خلاصہ تراویح 18 رمضان

اٹھارھویں  تراویح

آج کی تراویح میں اکیس واں سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ  العنکبوت کے باقی  ۳ رکوع ، سورۃ الروم مکمل،  سورہ لقمان مکمل اور سورۃ السجدۃ مکمل اور سورۃ الاحزاب کے پہلے ۳ رکوع (۲۷ آیات) کی تلاوت کی جائے گی۔

العنکبوت:   تلاوتِ قرآن اور نمازکی ادائیگی      (۴۵):      خطاب بظاہر نبی ؐ سے ہے، مگر دراصل مخاطب تمام اہل ایمان ہیں۔ ان پر جو ظلم و ستم اس وقت توڑے جارہے تھے اور ایمان پر قائم رہنے میں جن شدید حوصلہ شکن مشکلات سے ان کو سابقہ پیش آرہا تھا، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پچھلے چار رکوعوں میں صبر وثبات اور توکل علی اللہ کی مسلسل تلقین کرنے کے بعد اب انہیں عملی تدبیر یہ بتائی جارہی ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں، کیونکہ یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبردست صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔

 تلاوت قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جبکہ وہ قرآن کے محض الفاظ پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے، اور اس کی نماز صرف بدن کی حرکتوں  تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے دل کا وظیفہ اور اس کے اخلاق و کردار کی قوت بن جائے۔

قرآن ایک زندہ معجزہ   (۴۸۔۵۱):               بتایا جارہا ہے کہ نبیؐ اُمّی تھے یعنی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن پاک آپکی نہ تو تخلیق ہے اور نہ کاوش بلکہ یہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے۔  پھر یہ کفار سوال کرتے ہیں کہ آپؐ نبی ہونےکا دعویٰ کرتے ہیں تو کوئی معجزہ کیوں پیش نہیں کرتے جس طرح پچھلے انبیاء پیش کرتے تھے۔  جس کا جواب دیا جارہا ہے کہ اُن انبیاء کے معجزات تو اُنکی زندگی تک محدود رہتے تھے  لیکن محمد ؐ کو اللہ نے قرآن جیسا زندہ و جاوید معجزہ عطا کیا ہے جو بالکل اسی طرح قیامت تک کےلیے ہے جس طرح محمدؐ قیامت تک کےلیے نبی ؐ ہیں۔  یہ قرآن کا معجزہ ہی تو ہے کہ جس طرح ربّ نے نازل کیا بالکل اسی طرح آج تک اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔  پھر اتنی ضخیم  کتاب لوگ باآسانی حفظ کرلیتے ہیں جس میں ایک لفظ تو کیا حرف کی غلطی بھی نہیں ہوتی،   وہ لوگ بھی باآسانی یاد کرلیتے ہیں جنکی مادری زبان عربی نہیں ہوتی۔  بعض محققین کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً ۸ لاکھ قرآن کے حفاظ موجود ہیں۔

ہجرت کی ترغیب   (۵۶۔۶۰):    چونکہ مکہ میں ظلم و ستم اپنے عروج پر پہنچ چکے تھا اس لیے اللہ تعالیٰ اس آیت میں مسلمانوں کو ترغیب دلا رہا ہے کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، کہیں اور چلے جاؤ۔  اور اگلی ہی  آیت میں بتادیا گیاکہ موت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں،  موت تو ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا ذائقہ سب نے چکھنا ہے اور جہاں ہو یہ آکر رہے گی۔  یہ بھی بتادیا گیا کہ کہیں اور جانے کے لیے تمھیں رزق کا خوف بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ رازق اللہ تعالیٰ ہے وہ تو چرند پرند سب کو رزق عطا فرماتا ہے تو تم جب اسکی راہ میں نکلو گے تو تمھیں کیوں عطا نہیں فرمائے گا۔  اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہجرت کرنے والوں کو اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق تمام انعامات و اکرامات سے نوازا۔

