خلاصہ تراویح 21 رمضان
اکیسویں تراویح
آج کی تراویح میں چوبیسواں سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔ اس میں سورۃ الزمر کے باقی ماندہ حصے کی ، سورۃ المومن مکمل، اور سورۃ حٓمٓ السجدۃ مکمل کی کی تلاوت کی جائے گی۔
اللہ اپنے بندے کےلیے کافی ہے (۳۶۔۴۰):
- کفارِ مکہ رسولؐ اللہ کو ڈرایا کرتے تھے کہ تم ہمارے دیوی دیوتاؤں کو بُرا بھلا کہتے ہو، انکے غضب سے بچو۔ جس کا جواب اللہ نے انہی سے ایک سوال کرکے دیا ہے کہ زرا یہ تو بتاؤ کہ یہ زمین و آسمان کس نے پیدا کیے ہیں؟ تو فوراً کہیں گے اللہ نے۔ پھر اللہ نبی کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ ان سے کہو کہ میرے لیے میرا اللہ ہی کافی ہے۔
موت اور نیند (۴۲):
- آیت نمبر ۴۲ میں موت کا نیند سے موازنہ کیا گیا ہے کہ نیند کی حالت میں انسان کے احساس و شعور، فہم و ادراک اور اختیار و ارادہ کی قوتیں معطل ہوجاتی ہیں۔ اور انسان مُردے کی مانند ہی ہوجاتا ہے۔ تاوقتیکہ وہ اُٹھ نہ جائے، اور کئی ایسے ہوتے ہیں جو سو تو جاتے ہیں لیکن کبھی اُٹھنا اُن کو نصیب نہیں ہوتا اور حقیقی موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے۔
اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو (۵۳۔۵۹):
- اس آیت سے پہلے ایک سلسلہ کلام چلا آرہا تھا کہ اللہ ہی ہے جو جزا و سزا کا مالک ہے، کل قیامت کے دن ہر انسان کے ایک ایک عمل کو اسکے سامنے کھول کر رکھ دے گا۔ اور جب وہ کسی کے حق یا خلاف فیصلہ فرمادے گا تو کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ اُسے تبدیل کراسکے۔ وہی اللہ مالکِ کل ہے رزق دیتا بھی ہے اور اس میں تنگی کرنے والابھی وہی ہے۔ لیکن نبیؐ کو مخاطب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ ! ان ساری چیزوں کے باوجودمیرے نافرمان بندوں سے کہہ دو کہ “لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ” اُس کی طرف پلٹ آؤ وہ سب گناہ معاف کردے گا۔ وہ تو غفور الرحیم ہے۔ لہٰذا پلٹ آؤ اپنے ربّ کی طرف اور اسکے مطیع بن جاؤ اور پیروی کرلو اسکی کتاب کی۔ بعد میں افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
آخری فیصلہ (۶۷۔۷۵):
- ان آیات میں قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور بتایا گیاکہ قیامت کے روز پوری زمین اللہ کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے سیدے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔
- اُس روز صور پھونکا جائے گا اور سب مر کر گر جائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سوائے اُن کے جنہیں اللہ زندہ رکھنا چاہے۔ پھر ایک دوسرا صور پھونکا جائے گا اور یکایک سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔
- زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی، کتابِ اعمال لا کر رکھ دی جائے گی، انبیاء اور تمام گواہ حاضر کردیے جائیں گے، لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔
- اس فیصلے کے بعد وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا جہنم کی طرف گروہ در گروہ ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے ۔ اور اس کے کارندے ان سے کہیں گے ‘’ کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے، جنہوں نے تم کو تمہارے ربّ کی آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایا ہو کہ ایک وقت تمہیں یہ دن بھی دیکھنا ہوگا ” ؟ وہ جواب دیں گے ‘’ ہاں، آئے تھے، مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر ثابت ہو کر رہا “(71)۔ انہیں کہا جائے گا کہ : جہنم کے دروازوں سے داخل ہوجاؤ تم ہمیشہ اس میں رہو گے تکبر کرنے والوں کے لیے یہ کیسا برا ٹھکانہ ہوگا (72)۔
- اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنّت کی طرف لے جایا جائے گا ۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے ، تو اس کے منتظمین اُن سے کہیں گے کہ ’’سلام ہو تم پر ، بہت اچھے رہے داخل ہو جاؤ اِس میں ہمیشہ کے لیے ‘‘ (73) اور وہ کہیں گے ’’شکر ہے اُس معبود کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں‘‘ پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے ۔ (74)
- اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد اور تسبیح کر رہے ہوں گے ۔ اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا ، اور پورا ماحول پکار رہا ہوگا کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔
سورۃ المومن ..یا.. غافر:
- سورۃ المومن ایک مکی سورۃ ہے۔ اس سورۃ کو سورۂ غافر کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
- جن حالات میں یہ سورة نازل ہوئی ہے وہ یہ تھے کہ! کفار مکہ نے اس وقت نبی ؐکے خلاف دو طرح کی کاروائیاں شروع کر رکھی تھیں۔ ایک یہ کہ ہر طرف جھگڑے اور بحثیں چھیڑ کر، طرح طرح کے الٹے سیدھے سوالات اٹھا کر، اور نت نئے الزامات لگا کر قرآن کی تعلیم اور اسلام کی دعوت اور خود نبی ؐکے بارے میں اتنے شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کردیے جائیں کہ ان کو صاف کرتے کرتے آخر کار حضورؐ اور اہل ایمان زچ ہوجائیں۔
- دوسرے یہ کہ آپ کو قتل کرنے کی سازشیں کر رہے تھے، اور ایک مرتبہ تو عملاً انہوں نے اس کا اقدام کر بھی ڈالا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک روز نبیؐ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے۔ یکایک عقبہ بن ابی مُعَیط آگے بڑھا اور اس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اسے بل دینا شروع کردیا تاکہ گلا گھونٹ کر آپؐ کو مار ڈالے مگر عین وقت پر حضرت ابوبکر پہنچ گئے اور انہوں نے دھکا دے کر اسے ہٹا دیا۔ حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ جس وقت ابوبکر صدیق اس ظالم سے کشمکش کر رہے تھے اس وقت ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَ بِّیَ اللہ (کیا تم ایک شخص کو صرف اس قصور میں مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ؟ ) ۔
- قتل کی سازشوں کے جواب میں مومن آل فرعون کا قصہ سنایا گیا ہے ( آیت 23 تا 55)۔ اس قصے کے پیرائے میں ۳ گروہوں کو تین مختلف سبق دیے گئے ہیں۔
- کفار کو بتایا گیا ہے کہ جو تم محمدؐ کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو یہی کچھ اپنی طاقت کے بھروسے پر فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کرنا چاہتا تھا، اب کیا یہ حرکتیں کر کے تم بھی اسی انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو جس سے وہ دوچار ہوا ؟
- نبیؐ اور آپؐ کے ماننے والوں کو یہ سبق دیا گیا کہ یہ ظالم بظاہر خواہ کتنے ہی طاقتور ہوں، اور تم خواہ کتنے ہی کمزور اور بےبس ہو، مگر تمہیں یقین رکھنا چاہیے کہ جس اللہ کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے تم اُٹھے ہو اُس کی طاقت ہر دوسری طاقت پر بھاری ہے۔
- ان دو گروہوں کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی معاشرے میں موجود تھا، اور وہ اُن لوگوں کا گروہ تھا جو دلوں میں جان چکے تھے کہ حق محمدؐ کے ساتھ ہے ۔ مگر یہ جان لینے کے باوجود وہ خاموشی کے ساتھ حق و باطل کی اس کشمکش کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر ان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ جب حق کے دشمن علانیہ تمہاری آنکھوں کے سامنے اتنا بڑا ظالمانہ اقدام کرنے پر تل گئے ہیں تو حیف ہے تم پر اگر اب بھی تم بیٹھے تماشا ہی دیکھتے رہو۔ اس حالت میں جس شخص کا ضمیر بالکل مر نہ چکا ہو اسے تو اٹھ کر وہ فرض انجام دینا چاہیے جو فرعون کے بھرے دربار میں اس کے اپنے درباریوں میں سے ایک راستباز آدمی نے اس وقت انجام دیا تھا جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنا چاہا تھا۔
