خلاصہ تراویح 27 رمضان
ستائسویں تراویح
آج ستائسویں تراویح ہے اور اس میں 8 سورتوں کی تلاوت کی جائے گی جن میں سورۃ التحریم سورۃ المُلک، سورۃ القلم، سورۃ الحآقّہ ، سورۃ المعارج، سورۃ نوح، سورۃ الجنّ، اور سورۃ المزمّل شامل ہیں۔
سورۃ التحریم:
پس منظر:
- رسول اللہ کا روز مرہ کا معمول تھا کہ آپ نماز عصر کے بعد اپنے سب گھروں میں اپنی بیویوں کے ہاں چکر لگایا کرتے تھے۔ تاکہ گھریلو حالات سے پوری طرح باخبر رہیں اور خیروعافیت کی صورت معلوم ہوتی رہے۔ ایک دفعہ جب آپ سیدہ زینب ؓبنت جحش کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو شہد کا شربت پلایا۔ اس طرح آپ کو وہاں کچھ دیر لگ گئی۔ چونکہ آپؐ کو شہد اور اس کا شربت بہت پسند تھا۔ لہذا یہ بھی ایک طرح سے روزمرہ کا معمول بن گیا۔ یہ بات دوسری بیویوں اور بالخصوص سیدہ عائشہؓ کو ناگوار گزری۔ چنانچہ انھوں نے حضرت سودہؓ اور حضرت حفصہؓ سے مل کر طے کیا کہ آپ سے کہا جائے کہ آپ کے منہ سے مغافیر (ایک قسم کاپھول) کی بو آتی ہے پھر جب دوسری اور تیسری بیوی نے بھی یہی بات کہی تو آپ کو وہم ہونے لگا کہ شاید ایسی بدبو واقعی آرہی ہو اور آپؐ نفاست پسند تھے۔ لہذا آپ نے قسم کھالی کہ میں یہ شہد نہیں پیا کروں گا۔
حلال و حرام کا اختیار صرف اللہ کا (۱۔۲):
- مذکورہ پس منظر میں آیت نمبر (۱) میں اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کی گرفت کی کہ اپنی بیویوں کو خوش کرنے کے لیے اللہ کی حلا ل کی گئی چیز کو خود پر کیوں حرام کرتے ہیں۔ آیت میں ازواج کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اُن کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ انہوں نے ازواج نبی ؐ ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا اور حضورؐ سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوسکتا تھا۔
- اگلی آیت میں حکم دیا گیا کہ اپنی قسم کو توڑیں اور اس کا کفارہ ادا کریں اور اُس حرام کو جو خود آپؐ نے اپنے لیے کیا واپس حلال کرلیں۔
نبیؐ کا راز (۳):
- نبیؐ نے اپنی کسی بیوی کو کوئی راز کی بات بتائی تھی جسے انھوں نے دوسری بیوی کے سامنے افشا کردیا تھا جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو وحی کے ذریعے دے دی تھی۔ اس پر آپؐ نے اپنی اُن اہلیہ کو خبردار کیا اور درگزر سے کام لیا۔ اصل غرض جس کے لیے اس معاملے کو قرآن مجید میں بیان کیا گیا یہ ہے کہ زوجۂ نبیؐ کے عظیم المرتب شوہر نے جو بات راز میں ان سے فرمائی تھی اسے انہوں نے راز نہ رکھا اور اس کا افشا کردیا۔ یاد رہنا چاہیے کہ جس شخص کا منصب معاشرے میں جتنا زیادہ ذمہ دارانہ ہوگا اتنے ہی زیادہ اہم اور نازک معاملات اس کے گھر والوں کے علم میں آئیں گے۔ ان کے ذریعہ سے راز کی باتیں دوسروں تک پہنچ جائیں تو کسی وقت بھی یہ کمزوری بڑے خطرے کی موجب بن سکتی ہے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا (۶):
- اس آیت میں بتایا گیا کہ ایک مسلمان کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ اللہ نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ اپنی استطاعت کے مطابق ایسی تعلیم و تربیت دے جس سے وہ اللہ کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوشحال ہوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔
تین عورتین تین مثالیں (۱۰۔۱۱):
