خلاصہ تراویح 20 رمضان

بیسویں   تراویح

آج کی تراویح میں تیئسواں  سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ  یٰسٓ کے  باقی ماندہ حصے کی  ، سورۃ الصّٰٓفّٰٓت مکمل،  سورہ صٓ  مکمل اور سورۃ   الزمر کی ابتدائی  ۳۱     آیات کی تلاوت کی جائے گی۔

شہیدحق      (۲۲۔۳۲):

  • گزشتہ تراویح میں ہم پڑھ رہے تھے کہ ایک بستی پر اللہ نے پے درپے تین انبیاء بھیجے اور انکی قوم انھیں جھٹلاتی رہی۔ آخر میں ایک حق شناس شخص آیا اور بازار میں کھڑے ہو کر قوم سے کہا کہ ” اے میری قوم کے لوگو ! رسولوں کی پیروی اختیار کرلو۔  پیروی کرو اُن لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں۔”   لیکن اُس قوم نے اُس شخص کو قتل کردیا ۔  قتل سے پہلے جو بات چیت اس مردِ حق کی اپنی قوم کے لوگوں سے ہوئی تھی اُس میں اُس نےقوم سے اپنے اوپر رکھ کر  کہا تھا کہ  “میں اُس ہستی کی عبادت کیوں نہ کروں  جس نے مجھے پیدا کیا ہے، اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے”۔   اپنے قتل کے بعد بھی اُس شخص نے قوم کی خیر خواہی سے منہ نہ موڑا  جس کو آیت (۲۶۔۲۷) میں ان الفاظ میں نقل کیا گیا کہ “اور اُس شخص سے کہہ دیا گیاکہ داخل ہو جاجنت میں۔ اس نے کہا ’’ کاش میری قوم کو یہ معلوم ہوتاکہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا۔”      اُس قوم کے اس اقدام کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ  غضب ناک ہوا اور محض ایک چنگھاڑ سے پوری قوم کو تہس نہس کردیا جیسے کبھی وہ اس کرہ ارض پر تھی ہی نہیں۔

توحید و آخرت      (۳۲۔۴۰):

  • آیت ۳۲ سے توحید و آخرت کا مضمون شروع ہوجاتا ہے۔ پہلے تمام انسانوں کو حشر میں جمع کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے پھر بے جان زمین کی مثال سے بات سمجھائی جاتی ہے کہ کیسے مُردہ زمین کو زندہ کرکے اور اُس میں سے ہر طرح کے پھل ، سبزیاں، غلے اُگائے جاتے ہیں۔    کیسے اُس رب نے سب نباتات و  جمادات اور خود تمھارے جوڑے بنائے،  رات اور دن بنائے،  سورج اور چاند کے درمیان مسافت پیدا کی۔

کشتی کی ایجاد      (۴۱۔۴۴):

  • آیت ۴۱ میں ذکر کیا گیا کہ کفار کےلیے یہ بھی ایک زندہ و جاوید نشانی ہے جسے وہ نہیں سمجھتے کہ کہ کشتیٔ نوح ؑ میں اُن افراد کو سوار کیا گیا جن سے نسلِ انسانی کی بقاء ممکن ہوسکی۔  پھر اس جیسی کشتیاں بنانے کا فن انسانوں کو سیکھادیا تاکہ ایک شہر سے دوسرے شہر،  اور ایک ملک سے دوسرے ملک سمندری راستوں سے سفر کرسکیں۔  پھر یہ بھی باور کرادیا کہ ان کشتیوں کو جب چاہیں ہم ان پانیوں میں غرق بھی کرسکتے۔  ان آیات سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح ؑ کی کشتی دنیا میں بنائی جانے والی پہلی کشتی تھی۔  اسکے بعد انسانوں کو علم ہوا کہ اس طرح بھی پانیوں میں سفر کیا جاسکتا ہے۔

اخلاقی گراوٹ (۴۷):

  • اہلِ باطل سے جب کہا جائے کہ غریب اور محروم لوگوں پر اپنے رزق میں سے کچھ خرچ کرو تو جواب میں کہتے ہیں کہ ہم اُن کو کیوں کھلائیں، اللہ چاہتا تو اُن کو خود ہی کھلا دیتا۔  اُس نے نہیں کھلایا تو گویا اللہ کی مرضی ہے کہ یہ بھوکے ہی رہیں۔    کفر نے صرف ان کی عقل ہی اندھی نہیں کی ہے بلکہ ان کی اخلاقی حِس کو بھی مُردہ کردیا ہے۔ وہ نہ خدا کے بارے میں صحیح تفکر سے کام لیتے ہیں، نہ خلق کے ساتھ صحیح طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ ان کے پاس ہر نصیحت کا الٹا جواب ہے۔ ہر گمراہی اور بد اخلاقی کے لیے ایک اوندھا فلسفہ ہے۔ ہر بھلائی سے فرار کے لیے ایک گھڑا گھڑایا بہانا موجود ہے۔