مجاہدہ اور اللہ کی نصرت (۶۹):    سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے جس صبر و آزمائش کی تلقین کی تھی۔  سورۃ کے آخر میں اس مضمون کو بہت نفیس انداز میں بند کیا کہ جو کوئی اللہ کی راہ میں مشقتیں برداشت کرے گا، اللہ انھیں کامیابی کے راستے پر چلائے گا وہ کامیابی دنیا میں بھی ہوگی اور آخرت میں بھی۔

سورۃ الروم:              سورۃ الروم ایک مکی سورۃ ہےاور نبوت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی جب کہ قریش نے آپ کی مخالفت شروع کردی تھی۔

فتح و نصرت اللہ کے ہاتھ ہے  (۲۔۶):          سورۃ کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا گیا ہے کہ “رومی قریب کی سر زمین میں مغلوب ہو گئے ہیں (۲) اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے۔(3)

سورة روم کی ان ابتدائی آیات میں دو ایسی پیشین گوئیاں کی گئی ہیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی رسالت کی حقانیت پر زبردست دلیل ہیں۔ ان میں پہلی پیشین گوئی یہ ہے کہ اگر آج روم شکست کھا گیا ہے تو چند ہی سالوں میں روم پھر ایران پر غالب آجائے گا۔ اور دوسری پیشین گوئی یہ تھی کہ اگر آج مسلمان مشرکین مکہ کے ہاتھوں مظلوم ہیں۔ تو ان کو بھی اُسی دن مشرکین مکہ پر غلبہ حاصل ہوگا جس دن روم ایران پر غالب آئے گا اور قرآن نے یہ دونوں پیشین گوئیاں ایسے وقت میں بیان کیں جبکہ ان پیشین گوئیوں کے پورا ہونے کے دور دور تک کہیں آثار نظر نہیں آرہے تھے۔

تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جس زمانہ میں آپؐ کو نبوت عطا ہوئی (٦١٠ ء میں) اس وقت عرب کے اطراف میں دو بڑی طاقتیں Super Power موجود تھیں۔ ایک روم کی عیسائی حکومت جو دو باتوں میں مسلمانوں سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں اہل کتاب تھے، دوسرے دونوں آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ لہذا مسلمانوں کی ہمدردیاں انھیں کے ساتھ تھیں۔ مسلمانوں کی عیسائی حکومت سے ہمدردی کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی اسی زمانہ میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور قریشیوں نے مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کے باوجود حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور قریش کی سفارت کو بری طرح ناکام ہو کر وہاں سے واپس آنا پڑا تھا۔

 اور دوسری ایران کی حکومت جو دو وجوہ سے مشرکین مکہ سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں مشرک تھے۔ ایرانی دو اللہؤں کے قائل اور آتش پرست تھے اور مشرکین بت پرست تھے اور دوسرے یہ کہ دونوں آخرت کے منکر تھے۔ انہی وجوہ کی بنا پر مشرکین مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔

٦١٤ ء میں خسرو پرویز نے روم کو ایک مہلک اور فیصلہ کن شکست دی۔ شام ، مصر اور ایشائے کوچک کے سب علاقے رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ہرقل قیصر روم کو ایرانی فوجوں نے قسطنطنیہ میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور کردیا اور رومیوں کا دارالسلطنت بھی خطرہ میں پڑگیا۔ بڑے بڑے پادری قتل یا قید ہوگئے۔ بیت المقدس عیسائیوں کی سب سے زیادہ مقدس صلیب بھی ایرانی فاتحین اٹھا لے گئے اور قیصر روم کا اقتدار بالکل فنا ہوگیا۔ یہ خبر مشرکین مکہ کے لئے بڑی خوش کن تھی انہوں نے مسلمانوں کو چھیڑنا شروع کردیا۔

۱۰۰  اونٹوں کی شرط:  اُبیّ بن خلف نے حضرت ابوبکرؓسے کہا  کہ جس طرح ایران نے روم کو ختم کر ڈالا ہے ایسے ہی ہم بھی تمہیں مٹا ڈالیں گے۔  آؤ میرے ساتھ شرط لگاؤ، اگر 3 سال کے اندر رُومی غالب آگئے تو میں تمھیں 10 اونٹ دوں گا ورنہ 10 اونٹ تمھیں مجھے دینا ہونگے۔  شرط لگ گئی اور آنحضورؐ کو علم ہوا تو فرمایا کہ الفاظ میں  فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ہے اور بضع کا اطلاق 3 سے 9 تک ہر ہندسے پر ہوتا ہے۔  لہٰذا شرط میں یہ مدت 9 سال کرو اور اونٹ بڑھا کر 100 کردو۔  حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اُبیّ بن خلف سے بات کی تو وہ اور خوش ہو گیا اور فوراً مان گیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ 9 سال تو کیا اب روم صدیوں بھی ایران پر فتح حاصل نہیں کرسکتا۔

