خلاصہ تراویح 22 رمضان

بائیسویں   تراویح

آج کی تراویح میں پچیسواں  سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ  حٰمٓ السجدہ کے باقی ۸ آیات (۴۷۔۵۴)،   سورۃ الشوریٰ، 

 سورۃ الزخرف، سورۃ الدخان اور سورۃ  الجاثیہ کی تلاوت کی جائے گی۔

قیامت کا علم      (۴۷۔۴۸):

  • ان آیات میں فرمایا گیا کہ اللہ عالم الغیب ہے اور قیامت کا علم صرف اسی کو ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ شگوفوں سے نکلنے والے پھلوں کو جانتا ہے،  حاملہ ہونے والی مادّہ کو جانتا ہے۔  اُس روز اللہ مشرکین سے اُن شریکوں کے بارے میں سوال کرے گا جن کو وہ اللہ کا شریک ٹہراتے تھے اور وہ بے بس ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھیں گے اور کہیں گےہم  آج اپنے مؤقف کا ثبوت لانے سے قاصر ہیں۔

انسانی فطرت (۴۹۔۵۲):

  • ان آیات میں انسان کی اُس فطرت کا ذکر کیا گیا کہ جب انسان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ کی طرف دیکھتا ہے، اور جب یہ ٹل جاتی ہے تو اسے  اپنی کاوش قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اسی کا مستحق تھا۔  وہ اس گمان میں بھی رہتا ہے کہ قیامت کے دن بھی اسی طرح عیاشیوں سے رہوں گا۔   لیکن یہ سب اسکی خام خیالی ہے۔  وہاں اپنے اعمال کی مناسبت سے وہ صلہ پائے گا۔
  • جو لوگ اپنے رب کی ملاقات میں شک کرتے ہیں، آخری آیت میں فرمایا گیا! آگاہ رہو کہ اللہ ہر چیز پر محیط ہے۔ تمھیں اُس کے سامنے حاضر ہونا ہوگا۔  بھاگ جانے کی کوئی جگہ نہیں۔

سورۃ الشوریٰ:

  • اس سورۃ کے مضمون سے لگتا ہےکہ یہ سورۃ حٰمٓ السجدہ کے بعد ہی نازل ہوئی ہوگی۔

مقصدِ نزولِ قرآن (۷۔۸):

  • قرآنِ حکیم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ سب سے پہلے اُم القریٰ (مکہ مکرمہ) اور اُس کے آس پاس کے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے خبردار کیا جائے۔ پھر ساری دُنیا تک اِس پیغام کو پہنچایا جائے۔   قیامت کے بارے میں کفار شک میں پڑے ہوئے ہیں تو اے نبیؐ انھیں بتا دو کہ اس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے اور پھر اُس دن فیصلہ ہوجائے گا کہ اللہ کے وفادار بندوں نے جنت میں جانا ہے اور نافرمانوں نے جہنم کا ایندھن بننا ہے۔

اقامتِ دین کا حکم (۱۳):

  • اس آیت میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ محمدؐ کسی نئے مذہب کے بانی نہیں ہیں، نہ انبیاء میں سے کوئی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی گزرا ہے، بلکہ اللہ کی طرف سے ایک ہی دین ہے جسے شروع سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آ رہے ہیں، اور اسی کو محمدؐ بھی پیش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوحؑ  کا نام لیا گیا ہے ، اس کے بعد نبی ؐ کا ذکر کیا گیا ہے جو آخری نبیؐ ہیں، پھر حضرت ابراہیم ؑ کا نام لیا گیا ہے جنہیں اہل عرب اپنا پیشوا مانتے تھے، اور آخر میں حضرت موسی    ٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑکا ذکر کیا گیا ہے جن کی طرف یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کو منسوب کرتے ہیں۔ اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ انہی پانچ انبیاء کو اس دین کی ہدایت کی گئی تھی۔ بلکہ اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں، سب ایک ہی دین لے کر آئے ہیں، اور نمونے کے طور پر ان پانچ جلیل القدر انبیاء کا نام لے دیا گیا ہے جن سے دنیا کو معروف ترین آسمانی شریعتیں ملی ہیں۔

