے۔  لہٰذا شرط میں یہ مدت 9 سال کرو اور اونٹ بڑھا کر 100 کردو۔  حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اُبیّ بن خلف سے بات کی تو وہ اور خوش ہو گیا اور فوراً مان گیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ 9 سال تو کیا اب روم صدیوں بھی ایران پر فتح حاصل نہیں کرسکتا۔

اور پانسہ پلٹ گیا:      اب حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ قیصر روم نے ایک طرف تو  اللہ کے حضور منت مانی کہ اگر اللہ نے اسے ایران پر فتح دی تو حمص سے پیدل چل کر ایلیا (بیت المقدس) سے پہنچوں گا۔ دوسری طرف نہایت خاموشی کے ساتھ ایک زبردست حملہ کی تیاریاں شروع کردیں۔ ٦٢٣ ء میں اس نے اپنی مہم کا آغاز آرمینیا سے کیا اور آذربائیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ کو تباہ کردیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ رسولؐ اللہ ٦٢٢ ء میں ہجرت کرکے مدینہ آئے اور ٦٢٣ ء میں مسلمانوں نے مشرکین مکہ کو بدر کے مقام پر شکست فاش دی۔ اسی دن مسلمانوں کو یہ خبر مل گئی کہ روم نے ایران کو شکست فاش دے کر اپنا علاقہ آزاد کر الیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو تو دوہری خوشیاں نصیب ہوگئیں ان مشرکین مکہ کو دوہری ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔    حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اُبیّ بن خلف کے بیٹوں سے سو اونٹ وصول کئے  کیونکہ وہ خود بدر میں مارا جاچکا تھا۔  لیکن چونکہ جوئے (اور شرط) کی حرمت کا حکم آچکا تھا اس لیے   حضورؐ کے حکم کے مطابق صدقہ کردیئے گئے۔

رُوم کا غلبہ اور بدر کی فتح:            قرآن کا معجزہ اور اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ یہی سال تھا جب بدر کے میدان میں آنحضورؐ کو فیصلہ کن فتح نصیب ہوئی۔  بضع سنین کی مدت کے اندر دونوں پیشن گوئیاں پوری ہوئیں۔  ۶۲۸ء میں خسرو پرویز کے گھر میں بغاوت نمودار ہوئی اور اُس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔

اللہ کی پکڑ برحق ہے:                 آیت ۹ اور ۱۰ میں انسانوں کو اُن کی اپنی ہی تاریخ اور رونما ہونے والے اہم واقعات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔   جس کا لُبِّ لُباب  یہ ہے کہ اللہ کے خلاف بغاوت کرنے والے کتنے ہی طاقت ور ہوجائیں، بالآخر اللہ کی پکڑ آجاتی  ہے اور وہ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔

اللہ کی نشانیاں:          آیت ۱۱ سے ۲۸  تک آسمان و زمین میں پھیلی اللہ کی نشانیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔   خالقِ حقیقی کی قدرتِ کاملہ، زمین و آسمان کی تخلیق سے لے کر دن، رات اور صبح و شام کی آمد و رفت تک انسانوں کی توجہ کے مستحق ہیں۔  خود انسان اپنی تخلیق اور اُس کی افزائشِ نسل، رنگوں اور زبانوں کا اختلاف، رات کی نیند اور دن کی تگ و تازگی سبھی اللہ کی نشانیاں ہیں۔  بجلی کی چمک، بادلوں کی گرج اور کڑک، بادلوں کا  پورا نظام اور اُس میں پنہاں نفع و نقصان، آسمان کا بغیر ستونوں کے اپنی جگہ پر قائم رہنا اور زمین کا بچھونے کی صورت انسانوں کی خدمت کےلیے بچھایا جانا سبھی عبرت کی نگاہ رکھنے والوں کےلیے ایمان افروز نشانیاں ہیں۔

صدقات و سود:         آیت ۳۸ تا ۳۹ میں رشتہ داروں، مسافروں اور مساکین کو اُن کا حق دینےکی تلقین کی گئی  جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔  بتایا گیا کہ تم لو گ سود کے لین دین سے مال بڑھتا نہیں بلکہ زکوٰۃ  کے دینے سے مال میں برکت ہوتی ہے۔

عمومی فساد اور اس کا تدارک:      آیت ۴۱ میں اس فساد کا ذکر کیا گیا ہے جو روم و ایران کی جنگ کے دوران خشکی و سمندر میں پھیل گیا تھا۔  یہ آیت اتنی جامع ہے کہ ہر دور میں ہوِس ، ملک گیری کے مرض میں مبتلا انسان نما بھیڑیوں کے کرتوتوں اور اُن سے پیدا ہرنے والے نتائج کا ذکر کرتی ہے۔

آج بھی دنیا میں خشکی اور سمندر میں ہی نہیں بلکہ فضاؤں تک ہر جگہ فساد پھیل گیا ہے۔  امریکہ اور مغرب کی سیکولر تہذیب اپنے بھیانک چہرے کے ساتھ ساری دنیا میں تباہی پھیلا رہی ہے۔  اس تباہی سے نکلنے کا علاج آیت نمبر ۴۳ میں بتایا گیا ۔  اللہ فرماتا ہے کہ اپنا رُخ مضبوطی کے ساتھ اس دینِ راسخ کی سمت میں جما دو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

انسان کی زندگی:        آیت ۵۴ سے سورۃ کے آخر تک انسان کی زندگی کے مختلف ادوار کا تذکرہ کیا گیا ہے۔  پہلا مرحلہ پیدائش کے وقت انتہائی ضعف کی حالت، پھر وقت کے ساتھ قوت،  پھر بڑھاپا اور ضعیفی۔  یہ بھی اللہ کی قدرتوں میں سے ایک قدرت ہے۔

سورۃ لقمان:              اس سورة میں لوگوں کو شرک کی بُرائی اور توحید کی سچائی سمجھائی گئی ہے، اور انہیں دعوت دی گئی ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑ کر، کھلے دل سے محمدؐ کی لائی ہوئی تعلیمات پر غور کریں۔

انسان کی دو قسمیں:   سورۃ کی ابتداء ان آیات کی گئی ہے قرآن کی آیات حکمت سے بھرپور ہیں اُن  لوگوں کے لیے  جو نیک ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔

 جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سیدھے راستے سے لوگوں کو بھٹکانے  کے لیے لہو الحدیث  کا سہارا لیتے ہیں۔  یعنی ناچ گانے، لغویات کی مجلسیں، آج کل کے یہ کرکٹ و فٹبال میچ، غرض جو چیز بھی  دین سے دور کرے لہو و لعب کہلاتی ہے۔  آج کے نام نہاد دانشور سارا زور اس بات پر لگا رہے ہیں کہ موسیقی رُوح کی غذا اور گانا بجانا ثقافت کی جان ہے۔

حضرت لقمان کون تھے؟:           حضرت لقمان، اللہ کے نبی تو نہیں تھےلیکن ایک مردِ حق شناس تھے۔  عربوں میں انکی شخصیت ایک حکیم و دانا کی مانی جاتی تھی۔    قرآن نے انھیں ایک مبلغ و داعی کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔

حضرت لقمان کی نصیحتیں:           آیت نمبر ۱۳ سے ۔۔۔۔ تک حضرت لقمان نے جو نصیحتیں اپنے بیٹے کو کیں تھیں ان کا ذکر ہے:

  1. بیٹا ! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے
  2. بیٹا کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اُسے نکال لائے گا
  3. بیٹا ، نماز قائم کر ، نیکی کا حکم دے ، بدی سے منع کر ، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر ۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے
  4. اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر نہ زمین میں اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا
  5. اپنی چال میں اعتدال اختیار کر۔ اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ۔

مفاتیح الغیب:           سورۃ کے آخر میں اللہ نے قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر شخص اُس دن اپنی جواب دہی خود کرے گا، کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔  آخری آیت میں اللہ نے مفاتیح الغیب سے پانچ چیزوں کا بیان فرمایا ہے:

  1. قیامت کی گھڑی کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں
  2. بارش کے نظام پر اُسی کا تصرف ہے۔
  3. ماؤں کے پیٹ میں پرورش پانے والے جنین کے باے میں مکمل علم اُسی کے پاس ہے۔
  4. اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے، کسی متنفس کو کھ پتا نہیں۔ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
  5. کس شخص کی موت زمین کے کس چپےپر آئے گی، کسی کو کچھ نہیں معلوم سوائے اللہ کے

سورۃ السجدہ:

  • اس کا زمانۂ نزول مکہ کا دور متوسط ہے، اور اس کا بھی ابتدائی زمانہ، کیونکہ اس کلام کے پس منظر میں ظلم و ستم کی وہ شدت نظر نہیں آتی جو بعد کے ادوار کی سورتوں کے پیچھے نظر آتی ہے۔
  • نبی کریمﷺ اکثر اس سورۃ کی تلاوت جمعہ کے دن فجر کی نماز میں فرمایا کرتے تھے۔ کیونکہ اس میں قیامت کا بہت مؤثر نقشہ کھینچا گیا ہے اور کئی روایات کے مطابق قیامت جمعہ ہی کے دن برپا ہوگی۔
  • اس سورة میں توحید آخرت اور رسالت کے متعلق لوگوں کے شبہات کو رفع کرنا اور ان تینوں حقیقتوں پر ایمان کی دعوت دینا ہے۔
  • کفار مکہ نبی ؐکے متعلق آپس میں چرچے کر رہے تھے کہ یہ شخص عجیب عجیب باتیں گھڑ گھڑ کر سنا رہا ہے۔ کبھی کہتا ہے مٹی میں رل مل جانے کے بعد تم پھر اٹھائے جاؤ گے اور حساب کتاب ہوگا اور دوزخ ہوگی اور جنت ہوگی کبھی کہتا ہے کہ یہ دیوی دیوتا اور بزرگ کوئی چیز نہیں ہیں، بس اکیلا ایک اللہ ہی معبود ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، آسمان سے مجھ پر وحی آتی ہے اور یہ کلام جو میں تم کو سنا رہا ہوں، میرا کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے۔ یہ عجیب افسانے ہیں جو یہ شخص ہمیں سنا رہا ہے۔ انہی باتوں کا جواب اس سورة کا موضوع بحث ہے۔
  • جواب میں کفار سے کہا گیا ہے کہ عقل سے کام لے کر خود سوچو ، آسمان و زمین کے انتظام کو دیکھو، خود اپنی پیدائش اور بناوٹ پر غور کرو، کیا یہ سب کچھ اس تعلیم کی صداقت پر شاہد نہیں ہے جو نبی کی زبان سے اس قرآن میں تم کو دی جا رہی ہے ؟
  • پھر عالم آخرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور ایمان کے ثمرات اور کفر کے نتائج بیان کر کے یہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ لوگ برا انجام سامنے آنے سے پہلے کفر چھوڑ دیں ۔
  • پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ وہ انسان کے قصوروں پر یکایک آخری اور فیصلہ کن عذاب میں اسے نہیں پکڑ لیتا بلکہ اس سے پہلے چھوٹی چھوٹی تکلیفیں مصیبتیں، آفات اور نقصانات بھیجتا رہتا ہے۔ ہلکی ہلکی چوٹیں لگاتا رہتا ہے، تاکہ اسے تنبیہ ہو اور اس کی آنکھیں کھل جائیں۔ آدمی اگر ان ابتدائی چوٹوں ہی سے ہوش میں آجائے تو اس کے حق میں بہتر ہے۔
  • پھر فرمایا کہ دنیا میں یہ کوئی پہلا اور انوکھا واقعہ تو نہیں ہے کہ ایک شخص پر اللہ کی طرف سے کتاب آئی ہو۔ اس سے پہلے آخر موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی کتاب آئی تھی جسے تم سب لوگ جانتے ہو
  • پھر کفار مکہ سے کہا گیا ہے کہ اپنے تجارتی سفروں کے دوران تم جن پچھلی تباہ شدہ قوموں کی بستیوں پر سے گزرتے ہو ان کا انجام دیکھ لو، کیا یہی انجام تم اپنے لیے پسند کرتے ہو ؟
  • خاتمۂ کلام پر نبیؐ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ تمہاری باتیں سن کر مذاق اڑاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کن فتح آپ کو کب نصیب ہونے والی ہے؟۔ ان سے کہو کہ جب ہمارے اور تمہارے فیصلے کا وقت آجائے گا اس وقت ماننا تمہارے لیے کچھ بھی مفید نہ ہوگا۔ ماننا ہے تو اب مان لو، اور آخری فیصلے ہی کا انتظار کرنا ہے تو بیٹھے انتظار کرتے رہو۔

سورۃ الاحزاب (ابتدائی ۳ رُکوع،   ۳۰ آیات):

  • سورۃ الاحزاب ایک مدنی سورۃ ہے۔ اس کے مضامین تین اہم واقعات سے بحث کرتے ہیں۔  اوّل غزوۃٔ خندق ،  دوئم غزوۃٔ بنی قُریظہ جو دونوں ہی ۵ھ میں پیش آئے اور تیسرے نبیؐ کا حضرت زینب ؓ سےنکاح سے جو آپ کے منہ بولے بیٹے زید بن ثابتؓ کی زوجہ رہ چکی تھیں۔
  • نبیﷺ کی ہمت افزائی: غزوۂ بدر میں فتح نے جو دھاک عرب کے مختلف قبائل پر بیٹھادی تھی ، اُحد کی شکست نے خاک میں ملادی۔   ہر چھوٹا موٹا قبیلہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے لگا اور نقصان پہنچانے کے مواقع تلاش کرتا رہا اور مسلمانوں کو شدید جانی او ر مالی نقصان پہنچایا بھی گیا۔  جس پر ابتدائی ۳ آیات میں نبیؐ کو مخاطب کرکے حوصلہ دیا گیا ہے اور ہمت بندھائی گئی۔
  • منہ بولا بیٹا/بیٹی سگے نہیں ہوسکتے (۵):  حضرت زید بن ثابتؓ حضورؐ کے منہ بولے بیٹے تھے اور انھیں زید بن محمدؐ کہا جاتا تھا۔  جسکی تصیح اللہ تعالیٰ نے کردی کہ منہ بولا بیٹا سگا نہیں ہوسکتا یعنی اسکے حقوق اور احکامات سگوں کی طرح ہرگز نہیں ہوسکتے۔  ہاں البتہ کسی کو اخلاقاً بیٹا، بیٹی، بہن، خالہ کہہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
  • نبیؐ کی بیویاں اُمت کی مائیں (۶): نبیؐ کی بیویاں اُمت کے تمام مردوں کی مائیں ہیں۔  یعنی نبیؐ کے وصال کے بعد یا طلاق دے دینے کے بعد کوئی اور اُن سے نکاح نہیں کرسکتا۔  البتہ باقی احکامات اُمت کی دوسری عورتوں ہی کی طرح لاگو ہونگے۔  مثلاً وہ کسی کی وراثت میں حصہ دار نہیں ہونگی،  سب غیر محرم مردوں سے پردہ کریں گی وغیرہ وغیرہ۔
  • منافقین بے نقاب ہوگئے (۱۲ ۔ ۲۰): اس جنگ میں منافقین بالکل ننگے ہوگئے تھے اور مخلص اہلِ ایمان خالص کندن بن کر نمودار ہوئے۔  اللہ تعالیٰ نے دونوں کا کردار واضح الفاظ میں بیان کردیا ہے۔  اس موقع پر منافقین کہہ رہے تھے کہ “اللہ اور اُس کے رسولؐ نے وعدے کیے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے”۔   
  • اُسوۂ رسولؐ بہترین نمونہ (۲۱):           آیت نمبر ۲۱ وہ معروف آیت ہے جس میں مومنین کو بتادیا گیا کہ “درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول ﷺ میں ایک بہترین نمونہ تھا”۔   رسول پاک ؐ کے طرز عمل کو اس جگہ نمونہ کے طور پر پیش کرنے سے مقصود ان لوگوں کو سبق دینا تھا جنہوں نے جنگ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی سے کام لیا تھا۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسولؐ کے پیروکار  ہو اُس کا اس موقع پر کیا رویہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو، پھر تو اس کی پیروؤں کی طرف سے ان کمزوریوں کا اظہار معقول ہوسکتا ہے۔ مگر یہاں تو رسولؐ اللہ کا حال یہ تھا کہ ہر مشقت جس کا آپؐ  نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپ  خود سب کے ساتھ شریک تھے۔  یہ تو موقع و محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے۔ مگر اللہ نے مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملہ میں آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں۔
  • مومنین (۲۲۔۲۷):         اس موقع پر مومنین کی جو کیفیت تھی اُس کا قرآن میں یوں نقشہ کھینچا گیا کہ “اور سچے مومنوں ( کا حال اُس وقت یہ تھا کہ ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اُٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہم سے وعدہ کیا تھا ، اللہ اور اس کے رسول کی بات بالکل سچی تھی۔ اِس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا (۲۲)۔ ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے ۔ انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیل نہیں کی (۲۳)
  • شدید مشکلات میں بشارت: پوری اقوامِ عرب کا محاصرہ مسلمانوں کے گرد بہت سخت تھا جو ایک ماہ جاری رہا،  اندر سے بنو قریظہ نے غداری کردی تھی،  موسم نہایت سخت سرد تھا۔  اس کیفیت میں اللہ کے رسولؐ اور اُنکے مخلص صحابہؓ ڈٹے رہے۔  اس دوران آپؐ نے فرمایا!  اب کے بعد  قریش تم پر کبھی چڑھائی نہ کرسکیں گے، اب تم اُن پر چڑھائی کروگے”۔  آنحضورؐ کی یہ بشارت بالکل سچی تھی، اس کے بعد قریش کو کبھی مدینے کی طرف رُخ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔  یہاں تک کہ مکہ فتح ہوگیا۔
  • غزوۃٔ خندق کے اہم واقعات:
    • حضرت حذیفہؓ کا حضورؐ کے حکم سے ایک رات خندق عبور کرکے قریش کی مجلسِ شوریٰ میں پہنچ جانا اور انکی خبریں لانا۔
    • حضورؐ کی پھوپھی صفیہؓ کا یہودی جاسوس کو قلعہ سے نکل کر قتل کرکے، اس کا سر کاٹ کر باہر پھینک دینا۔ جس سے کفار میں دہشت پھیلی۔
    • بنو غطفان کے نعیمؓ بن مسعود کا عظیم کردار جب کہ وہ مسلمان ہوگئے تھے اور نبیؐ سے حکم سے قریشِ مکہ او ربنو قریظہ میں غلط فہمیاں پیدا کیں، جس سے جنگ کا پانسہ پلٹنے میں مدد ملی۔
    • حضرت سعدؓ بن معاذ جنھیں آنحضورؐ نے انصار کے صدیق کا خطاب دیا۔ جنگ میں زخمی ہوئے اور بعد میں شہید ہوگئے۔
  • آیت ۲۶ اور ۲۷ میں بنو قریظہ سے لڑی جانے والی جنگ کی طرف اشارہ ہے۔ یہ یہودیوں کا آخری قبیلہ تھا جو مدینہ میں بچا تھا۔  عرب لشکر کے بھاگ جانے کے بعد نبیؐ اپنا اسلحہ اُتارا ہی چاہتے تھے کہ جبرئیل امینؑ تشریف لائے اور اللہ کا پیغام پہنچایا کہ فرشتوں نے ہتھیار نہیں اُتارے، آپ بھی ابھی اسلحہ نہ کھولیں بلکہ مدینہ کو بنو قریظہ سے پاک کردیں۔  چنانچہ ان کا محاصرہ کیا گیا، چند دنوں میں انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور سعد بن معاذؓ کے تورات کی روشنی میں کیے گئے فیصلے کے مطابق اُنکے لڑنے والے تمام مرد قتل کردیے  جبکہ عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا گیا اور انکی املاک مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردی گئیں۔

الحمد للہ آج کی تراویح کا خلاصہ مکمل ہوا۔  ان شاء اللہ اُنیس ویں  تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  اللہ حافظ

اُنیس ویں   تراویح

آج کی تراویح میں بائیسواں سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ  الاحزاب کے  باقی  ۶ رکوع ، سورۃ سبا مکمل،  سورہ فاطر مکمل اور سورۃ   یٰسین کی ابتدائی ۲۱ آیات کی تلاوت کی جائے گی۔

الاحزاب:  اُمہات المومنین  کو اختیارکی آزادی      (۲۸۔۳۴):

  • “اے نبی ﷺ ! اپنی بیویوں سے کہو ، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رُخصت کر دوں “

صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ اس زمانے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپؐ کی ازواج آپؐ  کے گرد بیٹھی ہیں اور آپؐ خاموش ہیں۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ کو خطاب کر کے فرمایا :

 ” ھُنَّ کَمَا تَرٰی یَسْألْنَنِی النفقۃ، ” یہ مجھ سے خرچ کے لیے روپیہ مانگ رہی ہیں “۔ اس پر دونوں صاحبان نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول ؐ کو تنگ کرتی ہو اور وہ چیز مانگتی ہو جو آپ ؐکے پاس نہیں ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ اس وقت کیسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے اور کفر و اسلام کی انتہائی شدید کشمکش کے زمانے میں خرچ کے تقاضے مزاج مبارک پر کیا اثر ڈال رہے تھے۔

  • امہات المومنین کو بتایا گیا کہ وہ عام خواتین کی طرح نہیں ہیں، بلکہ اُن کا مقام ممتاز و منفرد ہے۔ وہ خواتین اسلام کےلیے نمونہ ہیں۔
  • اُنھیں اپنے گھروں میں با پردہ رہنے کا حکم بھی انہی آیات میں دیا گیا۔
  • اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات ؓ کو ہر آلائیش سے پاک کردینے کا وعدہ بھی فرمایا۔

 اللہ کی مغفرت کے حقدار مرد و عورت (۳۵):

֍مسلم ہوں             ֍مومن ہوں          ֍مطیع ِ فرمان            ֍سچ بولنے والے                      ֍صبر کرنے والے

֍اللہ سے ڈرنے والے                              ֍روزہ رکھنے والے    ֍شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے

֍اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے           ֍صبر کرنے والے  

ایک حقیقت دو رُخ (۳۷۔۴۰):

  • زینب ؓ بنتِ جحش حضورؐ کی پھوپھی زاد تھیں۔ انکے بیوہ ہوجانے پر آپ ؐ نے اُن کا نکاح اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زید ؓ بن ثابت سے کردیا تھا جو غالباً زینبؓ بنتِ جحش کو پسند نہ تھے۔  چنانچہ ایک سال سے کچھ زیادہ مدت کے بعد حضرت زیدؓ نے انھیں طلاق دے دی اور عدت کی مدت گزر جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُن سے نبیؐ کو نکاح کا حکم دیا۔   وجہ اس کی یہ تھی کہ اُس وقت کے معاشرے میں منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ سے سسر کا نکاح جائز نہ تھا۔  اللہ تعالیٰ اس روایت کو توڑنا چاہ رہا تھا۔  لہٰذا اُس نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا کہ عملی طور پر اس حکم کو نافذ کرکے ، مسلم معاشرے میں دورِ جاہلیت کے روایت و قانون کو ختم کردیں۔
  • آیت نمبر ۴۰ میں ایک تو تمام مشرکین کے اُس پروپگینڈے کی جڑ کاٹ دی گئی جو کہتے تھے کہ نبیؐ نے اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے جو اکہ انکی نظر میں حرام تھا۔ وضاحت کردی گئی  کہ کسی کی منہ بولی اولاد ، اُسکی سگی اولاد کا درجہ نہیں پاسکتی۔  نہ تو اُس کو سگی اولاد والے حقوق اُسے ملیں گے اور نہ ہی وراثت میں حصہ۔  نسب بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

 

ختمِ نبوت (۴۰):

  • اس ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کھلا اعلان کردیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کے آکری نبی ہیں اور انکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ختمِ نبوت کا مسئلہ اتنا ہی اہم ہے جتنا خود توحید و رسالت اور آخرت کا عقیدہ۔  اگر کوئی نبوت کا جھوٹا دعویٰ بھی کرے تو اِ س کو نبی تو کیا “مسلمان “ ماننے والا بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔

ذکرِ الٰہی و اہلِ ایمان کے لیے خوشخبری (۴۱۔۴۴):

  • ان آیات میں اللہ نے کثرت سے  اپنے ذکر کی تلقین فرمائی ہے۔   اورآیت ۴۳ میں  اہلِ ایمان کو خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کے لیے رحمتیں نازل فرماتا ہے اور فرشتے اُن کے لیے دُعا کرتے ہیں۔  ایک اور ایمان کا ذکر کیا گیا کہ جس روز یہ مومنین اپنے ربّ سے ملیں گے ان کا استقبال سلام سے ہوگا۔  ہو سکتا ہے یہ استقبال ربّ خود سلام کرکے کرے،  یا فرشتے سلام کرکے ان کا استقبال کریں  یا   آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرکے ایک دوسرے کا استقبال کریں۔

نکاح و طلاق کے مسائل (۴۹۔۵۲):

  • ان آیات میں نکاح اور طلاق کے مسائل کا تذکرہ ملتا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے خاص  ہیں۔  اس سے پہلے سورۃ البقرہ میں کچھ مسائل گزر چکے ہیں اور کچھ آئندہ سورۃ الطلاق میں آجائیں گے۔

ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے اور کھانے پینے کےآداب (۵۳۔۵۵):

  • ان آیات میں نبیؐ کے گھر میں آنے جانے کے آداب سیکھائے گئے ہیں جبکہ سورۃ النور میں یہی حکم تمام مسلم معاشرے کے لیے طے پایا۔ ساتھ ہی یہ ادب بھی نبیؐ کی ذات سے منسلک کرکے بتا دیا گیا کہ کھانے کے وقت کسی کے گھربغیر بلائے نہیں جانا چاہیے،  اگر بلایا جائے تو کھانا کھا کر جلد ہی وہاں سے کوچ کرجانا چاہیے نہ کہ دنیاوی باتیں بنانے بیٹھ جائیں اور صاحبِ خانہ کے لیے مشکل کا باعث ہو۔

معروف آیت (۵۶):

  • آیت ۵۶ نبیؐ وہ معروف آیت ہے جو اکثر خطباء جمعہ و عیدین کے خطبوں میں پڑھا کرتے ہیں۔  اس آیت میں حضورؐ کی شان کو دوبالا کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ ۭ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا  “اللہ اور اس کے ملائکہ نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو”۔  آنحضورؐ پر کثرت سے درود بھیجنا اللہ کی رضا اور مغفرت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ نماز میں پڑھا جانے والا درود،  یعنی درودِ ابراہیمی ؑسب سے افضل ہے۔

پردے کا حکم (۵۹):

  • آیت ۵۹ میں مسلمان عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ “اے نبی ﷺ ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلوّ لٹکا لیا کریں۔یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے”۔  رہا یہ سوال کہ برقع ہو یا چادر یا کوئی اور حجاب کی چیز، اس بارے میں شریعت نے لوگوں کو آزادی دی ہے۔

اہلِ جہنم کی لعن طعن :

  • سورۃ کے آخری حصہ میں قیامت کے دن اہلِ جہنم کی ایک دوسرے پر لعن طعن کا تذکرہ ہے۔ ہرکوئی  ایک دوسرے کےلیے دوہرے عذاب کا مطالبہ کرے گا اور اللہ کی لعنت و پھٹکار کی دُعا کرے گا۔   اہلِ باطل دنیا میں کتنی بھی جتھا بندیاں کرلیں لیکن روزِ قیامت ایک دوسرے کے دشمن ہونگے۔

سورۃ سبا :

  • یہ ایک مکی سورۃ ہے اور وہ بھی اُس زمانہ کی جب مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع نہیں ہوا تھا۔
  • اس سورة میں کفار کے ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی ؐ کی دعوت توحید و آخرت پر اور خود آپؐ کی نبوت پر زیادہ تر طنز و تمسخر اور بیہودہ الزامات کی شکل میں پیش کرتے تھے۔
  • حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ اور قوم سبا کے قصے اس غرض کے لیے بیان کیے گئے ہیں کہ اُن کے سامنے تاریخ کی یہ دونوں مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف حضرت داؤدؑاور سلیمانؑ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی طاقتیں بخشیں اور شوکت و حشمت عطا کی ، مگر وہ کبر و غرور میں مبتلا نہ ہوئے بلکہ اس کے شکر گذار بندے ہی بنے رہے۔ اور دوسری طرف سبا کی قوم ہے جسے اللہ نے جب اپنی نعمتوں سے نوازا تو وہ پھول گئی اور آخر کار اس طرح پارہ پارہ ہوئی کہ اس کے بس افسانے ہی اب دنیا میں باقی رہ گئے ہیں۔

توحید و آخرت :

  • سورۃ کا آغاز اللہ کی حمد سے ہوتا ہے ۔ پھر اُس کی صفاتِ عالیہ بیان کی گئی ہیں۔  کافروں کے انکارِ آخرت کا جواب دیا گیا ہے۔

آلِ داؤد  (۱۰۔۱۴):

  • داؤدؑ و سلیمانؑ کی شان و شوکت، اُن کی حکومت کی کامیابی اور ہیبت اور اس سب کچھ کے باوجود اُن کا اللہ کے سامنے عاجز و بے بس ہونا، موت کی وادی میں اُتر جانا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ساری قوتوں کے باوجود مخلوق اللہ کے سامنے بے بس ہے۔ انہی نعمتوں پر آلِ داؤد کو شکرکا حکم دیا گیا ہے۔
  • حضرت داؤدؑ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہو واہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون (موجودہ الخلیل) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے، پھر چند سال بعد تمام قبائل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا۔
  • حضرت سلیمان ؑ پر ایسی حالت میں موت طاری ہوئی جبکہ وہ ایک عصا کے سہارے کھڑے یا بیٹھے تھے۔ اس عصا کی وجہ سے ان کا بےجان جسم اپنی جگہ قائم رہا اور جِنّ یہ سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں لگے رہے کہ وہ زندہ ہیں۔ آخر کار جب عصا کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلا ہوگیا تو ان کا جسم زمین پر گرگیا اور اس وقت جنوں کو پتہ چلا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔

قومِ سبا (۱۵۔۲۱):

  • قومِ سبا یمن کی طاقتور اور متمدن قوم تھی۔ اس قوم نے اپنے علاقے میں تہذیب و تمدن کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔  صنعت و حرفت اور زراعت و تجارت کو اتنی ترقی دی کہ دُنیا کی قوموں میں برتر ہوگئی۔
  • علاقہ زرخیز ، موسم موافق اور امن و امان مثالی تھا۔ ملک میں جہاں نکل جاؤ راستے کے دونوں جانب سرسبز و شاداب باغات اور لہلہاتے کھیت نظر آتے۔  گویا زمین و آسمان قوم پر مہربان تھے۔قوم کی بدبختی کہ اللہ کا شکر گزار بننے کے بجائے اُس سے منہ موڑ لیا۔
  • اللہ نے ایک ایسا سیلاب بھیجا کہ جس نے اُن کے ڈیموں کے بند توڑ دیے اوراُسکے شہر اور بستیاں ویران ہوگئیں۔ زرخیز زمین بنجر اور ناقابلِ کاشت بن کر رہ گئی۔ اور آج وہ قوم ایک افسانہ بن کر رہ گئی۔

قومِ سبا کے پیرائے میں ہماری قومی تصویر:

  • جب ہم اپنے وطن عزیز پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو آئینہ ٔ قرآنی میں ہماری تصویر نظر آتی ہے۔
  • ہمارے اور قومِ سبا کے درمیان مماثلت پائی جاتی ہے۔ وطنِ عزیز میں ساری نعمتیں اللہ نے ہمیں عطا فرمائی ہیں۔
  • لیکن پاکستانی قوم منجملہ شکر گزار بننے کے بجائے قومِ سبا کی طرح کفرانِ نعمت کی مرتکب ہوئی ہے۔ اللہ کے دیے ہوئے عطیے کو اللہ سے بغاوت کی آماج گاہ بنا دیا۔
  • پھر بھی اللہ نے چھوٹے موٹے عذاب دے کر ہماری آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہم رُجوع الی اللہ نہیں کرتے۔  اِس وقت قوم کو رُجوع الی اللہ کی اشد ضرورت ہے۔  یہ ملک جس لیے قائم کیا گیا تھا اُس ڈگر پر لانےکی ضرورت ہے۔

میں نہ مانوں کی رٹ (۳۱۔۳۳):

  • ۳۱ ویں آیت سے کفار کی ہٹ دھرمی کا تذکرہ شروع ہوتا ہے ۔ وہ کہتے تھےکہ ہم ہر گز اس قرآن کو نہیں مانیں گے۔  فرمایا گیا!  “کاش تم دیکھو اِن کا حال اُس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے ۔ اُس وقت یہ ایک دوسرے پر الزام دھریں گے ۔ جو لوگ دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ‘‘ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔  وہ بڑے بننے والے اِن دبے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گے ’’ کیا ہم نے تمہیں اُس ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی تھی ؟ نہیں ، بلکہ تم خود مجرم تھے ۔‘‘
  • پھر یہ مجرمین پچھتائیں گے اور ان کے گلے میں طوق ڈالے جائیں گے۔

نبیؐ کا مقامِ رفیع (۴۶۔۵۴):

  • نبیؐ سے کہلوادیا گیا کہ میں جو نصیحت تمھیں کرتا ہوں اس پر اچھی طرح انفرادی طور اور اجتماعی طور پر غور و فکر کرلو۔  میں  تو تمھیں آخرت کے عذاب سے باخبر کررہا ہوں۔  جبکہ اسکے بدلے تم سے کسی اجر کا مطالبہ بھی نہیں کررہا،  دنیا کا جاہ و منصب بھی نہیں مانگتا،  تمھارے مال و دولت پر بھی کوئی حق نہیں جتاتا۔  میرا  اجر تو میرے ربّ کے پاس ہے۔

سورۃ الفاطر:

  • سورۃ الفاطر مکی دور کی سورۃ ہے جب کہ نبیؐ کی مخالفت زور پکڑ چکی تھی۔
  • کلام کا مدعا یہ ہے کہ نبی ؐکی دعوت توحید کے مقابلہ میں جو رویہ اس وقت اہل مکہ اور ان کے سرداروں نے اختیار کر رکھا تھا اس پر ناصحانہ انداز میں ان کو تنبیہ و ملامت بھی کی جائے اور معلمانہ انداز میں فہمائش بھی۔
  • کفار کو بتایا جارہا ہے کہ یہ نبی جس راہ کی طرف تم کو بلا رہا ہے اس میں تمہارا اپنا بھلا ہے۔ اس پر تمہارا غصہ، اور تمہاری مکاریاں اور چال بازیاں، اور اس کو ناکام کرنے کے لیے تمہاری تدبیریں دراصل اس کے خلاف نہیں بلکہ تمہارے اپنے خلاف پڑ رہی ہیں۔
  • وہ توحید کی دعوت دیتا ہے۔ تم خود عقل سے کام لے کر غور کرو، کیا للہ فاطر السمٰوات والارض کے سوا کہیں کوئی ایسی ہستی پائی جاتی ہے جو خدائی صفات اور اختیارات رکھتی ہو ؟
  • وہ تم سے کہتا ہے کہ تم اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہو بلکہ تمہیں اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور اس دنیوی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جس میں ہر ایک کو اپنے کیے کا نتیجہ دیکھنا ہوگا۔ تم خود سوچو کہ اس پر تمہارے شبہات اور تعجب کس قدر بےاصل ہیں۔ کیا تمہاری آنکھیں رات دن اعادہ خلق کا مشاہدہ نہیں کر رہی ہیں ؟ ہم بنجر زمین میں بارش برسا کر اُسے ہر بھرا نہیں کرتے؟    تمھارا کچھ وجود نہیں تھا اُس ربّ نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمھارے جوڑے بنادیے اور تمھاری نسل کا ایک تسلسل چلادیا۔
  • اب اگر ان سراسر معقول اور مبنی بر حقیقت باتوں کو تم نہیں مانتے اور جھوٹے خداؤں کی بندگی نہیں چھوڑتے اور اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھتے ہوئے شتر بےمہار ہی کی طرح دنیا میں جینا چاہتے ہو تو اس میں نبی کا کیا نقصان ہے۔ شامت تو تمہاری اپنی ہی آئے گی۔ نبی پر صرف سمجھانے کی ذمہ داری تھی، اور وہ اس نے ادا کردی۔
  • آیت ۱۸۔۲۶: کفار کے اسلام نہ لانے پر نبیؐ کُڑھتے تھے ۔  لہٰذا بار بارآپ  ؐکو تسلی دی گئی ہے کہ آپ جب نصیحت کا حق پوری طرح ادا کر رہے ہیں تو گمراہی پر اصرار کرنے والوں کے راہ راست قبول نہ کرنے کی کوئی ذمہ داری آپ کے اوپر عائد نہیں ہوتی۔ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے ان کے رویے پر نہ آپ غمگین ہوں اور نہ انہیں راہ راست پر لانے کی فکر میں اپنی جان گھلائیں۔    جس طرح اندھا اور آنکھوں والا،  تاریکی  اور روشنی،  ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش،  زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوسکتے، اسی طرح اسلام کو قبول کرنے والے اور ہٹ دھرمی اختیار کرنے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔
  • ایمان قبول کرنے والوں کو اسی سلسلے میں بڑی بشارتیں دی گئی ہیں تاکہ ان کے دل مضبوط ہوں اور وہ اللہ کے وعدوں پر اعتماد کر کے راہ حق میں ثابت قدم رہیں۔

سورۃ      یٰسٓ:

  • سورۃ     یٰسٓ بھی ایک مکی سورۃ ہے۔  نبی کریمؐ نے اسے  قرآن کا دل قرار دیا ہے۔  نبیؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اسے اپنے مرنے والوں پر پڑھا کرو۔  ہمارے خیال میں مرنے والوں کے پاس پڑھنے کی اس لئے ہدایت فرمائی کہ مرنے والے پر تمام اسلامی عقائد تازہ ہوجائیں اور عالم آخرت کا وہ نقشہ ان کے سامنے آجائے جو اس سورة میں مذکور ہے۔ مگر جو لوگ قرآن کا ترجمہ ہی نہ جانتے  انھیں اسے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور جب  ان کے سامنے پڑھی جائے تو اس کا  ترجمہ بھی پڑھ دیا جائے تو بہتر ہے۔

محمدؐ کے رسول ہونے کی شہادت (۱۔۶):

  • ابتداء یٰسٓ سے کی گئی جو کہ حروفِ مقطعات میں سے ہے اور نبیؐ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اسکے فوراً بعد قسم قرآن کی قسم کھائی گئی۔  قسم گواہی  کے قائم مقام ہوا کرتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حکمتوں سے لبریز قرآن حکیم اس بات پر قوی شہادت ہے کہ (١) آپ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور (٢) یہ کہ آپ سیدھی راہ پر گامزن ہیں ۔
  • مطلب یہ نہیں کہ نبیؐ کو اپنے نبی ہونے پر شک تھا بلکہ کیفیت یہ تھی کہ اُس وقت کفار قریش پوری شدت کے ساتھ حضورؐکی نبوت کا انکار کر رہے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے کسی تمہید کے بغیر تقریر کا آغاز ہی اس فقرے سے فرمایا کہ ” تم یقیناً رسولوں میں سے ہو ” یعنی وہ لوگ سخت غلط کار ہیں جو تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں۔
  • “تاکہ تم خبردار کرو ایسی قوم کو جس کے آباؤ اجداد نہ کیے گئے تھے” ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے حضورؐ کے دور کے ماضیٔ قریب کے آباؤ اجداد مراد ہونگے۔ کیونکہ مکہ کو آباد کرنے والے ابراہیمؑ سے جو کہ ابوالانبیاء تھے۔

عذاب کے مستحق لوگ (۷۔۱۱):

  • جو کفارِ مکہ نبیؐ کی دعوت کے مقابلے میں ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے اور جنہوں نے طے کرلیا تھا کہ آپ کی بات بہرحال مان کر نہیں دینی ہے۔ ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ” یہ لوگ فیصلۂ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں اس لیے یہ ایمان نہیں لاتے ” اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نصیحت پر کان نہیں دھرتے اور خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اتمام حجت ہوجانے پر بھی انکار اور حق دشمنی کی روش ہی اختیار کیے چلے جاتے ہیں ان پر خود ان کی اپنی شامت اعمال مسلط کردی جاتی ہے اور پھر انہیں توفیق ایمان نصیب نہیں ہوتی۔ آگے چل کر اس کی وضاحت کردی گئی کہ ” تم تو اسی شخص کو خبردار کرسکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بےدیکھے خدائے رحمان سے ڈرے۔ “
  • اس مقام پر مختصراً یہ اشارہ کردینا ضروری ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے بالفاظ دیگر حق کو قبول نہ کرنے یا سرکشی کی راہ اختیار کرنے کی ابتداء ہمیشہ انسان کی طرف سے ہوتی ہے۔ پھر جو راہ انسان اختیار کرتا ہے اسے اللہ کی طرف سے اسی راہ کی توفیق و تائید ملتی جاتی ہے

 

مثال ایک بستی کی (۱۲۔۲۱):

  • اللہ نے ایک بستی کی مثال پیش کی ہے، جس میں اللہ نے بیک وقت دو رسول بھیجے۔ بستی والوں نے انھیں جھٹلایا تو اللہ نے تیسرا نبی بھیجا۔  ان تینوں نے نہایت ہمدردی سے اہلِ بستی کو سمجھایا کہ وہ اللہ کے  بھیجے ہوئے ہیں۔  جواباً انھوں نے مکہ والوں کی طرح کہا کہ “تم تو ہماری طرح کے انسان ہو، ایسے ہی جھوٹے دعوے کررہے ہو۔    اُلٹا اُن بدبختوں نے اُنھیں منحوس قرار دیا اور سنگسار کرنےکی دھمکیان دیں۔
  • اس کشمکش کے دوران ہی بستی کا ایک حق شناس اور حق گو شخص دوڑتا ہوا آیا اور بازار میں کھڑے ہو کر اُس نے یوں اعلان کیا” اے میری قوم کے لوگو ! رسولوں کی پیروی اختیار کرلو۔ پیروی کرو اُن لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں۔”  اگر قوم کی آنکھیں اب بھی کھل جاتیں تو اُن کا بھلا ہوجاتا لیکن نہ صرف یہ  کہ اُنھوں نے سنی ان سنی کردی بلکہ اُس بندۂ حق کو نہایت بے دردی سے بھرے بازار میں شہید کردیا۔  

پھر اس قوم کے ساتھ کیا ہوا؟  یہ مضمون کل کی آیات میں پڑھا جائے گا۔

ان شاء اللہ بیسویں ویں  تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  اللہ حافظ

بیسویں   تراویح

آج کی تراویح میں تیئسواں  سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ  یٰسٓ کے  باقی ماندہ حصے کی  ، سورۃ الصّٰٓفّٰٓت مکمل،  سورہ صٓ  مکمل اور سورۃ   الزمر کی ابتدائی  ۳۱     آیات کی تلاوت کی جائے گی۔

شہیدحق      (۲۲۔۳۲):

  • گزشتہ تراویح میں ہم پڑھ رہے تھے کہ ایک بستی پر اللہ نے پے درپے تین انبیاء بھیجے اور انکی قوم انھیں جھٹلاتی رہی۔ آخر میں ایک حق شناس شخص آیا اور بازار میں کھڑے ہو کر قوم سے کہا کہ ” اے میری قوم کے لوگو ! رسولوں کی پیروی اختیار کرلو۔  پیروی کرو اُن لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں۔”   لیکن اُس قوم نے اُس شخص کو قتل کردیا ۔  قتل سے پہلے جو بات چیت اس مردِ حق کی اپنی قوم کے لوگوں سے ہوئی تھی اُس میں اُس نےقوم سے اپنے اوپر رکھ کر  کہا تھا کہ  “میں اُس ہستی کی عبادت کیوں نہ کروں  جس نے مجھے پیدا کیا ہے، اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے”۔   اپنے قتل کے بعد بھی اُس شخص نے قوم کی خیر خواہی سے منہ نہ موڑا  جس کو آیت (۲۶۔۲۷) میں ان الفاظ میں نقل کیا گیا کہ “اور اُس شخص سے کہہ دیا گیاکہ داخل ہو جاجنت میں۔ اس نے کہا ’’ کاش میری قوم کو یہ معلوم ہوتاکہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا۔”      اُس قوم کے اس اقدام کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ  غضب ناک ہوا اور محض ایک چنگھاڑ سے پوری قوم کو تہس نہس کردیا جیسے کبھی وہ اس کرہ ارض پر تھی ہی نہیں۔

توحید و آخرت      (۳۲۔۴۰):

  • آیت ۳۲ سے توحید و آخرت کا مضمون شروع ہوجاتا ہے۔ پہلے تمام انسانوں کو حشر میں جمع کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے پھر بے جان زمین کی مثال سے بات سمجھائی جاتی ہے کہ کیسے مُردہ زمین کو زندہ کرکے اور اُس میں سے ہر طرح کے پھل ، سبزیاں، غلے اُگائے جاتے ہیں۔    کیسے اُس رب نے سب نباتات و  جمادات اور خود تمھارے جوڑے بنائے،  رات اور دن بنائے،  سورج اور چاند کے درمیان مسافت پیدا کی۔

کشتی کی ایجاد      (۴۱۔۴۴):

  • آیت ۴۱ میں ذکر کیا گیا کہ کفار کےلیے یہ بھی ایک زندہ و جاوید نشانی ہے جسے وہ نہیں سمجھتے کہ کہ کشتیٔ نوح ؑ میں اُن افراد کو سوار کیا گیا جن سے نسلِ انسانی کی بقاء ممکن ہوسکی۔  پھر اس جیسی کشتیاں بنانے کا فن انسانوں کو سیکھادیا تاکہ ایک شہر سے دوسرے شہر،  اور ایک ملک سے دوسرے ملک سمندری راستوں سے سفر کرسکیں۔  پھر یہ بھی باور کرادیا کہ ان کشتیوں کو جب چاہیں ہم ان پانیوں میں غرق بھی کرسکتے۔  ان آیات سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح ؑ کی کشتی دنیا میں بنائی جانے والی پہلی کشتی تھی۔  اسکے بعد انسانوں کو علم ہوا کہ اس طرح بھی پانیوں میں سفر کیا جاسکتا ہے۔

اخلاقی گراوٹ (۴۷):

  • اہلِ باطل سے جب کہا جائے کہ غریب اور محروم لوگوں پر اپنے رزق میں سے کچھ خرچ کرو تو جواب میں کہتے ہیں کہ ہم اُن کو کیوں کھلائیں، اللہ چاہتا تو اُن کو خود ہی کھلا دیتا۔  اُس نے نہیں کھلایا تو گویا اللہ کی مرضی ہے کہ یہ بھوکے ہی رہیں۔    کفر نے صرف ان کی عقل ہی اندھی نہیں کی ہے بلکہ ان کی اخلاقی حِس کو بھی مُردہ کردیا ہے۔ وہ نہ خدا کے بارے میں صحیح تفکر سے کام لیتے ہیں، نہ خلق کے ساتھ صحیح طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ ان کے پاس ہر نصیحت کا الٹا جواب ہے۔ ہر گمراہی اور بد اخلاقی کے لیے ایک اوندھا فلسفہ ہے۔ ہر بھلائی سے فرار کے لیے ایک گھڑا گھڑایا بہانا موجود ہے۔

 

قیامت کا نقشہ:

  • انجام سے غافل لوگ جو کل بھی تھے اور آج بھی ہیں، کہیں براہِ راست رب کا انکار کرکے اور کہیں مسلم نام کا لبادہ اوڑھ کے۔  طنزیہ سوال کرتے ہیں کہ جس قیامت کی دھمکی دی جاتی ہے، آخر وہ کب آئے گی؟   ان آیات میں جواب دیا جارہا ہے کہ وہ جب بھی آئے گی اچانک سے ایک دھماکہ ہوگا جب تم اپنی دنیاوی مشغولیات میں الجھے ہوئے ہوگے۔  پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور سب اگلے پچھلے اپنی اپنی قبروں سے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔  پھر کہیں گے کہ کس نے ہمیں سوتے سے جگا دیا اور انھیں یاد آئے گاکہ رسول سچ کہتے تھے۔  پھر ربّ کے حضور پیشی ہوگی اور سب کیا چٹھا سامنے آجائے گا، ذرے ذرے کا بدلہ دیا جائے گا ۔   اُس روز جنتی لوگ مسحور ہونگے کیونکہ ربِّ کریم کی جانب سے انھیں سلام کہا جائے گا۔  اور کافروں کو جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا اس سوال کے ساتھ کیا تم کو میری ہدایت نہیں پہنچی تھی؟  اُن کے بولنے سے پہلے انکی زبان پر تالے ڈال دیے جائیں گے اور انکے جسم کے اعضاء کو قوتِ گویائی دے  دی جائے گی اور وہ سب اُن کے خلاف گواہی دیں گے۔

سورۃ الصّآفّات:

  • مضامین اور طرز کلام سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سورت غالباً مکی دور کے وسط میں، بلکہ شاید اس دور متوسط کے بھی آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہے۔ انداز بیان صاف بتارہا ہے کہ پس منظر میں مخالفت پوری شدت کے ساتھ برپا ہے ۔
  • اس وقت نبی ؐکی دعوت توحید و آخرت کا جواب جس تمسخر اور استہزاء کے ساتھ دیا جا رہا تھا، اور آپ کے دعوائے رسالت کو تسلیم کرنے سے جس شدت کے ساتھ انکار کیا جا رہا تھا، اس پر کفار مکہ کو نہایت پر زور طریقہ سے تنبیہ کی گئی ہے اور آخر میں انہیں صاف صاف خبردار کردیا گیا ہے کہ عنقریب یہی پیغمبر، جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو، تمہارے دیکھتے دیکھتے تم پر غالب آجائے گا اور تم اللہ کے لشکر کو خود اپنے گھر کے صحن میں اترا ہوا پاؤ گے (آیت نمبر 171 تا 179) ۔ یہ نوٹِس اس زمانے میں دیا گیا تھا جب نبیؐ کی کامیابی کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے تھے۔
  • کلام کی ابتداء توحید باری تعالیٰ کی حقانیت کے اظہار سے کی گئی۔
  • کفارنبیؐ سے سوال کرتے کہ بھلا ایسا کیسے ہوگا کہ ہم مر کھپ جائیں ، مٹی بن جائیں پھر اُٹھائے جائیں اور کیا ہمارے آباؤ اجداد بھی اُٹھائے جائیں گے؟    ان باتوں کا  جواب دیا جارہا ہے کہ ہاں بس ایک جھڑکی ہوگی اور سب کچھ ختم ہوجائے گا۔   اُس وقت تم اپنے آج کے کیے پر پچھتا رہے ہوگے۔  کیونکہ اسی فیصلے کے دن کو تم نے جھٹلایا تھا۔  پھر سب سے پوچھا جائے گا اب کیوں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔  اور انکی کیفیت یہ ہوگی کہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرکے جھگڑ رہے ہوں گے۔ 
  • جہنمیوں کا کھانا زقّوم ہوگا۔ زَقّوم ایک  درخت ہے ۔ مزہ اس کا نہایت کڑوا ہوتا ہے، بُو ناگوار ہوتی ہے، اور توڑنے پر اس میں سے دودھ جیسا  رس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورَم ہوجاتا ہے۔   یہ درخت جہنم کی تہہ سے نکلے گا  اور انکے پینے کےلیے کھولتا ہوا پانی ہوگا۔
  • اُس روز اللہ کے چنیدہ لوگ اس تمام کیفیت سے مامون ہونگے۔ انکو وافر مقدار میں من پسند رزق عطا کیا جائے گا جو ضرورت نہیں بلکہ ذائقہ کےلیے ہوگا۔  جنتوں میں وہ عزت کے ساتھ رکھے جائیں گے۔  انکی محفلیں لگیں گی اور ایک دوسرے کے حال احوال پوچھیں گے۔ 

نوح  علیہ السلام :    ( ۷۵ ۔۸۲):

  • حضرت نوحؑ کی قوم نے انکی بات کو مان کر نہیں دیا اور آخر کار انھوں نے اپنی مدد کے لیے  اپنے ربّ کو پکارا۔  اور اللہ نے انکی مدد کی اور انکار کرنے والوں پر زمین اور آسمان سے پانی برسا کر طوفان برپا کردیا اور ایسا تباہ و برباد کیا  کہ آج ان کا نام و نشان تک باقی نہ چھوڑا۔

ابراہیم علیہ السلام :    ( ۸۳ ۔۱۱۳):

  • آیت ۸۳ سے ۱۱۳ تک ابراہیم ؑ کا تذکرہ تفصیل سے ملتا ہے۔ جس میں بتایا گیا کہ ابراہیمؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو بتوں کی پوجا کرتے دیکھا تو اس سے منع کیا اور بتایا کہ تمھارے ارباب یہ نہیں بلکہ تمھارا ربّ تو وہ ہے جس نے زمین و آسمان پیدا کیے۔   اور انھیں خبردار کردیا کہ تمھاری غیر موجودگی میں ضرور تمھارے بتوں کی خبر لوں گا۔  چنانچہ جس دن وہ لوگ کسی تہوار کے منانے میں شہر سے باہر نکلے ہوئے تھے تو ابراہیمء انکے عبادت خانہ میں جاگھسے اور بتوں کو مختلف سمتوں سے توڑ پھوڑ دیا اور کلہاڑا سب سے بڑے بت کے کاندھے پر رکھ کر وہا ں سے چلے گئے۔  جب یہ لوگ واپس آئے اور اپنے معبودوں کی یہ حالات دیکھی تو سمجھ گئےکہ ضرور ابراہیمؑ نے کی ہوگی۔
  • چنانچہ ابراہیمؑ کو پکڑ کر لایا گیا اور پوچھا گیا کہ تم نے یہ حرکت کی ہے تو اُنھوں نے جواب دیا کہ اِن کے سرادار نے یہ کام کیا ہے جس کے کاندھے پر کلہاڑی بھی ہے۔ یہ سن کر وہ سب شرمندہ تو ہوئے لیکن ہٹ دھرمی زندہ باد۔  بولے تو جانتا ہے یہ بول نہیں سکتے۔  اس پر ابراہیمؑ نے کہا کہ “ پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ تُف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو ۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے ‘‘۔
  • انھوں نے  پھر ابراہیم ؑ کو سزا دینے کے لیے ایک بہت بڑا الاؤ روشن کیا گیا  اور   انھیں جلانے کی غرض سے اس میں پھینک دیا گیا۔    آگ کو جلانے کی قوت دینے والا اللہ ہے لہٰذا اُس نے فوراً حکم دیا ’’ اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم ؑ پر”۔
  • اب ابراہیمؑ نے اپنے گھر کو خیر باد کہا، بیوی سارہؑ اور اپنے بھتیجے لوطؑ کے ساتھ اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ عراق چھوڑا اور فلسطین کو اپنا مسکن بنا لیا۔   وہاں انھوں نے اللہ سے ایک صالح بیٹے کی دُعا کی  جبکہ آپکی عمر ۸۶ سے ۹۰ سال تھی اور آپکی اہلیہ حضرت حاجرہؑ بانجھ تھیں۔ جس کے جواب میں اُنھیں اسماعیل ؑ کی خوشخبری دی گئی۔
  • جب حضرت اسماعیلؑ لڑکپن کی عمر کو پہنچ گئے تو ایک دن حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ بیٹے کو ذبح کررہے ہیں۔
  • آپ ؑ نے اپنا خواب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو سنایا اور کہ بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں اب تم بتاؤ تمھارا کیاخیال ہے؟   چونکہ حضرت اسماعیلؑ ایک تو حضرت ابراہیم ؑ جیسے باپ کے بیٹے تھے اور سونے پہ سوہاگہ یہ کہ مستقبل کے نبی تھے۔ آپؑ نے فوراً جواب دیا کہ اے بابا آپ کو اللہ نے جو خواب دکھایا ہے اس کو سچ کر گزریے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔
  • آخر کو جب دونوں باپ بیٹے نے اپنا سرِ تسلیم خم کردیا تو حضرت نے  سیدہ حاجرہؑ سے کہا کہ اسماعیل کو تیار کردیں، ہم اپنے دوست سے ملنے جارہے ہیں۔  ماں نے اپنے بیٹے کو نہلا دُھلا کر نئے کپڑے پہنائے۔  اُس کا ماتھا چوما اور روانہ کردیا۔
  • ابراہیمؑ حضرت اسماعیلؑ کو مقتل گاہ یعنی منیٰ کی طرف لے چلے راستے میں شیطان آدھمکا اور حضرت اسماعیل ؑ کو بہکایا انھوں نے اپنے والد کو بتایا تو انھوں نے کنکری لے کر اللہ اکبر پڑھ کر اس کو ماری تو وہ زمین میں دھنـس گیا اور آگے بڑھے تو پھر یہی واقعہ ہوا پھر حضرت ابراہیمؑ نے اللہ اکبر پڑھا اور کنکری ماری اور وہ زمین میں دھنـس گیا، اور آگے بڑے پھر شیطان مردود آدھمکا اور ایک بار پھر حضرت ابراہیمؑ نے اللہ اکبر پڑھا اور کنکری ماری اور وہ زمین میں دھنس گیا پھر آپ اس جگہ پہنچے جہاں منیٰ میں جمرہ کے پاس قربان گاہ بنائی گئی ہے تاکہ اپنے بڑھاپے کے سہارے، منتوں اور ارمانوں کے مانگے، پاکیزہ، ہونہار اور بہادر بیٹا جو کہ پوری دنیا میں آپ کو سب سے پیارا تھا کو اس کی راہ میں ذبح کریں جو اس لخت جگر سے بھی زیادہ عزیز تھا ، یہ لخت جگر اس ہی کا عطا کیا ہوا تو تھا اگر اس نے اپنی امانت واپس لینے کا عندیہ دیا ہے تو پھر ھیل و ہجّت کیسی۔
  • آپ نے اپنے لخت جگر کو ماتھے کے بل لٹادیا تاکہ اتنے ارمانوں سے مانگے ہوئے بیٹے کے گلے پر چھری چلاتے وقت بوڑھے باپ کے ھاتھوں میں لرزہ نہ آجائے۔ روایات  میں ملتا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ نے ہی حضرت ابراہیمؑ سے کہا تھا کہ بابا مجھے آپ اُلٹا لِٹا دیجئے گاکہیں آپکی محبت کو جوش نہ آجائے، بابا میرے ہاتھ اور پیرباندھ دیجئے گا کہیں ایسا نہ ہوکہ میں تکلیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوں، بابا اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجئے گا ایسا نہ ہو آپکی پدرانہ محبت کو جوش آجائے۔
  • یہ وہ گھڑی تھی جب زمین و آسمان میں بسنے والی ھر مخلوق دنگ تھی کہ یہ آج کیا ہونے جارہا ہے، انھوں نے افسانے تو بہت سے سنے ہونگے لیکن حقیقی مشاہدہ کرنیکا اتفاق پہلی بار تھا، اس روز یقیناً اللہ تعالیٰ فخر سے ملائکہ سے کہہ رہا ہوگا کہ دیکھتے ہو تم انسان کو جسکے بارے میں مجھ سےپوچھتے کہ کیوں بناتا ہے اس کو کیا ہم تیری عبادت کے لئے کافی نہیں۔ یہ وہ وقت تھا زمین و آسمان میں بسنے والی ھر مخلوق کا دل دِھِل کر رہ گیا تھا اور شائد ہی کوئی آنکھ ایسی ہو جو اشک بار نہ ہو۔
  • پھر یکایک رحمت باری جوش میں آئی اور حضرت ابراہیم ؑ کو ندیٰ دی کہ اے ابراہیمؑ تو نے اپنا خواب سچ کردکھایا۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کی جگہ ایک مینڈھا یا دنبہ بھیج دیا اور حضرت ابرہیم ؑ کو اس درجہ پرفائز کیا جہاں تا قیامت کوئی اور نہیں پہنچ سکتا ۔ اللہ کو اپنے نبیؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس نے قیامت تک کے لئے اس کی قربانی کو زندہ و جاوید کردیا۔ اور انھیں انعام کے طور پر اسحاق   ؑ کی بشارت دی۔
  • اب جب تک یہ دنیا قائم ہے، یہ صبح و شام ہونے کا عمل قائم ہے، سردی اور گرمی کا موسم باقی ہے، جب تک یہ ستارے آسمان پر چمک رہے ہیں ، یہ درخت و سبزہ لہرا رہا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کروڑوں مسلمان ذی الحجّہ کی ۱۰ تاریخ سے ۱۲ تاریخ تک اپنے باپ ابراہیمؑ کی اس سنت کا اعادہ کرتے رہیں گے۔ چاہے یہ دنیا انھیں بنیاد پرست کہے، چاہے یہ دنیا انھیں دہشت گرد کہے، چاہے یہ دنیا انھیں کسی اور نام سے پکارے لیکن شمع رسالت کے یہ پروانے اپنی شمع کے گرد منڈلاتے رہیں گے ۔

تذکرۂ انبیاءؑ :

موسیٰ اور ہارون علیہ السلام  (۱۱۴۔۱۲۲):

  • آیت نمبر ۱۱۴ سے موسیٰ ؑ اور ہارونؑ کا قصہ شروع ہوتا ہے جو ۱۲۲ تک  چلتا ہے۔     اس کی تفصیل گزشتہ دروس میں بیان کی جاچکی ہے۔

الیاس علیہ السلام  (۱۲۳۔۱۳۲):

  • آیت نمبر ۱۲۳ سے الیاسؑ کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ ان کے مختصر احوال کچھ اس طرح ہیں کہ یہ شمالی اُردن کے قدیم مقام جِلْعاد کے رہنے والے تھے۔
  • حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رجُبْعام (Rehoboam) کی نااہلی کے باعث بنی اسرائیل کی سلطنت کے دو ٹکڑے ہوگئے تھے۔ ایک حصہ جو بیت المقدس اور جنوبی فلسطین پر مشتمل تھا، آل داؤدؑ کے قبضے میں رہا، اور دوسرا حصہ جو شمالی فلسطین پر مشتمل تھا اس میں ایک مستقل ریاست اسرائیل کے نام سے قائم ہوگئی اور بعد میں سامریہ اس کا صدر مقام قرار پایا۔ اگرچہ حالات دونوں ہی ریاستوں کے دگرگوں تھے، لیکن اسرائیل کی ریاست شروع ہی سے سخت بگاڑ کی راہ پر چل پڑی تھی جس کی بدولت اس میں شرک و بت پرستی، ظلم و ستم اور فسق و فجور کا زور بڑھتا چلا گیا۔ اس ریاست کا سربراہ اخی اب (Ahab) تھا جس نے ایک لبنانی مشرکہ سے شادی کرلی تھی۔
  • اسی دور میں حضرت الیاس (علیہ السلام) یکایک منظر عام پر نمودار ہوئے اور انہوں نے جِلْعاد سے آ کر اخی اب (Ahab) کو نوٹس دیا کہ تیرے گناہوں کی پاداش میں اب اسرائیل کے ملک پر بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسے گا، حتیٰ کہ اوس تک نہ پڑے گی۔ خدا کے نبی کا یہ قول حرف بحرف صحیح ثابت ہوا اور ساڑھے تین سال تک بارش بالکل بند رہی۔ آخر کار اخی اب (Ahab) کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے اور اس نے حضرت الیاسؑ کو تلاش کرا کے بلوایا۔ انہوں نے بارش کے لیے دعا کرنے سے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ اسرائیل کے باشندوں کو اللہ رب العالمین اور بَعْل (بُت کا نام) کا فرق اچھی طرح بتادیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے حکم دیا کہ ایک مجمع عام میں بعل کے پُجاری بھی آ کر اپنے معبود کے نام پر قربانی کریں اور میں بھی اللہ ربّ العالمین کے نام پر قربانی کروں گا۔ دونوں میں سے جس کی قربانی بھی انسان کے ہاتھوں سے آگ لگائے بغیر غیبی آگ سے بھسم ہوجائے اس کے معبود کی سچائی ثابت ہوجائے گی۔ اخی اب نے یہ بات قبول کرلی۔ چنانچہ کوہ کرمل (Carmel) پر بعل کے ساڑھے آٹھ سو پجاری جمع ہوئے اور اسرائیلیوں کے مجمع عام میں ان کا اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کا مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں بعل پرستوں نے شکست کھائی اور حضرت الیاس نے سب کے سامنے یہ ثابت کردیا کہ بعل ایک جھوٹا معبود ہے، اصل معبود وہی ایک اکیلا معبود ہے جس کے نبیؑ کی حیثیت سے وہ مامور ہو کر آئے ہیں۔
  • اس کے بعد حضرت الیاس نے اسی مجمع عام میں بعل کے پجاریوں کو قتل کرا دیا اور پھر بارش کے لیے دعا کی جو فوراً قبول ہوئی یہاں تک کہ پورا ملک اسرائیل سیراب ہوگیا۔
  • لیکن معجزات کو دیکھ کر بھی زن مرید اخی اب اپنی بت پرست بیوی کے شکنجے سے نہ نکلا۔ اس کی بیوی ایزبل حضرت الیاس کی دشمن ہوگئی اور اس نے قسم کھالی کہ جس طرح بعل کے پجاری قتل کیے گئے ہیں اسی طرح الیاس (علیہ السلام) بھی قتل کیے جائیں گے۔ ان حالات میں حضرت الیاس کو ملک چھوڑنا پڑا اور چند سال تک وہ کوہ سینا کے دامن میں پناہ گزیں رہے۔ بعد ازاں طبعی موت سے ان کا انتقال ہوا۔

لوط  علیہ السلام  (۱۳۳۔۱۳۸):

  • آیت نمبر ۱۳۳ سے موسیٰ ؑ اور ہارونؑ کا قصہ شروع ہوتا ہے جو ۱۳۸ تک  چلتا ہے۔     اس کی تفصیل گزشتہ دروس میں بیان کی جاچکی ہے۔

یونسؑ  علیہ السلام  (۱۳۹۔۱۴۸):

  • یونسؑ موصل کے علاقے میں نینویٰ کے لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے۔ یہ کافر و مشرک لوگ تھے۔ حضرت یونسؑ نے ان کو اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے اور بتوں کی پرستش چھوڑ دینے کی دعوت دی۔ انہوں نے انکار کیا اور جھٹلایا۔ حضرت یونسؑ نے ان کو خبر دی کہ تیسرے دن ان پر عذاب آجائے گا اور تیسرا دن آنے سے پہلے آدھی رات کو وہ بستی سے نکل گئے۔ پھر دن کے وقت جب عذاب اس قوم کے سروں پر پہنچ گیا ـــــــــ اور انہیں یقین ہوگیا کہ سب ہلاک ہوجائیں گے تو انہوں نے اپنے نبی کو تلاش کیا، مگر نہ پایا۔ آخر کار وہ سب اپنے بال بچوں اور جانوروں کو لے کر صحرا میں نکل آئے اور ایمان و توبہ کا اظہار کیا ــــــــ پس اللہ نے ان پر رحم کیا اور ان کی دعا قبول کرلی۔
  • بستی سے نکل کر حضرت یونسؑ جس کشتی میں سوار ہوئے تھے وہ اپنی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی (Overloaded) تھی۔
  • غالباً جب بحری سفر کے دوران میں یہ محسوس ہوا کہ بوجھ کی زیادتی کے سبب سے تمام مسافروں کی جان خطرے میں پڑگئی ہے۔ لہٰذا قرعہ اس غرض کے لیے ڈالا گیا کہ جس کا نام قرعہ میں نکلے اسے پانی میں پھینک دیا جائے۔
  • قرعہ میں حضرت یونسؑ ہی کا نام نکلا، وہ سمندر میں پھینک دیے گئے اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا۔
  • اس ابتلا میں حضرت یونسؑ اس لیے مبتلا ہوئے کہ وہ اپنے آقا (یعنی اللہ تعالیٰ ) کی اجازت کے بغیر اپنے مقام ماموریت سے فرار ہوگئے تھے۔
  • جب وہ مچھلی کے پیٹ میں پہنچے تو انہوں نے اللہ ہی کی طرف رجوع کیا اور اس کی تسبیح کی۔ سورة انبیا میں ارشاد ہوا ہے فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔
  • جب حضرت یونس (علیہ السلام) نے اپنے قصور کا اعتراف کرلیا اور وہ ایک بندہ مومن کی طرح اس کی تسبیح میں لگ گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے ان کو ساحل پر اُگل دیا۔ ساحل ایک چٹیل میدان تھا جس میں کوئی روئیدگی نہ تھی، نہ کوئی ایسی چیز تھی جو حضرت یونس (علیہ السلام) پر سایہ کرتی، نہ وہاں غذا کا کوئی سامان موجود تھا۔
  • وہاں کوئی ایسی بیل معجزانہ طریقہ پر پیدا کردی گئی تھی جس کے پتے حضرت یونس پر سایہ بھی کریں اور جس کے پھل ان کے لیے بیک وقت غذا کا کام بھی دیں اور پانی کا کام بھی۔
  • اللہ فرماتا ہے کہ” اس کے بعد ہم نے اسے ایک لاکھ، یا اس سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا” (مُراد یہ کہ اُس ہی بستی میں جہاں لاکھوں لوگوں کی آبادی تھی۔  وہ لوگ ایمان لائے اور پھر اللہ نے ایک خاص وقت تک انھیں باقی رکھا۔

