خلاصہ تراویح 1 رمضان

  • آج کی پہلی تراویح میں سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ کے 21 رکوع شامل ہیں۔
  • نبی ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نماز مکمل نہیں ہوسکتی، “جب تک اس میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت نہ کی جائے”۔
  • سورۃ فاتحہ دراصل قرآن کا دیباچہ یا پیش لفظ ہے۔ اس کو فاتحہ الکتاب اور اُمّ الکتاب بھی کہا جاتا ہے۔
  • سورۃ الحجر، آیت نمبر ۸۷ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ “ہم نے تم کو سات ایسی آیات دے رکھی ہیں، جو بار بار دہرانے کے لائق ہیں اور تمھیں قرآنِ عظیم عطا کیا ہے”۔ آئمہ متَقدمین کے نزدیک، ان سات آیات کا مصداق سورۃ الفاتحہ ہے۔
  • سورۃ الفاتحہ مکی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہونے والی پہلی مکمل سورۃ ہے۔
  • دُعا کے الفاظ و آداب: ان آیات میں دراصل دُعا کے الفاظ اور دُعا کرنے کا سلیقہ سکھایا گیا ہے۔
  • پہلے رب کی تعریف و توصیف بیان کی گئی، پھر بندے کے مقامِ عبدیت اور محتاجیت کا تذکرہ اور پھر دُعا
  • سورۃ البقرۃ ایک مدنی سورۃ ہے۔ مکی سورتوں میں عقائد کی پختگی جبکہ مدنی سورتوں میں معاشی، معاشرتی، تمدنی، سیاسی ، قانونی اور دیگر احکامات نظر آتے ہیں۔ کیونکہ مدینہ پہنچ کر چھوٹا موٹا ریاستی ڈھانچہ تشکیل پاچکا تھا۔
  • اہل کتاب: مکہ کے برعکس مدینہ میں اہلِ کتاب سے بھی واسطہ تھا جو وحی، رسالت، کتاب وغیرہ سے واقف تھے۔   لہٰذا حسبِ حال ان سے خطاب کیا گیا اور انکی ضد، ہٹ دھرمی، عناد  اور دین بیزاری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی پوری تاریخ کا احاطہ بھی کیا گیا۔
  • منافقین: مدینہ میں اسلام مکہ کی طرح بہت کمزور نہیں تھا پھر چھوٹی موٹی ریاست بھی تشکیل پاچکی تھی۔ گو کہ اب بھی مسلمان ہونا ایک آزمائش ہی تھا لیکن پھر بھی کچھ دنیاوی مفادات کے حصول کا امکان بھی نظر آرہا تھا لہٰذا یہاں منافقین کا ایک عنصر ظہور پذیر ہوا۔ اس سورۃ میں جا بجا منافقین کے کردار پر بحث  کی گئی ہے۔
  • سورۃ کی ابتداء میں انسانوں کے تین طبقات کا تعارف کرایا گیا ہے اوّل اہلِ ایمان کا، دوسرے دین کا انکار کرنے والے کفار کا اور تیسرے دو منہ رکھنے والے منافقین کا۔ ساتھ ہی ان تینوں کے انجام سے بھی آگاہی دے دی گئی۔
  • مومنین کو جنت کی بشارت، کفار کو جہنم کی خبر اور منافقین کوجہنم کے سب سے نچلے درجے میں رکھنے کا عقدہ سنایا گیا ہے۔ کیونکہ منافقین دراصل کفار ہی کے ساتھی ہوتے ہیں اور اپنی دانست میں مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں لیکن دراصل وہ مسلمانوں کو نہیں بلکہ خود ہی کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔
  • کلامِ ربانی کا اعجاز: قرآنِ پاک کی حقانیت اور صداقت پر شک کرنے والوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ وہ اس قرآن کی سورتوں جیسی ایک ہی سورۃ بنا کر لے آئیں اور اس کام میں اپنے مدد گاروں کو بھی شامل کرلیں۔   اور پھر خود ہی بتادیا گیا کہ وہ کبھی ایسا نہیں کرسکتے۔  پھر تنبیہ بھی کردی گئی کہ ایسے لوگوں کے لیے آگ کے آلاؤ تیار کیے گئے ہیں۔  جس کا ایندھن اور پتھر ہونگے۔
  • قصہ آدم و ابلیس: قصہ آدمؑ و ابلیس وہ قصہ ہے جو ہر الہامی کتاب میں مذکور ہے۔ اس قصہ میں فرشتہ، انسان اور شیطان کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔  جس میں فرشتوں کا تعارف اس انداز میں کرایا گیا کہ یہ غلطیوں سے مبرّا مخلوق ہوتے ہیں، جبکہ انسان اور جن و مخلوق جنھیں عمل میں اختیار کی آزادی دی گئی ہے اور انسان غلطی کرکےا اللہ کی طرف رجوع کرلیتا ہے جبکہ تیسرا تعارف ابلیس کا ہے جو غلطی کرتا ہے اور اس پر بضد ہوجاتا ہے اور لعنت زدہ قرار پاتا ہے۔
