خلاصہ تراویح 12 رمضان
- آج بارہویں تراویح ہے اور اس میں سورۃ النحل کی آیت 90 تا 128، سورۃ بنی اسرائیل مکمل، اور سورۃ الکہف کی 74 آیات کی تلاوت کی جائے گی۔ اس طرح آج ۱۵ پارے مکمل ہوجائیں گے۔
عظیم اور جامع آیت: آیت نمبر 90 قرآن کریم کی جامع ترین آیت ہے جس میں پوری اسلامی تعلیمات کو چند الفاظ میں سمودیا گیا ہے ۔ اسی لئے سلف صالحین کے عہد مبارک سے آج تک دستور چلا آرہا ہے کہ جمعہ و عیدین کے خطبوں کے آخر میں یہ آیت تلاوت کی جاتی ہے ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کا حکم دیا ہے اور تین چیزوں سے منع فرمایا ہے ۔ جن تین چیزوں کا حکم دیا ہے وہ ہیں : 1 ۔ عدل 2 ۔ احسان 3 ۔ اہل قرابت کو بخشش
جن تین چیزوں سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہیں ۔ 1 ۔ فحش کام 2 ۔ برے کام 3 ۔ ظلم وزیادتی
اوپر کی 3 بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ 3 برائیوں سے روکتا ہے، جو انفرادی حیثیت سے افراد کو اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں۔ فحاشی! جس کا اطلاق تمام بے ہودہ اور شرم ناک افعال پر ہوتا ہے۔ منکر! جس سے مراد ہر وہ برائی ہے، جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں۔ بغی! جس کے معنی اپنی حدود سے تجاوز کرنا اور دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرنا ہے۔
ایفائے عہد: آیت 91-92 میں ایفائے عہد کا حکم دیتے ہوئے ایک مثال بیان فرمائی گئی ہے جو بڑی دل نشین ہے۔ جو لوگ اپنے معاہدے توڑ دیتے ہیں، وہ اپنی نیکیوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور اُن اُس عورت سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنا کاتا ہوا سوت کاتنے کے بعد خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے۔
تلاوتِ قرآن اور شیطان سے پناہ:آیت 98 میں حکم “جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو”
قرآن اور اہلِ ایمان (۱۰۲۔۱۰۵): قرآن کے بارے میں مخالفانہ پروپیگنڈا کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اس قرآن کو پاک روح (جبرئیل امین) لے کر آتے ہیں جس میں کسی قسم کی آمیزیش وہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی محمد ؐ کو کوئی انسان یہ املا کراتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو اللہ کی آیات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا اُسے اللہ درست بات تک پہنچنےکی توفیق بھی نہیں دیا کرتا۔
مجبوراً کلمۂ کفر کی اجازت(۱۰۶): مکہ میں اہلِ ایمان کےلیے زمین انتہائی تنگ کردی گئی تھی اور اُن کی جان پر بن گئی تھی۔ ایسے میں اہلِ ایمان کو کلمۂ کفر کہنے کی اجازت دے دی گئی بشرطیکہ دل میں زرّہ برابر بھی شک نہ جگہ نہ بنائی ہو۔
مُردار کھانے کی اجازت: آیت 115 میں اجازت دی گئی ہے کہ اگر کوئی اس حد تک مجبور ہوجائے کہ حرام نہ کھائے تو جسم و زندگی کا رشتہ قائم نہ رکھ سکے گا تو وہ حرام کی چیزوں یعنی مُردار، خون، سؤر کا گوشت، ایسے جانور کا گوشت جس پر ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، کو اس قدر کھا سکتا ہے کہ اسکی سانس کا جسم سے رشتہ برقرار رہ سکے۔
حضرت ابراہیمؑ اور سیدنا محمدﷺ: سورۃ کے آخر میں سیدنا ابراہیمؑ کی تعریف کرتے ہوئے انھیں اپنی ذاتی میں پوری اُمت قرار دیا گیا ہے، انھیں ایمان میں یکسو اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا بتایا گیا ہے اور اعلان کیا گیا کہ وہ آخرت میں صالحین میں سے ہونگے۔ پھر نبیؐ کو مخاطب کرکےاُنھیں اور اُمت کو ہدایت کی گئی کہ لوگوں کو اللہ کے دین کے راستے طرف حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلائیں۔ اسکے باوجود اگر کوئی ماننے سے انکار کردے اور بحث و مباحثہ میں اُلجھائے تو بھی حُسنِ کلام، حُسنِ دلائل اور حُسنِ اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