- دوسری آیت میں قرآن پاک کا تعارف کراتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نازل کردہ ہے۔
- تیسری آیت میں باری تعالیٰ کی صفات کا بہت خوبصورت پیرائے میں ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ وہ غَافِرِ الذَّنْۢبِ یعنی گناہوں کو بخشنے والا ہے، وَقَابِلِ التَّوْبِیعنی توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ اور جو توبہ کرکے اپنے گناہوں کو نہ بخشوا لے تو پھر وہ ربّ شَدِيْدِ الْعِقَابِ یعنی سخت ترین عذاب دینے والا بھی ہے۔ لہٰذا اُس کی طرف پلٹو تاکہ تم پر وہ اپنا فضل کرے کیونکہ فضل کرنا اُس کی خاص صفت ہے۔ اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ اُسی کی طرف سب کو پلٹ کر واپس جانا ہے۔ کوئی جانا چاہے تب بھی جانا ہے اور نہ چاہے تب بھی اُسی کے پاس جانا ہے۔
کفار کے ٹھاٹ باٹ محض ایک دھوکہ ہیں (۴):
- بتایا گیا کہ کافر دنیاوی اعتبار سے کتنے ہی کامیاب نظر آئیں، کتنے ہی متمول نظر آئیں لیکن ایمان والوں کے ایمان ، کفار کے دنیاوی ٹھاٹھ باٹ اور جاہ و منصب دیکھ کر ڈگمگانا نہیں چاہیئں۔ یہ تو چند دن کی زندگی ہے جو محض دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اصل کامیابی اُخروی کامیابی ہے، وہ جس کو مل گئی وہی کامیاب ہو کر ہمیشگی کے انعامات کا مستحق ٹہرے گا۔
اہلِ ایمان کے لیے خوشخبری (۷۔۹):
- اہلِ ایمان کو خوشخبری دی گئی کہ عرشِ الٰہی اور اُس کے آس پاس خدمات انجام دینے والے فرشتے جو ہر وقت اپنے ربّ کی پاکی بیان کررہے ہیں ، اہلِ ایمان کے حق میں دُعائے مغفرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پروردگار تو اِن لوگوں کی لغزشوں کو معاف کردے ، انکی توبہ کو قبول کرلے، انھیں جہنم کی آگ سے بچا لے، داخل کردے انھیں، انکے نیکوں کار والدین، بیویوں اور اولاد کو اپنی جنت میں۔ ساتھ ہی انھیں برائیوں سے بچائے رکھ۔
اہلِ کُفر کےلیے وعید (۱۰۔۱۲):
- قیامت کے دن کفار کو پکارتے ہوئے کہا جائے گا کہ جیسے آج تمھیں اپنے آپ پر تعذیب سہتے ہوئے غصہ آرہا ہے۔ جب تم دنیا میں تھے تو تمھاری حرکتوں پر اللہ کو اس سے کہیں زیادہ غصّہ آیا کرتا تھا۔ تب وہ کہیں گے اے ربّ آج ہمیں یقین آگیا کہ تو نے واقعی ہمیں ۲ بار موت دی اور ۲ بار زندگی دی۔ کیونکہ انسان مردہ تھا یعنی اس کا وجود نہیں تھا ربّ نے اُسے دنیا میں پیدا کیا، پھر اُسے دوبارہ دینا میں موت دے دی، اور پھر آخرت میں زندہ کردیا گیا۔ وہ کہیں گے بس ایک بار مولا واپس دنیا میں جانے دے، تیری کوئی نافرمانی نہیں کریں گے۔ (جواب ملے گا) ’’ یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو ، اس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتاتو تم مان لیتے تھے۔ اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے۔ ‘‘
بادشاہی کس کی ہے؟ (۱۳۔۲۰):
- وہ اللہ اپنی بے پایاں نعمتوں کا نزول کرکے دنیا میں عقل رکھنے والوں کو دعوتِ فکر دیتا رہتا ہے۔ اس لیے کہ وہ تمام دنیاوی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر حق کو حق اور باطل کو باطل کہیں چاہے کافروں کو کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے۔ کیونکہ جواب دہی سب نے آخر کار آخرت ہی میں کرنی ہے۔ جس دن سب لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے ربّ کے سامنے بے پردہ ہونگے اور اللہ پوچھے گا دنیا میں گردن اکڑا کر چلنے والو، اپنی مرضی کے قانون چلانے والو زرا بتاؤ تو سہی!!! آج بادشاہی کی ہے؟ اُس وقت سب پکار اُٹھیں گے “اللہ واحدِ قہار کی”۔ اُس روز وہ بادشاہ ہر متنفس کے ساتھ پورا پورا انصاف کرے گا، جس نے جو کمایا ہوگا مزدوری میں وہی اُسے ملے گا۔ اُس کسی کی مزدوری میں زرّہ برابر بھی کوئی تبدیلی نہیں کروا سکے گا، کسی کی کوئی سفار ش نہیں چلے گی کیونکہ اللہ تو دلوں کے بھید اور آنکھوں کی چوری کا حساب بھی کرے گا جو اُسکے سوا کسی کو نہیں معلوم۔
