خلاصہ تراویح 17 رمضان

سترھویں تراویح

آج کی تراویح میں بیس وان سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔  اس میں سورۃ النمل  کے آخری ۳ رکوع ، سورۃ القصص مکمل اور سورۃ  العنکبوت کے ۴ رکوع جو کہ ۴۴ آیات پر مشتمل ہیں کی تلاوت کی جائے گی۔

النمل:     اللہ کے سوا کون ؟      (۶۰۔۶۵):        اللہ اور اسکے رسولؐ کا مسلسل انکار کرنے والوں کے لیے اللہ نے چند سوال اُٹھائے ہیں اور ساتھ ہی سوال کیا ہے کہ کوئی دُوسرا خدا بھی (ان کاموں میں شریک ہے)؟  

  • بھلا وہ کون ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا
  • آسمان سے پانی کون برساتا ہے پھر اُس سے زمین میں باغ اور درخت اُگاتا ہے؟
  • کس نے زمین کو جائے قرار دیا؟
  • کس نے زمین پر دریاء بہائے؟
  • کس نے زمین پر پہاڑوں کو میخیں بنا کر کھڑا کیا؟
  • کون ہے جس نے دو پانیوں (میٹھے اور کڑوے) کو ساتھ چلایا لیکن ایک دوسرے کو ملنے نہیں دیا؟
  • کون ہے جو بے قرار کی دُعا سنتا ہے اور اسکی تکلیف دُور کرتا ہے؟
  • کون ہے جس نے تمھیں (انسان کو) زمین میں خلیفہ بنایا؟
  • کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے؟
  • کون اپنی رحمت کے ساتھ ہواؤں کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟
  • کس نے تخلیق کی ابتداء کی اور کون دوبارہ اعادہ کرے گا؟
  • کون ہے جو آسمان اور زمین سے تمھیں رزق دیتا ہے؟

اپنی یہ نعمتیں گنوانے کے بعداللہ نے سب منکرینِ حق کو چیلنج کیا کہ “کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (ان کاموں میں حصہ دار) ہے؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو”۔  پھر کہا گیا کہ جنھیں تم اپنا معبود کہتے ہو وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کب اُٹھائے جائیں گے کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔

اندھے اور بہرے لوگ:            دوسرے رکوع میں آخرت کا انکار کرنے والوں کو بتایا گیا کہ تم جس بات کے منکر ہو، کیا عجیب کہ وہ تمھارے قریب آپہنچی ہو۔  اے ناشکرے لوگو!  اپنے رب کے فضل اور رحمت کا حق ادا کرو۔  اسی میں تمھاری بھلائی ہے۔  مُردے جس طرح نہیں سُن سکتے، اُسی طرح حق کا انکار کرنے والے بہرے بن کر حق سے نا آشنا رہتے ہیں۔  دل اندھے ہوجائیں تو اللہ کے رسول بھی لوگوں کو راہِ راست پر نہیں لاسکتے۔  ہاں جن کے دلوں میں اللہ کی محبت اور خوف ہو، اُنھیں ایمان کی توفیق بھی ملتی ہے اور فرماں برداری کے سلیقے بھی آجاتے ہیں۔

علاماتِ قیامت:                        قربِ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت آیت نمبر ۸۲ میں بیان کی گئی ہے کہ انسانوں کے سامنے زمین سے ایک جانور نکلے گا اور ان سے بات کرے گا۔  وہ بتائے گا کہ لوگ اللہ کی آیات کے منکر تھے۔  رسول ؐ اللہ نے فرمایا کہ یہ وہ وقت ہوگا جب آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور اُسی وقت دن دہاڑے یہ جانور بھی زمین سے نمودار ہوجائے گا۔  پھر سب اگلے اور پچھلے فوج در فوج میدانِ حشر میں جمع کیے جائیں گے۔  منکرینِ حق کو گھیر لیا جائے گا اور اُنکی زبانوں پر تالے پڑجائیں گے اور جسمِ کے اعضاء کو قوتِ گویائی دے کرانکے خلاف گواہی دلوائی جائےگی۔