سورۃ کا اختتام:

  • سورۃ کے آخر میں فرمایا گیا کہ ہم جو اپنے بھیجے ہوئے رسولوں اور مخلص بندوں سے وعدہ کرچکے ہیں کہ یقیناً اُن کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے۔ پس اے نبیؐ اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑ دو۔  ہمارا عذاب اُن (نافرمانوں ) کے صحن میں اُترے گا۔

سورۃ صٓ:

  • یہ سورة اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب نبی ﷺ نے مکہ معظمہ میں علانیہ دعوت کا آغاز کیا تھا اور قریش کے سرداروں میں اس پر کھلبلی مچ گئی تھی۔ اس لحاظ سے اس کا زمانہ نزول تقریباً نبوت کا چوتھا سال قرار پاتا ہے۔

تاریخی پس منظر :

  • جب ابو طالب بیمار ہوئے اور قریش کے سرداروں نے محسوس کیا کہ اب یہ ان کا آخری وقت ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ چل کر شیخ سے بات کرنی چاہیے۔ وہ ہمارا اور اپنے بھتیجے کا جھگڑا چکا جائیں تو اچھا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا انتقال ہوجائے اور ان کے بعد ہم محمدؐکے ساتھ کوئی سخت معاملہ کریں اور عرب کے لوگ ہمیں طعنہ دیں کہ جب تک شیخ زندہ تھا، یہ لوگ اس کا لحاظ کرتے رہے، اب اس کے مرنے کے بعد ان لوگوں نے اس کے بھتیجے پر ہاتھ ڈالا ہے۔
  • تقریباً 25 سرداران قریش، ابو طالب کے پاس پہنچے۔ ان لوگوں نے پہلے تو حسب معمول نبیؐ کے خلاف اپنی شکایات بیان کیں، پھر کہا ہم آپ کے سامنے ایک انصاف کی بات پیش کرنے آئے ہیں۔ آپ کا بھتیجا ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دے اور ہم اسے اس کے دین پر چھوڑے دیتے ہیں۔ وہ جس معبود کی عبادت کرنا چاہے کرے، ہمیں اس سے کوئی تعرض نہیں، مگر وہ ہمارے معبودوں کی مذمت نہ کرے اور یہ کوشش نہ کرتا پھرے کہ ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ اس شرط پر آپ ہم سے اس کی صلح کرا دیں۔
  • ابو طالب نے نبیؐ کو بلایا اور آپ سے کہا کہ بھتیجے، یہ تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ تم ایک منصفانہ بات پر ان سے اتفاق کرلو تاکہ تمہارا اور ان کا جھگڑا ختم ہوجائے۔ پھر انہوں نے وہ بات حضورؐ کو بتائی جو سرداران قریش نے ان سے کہی تھی۔ نبی نے جواب میں فرمایا، چچا جان، میں تو ان کے سامنے ایک ایسا کلمہ پیش کرتا ہوں جسے اگر یہ مان لیں تو عرب ان کا تابع فرمان اور عجم ان کا باج گزار ہوجائے  ،  زیادہ بہتر بات ہے یا وہ جسے تم انصار کی بات کہہ کر میرے سامنے پیش کر رہے ہو ؟
  • تمہاری بھلائی اس کلمے کو مان لینے میں ہے یا اس میں کہ جس حالت میں تم پڑے ہو اس میں تم کو پڑا رہنے دوں اور بس اپنی جگہ آپ ہی اپنے خدا کی عبادت کرتا رہوں ؟ ۔ یہ سن کر پہلے تو وہ لوگ سٹپٹا گئے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر کیا کہہ کر ایسے ایک مفید کلمے کو رد کردیں۔ پھر کچھ سنبھل کر بولے، تم ایک کلمہ کہتے ہو، ہم ایسے دس کلمے کہنے کو تیار ہیں، مگر یہ تو بتاؤ کہ وہ کلمہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔ اس پر وہ سب یک بارگی اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ باتیں کہتے ہوئے نکل گئے جو اس سورة کے ابتدائی حصے میں اللہ تعالیٰ نے نقل کی ہیں۔

موضوع اور مباحث :

  • اوپر جس مجلس کا ذکر کیا گیا ہے اسی پر تبصرے سے اس سورة کا آغاز ہوا ہے۔ کفار اور نبیؐ کی گفتگو کو بنیاد بنا کر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان لوگوں کے انکار کی اصل وجہ دعوت اسلامی کا کوئی نقص نہیں ہے بلکہ ان کا اپنا تکبر اور حسد اور اندھی تقلید  پر اصرار ہے۔ ان کے نزدیک توحید اور آخرت کا تخیل محض ناقابل قبول ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا تخیل ہے جس کا بس مذاق ہی اڑایا جاسکتا ہے۔
  • اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورة کے ابتدائی حصے میں بھی اور آخری فقروں میں بھی کفار کو صاف صاف متنبہ کیا ہے کہ جس شخص کا تم آج مذاق اڑا رہے ہو اور جس کی رہنمائی قبول کرنے سے تم کو آج سخت انکار ہے، عنقریب وہی غالب آ کر رہے گا اور وہ وقت دور نہیں ہے جب اسی شہر مکہ میں، جہاں تم اس کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو، اس کے آگے تم سب سرنگوں نظر آؤ گے۔
  • پھر پے در پے 9 پیغمبروں کا ذکر کر کے، جن میں حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کا قصہ زیادہ مفصل ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ بات سامعین کے ذہن نشین کرائی ہے کہ اس کا قانون عدل بالکل بےلاگ ہے، اس کے ہاں انسان کا صحیح رویہ ہی مقبول ہے۔
  • اس کے بعد فرماں بردار بندوں اور سرکش بندوں کے اس انجام کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو وہ عالم آخرت میں دیکھنے والے ہیں اور اس سلسلے میں کفار کو دو باتیں خاص طور پر بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ آج جن سرداروں اور پیشواؤں کے پیچھے جاہل لوگ اندھے بن کر ضلالت کی راہ پر چلے جا رہے ہیں، کل وہی جہنم میں اپنے پیروؤں سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں گے اور دونوں ایک دوسرے کو کوس رہے ہوں گے۔
  • آخر میں قصہ آدم و ابلیس کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس سے مقصود کفار قریش کو یہ بتانا ہے کہ محمدؐکے آگے جھکنے سے جو تکبر تمہیں مانع ہو رہا ہے وہی تکبر آدمؑ کے آگے جھکنے سے ابلیس کو بھی مانع ہوا تھا۔ خدا نے جو مرتبہ آدمؑ کو دیا تھا اس پر ابلیس نے حسد کیا اور حکم خدا کے مقابلے میں سرکشی اختیار کر کے لعنت کا مستحق ہوا۔ اسی طرح جو مرتبہ خدا نے محمدؐ کو دیا ہے اس پر تم حسد کر رہے ہو اور اس بات کے لیے تیار نہیں ہو کہ جسے خدا نے رسول مقرر کیا ہے اس کی اطاعت کرو، اس لیے جو انجام ابلیس کا ہونا ہے وہی آخر کار تمہارا بھی ہونا ہے۔

سورۃ الزمر :

  • سورۃ الزمر ایک مکی سورۃ ہے جو ہجرتِ حبشہ سے پہلے نازل ہوئی۔ زمر کے معنی گروہ در گروہ ہیں۔
  • اس سورۃ میں اہلِ حق کے لیے تسلی اور مخالفینِ حق کےلیے وعید سنائی گئی ہے۔
  • اس سورۃ کی مسلسل ایک صفت ہے کہ اس میں ہر آیت میں دونوں کرداروں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ ایک آیت میں اہلِ ایمان کی صفت جھلکتی ہے تو ساتھ ہی دوسری آیت میں اہلِ کفر کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔    گویا کہ ہر قاری کے سامنے کسوٹی رکھ دی گئی ہے۔
  • اہلِ کفر کا انجام آیت نمبر ۱۶ میں فرمایا گیا کہ ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے بھی چھائی ہوں گی اور نیچے سے بھی۔ آیت نمبر ۲۰ میں اس کے مدِّ مقابل متقیوں کا حال یوں بیان کیا  گیا کہ  “ان کے لیے بلند عمارتیں ہیں۔  منزل پر منزل بنی ہوئی ہے اور نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔
  • آیت ۲۲ میں اللہ والوں کا حال یوں بیان فرمایا کہ اللہ اُن کا سینہ اسلام کےلیے کھول دیتا ہے اور وہ اللہ کے نور کی روشنی میں چلتے ہیں جبکہ اللہ کے باغی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ نصیحت اُن پر مثبت اثر کرنے کی بجائے اُلٹا اُن کے دلوں کو مزید پتھر بنادیتی ہے۔
  • آیت نمبر ۲۷ میں فرمایا گیا کہ “ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح کی مثالوں کے ذریعے بات سمجھائی ہے تاکہ وہ ہوش میں آئیں”
  • آجکی آخری دو آیات میں اللہ نے ایک ایسی حقیقت بیان کی ہے، جس سے آنحضورﷺ کی عظمت بھی ٹپکتی ہے اور اس دنیا کی بے ثباتی اور فنا ہوجانے کا نقشہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ فرمایا گیا!  “(اے نبیﷺ ) تمہیں بھی مرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی مرنا ہے ۔ (30)   آخر کار قیامت کے روز تم سب اپنے رب کے حضور اپنا اپنا مقدمہ پیش کرو گے۔ (31)
  • گویا فیصلہ اگرچہ دُنیا میں بھی ہوسکتا ہے اور آنحضورﷺ کے دور میں وہ واضح طور پر سامنے آگیا تھا کہ حق کس کے ساتھ ہے اور جھوٹا کون؟ غلبہ کس کا مقدر ہے اور شکست و زوال کس کا نصیب؟  لیکن اس سب کے باوجود حقیقی فیصلہ روزِ قیامت ہی ہوگا۔

سورۃ کی اگلی آیات میں بھی یہ مضمون یونہی چلتا ہے۔  ان شاء اللہ اُن کا مطالعہ اسی تسلسل کے ساتھ کل جاری رہے گا۔

ان شاء اللہ اکیسویں  تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ

اکیسویں   تراویح

آج کی تراویح میں چوبیسواں  سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ  الزمر کے  باقی ماندہ حصے کی  ، سورۃ المومن مکمل، اور سورۃ حٓمٓ السجدۃ  مکمل  کی کی تلاوت کی جائے گی۔

اللہ اپنے بندے کےلیے کافی ہے      (۳۶۔۴۰):

  • کفارِ مکہ رسولؐ اللہ کو ڈرایا کرتے تھے کہ تم ہمارے دیوی دیوتاؤں کو بُرا بھلا کہتے ہو،  انکے غضب سے بچو۔  جس کا جواب اللہ نے انہی سے ایک سوال کرکے دیا ہے کہ زرا یہ تو بتاؤ کہ یہ زمین و آسمان کس نے پیدا کیے ہیں؟  تو فوراً کہیں گے اللہ نے۔     پھر اللہ نبی کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ ان سے کہو کہ میرے لیے میرا اللہ ہی کافی ہے۔

موت اور نیند (۴۲):

  • آیت نمبر ۴۲ میں موت کا نیند سے موازنہ کیا گیا ہے کہ نیند کی حالت میں انسان کے احساس و شعور، فہم و ادراک اور اختیار و ارادہ کی قوتیں معطل ہوجاتی ہیں۔  اور انسان مُردے کی مانند ہی ہوجاتا ہے۔  تاوقتیکہ وہ اُٹھ نہ جائے،  اور کئی ایسے ہوتے ہیں جو سو تو جاتے ہیں لیکن کبھی اُٹھنا اُن کو نصیب نہیں ہوتا اور حقیقی موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔    اور یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے۔

اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو (۵۳۔۵۹):

  • اس آیت سے پہلے ایک سلسلہ کلام چلا آرہا تھا کہ اللہ ہی ہے جو جزا و سزا کا مالک ہے، کل قیامت کے دن ہر انسان کے ایک ایک عمل کو اسکے سامنے کھول کر رکھ دے گا۔  اور جب وہ کسی کے حق یا خلاف فیصلہ فرمادے گا تو کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ اُسے تبدیل کراسکے۔  وہی اللہ مالکِ کل ہے رزق دیتا بھی ہے  اور اس میں تنگی کرنے والابھی وہی ہے۔   لیکن نبیؐ کو مخاطب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ !    ان ساری چیزوں کے باوجودمیرے نافرمان بندوں سے کہہ دو کہ “لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ  اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ اُس کی طرف پلٹ آؤ وہ سب گناہ معاف کردے گا۔  وہ تو غفور الرحیم ہے۔  لہٰذا پلٹ آؤ اپنے ربّ کی طرف اور اسکے مطیع بن جاؤ اور پیروی کرلو اسکی کتاب کی۔  بعد میں افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

آخری فیصلہ  (۶۷۔۷۵):

  • ان آیات میں قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور بتایا گیاکہ قیامت کے  روز پوری زمین اللہ کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے سیدے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ 
  • اُس روز صور پھونکا جائے گا اور سب مر کر گر جائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سوائے اُن کے جنہیں اللہ زندہ رکھنا چاہے۔ پھر ایک دوسرا صور پھونکا جائے گا اور یکایک سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔
  • زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی، کتابِ اعمال لا کر رکھ دی جائے گی، انبیاء اور تمام گواہ حاضر کردیے جائیں گے، لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔
  • اس فیصلے کے بعد وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا جہنم کی طرف گروہ در گروہ  ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے ۔    اور اس کے کارندے ان سے کہیں گے ‘’ کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے، جنہوں نے تم کو تمہارے ربّ کی آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایا ہو کہ ایک وقت تمہیں یہ دن بھی دیکھنا ہوگا ” ؟ وہ جواب دیں گے ‘’ ہاں، آئے تھے، مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر ثابت ہو کر رہا “(71)۔   انہیں کہا جائے گا کہ : جہنم کے دروازوں سے داخل ہوجاؤ تم ہمیشہ اس میں رہو گے تکبر کرنے والوں کے لیے یہ کیسا برا ٹھکانہ ہوگا (72)۔
  • اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنّت کی طرف لے جایا جائے گا ۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے ، تو اس کے منتظمین اُن سے کہیں گے کہ ’’سلام ہو تم پر ، بہت اچھے رہے داخل ہو جاؤ اِس میں ہمیشہ کے لیے ‘‘ (73) اور وہ کہیں گے ’’شکر ہے اُس معبود کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں‘‘ پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے ۔ (74)
  • اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد اور تسبیح کر رہے ہوں گے ۔ اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا ، اور پورا ماحول پکار رہا ہوگا کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔

سورۃ المومن ..یا..  غافر:

  • سورۃ المومن ایک مکی سورۃ ہے۔ اس سورۃ کو سورۂ  غافر کے نام سے بھی پکارا  جاتا ہے۔
  • جن حالات میں یہ سورة نازل ہوئی ہے وہ یہ تھے کہ!  کفار مکہ نے اس وقت نبی ؐکے خلاف دو طرح کی کاروائیاں شروع کر رکھی تھیں۔ ایک یہ کہ ہر طرف جھگڑے اور بحثیں چھیڑ کر، طرح طرح کے الٹے سیدھے سوالات اٹھا کر، اور نت نئے الزامات لگا کر قرآن کی تعلیم اور اسلام کی دعوت اور خود نبی ؐکے بارے میں اتنے شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کردیے جائیں کہ ان کو صاف کرتے کرتے آخر کار حضورؐ  اور اہل ایمان زچ ہوجائیں۔
  • دوسرے یہ کہ آپ کو قتل کرنے کی سازشیں کر رہے تھے، اور ایک مرتبہ تو عملاً انہوں نے اس کا اقدام کر بھی ڈالا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک روز نبیؐ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے۔ یکایک عقبہ بن ابی مُعَیط آگے بڑھا اور اس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اسے بل دینا شروع کردیا تاکہ گلا گھونٹ کر آپؐ کو مار ڈالے مگر عین وقت پر حضرت ابوبکر پہنچ گئے اور انہوں نے دھکا دے کر اسے ہٹا دیا۔ حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ جس وقت ابوبکر صدیق اس ظالم سے کشمکش کر رہے تھے اس وقت ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَ بِّیَ اللہ (کیا تم ایک شخص کو صرف اس قصور میں مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ؟ ) ۔
  • قتل کی سازشوں کے جواب میں مومن آل فرعون کا قصہ سنایا گیا ہے ( آیت 23 تا 55)۔ اس قصے کے پیرائے میں ۳ گروہوں کو تین مختلف سبق دیے گئے ہیں۔
  • کفار کو بتایا گیا ہے کہ جو تم محمدؐ کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو یہی کچھ اپنی طاقت کے بھروسے پر فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کرنا چاہتا تھا، اب کیا یہ حرکتیں کر کے تم بھی اسی انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو جس سے وہ دوچار ہوا ؟
  • نبیؐ اور آپؐ کے ماننے والوں کو یہ سبق دیا گیا کہ یہ ظالم بظاہر خواہ کتنے ہی طاقتور ہوں،   اور  تم خواہ کتنے ہی کمزور اور بےبس ہو، مگر تمہیں یقین رکھنا چاہیے کہ جس اللہ کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے تم اُٹھے ہو اُس کی طاقت ہر دوسری طاقت پر بھاری ہے۔
  • ان دو گروہوں کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی معاشرے میں موجود تھا، اور وہ اُن لوگوں کا گروہ تھا جو دلوں میں جان چکے تھے کہ حق محمدؐ کے ساتھ ہے ۔ مگر یہ جان لینے کے باوجود وہ خاموشی کے ساتھ حق و باطل کی اس کشمکش کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر ان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ جب حق کے دشمن علانیہ تمہاری آنکھوں کے سامنے اتنا بڑا ظالمانہ اقدام کرنے پر تل گئے ہیں تو حیف ہے تم پر اگر اب بھی تم بیٹھے تماشا ہی دیکھتے رہو۔ اس حالت میں جس شخص کا ضمیر بالکل مر نہ چکا ہو اسے تو اٹھ کر وہ فرض انجام دینا چاہیے جو فرعون کے بھرے دربار میں اس کے اپنے درباریوں میں سے ایک راستباز آدمی نے اس وقت انجام دیا تھا جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنا چاہا تھا۔
  • دوسری آیت میں قرآن پاک کا تعارف کراتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نازل کردہ ہے۔
  • تیسری آیت میں باری تعالیٰ کی صفات کا بہت خوبصورت پیرائے میں ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ وہ  غَافِرِ الذَّنْۢبِ یعنی گناہوں کو بخشنے والا ہے،  وَقَابِلِ التَّوْبِیعنی توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔  اور جو توبہ کرکے اپنے گناہوں کو نہ بخشوا لے تو پھر وہ ربّ شَدِيْدِ الْعِقَابِ یعنی سخت ترین عذاب دینے والا بھی ہے۔  لہٰذا اُس کی طرف پلٹو تاکہ تم پر وہ اپنا فضل کرے کیونکہ فضل کرنا اُس کی خاص صفت ہے۔  اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔  اُسی کی طرف سب کو پلٹ کر واپس جانا ہے۔  کوئی جانا چاہے تب بھی جانا ہے اور نہ چاہے تب بھی اُسی کے پاس جانا ہے۔

کفار کے ٹھاٹ باٹ محض ایک دھوکہ ہیں (۴):

  • بتایا گیا کہ کافر دنیاوی اعتبار سے کتنے ہی کامیاب نظر آئیں، کتنے ہی متمول نظر آئیں لیکن ایمان والوں کے ایمان ، کفار کے دنیاوی ٹھاٹھ باٹ اور جاہ و منصب دیکھ کر ڈگمگانا نہیں چاہیئں۔  یہ تو چند دن کی زندگی ہے جو محض دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔  اصل کامیابی اُخروی کامیابی ہے،  وہ جس کو مل گئی وہی کامیاب ہو کر ہمیشگی کے انعامات  کا مستحق ٹہرے گا۔

اہلِ ایمان کے لیے خوشخبری (۷۔۹):

  • اہلِ ایمان کو خوشخبری دی گئی کہ عرشِ الٰہی اور اُس کے آس پاس خدمات انجام دینے والے فرشتے جو ہر وقت اپنے ربّ کی پاکی بیان کررہے ہیں ، اہلِ ایمان کے حق میں دُعائے مغفرت  کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پروردگار تو اِن لوگوں کی لغزشوں کو معاف کردے ، انکی توبہ کو قبول کرلے،  انھیں جہنم کی آگ سے بچا لے،  داخل کردے انھیں، انکے نیکوں کار والدین، بیویوں اور اولاد کو اپنی جنت میں۔  ساتھ ہی انھیں برائیوں سے بچائے رکھ۔

اہلِ کُفر کےلیے وعید (۱۰۔۱۲):

  • قیامت کے دن کفار کو پکارتے ہوئے کہا جائے گا کہ جیسے آج تمھیں اپنے آپ پر تعذیب سہتے ہوئے غصہ آرہا ہے۔ جب تم دنیا میں تھے تو تمھاری حرکتوں پر اللہ کو اس سے کہیں زیادہ غصّہ آیا کرتا تھا۔   تب وہ کہیں گے اے ربّ آج ہمیں یقین آگیا کہ تو نے واقعی ہمیں ۲ بار موت دی اور ۲ بار زندگی دی۔  کیونکہ انسان مردہ تھا یعنی اس کا وجود نہیں تھا ربّ نے اُسے دنیا میں پیدا کیا،  پھر اُسے دوبارہ دینا میں موت دے دی،  اور پھر آخرت میں زندہ کردیا گیا۔  وہ کہیں گے بس ایک بار مولا واپس دنیا میں جانے دے، تیری کوئی نافرمانی نہیں کریں گے۔    (جواب ملے گا) ’’ یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو ، اس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتاتو تم مان لیتے تھے۔ اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے۔ ‘‘

بادشاہی کس کی ہے؟ (۱۳۔۲۰):

  • وہ اللہ اپنی بے پایاں نعمتوں کا نزول کرکے دنیا میں عقل رکھنے والوں کو دعوتِ فکر دیتا رہتا ہے۔ اس لیے کہ وہ تمام دنیاوی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر حق کو حق اور باطل کو باطل کہیں  چاہے کافروں کو کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے۔  کیونکہ جواب دہی سب نے آخر کار آخرت ہی میں کرنی ہے۔  جس دن سب لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے ربّ کے سامنے بے پردہ ہونگے اور اللہ پوچھے گا دنیا میں گردن اکڑا کر چلنے والو،  اپنی مرضی کے قانون چلانے والو زرا بتاؤ تو سہی!!!                آج بادشاہی کی ہے؟  اُس وقت سب پکار اُٹھیں گے “اللہ واحدِ قہار کی”۔  اُس روز وہ بادشاہ ہر متنفس کے ساتھ پورا پورا انصاف کرے گا،  جس نے جو کمایا ہوگا مزدوری میں وہی اُسے ملے گا۔  اُس کسی کی مزدوری میں زرّہ برابر بھی کوئی تبدیلی نہیں کروا سکے گا، کسی کی کوئی سفار ش نہیں چلے گی کیونکہ اللہ تو دلوں کے بھید اور آنکھوں کی چوری کا حساب بھی کرے گا جو اُسکے سوا کسی کو نہیں معلوم۔

ان حالات سے موسیٰ علیہ السلام  بھی گزر چکے ہیں:

  • فرمایا گیا اے نبیؐ ان کفار کے جھگڑوں، بحثوں، الٹے سیدھے سوالات ، نت نئے الزامات اور اپنے خلاف قتل کی سازش سے  دلبرداشتہ نہ ہو۔  یہ صرف تمھارے ساتھ نہیں رہا۔  تم سے پہلے موسیٰ     ؑ کو بھی ہم نے بھیجا تھا تو اُس کے ساتھ بھی فرعون اور آلِ فرعون نے ایسا ہی کیا تھا۔  آج جس طرح ابوبکرؓ نے آپ کو ظالم کے چنگل سے  چھڑانے کے لیے ان کفار کی تعذیب برداشت کی ہے کل موسیٰ    ؑ کے قتل کی سازشوں کے خلاف فرعون کے دربار میں آواز اُٹھانےپر “مومن نامی فرد” کے ساتھ بھی یہی ہوچکا ہے۔ جس طرح تمھارے خلاف اللہ انکی ہر چال کو ناکام کرے گا اسی طرح موسیٰ   ؑ کے خلاف ہر چال کو ناکام کرچکا ہے اور بالآخر غرق فرعون اور اسکی آل ہی ہوئی۔

خسارے کا سودا کرنے والے:

  • آخری رکوع میں انسان کو اسکی تخلیق کی طرف متوجہ کیا گیا اور فرمایا ہے کہ اُن ساری منازل اور مراحل کو دیکھ کر تمھیں حقیقت کو پالینا چاہیے۔ کائنات کا خالق و مالک ہی زندگی، موت اور تمام اُمور پر قادر ہے۔  جانور تمھارے لیے پیدا کیے جن سے تم نفع حاصل کرتے ہو۔  سابقہ اقوام بڑی طاقتور، اور شان دار تہذیب و تمدن کی خالق تھیں، مگر اللہ سے رو گردانی کرکے تباہ ہوگئیں۔    فرمایا گیاکہ غلط کار لوگ اور کفار خسارے کا سودا کرتے ہیں، خسارہ ہی اُن کا مقدر ہوگا۔

سورۃ حٰمٓ السجدہ ..یا .. فُصِّلَت:

  • یہ ایک مکی سورۃ ہے اور مکہ کے بھی اُس دور کی جب سید الشہداء حضرت حمزہؓ ایمان لاچکے تھے اور حضرت عمرؓ بن خطاب اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔

سورۃ کا پس منظر:

  • ایک دفعہ قریش کے کچھ سردار مسجد حرام میں محفل جمائے بیٹھے تھے اور مسجد کے ایک دوسرے گوشے میں رسول اللہ ﷺ تنہا تشریف رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت حمزہؓ ایمان لا چکے تھے اور قریش کے لوگ مسلمانوں کی جمعیت میں روز افزوں اضافہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ اس موقع پر عتبہ بن ربیعہ (ابو سفیان کے خسر) نے سرداران قریش سے کہا کہ صاحبو!  اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمدؐ سے بات کروں اور ان کے سامنے چند تجویزیں رکھوں، شاید کہ وہ ان میں سے کسی کو مان لیں اور ہم بھی اسے قبول کرلیں اور اس طرح وہ ہماری مخالفت سے باز آجائیں۔
  • چنانچہ عتبہ اٹھ کر نبیؐ کے پاس جا بیٹھا۔ آپؐ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا ” بھتیجے، تم اپنی قوم میں اپنے نسب اور خاندان کے اعتبار سے جو حیثیت رکھتے ہو وہ تمہیں معلوم ہے۔ مگر تم اپنی قوم پر ایک بڑی مصیبت لے آئے ہو۔ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بیوقوف ٹھہرایا۔ قوم کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ اور ایسی باتیں کرنے لگے جن کے معنی یہ ہیں کہ ہم سب کے باپ دادا کافر تھے۔ اب ذرا میری بات سنو۔ میں کچھ تجویزیں تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ ان پر غور کرو۔ شاید کہ ان میں سے کسی کو تم قبول کرلو “۔
  • اس نے کہا، ” بھتیجے، یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے، اس سے اگر تمہارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم سب مل کر تم کو اتنا کچھ دیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ۔
  • اگر اس سے اپنی بڑائی چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں۔
  • اگر تم پر کوئی جن آتا ہے جسے تم خود دفع کرنے پر قادر نہیں ہو تو ہم بہترین اطبا ءبلواتے ہیں اور اپنے خرچ پر تمہارا علاج کراتے ہیں۔
  • عتبہ کی باتیں مکمل ہونے پر آپؐ نے فرمایا، ابوالولید آپ کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے ؟ اس نے کہا، ہاں۔ ، آپؐ نے فرمایا اچھا، اب میری سنو۔
  • آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر اسی سورة کی تلاوت شروع کی اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ آیت سجدہ (آیت 38) پر پہنچ کر آپؐ نے سجدہ کیا، پھر سر اٹھا کر فرمایا، ” اے ابوالید، میرا جواب آپ نے سن لیا، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ “
  • عتبہ اٹھ کر سرداران قریش کی مجلس کی طرف چلا تو لوگوں نے دور سے اس کو دیکھتے ہی کہا، معبود کی قسم، عتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے، یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر یہ گیا تھا۔ پھر جب وہ آ کر بیٹھا تو لوگوں نے کہا : کیا سن آئے ؟ اس نے کہا : ” بمعبود، میں نے ایسا کلام سنا کہ کبھی اس سے پہلے نہ سنا تھا۔ معبود کی قسم، نہ یہ شعر ہے، نہ سحر ہے نہ کہانت۔ اے سرداران قریش، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلام کچھ رنگ لا کر رہے گا۔ فرض کرو، اگر عرب اس پر غالب آگئے تو اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے تم بچ جاؤ گے اور دوسرے اس سے نمٹ لیں گے۔ لیکن اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی، اور اس کی عزت تمہاری عزت ہی ہوگی۔ ” سرداران قریش اس کی یہ بات سنتے ہی بول اٹھے، ” ولید کے ابا، آخر اس کا جادو تم پر بھی چل گیا۔ ” عتبہ نے کہا، میری جو رائے تھی وہ میں نے تمہیں بتادی، اب تمہارا جو جی چاہے کرتے رہو (ابن ہشام، جلد 1، ص 313 ۔ 314)

تعارفِ قرآن (۲۔۴):

  • یہ قرآن رحمٰن ورحیم کی جانب سے نازل کردہ ہے ، عربی اسکی زبان ہے، واضح نشانیاں اس میں بیان کی گئی ہیں۔   اچھے اعمال پر کامیابی کی خوشخبری دینے والا اور ربّ کی نافرمانیوں پر خبردار کرنے والا ہے۔  لیکن اکثر اس سے رو گردانی کرتے  ہیں۔

عتبہ کی پیشکش کا جواب :

  • عتبہ کی بات کو دھرایا گیا کہ “ کہتے ہیں ’’ جس چیز کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں، ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں، اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا ہے ۔ تو اپنا کام کر، ہم اپنا کام کیے جائیں گے ۔ جواباً نبیﷺ سے کہلوایا جارہا ہے کہ “اے نبی ﷺ ، ان سے کہو ، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسامجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا معبود تو بس ایک اللہ ہے ، لہٰذا تم سیدھے اُسی کا رخ اختیار کرو، اور اس سے معافی چاہو ۔ تباہی ہے اُن مشرکوں کے لیے (6) جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔  پھر مسلسل تین رکوعوں تک یہ تقریر چلتی ہے جس میں گزری ہوئی مغضوب قوموں اور  انکی تباہی کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے۔

انسان کے اعضاء کی گواہی:

  • تیسرے رکوع میں فرمایا گیا کہ اُس روز گواہیاں خارجی بھی ہونگی، لیکن داخلی گواہی سب سے معتبر ہوگی اور وہ یہ کہ انسانوں کی آنکھیں، کان، ناک، اور جسم کے دیگر اعضاء اُن کے حق میں یا مخالفت میں گواہی دیں گے۔  اور ہو سکتا ہے پوری گزری ہوئی زندگی کی فلم چلادی جائے۔  تاکہ اُن کے پاس انکار کا کوئی جواز باقی نہ رہے۔

قرآن کی حقانیت اور اہلِ ایمان (۳۰۔۳۲):

  • کافر اور منکرینِ حق قرآن کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے اورآج بھی یہی کیفیت ہے۔ یہ قرآن پیغامِ ربّانی ہے، ہدایتِ کامل ہے اور جامع نظام پیش کرتا ہے۔  انسان اُس کی طرف رُجوع کرے تو شیطان اور طاغوت کی چالیں ناکام ہوجائیں۔   اسی لیے شیطان اور شیطانی قوتیں لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچنے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔  چوتھا رکوع اسی موضوع سے متعلق ہے۔  رکوع کے آخر میں مومنین کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ اللہ کو اپنا ربّ  تسلیم کرلینے کے بعد اس پر ثابت قدم ہوجاتے ہیں۔  ایسے لوگوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ “نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے (۳۰)  ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی ۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی،(۳۱) یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے۔‘‘ (۳۲)

دعوت اور داعی (۳۳۔۳۵):

  • اہل ایمان کو تسکین دینے اور ان کی ہمت بندھانے کے بعد اب ان کو ان کے اصل کام کی طرف رغبت دلائی جا رہی ہے۔  اور وہ یہ کہ تم خوب نیک عمل کرو، اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلاؤ، اور شدید مخالفت کے ماحول میں بھی، جہاں اسلام کا اعلان و اظہار کرنا اپنے اوپر مصیبتوں کو دعوت دینا ہے، ڈٹ کر کہو کہ میں مسلمان ہوں۔
  • بتایا گیا کہ نیکی اور بدی کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے مقابلے میں سمجھایا جارہا ہے کہ بدی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ بدی بالآخر بدی کرنے والے کا ہی بھٹہ بٹھا دیتی ہے۔ لہذا داعی الیٰ اللہ کو بدی کا جواب کبھی بدی سے نہ دینا چاہیے۔ اور اس سے اگلا اقدام یہ ہونا چاہیے کہ اس کی بدی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ اس طرح دشمن خود شرمندہ ہوگا ۔     وہ آپ کے خلوص اور آپ کی خیرخواہی اور راست بازی کا معتقد ہوجائے گا حتیٰ کہ آپ کی مخالفت چھوڑ کر آپ کے ساتھ آملے گا اور آپ کا جگری دوست بن جائے گا۔
  • برائی کا جواب اچھائی سے دینے کا کام کوئی بچوں کا کھیل نہیں بلکہ بڑے حوصلہ اور دل گردہ کا کام ہے۔ اور ایسے کام وہی کرسکتا ہے جو بڑا صاحب ِعزم اور عالی حوصلہ ہو۔ ایسے لوگ سب سے بہتر ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔  ایسا کرنے کی  راہ میں یقیناً شیطان آڑے آتا ہے ،  جب ایسا ہو تو اس کو زیر کرنے کا بہترین نسخہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی پناہ میں آجانا چاہیے تاکہ وہ اپنے عزائم میں ناکام ہوجائے۔