 

قیامت کا نقشہ:

  • انجام سے غافل لوگ جو کل بھی تھے اور آج بھی ہیں، کہیں براہِ راست رب کا انکار کرکے اور کہیں مسلم نام کا لبادہ اوڑھ کے۔  طنزیہ سوال کرتے ہیں کہ جس قیامت کی دھمکی دی جاتی ہے، آخر وہ کب آئے گی؟   ان آیات میں جواب دیا جارہا ہے کہ وہ جب بھی آئے گی اچانک سے ایک دھماکہ ہوگا جب تم اپنی دنیاوی مشغولیات میں الجھے ہوئے ہوگے۔  پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور سب اگلے پچھلے اپنی اپنی قبروں سے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔  پھر کہیں گے کہ کس نے ہمیں سوتے سے جگا دیا اور انھیں یاد آئے گاکہ رسول سچ کہتے تھے۔  پھر ربّ کے حضور پیشی ہوگی اور سب کیا چٹھا سامنے آجائے گا، ذرے ذرے کا بدلہ دیا جائے گا ۔   اُس روز جنتی لوگ مسحور ہونگے کیونکہ ربِّ کریم کی جانب سے انھیں سلام کہا جائے گا۔  اور کافروں کو جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا اس سوال کے ساتھ کیا تم کو میری ہدایت نہیں پہنچی تھی؟  اُن کے بولنے سے پہلے انکی زبان پر تالے ڈال دیے جائیں گے اور انکے جسم کے اعضاء کو قوتِ گویائی دے  دی جائے گی اور وہ سب اُن کے خلاف گواہی دیں گے۔

سورۃ الصّآفّات:

  • مضامین اور طرز کلام سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سورت غالباً مکی دور کے وسط میں، بلکہ شاید اس دور متوسط کے بھی آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہے۔ انداز بیان صاف بتارہا ہے کہ پس منظر میں مخالفت پوری شدت کے ساتھ برپا ہے ۔
  • اس وقت نبی ؐکی دعوت توحید و آخرت کا جواب جس تمسخر اور استہزاء کے ساتھ دیا جا رہا تھا، اور آپ کے دعوائے رسالت کو تسلیم کرنے سے جس شدت کے ساتھ انکار کیا جا رہا تھا، اس پر کفار مکہ کو نہایت پر زور طریقہ سے تنبیہ کی گئی ہے اور آخر میں انہیں صاف صاف خبردار کردیا گیا ہے کہ عنقریب یہی پیغمبر، جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو، تمہارے دیکھتے دیکھتے تم پر غالب آجائے گا اور تم اللہ کے لشکر کو خود اپنے گھر کے صحن میں اترا ہوا پاؤ گے (آیت نمبر 171 تا 179) ۔ یہ نوٹِس اس زمانے میں دیا گیا تھا جب نبیؐ کی کامیابی کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے تھے۔
  • کلام کی ابتداء توحید باری تعالیٰ کی حقانیت کے اظہار سے کی گئی۔
  • کفارنبیؐ سے سوال کرتے کہ بھلا ایسا کیسے ہوگا کہ ہم مر کھپ جائیں ، مٹی بن جائیں پھر اُٹھائے جائیں اور کیا ہمارے آباؤ اجداد بھی اُٹھائے جائیں گے؟    ان باتوں کا  جواب دیا جارہا ہے کہ ہاں بس ایک جھڑکی ہوگی اور سب کچھ ختم ہوجائے گا۔   اُس وقت تم اپنے آج کے کیے پر پچھتا رہے ہوگے۔  کیونکہ اسی فیصلے کے دن کو تم نے جھٹلایا تھا۔  پھر سب سے پوچھا جائے گا اب کیوں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔  اور انکی کیفیت یہ ہوگی کہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرکے جھگڑ رہے ہوں گے۔ 
  • جہنمیوں کا کھانا زقّوم ہوگا۔ زَقّوم ایک  درخت ہے ۔ مزہ اس کا نہایت کڑوا ہوتا ہے، بُو ناگوار ہوتی ہے، اور توڑنے پر اس میں سے دودھ جیسا  رس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورَم ہوجاتا ہے۔   یہ درخت جہنم کی تہہ سے نکلے گا  اور انکے پینے کےلیے کھولتا ہوا پانی ہوگا۔
  • اُس روز اللہ کے چنیدہ لوگ اس تمام کیفیت سے مامون ہونگے۔ انکو وافر مقدار میں من پسند رزق عطا کیا جائے گا جو ضرورت نہیں بلکہ ذائقہ کےلیے ہوگا۔  جنتوں میں وہ عزت کے ساتھ رکھے جائیں گے۔  انکی محفلیں لگیں گی اور ایک دوسرے کے حال احوال پوچھیں گے۔ 