اور پانسہ پلٹ گیا:      اب حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ قیصر روم نے ایک طرف تو  اللہ کے حضور منت مانی کہ اگر اللہ نے اسے ایران پر فتح دی تو حمص سے پیدل چل کر ایلیا (بیت المقدس) سے پہنچوں گا۔ دوسری طرف نہایت خاموشی کے ساتھ ایک زبردست حملہ کی تیاریاں شروع کردیں۔ ٦٢٣ ء میں اس نے اپنی مہم کا آغاز آرمینیا سے کیا اور آذربائیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ کو تباہ کردیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ رسولؐ اللہ ٦٢٢ ء میں ہجرت کرکے مدینہ آئے اور ٦٢٣ ء میں مسلمانوں نے مشرکین مکہ کو بدر کے مقام پر شکست فاش دی۔ اسی دن مسلمانوں کو یہ خبر مل گئی کہ روم نے ایران کو شکست فاش دے کر اپنا علاقہ آزاد کر الیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو تو دوہری خوشیاں نصیب ہوگئیں ان مشرکین مکہ کو دوہری ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔    حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اُبیّ بن خلف کے بیٹوں سے سو اونٹ وصول کئے  کیونکہ وہ خود بدر میں مارا جاچکا تھا۔  لیکن چونکہ جوئے (اور شرط) کی حرمت کا حکم آچکا تھا اس لیے   حضورؐ کے حکم کے مطابق صدقہ کردیئے گئے۔

رُوم کا غلبہ اور بدر کی فتح:            قرآن کا معجزہ اور اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ یہی سال تھا جب بدر کے میدان میں آنحضورؐ کو فیصلہ کن فتح نصیب ہوئی۔  بضع سنین کی مدت کے اندر دونوں پیشن گوئیاں پوری ہوئیں۔  ۶۲۸ء میں خسرو پرویز کے گھر میں بغاوت نمودار ہوئی اور اُس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔

اللہ کی پکڑ برحق ہے:                 آیت ۹ اور ۱۰ میں انسانوں کو اُن کی اپنی ہی تاریخ اور رونما ہونے والے اہم واقعات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔   جس کا لُبِّ لُباب  یہ ہے کہ اللہ کے خلاف بغاوت کرنے والے کتنے ہی طاقت ور ہوجائیں، بالآخر اللہ کی پکڑ آجاتی  ہے اور وہ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔

اللہ کی نشانیاں:          آیت ۱۱ سے ۲۸  تک آسمان و زمین میں پھیلی اللہ کی نشانیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔   خالقِ حقیقی کی قدرتِ کاملہ، زمین و آسمان کی تخلیق سے لے کر دن، رات اور صبح و شام کی آمد و رفت تک انسانوں کی توجہ کے مستحق ہیں۔  خود انسان اپنی تخلیق اور اُس کی افزائشِ نسل، رنگوں اور زبانوں کا اختلاف، رات کی نیند اور دن کی تگ و تازگی سبھی اللہ کی نشانیاں ہیں۔  بجلی کی چمک، بادلوں کی گرج اور کڑک، بادلوں کا  پورا نظام اور اُس میں پنہاں نفع و نقصان، آسمان کا بغیر ستونوں کے اپنی جگہ پر قائم رہنا اور زمین کا بچھونے کی صورت انسانوں کی خدمت کےلیے بچھایا جانا سبھی عبرت کی نگاہ رکھنے والوں کےلیے ایمان افروز نشانیاں ہیں۔

