خلاصہ تراویح 6 رمضان
- آج چھٹی تراویح ہے اور اس میں سورۃ الانعام پوری پڑھی جائے گی۔
- یہ سورۃ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی اور مکمل نازل ہوئی۔ یہ وہ وقت ہے جب قریش کے ظلم و ستم عروج پر ہیں، کئی مسلمان حبشہ ہجرت کرچکے ہیں اور باقی رہ جانے والوں کی زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ اب نہ ابو طالب حضورﷺ کی پیٹھ پر ہیں اور نہ ہر غمی و خوشی میں ساتھ دینے والی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ۔ اور یہ وہ وقت ہے کہ مکہ کے آس پاس کے لوگ بھی اسلام قبول کرتے جارہے ہیں۔
- اس سورۃ میں عقائد کی پختگی، جاہلیت کی توہمات کی تردید، دعوتِ حق کے خلاف اعتراضات کے جواب، نبیﷺ اور انکے صحابہؓ کو تسلی اور منکرین و مخالفین کو نصیحت، تنبیہ اور تہدید پر بات کی گئی ہے۔
- سورۃ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ انسان کا ذکر کیا ہے ۔ اور اپنی اس تخلیق پرانسان کو دعوتِ تفکر دی ہے۔ نیز یہ بھی اظہار کیا کہ انسان اس جانب توجہ نہیں دیتا۔
- آیت نمبر ۶ تا ۱۸ میں دیگر اقوام کا ذکر کیا گیا کہ اللہ نے انھیں خوب ترقی دی اور حکومت و اقتدار عطا کیا لیکن انھوں نے شکر ادا کرنے کے بجائے ناشکری کی۔ جس کے نتیجے میں اللہ نے انھیں تباہ کردیا اور انکی جگہ دوسری قوموں کو اُٹھایا۔ کفار نبی ﷺ کو دھمکیاں دے رہے تھے جس کے جواب میں آنحضورﷺ کو فرمایا گیا کہ “کہو! کیا اللہ کو چھوڑ کر ، جو زمین و آسمان کا خالق اور روزی رساں ہے، کسی اور کو سرپرست بنالوں” کہ بھی فرمایا کہ آپؐ کی سکی پرواہ نہ کریں۔
- آیت نمبر ۲۷ تا ۳۲ یومِ حشر کا مختصرنقشہ کھینچا گیا ہے اور نبی ﷺ کو بتایا گیا ہے کہ آج اللہ کی تعلیمات ، آپ اور آخرت کے انکاری کل وہاں پچھتارہے ہوں گے اور تمنا کررہے ہوں گے کہ دوبارہ دنیا میں بھیج دیے جائیں اور پھر وہ نیک عمل کریں اور وہاں سزا سے بچ سکیں۔ لیکن یہ اللہ کی سنت نہیں کہ ایک بار وہاں بلانے کے بعد دوبارہ دنیا میں واپس بھیجے۔
- کفارِ مکہ نے نبی کریم ﷺ کی تعلیم کو جھٹلادیا تھا اور مان کر نہیں دے رہے تھے۔ جس پر دل برداشتہ ہوجانا انسانی فطرت ہے۔ چنانچہ آیت نمبر ۳۳ تا ۳۶ میں اپنے رسولؐ کو اللہ نے تسلی دی ہے کہ آپ پہلے نبیؐ نہیں جن کی تکذیب کی جارہی ہے بلکہ آپ سے پہلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے، اور انھیں اذیتیں بھی پہنچائی گئی ہیں جس پر انھوں نے صبر کیا۔ لہٰذا غم نہ کریں ، آپ کے ربّ کی باتیں حق ہیں اور ان کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔
- آیت نمبر ۳۶ سے ۳۹ تک اپنے نبی کو بتایا گیا کہ دعوتِ حق کا انکار کرنے والے دراصل مردہ لوگ ہیں ۔ اور یہ اللہ کا قاعدہ نہیں کہ زبردستی کسی کو دین پر چلائے، اگر ایسا ہوتا تو کوئی ایک فرد بھی کافر نہیں ہوتا۔
- آیت ۴۰ تا ۴۵ میں بتایا گیا کہ جب انسان پر مصیبت آتی ہے اور سارے سہارے ختم ہوجاتے ہیں تو بالآخر وہ اللہ ہی کو پکارتا ہے۔ جبکہ خوشحالی کی حالت میں وہ اللہ کو بھول جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی اللہ اپنی رحمتوں کے دروازے اس دنیا میں اس پر بند نہیں کرتا۔ باغی سمجھتے ہیں کہ انکی تمنائیں پوری ہورہی ہیں۔ جب وہ اس میں مگن ہوتےہیں تو اللہ ان پر عذاب نازل کردیتا ہے۔
- خزانوں کا مالک کون؟: آیت نمبر ۵۰ میں توحید و رسالت کا مضمون بیان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اللہ کے نبی اللہ کے نمائندے ہوتے ہیں اسی لیے تمام خزانے اور غیب کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور نبی تم ہی میں سے تم جیسا ایک انسان ہوتا ہے ، کھاتا ہے، پیتا ہے، شادی بیاہ کرتا ہے، معاش کی تگ و دو کرتا ہے تاکہ تمھیں عملی طور پر اللہ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرکے دکھائے۔ اگر وہ فرشتہ ہوتا تو ایسا نہیں کرسکتا تھا۔