مراحلِ قیامت:         ان ہی آیات میں مراحلِ قیامت بیان کیے گئے ہیں۔  پہلا صور پھونکا جائے گا اور سب آسمان و زمین کی مخلوق خوف کھائے گی۔  پھر پہاڑ، بادلوں کی طرح اُرجائیں گے۔  قیامت برپا ہوجائے گی اور اس کےبعد دوسرا صور پھونکا جائے گا۔  جس کے بعد سب لوگ اُٹھ کھڑے ہونگے۔  اورمیدانِ حشر میں جمع ہوجائیں گے۔  جو نیکو کار ہونگے وہ ڈر اور خوف سے محفوظ ہونگے۔  اور منکرینِ حق اوندھے منہ جہنم کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔

سورۃ القصص:           یہ سورۃ،  الشعراء، النمل کے بعد نازل ہونے والی ایک سورۃ ہے جو کہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی تھیں۔  اس لحاظ سے بھی ان تینوں میں قریبی تعلق ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کے مختلف اجزاء جو اِن میں بیان کیے گئے ہیں وہ باہم مل کر ایک پورا قصہ بن جاتے ہیں۔

  • موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کے قصے کے مختلف اجزاء سورۃ البقرہ، الاعراف ،  یونس،  ہود ، الاسراء ۔ مریم،  طٰہٰ ، المومنون،  الشعراء، النمل، العنکبوت،  المومن، الزخرف ، الدخان،  الذاریات،  النازعات میں موقع محل کی مناسبت سے دیے جانے کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ
    • ۱س قوم پراللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ انعام و اکرامات کیے۔
    • منکرینِ حق کو بتا دیا جائے کہ حق کے انکاری تم پہلے نہیں ہو بلکہ تم سے پہلے بھی اس طرح ہوچکا ہے۔ لیکن آخر کار حق ہی غالب آکر رہا۔
    • نبی کریمؐ کو بتانا مقصود تھا کہ صرف آپؐ کی راہ میں ہی روڑے نہیں اٹکائے جارہے بلکہ موسیٰ  ؑ کے ساتھ بھی بڑے منظم انداز میں یہ سب ہوچکا ہے۔  لیکن بالآخر کامیابی داعیانِ حق ہی کے حصے میں آئی لہذا دلبرداشتہ ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
  • موسیٰ ؑ کے واقعات جو اس سورۃ میں بیان ہوئے  کی تلخیص کچھ اس طرح ہے کہ
    • فرعون نے معاشرے میں طبقاتی تقسیم کررکھی تھی۔ اُمراء کے طبقے کو نوازتا تھا جبکہ عوام الناس پر ظلم کرتا تھا۔
    • بنی اسرائیل کی ہر پیدا ہونے والی لڑکی کو زندہ چھوڑ دیتا تھا جبکہ لڑکے کو قتل کرادیتا تھا۔ کیونکہ نجومیوں نےبنی اسرائیل کے کسی نوزائیدہ  لڑکے کو اس کے اقتدار کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا تھا۔  جبکہ اللہ نے اسکے اقتدار کے خاتمہ کا فیصلہ کرلیا تھا۔
    • موسیٰ ؑ کی ماں اپنے حمل کو چھپائے چھپائے پھریں،  وضع حمل پر انھیں خوف ہوا  کہ فرعون کو پتہ چل گیا تو قتل کردے گا،  چنانچہ بچہ کو ایک پنگھوڑے میں ڈال کر دریاء کے حوالے کردیا۔  پنگھوڑا ملکہ کو مل گیا اور اس نے اس بچے کو اپنا بیٹا بنا کر پالنے کا فیصلہ کرلیا۔
    • بچہ کسی کا دودھ نہیں پی رہا تھا، بچہ کی بہن کی رسائی دربار تک ہوئی اور اس نے مشورہ دیا کہ میں ایک عورت کا پتہ بتاتی ہوں شائد یہ اُس کا دودھ پی لے۔  چنانچہ موسیٰ  ؑ کی والدہ کو بچے تک رسائی مل گئی اور وہ انہی کی گود میں پلنے لگے۔
    • جوان ہوئے تو ایک دن شاہی محلات سے شہر میں ایسے وقت گئے جب سناٹے کی کیفیت تھی۔ دیکھا کہ دو افراد ایک بنی اسرائیل کا شخص اور دوسرا مصری قبطی آپس میں گتھم گتھا ہیں۔  بنی اسرائیلی نے انھیں مدد کے لیے پکارا۔   آپؑ نے زیادتی کرنے والے کو پہلے منع کیا ہوگا نہ مانا تو ایک گھونسا اُس کے رسید کردیا۔  جس سے حیرت انگیز طور پر وہ فوراً مر گیا۔  اسکی انھوں نے اللہ سے معافی مانگی کیونکہ قتل کرنے کا ان کا ارادہ نہیں تھا۔