صدقات و سود:         آیت ۳۸ تا ۳۹ میں رشتہ داروں، مسافروں اور مساکین کو اُن کا حق دینےکی تلقین کی گئی  جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔  بتایا گیا کہ تم لو گ سود کے لین دین سے مال بڑھتا نہیں بلکہ زکوٰۃ  کے دینے سے مال میں برکت ہوتی ہے۔

عمومی فساد اور اس کا تدارک:      آیت ۴۱ میں اس فساد کا ذکر کیا گیا ہے جو روم و ایران کی جنگ کے دوران خشکی و سمندر میں پھیل گیا تھا۔  یہ آیت اتنی جامع ہے کہ ہر دور میں ہوِس ، ملک گیری کے مرض میں مبتلا انسان نما بھیڑیوں کے کرتوتوں اور اُن سے پیدا ہرنے والے نتائج کا ذکر کرتی ہے۔

آج بھی دنیا میں خشکی اور سمندر میں ہی نہیں بلکہ فضاؤں تک ہر جگہ فساد پھیل گیا ہے۔  امریکہ اور مغرب کی سیکولر تہذیب اپنے بھیانک چہرے کے ساتھ ساری دنیا میں تباہی پھیلا رہی ہے۔  اس تباہی سے نکلنے کا علاج آیت نمبر ۴۳ میں بتایا گیا ۔  اللہ فرماتا ہے کہ اپنا رُخ مضبوطی کے ساتھ اس دینِ راسخ کی سمت میں جما دو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

انسان کی زندگی:        آیت ۵۴ سے سورۃ کے آخر تک انسان کی زندگی کے مختلف ادوار کا تذکرہ کیا گیا ہے۔  پہلا مرحلہ پیدائش کے وقت انتہائی ضعف کی حالت، پھر وقت کے ساتھ قوت،  پھر بڑھاپا اور ضعیفی۔  یہ بھی اللہ کی قدرتوں میں سے ایک قدرت ہے۔

سورۃ لقمان:              اس سورة میں لوگوں کو شرک کی بُرائی اور توحید کی سچائی سمجھائی گئی ہے، اور انہیں دعوت دی گئی ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑ کر، کھلے دل سے محمدؐ کی لائی ہوئی تعلیمات پر غور کریں۔

انسان کی دو قسمیں:   سورۃ کی ابتداء ان آیات کی گئی ہے قرآن کی آیات حکمت سے بھرپور ہیں اُن  لوگوں کے لیے  جو نیک ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔

 جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سیدھے راستے سے لوگوں کو بھٹکانے  کے لیے لہو الحدیث  کا سہارا لیتے ہیں۔  یعنی ناچ گانے، لغویات کی مجلسیں، آج کل کے یہ کرکٹ و فٹبال میچ، غرض جو چیز بھی  دین سے دور کرے لہو و لعب کہلاتی ہے۔  آج کے نام نہاد دانشور سارا زور اس بات پر لگا رہے ہیں کہ موسیقی رُوح کی غذا اور گانا بجانا ثقافت کی جان ہے۔

حضرت لقمان کون تھے؟:           حضرت لقمان، اللہ کے نبی تو نہیں تھےلیکن ایک مردِ حق شناس تھے۔  عربوں میں انکی شخصیت ایک حکیم و دانا کی مانی جاتی تھی۔    قرآن نے انھیں ایک مبلغ و داعی کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔

حضرت لقمان کی نصیحتیں:           آیت نمبر ۱۳ سے ۔۔۔۔ تک حضرت لقمان نے جو نصیحتیں اپنے بیٹے کو کیں تھیں ان کا ذکر ہے:

  1. بیٹا ! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے
  2. بیٹا کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اُسے نکال لائے گا
  3. بیٹا ، نماز قائم کر ، نیکی کا حکم دے ، بدی سے منع کر ، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر ۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے
  4. اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر نہ زمین میں اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا
  5. اپنی چال میں اعتدال اختیار کر۔ اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ۔

مفاتیح الغیب:           سورۃ کے آخر میں اللہ نے قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر شخص اُس دن اپنی جواب دہی خود کرے گا، کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔  آخری آیت میں اللہ نے مفاتیح الغیب سے پانچ چیزوں کا بیان فرمایا ہے:

  1. قیامت کی گھڑی کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں
  2. بارش کے نظام پر اُسی کا تصرف ہے۔
  3. ماؤں کے پیٹ میں پرورش پانے والے جنین کے باے میں مکمل علم اُسی کے پاس ہے۔
  4. اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے، کسی متنفس کو کھ پتا نہیں۔ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
  5. کس شخص کی موت زمین کے کس چپےپر آئے گی، کسی کو کچھ نہیں معلوم سوائے اللہ کے

سورۃ السجدہ:

  • اس کا زمانۂ نزول مکہ کا دور متوسط ہے، اور اس کا بھی ابتدائی زمانہ، کیونکہ اس کلام کے پس منظر میں ظلم و ستم کی وہ شدت نظر نہیں آتی جو بعد کے ادوار کی سورتوں کے پیچھے نظر آتی ہے۔
  • نبی کریمﷺ اکثر اس سورۃ کی تلاوت جمعہ کے دن فجر کی نماز میں فرمایا کرتے تھے۔ کیونکہ اس میں قیامت کا بہت مؤثر نقشہ کھینچا گیا ہے اور کئی روایات کے مطابق قیامت جمعہ ہی کے دن برپا ہوگی۔
  • اس سورة میں توحید آخرت اور رسالت کے متعلق لوگوں کے شبہات کو رفع کرنا اور ان تینوں حقیقتوں پر ایمان کی دعوت دینا ہے۔
  • کفار مکہ نبی ؐکے متعلق آپس میں چرچے کر رہے تھے کہ یہ شخص عجیب عجیب باتیں گھڑ گھڑ کر سنا رہا ہے۔ کبھی کہتا ہے مٹی میں رل مل جانے کے بعد تم پھر اٹھائے جاؤ گے اور حساب کتاب ہوگا اور دوزخ ہوگی اور جنت ہوگی کبھی کہتا ہے کہ یہ دیوی دیوتا اور بزرگ کوئی چیز نہیں ہیں، بس اکیلا ایک اللہ ہی معبود ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، آسمان سے مجھ پر وحی آتی ہے اور یہ کلام جو میں تم کو سنا رہا ہوں، میرا کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے۔ یہ عجیب افسانے ہیں جو یہ شخص ہمیں سنا رہا ہے۔ انہی باتوں کا جواب اس سورة کا موضوع بحث ہے۔
  • جواب میں کفار سے کہا گیا ہے کہ عقل سے کام لے کر خود سوچو ، آسمان و زمین کے انتظام کو دیکھو، خود اپنی پیدائش اور بناوٹ پر غور کرو، کیا یہ سب کچھ اس تعلیم کی صداقت پر شاہد نہیں ہے جو نبی کی زبان سے اس قرآن میں تم کو دی جا رہی ہے ؟
  • پھر عالم آخرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور ایمان کے ثمرات اور کفر کے نتائج بیان کر کے یہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ لوگ برا انجام سامنے آنے سے پہلے کفر چھوڑ دیں ۔
  • پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ وہ انسان کے قصوروں پر یکایک آخری اور فیصلہ کن عذاب میں اسے نہیں پکڑ لیتا بلکہ اس سے پہلے چھوٹی چھوٹی تکلیفیں مصیبتیں، آفات اور نقصانات بھیجتا رہتا ہے۔ ہلکی ہلکی چوٹیں لگاتا رہتا ہے، تاکہ اسے تنبیہ ہو اور اس کی آنکھیں کھل جائیں۔ آدمی اگر ان ابتدائی چوٹوں ہی سے ہوش میں آجائے تو اس کے حق میں بہتر ہے۔
  • پھر فرمایا کہ دنیا میں یہ کوئی پہلا اور انوکھا واقعہ تو نہیں ہے کہ ایک شخص پر اللہ کی طرف سے کتاب آئی ہو۔ اس سے پہلے آخر موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی کتاب آئی تھی جسے تم سب لوگ جانتے ہو
  • پھر کفار مکہ سے کہا گیا ہے کہ اپنے تجارتی سفروں کے دوران تم جن پچھلی تباہ شدہ قوموں کی بستیوں پر سے گزرتے ہو ان کا انجام دیکھ لو، کیا یہی انجام تم اپنے لیے پسند کرتے ہو ؟
  • خاتمۂ کلام پر نبیؐ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ تمہاری باتیں سن کر مذاق اڑاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کن فتح آپ کو کب نصیب ہونے والی ہے؟۔ ان سے کہو کہ جب ہمارے اور تمہارے فیصلے کا وقت آجائے گا اس وقت ماننا تمہارے لیے کچھ بھی مفید نہ ہوگا۔ ماننا ہے تو اب مان لو، اور آخری فیصلے ہی کا انتظار کرنا ہے تو بیٹھے انتظار کرتے رہو۔