ان حالات سے موسیٰ علیہ السلام بھی گزر چکے ہیں:
- فرمایا گیا اے نبیؐ ان کفار کے جھگڑوں، بحثوں، الٹے سیدھے سوالات ، نت نئے الزامات اور اپنے خلاف قتل کی سازش سے دلبرداشتہ نہ ہو۔ یہ صرف تمھارے ساتھ نہیں رہا۔ تم سے پہلے موسیٰ ؑ کو بھی ہم نے بھیجا تھا تو اُس کے ساتھ بھی فرعون اور آلِ فرعون نے ایسا ہی کیا تھا۔ آج جس طرح ابوبکرؓ نے آپ کو ظالم کے چنگل سے چھڑانے کے لیے ان کفار کی تعذیب برداشت کی ہے کل موسیٰ ؑ کے قتل کی سازشوں کے خلاف فرعون کے دربار میں آواز اُٹھانےپر “مومن نامی فرد” کے ساتھ بھی یہی ہوچکا ہے۔ جس طرح تمھارے خلاف اللہ انکی ہر چال کو ناکام کرے گا اسی طرح موسیٰ ؑ کے خلاف ہر چال کو ناکام کرچکا ہے اور بالآخر غرق فرعون اور اسکی آل ہی ہوئی۔
خسارے کا سودا کرنے والے:
- آخری رکوع میں انسان کو اسکی تخلیق کی طرف متوجہ کیا گیا اور فرمایا ہے کہ اُن ساری منازل اور مراحل کو دیکھ کر تمھیں حقیقت کو پالینا چاہیے۔ کائنات کا خالق و مالک ہی زندگی، موت اور تمام اُمور پر قادر ہے۔ جانور تمھارے لیے پیدا کیے جن سے تم نفع حاصل کرتے ہو۔ سابقہ اقوام بڑی طاقتور، اور شان دار تہذیب و تمدن کی خالق تھیں، مگر اللہ سے رو گردانی کرکے تباہ ہوگئیں۔ فرمایا گیاکہ غلط کار لوگ اور کفار خسارے کا سودا کرتے ہیں، خسارہ ہی اُن کا مقدر ہوگا۔
سورۃ حٰمٓ السجدہ ..یا .. فُصِّلَت:
- یہ ایک مکی سورۃ ہے اور مکہ کے بھی اُس دور کی جب سید الشہداء حضرت حمزہؓ ایمان لاچکے تھے اور حضرت عمرؓ بن خطاب اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔
سورۃ کا پس منظر:
- ایک دفعہ قریش کے کچھ سردار مسجد حرام میں محفل جمائے بیٹھے تھے اور مسجد کے ایک دوسرے گوشے میں رسول اللہ ﷺ تنہا تشریف رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت حمزہؓ ایمان لا چکے تھے اور قریش کے لوگ مسلمانوں کی جمعیت میں روز افزوں اضافہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ اس موقع پر عتبہ بن ربیعہ (ابو سفیان کے خسر) نے سرداران قریش سے کہا کہ صاحبو! اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمدؐ سے بات کروں اور ان کے سامنے چند تجویزیں رکھوں، شاید کہ وہ ان میں سے کسی کو مان لیں اور ہم بھی اسے قبول کرلیں اور اس طرح وہ ہماری مخالفت سے باز آجائیں۔
- چنانچہ عتبہ اٹھ کر نبیؐ کے پاس جا بیٹھا۔ آپؐ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا ” بھتیجے، تم اپنی قوم میں اپنے نسب اور خاندان کے اعتبار سے جو حیثیت رکھتے ہو وہ تمہیں معلوم ہے۔ مگر تم اپنی قوم پر ایک بڑی مصیبت لے آئے ہو۔ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بیوقوف ٹھہرایا۔ قوم کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ اور ایسی باتیں کرنے لگے جن کے معنی یہ ہیں کہ ہم سب کے باپ دادا کافر تھے۔ اب ذرا میری بات سنو۔ میں کچھ تجویزیں تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ ان پر غور کرو۔ شاید کہ ان میں سے کسی کو تم قبول کرلو “۔
- اس نے کہا، ” بھتیجے، یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے، اس سے اگر تمہارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم سب مل کر تم کو اتنا کچھ دیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ۔
- اگر اس سے اپنی بڑائی چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں۔