    • دوسرے دن صبح سویرے پھر شہر میں ڈرتے ہوئے گئے تو دیکھا کہ وہی جھگڑنے والا بنی اسرائیلی پھر کسی اور سے لڑ رہا ہے اور موسیٰ ؑ کو مدد کےلیے پکار رہا ہے۔ جس پر آپ ؑ اُس پر ناراض ہوئے اور اُس پر حملہ کرنا چاہا تو اُس نے کل کے واقعہ کو باآوازِ بلند دھرا دیا ۔  جس سے سب کو پتہ چل گیا، کہ کل کا قتل کس نے کیا ہے۔
    • اُدھر شاہی دربار میں موسیٰ ؑکو سزا کے طور پر قتل کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی تھی۔ جسے ایک شخص نے انھیں بتادیا۔
    • چنانچہ آپؑ اکیلے ہی وہاں سے فرار ہوگئے۔ اور مدین کا رُخ کیا۔  راستے میں ایک کنواں نظر آیا جہاں سے لوگ اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلارہے تھے۔  پاس ہی دو لڑکیاں کھڑی انتظار کررہی تھیں۔   آپ نے انھیں اپنی خدمات پیش کیں اور انکی بکریوں کو کنوئیں سے پانی نکال کر پلادیا۔
    • لڑکیوں نے گھر جاکر اپنے باپ سے ذکر کیا تو انھوں نے موسیٰ ؑ کو بلا بھیجا اور انکی شرافت سے متاثر ہوکر ایک لڑکی انکے نکاح میں دینے کا عقدہ اس شرط کے ساتھ  سنایا کہ موسیٰ  ؑ ۸ سال انکے ساتھ رہ کر خدمت کریں گے۔
    • موسیٰ ؑ نے ۱۰ سال انکی خدمت کی اور اسکے بعد اپنی بیوی بچوں کو لے کر واپس مصر کی جانب روانہ ہوئے۔  سردی کا زمانہ تھا، راستے میں ایک جگہ پہاڑ پر آگ نظر آئی تو بیوی بچوں کو ایک جگہ بیٹھا کر آگ لینے پہاڑ پر پہنچے جس کا نام کوہِ طور تھا۔
    • وہاں پہنچے تو وادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں ایک درخت سے پکارا گیا کہ ’’ اے موسیٰ ؑ! میں ہی اللہ ہوں ، سارے جہان والوں کا مالک۔‘‘  آپ کو نبوت عطا کی گئی اور اللہ  سبحانہٗ وتعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا  اور کلیم اللہ بن گئے۔  اس موقع پر دو معجزات بھی آپ کو عطا کیے گئے۔  ایک لاٹھی کا سانپ بن جانا اور دوسرے ہاتھ کو بغل میں ڈال کر نکالنے سے سفید چمکدار بن جانا۔
    • حکم ہوا فرعون کے دربار میں جاکر یہ دو نشانیاں پیش کراور پیغامِ حق پیش کر۔ جس پر موسیٰ ؑ نے کہا کہ میں تو قاتل ہوں ، ڈرتا ہوں کہیں مجھے مار ہی نہ ڈالیں۔  لہٰذا میرے بھائی ہارونؑ بات کرنےمیں تیز ہیں انھیں میرا مدد گار بنادے۔  چنانچہ انکی درخواست کو قبول کیا گیا۔
    • فرعون کے دربار میں اپنے بھائی کے ساتھ پہنچے اور معجزات پیش کیے تو کہا گیا کہ یہ تو صریح جادو ہے۔
    • فرعون نے پورے ملک سے جادوگر بلائےاور مقابلے پر لے آیا لیکن جادوگر موسیٰ ؑ کے معجزہ کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ حق ہے اور ایمان لے آئے ۔  جنھیں فرعون نے قتل کرادیا۔
    • اللہ کے حکم سے موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے چلے تو فرعون نے ان کو سمندر کے کنارے جالیا۔  چنانچہ اللہ کے حکم سے سمندر میں بنی اسرائیل کے لیے خشک راستہ بن گیا اور وہ وہاں سے گزر گئے جبکہ انکے پیچھے فرعون اور اس کا لشکر آیا تو اللہ نے انھیں غرق کردیا۔
    • موسیٰ ؑ کو اللہ نے احکام کی لکھی ہوئی تختیاں عطا کیں جب وہ قوم کو چھوڑ کر اعتکاف کرنے چلے گئے تھے اور اللہ سے ہم کلام ہوئے۔
    • بنی اسرائیل کو  سمندر پار کرکے  فلسطین میں جانا تھا لیکن وہاں ایک عمالقہ نامی جنگجو قوم بستی تھی۔  اُس سے ڈر کر انھوں نے جانے سے انکار کردیا اور جہاد سے منہ موڑ لیا چنانچہ اللہ نے انھیں وادی میں بھٹکنے کےلیے چھوڑ دیا جہاں وہ چالیس سال رہے اور مر کھپ گئے۔  پھر انکی نسل فلسطین میں داخل ہوئی۔