نوح  علیہ السلام :    ( ۷۵ ۔۸۲):

  • حضرت نوحؑ کی قوم نے انکی بات کو مان کر نہیں دیا اور آخر کار انھوں نے اپنی مدد کے لیے  اپنے ربّ کو پکارا۔  اور اللہ نے انکی مدد کی اور انکار کرنے والوں پر زمین اور آسمان سے پانی برسا کر طوفان برپا کردیا اور ایسا تباہ و برباد کیا  کہ آج ان کا نام و نشان تک باقی نہ چھوڑا۔

ابراہیم علیہ السلام :    ( ۸۳ ۔۱۱۳):

  • آیت ۸۳ سے ۱۱۳ تک ابراہیم ؑ کا تذکرہ تفصیل سے ملتا ہے۔ جس میں بتایا گیا کہ ابراہیمؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو بتوں کی پوجا کرتے دیکھا تو اس سے منع کیا اور بتایا کہ تمھارے ارباب یہ نہیں بلکہ تمھارا ربّ تو وہ ہے جس نے زمین و آسمان پیدا کیے۔   اور انھیں خبردار کردیا کہ تمھاری غیر موجودگی میں ضرور تمھارے بتوں کی خبر لوں گا۔  چنانچہ جس دن وہ لوگ کسی تہوار کے منانے میں شہر سے باہر نکلے ہوئے تھے تو ابراہیمء انکے عبادت خانہ میں جاگھسے اور بتوں کو مختلف سمتوں سے توڑ پھوڑ دیا اور کلہاڑا سب سے بڑے بت کے کاندھے پر رکھ کر وہا ں سے چلے گئے۔  جب یہ لوگ واپس آئے اور اپنے معبودوں کی یہ حالات دیکھی تو سمجھ گئےکہ ضرور ابراہیمؑ نے کی ہوگی۔
  • چنانچہ ابراہیمؑ کو پکڑ کر لایا گیا اور پوچھا گیا کہ تم نے یہ حرکت کی ہے تو اُنھوں نے جواب دیا کہ اِن کے سرادار نے یہ کام کیا ہے جس کے کاندھے پر کلہاڑی بھی ہے۔ یہ سن کر وہ سب شرمندہ تو ہوئے لیکن ہٹ دھرمی زندہ باد۔  بولے تو جانتا ہے یہ بول نہیں سکتے۔  اس پر ابراہیمؑ نے کہا کہ “ پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ تُف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو ۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے ‘‘۔
  • انھوں نے  پھر ابراہیم ؑ کو سزا دینے کے لیے ایک بہت بڑا الاؤ روشن کیا گیا  اور   انھیں جلانے کی غرض سے اس میں پھینک دیا گیا۔    آگ کو جلانے کی قوت دینے والا اللہ ہے لہٰذا اُس نے فوراً حکم دیا ’’ اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم ؑ پر”۔
  • اب ابراہیمؑ نے اپنے گھر کو خیر باد کہا، بیوی سارہؑ اور اپنے بھتیجے لوطؑ کے ساتھ اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ عراق چھوڑا اور فلسطین کو اپنا مسکن بنا لیا۔   وہاں انھوں نے اللہ سے ایک صالح بیٹے کی دُعا کی  جبکہ آپکی عمر ۸۶ سے ۹۰ سال تھی اور آپکی اہلیہ حضرت حاجرہؑ بانجھ تھیں۔ جس کے جواب میں اُنھیں اسماعیل ؑ کی خوشخبری دی گئی۔
  • جب حضرت اسماعیلؑ لڑکپن کی عمر کو پہنچ گئے تو ایک دن حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ بیٹے کو ذبح کررہے ہیں۔
  • آپ ؑ نے اپنا خواب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو سنایا اور کہ بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں اب تم بتاؤ تمھارا کیاخیال ہے؟   چونکہ حضرت اسماعیلؑ ایک تو حضرت ابراہیم ؑ جیسے باپ کے بیٹے تھے اور سونے پہ سوہاگہ یہ کہ مستقبل کے نبی تھے۔ آپؑ نے فوراً جواب دیا کہ اے بابا آپ کو اللہ نے جو خواب دکھایا ہے اس کو سچ کر گزریے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔
  • آخر کو جب دونوں باپ بیٹے نے اپنا سرِ تسلیم خم کردیا تو حضرت نے  سیدہ حاجرہؑ سے کہا کہ اسماعیل کو تیار کردیں، ہم اپنے دوست سے ملنے جارہے ہیں۔  ماں نے اپنے بیٹے کو نہلا دُھلا کر نئے کپڑے پہنائے۔  اُس کا ماتھا چوما اور روانہ کردیا۔