جامع ہدایت (۱۵):

  • اس ایک آیت میں حضورؐ کو جامع ہدایت دی گئی ہیں جو کچھ اس طرح ہیں:
  1. دعوت، دین  کی طرف دی جائے گی۔
  2. اس مشکل کام میں استقامت دکھائی جائے گی۔
  3. باطل کی اندھی قوت جتنا زور لگالے ، اہلِ حق اُن کی خواہشات کی پیروی نہ کریں گے۔
  4. ہر چیز کا فیصلہ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے لیا جائے گا۔
  5. اللہ کے رسولؐ خود اور اُن کا ہر پیرو اس بات کا پابند ہے کہ وہ عدل و انصاف قائم کرے۔
  6. اللہ کو کوئی مانے یا نہ مانے سب کا ربّ وہی ہے۔
  7. ہر نیک و بد اپنے اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔
  8. ایک روز سب کو اللہ کے سامنے جواب دہی کےلیے حاضر ہونا ہے۔

دنیا کے طلبگار اور آخرت کے خریدار (۲۰):

  • اس آیت میں دو آدمیوں کے طرز زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ جن میں سے ایک تو روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور دوسرا اس سے منکر ہے اور سب کچھ اسی دنیا کو ہی سمجھتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص جو کام بھی کرے گا آخرت کے لیے کرے گا اور آخرت کے مفاد کو دنیا کے مفاد پر ترجیح دے گا۔
  • ایسا شخص جو کچھ بھی اس دنیا کی کھیتی میں آخرت کے دن پھل کاٹنے کے لیے بوئے گا اللہ تعالیٰ اس میں بہت زیادہ اضافہ کر دے گا۔ اور دنیا میں جتنا رزق یا جتنی بھلائی اس کے مقدر میں ہے وہ بھی اسے مل کے رہے گی۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص روزآخرت کا منکر ہے اور بس دنیا ہی دنیا کا مال اور بھلائی چاہتا ہے۔ وہ خواہ کتنی ہی کوشش کر دیکھے اسے اتنی ہی دنیا میں ملے گی جتنی اس کے مقدر میں ہے اس سے زیادہ نہیں۔ رہا اس کی آخرت کا معاملہ تو اگر اس نے دنیا میں کچھ نیک کام کئے بھی ہوں گے تو ان کا اسے کچھ بدلہ نہ ملے گا ۔ کیونکہ وہ کام اس نے اس نیت سے کیے ہی نہیں تھے کہ ان کا آخرت میں اسے کچھ بدلہ ملے، نہ ہی اس کا آخرت پر کچھ یقین تھا۔

رزق محدود کیوں؟ (۲۷):

  • اس آیت میں بتایا گیا کہ اگر اللہ چاہتا تو اپنے بندوں کو کھلا رزق دے دیتا ، لیکن ہوتا کیا کہ یہ انسان سرکشی کا ایک طوفان برپا کردیتے اسی لیے اللہ ایک حساب سے رزق نازل کرتا ہے۔ آج دنیا میں اس خرابی کو عام دیکھا جاسکتا ہے ۔  تمام انسان او ر ممالک معاشی آسودگی ہی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔  آج دنیا میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جو ملک معاشی طور پر زیادہ مضبوط ہے وہی دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھتا ہے۔  اسی طرح جس فرد کے پاس پیسے کی فراوانی ہوتی ہے وہ اپنے نیچے والوں کو بھول جاتا ہے ۔  الا ماشاء اللہ

اللہ کی زندہ و جاوید نشانیاں (۲۸۔۳۵):

  • ان آیات میں اللہ کی آیات کا ذکر ملتاہے کہ
  • بارش کا برسانا                 ) جس سے بندوں کی حاجات و ضروریات کا انتظام کرتا ہے)
  • زمین و آسمان کی پیدائش
  • زمین و آسمان میں پیدا کردہ مخلوق (مختلف سیاروں پر بھی جاندار مخلوق موجود ہیں۔  جس طرح رب نے انھیں تخلیق کیا اسی طرح ایک دن جمع کرلیگا)
  • بحری جہازوں کا سمندروں میں چلنا (اللہ چاہے تو غرق کردے اور سائنس منہ دیکھتی رہ جائے،    عظیم مثال TITANIC کی ہے)

