آج دوسری تراویح ہے اور یہ دوسرے پارے کے چھٹے رکوع آیت ۱۷۷ سے سورۃ البقرۃ کے آخر تک چلے گی۔
آیت البرّ: یہ بڑی جامع آیت ہے اس آیت میں نیکی کے روایتی تصور سے ہٹ کر نیکی کا حقیقی تصور پیش کیا گیا ہے۔ یعنی نیکی محض ظاہری شکل و صورت کا نام نہیں بلکہ ایمانیات اور اعمالِ صالحہ کا مجموعہ ہے۔ اور اعمالِ صالحہ میں محض عبادت نہیں بلکہ معاملات بھی شامل ہیں۔ اسی آیت میں انفاق فی سبیل اللہ کی ۶ مدّات بیان کی گئی ہیں جن کے فوراً بعد مراسمِ عبودیت میں سے نماز اور زکوٰۃ کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اخلاق کو کردار کی پختگی کےلیے ایفائے عہد اور تنگی و مصیبت میں صبر کا مظاہرہ اور معرکۂ حق و باطل میں استقامت کا بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ نہ تو تارکِ دنیا کی ہے اور نہ چھوٹی چھوٹی فقہی موشگافیوں میں پڑ کر نیکی کا پندار اور خود ساختہ پیمانہ اختیار کرنے والے معاشرے کی ہے۔ بلکہ یہ تصویر خیر و بھلائی پر مبنی ہے۔
قانونِ قصاص: اسکے بعد قصاص کا قانون بیان کیا گیا ہے اور اسے حیات ِ انسانی کے تحفظ کی ضمانت قرار دیا گیا ہے۔ آج دنیا میں انسانی جان کی بے حرمتی اور انسانی عزت و وقار کی پامالی، قصاص کا قانون معطل و منسوخ ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہ قانون بحال ہوجائے تو کمزور اور مظلوم لوگ محفوظ و مامون ہوجائیں، قانون پسند شہری عزت اور امن سے ہمکنار ہوجائیں اور انسانیت کے بھیس میں چھپے بھیڑیے کیفرِ کردار کو پہنچ جائیں۔ آج نام نہاد روشن خیال قصاص اور حدود کے قوانین کومنسوخ کرانا چاہتے ہیں۔ گویا جرائم پیشہ اور قاتل و قزاق ہمدردی کے مستحق ہیں۔
وصیت: آیت نمبر ۱۸۰ سے ۱۸۲ تک وصیت کی فرضیت کا ذکر ملتا ہے جب کہ وراثت کے بارے میں قانون وضع نہیں کیا گیا تھالیکن قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے، اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے، تو بہت سے وہ سوالات خود ہی حل ہو جائیں ، جو میراث کے بارے میں لوگوں کو اُلجھن میں ڈالتے ہیں۔ مثلاً اُن پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں۔
روزوں کی فرضیت: آیت نمبر ۱۸۳ سے ۱۸۷روزوں کی فرضیت اور اسکے احکام کے بارے میں ہیں۔ روزو ں کی فرضیت کا پہلا حکم ۲ ہجری میں نازل ہوا جس میں بلا عذر روزہ نہ رکھنے کی صورت میں اس کا فدیہ ادا کرنے کی گنجائش رکھی۔ اس سے اگلے سال ۳ ہجری میں اس رعایت کو خاص لوگوں جیسے معذور، بیمار اور مسافروں تک محدود کردیا گیا۔ اب اگر بغیر شرعی عذر کے ایک روزہ بھی کوئی چھوڑے اور اسکے بعد پوری زندگی بھی روزے رکھتا رہے تو اُس ایک کے برابر اجر و ثواب نہیں پاسکے گا۔ لیکن قضاء ساقط نہیں ہوتی۔ بہر حال معذور ۲ وقت کا کھانا کسی مسکین کو کھلادے تو روزہ کا اجر پا لے گا۔
ان ہی آیات میں روزہ کی غرض و غایت بیان کی گئی ہے اور وہ ہے تقویٰ کا حصول۔ روزہ کی حالت سےبہت قریب ہوجاتا ہے اور ہر وقت اللہ کے موجود ہونے کا تصور اسکے ذہن میں تازہ رھتا ہے۔ ان ہی میں قرآن کے نزول کا مہینہ رمضان کو قرار دیا گیا کیونکہ اسی ماہ وحی کا آغاز ہوا تھا اور اسی ماہ ربّ العالمین نے لوح محفوظ مکمل کردیا تھا۔
مظاہرِ قدرت: چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے بارے میں کفار نبی کریمﷺ سے سوال کیا کرتے تھے تو ان کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کے تعین کی علامتیں ہیں۔ نیز بتایا گیا کہ چونکہ حج جو فرض ہے اس کا تعین بھی چاند ہی سے ہوتا ہے۔