ہدایت صرف اللہ کے اختیار میں ہے (۵۶):                 حضور ؐ جس طرح ٹوٹ کر اپنی قوم کے ایک ایک فرد کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر میں خود کو گھلا رہے تھے اور ان کے ایمان نہ لانے پر اداس رہتے تھے۔  اس پر اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ ہدایت دینا محمد ؐآپ کا کام نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کا کام ہے۔  روایات میں آتا ہے کہ نبی کریمؐ کے چچا ابو طالب نے ہر موقع پر آپؐ کی سرپرستی اور حمایت کی۔   ہر مشکل اور ابتلاء میں آپ کا ساتھ دیا، اس کے باوجود اسلام میں داخل نہ ہوئے۔  آپؐ نے اُنکے آخری وقت میں اُن سے کہا تھا کہ میرے کان ہی میں کلمہ پڑھ دیں لیکن وہ محروم رہے۔

روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ جہنم میں سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ملے گا۔  انھیں دوزخ کی آگ میں جلایا نہیں جائے گا، صرف جہنم کی آگ کے تسمے اُن کے بوٹوں میں ڈالے جائیں گے اوراِس سے بھی اُن کا دماغ کھولنے لگے گا۔

معیشت کے اُجڑنے کا ڈر (۵۷۔۶۰):          مشرکینِ مکہ اسلام لانے سے اس لیے بھی ڈرتے تھے کہ اگر اسلام قبول کرلیا  تو دیگر مضبوط قوتیں انھیں مغلوب کرلیں گی اور انھیں اپنی سرزمین سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔  جس پر اللہ نے جواب دیا کہ انھیں اس زمین پر امن، رزق کی فراوانی ہم ہی نے عطا فرمائی ہے ۔  ورنہ ان سے پہلے کتنی ہی بستیاں ہم نے ایسی اُجاڑ دیں جو مضبوط معیشت کے HUB  کہلاتے تھے۔  انھیں بھی ہجت تمام کیے بغیرتباہ نہیں کیا۔  یعنی انھیں سمجھانے کےلیے پہلے انبیاء بھیجے جب وہ قریش کی طرح اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو ہم نے انھیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔  آج بھی دنیا میں قائم مسلم حکومتیں حق کہنے اور حق نافذ کرنے میں یہی بہانہ تراشتی ہیں کہ ہم  نے حق کے نفاذ کی کوششیں کیں تو  ہماری معیشت تباہ ہوجائے گی۔

قارون کا انجام (۷۶۔۸۲):       قارون بنی اسرائیل کا ایک مالدار شخص تھا جس کی مثال اللہ قریش کو دے رہا ہے جنھیں اپنی معیشت اجڑنے کا ڈر تھا کہ  قارون بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد تھا ۔ (روایات میں آتا ہے کہ یہ موسیٰ ؑ کا چچا زاد بھائی تھا)  جس کو  اتنا مال و متاع عطا کیا گیا تھا کہ اسکے خزانوں کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت لے کر چلتی تھی۔  لوگ اسکے مال پر رشک کرتے تھے لیکن ربّ کی نافرمانی کی سزا کے طور پر ایک دن پورے مال سمیت اسے زمین میں دھنسا دیا گیا تو اسکے مال پر رشک کرنے والوں نے اپنی سوچوں پر افسوس کیا اور تائب ہوگئے۔