ایک زبردست کتاب (۴۱۔۴۶):

  • ان آیات میں بتایا گیا کہ قرآن ایک ایسی زبردست کتاب ہے  جس میں باطل نہ سامنے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔ 
  • سامنے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پر براہ راست حملہ کر کے اگر کوئی شخص اس کی کسی بات کو غلط اور کسی تعلیم کو باطل و فاسد ثابت کرنا چاہے تو اس میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
  • پیچھے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کوئی حقیقت و صداقت ایسی منکشف نہیں ہو سکتی جو قرآن کے پیش کردہ حقائق کے خلاف ہو، کوئی علم ایسا نہیں آسکتا جو فی الواقع ” علم ” ہو اور قرآن کے بیان کردہ علم کی تردید کرتا ہو، کوئی تجربہ اور مشاہدہ ایسا نہیں ہوسکتا جو یہ ثابت کر دے کہ قرآن نے عقائد، اخلاق، قانون، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست و تمدن کے باب میں انسان کو جو رہنمائی دی ہے وہ غلط ہے۔ اس کتاب نے جس چیز کو حق کہہ دیا ہے وہ کبھی باطل ثابت نہیں ہو سکتی اور جسے باطل کہہ دیا ہے وہ کبھی حق ثابت نہیں ہو سکتی۔

 

یہ سورۃ  ابھی جاری ہے  ان شاء اللہ اُس کا مطالعہ اسی تسلسل کے ساتھ کل جاری رہے گا۔

ان شاء اللہ بائیسویں  تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ

بائیسویں   تراویح

آج کی تراویح میں پچیسواں  سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ  حٰمٓ السجدہ کے باقی ۸ آیات (۴۷۔۵۴)،   سورۃ الشوریٰ، 

 سورۃ الزخرف، سورۃ الدخان اور سورۃ  الجاثیہ کی تلاوت کی جائے گی۔

قیامت کا علم      (۴۷۔۴۸):

  • ان آیات میں فرمایا گیا کہ اللہ عالم الغیب ہے اور قیامت کا علم صرف اسی کو ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ شگوفوں سے نکلنے والے پھلوں کو جانتا ہے،  حاملہ ہونے والی مادّہ کو جانتا ہے۔  اُس روز اللہ مشرکین سے اُن شریکوں کے بارے میں سوال کرے گا جن کو وہ اللہ کا شریک ٹہراتے تھے اور وہ بے بس ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھیں گے اور کہیں گےہم  آج اپنے مؤقف کا ثبوت لانے سے قاصر ہیں۔

انسانی فطرت (۴۹۔۵۲):

  • ان آیات میں انسان کی اُس فطرت کا ذکر کیا گیا کہ جب انسان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ کی طرف دیکھتا ہے، اور جب یہ ٹل جاتی ہے تو اسے  اپنی کاوش قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اسی کا مستحق تھا۔  وہ اس گمان میں بھی رہتا ہے کہ قیامت کے دن بھی اسی طرح عیاشیوں سے رہوں گا۔   لیکن یہ سب اسکی خام خیالی ہے۔  وہاں اپنے اعمال کی مناسبت سے وہ صلہ پائے گا۔
  • جو لوگ اپنے رب کی ملاقات میں شک کرتے ہیں، آخری آیت میں فرمایا گیا! آگاہ رہو کہ اللہ ہر چیز پر محیط ہے۔ تمھیں اُس کے سامنے حاضر ہونا ہوگا۔  بھاگ جانے کی کوئی جگہ نہیں۔

سورۃ الشوریٰ:

  • اس سورۃ کے مضمون سے لگتا ہےکہ یہ سورۃ حٰمٓ السجدہ کے بعد ہی نازل ہوئی ہوگی۔

مقصدِ نزولِ قرآن (۷۔۸):

  • قرآنِ حکیم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ سب سے پہلے اُم القریٰ (مکہ مکرمہ) اور اُس کے آس پاس کے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے خبردار کیا جائے۔ پھر ساری دُنیا تک اِس پیغام کو پہنچایا جائے۔   قیامت کے بارے میں کفار شک میں پڑے ہوئے ہیں تو اے نبیؐ انھیں بتا دو کہ اس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے اور پھر اُس دن فیصلہ ہوجائے گا کہ اللہ کے وفادار بندوں نے جنت میں جانا ہے اور نافرمانوں نے جہنم کا ایندھن بننا ہے۔

اقامتِ دین کا حکم (۱۳):

  • اس آیت میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ محمدؐ کسی نئے مذہب کے بانی نہیں ہیں، نہ انبیاء میں سے کوئی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی گزرا ہے، بلکہ اللہ کی طرف سے ایک ہی دین ہے جسے شروع سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آ رہے ہیں، اور اسی کو محمدؐ بھی پیش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوحؑ  کا نام لیا گیا ہے ، اس کے بعد نبی ؐ کا ذکر کیا گیا ہے جو آخری نبیؐ ہیں، پھر حضرت ابراہیم ؑ کا نام لیا گیا ہے جنہیں اہل عرب اپنا پیشوا مانتے تھے، اور آخر میں حضرت موسی    ٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑکا ذکر کیا گیا ہے جن کی طرف یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کو منسوب کرتے ہیں۔ اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ انہی پانچ انبیاء کو اس دین کی ہدایت کی گئی تھی۔ بلکہ اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں، سب ایک ہی دین لے کر آئے ہیں، اور نمونے کے طور پر ان پانچ جلیل القدر انبیاء کا نام لے دیا گیا ہے جن سے دنیا کو معروف ترین آسمانی شریعتیں ملی ہیں۔

جامع ہدایت (۱۵):

  • اس ایک آیت میں حضورؐ کو جامع ہدایت دی گئی ہیں جو کچھ اس طرح ہیں:
  1. دعوت، دین  کی طرف دی جائے گی۔
  2. اس مشکل کام میں استقامت دکھائی جائے گی۔
  3. باطل کی اندھی قوت جتنا زور لگالے ، اہلِ حق اُن کی خواہشات کی پیروی نہ کریں گے۔
  4. ہر چیز کا فیصلہ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے لیا جائے گا۔
  5. اللہ کے رسولؐ خود اور اُن کا ہر پیرو اس بات کا پابند ہے کہ وہ عدل و انصاف قائم کرے۔
  6. اللہ کو کوئی مانے یا نہ مانے سب کا ربّ وہی ہے۔
  7. ہر نیک و بد اپنے اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔
  8. ایک روز سب کو اللہ کے سامنے جواب دہی کےلیے حاضر ہونا ہے۔

دنیا کے طلبگار اور آخرت کے خریدار (۲۰):

  • اس آیت میں دو آدمیوں کے طرز زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ جن میں سے ایک تو روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور دوسرا اس سے منکر ہے اور سب کچھ اسی دنیا کو ہی سمجھتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص جو کام بھی کرے گا آخرت کے لیے کرے گا اور آخرت کے مفاد کو دنیا کے مفاد پر ترجیح دے گا۔
  • ایسا شخص جو کچھ بھی اس دنیا کی کھیتی میں آخرت کے دن پھل کاٹنے کے لیے بوئے گا اللہ تعالیٰ اس میں بہت زیادہ اضافہ کر دے گا۔ اور دنیا میں جتنا رزق یا جتنی بھلائی اس کے مقدر میں ہے وہ بھی اسے مل کے رہے گی۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص روزآخرت کا منکر ہے اور بس دنیا ہی دنیا کا مال اور بھلائی چاہتا ہے۔ وہ خواہ کتنی ہی کوشش کر دیکھے اسے اتنی ہی دنیا میں ملے گی جتنی اس کے مقدر میں ہے اس سے زیادہ نہیں۔ رہا اس کی آخرت کا معاملہ تو اگر اس نے دنیا میں کچھ نیک کام کئے بھی ہوں گے تو ان کا اسے کچھ بدلہ نہ ملے گا ۔ کیونکہ وہ کام اس نے اس نیت سے کیے ہی نہیں تھے کہ ان کا آخرت میں اسے کچھ بدلہ ملے، نہ ہی اس کا آخرت پر کچھ یقین تھا۔

رزق محدود کیوں؟ (۲۷):

  • اس آیت میں بتایا گیا کہ اگر اللہ چاہتا تو اپنے بندوں کو کھلا رزق دے دیتا ، لیکن ہوتا کیا کہ یہ انسان سرکشی کا ایک طوفان برپا کردیتے اسی لیے اللہ ایک حساب سے رزق نازل کرتا ہے۔ آج دنیا میں اس خرابی کو عام دیکھا جاسکتا ہے ۔  تمام انسان او ر ممالک معاشی آسودگی ہی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔  آج دنیا میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جو ملک معاشی طور پر زیادہ مضبوط ہے وہی دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھتا ہے۔  اسی طرح جس فرد کے پاس پیسے کی فراوانی ہوتی ہے وہ اپنے نیچے والوں کو بھول جاتا ہے ۔  الا ماشاء اللہ

اللہ کی زندہ و جاوید نشانیاں (۲۸۔۳۵):

  • ان آیات میں اللہ کی آیات کا ذکر ملتاہے کہ
  • بارش کا برسانا                 ) جس سے بندوں کی حاجات و ضروریات کا انتظام کرتا ہے)
  • زمین و آسمان کی پیدائش
  • زمین و آسمان میں پیدا کردہ مخلوق (مختلف سیاروں پر بھی جاندار مخلوق موجود ہیں۔  جس طرح رب نے انھیں تخلیق کیا اسی طرح ایک دن جمع کرلیگا)
  • بحری جہازوں کا سمندروں میں چلنا (اللہ چاہے تو غرق کردے اور سائنس منہ دیکھتی رہ جائے،    عظیم مثال TITANIC کی ہے)

اہل ایمان کی چند صفات (۳۶۔۴۰):

فرمایا گیا کہ  جو کچھ بھی تمھیں دیا گیا ہے وہ محض چند روزہ زندگی کا سرو سامان ہے،  اور جو اللہ کے یہاں ہے وہی بہتر ہے اور اُن لوگوں کے لیے پائیدار بھی جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔     اُن ایمان والوں کی صفات کچھ اس طرح ہیں:

  • اپنے ربّ پر بھروسہ کرتے ہیں۔
  • بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں۔
  • غصہ آئے تو درگزر کرتے ہیں۔
  • اپنے ربّ کا حکم مانتے ہیں۔
  • نماز قائم کرتے ہیں۔
  • آپس کے معاملات باہمی مشاورت سے چلاتے ہیں۔
  • اللہ نے جو رزق دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
  • جب اُن پر زیادتی کی جاتی ہے تو مقابلہ کرتے ہیں۔

ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت (۴۱۔۴۲):

  • ظلم کا بدلہ لینے اجازت آیت نمبر ۴۱ میں دی گئی لیکن اپنے حق سے زیادہ مطالبہ ناانصافی سے تعبیر کیا گیا۔ تاہم اللہ کے نبیؐ نے اپنی ذات کےلیے کبھی بدلہ نہیں لیا،  البتہ اللہ کی حدود قائم کرنے میں کسی سے رعایت نہیں کی۔

اولاد کی نعمت اورانسان کی بے بسی(۴۹۔۵۰):

  • زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں اور جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کردی گئی ہے، نہ کسی نبی یا ولی یا دیوی اور دیوتا کا اس میں کوئی حصہ ہے، بلکہ اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ دیگر اُمور کی طرح اولاد جیسی نعمت دینے میں بھی  آزاد ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے۔
  • یہ اللہ کی بادشاہی کے مطلق (Absolute) ہونے کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے۔ کوئی انسان، خواہ وہ بڑے سے بڑے دنیوی اقتدار کا مالک بنا پھرتا ہو، یا روحانی اقتدار کا مالک سمجھا جاتا ہو، کبھی اس پر قادر نہیں ہوسکا ہے کہ دوسروں کو دلوانا تو درکنار، خود اپنے ہاں اپنی خواہش کے مطابق اولاد پیدا کرسکے۔ جسے اللہ نے بانجھ کردیا وہ کسی دوا ، کسی علاج  اور کسی تعویذ گنڈے سے اولاد      والا     نہ بن سکا، جسے اللہ نے لڑکیاں ہی لڑکیاں دیں وہ ایک بیٹا بھی کسی تدبیر سے حاصل نہ کرسکا، اور جسے اللہ نے لڑکے ہی لڑکے دیے وہ ایک بیٹی بھی کسی طرح نہ پاسکا۔ اس معاملہ میں ہر ایک قطعی بےبس رہا ہے۔یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کوئی اللہ کی بادشاہی  میں مختارِ کُل ہونے کا زعم کرے، یا کسی دوسری ہستی کو اختیارات میں دخیل سمجھے تو یہ اس کی اپنی ہی بےبصیرتی ہے جس کا خمیازہ وہ خود بھگتے گا۔ کسی کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی تغیر واقع نہیں ہوتا۔

آخری بات:

  • سورۃ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ نبی ﷺ خود اپنی طرف سے کوئی دعویٰ نہیں کرتے۔ نبوت اور وحی کی آمد سے قبل اُنھیں اِن چیزوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا، جن کا نبوت کے بعد اُنھوں نے علی وجہِ البصیرت تذکرہ کیا اور جن کی طرف انسانیت کو دعوت دی۔

سورۃ الزخرف:

  • نفسِ مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مکی سورۃ ہے۔ مکہ کے بھی اُس دور میں  جب کفارِ مکہ نبیؐ  کی جان کے درپے ہوگئے تھے۔ شب و روز اپنی محفلوں میں بیٹھ بیٹھ کر مشورے کر رہے تھے کہ آپ کو کس طرح ختم کیا جائے، اور ایک حملہ آپ کی جان پر ہو بھی چکا تھا۔

 

 

بعثتِ انبیاء اور کلام اللہ (۲۔۸):

  • کلام کا آغاز کفارِ مکہ کو مخاطب کرکے اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ اپنی شرارتوں کے بل پر یہ چاہتے ہو کہ نزول روک دیا جائے، مگر اللہ نے کبھی اِشرار کی وجہ سے انبیاء کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل نہیں روکی ہے، بلکہ ان ظالموں کو  ہی ہلاک کردیا ہے جو اس کی ہدایت کا راستہ روک کر کھڑے ہوئے تھے۔ یہی کچھ وہ اب بھی کرے گا۔ آگے چل کر آیات 41 ۔ 43 ۔ اور 79 ۔ 80 میں یہ مضمون پھر دہرایا گیا ہے۔

اللہ کی نعمتیں (۱۰۔۱۴):

  • آیت ۱۰ سے ۱۴ تک اللہ نے اپنی نعمتوں کو تذکیراً پھر گنوایا جس میں زمین، بارش، زمین کی پیداوار،  تمام مخلوقات کے جوڑے،  سواریاں شامل ہیں۔  پھر سواری کی دُعا بھی آیت نمبر ۱۳ اور ۱۴ میں ملتی ہے یعنی سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ        ؀ وَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ       ؀  ترجمہ:  “پاک ہے وہ ذات کہ جس نے مسخر کردیا ہمارے لیے اس سواری کو ورنہ ہم اس کو قابو کرنے والے نہیں تھے۔  اور ایک روز ہمیں اپنے ربّ کی طرف پلٹنا ہے۔”   اس دُعا کے آخری الفاظ کو ہم اس طرح دیکھتے ہیں کہ اگر یہ سواری ہمارے قابو سے باہر ہوگئی تو بالآ ہمیں لوٹنا اپنے ربّ کی طرف ہی ہے۔  گویا کہ دنیاوی سفر کے آغاز میں سفرِ آخرت کی یاد دہانی کرا دی جاتی ہے۔

مشرکین کے باطل عقائد کی نفی (۱۵۔۲۸):

  • آیت ۱۵ سے ۲۸ تک مشرکین کے باطل عقائد کی نفی اور اللہ کی واحدانیت کو عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے اور پچھلی قوموں کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح وہ گزرے ہوئے انبیاء کی تعلیم کو مان کر نہ دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو اس ہی راستے کی پیروی کرتے ہوئے پایا ہے۔ اُنکی اِس روِش پر اللہ تعالیٰ نے اُن کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔  آیت نمبر ۲۶ سے ۲۸ میں قریش کے جدِّ امجد حضرت ابراہیمؑ کا ذکر کیا گیا کہ اگر واقعی تم اپنے آباؤ اجداد کے دین پر ہو تو تمھارا جدِّ امجد ابراہیمؑ تو اُس شرک سے بالکل پاک تھا جو تم کرتے ہو،  اور یہی کلمہ وہ اپنے پچھلوں کے لیے چھوڑ گیا تو پھر اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟

قرآن مکہ اور طائف کے سرداروں پر کیوں نہیں اُترا؟ (۳۱۔۳۸):

  • پہلے تو مشرکین یہ بات ماننے کےلیے تیار ہی نہ تھے کہ انسان بھی رسول ہو سکتا ہے۔ لیکن قرآن کے بھرپور دلائل اور بار بار تذکیر کے بعد انھوں نے نیا سوال کھڑا کردیا کہ اگر یہ قرآن واقعی حق ہے تو رسول بنانے کے لیے اللہ میاں کو ملا بھی تو وہ شخص جو یتیم پیدا ہوا، جس کے حصے میں کوئی میراث نہ آئی، جس نے بکریاں چرا کر جوانی گزار دی،  اور جو کسی قبیلے کا شیخ یا کسی خانوادے کا سربراہ نہیں ہے۔
  • اس کا جواب اللہ نے اس طرح دیا کہ کیا یہ لوگ اللہ کی رحمت تقسیم کرنے والے ہیں؟ اللہ نے تو دنیا کا نظام چلانے کےلیے کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنایا ہے۔  رہی نبوت کی بات تو وہ ان دنیاوی نعمتوں سے بہت بالا تر ہے اس کے دیے  جانے کا پیمانہ مال و دولت  اور جاہ و مراتب نہیں بلکہ  کچھ اور ہی ہے۔
  • یہ سیم و زر، جس کا کسی کو مل جانا تمہاری نگاہ میں نعمت کی انتہا اور قدر و قیمت کی معراج ہے، اللہ کی نگاہ میں اتنی حقیر چیز ہے کہ اگر تمام انسانوں کے کفر کی طرف ڈھلک پڑنے کا خطرہ نہ ہوتا تو ہر کافر کا گھر سونے چاندی کا بنادیا جاتا۔ یہ مال تو ان خبیث ترین انسانوں کے پاس بھی پایا جاتا ہے جن کے گھناؤنے کردار کی سڑاند سے سارا معاشرہ بدبو دار ہو کر رہ جاتا ہے۔  (آج بھی انسان اور حکمران معیشت معیشت کی گِردان کرتے نہیں تھکتے اور رب کے نظام کو چھوڑ کر سود جیسی غلاظت میں اپنے ہاتھ پیر ناپاک کرکے ربّ کے غضب کو دعوت دیتے رہتے ہیں)۔
  • آگے فرمادیا!” جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔  یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔”(۳۶۔۳۷)  آج پاکستان اور دیگر مسلم حکمرانوں پر یہ آیتیں 100%  ثبت  ہوتی ہیں۔  جب یہ اپنے ربّ کے پاس پہنچیں گے تو قرآن کی زبانی کہیں گے کہ “آخرکار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سے کہے گا، ” کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب جتنی دُوری ہوتی تُو تو بدترین ساتھی نکلا “۔

فرعون اور موسیٰ     ؑ (۴۶۔۵۶):

  • آیت نمبر ۴۶ سے واقعۂ موسیٰ ؑ اور فرعون کو بیان کیا گیا ہے۔  جس کے مطابق فرعون نے موسیٰ     ؑ کا انکار کرنے اور جھٹلانے کے لیے یہی دلیل پیش کی تھی کہ یہ کیسا نبی ہے جس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن نہیں ہیں،  نوکر چاکر نہیں ہیں۔  کیا یہ بہتر ہے یا میں بہتر ہوں۔  آخر کار اللہ نے اُسے عذاب کا نشانہ بنا کر رہتی دنیا کے لیے عبرت بنا دیا۔

حضرت عیسیٰؑ کا مقام و مرتبہ (۵۷۔۶۵):

  • مشرکین کے سامنے جب عزت کے ساتھ عیسیٰؑ کا نام لیا جاتا تھا تو وہ شور و غُل مچایا کرتے تھے کہ یہ شخص عیسائیوں کے معبود کی تعریف کرتا ہے اور ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ جواباً  اللہ نے فرمایا کہ!  عیسیٰؑ ہمارا بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا۔  وہ دینِ حق اور توحید لے کر آیا،  وہ صراط مستقیم پر قائم رہا۔  گمراہ لوگوں نے اُس کے بارے میں جو عقائد گھڑلیے ہیں وہ اِس سے بری الذمہ ہے۔

اے میرے بندو!

  • آخر میں اللہ نے اپنے خاص بندوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا! اے میرے بندو!  آج تمھارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمھیں کوئی غم لاحق ہوگا، داخل ہوجاؤ جنت میں تم اور تمھاری بیویاں ، تمھیں خوش کردیا جائے گا (۷۰) اُن کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کرائے جائیں گے اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہوگی ان سے کہا جائے گا؟ ۔’’ تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے۔ (۷۱)  تم اس جنت کے وارث اپنے اُن اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو جو تم دنیا میں کرتے رہے ۔(۷۲)  تمہارے لیے یہاں بکثرت پھل موجود ہیں جنہیں تم کھاؤ گے‘‘ (۷۳)  رہے مجرمین تو وہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے، (۷۴) کبھی اُن کے عذاب میں کمی نہ ہوگی ، اور وہ اُس میں مایوس پڑے ہوں گے۔ (۷۵) ان پر ہم نے ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے ۔(۷۶) وہ پکاریں گے ’’ اے مالک ، تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے ‘‘ وہ جواب دے گا ’’ تم یونہی پڑے رہو گے ،(۷۷)

سورۃ الدُخان:

  • اس کا زمانہ نزول بھی کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوتا، مگر مضامین کی اندرونی شہادت بتاتی ہے کہ یہ بھی اُسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورة زُخْرُف اور اس سے پہلے کی چند سورتیں نازل ہوئی تھیں۔

لیلۃ المبارکہ اور حکیمانہ فیصلے(۲۔۱۲):

  • قسم ہے اس کتابِ مبین کی جسے ہم نے ایک مبارک رات میں نازل فرمایا۔ اس رات میں اللہ تعالی حکیمانہ فیصلے صادر فرماتا ہے۔  نبیﷺ کی بعثت سے قبل اس رات کو تاریخِ انسانی کا یہ عظیم فیصلہ ہوا تھاکہ انسانیت کی طرف رسولِؐ رحمت کو مبعوث کیا جارہا ہے۔  جو لوگ اتمامِ حجت کو نہیں مانتے، وہ انتظار کریں اس بات کا جب آسمان دھوئیں سے اَٹ جائے گا اور یہ دھواں لوگوں پر چھا جارئے گا۔  پھر لوگ چیخیں گے، پکاریں گے کہ عذاب ٹل جائے،  لیکن اُس وقت عذاب نہیں ٹلے گا۔

نافرمانوں کا انجام (۱۷۔۳۳):

  • قومِ فرعون کی طرف بھی اللہ نے اسی طرح اپنا رسول پیغام دے کر بھیجا تھا۔ فرعون نے تکبر کیا اور اللہ کے رسول کو قتل کرنے پر تُل گئے۔  لیکن اللہ نے اُسے اور اُس کی قوم ہی کو غرق کرکے نشانِ عبرت بنا دیا۔  پھر نہ آسمان اُن پر رویا اور نہ زمین۔

سرکشوں کو سزا   اور مومنین کو انعام (۴۳۔۵۷):

  • فرمایا گیا کہ جہنمیوں کی خوراک زقّوم کا درخت ہوگا جو پیٹ میں ایسے جوش کھائے گا جیسے تیل کی تچھلٹ جیسا کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے ۔ انھیں  گھسیٹے ہوئے جہنم کے بیچوں بیچ لے جایا جائے گا اور کھولتا ہو ا پانی ان کے سرو ں پر اُنڈیل دیا جائے گا۔  پھر کہا جائے گا کہ چھک مزا بہت عزت دار بنتا تھا تو،  یہ وہی دن ہے جس کا دنیا میں انکار کرتا تھا تو۔    برخلاف اس کے
  • اہلِ ایمان امن کی جگہ پر ہونگے۔ دلکش باغوں میں حریر و دیبا کا شاندار لباس پہنے اپنے ہمنواؤں می محفلیں لگائے بیٹھے ہونگے،  خوبصورت انکی بیویاں ہونگی،  اور ہر طرح کی نعمتیں انھیں میسر ہونگی،  جہاں انھیں کبھی موت نہیں آئے گی۔  ربّ کے فضلِ خاص سے یہی انکی کامیابی ہوگی۔

سورۃ  الجاثیہ:

  • اس کا زمانہ نزول بھی کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوتا، مگر مضامین کی اندرونی شہادت بتاتی ہے کہ یہ بھی اُسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورة الدخان اور اس سے پہلے کی چند سورتیں نازل ہوئی تھیں۔
  • اس کا موضوع توحید و آخرت کے متعلق کفار مکہ کے شبہات و اعتراضات کا جواب دینا اور اس رویے پر ان کو متنبہ کرنا ہے جو انہوں نے قرآن کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کر رکھا تھا۔

توحید کےحق میں  دلائل اور اللہ کی نشانیاں(۲۔۱۱):

  • کلام کا آغاز توحید کے دلائل سے کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں انسان کے اپنے وجود سے لے کر زمین و آسمان تک ہر طرف پھیلی ہوئی بیشمار نشانیوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا ہے کہ تم جدھر بھی نگاہ اٹھا کر دیکھو، ہر چیز اسی توحید کی شہادت دے رہی ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔ یہ طرح طرح کے حیوانات، یہ شب و روز، یہ بارشیں اور ان سے اگنے والی نباتات، یہ ہوائیں، اور یہ انسان کی اپنی پیدائش، ان ساری چیزوں کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر دیکھے اور کسی تعصب کے بغیر اپنی عقل کو سیدھے طریقہ سے استعمال کر کے ان پر غور کرے تو یہ نشانیاں اسے اس امر کا یقین دلانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ کائنات بےخدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کی خدائی میں چل رہی ہے، بلکہ ایک ہی خدا نے اسے بنایا ہے، اور وہی اکیلا اس کا مدبِّر اور فرماں روا ہے۔ البتہ اس شخص کی بات دوسری ہے جو نہ ماننے کی قسم کھا کر بیٹھ گیا ہو، یا شکوک و شبہات ہی میں پڑے رہنے کا فیصلہ کرچکا ہو۔ اسے دنیا میں کہیں سے بھی یقین و ایمان کی دولت حاصل نہیں ہوسکتی۔

ایمان کے بغیر انسان مُردہ ہے(۱۲۔۲۱):

  • آیت ۱۴ میں آنحضورؐ سے خطاب کرکے فرمایا گیا کہ وہ اہلِ ایمان کو تعلیم دیں کہ منکرینِ حق کی تکلیف دہ اور اذیت ناک حرکتوں پر درگزر سے کام لیں۔  اللہ کے ہاں حق کے فیصلے ہوں گے اور نیکو کارو لوگوں کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔  اللہ رب العالمین نے شریعت اسلامی جو عطا کی ہے تو یہی انسانیت کےلیے سیدھی، صاف اور پر امن شاہراہ ہے۔  کافر اللہ کی نظر میں ایسے بے وقعت ہیں کہ اُن کی زندگی اور موت یکساں ہیں۔  گویا بظاہر وہ وجود رکھتے ہیں لیکن حقیقتا وہ مُردہ ہیں۔

ریکارڈ بُک (۲۷۔۳۰)

  • اللہ نے ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے مقرر کیے ہیں جو اُس کے روز و شب ہونے والے اچھے اور برے اعمال کو لکھ رہے ہیں۔ یہ رجسٹر قیامت کے دن ہر انسان کے سامنے کھول دیا جائے گا۔  ہر ایک کو انصاف کے ساتھ پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔    نیکو کاروں کو اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل کیا جائے گا اور بیش بہا انعام و اکرام سے نوازا جائے گا،  جبکہ مجرمین سے پہلے تو حجت تمام کرنے کےلیے پوچھا جائے گا کہ کیا تمھارے پاس اللہ کا پیغام نہیں پہنچا تھا؟  جس پر وہ انکار نہ کرسکیں گے اور انھیں کہہ دیا جائے گا کہ جس طرح دنیا میں تم نے آج کی ملاقات کو  بُھلادیا تھا آج ہم بھی تم کو اسی طرح بھلا دیں گے اور انھیں ہمیشہ کےلیے جہنم میں داخل کردیا جائےگا۔

الحمد للہ آج ۲۵ سپارے مکمل ہوئے

۲۶ ویں سپارے کا خلاصہ کل رکھیں گے جس میں سورۃ الاحقاف، سورۃ محمد،  سورۃ سورۃ الفتح اور سورۃ الحجرات پڑھی جائیں گی۔

ان شاء اللہ تئیسویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ

تئیسویں   تراویح

آج کی تراویح میں سورۃ  الاحقاف،   سورۃ محمد،   سورۃ الفتح،  اور سورۃ الحجرات کی تلاوت کی جائے گی۔

سورۃ الاحقاف:

  • یہ ایک مکی سورۃ اور ۱۰ یا ۱۱ نبویؐ میں اُس وقت نازل ہوئی جب آپؐ طائف سے مکہ مکرمہ پلٹتے ہوئے وادیٔ نخلہ میں ٹہرے تھے۔

تاریخی پس منظر:

  • ۱۰ نبوی رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیے سخت ترین سال تھا۔ ۳ سال سے قریش کے تمام قبائل نے مل کر مسلمانوں کو بائیکاٹ کررکھا تھا اور سب شُعبِ ابی طالب  میں محصور تھے ۔  کسی قسم کی رسد ان تک نہ پہنچ سکتی تھی صرف حج کے زمانے میں کچھ خریداری کر سکتے تھے۔   کیفیت یہ تھی کہ بعض اوقات گھاس پھوس اور پتےّ کھانے کی نوبت آجاتی تھی۔
  • اللہ اللہ کرکے محاصرہ ختم ہوا تو آپؐ کی ڈھال چچا ابو طالب انتقال کرگئے، اور انکے ایک ماہ کے بعد ہی تحریک کی ریڑھ کی ہڈی خدیجہ الکبریٰ خالقِ حقیقی سے جاملیں۔  ان پے درپے صدموں کی وجہ اس سال کو نبیؐ عام الحُزن یعنی غم کا سال کہا کرتے تھے۔
  • ان دونوں ہستیوں کے انتقال کی وجہ سے قریش اور شیر ہوگئے اور مزید تنگ کرنا شروع کردیا، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا گھر سے باہر نکلنا بھی مشکل ہوگیا۔ ایسے میں آپ طائف کی جانب اس ارادے سے تشریف لے گئے کہ بنی ثقیف کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو انہیں کم از کم اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ آپ کو اپنے ہاں چین سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع دے دیں۔ آپ کو اس وقت کوئی سواری تک میسر نہ تھی۔ مکہ سے طائف تک کا سارا سفر آپ نے پیدل طے کیا۔
  •   توقعات کے برخلاف طائف والوں نے بات ماننے سے انکار کردیا اور طائف سے نکل جانے کا کہا،  جب وہاں سے جانے لگے تو سرداران نے آوارہ لڑکوں کو پیچھے لگا دیا جنھوں نے پتھر مار مار کر آپؐ کو لہو لہان کردیا اور نعلین مبارک خون سے پاؤں  میں چپک گئے۔
  • ایسے میں دل شکستہ طائف کے باہر ایک باغ کی دیوار کے ساتھ بیٹھ گئے اور ربّ سے مخاطب ہو کر کہا “” یا اللہ، میں تیرے ہی حضور اپنی بےبسی و بےچارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بےقدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین، تو سارے ہی کمزوروں کا ربّ ہے اور میرا ربّ بھی تو ہی ہے۔ مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے ؟ کیا کسی بیگانے کے حوالے جو مجھ سے درشتی کے ساتھ پیش آئے ؟ یا کسی دشمن کے حوالے جو مجھ پر قابو پالے ؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی مصیبت کی پروا نہیں، مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہوجائے تو اس میں میرے لیے زیادہ کشادگی ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے اس نور کی جو اندھیرے میں اجالا اور دنیا اور آخرت کے معاملات کو درست کرتا ہے، مجھے اس سے بچا لے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیرے عتاب کا مستحق ہوجاؤں۔ تیری مرضی پر راضی ہوں یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے۔ کوئی زور اور طاقت تیرے بغیر نہیں “
  • اس کے بعد آپ چند روز نخلہ کے مقام پر جا کر ٹھہر گئے۔ پریشان تھے کہ اب کیسے مکہ واپس جاؤں۔ طائف میں جو کچھ گزری ہے اس کی خبریں وہاں پہنچ چکی ہوں گی۔ اس کے بعد تو کفار پہلے سے بھی زیادہ دلیر ہوجائیں گے۔ ان ہی ایام میں ایک روز رات کو آپ نماز میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا، انہوں نے قرآن سنا، ایمان لائے، واپس جا کر اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ خوشخبری سنائی انسان چاہے آپ کی دعوت سے بھاگ رہے ہوں، مگر بہت سے جن اس کے گرویدہ ہوگئے ہیں اور وہ اسے اپنی جنس میں پھیلا رہے ہیں۔