  • بنی اسرائیل: قصہ آدم و ابلیس کے اختتام پر بنی اسرائیل کا تذکرہ تفصیل سے آتا ہےجو کہ پانچویں رکوع سے شروع ہو کر سولہویں رکوع تک چلتا ہے۔ اس میں اس قوم کے عروج و زوال کی داستان رقم ہے ساتھ ہی اس قوم پر جو انعامات و عنایات کی گئیں ان کی تفصیل ملتی ہے۔  اسی سلسلے میں اس قوم کی جانب سے انبیاء کرامؑ پر کیے جانے والے ظلم اور موسیٰؑ ، انکے معجزات کا تذکرہ بھی تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔
  • ابراہیم ؑ کا قصہ: بنی اسرائیل کے کارناموں کی تکمیل پر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کی شخصیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور انکی قربانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بتایا گیا کہ کس طرح انھوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔  خانۂ خدا کی تکمیل کے بعد ابراہیم ؑ کی دُعا کا ذکر جس میں انھوں نے بلادِ حرم کو امن والا بنانے کی استدعا کی اور ساتھ ہی یہاں کے رہنے والوں کے لیے رزق کی فراوانی کو حرفِ دعا بنایا۔
  • تحویلِ قبلہ: آیت نمبر ۱۴۲ سے تحویلِ قبلہ کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جو حضورﷺ کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ایک ہے۔ ہجرت کے بعد تقریباً ۱۷ ماہ بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز ادا کی جاتی رہی جبکہ خانہ کعبہ پشت کی جانب ہوتا تھا۔ نبیؐ کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ قبلہ قرار دے دیا جائے جسے اللہ نے پورا کردیا۔   اس پر مشرکین اور اہل کتاب نے چرچا شروع کردیا جس کا جواب بھی آنے والے آیتوں میں دیا گیا۔ تحویلِ قبلہ دراصل تبدیلی امامت کا اعلان تھا۔ یعنی اب امامت بنی اسرائیل سے لے کر بنی اسماعیل کے فرزند محمد ﷺ کی اُمت کے سپرد کردی گئی۔
  • جہاد، قتال اور شہادت: تبدیلی امامت کے بعد جہاد، قتال ، آزمائشِ جان و مال کا ذکر ، تجارت و کاروبار کے نقصانات اور خوف و بھوک کے اشارات ملتے ہیں۔ اور اس پر صبر کی تلقین کا حکم۔ ان ہی آیات میں شہید کےلیے دائمی زندگی کی بشارت دی گئی۔
  • مناسکِ حج: آیت نمبر ۱۵۸ سے مناسکِ حج سکھلائے گئے اور صفا مروہ کا تذکرہ ملتا ہے جس پر حاجرہ ؑ کی سعی وجدجہدنظر آتی ہے پھر کس طرح اسماعیلؑ کے ایڑھیاں رگڑنے سے زمزم کا چشمہ پھوٹنا بھی انہی آیات میں آتا ہے۔
  • اسکے بعد اللہ رب العالمین نے آفاق و انفس میں غور کرنے اور سامانِ عبرت پانے کی تلقین فرمائی ہے۔ زمین و آسمان کی تخلیق، رات اور دن کا فرق، سمندروں کا سینہ چیر کر چلنے والے جہاز اور کشتیاں، آسمان سے نازل ہونے والا پانی، زمین کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے رنگا رنگ جانور، حشرات الارض، ہر آن رنگ بدلتی ہوائیں اور ان کے دوش پر سفر کرتے بادل، سبھی تخلیقِ ربانی کا شاہکارہیں۔ انھیں دیکھ کر ایک خالق وحدہٗ لاشریک کے وجود کا پتہ چلتا ہے۔
  • اگر انسان اپنی بصیرت سے کام نہ لے تو پھر یہ ساری نشانیاں بھی اسے منزل سے ہمکنار نہیں کرسکتیں اور وہ بھٹکتا رہتا ہے اور اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹہرالیتا ہے۔ بتایا گیا کہ جن ہستیوں کو انسان نے شریک بنایا وہ خود روز آخرت اس کے خلاف ہونگی۔
  • حلال و حرام: اللہ تعالیٰ نے تمام پاکیزہ چیزیں مسلمانوں کے لیے حلال قرار دیں اور حرام چیزوں کا نام لے کر تذکرہ کردیا یہ بالکل بنی اسرائیل کے برعکس ہے۔

ان شاء اللہ آگے کل۔    فی امان اللہ