- اگر تم پر کوئی جن آتا ہے جسے تم خود دفع کرنے پر قادر نہیں ہو تو ہم بہترین اطبا ءبلواتے ہیں اور اپنے خرچ پر تمہارا علاج کراتے ہیں۔
- عتبہ کی باتیں مکمل ہونے پر آپؐ نے فرمایا، ابوالولید آپ کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے ؟ اس نے کہا، ہاں۔ ، آپؐ نے فرمایا اچھا، اب میری سنو۔
- آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر اسی سورة کی تلاوت شروع کی اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ آیت سجدہ (آیت 38) پر پہنچ کر آپؐ نے سجدہ کیا، پھر سر اٹھا کر فرمایا، ” اے ابوالید، میرا جواب آپ نے سن لیا، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ “
- عتبہ اٹھ کر سرداران قریش کی مجلس کی طرف چلا تو لوگوں نے دور سے اس کو دیکھتے ہی کہا، معبود کی قسم، عتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے، یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر یہ گیا تھا۔ پھر جب وہ آ کر بیٹھا تو لوگوں نے کہا : کیا سن آئے ؟ اس نے کہا : ” بمعبود، میں نے ایسا کلام سنا کہ کبھی اس سے پہلے نہ سنا تھا۔ معبود کی قسم، نہ یہ شعر ہے، نہ سحر ہے نہ کہانت۔ اے سرداران قریش، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلام کچھ رنگ لا کر رہے گا۔ فرض کرو، اگر عرب اس پر غالب آگئے تو اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے تم بچ جاؤ گے اور دوسرے اس سے نمٹ لیں گے۔ لیکن اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی، اور اس کی عزت تمہاری عزت ہی ہوگی۔ ” سرداران قریش اس کی یہ بات سنتے ہی بول اٹھے، ” ولید کے ابا، آخر اس کا جادو تم پر بھی چل گیا۔ ” عتبہ نے کہا، میری جو رائے تھی وہ میں نے تمہیں بتادی، اب تمہارا جو جی چاہے کرتے رہو (ابن ہشام، جلد 1، ص 313 ۔ 314)
تعارفِ قرآن (۲۔۴):
- یہ قرآن رحمٰن ورحیم کی جانب سے نازل کردہ ہے ، عربی اسکی زبان ہے، واضح نشانیاں اس میں بیان کی گئی ہیں۔ اچھے اعمال پر کامیابی کی خوشخبری دینے والا اور ربّ کی نافرمانیوں پر خبردار کرنے والا ہے۔ لیکن اکثر اس سے رو گردانی کرتے ہیں۔
عتبہ کی پیشکش کا جواب :
- عتبہ کی بات کو دھرایا گیا کہ “ کہتے ہیں ’’ جس چیز کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں، ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں، اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا ہے ۔ تو اپنا کام کر، ہم اپنا کام کیے جائیں گے ۔ جواباً نبیﷺ سے کہلوایا جارہا ہے کہ “اے نبی ﷺ ، ان سے کہو ، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسامجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا معبود تو بس ایک اللہ ہے ، لہٰذا تم سیدھے اُسی کا رخ اختیار کرو، اور اس سے معافی چاہو ۔ تباہی ہے اُن مشرکوں کے لیے (6) جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ پھر مسلسل تین رکوعوں تک یہ تقریر چلتی ہے جس میں گزری ہوئی مغضوب قوموں اور انکی تباہی کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے۔
انسان کے اعضاء کی گواہی:
- تیسرے رکوع میں فرمایا گیا کہ اُس روز گواہیاں خارجی بھی ہونگی، لیکن داخلی گواہی سب سے معتبر ہوگی اور وہ یہ کہ انسانوں کی آنکھیں، کان، ناک، اور جسم کے دیگر اعضاء اُن کے حق میں یا مخالفت میں گواہی دیں گے۔ اور ہو سکتا ہے پوری گزری ہوئی زندگی کی فلم چلادی جائے۔ تاکہ اُن کے پاس انکار کا کوئی جواز باقی نہ رہے۔
قرآن کی حقانیت اور اہلِ ایمان (۳۰۔۳۲):