  • ابراہیمؑ حضرت اسماعیلؑ کو مقتل گاہ یعنی منیٰ کی طرف لے چلے راستے میں شیطان آدھمکا اور حضرت اسماعیل ؑ کو بہکایا انھوں نے اپنے والد کو بتایا تو انھوں نے کنکری لے کر اللہ اکبر پڑھ کر اس کو ماری تو وہ زمین میں دھنـس گیا اور آگے بڑھے تو پھر یہی واقعہ ہوا پھر حضرت ابراہیمؑ نے اللہ اکبر پڑھا اور کنکری ماری اور وہ زمین میں دھنـس گیا، اور آگے بڑے پھر شیطان مردود آدھمکا اور ایک بار پھر حضرت ابراہیمؑ نے اللہ اکبر پڑھا اور کنکری ماری اور وہ زمین میں دھنس گیا پھر آپ اس جگہ پہنچے جہاں منیٰ میں جمرہ کے پاس قربان گاہ بنائی گئی ہے تاکہ اپنے بڑھاپے کے سہارے، منتوں اور ارمانوں کے مانگے، پاکیزہ، ہونہار اور بہادر بیٹا جو کہ پوری دنیا میں آپ کو سب سے پیارا تھا کو اس کی راہ میں ذبح کریں جو اس لخت جگر سے بھی زیادہ عزیز تھا ، یہ لخت جگر اس ہی کا عطا کیا ہوا تو تھا اگر اس نے اپنی امانت واپس لینے کا عندیہ دیا ہے تو پھر ھیل و ہجّت کیسی۔
  • آپ نے اپنے لخت جگر کو ماتھے کے بل لٹادیا تاکہ اتنے ارمانوں سے مانگے ہوئے بیٹے کے گلے پر چھری چلاتے وقت بوڑھے باپ کے ھاتھوں میں لرزہ نہ آجائے۔ روایات  میں ملتا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ نے ہی حضرت ابراہیمؑ سے کہا تھا کہ بابا مجھے آپ اُلٹا لِٹا دیجئے گاکہیں آپکی محبت کو جوش نہ آجائے، بابا میرے ہاتھ اور پیرباندھ دیجئے گا کہیں ایسا نہ ہوکہ میں تکلیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوں، بابا اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجئے گا ایسا نہ ہو آپکی پدرانہ محبت کو جوش آجائے۔
  • یہ وہ گھڑی تھی جب زمین و آسمان میں بسنے والی ھر مخلوق دنگ تھی کہ یہ آج کیا ہونے جارہا ہے، انھوں نے افسانے تو بہت سے سنے ہونگے لیکن حقیقی مشاہدہ کرنیکا اتفاق پہلی بار تھا، اس روز یقیناً اللہ تعالیٰ فخر سے ملائکہ سے کہہ رہا ہوگا کہ دیکھتے ہو تم انسان کو جسکے بارے میں مجھ سےپوچھتے کہ کیوں بناتا ہے اس کو کیا ہم تیری عبادت کے لئے کافی نہیں۔ یہ وہ وقت تھا زمین و آسمان میں بسنے والی ھر مخلوق کا دل دِھِل کر رہ گیا تھا اور شائد ہی کوئی آنکھ ایسی ہو جو اشک بار نہ ہو۔
  • پھر یکایک رحمت باری جوش میں آئی اور حضرت ابراہیم ؑ کو ندیٰ دی کہ اے ابراہیمؑ تو نے اپنا خواب سچ کردکھایا۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کی جگہ ایک مینڈھا یا دنبہ بھیج دیا اور حضرت ابرہیم ؑ کو اس درجہ پرفائز کیا جہاں تا قیامت کوئی اور نہیں پہنچ سکتا ۔ اللہ کو اپنے نبیؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس نے قیامت تک کے لئے اس کی قربانی کو زندہ و جاوید کردیا۔ اور انھیں انعام کے طور پر اسحاق   ؑ کی بشارت دی۔
  • اب جب تک یہ دنیا قائم ہے، یہ صبح و شام ہونے کا عمل قائم ہے، سردی اور گرمی کا موسم باقی ہے، جب تک یہ ستارے آسمان پر چمک رہے ہیں ، یہ درخت و سبزہ لہرا رہا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کروڑوں مسلمان ذی الحجّہ کی ۱۰ تاریخ سے ۱۲ تاریخ تک اپنے باپ ابراہیمؑ کی اس سنت کا اعادہ کرتے رہیں گے۔ چاہے یہ دنیا انھیں بنیاد پرست کہے، چاہے یہ دنیا انھیں دہشت گرد کہے، چاہے یہ دنیا انھیں کسی اور نام سے پکارے لیکن شمع رسالت کے یہ پروانے اپنی شمع کے گرد منڈلاتے رہیں گے ۔