- سورۃ کے آخر میں اس معاملے میں خاص طور پر ازواج مطہرات کے سامنے تین قسم کی عورتوں کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔ ایک مثال حضرت نوح ؑ اور حضرت لوط ؑ کی بیویوں کی ہے، جو اگر ایمان لاتیں اور اپنے جلیل القدر شوہروں کا ساتھ دیتیں تو جنت میں ہوتیں لیکن چونکہ انہوں نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا، اس لیے انبیاء کی بیویاں ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا اور وہ جہنم کی مستحق ہوئیں۔ دوسری مثال فرعون کی بیوی (آسیہ) کی ہے، جو اگرچہ ایک بدترین دشمن اللہ کی بیوی تھیں، لیکن چونکہ وہ ایمان لے آئیں ، اس لیے فرعون جیسے اکفر الکافرین کی بیوی ہونا بھی ان کے لیے کسی نقصان کا موجب نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت کا مستحق بنادیا۔ تیسری مثال حضرت مریم ؑ کی ہے جنہیں یہ عظیم مرتبہ ملا کہ اللہ نے جس شدید آزمائش میں انہیں ڈالنے کا فیصلہ فرمایا تھا اس کے لیے انہوں نے سر تسلیم خم کیا۔
سورۃالمُلک:
سورة الملک کی فضیلت :
سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قرآن میں ایک تیس آیتوں والی سورت ہے۔ اس سورت نے ایک آدمی کی شفاعت کی تاآنکہ اسے بخش دیا گیا اور وہ سورت(الملک) ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة الملک)
آنحضرت کا ارشاد ہے۔” میں چاہتا ہوں کہ میری امت کے ہر شخص کے دل میں سورة ملک ہو۔ (مسند رک حاکم)
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آنحضرت سورة الم تنزیل السجدہ اور سورة تبارک الذی بیدہ الملک ہر رات پڑھتے اور سفر و حضر میں کبھی ناغہ نہ کرتے۔
کائنات ایک بے عیب سلطنت (۱۔۴):
- پہلی پانچ آیتوں میں انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ وہ جس کائنات میں رہتا ہے وہ ایک انتہائی منظم اور محکم سلطنت ہے جس میں ڈھونڈے سے بھی کوئی عیب یا نقص یا خلل تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلطنت کو عدم سے وجود میں بھی اللہ تعالٰی ہی لایا ہے اور اس کی تدبیر و انتظام اور فرمانروائی کے تمام اختیارات بھی بالکلیہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور اس کی قدرت لامحدود ہے۔ ساتھ ہی انسان کو بتایا گیا ہے کہ اس انتہائی حکیمانہ نظام میں وہ امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس امتحان میں وہ اپنے حسن عمل ہی سے کامیاب ہو سکتا ہے۔
کفر کے ہولناک نتائج (۶۔۱۱):
- آیت 6 سے 11 تک کفر کے وہ ہولناک نتائج بیان کیے گئے ہیں جو آخرت میں نکلنے والے ہیں اور لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے انبیاء کو بھیج کر تمہیں اس دنیا میں ان نتائج سے خبردار کر دیا ہے۔ اب اگر یہاں تم انبیاء کی بات مان کر اپنا رویہ درست نہ کرو گے تو آخرت میں تمہیں خود اعتراف کرنا پڑے گا کہ جو سزا تم کو دی جا رہی ہے فی الواقع تم اس کے مستحق ہو۔
خالق مخلوق سے باخبر ہے (۶۔۱۱):
- آیت 12 سے 14 تک بتایا گیا کہ خالق اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں ہو سکتا۔ وہ تمہاری ہر کھلی اور چھپی بات، حتٰی کہ تمہارے دل کے خیالات تک سے واقف ہے۔ لہٰذا اخلاق کی صحیح بنیاد یہ ہے کہ انسان اس اَن دیکھے اللہ سے ڈر کر برائی سے بچے۔
اللہ کی تخلیق کی مثالیں ( ۱۵۔۲۳):