سورۃ بنی اسرائیل /الاسراء: یہ سورۃ معراج کےموقع پر نازل ہوئی اور یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ یوں یہ سورۃ النحل سے متصل سورۃ ہے جو مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی۔ اس سورت میں تنبیہ، تفہیم اور تعلیم، تینوں ایک متناسب انداز میں جمع کردی گئی ہیں۔
- تنبیہ، کفار مکہ کو کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے انجام سے سبق لو اور خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر، جس کے ختم ہونے کا زمانہ قریب آلگا ہے، سنبھل جاؤ۔
- تفہیم کے پہلو میں بڑے دلنشین طریقے سے انسانی سعادت و شقاوت و فلاح کو سمجھا یا گیا ہے اور اِن شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو ان بنیادی حقیقتوں کے بارے میں کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے۔ اور استدلال کے ساتھ بیچ بیچ میں منکر ین کی جہالتوں پر ڈانٹ ڈپٹ بھی کی گئی ہے۔
- تعلیم کے پہلو میں اخلاق اور تمدن کے وہ اہم اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر زندگی کے نظام کو قائم کرنا دعوت محمدی ؐکے پیش نظر تھا۔ یہ گویا اسلام کا منشور تھا جو اسلامی ریاست کے قیام سے 1سال پہلے اہل عرب کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
- سفرِ معراج (۱۔۲): پہلی آیت میں سفرِ معراج کا تذکرہ ہے۔ یہ سفر ایک رات میں مکمل ہوا پہلے مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ لےجایا گیا اور پھر وہاں سے آسمانوں پر سدرۃ المنتہیٰ تک۔ اس معاملہ سے مقصود کیا تھا : (لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا) تاکہ اللہ کی نشانیاں رسول ؐ کے مشاہدہ میں آجائیں۔ یعنی دلائلِ حقیقت کا عینی مشاہدہ کرلیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ وحی کی تکمیل تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا : (وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ) اسی طرح حضرت موسیٰ کا معاملہ وحی بھی کوہ طور کے اعتکاف میں مکمل ہوا تھا۔
- خود پڑھ اپنی کتاب (۱۳۔۱۴): سورۃ کے آغاز ہی میں بنی اسرائیل کی بد عہدیوں اور اُن پر آنے والے مسلسل عذاب کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا ہے کہ ہر انسان کا نصیب ہم نے اُس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک رجسٹر اُس کےلیے نکالیں گے، جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا۔ کہا جائے گا پڑھ اپنا نامۂ اعمال، اپنا حساب نکالنے کےلیے تو خود ہی کافی ہے۔ گویا ہر انسان کا ریکارڈ اُس کے ساتھ ساتھ بنتا جارہا ہے۔ قیامت میں خود اُس کے اعضاء گواہی دیں گے۔
نبیؐ کی دعوت کا منشور (۲۳۔۳۹): ان آیات میں وہ بنیادی اصول پیش کیے گئےجن پر اسلام پوری انسانی زندگی کے نظام کی عمارت قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ گویا نبی ؐکی دعوت کا منشور ہے جسے مکی دور کے خاتمے اور مدنی دور کے نقطۂ آغاز پر پیش کیا گیا، تاکہ دنیا بھر کو معلوم ہوجائے کہ اس اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد کن فکری، اخلاقی، تمدنی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی۔
- عبادت صرف اللہ کی کی جائے۔
- والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کیا جائے اور اُن سےاُونچی آواز میں بات بھی نہ کی جائے، ہمیشہ انکےلیے دعا کی جائے۔
- رشتہ دار، مساکین و مسافروں کو اُن کا حق دیا جائے۔
- فضول خرچی سے بچا جائے، کیونکہ فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں۔
- حاجت مندوں کی امداد نہ کی جاسکے تو انھیں نرم جواب دیا جائے، جھڑکا نہ جائے۔
- افلاس کے اندیشے سے اپنی اولاد کو قتل نہ کیا جائے، رازق تو سب کا اللہ ہے۔
- زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ یعنی اُن راستوں پر قدم ہی نہ رکھو جو اس برائی کی سرحد تک لے جائیں۔
- کسی شخص کو ناحق قتل نہ کرو۔
- مقتول کے ورثاء کو حق ہے کہ وہ قصاص میں قاتل کے قتل کا مطالبہ کریں، جسے حکومت عملی جامہ پہنائے۔
- یتیم کے مال کی حفاظت کرو، اُس میں سے کچھ غبن و غصب نہ کرو اور اُس کے جوان ہونے پر اُسکے حوالے کردو۔
- عہد کی پابندی کرو۔
- ناپ اور تول میں انصاف کرو۔
- کسی ایسی چیز کی ٹوہ میں نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو یعنی تجسس سے بچو۔
- زمین میں اکڑکر مت چلو، نہ تو تم اسے پھاڑ سکتے ہو اور پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔
- توحید باری تعالیٰ (۴۰۔۴۴): ان آیات میں توحید باری تعالیٰ بیان کی گئی ہے۔
- عقیدۂ رسالت و آخرت (۴۵۔۵۲): ان آیات میں عقیدۂ رسالت و آخرت بیان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ کفار سوال کرتے ہیں کہ ایک بار مرنے کے بعد مٹی ہوجائیں تے تو پھر کیسے دوبارہ اُٹھائے جاسکتے ہیں؟ جواب میں بتایا گیا “تم پتھر یا لوہا بھی ہوجاؤ یا اس سے بھی زیادہ سخت چیز، پھر بھی تم اُٹھ کر رہو گے۔ اور وہی تمھیں دوبارہ اُٹھائے گا جس نے پہلی بار تمھیں پیدا کیا تھا۔ اُسکے پکارتے ہی ایسے اُٹھ آؤ گے جیسے ابھی لیٹے تھے یعنی مدت تھوڑی۔
- ابلیس کا اللہ کو چیلنج (۶۱۔۶۵): تخلیقِ آدمؑ پر اللہ کا فرشتوں کو سجدہ کا حکم اور ابلیس کا انکار، پھر تکرار کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ اللہ سے مہلت مانگی اور چیلنج کیا کہ چونکہ میں اسکی وجہ سے ذلیل کیا گیا ہوں لہٰذا میں اس کو قامت تک بھٹکاتا رہوں گا۔ اللہ نے بھی اس کا چیلنج قبول کیا اور کہا کہ “میرے بندوں پر تیرا زور نہیں چلے گا”۔ اب جو بھی انسان شیطان کی چال بازیوں میں آتا ہے تو گویا شیطان کی جانب سے اللہ کو دیےگئے چیلنج میں اُسے کامیابی دلوانے کی کوشش کرتا ہے۔
- نماز کی فرضیت و اوقات(۷۸۔۷۹): نماز کی فرضیت سفرِ معراج ہی میں ہوئی تھی گویا کہ یہ اللہ کی طرف سے اُمت کے لیے معراج کا تحفہ تھا۔ آیت نمبر ۷۸ میں پانچوں نمازوں کے اوقات کا تعین کیا گیا ہے جو زوالِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور طلوعِ فجر تک رہتا ہے۔ آیت نمبر ۷۹ میں تہجد کا ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ پر فرض کی گئی تھی اور اسکے صلے میں اُن سے مقامِ محمود کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ نماز امتیوں کے لیے گو کہ نفل ہے لیکن اللہ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
- روح کی حقیقت(۸۵): رُوح پر انسانوں نے بڑی بحثیں کی ہیں۔ مختلف نظریات قائم کیے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جسم اور مادّے اور مرئی اور حِسّی دُنیا میں تو انسان نے اپنے جوہر دکھائے ہیں مگر رُوح کے بارے میں وہ بالکل بے بس نظر آتا ہے۔ اللہ نے فرمایا! “اور وہ تم سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دو کہ رُوح میرے رب کے حکم میں سے ہے اور انہیں تو بس تھوڑا ہی سا علم عطا ہوا ہے “