آخری آیات میں اللہ کی جانب سے واضح کیا گیا کہ “آپ تو اس بات کے امیدوار نہ تھے کہ آپؐ پر کتاب نازل کی جائے۔   یہ تو آپؐ کے رب کی مہربانی ہے کہ اس نے تمھیں نوازا۔  بظاہر خطاب نبیؐ سے ہے لیکن سنایا مخالفین کو جارہا ہے جو کسی بھی طرح ایمان لانے کے لیے تیار نہ تھے۔

سورۃ العنکبوت:         سورۃ العنکبوت ہجرتِ حبشہ سے کچھ عرصہ پہلے نازل ہونے والی سورۃ ہے۔

ایمان اور آزمائش (۱۔۷):         یہ وہ وقت تھا  کہ مکہ معظمہ میں جو شخص بھی اسلام قبول کرتا تھا اس پر مصیبتوں  کا ایک طوفان ٹوٹ پڑا تھا، کوئی غلام یا غریب ہوتا تو اس کو بری طرح مارا پیٹا جاتا اور سخت ناقابل برداشت اذیتیں دی جاتیں، کوئی دکاندار یا کاریگر ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کردیے جاتے یہاں تک کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی، کوئی کسی بااثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور اس کی زندگی اجیرن کردیتے تھے۔ ان حالات نے مکہ میں ایک سخت خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کردیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تو نبی ؐ کی صداقت کے قائل ہوجانے کے باوجود ایمان لاتے ہوئے ڈرتے تھے، اور کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد جب دردناک اذیتوں سے دورچار ہوتے تو پست ہمت ہو کر کفار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں کوئی تنزل پیدا نہ کیا تھا، لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔

اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لیے ہیں، کوئی شخص محض ایمان کے  زبانی دعوےکر کے ان کا مستحق نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر مدعی کو لازماً آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے دعوے کی صلاحیت کا ثبوت دے۔ ہماری جنت اتنی سستی نہیں ہے اور نہ دنیا ہی میں ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں ہیں کہ تم بس زبان سے ہم پر ایمان لانے کا اعلان کرو اور ہم وہ سب کچھ تمہیں بخش دیں۔ ان کے لیے تو امتحان شرط ہے، ہماری خاطر مشقتیں اٹھانی ہوں گی، جان و مال کا زیاں برداشت کرنا ہوگا، طرح طرح کی سختیاں جھیلنی ہوں گی، خطرات، مصیبتیں اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا، خوف سے بھی آزمائے جاؤ گے اور لالچ سے بھی، ہر چیز جسے عزیز و محبوب رکھتے ہو، ہماری رضا پر اسے قربان کرنا پڑے گا اور ہر تکلیف جو تمہیں ناگوار ہے، ہمارے لیے برداشت کرنی ہوگی، تب کہیں یہ بات کھلے گی کہ ہمیں ماننے کا جو دعوی تم نے کیا تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا۔

حقوقِ والدین (۹):    والدین کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔  اور بتایا گیا کہ اگر وہ اللہ کے دین سے انکار کرنے کا کہیں تو انکا حکم ماننا درست نہیں۔

انبیائے سابقین ():  

  • سب سے پہلے حضرت نوحؑ کا ذکر ہے جن کے بارے میں فرمایا گیا کہ انھوں نے ۹۵۰ سال اللہ کے دین کی دعوت پہنچائی اور اسکے بعد تمام ظالموں کی تباہی کی بد دعا مانگی۔
  • ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کا ذکر ملتا ہے۔ پھر جو ان کو امامت عطا کی گئی اور جن نعمتوں سے نوازا گیا، اُن کا تذکرہ ہے۔
  • لوطؑ ، انکے ساتھ اسحاقؑ اور یعقوب ؑ کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ آخر میں شعیب ؑ کی قوم کا ذکر ہے۔  پھر عاد، ثمود، قارون، فرعون اور ہامان سب منکرین اور باغیوں پر بھیجے والے عذاب کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔
  • اللہ کو چھوڑ کر جن جن ہستیوں کو لوگ اپنی اطاعت اور سرپرستی کا مالک بناتے ہین، اُن کی مثال مکڑی جیسی بیان کی گئی ہے۔ وہ بھی اپنا گھر بناتی ہےلیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہی ہوتا ہے۔

الحمد للہ آج کی تراویح کا خلاصہ مکمل ہوا۔  ان شاء اللہ اٹھارویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔  اللہ حافظ