تذکرۂ انبیاءؑ :

موسیٰ اور ہارون علیہ السلام  (۱۱۴۔۱۲۲):

  • آیت نمبر ۱۱۴ سے موسیٰ ؑ اور ہارونؑ کا قصہ شروع ہوتا ہے جو ۱۲۲ تک  چلتا ہے۔     اس کی تفصیل گزشتہ دروس میں بیان کی جاچکی ہے۔

الیاس علیہ السلام  (۱۲۳۔۱۳۲):

  • آیت نمبر ۱۲۳ سے الیاسؑ کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ ان کے مختصر احوال کچھ اس طرح ہیں کہ یہ شمالی اُردن کے قدیم مقام جِلْعاد کے رہنے والے تھے۔
  • حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رجُبْعام (Rehoboam) کی نااہلی کے باعث بنی اسرائیل کی سلطنت کے دو ٹکڑے ہوگئے تھے۔ ایک حصہ جو بیت المقدس اور جنوبی فلسطین پر مشتمل تھا، آل داؤدؑ کے قبضے میں رہا، اور دوسرا حصہ جو شمالی فلسطین پر مشتمل تھا اس میں ایک مستقل ریاست اسرائیل کے نام سے قائم ہوگئی اور بعد میں سامریہ اس کا صدر مقام قرار پایا۔ اگرچہ حالات دونوں ہی ریاستوں کے دگرگوں تھے، لیکن اسرائیل کی ریاست شروع ہی سے سخت بگاڑ کی راہ پر چل پڑی تھی جس کی بدولت اس میں شرک و بت پرستی، ظلم و ستم اور فسق و فجور کا زور بڑھتا چلا گیا۔ اس ریاست کا سربراہ اخی اب (Ahab) تھا جس نے ایک لبنانی مشرکہ سے شادی کرلی تھی۔
  • اسی دور میں حضرت الیاس (علیہ السلام) یکایک منظر عام پر نمودار ہوئے اور انہوں نے جِلْعاد سے آ کر اخی اب (Ahab) کو نوٹس دیا کہ تیرے گناہوں کی پاداش میں اب اسرائیل کے ملک پر بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسے گا، حتیٰ کہ اوس تک نہ پڑے گی۔ خدا کے نبی کا یہ قول حرف بحرف صحیح ثابت ہوا اور ساڑھے تین سال تک بارش بالکل بند رہی۔ آخر کار اخی اب (Ahab) کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے اور اس نے حضرت الیاسؑ کو تلاش کرا کے بلوایا۔ انہوں نے بارش کے لیے دعا کرنے سے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ اسرائیل کے باشندوں کو اللہ رب العالمین اور بَعْل (بُت کا نام) کا فرق اچھی طرح بتادیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے حکم دیا کہ ایک مجمع عام میں بعل کے پُجاری بھی آ کر اپنے معبود کے نام پر قربانی کریں اور میں بھی اللہ ربّ العالمین کے نام پر قربانی کروں گا۔ دونوں میں سے جس کی قربانی بھی انسان کے ہاتھوں سے آگ لگائے بغیر غیبی آگ سے بھسم ہوجائے اس کے معبود کی سچائی ثابت ہوجائے گی۔ اخی اب نے یہ بات قبول کرلی۔ چنانچہ کوہ کرمل (Carmel) پر بعل کے ساڑھے آٹھ سو پجاری جمع ہوئے اور اسرائیلیوں کے مجمع عام میں ان کا اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کا مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں بعل پرستوں نے شکست کھائی اور حضرت الیاس نے سب کے سامنے یہ ثابت کردیا کہ بعل ایک جھوٹا معبود ہے، اصل معبود وہی ایک اکیلا معبود ہے جس کے نبیؑ کی حیثیت سے وہ مامور ہو کر آئے ہیں۔
  • اس کے بعد حضرت الیاس نے اسی مجمع عام میں بعل کے پجاریوں کو قتل کرا دیا اور پھر بارش کے لیے دعا کی جو فوراً قبول ہوئی یہاں تک کہ پورا ملک اسرائیل سیراب ہوگیا۔
  • لیکن معجزات کو دیکھ کر بھی زن مرید اخی اب اپنی بت پرست بیوی کے شکنجے سے نہ نکلا۔ اس کی بیوی ایزبل حضرت الیاس کی دشمن ہوگئی اور اس نے قسم کھالی کہ جس طرح بعل کے پجاری قتل کیے گئے ہیں اسی طرح الیاس (علیہ السلام) بھی قتل کیے جائیں گے۔ ان حالات میں حضرت الیاس کو ملک چھوڑنا پڑا اور چند سال تک وہ کوہ سینا کے دامن میں پناہ گزیں رہے۔ بعد ازاں طبعی موت سے ان کا انتقال ہوا۔