- رسول انسان یا فرشتہ(۹۵): کفار کا اعتراض تھا کہ کسی بشر کے بجائے کسی فرشتے کو اُن کی طرف رسول ہو کر آنا تھا تو ان سے کہہ دو کہ اگر زمین میں انسانوں کے بجائے فرشتے بستے تب تو ہم لازماً آسمان سے کوئی فرشتہ ہی اتارتے لیکن زمین میں انسان رہتے ہیں تو آخر انسانوں کی طرف کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجنے کے کیا معنی ؟ رسول اس لیے آتا ہے کہ اس کی زندگی لوگوں کے لیے اسوہ اور نمونہ بنے۔ آخر کسی فرشتہ کی زندگی انسانوں لیے اسوہ اور نمونہ کس طرح بن سکتی۔
- رسول انسان یا فرشتہ(۱۰۵۔۱۰۶): فرمایا گیا کہ اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے کوئی مانتا ہے مانے اور جو نہیں مانتا نہ مانے۔ نبیؐ آپ کا کام تو بس اتنا ہےکہ اس کا پیغام لوگوں تک پہنچادیں اور ماننے والوں کو خوشخبریاں اور نہ ماننے والوں کو کل کے انجام سے باخبر کردیں۔ اس قُرآن کو تو ہم نے بتدریج اتارا ہے تاکہ انسان اسے آسانی سے سیکھ سکیں۔ ورنہ تو ہمارے اختیار میں تھا کہ یکمشت نازل کردیتے۔
- اللہ رحمن بھی ہے: مشرکین رحمن کے نام سے چڑتے تھے۔ فرمایا گیاکہ! ان سے کہو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر، تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔ وہ تعریف کا حقدار ہے اور ہر قسم کے شریک سے پاک ہے۔
- سورۃ الکہف: سابق سورة کی طرح یہ سورة بھی آنحضرتؐ کی مکی زندگی کے اس دور میں نازل ہوئی ہے جب حق و باطل کی کشمکش اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ قریش اپنے تمام حربوں کے ساتھ قرآن کی دعوت کو مٹا دینے پر تل گئے تھے اور یہود و نصاری نے بھی در پردہ قریش کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کردی تھی تاکہ انہی کے ہاتھوں یہ دعوت اپنے مرکز ہی میں ختم ہوجائے، اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے خود انہیں میدان میں اترنا نہ پڑے ۔ یہودیوں کے کہنے سے قصۂ یوسفؑ کی طرح مشرکینِ مکہ نے تین سوال نبی کریمﷺ کے سامنے رکھے تھے۔
- ۱) اصحابِ کہف کون تھے؟ ۲) قصۂ موسیٰ و خضر کی حقیقت کیا ہے؟ ۳) ذولقرنین کون تھا؟
- ان سوالات کی حقیقت: یہ قصے عرب کی تاریخ، شعر و ادب اور قصے کہانیوں میں ناپید تھے۔ البتہ یہود و نصاریٰ کی کتب میں ان کا تذکرہ موجود تھا۔ چونکہ مشرکین کا خیال تھا کہ محمد ؐ خود مضامین گھڑتے ہیں یا کسی سے سیکھتے ہیں اس لیے ان سوالات کے جوابات نہیں دے پائیں گے۔ یا کسی سے پوچھیں گے تو آپؐ کا راز فاش ہوجائے گا۔
- اللہ کی تعریف اور قرآن کی حقانیت سے کلام کا آغاز کیا گیا۔ پھر چھٹی آیت میں نبیؐ کی اُس کیفیت کو بیان کیا گیا کہ وہ مخالفین کے لیے بھی نہایت غم گسار ہیں اور ان کے غم میں گھلے جاتے ہیں۔
- اصحابِ کہف کون تھے؟
- اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ 7 نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لائے تھے اور ہم نے انکو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ان کا واقعہ دقیانوس کے دورِ اقتدار کا ہے۔ دقیانوس دین کے پیروکاروں پر ظلم و ستم ڈھانے میں بہت بدنام تھا۔ لیکن ان نوجوانوں نے اُس کے ظلم کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے ایک غار میں پناہ لے لی ساتھ میں ان کے ایک کتا بھی تھا۔ انھوں نے اللہ سے اسکی رحمتِ خاص کی دعا مانگی تو اللہ نے انھیں سالہا سال کےلیے گہری نیند سُلادیا۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ اُس غار میں تقریباً 309 سال سوتے رہے۔ صاحبِ تفہیم القرآن کی تحقیق کے مطابق یہ 196 سال سوئے۔