اہل ایمان کی چند صفات (۳۶۔۴۰):

فرمایا گیا کہ  جو کچھ بھی تمھیں دیا گیا ہے وہ محض چند روزہ زندگی کا سرو سامان ہے،  اور جو اللہ کے یہاں ہے وہی بہتر ہے اور اُن لوگوں کے لیے پائیدار بھی جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔     اُن ایمان والوں کی صفات کچھ اس طرح ہیں:

  • اپنے ربّ پر بھروسہ کرتے ہیں۔
  • بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں۔
  • غصہ آئے تو درگزر کرتے ہیں۔
  • اپنے ربّ کا حکم مانتے ہیں۔
  • نماز قائم کرتے ہیں۔
  • آپس کے معاملات باہمی مشاورت سے چلاتے ہیں۔
  • اللہ نے جو رزق دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
  • جب اُن پر زیادتی کی جاتی ہے تو مقابلہ کرتے ہیں۔

ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت (۴۱۔۴۲):

  • ظلم کا بدلہ لینے اجازت آیت نمبر ۴۱ میں دی گئی لیکن اپنے حق سے زیادہ مطالبہ ناانصافی سے تعبیر کیا گیا۔ تاہم اللہ کے نبیؐ نے اپنی ذات کےلیے کبھی بدلہ نہیں لیا،  البتہ اللہ کی حدود قائم کرنے میں کسی سے رعایت نہیں کی۔

اولاد کی نعمت اورانسان کی بے بسی(۴۹۔۵۰):

  • زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں اور جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کردی گئی ہے، نہ کسی نبی یا ولی یا دیوی اور دیوتا کا اس میں کوئی حصہ ہے، بلکہ اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ دیگر اُمور کی طرح اولاد جیسی نعمت دینے میں بھی  آزاد ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے۔
  • یہ اللہ کی بادشاہی کے مطلق (Absolute) ہونے کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے۔ کوئی انسان، خواہ وہ بڑے سے بڑے دنیوی اقتدار کا مالک بنا پھرتا ہو، یا روحانی اقتدار کا مالک سمجھا جاتا ہو، کبھی اس پر قادر نہیں ہوسکا ہے کہ دوسروں کو دلوانا تو درکنار، خود اپنے ہاں اپنی خواہش کے مطابق اولاد پیدا کرسکے۔ جسے اللہ نے بانجھ کردیا وہ کسی دوا ، کسی علاج  اور کسی تعویذ گنڈے سے اولاد      والا     نہ بن سکا، جسے اللہ نے لڑکیاں ہی لڑکیاں دیں وہ ایک بیٹا بھی کسی تدبیر سے حاصل نہ کرسکا، اور جسے اللہ نے لڑکے ہی لڑکے دیے وہ ایک بیٹی بھی کسی طرح نہ پاسکا۔ اس معاملہ میں ہر ایک قطعی بےبس رہا ہے۔یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کوئی اللہ کی بادشاہی  میں مختارِ کُل ہونے کا زعم کرے، یا کسی دوسری ہستی کو اختیارات میں دخیل سمجھے تو یہ اس کی اپنی ہی بےبصیرتی ہے جس کا خمیازہ وہ خود بھگتے گا۔ کسی کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی تغیر واقع نہیں ہوتا۔

آخری بات:

  • سورۃ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ نبی ﷺ خود اپنی طرف سے کوئی دعویٰ نہیں کرتے۔ نبوت اور وحی کی آمد سے قبل اُنھیں اِن چیزوں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا، جن کا نبوت کے بعد اُنھوں نے علی وجہِ البصیرت تذکرہ کیا اور جن کی طرف انسانیت کو دعوت دی۔

سورۃ الزخرف:

  • نفسِ مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مکی سورۃ ہے۔ مکہ کے بھی اُس دور میں  جب کفارِ مکہ نبیؐ  کی جان کے درپے ہوگئے تھے۔ شب و روز اپنی محفلوں میں بیٹھ بیٹھ کر مشورے کر رہے تھے کہ آپ کو کس طرح ختم کیا جائے، اور ایک حملہ آپ کی جان پر ہو بھی چکا تھا۔

 

 

بعثتِ انبیاء اور کلام اللہ (۲۔۸):

  • کلام کا آغاز کفارِ مکہ کو مخاطب کرکے اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ اپنی شرارتوں کے بل پر یہ چاہتے ہو کہ نزول روک دیا جائے، مگر اللہ نے کبھی اِشرار کی وجہ سے انبیاء کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل نہیں روکی ہے، بلکہ ان ظالموں کو  ہی ہلاک کردیا ہے جو اس کی ہدایت کا راستہ روک کر کھڑے ہوئے تھے۔ یہی کچھ وہ اب بھی کرے گا۔ آگے چل کر آیات 41 ۔ 43 ۔ اور 79 ۔ 80 میں یہ مضمون پھر دہرایا گیا ہے۔

اللہ کی نعمتیں (۱۰۔۱۴):

  • آیت ۱۰ سے ۱۴ تک اللہ نے اپنی نعمتوں کو تذکیراً پھر گنوایا جس میں زمین، بارش، زمین کی پیداوار،  تمام مخلوقات کے جوڑے،  سواریاں شامل ہیں۔  پھر سواری کی دُعا بھی آیت نمبر ۱۳ اور ۱۴ میں ملتی ہے یعنی سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ        ؀ وَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ       ؀  ترجمہ:  “پاک ہے وہ ذات کہ جس نے مسخر کردیا ہمارے لیے اس سواری کو ورنہ ہم اس کو قابو کرنے والے نہیں تھے۔  اور ایک روز ہمیں اپنے ربّ کی طرف پلٹنا ہے۔”   اس دُعا کے آخری الفاظ کو ہم اس طرح دیکھتے ہیں کہ اگر یہ سواری ہمارے قابو سے باہر ہوگئی تو بالآ ہمیں لوٹنا اپنے ربّ کی طرف ہی ہے۔  گویا کہ دنیاوی سفر کے آغاز میں سفرِ آخرت کی یاد دہانی کرا دی جاتی ہے۔

مشرکین کے باطل عقائد کی نفی (۱۵۔۲۸):

  • آیت ۱۵ سے ۲۸ تک مشرکین کے باطل عقائد کی نفی اور اللہ کی واحدانیت کو عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے اور پچھلی قوموں کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح وہ گزرے ہوئے انبیاء کی تعلیم کو مان کر نہ دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو اس ہی راستے کی پیروی کرتے ہوئے پایا ہے۔ اُنکی اِس روِش پر اللہ تعالیٰ نے اُن کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔  آیت نمبر ۲۶ سے ۲۸ میں قریش کے جدِّ امجد حضرت ابراہیمؑ کا ذکر کیا گیا کہ اگر واقعی تم اپنے آباؤ اجداد کے دین پر ہو تو تمھارا جدِّ امجد ابراہیمؑ تو اُس شرک سے بالکل پاک تھا جو تم کرتے ہو،  اور یہی کلمہ وہ اپنے پچھلوں کے لیے چھوڑ گیا تو پھر اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟

قرآن مکہ اور طائف کے سرداروں پر کیوں نہیں اُترا؟ (۳۱۔۳۸):