لوط  علیہ السلام  (۱۳۳۔۱۳۸):

  • آیت نمبر ۱۳۳ سے موسیٰ ؑ اور ہارونؑ کا قصہ شروع ہوتا ہے جو ۱۳۸ تک  چلتا ہے۔     اس کی تفصیل گزشتہ دروس میں بیان کی جاچکی ہے۔

یونسؑ  علیہ السلام  (۱۳۹۔۱۴۸):

  • یونسؑ موصل کے علاقے میں نینویٰ کے لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے۔ یہ کافر و مشرک لوگ تھے۔ حضرت یونسؑ نے ان کو اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے اور بتوں کی پرستش چھوڑ دینے کی دعوت دی۔ انہوں نے انکار کیا اور جھٹلایا۔ حضرت یونسؑ نے ان کو خبر دی کہ تیسرے دن ان پر عذاب آجائے گا اور تیسرا دن آنے سے پہلے آدھی رات کو وہ بستی سے نکل گئے۔ پھر دن کے وقت جب عذاب اس قوم کے سروں پر پہنچ گیا ـــــــــ اور انہیں یقین ہوگیا کہ سب ہلاک ہوجائیں گے تو انہوں نے اپنے نبی کو تلاش کیا، مگر نہ پایا۔ آخر کار وہ سب اپنے بال بچوں اور جانوروں کو لے کر صحرا میں نکل آئے اور ایمان و توبہ کا اظہار کیا ــــــــ پس اللہ نے ان پر رحم کیا اور ان کی دعا قبول کرلی۔
  • بستی سے نکل کر حضرت یونسؑ جس کشتی میں سوار ہوئے تھے وہ اپنی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی (Overloaded) تھی۔
  • غالباً جب بحری سفر کے دوران میں یہ محسوس ہوا کہ بوجھ کی زیادتی کے سبب سے تمام مسافروں کی جان خطرے میں پڑگئی ہے۔ لہٰذا قرعہ اس غرض کے لیے ڈالا گیا کہ جس کا نام قرعہ میں نکلے اسے پانی میں پھینک دیا جائے۔
  • قرعہ میں حضرت یونسؑ ہی کا نام نکلا، وہ سمندر میں پھینک دیے گئے اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا۔
  • اس ابتلا میں حضرت یونسؑ اس لیے مبتلا ہوئے کہ وہ اپنے آقا (یعنی اللہ تعالیٰ ) کی اجازت کے بغیر اپنے مقام ماموریت سے فرار ہوگئے تھے۔
  • جب وہ مچھلی کے پیٹ میں پہنچے تو انہوں نے اللہ ہی کی طرف رجوع کیا اور اس کی تسبیح کی۔ سورة انبیا میں ارشاد ہوا ہے فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔
  • جب حضرت یونس (علیہ السلام) نے اپنے قصور کا اعتراف کرلیا اور وہ ایک بندہ مومن کی طرح اس کی تسبیح میں لگ گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے ان کو ساحل پر اُگل دیا۔ ساحل ایک چٹیل میدان تھا جس میں کوئی روئیدگی نہ تھی، نہ کوئی ایسی چیز تھی جو حضرت یونس (علیہ السلام) پر سایہ کرتی، نہ وہاں غذا کا کوئی سامان موجود تھا۔
  • وہاں کوئی ایسی بیل معجزانہ طریقہ پر پیدا کردی گئی تھی جس کے پتے حضرت یونس پر سایہ بھی کریں اور جس کے پھل ان کے لیے بیک وقت غذا کا کام بھی دیں اور پانی کا کام بھی۔
  • اللہ فرماتا ہے کہ” اس کے بعد ہم نے اسے ایک لاکھ، یا اس سے زائد لوگوں کی طرف بھیجا” (مُراد یہ کہ اُس ہی بستی میں جہاں لاکھوں لوگوں کی آبادی تھی۔  وہ لوگ ایمان لائے اور پھر اللہ نے ایک خاص وقت تک انھیں باقی رکھا۔

سورۃ کا اختتام:

  • سورۃ کے آخر میں فرمایا گیا کہ ہم جو اپنے بھیجے ہوئے رسولوں اور مخلص بندوں سے وعدہ کرچکے ہیں کہ یقیناً اُن کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے۔ پس اے نبیؐ اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑ دو۔  ہمارا عذاب اُن (نافرمانوں ) کے صحن میں اُترے گا۔

سورۃ صٓ:

  • یہ سورة اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب نبی ﷺ نے مکہ معظمہ میں علانیہ دعوت کا آغاز کیا تھا اور قریش کے سرداروں میں اس پر کھلبلی مچ گئی تھی۔ اس لحاظ سے اس کا زمانہ نزول تقریباً نبوت کا چوتھا سال قرار پاتا ہے۔