 

 

کتاب ِ حق (۲۔۱۴):

  • ان آیات میں فرمایا گیا کہ رسولِ رحمت ؐ کو جو کتاب دی گئی ہے وہ حق ہے لیکن منکرین کہتے ہیں کہ “یہ تو جادو ہے، یہ کتاب اِس نے خود گھڑلی ہے” ۔  جواباً فرمایا گیا کہ عقل کے اندھو تمھارے پاس تو علم کا کوئی ذریعہ نہیں۔  بنی اسرائیل کا عالم (مُراد عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ) اس کے حق ہونے پر شہادت دے چکا ہے اور وہ ایمان لے آیا ہے۔  اس سے پہلے موسیٰ کو دی گئی کتاب بھی رہنما اور رحمت بن چکی ہے۔

نیک  اور بدبخت  اولاد (۱۵۔۱۷):

  • اس آیت میں والدین کے حق میں نیکی اور حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ ایک اچھے انسان کی صفت یہ ہے کہ وہ والدین کا فرماں بردار اور اُن کے لیے صدقۂ جاریہ ہوتا ہے۔  اسکے برعکس کچھ بدبخت ایسے ہوتے ہیں جو والدین کے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں۔  آخرت کا انکار کرتے ہیں۔  یہی خسارے کا سودا کرنے والے ہیں۔  انکے حق میں جہنم کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

قومِ عاد (۲۱۔۲۸):

  • ان آیات میں قومِ عاد کا تذکرہ ملتا ہے جو قدیم زمانے میں اس سرزمین  کی سب سے طاقتور قوم تھی۔   جنھوں نے بغاوت اور سرکشی میں تمام حدیں پھلانگ دیں، پھر اللہ نے اُن پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔  وہ سمجھ رہے تھے کہ بادل اُن کی بستیوں کو سیراب کرنے کےلیے آئے ہیں، حالانکہ وہ عذاب تھا جس کا وہ بار بار مطالبہ کرتے تھے۔
  • قومِ عاد جس علاقے میں بستی تھی اُس کا نام احقاف تھا جو صحرائے ربع الخالی کے مغربی حصے میں واقع تھی۔ عمان سے لے کر یمن تک انکی حکومت تھی۔  موجودہ شہر مکلا (یمن) سے تقریباً ۱۲۵ میل شمال کے مقام پر ایک قبر ہے جسے حضرت ہودؑ کی قبر سے یاد کیا جاتا ہے۔

جنات کا اسلام لانا (۲۹۔۳۱):

  • طائف سے واپسی پر نبیؐ وادیٔ نخلہ میں کچھ عرصہ ٹہرے وہاں فجر یا عشاء یا تہجد کی نماز میں آپ تلاوتِ قرآن فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرأت سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس موقع پر جنّات حضور ؐکے سامنے نہیں تھے، نہ آپؐ نے ان کی آمد کو محسوس فرمایا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپؐ کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی۔     یہ مقام جہاں یہ واقعہ پیش آیا، یا تو الزیمہ تھا، یا السیل الکبیر، کیونکہ یہ دونوں مقام وادی نخلہ میں واقع ہیں۔

صبر کی تلقین (۳۵):

  • سورۃ کے آخر میں نبی کریم ﷺ کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ “ اے نبی، صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا ہے، اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کرو 37 ۔ جس روز یہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں معلوم ہوگا کہ جیسے دنیا میں دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے تھے”

سورۃ  محمدؐ:

  • اس کے مضامین یہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں اس وقت نازل ہوئی جب جنگ کا حکم تو دیا جا چکا تھا مگر ابھی جنگ عملا شروع ہوئی نہ تھی۔

تاریخی پس منظر:

  • اس سورۃ کے نزول کے وقت مکہ معظمہ میں خاص طور پر اور عرب کی سرزمین میں بالعموم ہر جگہ مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ مسلمان ہر طرف سے سمٹ کر مدینہ طیبہ میں جمع ہوگئے تھے۔  مدینے کی چھوٹی سی بستی ہر طرف سے کفار کے نرغے میں گھری ہوئی تھی اور وہ اسے مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے لیے دو ہی راستے تھے۔ یا تو وہ دین حق کی دعوت و تبلیغ ہی سے نہیں بلکہ اس کی پیروی تک سے دست بردار ہو کر جاہلیت کے آگے سپر ڈال دیں، یا پھر مرنے مارنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور سر دھڑ کی بازی لگا کر ہمیشہ کے لیے اس امر کا فیصلہ کردیں کہ عرب کی سرزمین میں اسلام کو رہنا ہے یا جاہلیت کو۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر مسلمانوں کو اسی عزیمت کی راہ دکھائی جو اہل ایمان کے لیے ایک ہی راہ ہے۔

قیدیوں کے بارے میں احکامات (پہلا رکوع):

  • جنگ بدر قریب تھی اور اسلام کی پہلی جنگ تھی۔   لہٰذا جنگی قیدیوں سے متعلق درجِ ذیل احکامات اس سورۃ میں نازل کیے گئے  ہیں:
    1. جنگ میں مسلمانوں کی فوج کا اصل ہدف دشمن کی جنگی طاقت کو توڑ دینا ہے، یہاں تک کہ اس میں لڑنے کی سکت نہ رہے اور جنگ ختم ہوجائے۔ اس ہدف سے توجہ ہٹا کر دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہ لگ جانا چاہیے۔
    2. جنگ میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمہیں اختیار ہے، خواہ ان پر احسان کرو، یا ان سے فدیہ کا معاملہ کرلو۔ اس سے عام قانون یہ نکلتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو قتل نہ کیا جائے۔
    3. اس آیت میں قتل کی صاف ممانعت بھی نہیں کی گئی ہے، لیکن اگر کوئی خاص وجہ ایسی ہو جس کی بنا پر اسلامی حکومت کا فرمانروا کسی قیدی یا بعض قیدیوں کو قتل کرنا ضروری سمجھے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ یہ ایک استثناء ہے جسے بضرورت ہی استعمال کیا جائے گا۔
    4. احسان میں چار چیزیں شامل ہیں : (۱)  یہ کہ قید کی حالت میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ (۲)   یہ کہ قتل یا دائمی قید کے بجائے ان کو غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالہ کردیا جائے۔ (۳)   یہ کہ جزیہ لگا کر ان کو ذمی بنا لیا جائے۔ (۴) یہ کہ ان کو بلا معاوضہ رہا کردیا جائے۔
    5. نبی ؐ اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ جنگی قیدی جب ایک حکومت کی قید میں رہے، اس کی غذا اور لباس، اور اگر وہ بیمار یا زخمی ہو تو اس کا علاج حکومت کے ذمہ ہے۔ قیدیوں کو بھوکا ننگا رکھنے، یا ان کو عذاب دینے کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں نہیں ہے۔
    6. کوئی خدمت لے کر چھوڑنے کی مثال بھی جنگ بدر کے موقع پر ملتی ہے۔
    7. قیدیوں کے تبادلے کی متعدد مثالیں ہم کو نبیؐ کے عہد میں ملتی ہیں۔
  • جنت کے انعامات (دوسرا رکوع):
  • اس رکوع میں جنت کی نعمتیں بیان کی گئی ہیں اور آنحضورﷺ سے کہا گیا ہے کہ اپنے لیے بھی اللہ سے مغفرت طلب کریں اور مومن مردوں اور عورتوں کے قصور معاف کرنے کے لیے بھی اللہ سے استغفار کریں۔
  • تذکرۂ منافقین (تیسرا  اور چوتھا رکوع):
  • اس رکوع میں منافقین کا تذکرہ کرتے ہوئے انکے انجام سے باخبر کیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو دنیا ہی میں اندھا اور بہرا کردیا گیا ہے۔   اور جب انکی موت کا وقت آئے گا تو  فرشتے اِن کی روحیں قبض کرتے وقت ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے۔
  • اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت (چوتھا  رکوع):
  • اس رکوع میں اللہ اور اسکے رسولؐ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور مومنین کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس اطاعت سے منہ پھیرنا اپنے اعمال کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔
  • فرمایا گیا کہ “یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے”آخرت کے مقابلے میں اس دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ چند روز کا دل بہلاوا ہے۔ یہاں کی کامرانی و ناکامی کوئی حقیقی اور پائیدار چیز نہیں ہے جسے کوئی اہمیت حاصل ہو۔
  • آخری آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ اور اُس کا دین تمھارے محتاج نہیں۔ اگر تم اللہ کے احکام کی اطاعت نہ کروگے تو اللہ کسی اور قوم کو چُن لے گا ۔    وہ قوموں کو چنتا ہے، جب تک وہ اُس کا حق ادا کرتے رہیں، وہ اپنی نصرت و تائید سے انکی مدد کرتا رہتا ہے۔  جب وہ اپنےفرض سے کترانے لگیں تا اللہ انھیں ذلیل و خوار کردیتا ہے اور اُسکی جگہ کوئی تازہ دم قوم اپنے کام کےلیے کھڑی کردیتا ہے۔

سورۃ  الفتح:

  • روایات اس پر متفق ہیں کہ اس کا نزول ذی القعدہ 6 ھ میں اس وقت ہوا تھا جب آپ کفار مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لے جا رہے تھے۔

تاریخی پس منظر:

  • جس پس منظر میں اس سورۃ کا نزول ہوا وہ کچھ اس طرح ہے کہ                 ۶                  ؁ھ میں نبی کریمؐ نے ایک خواب دیکھا کہ اپنے صحابہؓ کے ساتھ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا فرما یا ہے۔  چونکہ نبی کا خواب جھوٹا نہیں ہوتا بلکہ وحی ہی کی ایک شکل ہوتی ہے چنانچہ تمام تر نا مساعد حالات کے باجود آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو سفر کا حکم دیا اور کوچ فرمایا۔  اس سفر میں ۱۴۰۰ صحابہ کرامؓ آپ کے ساتھ تھے۔  کسی قسم کا اسلحہ ساتھ نہیں لیا ماسوائے ایک ایک تلوار کے جو کہ اُس وقت قاعدے کے تحت جائز تھی۔  قافلہ نے حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا جہاں سے آگے قریش مکہ نے اس کو بڑھنے نہیں دیا۔  چنانچہ حضرت عثمانؓ بن عفان کو  بات چیت کرنے مکہ بھیجا گیا  جن کے ساتھ قریشِ مکہ نے بات چیت کرنے اپنے ایک سردار سہیل بن عمرو  کی قیادت میں ایک وفد بھیجا۔   چنانچہ کچھ ایسی شرائط کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا جس میں بظاہر مسلمانوں کو دبایا جارہا تھا۔   طے ہوا کہ
    1. طرفین کے درمیان ۱۰ سال تک جنگ نہیں ہوگی،
    2. مسلمان اس سال واپس چلے جائیں اور اگلے سال عمرہ کرنے آئیں،
    3. قبائل عرب کو اختیار ہوگا کہ جو قبیلہ فریقین میں سے جس کا حلیف بننا چاہے بن جائے،
    4. اس دوران قریش کا جو شخص بھاگ کر مدینے جائے گا اسے واپس کردیا جائے گا مگر مدینہ سے جو شخص قریش کے پاس واپس چلا جائے گا اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

فتح مبین (۱۔۳):

  • سورۃ الفتح کی پہلی ہی آیت میں اللہ نے اپنے نبیؐ کو خوشخبری دی کہ اُنھیں (اس معاہدے کے ذریعہ) فتح مبین عطا کردی گئی ہے۔ جو شرائط معاہدے میں طے کی گئی تھیں اُن سے بظاہر صحابہؓ کو محسوس ہو رہا تھا کہ شاید یہ شرائط اُن کے حق میں نہیں ہیں۔  لیکن اللہ کے رسولﷺ نے اِ س موقع پر فرمایا “قسم ہے اُس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، یقیناً یہ فتح ہے” (مسند احمدؒ   ۔  ا بوداؤدؒ)

مومنین کا انعام اور منافقین کی سزا (۴۔۶):

  • ان آیات میں اہلِ ایمان کے دلوں پر سکینت نازل فرمانے اور اُن کے ایمان کی افزائش کا تذکرہ کیا ہے۔ مومن مردوں اور عورتوں کےلیے جنت اور عظیم کامیابی کی خوشخبری جبکہ مشرک اور منافق مردوں اور عورتوں پر اپنے غضب اور لعنت کی وعید سنائی ہے۔

بیعتِ رضوان (۱۰):

  • حضرت عثمان ؓ کو جب رسول اللہ ﷺ نے قریش سے بات چیت کرنے مکہ بھیجا تھا تو مسلمانوں کو ایک خبر ملی کہ عثمانؓ کو انھوں نے قتل کردیا۔ اُس وقت رسول ﷺ نے کہا کہ ہم اس کا بدلہ لیں گے جس کےلیے سب صحابہؓ نے آپ ؐ کے ہاتھ پر خون کے آخری قطرہ بہانے تک لڑنے کی بیعت کی جسے بیعتِ رضوان سے یاد کیا جاتا ہے۔  اس موقع پر حضورؐ نے حضرت عثمانؓ کی جانب سے اپنا دوسرا رکھا اور کہاکہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔  اس آیت میں اُسی بیعت سے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ صحابہؓ نبیؐ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کررہے تھے بلکہ دراصل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے۔  اور انکے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ تھا۔  اصحابِ بیعتِ رضوان کا اہلِ بدر کے بعد سب سے عظیم مقام و مرتبہ ہے۔

بدوی قبائل کے حیلے بہانے (۱۱۔۱۴):

  • اس آیت میں اُن قبائل کی منافقت کا پردہ چاک کیا گیا جو بظاہر تو مسلمان ہوچکے تھے لیکن ایمان انکے حلقوں سے نیچے نہیں اُترا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضورؐ نے عمرہ پر چلنے کی منادی کرائی تو انھیں سانپ سونگھ گیا اور مختلف حیلے بہانوں سے ساتھ چلنے سے معذرت کرلی۔  وہ سمجھ رہے تھے کہ نبیؐ اور انکے ساتھ جانے والے صحابہؐ اب واپس نہیں آئیں گے کیونکہ ایک سال پہلے غزوہ خندق میں کفار کی مدینہ منورہ پر چڑھائی نے انھیں خوف زدہ کیا ہوا تھا۔    چنانچہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے ذریعے ان کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتا رہا ہے کہ “یہ کہیں گے کہ ہمیں ہمارے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول رکھا تھا،  آپؐ ہمارے لیے دعائے مغفرت کریں، یہ لوگ وہ باتیں کہتے ہیں جو انکے دلوں میں نہیں ہوتیں”  لہٰذا حضورؐ کو حکم دیا گیا کہ ان سے کہہ دیجئے کہ” اللہ اور اس کے رسول پر جو لوگ ایمان نہ رکھتے ہوں ایسے کافروں کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کررکھی ہے۔ اور اگر اب بھی وہ غیر مخلصانہ روش چھوڑ دیں اللہ کو غفور الرحیم پائیں گے۔

جہاد میں شرکت نہ کرنے کی رعایت (۱۷):

  • اس آیت میں جن لوگوں کو شریک ِجہاد ہونے سے معاف رکھا گیا ہے وہ دو قسم کے لوگ ہیں۔
    1. جو جسمانی طور پر جنگ کے قابل نہ ہوں، مثلا کم سن لڑکے، عورتیں، مجنون، اندھے، ایسے مریض جو جنگی خدمات انجام نہ دے سکتے ہوں، اور ایسے معذور جو ہاتھ یا پاؤں بیکار ہونے کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہ لے سکیں۔
    2. وہ لوگ جن کے لیے معقول اسباب سے شاملِ جہاد ہونا مشکل ہو، مثلا غلام، یا جن کے لیے آلات جنگ اور دوسرے ضروری وسائل فراہم نہ ہوسکیں، یا ایسے قرض دار جنہیں جلدی اپنا قرض ادا کرنا ہو اور قرض خواہ انہیں مہلت نہ دے رہا ہو، یا ایسے لوگ جن کے والدین یا اُن میں سے کوئی ایک زندہ ہو اور وہ اس کا محتاج ہو کہ اولاد اس کی خبر گیری کرے۔ یا اگر  والدین مسلمان ہوں تو اولاد کو کسی وجہ سے جہاد کی اجازت نہ دیں ، لیکن اگر وہ کافر ہوں تو ان کے روکنے سے کسی شخص کا رک جانا جائز نہیں ہے۔

بیعتِ رضوان کے شرکاء اور خیبر کی فتح (۱۸۔۱۹):

  • آیت ۱۸ میں ایک بار پھر بیعتِ رضوان کا ذکر کیا گیا اور انکے شرکاء کے لیے خصوصی تحفہ فتح خیبر کی نوید سنائی جس میں بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آنے والا تھا۔   چنانچہ ۷ ہجری میں خیبر فتح ہوا اور اس میں صرف بیعت رضوان میں شامل صحابہؓ کو ساتھ لیا گیا اور انھیں ہی تمام مالِ غنیمت ملا۔    نبی کریمؐ نے  کچھ حبشہ سے واپس آنے والے مہاجرین اور دوسی و اشعری صحابیوں کو بھی عنایت کیا لیکن غالب گمان یہی ہے کہ یا تو یہ اللہ کے نبیؐ نےاپنے حصے میں سے دیا یا بیعت رضوان کے صحابہؓ کی رضا مندی سے۔

محمدﷺ کفار پر سخت اور اہلِ ایمان پر رحیم (۲۹):

  • آخری آیت میں فرمایا گیا کہ محمدؐ اپنے ایمان کی پختگی، اُصول کی مضبوطی، سیرت کی طاقت، اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلے میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں۔ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انہیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں۔  جبکہ اہل ایمان کے لیے وہ نرم ہیں، رحیم و شفیق ہیں، ہمدرد و غمگسار ہیں۔ اصول اور مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی و ساز گاری پیدا کردی ہے۔

سورۃ  الحجرات:

  • روایات اس پر متفق ہیں کہ اس کا نزول ذی القعدہ 6 ھ میں اس وقت ہوا تھا جب آپ کفار مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لے جا رہے تھے۔

تاریخی پس منظر:

  • یہ مدنی دور کے آخر کی سورۃ ہے اور مختلف مواقع پر نازل شدہ احکام و ہدایات کا مجموعہ ہے جنہیں مضمون کی مناسبت سے یکجا کردیا گیا ہے۔
  • اس سورت کا موضوع مسلمانوں کو ان آداب کی تعلیم دینا ہے جو اہل ایمان کے شایان شان ہیں۔

رسولﷺ کے ساتھ معاملات کے آداب (۱۔۵):

  1. مومن کے لیے جائز نہیں کہ اپنی رائے اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر مقدم رکھے یا معاملات میں آزادانہ رائے قائم کرے۔
  2. اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو۔
  3. نبیؐ کو اُنکے گھر کے باہر سے آواز دے کر عام آدمیوں کی طرح نہیں بلاؤ۔

خبر کی تحقیق (۶):

  • اس آیت میں  ہدایت دی گئی ہے کہ ہر خبر پر یقین کرلینا اور اس پر کوئی کاروائی کر گذرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی اطلاع ملے تو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خبر ملنے کا ذریعہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ قابل اعتماد نہ ہو تو اس پر کاروائی کرنے سے پہلے تحقیق کرلینا چاہیے کہ خبر صحیح ہے یا نہیں۔

مسلم گروہوں کی آپس میں لڑائی (۹):

  • اس آیت میں بتایا گیا کہ اگر کسی وقت مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔

اجتماعی فساد برپا کرنے والی  باتوں سے اجتناب (۱۰۔۱۲):

  • ان آیات میں مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ جیسے  ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، ایک دوسرے پر طعن کرنا، ایک دوسرے کے بُرے  نام رکھنا، بد گمانیاں کرنا، دوسرے کے حالات کی کھوج کرید کرنا، لوگوں کی پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرنا، یہ وہ افعال ہیں جو بجائے خود بھی گناہ ہیں اور معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نام بنام ان کا ذکر فرما کر انہیں حرام قرار دے دیا ہے۔

قومی و نسلی امتیازات پر ضرب (۱۳):

  • آیت ۱۳ میں قومی اور نسلی امتیازات پر ضرب لگائی گئی ہے جو دنیا میں عالمگیر فسادات کے موجب ہوتے ہیں۔ قوموں اور قبیلوں اور خاندانوں کا اپنے شرف پر فخر و غرور، اور دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا، اور اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے دوسروں کو گرانا، ان اہم اسباب میں سے ہے جن کی بدولت دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سی آیت فرما کر اس برائی کی جڑ کاٹ دی ہے کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے پیدا ہوئے ہیں اور قوموں اور قبیلوں میں ان کا تقسیم ہونا تعارف کے لیے ہے نہ کہ تفاخر کے لیے، اور ایک انسان پر دوسرے انسان کی فوقیت کے لیے اخلاقی فضیلت کے سوا اور کوئی جائز بنیاد نہیں ہے۔
  • ایمان کا زبانی دعویٰ کافی نہیں (۱۴۔۱۸):
  • آخر میں کو بتایا گیا ہے کہ اصل چیز ایمان کا زبانی دعوی نہیں بلکہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کو ماننا، عملا ًفرمانبردار بن کر رہنا، اور خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کھپا دینا ہے۔ حقیقی مومن وہی ہیں جو یہ روش اختیار کرتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو دل کی تصدیق کے بغیر محض زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور پھر ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ گویا اسلام قبول کر کے انہوں نے کوئی احسان کیا ہے، تو دنیا میں ان کا شمار مسلمانوں میں ہوسکتا ہے، معاشرے میں ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک بھی کیا جاسکتا ہے، مگر اللہ کے ہاں وہ مومن قرار نہیں پاسکتے۔

الحمد للہ آج ۲۶ سپارے مکمل ہوئے۔   ۲۷ ویں سپارے کا خلاصہ ان شاء اللہ کل۔  ہمارے ساتھ رہیے گا۔        جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ

چوبیسویں   تراویح

آج کی تراویح میں 6 سورتوں کی تلاوت کی جائے گی جن میں سورۃ  قٓ،   سورۃ الذاریات،   سورۃ الطّور،  سورۃ  النجم ، سورۃ القمر اور سورۃ الرحمن شامل ہیں۔

سورۃ قٓ:

  • مضامین پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکہ معظمہ کا دوسرا دور ہے جو نبوت کے تیسرے سے پانچویں سال تک رہا۔
  • نبی کریمؐ اکثر عیدین کی نمازوں میں اس سورۃ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ اسکے علاوہ فجر اور جمعہ کی نماز میں بھی اکثر تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
  • دیگر مکی سورتوں کی طرح اس سورۃ میں بھی بنیادی عقائد، انسانی اعمال اور ان کے نتائج، جنت و دوزخ ، انعام و عذاب کا احاطہ کیا گیا ہے۔
  • پہلی آیت میں قرآن کی قسم کھا کر بتایا گیا کہ یہ کتاب عظمت و بزرگی والی ہے۔ اسکے بعد مشرکین کے اس تعجب کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس میں وہ کہا کرتے تھے کہ کیسے اللہ کا رسولؐ ہم جیسے انسانوں ہی میں سے ہوسکتاہے؟

مرنے کے بعد دوبارہ کیسے اُٹھائے جائیں گے؟  (۲۔۱۱):

  • رسولؐ اللہ نے جب مکہ معظمہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا تو لوگوں کو سب سے زیادہ اچنبھا آپ کی جس بات پر ہوا وہ یہ تھی کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ لوگ کہتے تھے یہ تو بالکل انہونی بات ہے۔ عقل باور نہیں کرتی کہ ایسا ہوسکتا ہے، آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہمارا ذرہ ذرہ زمین میں منتشر ہوچکا ہو تو ان پراگندہ اجزاء کو ہزارہا برس گزرنے کے بعد پھر اکٹھا کر کے ہمارا یہی جسم از سر نو بنادیا جائے اور ہم زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تقریر نازل ہوئی۔ اس میں بڑے مختصر طریقے سے چھوٹے چھوٹے فقروں میں ایک طرف آخرت کے امکان اور اس کے وقوع پر دلائل دیے گئے ہیں، اور دوسری طرف لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ تم خواہ تعجب کرو، یا بعید از عقل سمجھو، یا جھٹلاؤ، بہرحال اس سے حقیقت نہیں بدل سکتی حقیقت اور قطعی اٹل حقیقت یہ ہے کہ تمہارے جسم کا ایک ایک ذرہ جو زمین میں منتشر ہوتا ہے، اس کے متعلق اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں گیا ہے اور کس حال میں کس جگہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ اس کے لیے کافی ہے کہ یہ تمام منتشر ذرات پھر جمع ہوجائیں اور تم کو اسی طرح دوبارہ بنا کھڑا کیا جائے جیسے پہلے بنایا گیا تھا۔

دیگر اقوام اور انکا انجام  (۱۲۔۱۴):

  • ان آیات میں گزرے ہوئے انبیاء اور انکی اقوام کا ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے  ہر قوم نےآخرت کا وہ عقیدہ جو تمام انبیاء (علیہم السلام) پیش کرتے رہے ہیں کو جھٹلایا۔  حالانکہ وہی حقیقت کے عین مطابق ہے، اس کا انکار جس قوم نے بھی کیا وہ شدید اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہو کر رہی اور آخر کار اللہ کے عذاب نے آ کر اس کے وجود سے دنیا کو پاک کیا۔

اللہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے  (۱۶۔۱۸):

  • آیت نمبر ۱۶ میں فرمایا گیا کہ “ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اُس کے دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو ، ہم جانتے ہیں۔ہم اُس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔(۱۶) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔ (۱۷)

مجرمین  اور متقین کا انجام  (۱۹۔۳۵):

  • آیت نمبر ۱۹ میں قیامت کے سب سے پہلے مرحلہ کا آغاز ہوتا ہے۔ فرمایا جاتا ہے کہ انسان موت سے بھاگا پھرتاہے  اور سمجھتا ہے کہ وہ کبھی نہیں مرے گا  اور آخر کار وہ دن بھی اچانک آن پہنچتا ہے جب اسکی جان کُنی کا وقت آن پہنچتا ہے۔  پھر اسی طرح ایک دن  اچانک قیامت آجائے گی اور پھر سب کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا جس کے بارے میں بار بار بتایا جاتا رہا۔    پھر ایک مجرم کی طرح اُسے ایک فرشتہ ہانک کر اللہ کے دربار میں پیش کرنے لے کر جائے گا جبکہ دوسرا  وہاں پہنچ کر اس کی کارگزاری بطور گواہ پیش کرے گا۔    کافر کے خلاف فیصلہ ہونے کی صورت میں انہی فرشتوں کو حکم ملے گا کہ لے جاؤ اور جہنم میں پھینک دو۔  ایسے میں شیطان اور اسکی تکرار ہوگی اور مجرم شیطان کو دوش دے گا جس پر شیطان کہے گا میں نے زبردستی اس کو سرکش نہیں بنایا تھا۔ یہ کم بخت تو خود نیکی سے بھاگتا تھا  اور بدی پر فریفتہ تھا۔ اسی لیے سمجھانے والوں کی کوئی بات اسے پسند نہ آئی اور میری ترغیبات پر پھسلتا چلا گیا۔  پھر دونوں کو اللہ سےجھاڑ لگے گی اور کہا جائے گا کہ میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
  • سب مجرمین کے فیصلے ہوجانے کے بعد جہنم سے پوچھا جائے گا کہ کیا تو بھر گئی؟ یہ وہ بھوکوں کی طرح چنگھاڑے گی کہ کچھ ہے تو لاؤ۔   دوسری طرف اللہ سے ڈرنے کے قریب جنت کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا یہ وہ چیز ہے جس  کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا تھا۔  جاؤ عیش کرو اس میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔  جو بھی انکی خواہش ہوگی آن کی آن میں پوری کردی جائے گی یہاں تک کہ اُنکی کوئی حسرت باقی نہیں رہے گی۔

جنت و دوزخ  (۳۰۔۳۵):

  • آخر میں بتایا گیا کہ یہ ایمان افروز باتیں دنیا والوں کے سامنے پیش کی جاتی ہیں مگر ان کی اکثریت قبول نہیں کرتی۔ جبکہ تم سے پہلے بڑی بری طاقتور قومیں گزر چکی ہیں لیکن جب ہم نے انھیں پکڑا تو انھیں کوئی جائے پناہ نہ مل سکی۔    رسول اللہ ﷺ کے توسط سے اہلِ ایمان کو تلقین کی گئی کہ دین کی راہ میں حائل مخالفتوں کے مقابلے میں صبر کریں، صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک مخصوص اوقات میں اللہ کی تسبیح کرتے رہیں، اسکے سامنے سجدہ ریز ہوں۔  پھر نبی ؐ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا کہ ا ے نبیؐ بس تم اس قرآن کے ذریعے ہر اس شخص کو خبردار کردو جو میری تنبیہ سے ڈرے۔ جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا وہ ضرور نصیحت پالے گا۔

سورۃ  الذاریات:

  • اس کے مضامین یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اسلام کے اوائل میں نازل ہونے والی صورت ہے جب دعوت کا آغاز ہوچکا تھا لیکن ظلم و تشدد کی چکی ابھی چلنی شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس کا بڑا حصہ آخرت سے متعلق ہے اور آخر میں توحید کی بات کی گئی ہے۔

آخرت کے دلائل (پہلا رکوع):

  • ہواؤں کی قسم کھا کر بات کو شروع کیا گیا کہ قسم اُن ہواؤں کی جو گر دو غبار اُڑانے والی ہیں، اور کروڑوں گیلن پانی اُٹھا نے والے بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیے پھرتی ہیں اور جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے اُسے برسا کر پھر سُبک رفتاری سے چلتی رہتی ہیں۔  ان میں اللہ کی قدرت کی ایک بڑی نشانی ہے ۔     جس طرح یہ انسان کے مشاہدے میں آتی رہتی ہیں اور سچ ہے بالکل اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ ایک دن سب کا حساب کتاب ہوگا، اچھے اور برے عمل کے بارے میں باز پرس ہوگی اور اچھے اعمال کا اچھا اجر ملے گا جبکہ برے اعمال کی درد ناک سزا دی جائے گی۔
  • پھر مختلف شکلوں کے آسمان ک قسم کھائی گئی۔ جس سے مراد فضا میں بکھرے ہوئے بادل ہیں جو مختلف شکلوں کے ہوتے ہیں۔  جس طرح بادل مختلف شکلوں کے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح آخرت کے بارے میں مختلف انسانوں کے تصورات مختلف ہیں کوئی اسے مانتا ہے اور کوئی اس کا مذاق اُڑاتا ہے۔  لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے ایک دن برپا ہونا ہے اور جو دانشور اپنے اٹکل پچو مارتے ہیں وہ دنیا کی حد تک درست یا غلط ہوسکتے ہیں لیکن آخرت کے لیے حق وہی ہے جو اللہ نے بتادیا ہے۔ آخرت برپا ہونے  پر  انکی سب قیاس آرائیاں غلط ثابت ہونگی جب اِن جھٹلانے والوں کو آگ پر تپایا جائے گا اور نیکو کاروں کو جنتوں میں داخل کیا جائے گا جہاں ہر قسم کی نعمتیں اُن کو فراہم کی جائیں گی۔
  • دنیا میں ان نیکو کاروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ راتوں کو اپنے پرودگار کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں، راتوں کے پچھلے پہر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اپنا مال ضرورت مندوں پر خرچ کرتے ہیں۔

سرکش قومیں (دوسرا رکوع):

  • دوسرے رکوع میں حضرت ابراہیم ؑ کے پاس فرشتوں کی آمد کا تذکرہ ہے۔ جنھوں نے انھیں ایک بیٹے کی خوشخبری سنائی اور پھر قومِ لوطؑ کی طرف عذاب کےلیے روانہ ہوئے۔  اس مجرم قوم کی نشان زدہ پتھروں سے بارش کی گئی تھی۔  اسکے بعد موسیؑ اور انکے مخالف فرعون کا تذکرہ ملتا ہے کہ کس طرح اس نے سرکشی کی اور بالآخر اپنے حواریوں کے ساتھ سمندر میں غرق کردیا گیا،  قومِ عاد، قومِ ثمود اور قومِ کی تباہی کی  مختصر تذکیر بھی کرائی گئی ہے۔  تفصیل ہم گزشتہ خلاصوں میں بیان کرچکے ہیں۔

توحید کے دلائل (تیسرا رکوع):

  • تیسرے رکوع میں توحید سے متعلق کچھ دلائل جیسے آسمان  اور زمین کی تخلیق،  تمام مخلوقات کے جوڑے  بیان کرکے،  حضرت ِانسان کو کہا گیا کہ “فَفِرُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ دوڑو اللہ کی طرف”۔   اور بتایا گیا کہ میں نے کسی انسان کو اللہ نے اس کے سوا پیدا نہیں کیا وہ  اسکی بندگی کرے، جس کے بدلے وہ کوئی مفاد نہین چاہتا۔  لیکن جو ایسا نہیں کریں گے تو اپنی جانوں پر ظلم کریں گے اور اس کا بھیانک بدلہ لینے کے لیے تیار رہیں۔

سورۃ  الطّور:

مضامین کی اندرونی شہادت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی مکہ معظمہ کے اسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورة ذاریات نازل ہوئی تھی۔

آخرت کے دلائل (پہلا رکوع):

  • اس رکوع میں آخرت کی شہادت دینے والے چند حقائق و آثار کی قسم کھا کر پورے زور کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ یقیناً واقع ہو کر رہے گی اور کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اسے برپا ہونے سے روک دے۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیش آئے گی تو اس کے جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوگا، اور اسے مان کر تقویٰ کی روش اختیار کرلینے والے کس طرح اللہ کے انعامات سے سرفراز ہوں گے۔

منکرینِ حق کے رویّوں پر تنقید (دوسرا  رکوع):