  • پہلے تو مشرکین یہ بات ماننے کےلیے تیار ہی نہ تھے کہ انسان بھی رسول ہو سکتا ہے۔ لیکن قرآن کے بھرپور دلائل اور بار بار تذکیر کے بعد انھوں نے نیا سوال کھڑا کردیا کہ اگر یہ قرآن واقعی حق ہے تو رسول بنانے کے لیے اللہ میاں کو ملا بھی تو وہ شخص جو یتیم پیدا ہوا، جس کے حصے میں کوئی میراث نہ آئی، جس نے بکریاں چرا کر جوانی گزار دی،  اور جو کسی قبیلے کا شیخ یا کسی خانوادے کا سربراہ نہیں ہے۔
  • اس کا جواب اللہ نے اس طرح دیا کہ کیا یہ لوگ اللہ کی رحمت تقسیم کرنے والے ہیں؟ اللہ نے تو دنیا کا نظام چلانے کےلیے کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنایا ہے۔  رہی نبوت کی بات تو وہ ان دنیاوی نعمتوں سے بہت بالا تر ہے اس کے دیے  جانے کا پیمانہ مال و دولت  اور جاہ و مراتب نہیں بلکہ  کچھ اور ہی ہے۔
  • یہ سیم و زر، جس کا کسی کو مل جانا تمہاری نگاہ میں نعمت کی انتہا اور قدر و قیمت کی معراج ہے، اللہ کی نگاہ میں اتنی حقیر چیز ہے کہ اگر تمام انسانوں کے کفر کی طرف ڈھلک پڑنے کا خطرہ نہ ہوتا تو ہر کافر کا گھر سونے چاندی کا بنادیا جاتا۔ یہ مال تو ان خبیث ترین انسانوں کے پاس بھی پایا جاتا ہے جن کے گھناؤنے کردار کی سڑاند سے سارا معاشرہ بدبو دار ہو کر رہ جاتا ہے۔  (آج بھی انسان اور حکمران معیشت معیشت کی گِردان کرتے نہیں تھکتے اور رب کے نظام کو چھوڑ کر سود جیسی غلاظت میں اپنے ہاتھ پیر ناپاک کرکے ربّ کے غضب کو دعوت دیتے رہتے ہیں)۔
  • آگے فرمادیا!” جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔  یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔”(۳۶۔۳۷)  آج پاکستان اور دیگر مسلم حکمرانوں پر یہ آیتیں 100%  ثبت  ہوتی ہیں۔  جب یہ اپنے ربّ کے پاس پہنچیں گے تو قرآن کی زبانی کہیں گے کہ “آخرکار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سے کہے گا، ” کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب جتنی دُوری ہوتی تُو تو بدترین ساتھی نکلا “۔

فرعون اور موسیٰ     ؑ (۴۶۔۵۶):

  • آیت نمبر ۴۶ سے واقعۂ موسیٰ ؑ اور فرعون کو بیان کیا گیا ہے۔  جس کے مطابق فرعون نے موسیٰ     ؑ کا انکار کرنے اور جھٹلانے کے لیے یہی دلیل پیش کی تھی کہ یہ کیسا نبی ہے جس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن نہیں ہیں،  نوکر چاکر نہیں ہیں۔  کیا یہ بہتر ہے یا میں بہتر ہوں۔  آخر کار اللہ نے اُسے عذاب کا نشانہ بنا کر رہتی دنیا کے لیے عبرت بنا دیا۔

حضرت عیسیٰؑ کا مقام و مرتبہ (۵۷۔۶۵):

  • مشرکین کے سامنے جب عزت کے ساتھ عیسیٰؑ کا نام لیا جاتا تھا تو وہ شور و غُل مچایا کرتے تھے کہ یہ شخص عیسائیوں کے معبود کی تعریف کرتا ہے اور ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ جواباً  اللہ نے فرمایا کہ!  عیسیٰؑ ہمارا بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا۔  وہ دینِ حق اور توحید لے کر آیا،  وہ صراط مستقیم پر قائم رہا۔  گمراہ لوگوں نے اُس کے بارے میں جو عقائد گھڑلیے ہیں وہ اِس سے بری الذمہ ہے۔

اے میرے بندو!