تاریخی پس منظر :

  • جب ابو طالب بیمار ہوئے اور قریش کے سرداروں نے محسوس کیا کہ اب یہ ان کا آخری وقت ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ چل کر شیخ سے بات کرنی چاہیے۔ وہ ہمارا اور اپنے بھتیجے کا جھگڑا چکا جائیں تو اچھا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا انتقال ہوجائے اور ان کے بعد ہم محمدؐکے ساتھ کوئی سخت معاملہ کریں اور عرب کے لوگ ہمیں طعنہ دیں کہ جب تک شیخ زندہ تھا، یہ لوگ اس کا لحاظ کرتے رہے، اب اس کے مرنے کے بعد ان لوگوں نے اس کے بھتیجے پر ہاتھ ڈالا ہے۔
  • تقریباً 25 سرداران قریش، ابو طالب کے پاس پہنچے۔ ان لوگوں نے پہلے تو حسب معمول نبیؐ کے خلاف اپنی شکایات بیان کیں، پھر کہا ہم آپ کے سامنے ایک انصاف کی بات پیش کرنے آئے ہیں۔ آپ کا بھتیجا ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دے اور ہم اسے اس کے دین پر چھوڑے دیتے ہیں۔ وہ جس معبود کی عبادت کرنا چاہے کرے، ہمیں اس سے کوئی تعرض نہیں، مگر وہ ہمارے معبودوں کی مذمت نہ کرے اور یہ کوشش نہ کرتا پھرے کہ ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ اس شرط پر آپ ہم سے اس کی صلح کرا دیں۔
  • ابو طالب نے نبیؐ کو بلایا اور آپ سے کہا کہ بھتیجے، یہ تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ تم ایک منصفانہ بات پر ان سے اتفاق کرلو تاکہ تمہارا اور ان کا جھگڑا ختم ہوجائے۔ پھر انہوں نے وہ بات حضورؐ کو بتائی جو سرداران قریش نے ان سے کہی تھی۔ نبی نے جواب میں فرمایا، چچا جان، میں تو ان کے سامنے ایک ایسا کلمہ پیش کرتا ہوں جسے اگر یہ مان لیں تو عرب ان کا تابع فرمان اور عجم ان کا باج گزار ہوجائے  ،  زیادہ بہتر بات ہے یا وہ جسے تم انصار کی بات کہہ کر میرے سامنے پیش کر رہے ہو ؟
  • تمہاری بھلائی اس کلمے کو مان لینے میں ہے یا اس میں کہ جس حالت میں تم پڑے ہو اس میں تم کو پڑا رہنے دوں اور بس اپنی جگہ آپ ہی اپنے خدا کی عبادت کرتا رہوں ؟ ۔ یہ سن کر پہلے تو وہ لوگ سٹپٹا گئے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر کیا کہہ کر ایسے ایک مفید کلمے کو رد کردیں۔ پھر کچھ سنبھل کر بولے، تم ایک کلمہ کہتے ہو، ہم ایسے دس کلمے کہنے کو تیار ہیں، مگر یہ تو بتاؤ کہ وہ کلمہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔ اس پر وہ سب یک بارگی اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ باتیں کہتے ہوئے نکل گئے جو اس سورة کے ابتدائی حصے میں اللہ تعالیٰ نے نقل کی ہیں۔

موضوع اور مباحث :