- آیت 15 سے 23میں اللہ نے اپنی تخلیق کی مثالیں پیش کی ہیں۔ فرمایا گیا ہے کہ اس زمین کو دیکھو جس پر تم اطمینان سے چل پھر رہے ہو اور جس سے اپنا رزق حاصل کر رہے ہو۔ اللہ ہی نے اسے تمہارے لیے تابع کر رکھا ہے، ورنہ کسی وقت بھی اس زمین میں ایسا زلزلہ آ سکتا ہے کہ تم پیوند خاک ہو جاؤ، یا ہوا کا ایسا طوفان آ سکتا ہے جو تمہیں تہس نہس کر کے رکھ دے۔ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو دیکھو۔ اللہ ہی تو ہے جو انہیں فضا میں تھامے ہوئے ہے۔ اپنے تمام ذرائع و وسائل پر نگاہ ڈال کر دیکھو۔ اللہ اگر تمہیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو کون تمہیں اُس سے بچا سکتا ہے اور اللہ اگر تمہارے لیے رزق کے دروازے بند کر دے تو کون انہیں کھول سکتا ہے؟ یہ ساری چیزیں تمہیں حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے موجود ہیں۔ مگر انہیں تم حیوانات کی طرح دیکھتے ہو جو مشاہدات سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اور اس سماعت و بینائی اور ان سوچنے سمجھنے والے دماغوں سے کام نہیں لیتے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اللہ نے تمہیں دیے ہیں۔ اسی وجہ سے راہ راست تمہیں نظر نہیں آتی۔
نبی کا کام قیامت کا وقت بتانا نہیں (۲۴۔۲۷):
- آیت 24 سے 27 تک بتایا گیا ہے کہ آخر کار تمہیں لازماً اپنے اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ نبی کا کام یہ نہیں ہے کہ تمہیں اس کے آنے کا وقت اور تاریخ بتائے۔ اس کا کام بس یہ ہے کہ تمہیں اس آنے والے وقت سے پیشگی خبردار کردے۔ تم آج اس کی بات نہیں مانتے اور مطالبہ کرتے ہو کہ وہ وقت لا کر تمہیں دکھا دیا جائے۔ مگر جب وہ آ جائے گا اور تم آنکھوں سے اسے دیکھ لو گے تو ہمارے ہوش اڑ جائیں گے۔ اس وقت تم سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جسے جلد لے آنے کا تم مطالبہ کر رہے تھے۔
کفار سے دو سوال (۲۸۔۳۰):
- ان آیات میں کفار سے ایک سوال کیا گیا جب کہ وہ نبیؐ اور آپ کے ساتھیوں کو کوستے تھے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ تمہیں راہ راست کی طرف بلانے والے خواہ ہلاک ہوں یا اللہ ان پر رحم کرے، اس سے آخر تمہاری قسمت کیسے بدل جائے گی؟ تم اپنی فکر کرو کہ اللہ کا عذاب اگر تم پر آ جائے تو کون تمہیں بچائے گا؟
- آخر میں لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھ کر سوچنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ عرب کے صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں، جہاں تمہاری زندگی کا سارا انحصار اس پانی پر ہے جو کسی جگہ زمین سے نکل آیا ہے، وہاں اگر یہ پانی زمین میں اتر کر غائب ہو جائے تو اللہ کے سوا کون تمہیں یہ لا کر دے سکتا ہے؟
سورۃالقلم:
وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (۱۔۸):
- اللہ نے قلم کی قسم کھائی ہے اور پھر اس سے جو لکھا جارہا تھا یعنی قرآن مجید کی قسم کھائی ہے ۔ اور بتایا کہ
- اے رسولؐ یہ کفار تم کو دیوانہ کہتے ہیں، حالانکہ جو کتاب تم پیش کر رہے ہو اور اخلاق کے جس اعلٰی مرتبے پر تم فائز ہو وہ خود ان کے اس جھوٹ کی تردید کے لیے کافی ہے۔ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب سب ہی دیکھ لیں گے کہ دیوانہ کون تھا اور فرزانہ کون۔ لہٰذا مخالفت کا جو طوفان تمہارے خلاف اٹھایا جا رہا ہے اس کا دباؤ ہرگز قبول نہ کرو۔ دراصل یہ ساری باتیں اس لیے کی جا رہی ہیں کہ تم کسی نہ کسی طرح دب کر ان سے مصالحت کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
مذمت بلا نام (۱۰۔۱۶):
- ان آیات میں نام لیے بغیر مخالفین میں سے ایک نمایاں شخص کا کردار پیش کیا گیا ہے جسے اہل مکہ خوب جانتے تھے۔ اس وقت رسول ؐاللہ کے پاکیزہ اخلاق بھی سب کے سامنے تھے، اور ہر دیکھنے والا یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ آپ کی مخالفت میں مکہ کے جو سردار پیش پیش ہیں ان میں کس سیرت و کردار کے لوگ شامل ہیں۔