سورۃ الاحزاب (ابتدائی ۳ رُکوع،   ۳۰ آیات):

  • سورۃ الاحزاب ایک مدنی سورۃ ہے۔ اس کے مضامین تین اہم واقعات سے بحث کرتے ہیں۔  اوّل غزوۃٔ خندق ،  دوئم غزوۃٔ بنی قُریظہ جو دونوں ہی ۵ھ میں پیش آئے اور تیسرے نبیؐ کا حضرت زینب ؓ سےنکاح سے جو آپ کے منہ بولے بیٹے زید بن ثابتؓ کی زوجہ رہ چکی تھیں۔
  • نبیﷺ کی ہمت افزائی: غزوۂ بدر میں فتح نے جو دھاک عرب کے مختلف قبائل پر بیٹھادی تھی ، اُحد کی شکست نے خاک میں ملادی۔   ہر چھوٹا موٹا قبیلہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے لگا اور نقصان پہنچانے کے مواقع تلاش کرتا رہا اور مسلمانوں کو شدید جانی او ر مالی نقصان پہنچایا بھی گیا۔  جس پر ابتدائی ۳ آیات میں نبیؐ کو مخاطب کرکے حوصلہ دیا گیا ہے اور ہمت بندھائی گئی۔
  • منہ بولا بیٹا/بیٹی سگے نہیں ہوسکتے (۵):  حضرت زید بن ثابتؓ حضورؐ کے منہ بولے بیٹے تھے اور انھیں زید بن محمدؐ کہا جاتا تھا۔  جسکی تصیح اللہ تعالیٰ نے کردی کہ منہ بولا بیٹا سگا نہیں ہوسکتا یعنی اسکے حقوق اور احکامات سگوں کی طرح ہرگز نہیں ہوسکتے۔  ہاں البتہ کسی کو اخلاقاً بیٹا، بیٹی، بہن، خالہ کہہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
  • نبیؐ کی بیویاں اُمت کی مائیں (۶): نبیؐ کی بیویاں اُمت کے تمام مردوں کی مائیں ہیں۔  یعنی نبیؐ کے وصال کے بعد یا طلاق دے دینے کے بعد کوئی اور اُن سے نکاح نہیں کرسکتا۔  البتہ باقی احکامات اُمت کی دوسری عورتوں ہی کی طرح لاگو ہونگے۔  مثلاً وہ کسی کی وراثت میں حصہ دار نہیں ہونگی،  سب غیر محرم مردوں سے پردہ کریں گی وغیرہ وغیرہ۔
  • منافقین بے نقاب ہوگئے (۱۲ ۔ ۲۰): اس جنگ میں منافقین بالکل ننگے ہوگئے تھے اور مخلص اہلِ ایمان خالص کندن بن کر نمودار ہوئے۔  اللہ تعالیٰ نے دونوں کا کردار واضح الفاظ میں بیان کردیا ہے۔  اس موقع پر منافقین کہہ رہے تھے کہ “اللہ اور اُس کے رسولؐ نے وعدے کیے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے”۔   
  • اُسوۂ رسولؐ بہترین نمونہ (۲۱):           آیت نمبر ۲۱ وہ معروف آیت ہے جس میں مومنین کو بتادیا گیا کہ “درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول ﷺ میں ایک بہترین نمونہ تھا”۔   رسول پاک ؐ کے طرز عمل کو اس جگہ نمونہ کے طور پر پیش کرنے سے مقصود ان لوگوں کو سبق دینا تھا جنہوں نے جنگ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی سے کام لیا تھا۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسولؐ کے پیروکار  ہو اُس کا اس موقع پر کیا رویہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو، پھر تو اس کی پیروؤں کی طرف سے ان کمزوریوں کا اظہار معقول ہوسکتا ہے۔ مگر یہاں تو رسولؐ اللہ کا حال یہ تھا کہ ہر مشقت جس کا آپؐ  نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپ  خود سب کے ساتھ شریک تھے۔  یہ تو موقع و محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے۔ مگر اللہ نے مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملہ میں آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں۔