  • دوسرے رکوع میں منکرینِ حق کے اس رویے پر تنقید کی گئی ہے جو وہ رسول اللہﷺ کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کیے ہوئے تھے۔ وہ آپ کو کبھی کاہن، کبھی مجنون اور کبھی شاعر قرار دے کر عوام الناس کو آپ کے خلاف بہکاتے تھے تاکہ لوگ آپ کے لائے ہوئے پیغام کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ کریں۔
  • وہ آپ کی ذات کو اپنے حق میں ایک بلائے ناگہانی سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ کوئی آفت ان پر نازل ہوجائے تو ہمارا ان سے پیچھا چھوٹے۔
  • وہ آپ پر الزام لگاتے تھے کہ یہ قرآن آپ خود گھڑ گھڑ کر خدا کے نام سے پیش کر رہے ہیں اور یہ معاذاللہ ایک فریب ہے جو آپ نے بنا رکھا ہے۔
  • وہ آپ کی دعوت و تبلیغ سے ایسی بیزاری کا اظہار کرتے تھے جیسے آپ کچھ مانگنے کے لیے ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے آپ سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔
  • وہ آپس میں بیٹھ بیٹھ کر سوچتے تھے کہ آپ کے خلاف کیا چال ایسی چلی جائے جس سے آپ کی اس دعوت کا خاتمہ ہوجائے۔
  • اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی رویے پر تنقید کرتے ہوئے پے در پے کچھ سوالات کیے ہیں جن میں سے ہر سوال یا تو ان کے کسی اعتراض کا جواب ہے یا ان کی کسی جہالت پر تبصرہ۔ پھر فرمایا ہے کہ ان لوگوں کو آپ کی نبوت کا قائل کرنے کے لیے کوئی معجزہ دکھانا قطعی لا حاصل ہے، کیونکہ یہ ایسے ہٹ دھرم لوگ ہیں انہیں خواہ کچھ بھی دکھا دیا جائے، یہ اس کی کوئی تاویل کر کے ایمان لانے سے گریز کر جائیں گے۔
  • اس رکوع کے آغاز میں بھی رسول اللہ ﷺ کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان مخالفین کے الزامات و اعتراضات کی پروا کیے بغیر اپنی دعوت کا کام مسلسل جاری رکھیں، اور آخر میں بھی آپ کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ صبر کے ساتھ ان مزاحمتوں کا مقابلہ کیے چلے جائیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آجائے۔ آپؐ  اپنے رب کی حمد و تسبیح سے وہ قوت حاصل کرتے رہیں جو ایسے حالات میں اللہ کا کام کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

سورۃ  النجم:

  • یہ ایک مکی سورۃ ہے اور ۵ نبوی میں نازل ہوئی۔  یہ قرآن مجید کی وہ پہلی سورة ہے جسے رسول اللہﷺنے قریش کے ایک مجمع عام میں سنایا تھا۔ مجمع میں کافر اور مومن سب موجود تھے۔ آخر میں جب آپ نے آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ فرمایا تو تمام حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے اور مشرکین کے وہ بڑے بڑے سردار تک، جو مخالفت میں پیش پیش تھے سجدہ کیے بغیر نہ رہ سکے۔

 

 

 (پہلا رکوع):

  • غروب ہونے والے ستارے کی قسم کھاکر کفار مکہ کو بتایا جا رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جن کی سیرت و کردار سے تم بچپن سے واقف ہو وہ  تمہارے یہ رفیق تاریکی میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں ٹھیک صراط مستقیم پر چل رہے ہیں نہ وہ راستہ بھولے ہیں کہ ادھر ادھر پھرتے رہیں اور نہ ہی راستہ سے بہکے ہوئے ہیں۔  وہ اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتے بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے جبرئیل امین ہماری جانب سے وحی لاتے ہیں اور انھیں بتاتے ہیں تاکہ یہ تمھیں آگاہ کریں۔  اب تم اللہ کا مقابلہ لات، عزیٰ اور منات (مشرکین کے دیوی دیوتا) سے کرتے ہو جن کے نام بھی تمھارے آباؤ اجداد نے خود ہی رکھ لیے ہیں۔جبکہ   آخرت کا پورا اختیار تو اللہ ہی کو  ہے۔

 (دوسرا  رکوع):

  • اگر آسمان کے سارے فرشتے مل کر بھی تمہاری سفارش کریں تو وہ تمہارے کسی کام نہ آسکے گی پھر تمہارے ان معبودوں کی تو حیثیت ہی کیا ہے۔ سفارش تو اسی کے حق میں مقبول ہو سکے گی جس کے حق میں اللہ چاہے گا اور اللہ مشرکوں کے حق میں فیصلہ کرچکا ہے کہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا تو وہ تمہارے حق میں سفارش کیسے کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سفارش تو وہ کرسکے گا جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سفارش کرنے کی اجازت ہوگی خواہ یہ انسان ہوں یا فرشتے۔
  • کفار کا تذکرہ کرنے کے بعد اہلِ ایمان کو تسلی دی گئی اور فرمایا کہ نیک رویہ اختیار کرنے والوں کےلیے بہت اچھی جزا ہےیہ وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے گناہوں سے بچتے ہیں، اعمالِ فاحشہ سے پرہیز کرتے ہیں۔ اگر ان سے کوئی گناہ بھول چوک سے سرزد بھی ہوجائے تو نادم ہوتےہیں اور اللہ انھیں معاف کردیا کرتا ہے۔

 (تیسرا   رکوع):

  • آیت ۳۳۔۳۴ قریش کے سردار  ولید بن مغیرہ کے متعلق نازل ہوئیں۔  وہ رسول اللہﷺکی دعوت سے کافی حد تک متاثر ہوچکا تھا اور قریب تھا کہ ایمان لے آئے۔ اس کے ایک مشرک دوست کو جب اس صورت حال کا پتہ چلا تو اسے کہنے لگا : جس آخرت سے تم ڈرتے ہو اس کا میں ذمہ لیتا ہوں کہ اگر تمہیں عذاب ہوا تو تمہاری سزا میں اپنے سر لے لوں گا بشرطیکہ تم مجھے اتنا اتنا مال دے دو ۔ چنانچہ ولید بن مغیرہ اس کے چکمے میں آگیا۔ اس کی بات کو قبول کرتے ہوئے طے شدہ مال کی ایک قسط اسے ادا بھی کردی لیکن بعد میں اس نے کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر مزید مال دینے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔    لیکن اسلام کا راستہ روکنے کو اس نے اپنا مشن بنا لیا تھا۔
  • موسیؑ اور ابراہیم کے صحیفوں کا ذکر کرتے ہوئے آخرت سے متعلق انکی کچھ تعلیمات کو اس لیے نقل کیا گیا کہ انہیں معلوم ہوجائے کہ نبی کریم کوئی نیادین اور زندگی اور زندگی کے لیے کوئی انوکھا نظام لے کر نہیں آئے، بلکہ یہ انہی سچائیوں کی دعوت دے رہے ہیں جن کی دعوت پہلے انبیاء دیتے رہے ہیں، خصوصاً حضرت ابراہیم خلیل اللہ جن کی تم اولاد ہونے پر فخر کرتے ہو۔
  • اہلِ اسلام کو تسلی دی گئی کہ یہ کافر اپنی قوت کے بل پر حق کا راستہ نہیں روک سکتا، اللہ اس سے پہلے بڑے بڑے طاقت ور لوگوں کو فنا کے گھاٹ اُتار چکا ہے۔ زمین پر جگہ جگہ ان کےکھنڈرات اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار عبرت کےلیے کافی ہیں۔
  • آخر میں اس سورت کا اختتام ہو رہا ہے کہ اے مکہ کے باشندو ! کلام الٰہی سن کر تم غرور ونخوست سے اکڑتے ہوئے بڑی بےپروائی سے گزر جاتے ہو۔ یہ مہلت کی گھڑیاں ختم ہونے والی ہیں۔ پھر واویلا کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ تمہاری نجات اسی میں ہے کہ تمام معبودان باطل سے رشتہ توڑ کر اپنے حقیقی خالق اور سچے معبود کی عبادت میں مصروف ہوجاؤ۔

سورۃ  القمر:

  • اس کے نزول کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب ” انشقاق قمر ” کا معجزہ رونما ہوا، اور یہ معجزہ مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پانچ سال پہلے منی کے میدان میں ظہور پذیر ہوا۔

تاریخی پس منظر:

کفارِ مکہ آئے روز ایسے معجزات کا مشاہدہ کرتے رہتے تھے جن کو دیکھنے کے بعد کوئی سلیم الطبع انسان حضورؐ کی رسالت کا انکار نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن عقل کے اندھے ان کو جادو کہہ کر ٹال دیا کرتے۔ آخر کار ایک رات ان کی فرمائش پر ” شق القمر ” کا معجزہ دکھایا گیا۔ مکہ کے سارے باشندے منیٰ کے کھلے میدان میں حاضر تھے۔ آسمان پر چاند چمک رہا تھا۔ سرور کائنات ﷺنے انگلی کا اشارہ کیا۔ اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چاند کا کرہ دو ٹکڑے ہوگیا۔ دیکھنے والوں کو یوں محسوس ہوا کہ اس کا ایک حصہ پہاڑ کے اس طرف اور دوسرا دوسری طرف چلا گیا ہے۔ پھر وہ آناً فاناً جڑ گیا۔ کفار یہ دیکھ کر تصویر حیرت بن گئے ان کے پاس حضور کی رسالت کے انکار کا اب کوئی عذر باقی نہ رہا۔ اتنے میں ابوجہل بولا کہ بڑا زبردست جادوگر ہے اس کا جادو آسمان پر بھی اثر کرتا ہے۔

مالا بار کا راجہ:        سیّد مودودیؒ نے مالا بار کی تاریخ کا یہ واقعہ بھی نقل فرمایا کہ راجہ کے روزنامچوں میں اس تاریخ  میں لکھا ہوا موجود ہے کہ راجہ اور اس کے درباری سمندر کے کنارے ٹہل رہے تے کہ اُنھوں نے یہ حیران کُن منظر دیکھا۔

قرآن کو نصیحت کےلیے آسان بنایا گیا:

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک جانب تو یہ معجزہ دکھایا تو دوسری جانب چھوٹی چھوٹی آیات میں تاریخِ انسانی کے پانچ اہم واقعات کو پیش کرکے دعوتِ فکر دی۔  قومِ نوحؑ، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط اور فرعون میں سے ہر قوم کے  تاریخی واقعات بیان کرنے کے بعد۔  اس  آیت  کو دہرایا کہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ   یعنی ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟  جس سے قائین کو تنبیہ کی گئی کہ قرآن کوئی مُعمّوں کی کتاب نہیں جس کو سمجھنا ان کے بس سے باہر ہو۔ یہ تو ایک کھلی اور واضح کتاب ہے۔ جو شخص بھی خلوص نیت سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے لیے اس کو سمجھنا آسان ہوگا۔

قیامت کا نقشہ:

آخر میں قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ اس روز کفار منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے اور   نصیحت حاصل کرنے والوں کا خوش نما انجام  ہوگا اور بڑے ذی اقتدار بادشاہِ حقیقی کا تقرب انھیں حاصل ہوگا۔

سورۃ  الرحمٰن:

  • اس مبارک سورة کا پہلا کلمہ الرحمٰن ہے۔ یہی اس کا نام ہے۔ نیز اس سورة میں اللہ تعالیٰ کی شان رحمانیت کی تجلّیاں ہر سُو جلوہ طراز ہیں۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ ایک مکی سورۃ ہے۔

تاریخی پس منظر:

  • حضرت عروہ ابن زبیر سے مروی ہے کہ ایک روز صحابہ کہنے لگے کہ قریش نے آج تک قرآن کو سنا نہیں، بغیر سنے اس کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی صاحب ہمت کر کے اور بلند آواز سے ان کو قرآن حکیم سنائے تو کتنا اچھا ہو۔ حضرت ابن مسعود نے کہا یہ سعادت میں حاصل کروں گا۔ صحابہ نے کہا تمہارا سنانا مناسب نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں کمزور اور ضعیف سمجھ کر زدو کو ب کریں۔ کسی ایسے آدمی کو یہ فریضہ انجام دینا چاہیے جس کا قبیلہ زور آور ہو تاکہ اس کے خوف سے کوئی کافر اس پر دست درازی نہ کرسکے۔ لیکن ابن مسعود نے ان کی ایک نہ سنی۔ اٹھے، مقام ابراہیم کے پاس جاکر کھڑے ہوگئے۔ اور اپنی سریلی آواز سے بلند آواز میں سورة الرحمٰن کی تلاوت شروع کردی۔ قریش جو اپنی اپنی مجلسیں جمائے بیٹھے تھے، پہلے تو انہوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ بعد میں جب انہیں پتہ چلا کہ یہ قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں تو اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے قریب آکر مارنا شروع کیا۔ بڑی بیدردی سے انہیں پیٹا، یہاں تک کہ ان کا چہرہ زخمی ہوگیا۔
  • تاریخی پس منظر:
  • اس سورۃ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی مختلف نعمتوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کے مشاہدے میں رات  اور دن آتی رہتی ہیں ۔  پھر اسکے بعد انسانوں اور جنّوں سے سوال کیا ہے کہ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ   13 ؀  یعنی پس اے جن و انس تم اپنے ربّ کون کون سے نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ یہ آیت اس سورۃ میں ۳۱ بار دھرائی گئی ہے۔  اصل میں لفظ آلاء استعمال ہوا ہے ہر بار  جملے کے اعتبار سے یہ اپنے ایک الگ معنی دے رہا ہے۔  جن میں نعمت،  عجائب، قدرت،  خوبیاں، اوصافِ حمیدہ ، کرشمے، کمالات، احسانات، انعامات، وغیرہ شامل ہیں۔
  • حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ایک دفعہ صحابہؓ سے فرمایا کہ تم سے تو جن ہی اچھے ہوئے کہ جب میں فَبِاَيِّ اٰلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ پڑھتا تو وہ اس کے جواب میں یوں کہتے ہیں    لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ  (اے ہمارے پروردگار ! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ سب حمد و ثنا تیرے ہی لیے ہے) لہذا جب کوئی شخص یہ آیت پڑھے تو اس کا یہی جواب دینا چاہیے۔ علاوہ ازیں اس آیت اور اس کے بعد کی آیات میں دونوں طرح کی مکلف مخلوق یعنی جنوں اور انسانوں کو مشترکہ طور پر خطاب کیا گیا ہے۔  اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ نبی کریم ﷺ انسانوں اور جنوں دونوں کے نبی تھی۔
  • اس سورۃ میں جنت و جہنم کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے کہ اپنے سامنے نظر آتی ہیں۔ اس میں عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جو اسلامی نظام کے قیام ہی سے ممکن ہے۔   فرمایا کہ دنیا کی ہر چیز فنا کے گھاٹ اُتر جائے گی اور صرف تیرے رب کی ذات ِ جلیل و کریم ہی باقی رہنے والی ہے۔ 

الحمد للہ آج 24 ویں تراویح کا خلاصہ  مکمل ہوا۔

 25 ویں تراویح کا  خلاصہ ان شاء اللہ کل۔  ہمارے ساتھ رہیے گا۔        جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ

پچیسویں   تراویح

آج  پچیسویں تراویح ہے اور اس میں 4 سورتوں کی تلاوت کی جائے گی جن میں سورۃ  الواقعہ   سورۃ الحدید،   سورۃ المجادلہ،  سورۃ الحشر ، شامل ہیں۔

سورۃ الواقعہ:

  • سورۃ واقعہ ایک مکی سورۃ ہے اور مکہ کے بھی درمیانی دور کی۔
  • اس کا موضوع آخرت، توحید اور قرآن کے متعلق کفار مکہ کے شبہات کی تردید ہے۔

پیش آنے والا واقعہ (۱۔۳):

  • کفار قیامت کا انکار کرتے تھے جس کے جواب میں فرمایا کہ جب وہ واقعہ پیش آجائے گا اس وقت کوئی یہ جھوٹ بولنے والا نہ ہوگا کہ وہ پیش نہیں آیا ہے، نہ کسی کی یہ طاقت ہوگی کہ اسے آتے آتے روک دے، یا واقعہ سے غیر واقعہ بنا دے۔ اس دن سب کچھ اُلٹ پلٹ ہوجائے گا، پوری زمین ایک ساتھ ہلاڈالی جائے گی،  پہاڑوں ریزہ ریزہ بن کر تیز آندھیوں میں اُڑ جائیں گے۔

روزِ قیامت انسانوں کے طبقات (۴۔۵۶):

  • اس وقت لازماً تمام انسان تین طبقات میں تقسیم ہوجائیں گے۔ ایک، دائیں ہاتھ والے یعنی عام صالحین، دوسرے بائیں ہاتھ والے یعنی ناکام لوگ جو دنیا میں آخرت کا انکار کرتے تھے اور مرتے دم تک کفر و شرک اور گناہ کبیرہ پر جمے رہے۔ تیسرے سابقین ۔   
  • اصحاب المیمنہ سے مراد دائیں ہاتھ والے ،  کامیاب و کامران لوگ یعنی اہل جنت  جن کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا  یہ خوش بخت اور خیر و برکت والے افراد ہونگے۔
  • اصحاب المشئمہ سے مراد بائیں ہاتھ والے، ناکام و نا مُراد لوگ یعنی اہلِ جہنم جن کا عمال نامہ بائیں ہاتھ میں ملے گا۔ یہ بدبخت  لوگ ہوں گے۔
  • تیسرے سبقت لے جانے والے، یعنی جو ایمان لانے میں، معرکۂ  حق و باطل میں، اللہ کی راہ میں مصائب برداشت کرنے میں اور ہر خیر اور بھلائی کے کام میں دوسروں سے سبقت لے جانے  والے اور آگے نکل جانے والوں کا درجہ عام مومنین صالحین سے بہرحال زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا یہی لوگ اللہ کے مقربین میں سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سب سے آگے یہی لوگ ہوں گے پھر ان کے بعد دائیں جانب صالحین مومنین اور بائیں جانب کافر و مشرک، سرکش اور خود سر یعنی اہل دوزخ ہوں گے۔

کامیاب لوگوں کی ضیافت اور ناکام لوگوں کی ذلالت(۱۲۔۵۶):

  • کامیاب لوگ آپس میں محفلیں سجائے بیٹھے ہونگے،  لذیز پھلوں اور معطر مشروبات انکے سامنے ہونگے،  خوبصورت آنکھوں والی حوریں انکی خدمت پر مامور ہونگی۔  وہاں انکے دل میں کسی کےلیے کوئی حسد، بغض اور کینہ وغیرہ نہیں ہوگا اسی لیے کوئی بیہودہ کلام نہیں سنیں گے۔
  • ناکام لوگ کی ضیافت کے کھولتا ہوا پانی ہوگا جسے وہ ایسے پئیں گے جیسے پیاس کی بیماری میں مبتلا اونٹ پیتا ہے،  زقّوم نامی کڑوا زہر کانٹے درخت انھیں کھانے میں ملے گا۔

دلائلِ توحید و آخرت (۵۷۔۷۴):

  • اس کے بعد آیت 57 سے آیت 74 تک اسلام کے ان دونوں بنیادی عقائد کی صداقت پر پے درپے دلائل دیے گئے ہیں جن کو ماننے سے کفار انکار کر رہے تھے، یعنی توحید اور آخرت۔ ان دلائل میں زمین و آسمان کی دوسری تمام چیزوں کو چھوڑ کر انسان کو خود اس کے اپنے وجود کی طرف اور اس غذا کی طرف جسے وہ کھاتا ہے اور اس پانی کی طرف جسے وہ پیتا ہے اور اس آگ کی طرف جس سے وہ اپنا کھانا پکاتا ہے، توجہ دلائی گئی ہے۔ اور اسے اس سوال پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ تو جس خدا کے بنانے سے بنا ہے اور جس کے دیے ہوئے سامان زیست پر پل رہا ہے اس کے مقابلے میں خود مختار ہونے، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی بجا لانے کا آخر تجھے حق کیا ہے ؟ اور اس کے متعلق تو نے یہ کیسے گمان کرلیا کہ وہ ایک دفعہ تجھے وجود میں لے آنے کے بعد ایسا عاجز و درماندہ ہوجاتا ہے کہ دوبارہ تجھ کو وجود میں لانا چاہے بھی تو نہیں لا سکتا ؟

قرآن ایک مضبوط و محکم کلام  (۷۵۔۸۲):

  • پھر آیت 75 سے 82 تک قرآن کے بارے میں ان کے شکوک کی تردید کی گئی ہے اور ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ بد نصیبو، یہ عظیم الشان نعمت تمہارے پاس آئی ہے اور تم نے اپنا حصہ اس نعمت میں یہ رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹی بےاعتنائی برتتے ہو۔ قرآن کی صداقت پر دو مختصر سے فقروں میں یہ بےنظیر دلیل پیش کی گئی ہے کہ اس پر کوئی غور کرے تو اس کے اندر ویسا ہی محکم نظام پائے گا جیسا کائنات کے تاروں اور سیاروں کا نظام محکم ہے، اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا مصنف وہی ہے جس نے کائنات کا یہ نظام بنایا ہے۔ پھر کفار سے کہا گیا ہے کہ یہ کتاب اس نوشتہ تقدیر میں ثبت ہے جو مخلوقات کی دسترس سے باہر ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ اسے محمد ؐکے پاس شیاطین لاتے ہیں، حالانکہ لوح محفوظ سے محمدؐ تک جس ذریعہ سے یہ پہنچتی ہے اس میں پاک نفس فرشتوں کے سوا کسی کا ذرہ برابر بھی کوئی دخل نہیں ہے۔

مرنے والے کو روک کیوں نہیں لیتے؟ (۸۳۔۹۵):

  • آخر میں انسان کو بتایا گیا ہے کہ تو کتنی ہی لن ترانیاں ہانکے اور اپنی خود مختاری کے گھمنڈ میں کتنا ہی حقائق کی طرف سے اندھا ہوجائے، مگر موت کا وقت تیری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ اس وقت تو بالکل بےبس ہوتا ہے۔ اپنے ماں باپ کو نہیں بچا سکتا۔ اپنی اولاد کو نہیں بچا سکتا۔ اپنے پیروں اور پیشواؤں اور محبوب ترین لیڈروں کو نہیں بچا سکتا۔ سب تیری آنکھوں کے سامنے مرتے ہیں اور تو دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اگر کوئی بالا تر طاقت تیرے اوپر فرمانروا نہیں ہے اور تیرا یہ زعم درست ہے کہ دنیا میں بس تو ہی تو ہے، کوئی خدا نہیں ہے، تو کسی مرنے والے کی نکلتی ہوئی جان کو پلٹا کیوں نہیں لاتا ؟
  • جس طرح تو اس معاملہ میں بےبس ہے اسی طرح خدا کے محاسبے اور اس کی جزا و سزا کو بھی روک دینا تیرے اختیار میں نہیں ہے۔ تو خواہ مانے یا نہ مانے، موت کے بعد ہر مرنے والا اپنا انجام دیکھ کر رہے گا۔ مقربین میں سے ہو تو مقربین کا انجام دیکھے گا۔ صالحین میں سے ہو تو صالحین کا انجام دیکھے گا۔ اور جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہو تو وہ انجام دیکھے گا جو ایسے مجرموں کے لیے مقدر ہے۔

سورۃ الحدید:

  • سورۃ الحدید ایک مدنی سورۃ ہے۔ اس کے مضامین پر غور کرنے سے لگتا ہے کہ یہ صلح حدیبیہ اور غزوۂ اُحد کے درمیان کسی وقت نازل ہوئی ہوگی۔
  • اس کا موضوع انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین ہے۔ اسلام کی تاریخ کے اس نازک ترین دور میں، جبکہ عرب کی جاہلیت سے اسلام کا فیصلہ کن معرکہ برپا تھا، یہ سورة اس غرض کے لیے نازل فرمائی گئی تھی کہ مسلمانوں کو خاص طور پر مالی قربانیوں کے لیے آمادہ کیا جائے ۔

اللہ کی صفات (۱۔۶):

  • مالی قربانیوں پر آمادہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں جیسےزمین و آسمان کی تمام مخلوق زبانِ حال سے اللہ کی تسبیح بیان کررہی ہے۔  چونکہ اللہ ہر چیز کا خالق ہےاس نے جو چیز بھی جس مقصد کے لیے بنائی  وہ ہمیشہ اپنی تخلیق کا مقصد پورا کرتی اور مثبت نتائج پیدا کرتی ہیں اور یہی بات اللہ تعالیٰ کی کمال حکمت پر دلیل ہے۔ 

خرچ کرو اللہ کی راہ میں (۷۔۱۹):

  • ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی راہ خدا میں مال صرف کرنے سے پہلو تہی نہ کرے۔ ایسا کرنا صرف ایمان ہی کے منافی نہیں ہے بلکہ حقیقت کے اعتبار سے بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہ مال دراصل خدا ہی کا مال ہے جس پر تم کو خلیفہ کی حیثیت سے تصرف کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ کل یہی مال دوسروں کے پاس تھا، آج تمہارے پاس ہے، اور کل کسی اور کے پاس چلا جائے گا۔ آخر کار اسے خدا ہی کے پاس رہ جانا ہے جو کائنات کی ہر چیز کا وارث ہے۔ تمہارے کام اس مال کا کوئی حصہ اگر آسکتا ہے تو صرف وہ جسے تم اپنے زمانہ تصرف میں خدا کے کام پر لگا دو ۔
  • خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینا اگرچہ ہر حال میں قابل قدر ہے، مگر ان قربانیوں کی قدر و قیمت مواقع کی نزاکت کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے۔ ایک موقع وہ ہوتا ہے جب کفر کی طاقت بڑی زبردست ہو اور ہر وقت یہ خطرہ ہو کہ کہیں اسلام اس کے مقابلہ میں مغلوب نہ ہوجائے۔ دوسرا موقع وہ ہوتا ہے جب کفر و اسلام کی کشمکش میں اسلام کی طاقت کا پلڑا بھاری ہوجائے اور ایمان کو دشمنان حق کے مقابلہ میں فتح نصیب ہو رہی ہو۔ یہ دونوں حالتیں اپنی اہمیت کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں اس لیے جو قربانیاں ان مختلف حالتوں میں دی جائیں وہ بھی اپنی قیمت میں برابر نہیں ہیں۔ جو لوگ اسلام کے ضعف کی حالت میں اس کو سربلند کرنے کے لیے جانیں لڑائیں اور مال صرف کریں ان کے درجہ کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو اسلام کے غلبے کی حالت میں اس کو مزید فروغ دینے کے لیے جان و مال قربان کریں۔
  • راہ حق میں جو مال بھی صرف کیا جائے وہ اللہ کے ذمے قرض ہے، اور اللہ اسے نہ صرف یہ کہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس دے گا بلکہ اپنی طرف سے مزید اجر بھی عنایت فرمائے گا۔
  • آخرت میں نور انہی اہل ایمان کو نصیب ہوگا جنہوں نے راہ خدا میں اپنا مال خرچ کیا ہو۔ رہے وہ منافق جو دنیا میں اپنے ہی مفاد کو دیکھتے رہے اور جنہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں رہی کہ حق غالب ہوتا ہے یا باطل، وہ خواہ دنیا کی اس زندگی میں مومنوں کے ساتھ ملے جلے رہے ہوں، مگر آخرت میں ان کو مومنوں سے الگ کردیا جائے گا، نور سے وہ محروم ہوں گے اور ان کا حشر کافروں کے ساتھ ہوگا۔
  • مسلمانوں کو ان اہل کتاب کی طرح نہ ہوجانا چاہیے جن کی عمریں دنیا پرستی میں بیت گئی ہیں اور جن کے دل زمانہ دراز کی غفلتوں سے پتھر ہوگئے ہیں۔ وہ مومن ہی کیا جس کا دل خدا کے ذکر سے نہ پگھلے اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے نہ جھکے۔
  • اللہ کے نزدیک صدیق اور شہید صرف وہ اہل ایمان ہیں جو اپنا مال کسی جذبہ ریا کے بغیر صدق دل سے اس کی راہ میں صرف کرتے ہیں۔

دنیا کی زندگی ناپائیدار ہے (۲۰۔۲۱):

  • دنیا کی زندگی محض چند روز کی بہار اور ایک متاع غرور ہے۔ یہاں کا کھیل کود، یہاں کی دلچسپیاں، یہاں کی آرائش و زیبائش، یہاں کی بڑائیوں پر فخر، اور یہاں کا دھن و دولت، جس میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوششیں کرتے ہیں، سب کچھ ناپائدار ہے۔ اس کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جو پہلے سر سبز ہوتی ہے، پھر زرد پڑجاتی ہے اور آخر کار بھس بن کر رہ جاتی ہے۔ پائیدار زندگی دراصل آخرت کی زندگی ہے جہاں بڑے نتائج نکلنے والے ہیں۔ تمہیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنی ہے تو یہ کوشش جنت کی طرف دوڑنے میں صرف کرو۔

مومن اور منافق کا فرق (۲۲۔۲۱):

  • دنیا میں راحت اور مصیبت جو بھی آتی ہے اللہ کے پہلے سے لکھے ہوئے فیصلے کے مطابق آتی ہے۔ مومن کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ مصیبت آئے تو ہمت نہ ہار بیٹھے، اور راحت آئے تو اترا نہ جائے۔ یہ تو ایک منافق اور کافر کا کردار ہے کہ اللہ اس کو نعمت بخشے تو وہ اپنی جگہ پھول جائے، فخر جتانے لگے، اور اسی نعمت دینے والے خدا کے کام میں خرچ کرتے ہوئے خود بھی تنگ دلی دکھائے اور دوسروں کو بھی بخل کرنے کا مشورہ دے۔

مومن اور منافق کا فرق (۲۳۔۲۴):

  • اللہ نے اپنے رسول کھلی کھلی نشانیوں اور کتاب اور میزان عدل کے ساتھ بھیجے تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور اس کے ساتھ لوہا بھی نازل کیا تاکہ حق قائم کرنے اور باطل کا سر نیچا کرنے کے لیے طاقت استعمال کی جائے۔ اس طرح اللہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون لوگ ایسے نکلتے ہیں جو اس کے دین کی حمایت و نصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اس کی خاطر جان لڑا دیں۔ یہ مواقع اللہ نے تمہاری اپنی ہی ترقی و سرفرازی کے لیے پیدا کیے ہیں، ورنہ اللہ اپنے کام کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے۔

مومنین کے لیے دوہرا اجر (۲۵۔۲۹):

  • اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے انبیاؑء آتے رہے جن کی دعوت سے کچھ لوگ راہ راست پر آئے ۔ پھر عیسیٰ ؑ آئے جن کی تعلیم سے لوگوں میں بہت سی اخلاقی خوبیاں پیدا ہوئیں، مگر ان کی امت نے رہبانیت کی بدعت اختیار کرلی۔ اب اللہ تعالیٰ نے محمد ؐکو بھیجا ہے۔ ان پر جو لوگ ایمان لائیں گے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کریں گے، اللہ ان کو اپنی رحمت کا دہرا حصہ دے گا اور انہیں وہ نور بخشے گا جس سے دنیا کی زندگی میں وہ ہر ہر قدم پر ٹیڑھے راستوں کے درمیان سیدھی راہ صاف دیکھ کر چل سکیں گے۔   اللہ انھیں دوہرا اجر دے گا اور وہی فضل عظیم کا مالک ہے۔

سورۃ المجادلہ:

ظہار کے شرعی احکام (۱۔۶):

  • ایک صحابیہ خولہ بنت ثعلبہ کو ان کے شوہر اَوْس بن صامت انصاری نے عرب قاعدے کے مطابق  غصے میں آ کر اَنْت عَلَیّ کَظَہرِ اُمیّ کہہ کیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ” تجھ سے مباشرت کرنا میرے لیے ایسا ہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں “۔  اہل عرب کے نزدیک طلاق کے بعد تو رجوع کی گنجائش ہو سکتی تھی، مگر ظہار کے بعد رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔
  • یہ صحابیہ حضور ﷺ کے پاس آئیں اور شکایت کی کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور میرے شوہر نے مجھے ایسے کہہ دیا۔ اگر ہم دونوں کی جدائی ہوگئی تو میں مصیبت میں پڑجاؤں گی اور میرے بچے تباہ ہوجائیں گے، عین اسی حالت میں رسول اللہﷺ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں۔
  • تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے ۔ یہ لوگ ایک سخت، ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔
  • اللہ نے قانون بنادیا کہ اس کی اسلام میں تو کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم  آئندہ اگر کوئی ایسا کرے تو اسے سزا کے طور پر اپنی بیوی سے رُجوع کرنے سے پہلے اُسے ایک غلام آزاد کرنا ہوگا،  اگر اسکی استطاعت نہیں رکھتا تو متواتر ۶۰ روزے رکھے،  اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو تو وہ ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔  یعنی اس کو ایک کھیل نہ بنالے کیونکہ یہ ماں  اور بیوی دونوں کی  حرمت کے ساتھ مذاق ہے۔

منافقین کے رویے (۷۔۱۰):

  • آیات ۷ تا ۱۰ میں منافقین کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ وہ آپس میں خفیہ سرگرمیاں کر کے طرح طرح کی شرارتوں کے منصوبے بناتے تھے، اور ان کے دلوں میں جو بغض چھپا ہوا تھا اس کی اظہار رسول ﷺ کو یہودیوں کی طرح ایسے طریقے سلام کرکے کرتے تھے جس سے دعا کے بجائے بددعا کا پہلو نکلتا تھا۔ یعنی سلام علیک یا اباالقاسم  (آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں اے ابوالقاسم)  کہنے کی بجائے کہا کرتے تھے سام علیک  یا ابالقاسم جس کے معنی ہوتے ہیں تمھیں موت آئے اے ابوالقاسم۔ جسکے جواب میں رسول اللہ ﷺ انھیں وعلیکم کہا کرتے تھے۔
  • اس سلسلہ میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ منافقین کی یہ سرگوشیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، اس لیے تم اللہ کے بھروسے پر اپنا کام کرتے رہو۔ا ور اس کے ساتھ ان کو یہ اخلاقی تعلیم بھی دی گئی ہے کہ سچے اہل ایمان کا کام گناہ اور ظلم و زیادتی اور رسول کی نافرمانی کے لیے سرگوشیاں کرنا نہیں ہے، وہ اگر آپس میں بیٹھ کر تخلیے میں کوئی بات کریں تو وہ نیکی اور تقویٰ کی بات ہونی چاہیئے۔

مجلسی تہذیب کے آداب (۱۱۔۱۳):