باغ والے (۱۷۔۳۳):
- خوب پھل لانے والے کسی باغ کے مالک تین بھائیوں کی مثال دے کر اہل مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ رسول ؐاللہ کی بعثت سے تم بھی اسی آزمائش میں پڑ گئے ہو جس میں وہ باغ والے تھے ( تین بھائیوں کا ایک باغ تھا جن میں سے دو نے غربا پر اپنے دروازے بند کردیے تھے ۔ جبکہ تیسرے نے اُنھیں ایسا کرنے سے منع کیا تھااور اللہ کی ناراضگی سے ڈرایا تھا۔ لیکن وہ نہ مانے ، اُن پر اللہ کی رحمت کے دروازے بند ہوگئے اور پورا باغ پکی فصل کے ساتھ اُجڑ گیا)۔ اگر محمد ؐ کی بات نہ مانوں گے تو دنیا میں بھی عذاب بھگتو گے اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ بڑا ہے۔
تبلیغِ دین کی راہ میں صبر:
- آخر میں رسول ؐاللہ کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا فیصلہ آنے تک جو سختیاں بھی تبلیغِ دین کی راہ میں پیش آئیں ان کو صبر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جائیں اور اس بے صبری سے بچیں جو یونس علیہ السلام کے لیے ابتلا کا موجب بنی تھی۔
سورۃالحآقّہ:
- ابتدائی تین آیات میں بتایا گیا کہ قیامت کا آنا اور آخرت کا برپا ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو ضرور پیش آ کر رہنی ہے۔
- آیت 4 سے 12 تک یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا ہے وہ آخرکار اللہ کے عذاب کی مستحق ہو کر رہی ہے۔
(ان قوموں میں قومِ عاد، آلِ فرعون، قومِ نوحؑ شامل ہیں جن کا تفصیلی تذکرہ گزشتہ دروس میں کیا جاچکا ہے)
- آیت13 سے 17 تک قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہ کس طرح برپا ہوگی۔ “جب ایک دفعہ صُور میں پھونک مار دی جائے گی اور زمین اور پہاڑوں کو اُٹھا کر ایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا ، اُس روز وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا۔ اُس دن آسمان پھٹے گا اور اس کی بندش ڈھیلی پڑ جائے گی”۔
- پھر آیت 18 سے 37 تک وہ اصل مقصد بیان کیا گیا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی موجودہ زندگی کے بعد نوعِ انسانی کے لیے ایک دوسری زندگی مقدر فرمائی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس روز تمام انسان اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوں گے جہاں ان کا کوئی راز چھپا نہ رہ جائے گا۔ ہر ایک کا نامۂ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی تھی کہ ایک دن انہیں اپنے رب کو حساب دینا ہے، اور جنہوں نے دنیا کی زندگی میں نیک عمل کر کے اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے پیشگی سامان کر لیا تھا، وہ اپنا حساب پاک دیکھ کر خوش ہو جائیں گے اور انہیں جنت کا ابدی عیش نصیب ہوگا۔ اس کے برعکس جن لوگوں ن نے نہ اللہ کا حق مانا نہ بندوں کا حق ادا کیا، انہیں اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا اور وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔
- دوسرے رکوع میں کفار مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم اس قرآن کو ایک شاعر اور کاہن کا کلام کہتے ہو، حالانکہ یہ اللہ کا نازل کردہ کلام ہے جو ایک رسول کریم کی زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ رسول اس کلام میں اپنی طرف سے ایک لفظ گھٹانے یا بڑھانے کا اختیار نہیں رکھتا۔اگر وہ اس میں اپنی من گھڑت کوئی چیز شامل کر دے تو ہم اس کی رگ گردن (رگ دل) کاٹ دیں۔ یہ ایک یقینی برحق کلام ہے اور جو لوگ اسے جھٹلائیں گے انہیں آخر کار پچھتانا پڑے گا۔