- جب حقیقت کھلی: جب تک یہ سوتے رہے اللہ تعالیٰ انھیں کروٹیں دلواتا رہا اور غار کا دھانہ ایسا تھا کہ سورج کی روشنی براہِ راست ان پر نہیں پڑتی تھی۔ جب بیدار ہوئے تو ایک ساتھی کو کھانا لانے بازار بھیجا جو پرانے زمانے کے لباس میں اور پرانے سکے کے ساتھ بازار جاتا ہے اور بات بادشاہِ وقت تک پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ بادشاہ اور اسکے درباری غار کے دھانے تک آتے ہیں اور اُن نوجوانوں سے حال احوال معلوم کرتے ہیں۔ راز فاش ہونے پر اللہ تعالیٰ انھیں موت دے دیتا ہے۔
- جب حقیقت کھلی: جب تک یہ سوتے رہے اللہ تعالیٰ انھیں کروٹیں دلواتا رہا اور غار کا دھانہ ایسا تھا کہ سورج کی روشنی براہِ راست ان پر نہیں پڑتی تھی۔ جب بیدار ہوئے تو ایک ساتھی کو کھانا لانے بازار بھیجا جو پرانے زمانے کے لباس میں اور پرانے سکے کے ساتھ بازار جاتا ہے اور بات بادشاہِ وقت تک پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ بادشاہ اور اسکے درباری غار کے دھانے تک آتے ہیں اور اُن نوجوانوں سے حال احوال معلوم کرتے ہیں۔ راز فاش ہونے پر اللہ تعالیٰ انھیں موت دے دیتا ہے۔
- گمراہی کی دوسری صورت: اُن کی زندگی میں گمراہی کی صورت یہ تھی کہ توحید پرستوں پر ظلم ڈھایا جاتا تھا۔ اب گمراہی کی ایک دوسری صورت بنی اور وہ یہ کہ اُن کو مقدس بنا کر اُن کی قبریں سجدہ گاہ بناے کا فیصلہ ہوا۔ (آیت: ۲۱)
- ان شاء اللہ کی اہمیت: آنحضورؐ نے مذکورہ سوالات سُن کر مشرکین کو جواب دیا کہ ان کے جوابات کل دوں گا اور یہ نہیں کہا کہ اگر اللہ نے چاہا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے وحی میں تاخیر کی اور وحی آنے پر متنبہ کردیا کہ “کسی چیزکے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کردوں گا اِلّا یہ کہ اللہ چاہے۔ مسلمانوں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
- دو مالکانِ باغات: مذکورہ سوالوں سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ نے مزید تذکیر کے عنوان نازل فرمائے۔ جن میں سے ایک باغ والوں کا قصہ بھی ہے۔ جن میں ایک باغ کا مالک بہت خوش حال تھا لیکن اپنی خوشحالی اور باغ کی شادابی پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنی قابلیت سمجھتا تھا۔ جبکہ دوسرے باغ کا مالک مالی اور باغ کی شادابی کے لحاظ سے کمزور تھا لیکن وہ اللہ کا شکر گزار تھا۔ دونوں میں مکالمہ ہوا تو پہلے نے گھمنڈ اختیار کیا جبکہ دوسرے نے کہا کہ بندے کو اترانے کے بجائے اللہ کی طرف رُجوع کرنا چاہیے۔ آخر اللہ نے مغرور کے باغ کو تباہ و برباد کردیا۔
- واقعہ موسیٰ و خضر ؑ: پندرھویں پارے کے آخر میں قصہ آدم و ابلیس پر پھر روشنی ڈالی گئی اور اسکے بعد دوسرے سوال کا جواب دیا جاتا ہے اور قصۂ موسیٰ اور خضر ؑ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ قصہ مکمل سولہویں پارے میں ہوتا ہے لہٰذا تفصیل ان شاء اللہ کل رکھیں گے۔ آج بس ایک تعارف رکھ دیتے ہیں تمام انبیاء کی طرح موسیٰ ؑ کو بھی جب نبوت ملی تو مراحل بڑے کٹھن تھے۔ انھیں حکم ملا کہ وہ مصر سے سوڈان کی جانب سفر کریں۔ راستے میں ایک مقام پر دو دریاء آپس میں ملتے ہیں وہاں ایک شخص آپ کو ملے گا جس کے ساتھ موسیٰؑ کو کچھ وقت گزارنا ہوگا۔ اس مقام کی نشانی بتائی گئی تھی کہ بھنی ہوئی مچھلی جو کھانے کے لیے رکھی تھی زندہ ہو کر دریاء میں چلی جائے گی۔ چنانچہ یہیں موسیٰؑ کی ملاقات خضرؑ سےہوئی۔ باقی کل