  • مومنین (۲۲۔۲۷):         اس موقع پر مومنین کی جو کیفیت تھی اُس کا قرآن میں یوں نقشہ کھینچا گیا کہ “اور سچے مومنوں ( کا حال اُس وقت یہ تھا کہ ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اُٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہم سے وعدہ کیا تھا ، اللہ اور اس کے رسول کی بات بالکل سچی تھی۔ اِس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا (۲۲)۔ ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے ۔ انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیل نہیں کی (۲۳)
  • شدید مشکلات میں بشارت: پوری اقوامِ عرب کا محاصرہ مسلمانوں کے گرد بہت سخت تھا جو ایک ماہ جاری رہا،  اندر سے بنو قریظہ نے غداری کردی تھی،  موسم نہایت سخت سرد تھا۔  اس کیفیت میں اللہ کے رسولؐ اور اُنکے مخلص صحابہؓ ڈٹے رہے۔  اس دوران آپؐ نے فرمایا!  اب کے بعد  قریش تم پر کبھی چڑھائی نہ کرسکیں گے، اب تم اُن پر چڑھائی کروگے”۔  آنحضورؐ کی یہ بشارت بالکل سچی تھی، اس کے بعد قریش کو کبھی مدینے کی طرف رُخ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔  یہاں تک کہ مکہ فتح ہوگیا۔
  • غزوۃٔ خندق کے اہم واقعات:
    • حضرت حذیفہؓ کا حضورؐ کے حکم سے ایک رات خندق عبور کرکے قریش کی مجلسِ شوریٰ میں پہنچ جانا اور انکی خبریں لانا۔
    • حضورؐ کی پھوپھی صفیہؓ کا یہودی جاسوس کو قلعہ سے نکل کر قتل کرکے، اس کا سر کاٹ کر باہر پھینک دینا۔ جس سے کفار میں دہشت پھیلی۔
    • بنو غطفان کے نعیمؓ بن مسعود کا عظیم کردار جب کہ وہ مسلمان ہوگئے تھے اور نبیؐ سے حکم سے قریشِ مکہ او ربنو قریظہ میں غلط فہمیاں پیدا کیں، جس سے جنگ کا پانسہ پلٹنے میں مدد ملی۔
    • حضرت سعدؓ بن معاذ جنھیں آنحضورؐ نے انصار کے صدیق کا خطاب دیا۔ جنگ میں زخمی ہوئے اور بعد میں شہید ہوگئے۔
  • آیت ۲۶ اور ۲۷ میں بنو قریظہ سے لڑی جانے والی جنگ کی طرف اشارہ ہے۔ یہ یہودیوں کا آخری قبیلہ تھا جو مدینہ میں بچا تھا۔  عرب لشکر کے بھاگ جانے کے بعد نبیؐ اپنا اسلحہ اُتارا ہی چاہتے تھے کہ جبرئیل امینؑ تشریف لائے اور اللہ کا پیغام پہنچایا کہ فرشتوں نے ہتھیار نہیں اُتارے، آپ بھی ابھی اسلحہ نہ کھولیں بلکہ مدینہ کو بنو قریظہ سے پاک کردیں۔  چنانچہ ان کا محاصرہ کیا گیا، چند دنوں میں انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور سعد بن معاذؓ کے تورات کی روشنی میں کیے گئے فیصلے کے مطابق اُنکے لڑنے والے تمام مرد قتل کردیے  جبکہ عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا گیا اور انکی املاک مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردی گئیں۔

الحمد للہ آج کی تراویح کا خلاصہ مکمل ہوا۔  ان شاء اللہ اُنیس ویں  تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  اللہ حافظ