  • آخر میں اللہ نے اپنے خاص بندوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا! اے میرے بندو!  آج تمھارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمھیں کوئی غم لاحق ہوگا، داخل ہوجاؤ جنت میں تم اور تمھاری بیویاں ، تمھیں خوش کردیا جائے گا (۷۰) اُن کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کرائے جائیں گے اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہوگی ان سے کہا جائے گا؟ ۔’’ تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے۔ (۷۱)  تم اس جنت کے وارث اپنے اُن اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو جو تم دنیا میں کرتے رہے ۔(۷۲)  تمہارے لیے یہاں بکثرت پھل موجود ہیں جنہیں تم کھاؤ گے‘‘ (۷۳)  رہے مجرمین تو وہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے، (۷۴) کبھی اُن کے عذاب میں کمی نہ ہوگی ، اور وہ اُس میں مایوس پڑے ہوں گے۔ (۷۵) ان پر ہم نے ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے ۔(۷۶) وہ پکاریں گے ’’ اے مالک ، تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے ‘‘ وہ جواب دے گا ’’ تم یونہی پڑے رہو گے ،(۷۷)

سورۃ الدُخان:

  • اس کا زمانہ نزول بھی کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوتا، مگر مضامین کی اندرونی شہادت بتاتی ہے کہ یہ بھی اُسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورة زُخْرُف اور اس سے پہلے کی چند سورتیں نازل ہوئی تھیں۔

لیلۃ المبارکہ اور حکیمانہ فیصلے(۲۔۱۲):

  • قسم ہے اس کتابِ مبین کی جسے ہم نے ایک مبارک رات میں نازل فرمایا۔ اس رات میں اللہ تعالی حکیمانہ فیصلے صادر فرماتا ہے۔  نبیﷺ کی بعثت سے قبل اس رات کو تاریخِ انسانی کا یہ عظیم فیصلہ ہوا تھاکہ انسانیت کی طرف رسولِؐ رحمت کو مبعوث کیا جارہا ہے۔  جو لوگ اتمامِ حجت کو نہیں مانتے، وہ انتظار کریں اس بات کا جب آسمان دھوئیں سے اَٹ جائے گا اور یہ دھواں لوگوں پر چھا جارئے گا۔  پھر لوگ چیخیں گے، پکاریں گے کہ عذاب ٹل جائے،  لیکن اُس وقت عذاب نہیں ٹلے گا۔

نافرمانوں کا انجام (۱۷۔۳۳):

  • قومِ فرعون کی طرف بھی اللہ نے اسی طرح اپنا رسول پیغام دے کر بھیجا تھا۔ فرعون نے تکبر کیا اور اللہ کے رسول کو قتل کرنے پر تُل گئے۔  لیکن اللہ نے اُسے اور اُس کی قوم ہی کو غرق کرکے نشانِ عبرت بنا دیا۔  پھر نہ آسمان اُن پر رویا اور نہ زمین۔

سرکشوں کو سزا   اور مومنین کو انعام (۴۳۔۵۷):

  • فرمایا گیا کہ جہنمیوں کی خوراک زقّوم کا درخت ہوگا جو پیٹ میں ایسے جوش کھائے گا جیسے تیل کی تچھلٹ جیسا کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے ۔ انھیں  گھسیٹے ہوئے جہنم کے بیچوں بیچ لے جایا جائے گا اور کھولتا ہو ا پانی ان کے سرو ں پر اُنڈیل دیا جائے گا۔  پھر کہا جائے گا کہ چھک مزا بہت عزت دار بنتا تھا تو،  یہ وہی دن ہے جس کا دنیا میں انکار کرتا تھا تو۔    برخلاف اس کے
  • اہلِ ایمان امن کی جگہ پر ہونگے۔ دلکش باغوں میں حریر و دیبا کا شاندار لباس پہنے اپنے ہمنواؤں می محفلیں لگائے بیٹھے ہونگے،  خوبصورت انکی بیویاں ہونگی،  اور ہر طرح کی نعمتیں انھیں میسر ہونگی،  جہاں انھیں کبھی موت نہیں آئے گی۔  ربّ کے فضلِ خاص سے یہی انکی کامیابی ہوگی۔

سورۃ  الجاثیہ:

  • اس کا زمانہ نزول بھی کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوتا، مگر مضامین کی اندرونی شہادت بتاتی ہے کہ یہ بھی اُسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورة الدخان اور اس سے پہلے کی چند سورتیں نازل ہوئی تھیں۔
  • اس کا موضوع توحید و آخرت کے متعلق کفار مکہ کے شبہات و اعتراضات کا جواب دینا اور اس رویے پر ان کو متنبہ کرنا ہے جو انہوں نے قرآن کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کر رکھا تھا۔