جہاد و قتال: آیت نمبر ۱۹۰ میں جہاد کرنے کا پہلی بار حکم دیا گیا ہے اور ۱۹۵ تک اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس سے پہلے مسلمان کمزور اور منتشر تھے، تو ان کو صرف تبلیغ کا حکم تھا اور مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہدایت کی جاتی تھی۔ اب مدینے میں ان کی چھوٹی سی شہری ریاست بن جانے کے بعد پہلی مرتبہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس دعوت اصلاح کی راہ میں مسلح مزاحمت کرتے ہیں، ان کو تلوار کا جواب تلوار سے دو ۔ اس کے بعد ہی جنگ بدر پیش آئی اور لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
یہ بھی بتادیا گیا کہ تمہاری جنگ نہ تو اپنی مادی اغراض کے لیے ہو، نہ ان لوگوں پر ہاتھ اٹھاؤ، جو دین حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے، اور نہ لڑائی میں جاہلیت کے طریقے استعمال کرو۔ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی کرنا، دشمن کے مقتولوں کا مثلہ کرنا، کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا اور دوسرے تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال ” حد سے گزرنے “ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت وارد ہے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ قوت کا استعمال وہیں کیا جائے، جہاں وہ ناگزیر ہو، اور اسی حد تک کیا جائے، جتنی اس کی ضرورت ہو۔
جہاد کو دہشت گردی قرار دینے والوں کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے۔ جہاد تو ظلم اور دہشت گردی کے خاتمے کا ذریعہ ہے۔
عمرہ و حج کے احکام: آیت نمبر ۱۹۶ سے ۲۰۳ تک عمرہ و حج کے احکام و مسائل پر بات کی گئی ہے۔ چونکہ اسلام سے پہلے بھی حج ہوتا تھا لیکن اپنی اصلی شکل کھو بیٹھا تھا اور اس میں بھی شرک کی آمیزیش کردی گئی تھی ساتھ ہی حج کے میعارات تبدیل کردیے گئے تھے۔ جس کو اللہ سبحانہٗ نے ان آیتوں میں تفصیل کے ساتھ رفع کیا ہے اورحج کرنے کا طریقہ بتایا ہے ۔
آیت نمبر ۲۱۹ میں شراب اور جوئے کی حرمت کے بارے میں ابتدائی حکم ملتا ہے جس میں صرف انکو نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ بتدریج بعد میں ان کو مکمل طور پر حرام سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ میں قرار دیا گیا۔
آیت نمبر ۲۲۰ سے ۲۲۱ تک یتامیٰ کے حقوق، ضرورت از زائد مال کرنے کی تلقین اور مشرک عورتوں اور مردوں سے مسلم مردوں اور عورتوں کا نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا۔
عمرہ و حج کے احکام: آیت نمبر ۱۹۶ سے ۲۰۳ تک عمرہ و حج کے احکام و مسائل پر بات کی گئی ہے۔ چونکہ اسلام سے پہلے بھی حج ہوتا تھا لیکن اپنی اصلی شکل کھو بیٹھا تھا اور اس میں بھی شرک کی آمیزیش کردی گئی تھی ساتھ ہی حج کے میعارات تبدیل کردیے گئے تھے۔ جس کو اللہ سبحانہٗ نے ان آیتوں میں تفصیل کے ساتھ رفع کیا ہے اورحج کرنے کا طریقہ بتایا ہے ۔
آیت نمبر ۲۱۹ میں شراب اور جوئے کی حرمت کے بارے میں ابتدائی حکم ملتا ہے جس میں صرف انکو نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ بتدریج بعد میں شراب کو مکمل طور پر حرام سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ میں قرار دیا گیا۔