  • اوپر جس مجلس کا ذکر کیا گیا ہے اسی پر تبصرے سے اس سورة کا آغاز ہوا ہے۔ کفار اور نبیؐ کی گفتگو کو بنیاد بنا کر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان لوگوں کے انکار کی اصل وجہ دعوت اسلامی کا کوئی نقص نہیں ہے بلکہ ان کا اپنا تکبر اور حسد اور اندھی تقلید  پر اصرار ہے۔ ان کے نزدیک توحید اور آخرت کا تخیل محض ناقابل قبول ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا تخیل ہے جس کا بس مذاق ہی اڑایا جاسکتا ہے۔
  • اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورة کے ابتدائی حصے میں بھی اور آخری فقروں میں بھی کفار کو صاف صاف متنبہ کیا ہے کہ جس شخص کا تم آج مذاق اڑا رہے ہو اور جس کی رہنمائی قبول کرنے سے تم کو آج سخت انکار ہے، عنقریب وہی غالب آ کر رہے گا اور وہ وقت دور نہیں ہے جب اسی شہر مکہ میں، جہاں تم اس کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو، اس کے آگے تم سب سرنگوں نظر آؤ گے۔
  • پھر پے در پے 9 پیغمبروں کا ذکر کر کے، جن میں حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کا قصہ زیادہ مفصل ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ بات سامعین کے ذہن نشین کرائی ہے کہ اس کا قانون عدل بالکل بےلاگ ہے، اس کے ہاں انسان کا صحیح رویہ ہی مقبول ہے۔
  • اس کے بعد فرماں بردار بندوں اور سرکش بندوں کے اس انجام کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو وہ عالم آخرت میں دیکھنے والے ہیں اور اس سلسلے میں کفار کو دو باتیں خاص طور پر بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ آج جن سرداروں اور پیشواؤں کے پیچھے جاہل لوگ اندھے بن کر ضلالت کی راہ پر چلے جا رہے ہیں، کل وہی جہنم میں اپنے پیروؤں سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں گے اور دونوں ایک دوسرے کو کوس رہے ہوں گے۔
  • آخر میں قصہ آدم و ابلیس کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس سے مقصود کفار قریش کو یہ بتانا ہے کہ محمدؐکے آگے جھکنے سے جو تکبر تمہیں مانع ہو رہا ہے وہی تکبر آدمؑ کے آگے جھکنے سے ابلیس کو بھی مانع ہوا تھا۔ خدا نے جو مرتبہ آدمؑ کو دیا تھا اس پر ابلیس نے حسد کیا اور حکم خدا کے مقابلے میں سرکشی اختیار کر کے لعنت کا مستحق ہوا۔ اسی طرح جو مرتبہ خدا نے محمدؐ کو دیا ہے اس پر تم حسد کر رہے ہو اور اس بات کے لیے تیار نہیں ہو کہ جسے خدا نے رسول مقرر کیا ہے اس کی اطاعت کرو، اس لیے جو انجام ابلیس کا ہونا ہے وہی آخر کار تمہارا بھی ہونا ہے۔

سورۃ الزمر :

  • سورۃ الزمر ایک مکی سورۃ ہے جو ہجرتِ حبشہ سے پہلے نازل ہوئی۔ زمر کے معنی گروہ در گروہ ہیں۔
  • اس سورۃ میں اہلِ حق کے لیے تسلی اور مخالفینِ حق کےلیے وعید سنائی گئی ہے۔
  • اس سورۃ کی مسلسل ایک صفت ہے کہ اس میں ہر آیت میں دونوں کرداروں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ ایک آیت میں اہلِ ایمان کی صفت جھلکتی ہے تو ساتھ ہی دوسری آیت میں اہلِ کفر کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔    گویا کہ ہر قاری کے سامنے کسوٹی رکھ دی گئی ہے۔
  • اہلِ کفر کا انجام آیت نمبر ۱۶ میں فرمایا گیا کہ ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے بھی چھائی ہوں گی اور نیچے سے بھی۔ آیت نمبر ۲۰ میں اس کے مدِّ مقابل متقیوں کا حال یوں بیان کیا  گیا کہ  “ان کے لیے بلند عمارتیں ہیں۔  منزل پر منزل بنی ہوئی ہے اور نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔
  • آیت ۲۲ میں اللہ والوں کا حال یوں بیان فرمایا کہ اللہ اُن کا سینہ اسلام کےلیے کھول دیتا ہے اور وہ اللہ کے نور کی روشنی میں چلتے ہیں جبکہ اللہ کے باغی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ نصیحت اُن پر مثبت اثر کرنے کی بجائے اُلٹا اُن کے دلوں کو مزید پتھر بنادیتی ہے۔
  • آیت نمبر ۲۷ میں فرمایا گیا کہ “ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح کی مثالوں کے ذریعے بات سمجھائی ہے تاکہ وہ ہوش میں آئیں”
  • آجکی آخری دو آیات میں اللہ نے ایک ایسی حقیقت بیان کی ہے، جس سے آنحضورﷺ کی عظمت بھی ٹپکتی ہے اور اس دنیا کی بے ثباتی اور فنا ہوجانے کا نقشہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ فرمایا گیا!  “(اے نبیﷺ ) تمہیں بھی مرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی مرنا ہے ۔ (30)   آخر کار قیامت کے روز تم سب اپنے رب کے حضور اپنا اپنا مقدمہ پیش کرو گے۔ (31)
  • گویا فیصلہ اگرچہ دُنیا میں بھی ہوسکتا ہے اور آنحضورﷺ کے دور میں وہ واضح طور پر سامنے آگیا تھا کہ حق کس کے ساتھ ہے اور جھوٹا کون؟ غلبہ کس کا مقدر ہے اور شکست و زوال کس کا نصیب؟  لیکن اس سب کے باوجود حقیقی فیصلہ روزِ قیامت ہی ہوگا۔

سورۃ کی اگلی آیات میں بھی یہ مضمون یونہی چلتا ہے۔  ان شاء اللہ اُن کا مطالعہ اسی تسلسل کے ساتھ کل جاری رہے گا۔

ان شاء اللہ اکیسویں  تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