- معزز کون؟ قریش کے بڑے بڑے سرداروں اور کھاتے پیتے لوگوں کانبیؐ پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آپؐ کے آس پاس ہماری قوم کے غلام، موالی اور ادنیٰ طبقہ کے لوگ جمع ہوگئے ہیں۔ بس یہی لوگ اللہ کو ہمارے درمیان ایسے ملے جن کو برگزیدہ کیا جاسکتا تھا ! پھر وہ ان ایمان لانے والوں کی خستہ حالی کا مذاق اڑانے پر ہی اکتفا نہ کرتے تھے، بلکہ ان سے جس جس سے کبھی پہلے کوئی اخلاقی کمزوری ظاہر ہوئی تھی اس پر بھی حرف گیریاں کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ فلاں جو کل تک یہ تھا اور فلاں جس نے یہ کیا تھا آج وہ بھی اس ” برگزیدہ گروہ “ میں شامل ہے۔ انہی باتوں کا جواب آیت نمبر ۵۲ میں دیا گیا ہے۔
- ایک کھلی حقیقت: کافروں کا نبی کریمؐ سے مطالبہ تھا کہ اگر واقعی آپ اللہ کے نبی ہیں تو لے آئیں وہ عذاب جس سے ہمیں ڈراتے ہیں۔ اس کا جواب اور توحید کی حقانیت آیت نمبر 57 سے 67 تک بتائی گئی ہے۔ کہا گیا کہ جس چیز کی تم جلدی مچارہے ہو اس کا فیصلہ اللہ کرے گا، کب کرے گا یہ بھی اسی کو معلوم ہے۔ اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں، نہ کوئی مجرم چھپ سکتا ہے، نہ بھاگ کر فرار ہوسکتا ہے، بحر و بر کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں، درختوں سے گرنے والے پتوں تک کو وہ جانتا ہے، زمین کی اندھیری تہوں کے نیچے کوئی دانا ایسا نہیں جو اس کی نظروں سے اوجھل ہو، گویا ہر چیز اسکے سامنے کھلی کتاب ہے۔
- ابراہیمؑ توحید کے علمبردار: چونکہ مشرکینِ مکہ ابراہیمؑ سے اپنی نسبت پر فخر کرتے تھے تو اللہ نے ابراہیم ؑ کے دورِ جوانی کا قصّہ بیان کیا کہ کس طرح انھوں نے ایک بت پرست گھر میں آنکھ کھولی اور وہ انہی پتھر کےاصنام سے کتنے بدظن تھے۔ قوم مٹی اور پتھر کے بتوں کو پوجتی تھی۔ چاند، سورج اور ستاروں کی پرستش کرتی تھی۔ ابراہیمؑ نے اس قوم کے سامنے انکے ایک ایک الہٰ کا ذکر کیااور چاند سورج کے غروب ہوجانے کے بعدقوم کےسامنے یہ سوال اُٹھا کر سوچنے پر مجبور کردیا کہ یہ کیسے ربّ ہیں جنھیں زوال ہے۔ پھر اعلان کیا کہ نہ تو چاند ستاروں میں الوہیت ہے، نہ سورج اس کا اہل ہے۔ الہٰ توا ایک ہی ہے اور وہی ہے جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا۔ میں یکسو ہو کر اسکی جانب رُخ پھیررہا ہوں۔
- اللہ کے انبیاء: آیت نمبر 85 تا 87 میں ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے جو اولولعزم انبیاء ؑ تشریف لائے ان کا ذکر کیا گیا ہے جن میں اسحاق، یعقوب، داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحیٰ، عیسیٰ، الیاس، اسماعیل، السیع، یونس، لوط علیہ السلام شامل ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ کہیں ان انبیاء نے بھی اگر شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غرق ہوجاتا۔
- وجودِ باری تعالیٰ: آیت نمبر 95 سے 110 تک مسلسل اللہ رب العالمین انکار نہ کی جانے والی مثالیں پیش کرکے توحیدبیان کرتا ہے۔ نباتات سے لے کر جمادات تک، زمین سے لے آسمان تک، غلے، دانے اور سبزی سے لے میوہ جات و ثمرات تک، سلسلۂ موت و حیات سے لے کر تبدیلی و تغیر دن رات تک ہر چیز اس بات کا ثبوت اور دلیل ہے کہ کوئی پیدا کرنے پیدا کررہا ہے، نظام چلانے والا نظام چلا رہا ہے اور ہر چیز کو پورے اندازے اور حکمت سے ساتھ کنٹرول کرنے والی کوئی قوت کارفرما ہے۔ یہی خالقِ کائنات ہے، اس کا نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ بیوی۔ وہ یکا و تنہا ہے۔ وہ تصورات سے بھی ماورا ہے، اپنی حکمتوں کے ذریعے ہر ذرہ میں نظر آتا ہے لیکن اس کی تجلی کو نظریں نہیں دیکھ سکتیں۔