آیت نمبر ۲۲۰ سے ۲۲۱ تک یتامیٰ کے حقوق، ضرورت سےزائد مال صدقہ کرنے کی تلقین اور مشرک عورتوں اور مردوں سے مسلم مردوں اور عورتوں کا نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا۔
خواتین کے مسائل: آیت نمبر ۲۲۲ سے ۲۴۲ تک خواتین سے متعلق اُمور کے بارے میں احکامات دیے گئے ہیں۔
حیض کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ایک گندگی اور بیماری کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہا جائے اور انکے قریب نہ جایا جائے جب تک وہ پاک صاف نہ ہوجائیں۔
بتایا گیا کہ طلاق دینے کا طریقہ کیا ہو، ایک نشست میں ایک دی جائے اور ایک ماہ بعد پاک ہونے پردوسری اور اسی طرح تیسری۔ گویا کہ بتایا گیا کہ ایک ہی نشست میں ایک ساتھ ۳ طلاقیں دینا زیادتی اور جہالت ہے۔
عدت کے احکام بتائے گئے کہ طلاق یافتہ خاتون کی عدت تین ماہواری اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل ہے، جبکہ بیوہ ہونے والے خاتون کےلیے عدت کی مدت ۴ ماہ ۱۰ دن اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل ہے۔
رضاعت سے متعلق حکم دیا گیا کہ عورت کو اپنے بچے کو دودھ پلانے کی مدت ۲ سال ہے۔
طالوت اورجالوت: آیت نمبر ۲۴۷سے ۲۵۲تک بنی اسرائیل کے قصوں میں سے طالوت اور جالوت کا قصہ ملتا ہے۔ جس میں حضرت سموئیل ؑ نے طالوت کو اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل پر حاکم مقرر کیا تھا تاکہ وہ جالوت کے بڑے لشکر سے مقابلہ کرسکے۔ طالوت مالدار اور معروف حسب و نسب والے فرد نہ تھے بلکہ ایک عام سے نوجوان تھے جنھیں بنی اسرائیل اپنا سردار ماننے پر معترض ہوئے ۔ انھیں نبیؑ کی زبانی انھیں بتایا گیا کہ قیادت کا میعار علم، جسمانی صلاحیت، جرأت اور استقامت ہے نہ کہ مال و دولت اور جاہ و حشمت۔ اس جنگ میں بڑے ڈیل ڈول کے اور طاقتور ، آہنی اسلحے سے لیس جالوت کو بنی اسرائیل کے ایک کم عمر مجاہد داؤدؑ نے قتل کردیا تھا۔ جبکہ اس جنگ میں بنی اسرائیل بہت کمزور تھے اور منافقین انھیں چھوڑ گئے تھے۔
مسلمانوں کی بھی چھوٹی سی جمعیت نے سن ۲ ہجری میں کفار کی بڑی جمعیت کو اسی طرح شکست دی تھی اور کفار کا سردار ابو جہل دو کم عمر مجاہدین معاذؓ اور معوذؓ نے جہنم رسید کیا تھا۔ ان آیات سے پہلے جہاد کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔
آیت الکرسی: آیت نمبر ۲۵۵ حدیث کی رُو سے قرآن کی افضل ترین آیت ، آیت الکرسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان کی گئی ہے۔
اسکے فوری بعد بتادیا گیا کہ دین میں داخل کرنے کے لیے جبر اور قوت کا استعمال جائز نہیں۔ اپنی آزاد مرضی سے جو چاہے وہ دین میں داخل ہوجائے اور جو چاہے کفر کی روش اپنا لے۔ نتیجہ بھی بتادیا گیاکہ ایک روشنی ہے جبکہ دوسری تاریکی۔
اس سے یہ غلط فہمی نہ پیدا ہونے پائے کہ اللہ نے لوگوں کو آزادی دی ہے لہٰذا مسلمان ہونے کے بعد مرضی ہے اللہ کے احکامات پر عمل کریں اور مرضی ہو تو عمل نہ کریں۔ اسلام میں کسی کو مسلمان بنانے کے لیے قوت استعمال نہیں کی جاسکتی لیکن ایک اسلامی معاشرے میں میں اسلامی ریاست میں فرائض پر عمل کا تقاضا کیا جاتا ہے اور کوتاہی کی صورت میں مؤاخذہ کیا جاسکتا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ اور نمرود: آیت نمبر ۲۵۸ سے ۲۶۰ تک ابراہیم ؑ کا ایک بار پھر تذکرہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کیسے وہ وقت کے جابر ربوبیت کے دعوے دار نمرود کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ۔ اور اسے بتایا کہ زندگی و موت اور سورج کے مشرق سے نکلنے اور مغرب میں غروب ہونے پر اُس کا کوئی اختیار نہیں بلکہ سب اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