توحید کےحق میں  دلائل اور اللہ کی نشانیاں(۲۔۱۱):

  • کلام کا آغاز توحید کے دلائل سے کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں انسان کے اپنے وجود سے لے کر زمین و آسمان تک ہر طرف پھیلی ہوئی بیشمار نشانیوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا ہے کہ تم جدھر بھی نگاہ اٹھا کر دیکھو، ہر چیز اسی توحید کی شہادت دے رہی ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔ یہ طرح طرح کے حیوانات، یہ شب و روز، یہ بارشیں اور ان سے اگنے والی نباتات، یہ ہوائیں، اور یہ انسان کی اپنی پیدائش، ان ساری چیزوں کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر دیکھے اور کسی تعصب کے بغیر اپنی عقل کو سیدھے طریقہ سے استعمال کر کے ان پر غور کرے تو یہ نشانیاں اسے اس امر کا یقین دلانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ کائنات بےخدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کی خدائی میں چل رہی ہے، بلکہ ایک ہی خدا نے اسے بنایا ہے، اور وہی اکیلا اس کا مدبِّر اور فرماں روا ہے۔ البتہ اس شخص کی بات دوسری ہے جو نہ ماننے کی قسم کھا کر بیٹھ گیا ہو، یا شکوک و شبہات ہی میں پڑے رہنے کا فیصلہ کرچکا ہو۔ اسے دنیا میں کہیں سے بھی یقین و ایمان کی دولت حاصل نہیں ہوسکتی۔

ایمان کے بغیر انسان مُردہ ہے(۱۲۔۲۱):

  • آیت ۱۴ میں آنحضورؐ سے خطاب کرکے فرمایا گیا کہ وہ اہلِ ایمان کو تعلیم دیں کہ منکرینِ حق کی تکلیف دہ اور اذیت ناک حرکتوں پر درگزر سے کام لیں۔  اللہ کے ہاں حق کے فیصلے ہوں گے اور نیکو کارو لوگوں کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔  اللہ رب العالمین نے شریعت اسلامی جو عطا کی ہے تو یہی انسانیت کےلیے سیدھی، صاف اور پر امن شاہراہ ہے۔  کافر اللہ کی نظر میں ایسے بے وقعت ہیں کہ اُن کی زندگی اور موت یکساں ہیں۔  گویا بظاہر وہ وجود رکھتے ہیں لیکن حقیقتا وہ مُردہ ہیں۔

ریکارڈ بُک (۲۷۔۳۰)

  • اللہ نے ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے مقرر کیے ہیں جو اُس کے روز و شب ہونے والے اچھے اور برے اعمال کو لکھ رہے ہیں۔ یہ رجسٹر قیامت کے دن ہر انسان کے سامنے کھول دیا جائے گا۔  ہر ایک کو انصاف کے ساتھ پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔    نیکو کاروں کو اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل کیا جائے گا اور بیش بہا انعام و اکرام سے نوازا جائے گا،  جبکہ مجرمین سے پہلے تو حجت تمام کرنے کےلیے پوچھا جائے گا کہ کیا تمھارے پاس اللہ کا پیغام نہیں پہنچا تھا؟  جس پر وہ انکار نہ کرسکیں گے اور انھیں کہہ دیا جائے گا کہ جس طرح دنیا میں تم نے آج کی ملاقات کو  بُھلادیا تھا آج ہم بھی تم کو اسی طرح بھلا دیں گے اور انھیں ہمیشہ کےلیے جہنم میں داخل کردیا جائےگا۔

الحمد للہ آج ۲۵ سپارے مکمل ہوئے

۲۶ ویں سپارے کا خلاصہ کل رکھیں گے جس میں سورۃ الاحقاف، سورۃ محمد،  سورۃ سورۃ الفتح اور سورۃ الحجرات پڑھی جائیں گی۔

ان شاء اللہ تئیسویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