  • آیت ۱۱ تا ۱۳ میں مسلمانوں کو مجلسی تہذیب کے کچھ آداب سکھائے گئے ہیں اور بعض ایسے معاشرتی عیوب کو دور کرنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں جو پہلے بھی لوگوں میں پائے جاتے اور آج بھی پائے جاتے ہیں کہ
  • جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ دوسروں کو تنگ نہ کرنا چاہیے۔ نہ اس بات میں اپنی ہتک محسوس کرنا چاہیے۔
  • اہل مجلس جب دیکھیں کہ جگہ تنگ ہو رہی ہے اور نئے آنے والوں کو جگہ نہیں مل رہی تو انہیں مجلس کا حلقہ وسیع کرلینا چاہیے۔ سکڑ کر اور سمٹ کر بیٹھ جانا چاہیے۔ تاکہ آنے والوں کے لیے جگہ بن جائے۔
  • ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ مجلس میں رسول اللہﷺ کے قریب ہو کر بیٹھے ۔ تو ایسی صورت میں کسی کے لئے، خواہ وہ عزت اور مرتبہ میں بڑا ہو، یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔
  • حفظ مراتب کا بھی ایک مقام ہے۔ اگر کوئی چھوٹا کسی بڑے کو آتے دیکھ کر از راہ تواضع اور آنے والے کا احترام کرتے ہوئے اپنی جگہ اس کے لیے چھوڑ کر خود پیچھے ہٹ جائے تو یہ چیز چھوٹے کی عزت اور درجات کی بلندی کا سبب بن جائے گی۔
  • اگر میر ِمجلس ‘ مجلس کو برخاست کرنے اور چلے جانے کا حکم دے یا کسی ایک شخص کو کسی مصلحت کی بنا پر چلے جانے کو کہے تو اسے اس حکم میں نہ عار محسوس کرنی چاہیے اور نہ اسے اس کی تعمیل میں اپنی توہین محسوس کرنا چاہیے۔
  • ٨۔ اگر کھانا کھانے کی مجلس ہو تو کھانے سے فراغت کے بعد باتوں میں مشغول ہو کر میزبان کو پریشان اور تنگ نہ کرنا چاہیے بلکہ فراغت کے بعد جلد اجازت لے کر رخصت ہوجانا چاہیے۔

دین میں مخلص اہلِ ایمان  کا میعار (۱۴۔۲۲):

  • آیت ۱۴ سے آخر سورہ تک مسلم معاشرے کے لوگوں کو جن میں مخلص اہل ایمان اور منافقین اور مذبذبین سب ملے جلے تھے، بالکل دو ٹوک طریقے سے بتایا گیا کہ دین میں آدمی کے مخلص ہونے کا معیار کیا ہے۔
  • ایک قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اسلام کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں، اپنے مفاد کی خاطر اس دین سے غداری کرنے میں کوئی تامل نہیں کرے جس پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور اسلام کے خلاف طرح طرح کے شبہات اور وسوسے پھیلا کر اللہ کے بندوں کو اللہ کی راہ پر آنے سے روکتے ہیں، مگر چونکہ وہ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہیں، اس لیے ان کا جھوٹا اقرار ایمان ان کے لیے ڈھال کا کام دیتا ہے۔
  • دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اللہ کے دین کے معاملہ میں کسی اور کا لحاظ تو درکنا، خود اپنے باپ، بھائی، اور اولاد اور خاندان تک کی پروا نہیں کرتے۔ ان کا حال یہ ہے کہ جو خدا اور رسول اور اس کے دین کا دشمن ہے اس کے لیے ان کے دل میں کوئی محبت نہیں ہے۔  غزوۂ بدر  میں حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح نے اپنے باپ عبداللہ بن جرّاح کو،  حضرت مصعب ؓ بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا،  حضرت عمرفاروقؓ نے اپنے ماموں کا گلا کاٹا،  اور دیگر صحابہؓ نے بھی ایسے ہی کارنامے انجام دیے۔
  • اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں صاف فرما دیا ہے کہ پہلی قسم کے لوگ چاہے کتنی ہی قسمیں کھا کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلائیں، درحقیقت وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں، اور اللہ کی پارٹی میں شامل ہونے کا شرف صرف دوسری قسم کے مسلمانوں کو حاصل ہے۔ وہی سچے مومن ہیں۔ ان ہی سے اللہ راضی ہے۔ فلاح وہی پانے والے ہیں۔

سورۃ الحشر:

بنی نُضَیر انجامِ عبرت (۱۔۴):

  • مسلمان جب مدینہ منورہ ہجرت کرکے پہنچے تو وہاں اَوس اور خزرج کے علاوہ کچھ یہودی قبائل بھی آباد تھے اور مدینہ منورہ کی معشیت پر ان کا مکمل قبضہ تھا انہی میں ایک قبیلہ بنی نُضَیر تھا۔ ہجرت کے بعد ان قبائل سے مسلمانوں کے معاہدے ہوگئے۔ لیکن غزوۂ بدر کے موقع پر انھوں نے اس کی پاسداری نہیں کی۔   بنی نضیر کا سردار کعب بن اشرف غزوہ بدر کے بعد مکہ پہنچا اور قریش والوں کو اشتعال انگیز مرثیےکہہ انتقام پر اُکسایا ۔  دوسری طرف مدینہ واپس آکر جلن نکالنے کے لیے ایسی غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفاء  خواتین کے معاشقوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی شرارتوں سے تنگ آ کر رسول اللہ ﷺ نے اُسے قتل کرا دیا۔
  • جب قریش اُحد کے معرکےکےلیے مدینہ پر چڑھ آئے تو ان یہودی قبائل نے معاہدے کی پہلی اور صریح خلاف ورزی اس طرح کی کہ مدینہ کی مدافعت میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوئے، حالانکہ وہ اس کے پابند تھے۔ پھر جب معرکہ احد میں مسلمانوں کو نقصان عظیم پہنچا تو ان کی جرأتیں اور بڑھ گئیں، یہاں تک کہ بنی نضیر نے رسول اللہ ﷺ کےقتل کی باقاعدہ ایک سازش کی جس کی عین وقت اطلاع اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبی ؐ کو کردی اور یہ سازش  ناکام ہو گئی۔  چنانچہ حضورؐ نے ان کو بلاتا خیر یہ الٹی میٹم بھیج دیا کہ تم نے جو غداری کرنی چاہی تھی وہ میرے علم میں آ گئی ہے۔ لہٰذا دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاؤ، اس کے بعد اگر تم یہاں ٹھیرے رہے تو جو شخص بھی تمہاری بستی میں پایا جائے گا۔ اس کی گردن مار دی جائے گی۔ ربیع الاول 4 ھ میں رسول اللہﷺنے ان کا محاصرہ کر لیا، اور صرف چند روز کے محاصرہ کے بعدوہ اس شرط پر مدینہ چھوڑ دینے کے لیے راضی ہو گئے کہ اسلحہ کے سوا جو کچھ بھی وہ اپنے اونٹوں پر لاد کر لے جا سکیں گے لے جائیں گے۔   جبکہ عددی اعتبار سے انکی تعداد مسلمانوں سے کم نہ تھی، مال و دولت مسلمانوں سے کہیں زیادہ تھا، جنگی سامان کی بھی انکے پاس  کمی نہ تھی۔
  • اس ہی بنی نضیر کے تناظر میں عبرت کے لیے ابتدائی چار آیت کا نزول کیا گیا ہے۔ آیت 5 میں قانون جنگ کا یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے دشمن ے علاقے میں جو تخریبی کار روائی کی جائے وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔

مفتوحہ علاقہ کی تقسیم (۶۔۱۰):

  • آیت 6 سے 10 تک یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کی زمینوں اور جائدادوں کا بندوبست کس طرح کیا جائے جو جنگ یا صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک مفتوحہ علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اس لیے یہاں اس کا قانون بیان کر دیا گیا۔

جنگِ بنی نُضَیر اور منافقین (۱۱۔۱۷):

  • آیت 11 سے 17 تک منافقین کے اس رویہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو انہوں نے جنگ بنی نضیر کے موقع پر اختیار کیا تھا، اور ان اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے جو در حقیقت ان کے اس رویہ کی تہہ میں کام کر رہے تھے۔

بے عمل مسلمان اور ایمان کا تقاضہ (۱۸۔۲۴):

  • آخری رکوع پورا ایک نصیحت ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کی گروہ میں شامل ہو گئے ہوں، مگر ایمان کی اصل روح سے خالی رہیں۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، تقویٰ اور فسق میں حقیقی فرق کیا ہے، جو قرآن کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے، اور جس خدا پر ایمان لانے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ کن صفات کا حامل ہے۔

الحمد للہ آج 25 ویں تراویح کا خلاصہ  مکمل ہوا۔

 26 ویں تراویح کا  خلاصہ ان شاء اللہ کل۔  ہمارے ساتھ رہیے گا۔        جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ

چھبیسویں   تراویح

آج چھبیسویں تراویح ہے اور اس میں 6 سورتوں کی تلاوت کی جائے گی جن میں سورۃ  الممتحنہ   سورۃ الصّف،   سورۃ الجمعہ،  سورۃ المنافقون ، سورۃ التغابن اور سورۃ الطلاق شامل ہیں۔

سورۃ المُمتحنۃ: یہ سورۃ  صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ۔

حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ کی گرفت (۱۔۹  اور  ۱۳):

  • جب قریش نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تو نبی کریم ﷺ نےخفیہ طور پر  مکہ پر چڑھائی کی تیاری شروع کردیں۔  حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ ایک بدری صحابی تھے۔   انہوں نے محض اپنے اہل و عیال کو  جو مکہ مکرمہ میں تھے بچانے کی خاطر فتح مکہ کے لیے آنحضورؐ کی روانگی سے قبل سردارانِ مکہ کو خفیہ طور پر ایک خط  کسی خاتون کے ہاتھ روانہ کیا تھا۔     جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبی کریم ﷺ کو دی۔       اگر بر وقت ناکام نہ کر دیا گیا ہوتا تو فتح مکہ کے موقع پر بڑا کشت و خون ہوتا، مسلمانوں کی بھی بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوتیں، قریش کے بھی بہت سے وہ لوگ مارے جاتے جو بعد میں اسلام کی عظیم خدمات انجام دینے والے تھے، وہ تمام فوائد بھی ضائع ہو جاتے جو مکہ کو پُر امن طریقہ سے فتح کرنے کی صورت میں حاصل ہو سکتے تھے۔  بظاہر تو یہ فعل غداری کے مترادف تھا لیکن حضورؐ نے اسے انکی محض ایک غلطی تصور کیا اور حضرت حاطبؐ نے بھی بغیر لاگ لپیٹ کے اعترافِ جرم کیا۔  حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ بن اسود کو بھیجا گیا اور رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے مقام پر انھوں نے خاتون سے خط برآمد کیا۔
  • ترجمہ: “اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو، تم اگر میری راہ جہاد کرنے کے لئے اور میری رضا جوئی کی خاطر ( وطن جھوڑ کر گھروں سے ) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ مت اپنے رب، اللہ پر ایمان لاۓ ہو۔ تم چپھا کر ان کو دوستانہ پیغام بھجتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں۔ جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا”۔

مسلم مرد یا عورت کے  کافر عورت    یا    مرد سے نکاح کی حیثیت (۱۰۔۱۱):

  • آیات 10۔11 میں ایک اہم معاشرتی مسئلے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت بڑی پیچیدگی پیدا کر رہا تھا۔ مکہ میں بہت سی مسلمان عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر کافر تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاتی تھیں۔ اسی طرح مدینہ میں بہت سے مسلمان مر د ایسے تھے جن بیویاں کافر تھیں اور وہ مکہ ہی میں رہ گئی تھیں۔ ان کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج باقی ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ فیصلہ فرما دیا کہ مسلمان عورت کے لیے کافر شوہر حلال نہیں ہے، اور مسلمان مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ مشرک بیوی کو اپنے نکاح میں رکھے۔

نو مسلم خواتین سے عہد (۱۲):

  • آیت 12 میں رسول ﷺکو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جو عورتیں اسلام قبول کریں ان سے آپ اُن سے ۶ بڑی بڑی برائیوں سے بچنے کا عہد لیں جو جاہلیت عرب کے معاشرے میں عورتوں کے اندر پھیلی ہوئی تھیں اور اس بات کا اقرار کرائیں کہ آئندہ وہ بھلائی کے ان تمام طریقوں کی پیروی کریں گی جن کا حکم اللہ کے رسول کی طرف سے ان کو دیا جائے۔

۱) وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی۔   ۲)چوری نہ کریں گی۔              ۳) زنا نہ کریں گی۔     ۴) اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔

۵) اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی۔        ۶)امرِ معروف میں آپکی (رسول اللہ ﷺ کی)  نافرمانی نہیں کریں گی۔

 

 

سورۃ الصّف:

  • سورۃ الصّف ایک مدنی سورۃ ہے اور اپنے مضامین سے غزوۂ اُحد کے بعد کے زمانے کی لگتی ہے۔

وہ کہتے کیوں ہو جوکرتے نہیں (۱۔۴):

  • یہ بتانے کے بعد کہ اللہ کی تسبیح کائنات کی تمام مخلوقات کرتی ہیں ، کے بعد تمام ایمان لانے والوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں وہ لوگ جو کہیں کچھ اور کریں کچھ، اور نہایت محبوب ہیں وہ لوگ جو راہ حق میں لڑنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوں۔

نبی اسرائیل کی روش سے بچو (۵۔۷):

  • آیت 5 سے 7 تک رسول اللہ ﷺ کی امت کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رسول اور اپنے دین کے ساتھ تمہاری روش وہ نہ ہونی چاہیے جو موسیؑ اور عیسیٰ ؑ کے ساتھ بنی اسرائیل نے اختیار کی۔ حضرت موسیؑ کو وہ اللہ کا رسول جاننے کے باوجود جیتے جی تنگ کرتے رہے، اور حضرت عیسیٰ سے کھلی کھلی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود وہ ان کو جھٹلانے سے باز نہ آئے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس قوم کے مزاج کا سانچہ ہی ٹیڑھا ہو کر رہ گیا اور اس سے ہدایت کی توفیق سلب ہوگئے۔  یہ اس لیے ہوا کہ یہ  اللہ کا طریقہ نہیں ہے کہ جو لوگ خود ٹیڑھی راہ چلنا چاہیں انہیں وہ خواہ مخواہ سیدھی راہ چلائے، اور جو لوگ اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں ان کو زبردستی ہدایت سے سرفراز فرمائے۔

اللہ کا نور پھیل کر رہے گا(۸۔۱۳):

  • پھر آیت 8 ۔ 9 میں پوری تحدی کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ یہود و نصاریٰ اور ان سے ساز باز رکھنے والے منافقین اللہ کے اس نور کو بجھانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کرلیں، یہ پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا میں پھیل کر رہے گا اور مشرکین کو خواہ کتنا ہی ناگوار ہو، رسول برحق کا لایا ہوا دین ہر دوسرے دین پر غالب آ کر رہے گا۔ لہٰذا  دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرو۔ آخرت میں اس کا ثمر اللہ کے عذاب سے نجات، گناہوں کی مغفرت، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کا حصول ہے، اور دنیا میں اس کا انعام اللہ کی تائید و نصرت اور فتح ہے۔

انصار اللہ بنیں (۱۴):

  • آخر میں اہل ایمان کو تلقین کی گئی ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے اللہ کی راہ میں ان کا ساتھ دیا تھا اس طرح وہ بھی “انصار اللہ ” بنیں تاکہ کافروں کے مقابلہ میں ان کو بھی اسی طرح اللہ کی تائید حاصل ہو جس طرح پہلے ایمان لانے والوں کو حاصل ہوئی تھی۔

سورۃ الجمعہ:

  • سورۃ الجمعہ ایک مدنی سورۃ ہے جو دو حصوں میں نازل ہوئی ہوگی۔  پہلا رکوع غزوۂ خیبر کے بعد جبکہ دوسرا رکوع ہجرت کے فوری بعد۔

پیش آنے والا واقعہ (۱۔۸):

  • آیات ۱۔۸ پہلے رکوع پر مشتمل ہیں اور یہ اس وقت نازل ہوئیں جب یہودیوں کی وہ تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں جو اسلام کی دعوت کا راستہ روکنے کے لیے پچھلے چھ سال کے دوران میں انہوں نے کی تھیں۔ پہلے مدینہ میں ان کے تین طاقتور قبیلے رسول اللہﷺ کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی تک کا زور لگاتے رہے اور نتیجہ یہ دیکھا کہ ایک قبیلہ پوری طرح تباہ ہو گیا اور دو قبیلوں کو جلا وطن ہونا پڑا۔ پھر وہ سازشیں کر کے عرب کے بہت سے قبائل کو مدینے پر چڑھا لائے ، مگر غزوہ احزاب میں ان سب نے منہ کی کھائی۔ اس کے بعد ان کا سب سے بڑا گڑھ خیبر رہ گیا تھا جہاں مدینہ سے نکلے ہوئے یہودیوں کی بھی بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی۔ ان آیات کے نزول کے وقت وہ بھی بغیر کسی غیر معمولی زحمت کے فتح ہو گیا، اور یہودیوں نے خود درخواست کر کے وہاں مسلمانوں کے کاشتکاروں کی حیثیت سے رہنا قبول کر لیا۔ اس آخری شکست کے بعد عرب میں یہودی طاقت کا بالکل خاتمہ ہو گیا۔
  • اللہ کی تسبیح کائنات کی تمام مخلوقات کرتی ہیں بتانے کے بعد یہودیوں کو مخاطب کرکے کہا جارہا ہے کہ وہی اللہ ہے جس نے کل تمھیں پیشوائی عطا کی تھی لیکن تم اس کا بار نہ اُٹھاسکے تھے ۔ اب ایک ان پڑھ قوم میں سے ہم نے اپنا نبی اُٹھایا ہے جو انھیں اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور یہ سارے انسانوں کےلیے نبی ہے۔  اگر تمھیں یہ گھمنڈ ہےکہ تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو پھر اللہ سے ملاقات کےلیے موت کی تمنا کرو۔  لیکن تمھارے کارنامے ایسے ہیں، جن کا تمھیں اچھی طرح ادراک ہے کہ تم کبھی ایسا نہیں کرو گے ۔
  • دوسرےرکوع میں اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کو ہدایت کی کہ جمعہ کے دن جب نماز کے لیے پکارا جائے تو اپنی خرید و فروخت مُراد دنیا کے کاموں کو چھوڑ کر نماز کی طرف دوڑیں اور نماز مکمل ہوجانے کے بعد اللہ کا فضل تلاش کرنےکےلیے دنیا کے کاموں میں مشغول ہوجائیں۔  آخر میں درپردہ یہ ہدایت بھی کہ یہودیوں کے سَبْت کے مقابلہ میں مسلمان جمعہ کے ساتھ وہ معاملہ نہ کریں جو یہودیوں نے سبت کے ساتھ کیا تھا۔   وجہ یہ تھی کہ جب مدینے میں ایک روز عین نماز جمعہ کے وقت ایک تجارتی قافلہ آیا اور اس کے ڈھول تاشوں کی آواز سن کر 12 آدمیوں کے سوا تمام حاضرین مسجد نبوی سے قافلے کی طرف دوڑ گئے ، حالانکہ اس وقت رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اس پر یہ حکم دیا گیا کہ جمعہ کی اذان ہونے کے بعد ہر قسم کی خرید و فروخت اور ہر دوسری مصروفیت حرام ہے۔ اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس وقت سب کام چھوڑ چھاڑ کر اللہ کے ذکر کی طرف دوڑیں۔ البتہ جب نماز ختم ہو جائے تو انہیں حق ہے کہ اپنے کاروبار چلانے کے لیے زمین میں پھیل جائیں

سورۃ المنافقون:

  • سورۃ المنافقون ایک مدنی سورۃ ہے  جو غزوہ بنی مصطَلق کے بعد نازل ہوئی۔
  • جس خاص واقعہ کے بارے میں یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس کا ذکر کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مدینے کے منافقین کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے ، کیونکہ جو واقعہ اس موقع پر پیش آیا تھا وہ محض ایک اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا سلسلۂ واقعات تھا جو بالآخر اس نوبت تک پہنچا۔
  • مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے اَوس اور خز رج کے قبیلے آپس کی خانہ جنگیوں سے تھک کر ایک شخص کی قیادت پر قریب قریب متفق ہو چکے تھے اور اس بات کی تیاریاں کر رہے تھے کہ اس کو اپنا بادشاہ بنا کر باقاعدہ اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کر دیں ، حتیٰ کہ اس کے لیے تاج بنا بھی لیا گیا تھا۔ یہ قبیلہ خز رج کا رئیس عبداللہ بن اُبی بن سَلول تھا۔
  • اس کے بعد جب حضورؐ مدینے پہنچے تو انصار کے ہر گھرانے میں اسلام اتنا پھیل چکا تھا کہ عبداللہ بن ابی بے بس ہو گیا اور اس کو اپنی سرداری بچانے کی اس کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئی کہ خود بھی مسلمان ہو جائے۔ چنانچہ وہ اپنے ان بہت سے حامیوں کے ساتھ، جن میں دونوں قبیلوں کے شیوخ اور سردار شامل تھے ، داخل اسلام ہو گیا، حالانکہ دل ان سب کے جل رہے تھے ، اور خاص طور پر ابن ابی کو اس بات کا سخت غم تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بادشاہی چھین لی ہے۔ کئی سال تک اس کا یہ منافقانہ ایمان اور اپنی ریاست چھن جانے کا یہ غم طرح طرح کے رنگ دکھاتا رہا۔
  • عبداللہ بنا ابی اور اس کے ساتھی منافقین غزوہ بنی المصْطَلِق کی مہم میں رسول اللہﷺ کے ساتھ لشکر میں شامل تھے۔ اور انہوں نے بیک وقت دو ایسے عظیم فتنے اٹھا دیے جو مسلمانوں کی جمعیت کو بالکل پارہ پارہ کر سکتے تھے۔ مگر قرآن پاک کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت سے اہل ایمان کو جو بہترین تربیت ملی تھی اس کی بدولت ان دونوں فتنوں کا بر وقت قلع قمع ہو گیا اور یہ منافقین الٹے خود ہی رسوا ہو کر رہ گئے۔ ان میں سے ایک فتنہ حضرت عائشہ ؓ پر تہمت کا تھا ۔ اور دوسرا فتنہ یہ ہے کہ جس کا اس سورہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
  • بنی المصطلق کو شکست دینے کے بعد ابھی لشکر اسلام اس بستی میں ٹھیرا ہوا تھا جو مریسبع نامی کنویں پر آباد تھی کہ یکایک پانی پر دو صاحبوں کا جھگڑا ہو گیا۔ ان میں سے مہاجر تھے اور دوسرے صاحب انصار میں سے۔  زبانی ترش کلامی سے گزر کر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی اور مہاجر صحابی نے انصاری صحابی کے ایک لات رسید کر دی جسے اپنی قدیم یمنی روایات کی بنا پر انصار سخت توہین و تذلیل سمجھتے تھے۔ اس پر انھوں نے انصار کو مدد کے لیے پکارا، اور دوسرے نے مہاجرین کو آواز دی۔ ابن ابی نے اس جھگڑے کی خبر سنتے ہیں اَوس اور خز رج کے لوگوں کو بھڑکانا اور چیخنا شروع کر دیا کہ دوڑو اور اپنے حلیف کی مدد کرو۔ ادھر سے کچھ مہاجرین بھی نکل آئے قریب تھا کہ بات بڑھ جاتی ۔  شور سن کر رسول اللہﷺ نکل آئے اور آپ نے فرمایا :  یہ جاہلیت کی پکار کیسی؟ تم لوگ کہاں اور یہ جاہلیت کی پکار کہاں ؟ اسے چھوڑ دو، یہ بڑی گندی چیز ہے ‘‘۔اس پر دونوں طرف کے صالح لوگوں نے آگے بڑھ کر معاملہ رفع دفع  کردیا اور انصاری صحابی نے مہاجر صحابی کو معاف کر کے صلح کر لی۔
  • اس کے بعد ہر وہ شخص جس کے دل میں نفاق تھا عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا اور ان لوگوں نے جمع ہو کر اس سے کہا کہ ’’اب تک تو تم سے امیدیں وابستہ تھیں اور تم مدافعت کر رہے تھے ، مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمارے مقابلے میں ان کنگلوں کے مدد گار بن گئے ہو ‘‘۔ ابن ابی پہلے ہی کھول رہا تھا۔ ان باتوں سے وہ اور بھی زیادہ بھڑک اٹھا کہنے لگا ’’ یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ تم نے ان لوگوں کو اپنے ملک میں جگہ دی، ان پر اپنے مال تقسیم کیے ، یہاں تک کہ اب یہ پھل پھول کر خود ہمارے ہی حریف بن گئے۔ ہماری اور ان قریش کے کنگلوں کی حالت پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کر، تا کہ تجھی کو پھاڑ کھائے۔ تم لوگ ان سے ہاتھ روک لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں۔ خدا کی قسم، مدینے واپس پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا بنے وہ ذلیل کو نکال دے گا‘‘۔
  • مجلس میں اتفاق سے حضرت زیدؓ بن ارقم بھی موجود تھے جو اس وقت ایک کم عمر لڑکے تھے۔ انہوں نے یہ باتیں سن کر اپنے چچا سے ان کا ذکر کیا، اور ان کے چچا نے جو انصار کے رئیسوں میں سے تھے ، جا کر رسول اللہ صﷺ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کردیا۔ حضرت نے زیدؓ کو بلا کر دریافت کیا تو انہوں نے جو کچھ سنا تھا من و عن دہرا دیا۔ حضورؐ نے فرمایا شاید تم ابن ابی سے ناراض ہو۔ ممکن ہے تم سے سننے میں کچھ غلطی ہو گئی ہو۔ ممکن ہے تمہیں شبہ ہو گیا ہو کہ ابن ابی یہ کہہ رہا ہے۔ مگر زیدؓ نے عرض کیا نہیں حضور، خدا کی قسم میں نے اس کو یہ باتیں کہتے سنا ہے۔ اس پر حضورؐ نے ابن ابی کو بلا کر پوچھا تو وہ صاف مکر گیا اور قسمیں کھانے لگا کہ میں نے یہ باتیں ہر گز نہیں کہیں۔ انصار کے لوگوں نے بھی کہا کہ حضورؐ، لڑکے کی بات ہے۔ شاید اسے وہم ہو گیا ہو۔ یہ ہمارا شیخ اور بزرگ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک لڑکے کی بات کا اعتبار نہ فرمایئے۔ قبیلے کے بڑے بوڑھوں نے زیدؓ کو بھی ملامت کی اور وہ بیچارے رنجیدہ ہو کر اپنی جگہ بیٹھ رہے۔ مگر حضورؐ زید کو بھی جانتے تھے اور عبداللہ بن ابی کو بھی، اس لیے آپ سمجھ گئے کہ اصل بات کیا ہے۔
  • حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے آ کر عرض کیا ’’ مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ یا اگر مجھے یہ جازت دینا مناسب خیال نہیں فرماتے تو خود انصار ہی میں سے کسی کو حکم دیجیے ۔ کہ وہ اسے قتل کر دیں ‘‘۔ مگر حضورؐ نے فرمایا، ’’ ایسا نہ کرو۔
  • رفتہ رفتہ یہ بات تمام انصار میں پھیل گئی اور ان میں ابن ابی کے خلاف سخت غصہ پیدا ہو گیا۔ لوگوں نے ابن ابی سے کہا جا کر رسول اللہ ﷺ سے معافی مانگو۔مگر اس نے تڑخ کر جواب دیا ’’ تم نے کہا کہ ان پر ایمان لاؤ۔ میں ایمان لے آیا تم نے کہا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ دو۔ میں نے زکوٰۃ بھی دے دی۔ اب بس یہ کسر رہ گئی ہے کہ میں محمدؐ کو سجدہ کروں ‘‘۔ ان باتوں سے اس کے خلاف مومنین انصار کی ناراضی اور زیادہ بڑھ گئی اور ہر طرف سے اس پر پھٹکار پڑنے لگی۔ جب یہ قافلہ مدینہ طیبہ میں داخل ہونے لگا تو عبداللہ بن ابی کے صاحبزادے ، جن کا نام بھی عبداللہ ہی تھا، تلوار سونت کر باپ کے آگے کھڑے ہو گئے اور بولے ،’’ آپ نے کہا تھا کہ مدینہ واپس پہنچ کر عزت والا ذیل کو نکال دے گا، اب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ عزت آپ کی ہے یا اللہ اور اس کے رسولؐ کی۔ خدا کی قسم، آپ مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کو اجازت نہ دیں ’’۔ اس پر ابن ابی چیخ اٹھا،’’ خز رج کے لوگو ! ذرا دیکھو، میرا بیٹا ہی مجھے مدینہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے ‘‘۔ لوگوں نے یہ خبر حضورؐ تک پہنچائی اور آپ نے فرمایا ’’ عبداللہ سے کہو، اپنے باپ کو گھر آنے دے ‘‘۔ عبد اللہؓ نے کہا ’’ ان کا حکم ہے تو اب آپ داخل ہو سکتے ہیں ‘‘۔

دوسرا رکوع:

  • سورۃ کے دوسرے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کا تذکرہ کرکے فرمایا کہ یہ بہت محبوب چیزیں ہیں۔ ان کی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ کے ذکر سے غافل ہوجانے کاخطرہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا اس معاملے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔  موت سے قبل خرچ کرنے کی تلقین فرمائی گئی۔  موت آجائے تو جس طرح توبہ اور اسلام قبول نہیں ہوتا۔  اسی طرح اس وقت انفاق کا موقع بھی ہاتھ سے چلا جاتا ہے۔

 

 

سورۃ التغابن:

  • سورۃ التغابن کو اکثر مفسرین مدنی سورۃ شمار کرتے ہیں۔

بنی نوع انسان سے خطاب (۱۔۴):

  • تمام انسانوں کو خطاب کر کے چند مختصر فقروں میں انہیں چار بنیادی حقیقتوں سے آگاہ کیا گیا ہے :
  • اول یہ کہ یہ کائنات، جس میں تم رہتے ہو، بےخدا نہیں ہے بلکہ اس کا خالق اور مالک اور فرمانروا ایک ایسا قادر مطلق ہے جس کے کامل اور بےعیب ہونے کی شہادت اس کائنات کی ہر چیز دے رہی ہے۔
  • دوسرے یہ کہ یہ کائنات بےمقصد اور بےحکمت نہیں ہے بلکہ ۔ بلکہ اس غلط فہمی سے باہر نکلو کہ یہ ایک فضول تماشا ہے جو بے مقصد ہی شروع ہوا اور بے مقصد ہی ختم ہوجائے گا۔
  • تیسرے یہ کہ تمہیں جس بہترین صورت کے ساتھ اللہ نے پیدا کیا ہے اور پھر جس طرح کفر و ایمان کے اختیار کی آزادی دی۔ اس سے اللہ یہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کو کس طرح استعمال کرتے ہو۔
  • چوتھے یہ کہ تمہیں اپنے خالق کی طرف پلٹ کر جانا ہے ،جس سے تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں، جس پر دلوں کے چھپے ہوئے خیالات تک روشن ہیں۔

 کفار  سے خطاب (۵۔۱۰):

  • کفار کو تاریخ کی جانب توجہ دلائی گئی کہ قوموں پر قومیں اٹھتی رہیں اور بالآخر تباہی سے دوچار ہوتی رہیں۔ انسان اپنی عقل سے ہزار توجیہات کرتا رہا ہے، مگر اللہ اصل حقیقت بتاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قوموں کی تباہی کے بنیادی اسباب صرف دو تھے :
  • ایک یہ کہ انھوں نے رسولوں کی بات ماننے سے انکار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور وہ خود ہی اپنے فلسفے گھڑ گھڑ کر ایک گمراہی سے دوسری گمراہی میں بھٹکتی چلی گئیں۔
  • دوسرے یہ کہ انہوں نے آخرت کے عقیدے کو بھی رد کردیا اور اپنے زعم میں یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ اس چیز نے ان کی پوری زندگی کو بگاڑ کر رکھ دیا اور ان کے اخلاق و کردار کی گندگی اس حد تک بڑھی کہ آخر کار اللہ کے عذاب نے آ کر دنیا کو ان کے وجود سے پاک کیا۔
  • تاریخ انسانی کے یہ دو سبق آموز حقائق بیان کر کے منکرین حق کو دعوت دی گئی کہ وہ ہوش میں آئیں اور اللہ اور اس کے رسول اور اس نور ہدایت (قرآن) پر ایمان لے آئیں ۔ اس کے ساتھ ان کو خبردار کیا گیاکہ وہ دن آنے والا ہے جب تمام اولین و آخرین ایک جگہ جمع کیے جائیں گے اور تم میں سے ہر ایک کا غبن سب کے سامنے کھل جائے گا۔ پھر اسی بنیاد پر تمھاری قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔پہلا گروہ ابدی جنت کا حق دار ہوگا اور دوسرے گروہ کے حصے میں دائمی جہنم آئے گی۔

اہلِ ایمان سے خطاب (۱۱۔۱۸):

  • اس کے بعد ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کو مخاطب کر کے چند اہم ہدایات انہیں دی جاتی ہیں :
  • ایک یہ کہ دنیا میں جو مصیبت بھی آتی ہے، اللہ کے اذن سے آتی ہے۔ ایسے میں جو شخص ایمان پر ثابت قدم رہے، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے۔ اگر گھبراہٹ یا جھنجلاہٹ میں مبتلا ہو کر جو آدمی ایمان کی راہ سے ہٹ جائے، اس کی مصیبت تو اللہ کے اذن کے بغیر دور نہیں ہو سکتی، البتہ وہ ایک اور مصیبت، جو سب سے بڑی مصیبت ہے، مول لے لیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا دل اللہ کی ہدایت سے محروم ہوجاتا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ مومن کا کام صرف ایمان لے آنا ہی نہیں ہے بلکہ ایمان لانے کے بعد اسے عملاً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرناہے۔
  • تیسرے یہ کہ مومن کا اعتماد اپنی طاقت یا دنیا کی کسی طاقت پر نہیں بلکہ صرف اللہ پر ہونا چاہیے۔
  • چوتھے یہ کہ مومن کے لیے اس کا مال اور اس کے اہل و عیال ایک بہت بڑی آزمائش ہیں کیونکہ زیادہ تر انہی کی محبت انسان کو ایمان وطاعت کی راہ سے منحرف کرتی ہے۔ لہٰذا اُنہیں اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے تاکہ یہ زر پرستی کے فتنوں سے محفوظ رہیں۔
  • پانچویں یہ کہ ہر انسان اپنی استطاعت کی حد تک ہی مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کرے۔ البتہ مومن کو جس بات کی کوشش کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اپنی حد تک اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنے میں وہ کوئی کسر اٹھا نہ رکھے ۔
  • سورۃ الطلاق:

سورۃ  طلاق ایک مدنی سورۃ ہے  جس میں طلاق کے مسائل آئے ہیں۔  حضرت عبداللہ مسعود ؓ اسے سورۃ النساء القصریٰ  (یعنی چھوٹی سورۃ النساء) بھی کہتے تھے۔

پیش آنے والا واقعہ (۱۔۳):

  • اس سورۃکے احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ہدایات کو پھر سے ذہن میں تازہ کر لیا جائے جو طلاق اور عدت کے متعلق اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہو چکی ہیں:
  1. ایک مرد زیادہ سے زیادہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے سکتا ہے ۔
  2. ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت گزر جانے کے بعد وہی مرد و عورت پھر نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اس کے لیے تحلیل کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ لیکن اگر مرد تین طلاق دے دے تو عدت کے اندر رجوع کا حق ساقط ہو جاتا ہے ، اور دوبارہ نکاح بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک عورت کا نکاح کسی اور مرد سے نہ ہو جائے اور وہ کبھی اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے دے ۔
  3. مدخولہ عورت، جس کو حیض آتا ہو، اس کی عدت طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض کا آنا ہے ۔ ایک  یا دو   طلاق کی صورت میں اس عدت کے معنی یہ ہیں کہ عورت ابھی تک اس شخص کی زوجیت میں ہے اور وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کر سکتا ہے ۔ لیکن اگر مرد تین طلاق دے چکا ہو تو یہ عدت رُجوع کی گنجائش کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اس لیے ہے کہ اس کے ختم ہونے سے پہلے عورت کسی اور شخص سے نکاح نہیں کر سکتی۔
  4. غیر مدخولہ عورت، جسے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے ، اس کے لیے کوئی عدت نہیں ہے ۔ وہ چاہے تو طلاق کے بعد فوراً نکاح کر سکتی ہے ۔
  5. جس عورت کا شوہر مر جائے اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے ۔
  • اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سورۃ طلاق ان قواعد میں سے کسی قاعدے کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے ، بلکہ دو مقاصد کے لیے نازل ہوئی ہے ۔
  • ایک یہ کہ مرد کو طلاق کا جو اختیار دیا گیا ہے اس استعمال کرنے کے ایسے حکیمانہ طریقے بتائے جائیں جن سے حتی الامکان علیٰحدگی کی نوبت نہ آنے پائے، اور علیٰحدگی ہو تو آخر میں جب موافقت کے سارے امکانات ختم ہو چکے ہوں۔ کیونکہ اللہ نے شریعت میں طلاق کی گنجائش صرف ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر رکھی گئی ہے ، ورنہ اللہ تعالیٰ اس بات کو سخت ناپسند فرماتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان جو ازدواجی تعلق قائم ہو چکا ہو وہ پھر کبھی ٹوٹ جائے ۔  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ’’ اللہ نے کسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا ہے جو طلاق سے بڑھ کر اسے ناپسند ہو‘‘(ابو داؤد)۔
  • دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورہ بقرۃکے احکام کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دے کر اسلام کے عائلی قانون کے اس شعبہ کی تکمیل کر دی جائے ۔ اس سلسلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن مدخولہ عورتوں کو حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، طلاق کی صورت میں ان کی عدت کیا ہو گی۔ اور جو عورت حاملہ ہو اسے اگر طلاق دے دی جائے یا اس کا شوہر مر جائے تو اس کی عدت کی مدت کیا ہے ۔ اور مختلف قسم کی مطلقہ عورتوں کے نفقہ اور سکونت کا انتظام کس طرح کیا جائے ۔
  • جن عورتوں کو حیض آنا بند ہوگیا ہو یا ابھی آنا شروع ہی نہ ہو، تو ایسی عورتوں کی عدت کی مدت تین مہینے ہے۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل  ہے۔
  • طلاق یافتہ حاملہ عورتوں کا نان و نفقہ شوہر پر اس وقت تک فرض ہے جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جاۓ۔   اور پھر وضع حمل  کے بعد اگر وہ بچے کو دودھ پلائیں بچے کا  باپ اُنھیں اُس کی اُجرت ادا کرے گا۔ اجرت کا معاملہ باہمی گفت و شنید سے طے کیا جائے گا۔
  • آخری رُکوع میں واضح کردیا گیا کہ اللہ کے احکامات سے روگردانی کرنے کے صلے میں پہلے بھی کئی لوگوں کو تباہی سے دوچار کیا اور اللہ پھر اس کا اعادہ کرسکتا ہے۔ پھر نتیجہ کے طورپر جہنم ان کا مقدر ہوگی۔   تمام قوانین و قواعد اللہ تعالیٰ اس لیے بیان کرتا ہے کیونکہ وہی اس کائنات کا خالق ہے اور وہی اس کے نظام کو صحیح خطوط پر قائم رکھ سکتا ہے۔

الحمد للہ آج 26 ویں تراویح کا خلاصہ  مکمل ہوا۔

 27 ویں تراویح کا  خلاصہ ان شاء اللہ کل۔  ہمارے ساتھ رہیے گا۔        جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ

ستائسویں   تراویح

آج ستائسویں تراویح ہے اور اس میں 8 سورتوں کی تلاوت کی جائے گی جن میں سورۃ  التحریم   سورۃ المُلک،   سورۃ القلم،  سورۃ الحآقّہ ، سورۃ المعارج، سورۃ نوح، سورۃ الجنّ،   اور سورۃ المزمّل شامل ہیں۔

سورۃ التحریم:

پس منظر:

  • رسول اللہ کا روز مرہ کا معمول تھا کہ آپ نماز عصر کے بعد اپنے سب گھروں میں اپنی بیویوں کے ہاں چکر لگایا کرتے تھے۔ تاکہ گھریلو حالات سے پوری طرح باخبر رہیں اور خیروعافیت کی صورت معلوم ہوتی رہے۔ ایک دفعہ جب آپ سیدہ زینب ؓبنت جحش کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو شہد کا شربت پلایا۔ اس طرح آپ کو وہاں کچھ دیر لگ گئی۔ چونکہ آپؐ کو شہد اور اس کا شربت بہت پسند تھا۔ لہذا یہ بھی ایک طرح سے روزمرہ کا معمول بن گیا۔ یہ بات دوسری بیویوں اور بالخصوص سیدہ عائشہؓ کو ناگوار گزری۔ چنانچہ انھوں نے حضرت سودہؓ اور حضرت حفصہؓ سے مل کر طے کیا کہ  آپ سے کہا جائے کہ آپ کے منہ سے مغافیر (ایک قسم کاپھول) کی بو آتی ہے پھر جب دوسری اور تیسری بیوی نے بھی یہی بات کہی  تو آپ کو وہم ہونے لگا کہ شاید ایسی بدبو واقعی آرہی ہو اور آپؐ نفاست پسند تھے۔  لہذا آپ نے قسم کھالی کہ میں یہ  شہد نہیں پیا کروں گا۔

حلال و حرام کا اختیار صرف اللہ کا (۱۔۲):

  • مذکورہ پس منظر میں آیت نمبر (۱) میں اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کی گرفت کی کہ اپنی بیویوں کو خوش کرنے کے لیے اللہ کی حلا ل کی گئی چیز کو خود پر کیوں حرام کرتے ہیں۔  آیت میں ازواج کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اُن کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ انہوں نے ازواج نبی ؐ ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا اور حضورؐ  سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوسکتا تھا۔
  • اگلی آیت میں حکم دیا گیا کہ اپنی قسم کو توڑیں اور اس کا کفارہ ادا کریں اور اُس حرام کو جو خود آپؐ نے اپنے لیے کیا واپس حلال کرلیں۔

نبیؐ کا راز (۳):

  • نبیؐ نے اپنی کسی بیوی کو کوئی راز کی بات بتائی تھی جسے انھوں نے دوسری بیوی کے سامنے افشا کردیا تھا جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو وحی کے ذریعے دے دی تھی۔    اس پر آپؐ نے اپنی اُن اہلیہ کو خبردار کیا اور درگزر سے کام لیا۔  اصل غرض جس کے لیے اس معاملے کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا یہ ہے کہ زوجۂ نبیؐ کے عظیم المرتب شوہر نے جو بات راز میں ان سے فرمائی تھی اسے انہوں نے راز نہ رکھا اور اس کا افشا کردیا۔ یاد رہنا چاہیے کہ جس شخص کا منصب معاشرے میں جتنا زیادہ ذمہ دارانہ ہوگا اتنے ہی زیادہ اہم اور نازک معاملات اس کے گھر والوں کے علم میں آئیں گے۔ ان کے ذریعہ سے راز کی باتیں دوسروں تک پہنچ جائیں تو کسی وقت بھی یہ کمزوری بڑے خطرے کی موجب بن سکتی ہے۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا (۶):

  • اس آیت میں بتایا گیا کہ ایک مسلمان کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ اللہ نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ اپنی استطاعت کے مطابق ایسی تعلیم و تربیت دے جس سے وہ اللہ کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوشحال ہوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔

تین عورتین تین مثالیں (۱۰۔۱۱):

  • سورۃ کے آخر میں اس معاملے میں خاص طور پر ازواج مطہرات کے سامنے تین قسم کی عورتوں کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔ ایک مثال حضرت نوح ؑ اور حضرت لوط ؑ کی بیویوں کی ہے، جو اگر ایمان لاتیں اور اپنے جلیل القدر شوہروں کا ساتھ دیتیں تو جنت میں ہوتیں لیکن چونکہ انہوں نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا، اس لیے انبیاء کی بیویاں ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا اور وہ جہنم کی مستحق ہوئیں۔ دوسری مثال فرعون کی بیوی (آسیہ) کی ہے، جو اگرچہ ایک بدترین دشمن اللہ کی بیوی تھیں، لیکن چونکہ وہ ایمان لے آئیں ، اس لیے فرعون جیسے اکفر الکافرین کی بیوی ہونا بھی ان کے لیے کسی نقصان کا موجب نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت کا مستحق بنادیا۔ تیسری مثال حضرت مریم ؑ کی ہے جنہیں یہ عظیم مرتبہ ملا کہ اللہ نے جس شدید آزمائش میں انہیں ڈالنے کا فیصلہ فرمایا تھا اس کے لیے انہوں نے سر تسلیم خم کیا۔

سورۃالمُلک:

سورة الملک کی فضیلت :

 سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قرآن میں ایک تیس آیتوں والی سورت ہے۔ اس سورت نے ایک آدمی کی شفاعت کی تاآنکہ اسے بخش دیا گیا اور وہ سورت(الملک) ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة الملک)

آنحضرت کا ارشاد ہے۔” میں چاہتا ہوں کہ میری امت کے ہر شخص کے دل میں سورة ملک ہو۔ (مسند رک حاکم)

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آنحضرت سورة الم تنزیل السجدہ اور سورة تبارک الذی بیدہ الملک ہر رات پڑھتے اور سفر و حضر میں کبھی ناغہ نہ کرتے۔

کائنات ایک بے عیب سلطنت (۱۔۴):

  • پہلی پانچ آیتوں میں انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ وہ جس کائنات میں رہتا ہے وہ ایک انتہائی منظم اور محکم سلطنت ہے جس میں ڈھونڈے سے بھی کوئی عیب یا نقص یا خلل تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلطنت کو عدم سے وجود میں بھی اللہ تعالٰی ہی لایا ہے اور اس کی تدبیر و انتظام اور فرمانروائی کے تمام اختیارات بھی بالکلیہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور اس کی قدرت لامحدود ہے۔ ساتھ ہی انسان کو بتایا گیا ہے کہ اس انتہائی حکیمانہ نظام میں وہ امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس امتحان میں وہ اپنے حسن عمل ہی سے کامیاب ہو سکتا ہے۔

کفر کے ہولناک نتائج  (۶۔۱۱):

  • آیت 6 سے 11 تک کفر کے وہ ہولناک نتائج بیان کیے گئے ہیں جو آخرت میں نکلنے والے ہیں اور لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے انبیاء کو بھیج کر تمہیں اس دنیا میں ان نتائج سے خبردار کر دیا ہے۔ اب اگر یہاں تم انبیاء کی بات مان کر اپنا رویہ درست نہ کرو گے تو آخرت میں تمہیں خود اعتراف کرنا پڑے گا کہ جو سزا تم کو دی جا رہی ہے فی الواقع تم اس کے مستحق ہو۔

خالق مخلوق سے باخبر ہے  (۶۔۱۱):

  • آیت 12 سے 14 تک بتایا گیا کہ خالق اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں ہو سکتا۔ وہ تمہاری ہر کھلی اور چھپی بات، حتٰی کہ تمہارے دل کے خیالات تک سے واقف ہے۔ لہٰذا اخلاق کی صحیح بنیاد یہ ہے کہ انسان اس اَن دیکھے اللہ سے ڈر کر برائی سے بچے۔

اللہ کی تخلیق کی مثالیں ( ۱۵۔۲۳):

  • آیت 15 سے 23میں اللہ نے اپنی تخلیق کی مثالیں پیش کی ہیں۔ فرمایا گیا ہے کہ اس زمین کو دیکھو جس پر تم اطمینان سے چل پھر رہے ہو اور جس سے اپنا رزق حاصل کر رہے ہو۔ اللہ ہی نے اسے تمہارے لیے تابع کر رکھا ہے، ورنہ کسی وقت بھی اس زمین میں ایسا زلزلہ آ سکتا ہے کہ تم پیوند خاک ہو جاؤ، یا ہوا کا ایسا طوفان آ سکتا ہے جو تمہیں تہس نہس کر کے رکھ دے۔ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو دیکھو۔ اللہ ہی تو ہے جو انہیں فضا میں تھامے ہوئے ہے۔ اپنے تمام ذرائع و وسائل پر نگاہ ڈال کر دیکھو۔ اللہ اگر تمہیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو کون تمہیں اُس سے بچا سکتا ہے اور اللہ اگر تمہارے لیے رزق کے دروازے بند کر دے تو کون انہیں کھول سکتا ہے؟ یہ ساری چیزیں تمہیں حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے موجود ہیں۔ مگر انہیں تم حیوانات کی طرح دیکھتے ہو جو مشاہدات سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اور اس سماعت و بینائی اور ان سوچنے سمجھنے والے دماغوں سے کام نہیں لیتے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اللہ نے تمہیں دیے ہیں۔ اسی وجہ سے راہ راست تمہیں نظر نہیں آتی۔

 

 

نبی کا کام قیامت کا وقت بتانا نہیں (۲۴۔۲۷):

  • آیت 24 سے 27 تک بتایا گیا ہے کہ آخر کار تمہیں لازماً اپنے اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ نبی کا کام یہ نہیں ہے کہ تمہیں اس کے آنے کا وقت اور تاریخ بتائے۔ اس کا کام بس یہ ہے کہ تمہیں اس آنے والے وقت سے پیشگی خبردار کردے۔ تم آج اس کی بات نہیں مانتے اور مطالبہ کرتے ہو کہ وہ وقت لا کر تمہیں دکھا دیا جائے۔ مگر جب وہ آ جائے گا اور تم آنکھوں سے اسے دیکھ لو گے تو ہمارے ہوش اڑ جائیں گے۔ اس وقت تم سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جسے جلد لے آنے کا تم مطالبہ کر رہے تھے۔

کفار سے دو سوال (۲۸۔۳۰):

  • ان آیات میں کفار سے ایک سوال کیا گیا جب  کہ وہ  نبیؐ اور آپ کے ساتھیوں کو کوستے تھے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ تمہیں راہ راست کی طرف بلانے والے خواہ ہلاک ہوں یا اللہ ان پر رحم کرے، اس سے آخر تمہاری قسمت کیسے بدل جائے گی؟ تم اپنی فکر کرو کہ اللہ کا عذاب اگر تم پر آ جائے تو کون تمہیں بچائے گا؟
  • آخر میں لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھ کر سوچنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ عرب کے صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں، جہاں تمہاری زندگی کا سارا انحصار اس پانی پر ہے جو کسی جگہ زمین سے نکل آیا ہے، وہاں اگر یہ پانی زمین میں اتر کر غائب ہو جائے تو اللہ کے سوا کون تمہیں یہ لا کر دے سکتا ہے؟

سورۃالقلم:

وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ  ۝ (۱۔۸):

  • اللہ نے قلم کی قسم کھائی ہے اور پھر اس سے جو لکھا جارہا تھا یعنی قرآن مجید کی قسم کھائی ہے ۔   اور بتایا کہ
  • اے رسولؐ یہ کفار تم کو دیوانہ کہتے ہیں، حالانکہ جو کتاب تم پیش کر رہے ہو اور اخلاق کے جس اعلٰی مرتبے پر تم فائز ہو وہ خود ان کے اس جھوٹ کی تردید کے لیے کافی ہے۔ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب سب ہی دیکھ لیں گے کہ دیوانہ کون تھا اور فرزانہ کون۔ لہٰذا مخالفت کا جو طوفان تمہارے خلاف اٹھایا جا رہا ہے اس کا دباؤ ہرگز قبول نہ کرو۔ دراصل یہ ساری باتیں اس لیے کی جا رہی ہیں کہ تم کسی نہ کسی طرح دب کر ان سے مصالحت  کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

مذمت بلا نام (۱۰۔۱۶):

  • ان آیات میں نام لیے بغیر مخالفین میں سے ایک نمایاں شخص کا کردار پیش کیا گیا ہے جسے اہل مکہ خوب جانتے تھے۔ اس وقت رسول ؐاللہ کے پاکیزہ اخلاق بھی سب کے سامنے تھے، اور ہر دیکھنے والا یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ آپ کی مخالفت میں مکہ کے جو سردار پیش پیش ہیں ان میں کس سیرت و کردار کے لوگ شامل ہیں۔

باغ والے (۱۷۔۳۳):

  • خوب پھل لانے والے کسی باغ کے مالک تین بھائیوں کی مثال دے کر اہل مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ رسول ؐاللہ کی بعثت سے تم بھی اسی آزمائش میں پڑ گئے ہو جس میں وہ باغ والے تھے ( تین بھائیوں کا ایک باغ تھا جن میں سے دو نے غربا پر اپنے دروازے بند کردیے تھے ۔  جبکہ تیسرے نے اُنھیں ایسا کرنے سے منع کیا تھااور اللہ کی ناراضگی سے ڈرایا تھا۔       لیکن وہ نہ مانے ، اُن پر اللہ کی رحمت کے دروازے بند ہوگئے اور پورا باغ پکی فصل کے ساتھ اُجڑ گیا)۔ اگر محمد ؐ  کی بات نہ مانوں گے تو دنیا میں بھی ‏عذاب بھگتو گے اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ بڑا ہے۔

تبلیغِ  دین کی راہ میں صبر:

  • آخر میں رسول ؐاللہ کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا فیصلہ آنے تک جو سختیاں بھی تبلیغِ دین کی راہ میں پیش آئیں ان کو صبر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جائیں اور اس بے صبری سے بچیں جو یونس علیہ السلام کے لیے ابتلا کا موجب بنی تھی۔

 

 

سورۃالحآقّہ:

  • ابتدائی تین آیات میں بتایا گیا کہ قیامت کا آنا اور آخرت کا برپا ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو ضرور پیش آ کر رہنی ہے۔
  • آیت 4 سے 12 تک یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا ہے وہ آخرکار اللہ کے عذاب کی مستحق ہو کر رہی ہے۔

 (ان قوموں میں قومِ عاد، آلِ فرعون، قومِ نوحؑ  شامل ہیں جن  کا تفصیلی  تذکرہ گزشتہ دروس میں کیا جاچکا ہے)

  • آیت13 سے 17 تک قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہ کس طرح برپا ہوگی۔ “جب ایک دفعہ صُور میں پھونک مار دی جائے گی اور زمین اور پہاڑوں کو اُٹھا کر ایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا ، اُس روز وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا۔ اُس دن آسمان پھٹے گا اور اس کی بندش ڈھیلی پڑ جائے گی”۔
  • پھر آیت 18 سے 37 تک وہ اصل مقصد بیان کیا گیا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی موجودہ زندگی کے بعد نوعِ انسانی کے لیے ایک دوسری زندگی مقدر فرمائی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس روز تمام انسان اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوں گے جہاں ان کا کوئی راز چھپا نہ رہ جائے گا۔ ہر ایک کا نامۂ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی تھی کہ ایک دن انہیں اپنے رب کو حساب دینا ہے، اور جنہوں نے دنیا کی زندگی میں نیک عمل کر کے اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے پیشگی سامان کر لیا تھا، وہ اپنا حساب پاک دیکھ کر خوش ہو جائیں گے اور انہیں جنت کا ابدی عیش نصیب ہوگا۔ اس کے برعکس جن لوگوں ن نے نہ اللہ کا حق مانا نہ بندوں کا حق ادا کیا، انہیں اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا اور وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔
  • دوسرے رکوع میں کفار مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم اس قرآن کو ایک شاعر اور کاہن کا کلام کہتے ہو، حالانکہ یہ اللہ کا نازل کردہ کلام ہے جو ایک رسول کریم کی زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ رسول اس کلام میں اپنی طرف سے ایک لفظ گھٹانے یا بڑھانے کا اختیار نہیں رکھتا۔اگر وہ اس میں اپنی من گھڑت کوئی چیز شامل کر دے تو ہم اس کی رگ گردن (رگ دل) کاٹ دیں۔ یہ ایک یقینی برحق کلام ہے اور جو لوگ اسے جھٹلائیں گے انہیں آخر کار پچھتانا پڑے گا۔

سورۃالمعارج:

  • اس میں ان کفار کو تنبیہ اور نصیحت کی گئی ہے جو قیامت اور آخرت اور دوزخ اور جنت کی خبروں کا مذاق اڑاتے تھے اور رسول اللہ ﷺکو چیلنج دیتے تھے کہ اگر تم سچے ہو اور تمہیں جھٹلا کر ہم عذاب جہنم کے مستحق ہو چکے ہیں تو لے آؤ وہ قیامت جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اس سورت کی ساری تقریر اسی چیلنج کے جواب میں ہے۔
  • ابتدا میں ارشاد ہوا ہے کہ مانگنے والا عذاب مانگتا ہے۔ وہ عذاب انکار کرنے والوں پر ضرورت واقع ہو کر رہے گا اور جب وہ واقع ہوگا تو اسے کوئی دفع نہ کر سکے گا، مگر وہ اپنے وقت پر واقع ہوگا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے مذاق اڑانے پر صبر کرو۔
  • پھر بتایا گیا ہے کہ قیامت، جس کے جلدی لے آنے کا مطالبہ یہ لوگ ہنسی اور کھیل کے طور پر کر رہے ہیں کیسی سخت چیز ہے اور جب وہ آئے گی تو ان مجرمین کا کیسا برا حشر ہوگا۔ اس وقت یہ اپنے بیوی بچوں، اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں تک کو فدیہ میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہو جائیں گے تاکہ کسی طرح عذاب سے بچ نکلیں، مگر نہ بچ سکیں گے۔
  • اس کے بعد لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اس روز انسانوں کی قسمت کا فیصلہ سراسر ان کے عقیدے اور اخلاق و اعمال کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں حق سے منہ موڑا ہے اور مال سمیٹ سمیٹ کر اور سینت سینت کر رکھا ہے انکے لیے اس  دن بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی ۔ اور جنہوں نے یہاں خدا کے عذاب کا خوف کیا ہے، آخرت کو مانا ہے، نماز کی پابندی کی ہے، اپنے مال سے خدا کے محتاج بندوں ک حق ادا کیا ہے، بدکاریوں سے دامن پاک رکھا ہے، امانت میں خیانت نہیں کی ہے، عہد و پیمان اور قول و قرار کا پاس کیا ہے اور گواہی میں راست بازی پر قائم رہے ہیں وہ جنت میں عزت کی جگہ پائیں گے۔
  • آخر میں مکہ کے ان کفار کو جو رسول اللہ ﷺکو دیکھ کر آپ کا مذاق اڑانے کے لیے چاروں طرف سے ٹوٹے پڑتے تھے، خبردار کیا گیا ہے کہ اگر تم نہ مانو گے تو اللہ تعالٰی تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا اور رسول اللہ ﷺکو تلقین کی گئی ہے کہ ان کے تمسخُر کی پروا نہ کریں، یہ اگر قیامت ہی کی ذلت دیکھنے پر مُصِر ہیں تو انہیں اپنے بیہودہ مشغلوں میں پڑا رہنے دیں، اپنا برا انجام یہ خود دیکھ لیں گے۔

سورۃالنوح:

  • مکی زندگی میں جوں جوں مشکلات بڑھ رہی تھیں مسلمانوں کے حوصلے بڑھانے کی ضرورت بھی اتنی ہی زیادہ بڑھتی جارہی تھی۔ آنحضورﷺ کو ستایا گیا اور آپؐ کے صحابہؓ کا ناطقہ تنگ کیا گیا۔  ان حالات میں اللہ رب العالمین نے اپنے اولوالعزم رسول حضرت نوحؑ کے پورے واقعات کو ایک سورۃ میں سمو دیا اور اہلِ ایمان کو تسلی دی کہ فکر نہ کریں یہ راستہ کٹھن ضرور ہے مگر صبر کے ساتھ چلتے رہنے والوں کے لیے پھل برا میٹھا ہے۔
  • حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کے سامنے دعوتِ حق پیش کرنے کا فریضہ بطریقِ احسن پورا کیا۔ اللہ کی نعمتیں بھی یاد دلائیں اور خیر خواہی و ہمدری کے ساتھ ہر رنگ میں اپنی دعوت و تذکیر کا کام جاری رکھا، لیکن قوم نے مان کر نہیں دیا۔  حضرت نوحؑ جب اللہ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں تو اس میں کہتے ہیں “اے میرے ربّ، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میری پُکار نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ اور جب بھی میں نے اُن کو بلایا تاکہ تُو انہیں معاف کر دے، انہوں نے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبّر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چُپکے چُپکے بھی سمجھایا”۔  مگر وہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔
  • حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو ۹۵۰ سال دعوت دی لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آخر کار انھوں نے ربّ کے حضور دُعا کی کہ

میرے ربّ، اِن کافروںمیں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔ اگر تُو نے اِن کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر یں گے اور اِن کی نسل سے جو بھی پیدا ہو گا بدکار اور سخت کافر ہو ہوگا۔ میرے ربّ ، مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے، اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرمادے ، اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر”۔

سورۃالجنّ:

  • بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺاپنے چند اصحاب کے ساتھ بازارِ عکاظ تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں نخلہ کے مقام پر آپ نے صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت جنوّں کا ایک گروہ ادھر سے گذر رہا تھا، تلاوت کی آواز سن کر ٹھہر گیا اور غور سے قرآن سنتا رہا۔ اسی واقعے کا ذکر اس سورت میں کیا گیا ہے۔
  • اس سے پیشتر سورة احقاف کی آیات ٢٩ تا ٣٢ میں بھی جنوں کے قرآن سننے کا ذکر گزر چکا ہے۔ لیکن قرآن کے ہی مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں۔ سورة احقاف میں بیان شدہ واقعہ کے مطابق سننے والے جن مشرک نہیں تھے بلکہ وہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر اور تورات پر ایمان رکھتے تھے پھر قرآن سننے کے بعد وہ جن قرآن پر اور آپ ؐکی نبوت پر ایمان لے آئے تھے۔ جبکہ اس سورت میں جن جنوں کا ذکر آیا ہے یہ مشرک تھے۔

جنوں کے متعلق حقائق بزبانِ  قرآن:

  • (١) انسان کے علاوہ جن ہی ایسی مخلوق ہے جو شریعت کی مکلف ہے، (٢) جن ناری مخلوق ہے، جو تیز شعلہ یا آگ کی لپٹ سے پیدا کیے گئے ہیں جبکہ انسان خاکی مخلوق ہے، (٣) انسان کی پیدائش سے پہلے جن ہی اس زمین پر آباد تھے ۔ 

 جنوں کی صفات :

  • (۱) جنّ انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن انسان جنوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ قرآن سننے والے جنوں کو نہیں دیکھ سکے اور آپؐ کو وحی کے ذریعے بتایا گیا(۲) جنّ بھی انسانوں کی ہی علاقائی زبانیں بولتے اور سمجھتے ہیں یہی وجہ تھی کہ جن قرآن سننے کے ساتھ ہی فوراً اسے سمجھ گئے اور ایمان لے آئے، (۳) انسان کی طرح ان میں بھی بعض نیک ہوتے ہیں، بعض بدکردار اور نافرمان۔ نیز جس قسم کے عقائد، اچھے ہوں یا برے، انسانوں میں پائے جاتے ہیں جنوں میں بھی پائے جاتے ہیں، (۴) بدکردار جنوں کو شیطان کہا جاتا ہے اور قرآن میں یہ الفاظ ان معنوں میں مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، (۵) انسانوں کی طرح ان میں بھی توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔
  • اس سورت میں پہلی آیت سے لے کر آیت 15 تک یہ بتایا گیا ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے قرآن مجید سن کر اس کا کیا اثر لیا اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کے دوسرے جنوں سے کیا کیا باتیں کہیں۔ ان باتوں کے اشارے دیے گئے ہیں۔
  • اس کے بعد آیت 16 سے 18 تک لوگوں کو فہمائش کی گئی ہے کہ وہ شرک سے باز آ جائیں اور راہ راست پر ثابت قدمی کے ساتھ چلیں تو ان پر نعمتوں کی بارش ہوگی ورنہ اللہ کی بھیجی ہوئی نصیحت سے منہ موڑنے کا انجام یہ ہوگا کہ وہ سخت عذاب سے دوچار ہوں گے۔
  • پھر آیت 19 سے 23 تک کفار مکہ کو اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ جب اللہ کا رسول دعوت الی اللہ کی آواز بلند کرتا ہے تو وہ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، حالانکہ رسول کا کام صرف اللہ کے پیغامات پہنچا دینا ہے، وہ اس بات کا مدعی نہیں ہے کہ لوگوں کو نفع یا نقصان پہنچا دینا اس کے اختیار میں ہے۔
  • پھر آیات 24 – 25 میں کفار کو متنبہ کیا گیا ہے کہ آج وہ رسول کو بے یار و مددگار دیکھ کر اسے دبا لینے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ایک وقت آئے گا جب انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اصل میں بے یار و مددگار کون ہے۔ وہ وقت دور ہے یا قریب، رسول کو اس کا علم نہیں ہے،  کیونکہ عالم الغیب صرف اللہ تعالٰی ہے۔ رسول کو صرف وہ علم حاصل ہے جو اللہ اسے دینا چاہتا ہے۔

سورۃالمزمّل:

  • پہلی سات آیات میں رسول اللہ ﷺکو حکم دیا گیا ہے کہ جس کارِ عظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے آپؐ اپنے آپؐ کو تیار کریں، اور اس کی عملی صورت یہ بتائی گئی ہے کہ راتوں کو اٹھ کر آپ آدھی آدھی رات، یا اس سے کچھ کم و بیش نماز پڑھا کریں۔
  • آیت 8 سے 14 تک حضور ﷺکو تلقین کی گئی ہے کہ سب سے کٹ کر اس خدا کے ہو رہیں جو ساری کائنات کا مالک ہے۔ اپنے سارے معاملات اسی کے سپرد کر کے مطمئن ہو جائیں۔ مخالفین جو باتیں آپ کے خلاف بنا رہے ہیں ان پر صبر کریں، ان کے منہ نہ لگیں اور ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں کہ وہی ان سے نمٹ لے گا۔
  • اس کے بعد آیات 15 سے 19 تک مکہ کے ان لوگوں کو جو رسول اللہ ﷺکی مخالفت کر رہے تھے، متنبہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اسی طرح تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف بھیجا تھا، پھر دیکھ لو کہ جب فرعون نے اللہ کے رسول کی بات نہ مانی تو وہ کس انجام سے دوچار ہوا۔ اگر فرض کر لو کہ دنیا میں تم پر کوئی عذاب نہ آیا تو قیامت کے روز تم کفر کی سزا سے کیسے بچ نکلو گے؟
  • دوسرےرکوع میں نماز تہجد کے متعلق اس ابتدائی حکم کے اندر تخفیف کر دی گئی جو پہلے رکوع کے آغاز میں دیا گیا تھا۔ اب یہ حکم دیا گیا کہ جہاں تک تہجد کی نماز کا تعلق ہے وہ تو جتنی باآسانی پھی جا سکے پڑھ لیا کرو لیکن مسلمانوں کو اصل اہتمام جس چیز کا کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ پنج وقتہ فرض نماز پوری پابندی کے ساتھ قائم رکھیں، فرض زکٰوۃ ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خلوصِ نیت کے ساتھ صرف کریں۔
  • آخر میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ جو بھلائی کے کام تم انجام دو گے وہ ضائع نہیں جائیں گے بلکہ ان کی حیثیت اس سامان کی سی ہے جو ایک مسافر اپنی مستقل قیام گاہ پر پہلے سے بھیج دیتا ہے۔ اللہ کے ہاں پہنچ کر تم وہ سب کچھ موجود پاؤ گے جو دنیا میں تم نے آگے روانہ کیا ہے، اور یہ پیشگی سامان نہ صرف یہ کہ اس سامان سے بہت بہتر ہے جو تمہیں دنیا ہی میں چھوڑ جانا ہے، بلکہ اللہ کے ہاں تمہیں اپنے بھیجے ہوئے اصل مال سے بڑھ کر بہت بڑا اجر بھی ملے گا۔

الحمد للہ آج 27 ویں تراویح کا خلاصہ  مکمل ہوا۔

 28 ویں تراویح کا  خلاصہ ان شاء اللہ کل۔  ہمارے ساتھ رہیے گا۔        جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