آیت نمبر ۲۵۹ میں حضرت عزیرؑ کا ذکر ہے جنھوں نے تباہ شدہ بستی کے بارے میں قلب کے اطمینان کےلیے اللہ سے سوال پوچھا تھا کہ وہ کیسے دوبارہ اس کو زندہ کرے گا۔ اللہ نے اسی وقت حضرت عزیرؑ اور انکے گدھے کو ۱۰۰ سال کے لیے موت کی وادی میں سلادیا۔ پھر انھیں زندہ کردیا۔
آیت نمبر ۲۶۰ میں ابراہیمؑ کےاسی طرح کے سوال کے جواب میں انھیں 4پرندے پالنے، پھر انھیں ذبح کرنے اور انکے گوشت آپس میں ملا کر مختلف پہاڑوں پررکھنے کا حکم دیا۔ پھر حکم دیا کہ ان کو اسی آواز میں پکارو جس میں تم انھیں پکارا کرتے تھے۔ چنانچہ ابراہیم ؑ نے ایسا ہی کی اور دیکھا کہ چاروں پرندے اپنی پہلے والے شکل میں صحیح سالم انکے سامنے موجود تھے۔
انفاق فی سبیل اللہ: آیت نمبر۲۶۱ سے ۲۷۴تک مسلسل انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اسی میں بتایا گیاکہ اللہ تعالیٰ مومن کے ایک خرچ کرنے پر ۷۰۰ گنا اجر عطافرماتا ہے اور چاہے تو اس سے بھی زیادہ دے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ اللہ کی راہ میں جس پر خرچ کیا جائے اُس پر کسی قسم کا احسان نہیں جتایا جائے ورنہ دنیا میں مال بھی گیا اور آخرت میں بھی سوائے رُسوائی کے کچھ نہیں ملے گا۔ ان ہی آیات میں وضاحت کی گئی کہ شیطان انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ مال خرچ کرنے سے مال میں کمی واقع ہوجائے گی اور غربت و افلاس ڈیرے ڈال دے گی۔ بتایا گیا کہ ان وسوسوں کو جھٹک دینے والے ہی دراصل کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔
سودکی حرمت: آیت نمبر ۲۷۵ تا ۲۷۹ م سود کی حرمت سےمتعلق ہیں۔ دینا پر آج سودی معیشت پورے آب و تاب سے مسلط ہے۔ سود کے پیچھے بدترین قسم کا لالچ اور کمینگی کی حد تک مال کی محبت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دے دیا۔ اور حدیث میں سود کی حرمت کے حوالے سے آتا ہے کہ یہ وہ گناہ ہے جیسے اپنی ماں سے بدکاری کرلی۔
اللہ تعالیٰ نے سود پرجو سخت وعید سنائی ہے شاید ہی کسی جرم کے بارے اتنی سخت وعید سنائی ہو۔ ہم سمجھتے ہیں یہ انتہا ہے اس فعل کے ناپاک ہونے اور اس سے روکنے کےلیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ “اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے ، اسے چھوڑ دو ، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔(278)۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ (279)”
آیتِ تدایُن: سورۃ بقرۃ کے آخری حصہ میں ادھار کےباہمی لین دین کے احکامات دیے گئے ہیں۔ اور بتایا گیا ہے کہ ادھار لیتے اور دیتے وقت ایک دستاویز تحریر کرلیا کرو اور اس پر ۲ گواہ بنالیا کرو۔ یہ قرآن کریم کے متن کے لحاظ سے طویل ترین آیت ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں کیا جاتا جس تنازعات کھڑے ہوجاتے ہیں اور حل میں مشکل ہوتی ہے۔
سورۃ کا آخری رکوع خواتیم بقرہ بھی کہلاتا ہے اور ان آیات کی بری برکات بیان کی گئی ہیں۔