سورۃالمعارج:
- اس میں ان کفار کو تنبیہ اور نصیحت کی گئی ہے جو قیامت اور آخرت اور دوزخ اور جنت کی خبروں کا مذاق اڑاتے تھے اور رسول اللہ ﷺکو چیلنج دیتے تھے کہ اگر تم سچے ہو اور تمہیں جھٹلا کر ہم عذاب جہنم کے مستحق ہو چکے ہیں تو لے آؤ وہ قیامت جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اس سورت کی ساری تقریر اسی چیلنج کے جواب میں ہے۔
- ابتدا میں ارشاد ہوا ہے کہ مانگنے والا عذاب مانگتا ہے۔ وہ عذاب انکار کرنے والوں پر ضرورت واقع ہو کر رہے گا اور جب وہ واقع ہوگا تو اسے کوئی دفع نہ کر سکے گا، مگر وہ اپنے وقت پر واقع ہوگا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے مذاق اڑانے پر صبر کرو۔
- پھر بتایا گیا ہے کہ قیامت، جس کے جلدی لے آنے کا مطالبہ یہ لوگ ہنسی اور کھیل کے طور پر کر رہے ہیں کیسی سخت چیز ہے اور جب وہ آئے گی تو ان مجرمین کا کیسا برا حشر ہوگا۔ اس وقت یہ اپنے بیوی بچوں، اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں تک کو فدیہ میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہو جائیں گے تاکہ کسی طرح عذاب سے بچ نکلیں، مگر نہ بچ سکیں گے۔
- اس کے بعد لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اس روز انسانوں کی قسمت کا فیصلہ سراسر ان کے عقیدے اور اخلاق و اعمال کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں حق سے منہ موڑا ہے اور مال سمیٹ سمیٹ کر اور سینت سینت کر رکھا ہے انکے لیے اس دن بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی ۔ اور جنہوں نے یہاں خدا کے عذاب کا خوف کیا ہے، آخرت کو مانا ہے، نماز کی پابندی کی ہے، اپنے مال سے خدا کے محتاج بندوں ک حق ادا کیا ہے، بدکاریوں سے دامن پاک رکھا ہے، امانت میں خیانت نہیں کی ہے، عہد و پیمان اور قول و قرار کا پاس کیا ہے اور گواہی میں راست بازی پر قائم رہے ہیں وہ جنت میں عزت کی جگہ پائیں گے۔
- آخر میں مکہ کے ان کفار کو جو رسول اللہ ﷺکو دیکھ کر آپ کا مذاق اڑانے کے لیے چاروں طرف سے ٹوٹے پڑتے تھے، خبردار کیا گیا ہے کہ اگر تم نہ مانو گے تو اللہ تعالٰی تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا اور رسول اللہ ﷺکو تلقین کی گئی ہے کہ ان کے تمسخُر کی پروا نہ کریں، یہ اگر قیامت ہی کی ذلت دیکھنے پر مُصِر ہیں تو انہیں اپنے بیہودہ مشغلوں میں پڑا رہنے دیں، اپنا برا انجام یہ خود دیکھ لیں گے۔
سورۃالنوح:
- مکی زندگی میں جوں جوں مشکلات بڑھ رہی تھیں مسلمانوں کے حوصلے بڑھانے کی ضرورت بھی اتنی ہی زیادہ بڑھتی جارہی تھی۔ آنحضورﷺ کو ستایا گیا اور آپؐ کے صحابہؓ کا ناطقہ تنگ کیا گیا۔ ان حالات میں اللہ رب العالمین نے اپنے اولوالعزم رسول حضرت نوحؑ کے پورے واقعات کو ایک سورۃ میں سمو دیا اور اہلِ ایمان کو تسلی دی کہ فکر نہ کریں یہ راستہ کٹھن ضرور ہے مگر صبر کے ساتھ چلتے رہنے والوں کے لیے پھل برا میٹھا ہے۔
- حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کے سامنے دعوتِ حق پیش کرنے کا فریضہ بطریقِ احسن پورا کیا۔ اللہ کی نعمتیں بھی یاد دلائیں اور خیر خواہی و ہمدری کے ساتھ ہر رنگ میں اپنی دعوت و تذکیر کا کام جاری رکھا، لیکن قوم نے مان کر نہیں دیا۔ حضرت نوحؑ جب اللہ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں تو اس میں کہتے ہیں “اے میرے ربّ، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میری پُکار نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ اور جب بھی میں نے اُن کو بلایا تاکہ تُو انہیں معاف کر دے، انہوں نے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبّر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چُپکے چُپکے بھی سمجھایا”۔ مگر وہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔
- حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو ۹۵۰ سال دعوت دی لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آخر کار انھوں نے ربّ کے حضور دُعا کی کہ
“میرے ربّ، اِن کافروںمیں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔ اگر تُو نے اِن کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر یں گے اور اِن کی نسل سے جو بھی پیدا ہو گا بدکار اور سخت کافر ہو ہوگا۔ میرے ربّ ، مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے، اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرمادے ، اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر”۔
سورۃالجنّ:
- بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺاپنے چند اصحاب کے ساتھ بازارِ عکاظ تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں نخلہ کے مقام پر آپ نے صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت جنوّں کا ایک گروہ ادھر سے گذر رہا تھا، تلاوت کی آواز سن کر ٹھہر گیا اور غور سے قرآن سنتا رہا۔ اسی واقعے کا ذکر اس سورت میں کیا گیا ہے۔
- اس سے پیشتر سورة احقاف کی آیات ٢٩ تا ٣٢ میں بھی جنوں کے قرآن سننے کا ذکر گزر چکا ہے۔ لیکن قرآن کے ہی مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں۔ سورة احقاف میں بیان شدہ واقعہ کے مطابق سننے والے جن مشرک نہیں تھے بلکہ وہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر اور تورات پر ایمان رکھتے تھے پھر قرآن سننے کے بعد وہ جن قرآن پر اور آپ ؐکی نبوت پر ایمان لے آئے تھے۔ جبکہ اس سورت میں جن جنوں کا ذکر آیا ہے یہ مشرک تھے۔
جنوں کے متعلق حقائق بزبانِ قرآن:
- (١) انسان کے علاوہ جن ہی ایسی مخلوق ہے جو شریعت کی مکلف ہے، (٢) جن ناری مخلوق ہے، جو تیز شعلہ یا آگ کی لپٹ سے پیدا کیے گئے ہیں جبکہ انسان خاکی مخلوق ہے، (٣) انسان کی پیدائش سے پہلے جن ہی اس زمین پر آباد تھے ۔
جنوں کی صفات :
- (۱) جنّ انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن انسان جنوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ قرآن سننے والے جنوں کو نہیں دیکھ سکے اور آپؐ کو وحی کے ذریعے بتایا گیا(۲) جنّ بھی انسانوں کی ہی علاقائی زبانیں بولتے اور سمجھتے ہیں یہی وجہ تھی کہ جن قرآن سننے کے ساتھ ہی فوراً اسے سمجھ گئے اور ایمان لے آئے، (۳) انسان کی طرح ان میں بھی بعض نیک ہوتے ہیں، بعض بدکردار اور نافرمان۔ نیز جس قسم کے عقائد، اچھے ہوں یا برے، انسانوں میں پائے جاتے ہیں جنوں میں بھی پائے جاتے ہیں، (۴) بدکردار جنوں کو شیطان کہا جاتا ہے اور قرآن میں یہ الفاظ ان معنوں میں مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، (۵) انسانوں کی طرح ان میں بھی توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔
- اس سورت میں پہلی آیت سے لے کر آیت 15 تک یہ بتایا گیا ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے قرآن مجید سن کر اس کا کیا اثر لیا اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کے دوسرے جنوں سے کیا کیا باتیں کہیں۔ ان باتوں کے اشارے دیے گئے ہیں۔