- شیاطین جنّ و انس: کائنات عبرت کی آنکھوں سے دیکھنے کے بجائے منکرینِ حق معجزات دکھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ فرمایا گیا کہ اگر ان کو وہ سب معجزات دکھا بھی دیے جائیں جن کا یہ مطالبہ کرتے ہیں۔ فرشتے ان کے سامنےلاکھڑے کیے جائیں اور مردوں سے ان کی بات کرادی جائے ، تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں۔ اسکی وجہ انکی جہالت اور ہٹ دھرمی ہے۔ اپنے نبیؐ کو بتایا گیا کہ یہ شیطانی قوتیں جس طرح آپکی مخالفت کررہی ہیں بالکل اسی طرح گزرے ہوئے انبیاء کی بھی کرتی رہی ہیں۔ اللہ تو انسان کو خیر و شر کے ذریعے آزمانا چاہتا ہے ورنہ تو سب کو ہدایت پر رکھ دیتا۔
- حلال و حرام: آیت نمبر 118 تا 150 ایک بار پھر حلال و حرام کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ اس تناظر میں اہلِ کتاب اور مشرکین کی تمام غلط رسومات کا تجزیہ کیا گیا ہے اور اہلِ ایمان کو اس تباہ کن رجحان سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
- حرام اعمال: آیت نمبر 151 تا 153 ان اعمال کی تفصیل ہے جن کا کھانے پینے سے تعلق نہیں لیکن صریح حرام ہیں:
- شرک
- والدین کی نافرمانی
- قتلِ اولاد (مفلسی کے ڈر یا کسی اور وجہ سے)
- فحاشی (جلی و خفی)
- قتلِ ناحق
- مالِ یتیم کھانا
- ناپ تول میں کمی
- بے انصافی
- عہد کی خلاف ورزی (بندو سے بھی اور اللہ سے بھی)
- سیدھے راستے (نبیؐ کا راستہ) کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرنا
- مقصدِ زندگی: آیت نمبر 161 تا 163 میں نبیﷺ کو مخاطب کرکے تمام انسانوں کو مقصدِ زندگی بتادیا گیا ہے کہ “اے نبیؐ ان (اہلِ کتاب اور مشرکین) سے کہہ دو کہ یقینی طور پر مجھےمیرے ربّ نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑ کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو! میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔”
- انجامِ کار: آیت 164 میں نبیؐ کو مخاطب کرکے منکرینِ حق کو پیغام دیا جارہا ہے کہ کائنات کی ساری چیزوں کا رب تو اللہ ہے، میرا رب کوئی اور کیسے ہوسکتا ہے ؟ ساری کائنات تو اللہ کی اطاعت کے نظام پر چل رہی ہو، اور کائنات کا ایک جُز ہونے کی حیثیت سے میرا اپنا وجود بھی اسی نظام پر عامل ہو، مگر میں اپنی شعوری و اختیاری زندگی کے لیے کوئی اور رب تلاش کروں ؟ کیسے ممکن ہے؟ تم مانو یا نہ مانو تمھاری مرضی ، یاد رکھو! ہر شخص خود ہی اپنے عمل کا ذمہ دار ہے، اور ایک عمل کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ہے۔
- سورۃ کا اختتام: آخری آیت میں واضح کردیا گیا کہ
- تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر تصرف کے اختیارات بخشے ہیں۔
- دوسرے یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے، کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرف کے اختیارات دیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر، کسی کو زیادہ قوت کارکردگی دی ہے اور کسی کو کم۔
- تیسرے یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے، پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے، اور جس کو جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح خدا کی امانت میں تصرف کیا، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا، اور کس حد تک اپنی قابلیت یا ناقابلیت کا ثبوت دیا۔ اسی امتحان کے نتیجہ پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے۔