- کافر اور منکرینِ حق قرآن کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے اورآج بھی یہی کیفیت ہے۔ یہ قرآن پیغامِ ربّانی ہے، ہدایتِ کامل ہے اور جامع نظام پیش کرتا ہے۔ انسان اُس کی طرف رُجوع کرے تو شیطان اور طاغوت کی چالیں ناکام ہوجائیں۔ اسی لیے شیطان اور شیطانی قوتیں لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچنے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔ چوتھا رکوع اسی موضوع سے متعلق ہے۔ رکوع کے آخر میں مومنین کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ اللہ کو اپنا ربّ تسلیم کرلینے کے بعد اس پر ثابت قدم ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ “نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے (۳۰) ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی ۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی،(۳۱) یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے۔‘‘ (۳۲)
دعوت اور داعی (۳۳۔۳۵):
- اہل ایمان کو تسکین دینے اور ان کی ہمت بندھانے کے بعد اب ان کو ان کے اصل کام کی طرف رغبت دلائی جا رہی ہے۔ اور وہ یہ کہ تم خوب نیک عمل کرو، اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلاؤ، اور شدید مخالفت کے ماحول میں بھی، جہاں اسلام کا اعلان و اظہار کرنا اپنے اوپر مصیبتوں کو دعوت دینا ہے، ڈٹ کر کہو کہ میں مسلمان ہوں۔
- بتایا گیا کہ نیکی اور بدی کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے مقابلے میں سمجھایا جارہا ہے کہ بدی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ بدی بالآخر بدی کرنے والے کا ہی بھٹہ بٹھا دیتی ہے۔ لہذا داعی الیٰ اللہ کو بدی کا جواب کبھی بدی سے نہ دینا چاہیے۔ اور اس سے اگلا اقدام یہ ہونا چاہیے کہ اس کی بدی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ اس طرح دشمن خود شرمندہ ہوگا ۔ وہ آپ کے خلوص اور آپ کی خیرخواہی اور راست بازی کا معتقد ہوجائے گا حتیٰ کہ آپ کی مخالفت چھوڑ کر آپ کے ساتھ آملے گا اور آپ کا جگری دوست بن جائے گا۔
- برائی کا جواب اچھائی سے دینے کا کام کوئی بچوں کا کھیل نہیں بلکہ بڑے حوصلہ اور دل گردہ کا کام ہے۔ اور ایسے کام وہی کرسکتا ہے جو بڑا صاحب ِعزم اور عالی حوصلہ ہو۔ ایسے لوگ سب سے بہتر ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے کی راہ میں یقیناً شیطان آڑے آتا ہے ، جب ایسا ہو تو اس کو زیر کرنے کا بہترین نسخہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی پناہ میں آجانا چاہیے تاکہ وہ اپنے عزائم میں ناکام ہوجائے۔
ایک زبردست کتاب (۴۱۔۴۶):
- ان آیات میں بتایا گیا کہ قرآن ایک ایسی زبردست کتاب ہے جس میں باطل نہ سامنے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔
- سامنے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پر براہ راست حملہ کر کے اگر کوئی شخص اس کی کسی بات کو غلط اور کسی تعلیم کو باطل و فاسد ثابت کرنا چاہے تو اس میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
- پیچھے سے نہ آ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کوئی حقیقت و صداقت ایسی منکشف نہیں ہو سکتی جو قرآن کے پیش کردہ حقائق کے خلاف ہو، کوئی علم ایسا نہیں آسکتا جو فی الواقع ” علم ” ہو اور قرآن کے بیان کردہ علم کی تردید کرتا ہو، کوئی تجربہ اور مشاہدہ ایسا نہیں ہوسکتا جو یہ ثابت کر دے کہ قرآن نے عقائد، اخلاق، قانون، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست و تمدن کے باب میں انسان کو جو رہنمائی دی ہے وہ غلط ہے۔ اس کتاب نے جس چیز کو حق کہہ دیا ہے وہ کبھی باطل ثابت نہیں ہو سکتی اور جسے باطل کہہ دیا ہے وہ کبھی حق ثابت نہیں ہو سکتی۔
یہ سورۃ ابھی جاری ہے ان شاء اللہ اُس کا مطالعہ اسی تسلسل کے ساتھ کل جاری رہے گا۔
ان شاء اللہ بائیسویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔ جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