- اس کے بعد آیت 16 سے 18 تک لوگوں کو فہمائش کی گئی ہے کہ وہ شرک سے باز آ جائیں اور راہ راست پر ثابت قدمی کے ساتھ چلیں تو ان پر نعمتوں کی بارش ہوگی ورنہ اللہ کی بھیجی ہوئی نصیحت سے منہ موڑنے کا انجام یہ ہوگا کہ وہ سخت عذاب سے دوچار ہوں گے۔
- پھر آیت 19 سے 23 تک کفار مکہ کو اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ جب اللہ کا رسول دعوت الی اللہ کی آواز بلند کرتا ہے تو وہ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، حالانکہ رسول کا کام صرف اللہ کے پیغامات پہنچا دینا ہے، وہ اس بات کا مدعی نہیں ہے کہ لوگوں کو نفع یا نقصان پہنچا دینا اس کے اختیار میں ہے۔
- پھر آیات 24 – 25 میں کفار کو متنبہ کیا گیا ہے کہ آج وہ رسول کو بے یار و مددگار دیکھ کر اسے دبا لینے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ایک وقت آئے گا جب انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اصل میں بے یار و مددگار کون ہے۔ وہ وقت دور ہے یا قریب، رسول کو اس کا علم نہیں ہے، کیونکہ عالم الغیب صرف اللہ تعالٰی ہے۔ رسول کو صرف وہ علم حاصل ہے جو اللہ اسے دینا چاہتا ہے۔
سورۃالمزمّل:
- پہلی سات آیات میں رسول اللہ ﷺکو حکم دیا گیا ہے کہ جس کارِ عظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے آپؐ اپنے آپؐ کو تیار کریں، اور اس کی عملی صورت یہ بتائی گئی ہے کہ راتوں کو اٹھ کر آپ آدھی آدھی رات، یا اس سے کچھ کم و بیش نماز پڑھا کریں۔
- آیت 8 سے 14 تک حضور ﷺکو تلقین کی گئی ہے کہ سب سے کٹ کر اس خدا کے ہو رہیں جو ساری کائنات کا مالک ہے۔ اپنے سارے معاملات اسی کے سپرد کر کے مطمئن ہو جائیں۔ مخالفین جو باتیں آپ کے خلاف بنا رہے ہیں ان پر صبر کریں، ان کے منہ نہ لگیں اور ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں کہ وہی ان سے نمٹ لے گا۔
- اس کے بعد آیات 15 سے 19 تک مکہ کے ان لوگوں کو جو رسول اللہ ﷺکی مخالفت کر رہے تھے، متنبہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اسی طرح تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف بھیجا تھا، پھر دیکھ لو کہ جب فرعون نے اللہ کے رسول کی بات نہ مانی تو وہ کس انجام سے دوچار ہوا۔ اگر فرض کر لو کہ دنیا میں تم پر کوئی عذاب نہ آیا تو قیامت کے روز تم کفر کی سزا سے کیسے بچ نکلو گے؟
- دوسرےرکوع میں نماز تہجد کے متعلق اس ابتدائی حکم کے اندر تخفیف کر دی گئی جو پہلے رکوع کے آغاز میں دیا گیا تھا۔ اب یہ حکم دیا گیا کہ جہاں تک تہجد کی نماز کا تعلق ہے وہ تو جتنی باآسانی پھی جا سکے پڑھ لیا کرو لیکن مسلمانوں کو اصل اہتمام جس چیز کا کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ پنج وقتہ فرض نماز پوری پابندی کے ساتھ قائم رکھیں، فرض زکٰوۃ ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خلوصِ نیت کے ساتھ صرف کریں۔
- آخر میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ جو بھلائی کے کام تم انجام دو گے وہ ضائع نہیں جائیں گے بلکہ ان کی حیثیت اس سامان کی سی ہے جو ایک مسافر اپنی مستقل قیام گاہ پر پہلے سے بھیج دیتا ہے۔ اللہ کے ہاں پہنچ کر تم وہ سب کچھ موجود پاؤ گے جو دنیا میں تم نے آگے روانہ کیا ہے، اور یہ پیشگی سامان نہ صرف یہ کہ اس سامان سے بہت بہتر ہے جو تمہیں دنیا ہی میں چھوڑ جانا ہے، بلکہ اللہ کے ہاں تمہیں اپنے بھیجے ہوئے اصل مال سے بڑھ کر بہت بڑا اجر بھی ملے گا۔
الحمد للہ آج 27 ویں تراویح کا خلاصہ مکمل ہوا۔
28 ویں تراویح کا خلاصہ ان شاء اللہ کل۔ ہمارے ساتھ رہیے گا۔ جب تک کےلیے اجازت ۔۔۔۔اللہ حافظ