خلاصہ تراویح 19 رمضان
اُنیس ویں تراویح
آج کی تراویح میں بائیسواں سپارہ مکمل پڑھا جائے گا۔ اس میں سورۃ الاحزاب کے باقی ۶ رکوع ، سورۃ سبا مکمل، سورہ فاطر مکمل اور سورۃ یٰسین کی ابتدائی ۲۱ آیات کی تلاوت کی جائے گی۔
الاحزاب: اُمہات المومنین کو اختیارکی آزادی (۲۸۔۳۴):
- “اے نبی ﷺ ! اپنی بیویوں سے کہو ، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رُخصت کر دوں “
صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ اس زمانے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپؐ کی ازواج آپؐ کے گرد بیٹھی ہیں اور آپؐ خاموش ہیں۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ کو خطاب کر کے فرمایا :
” ھُنَّ کَمَا تَرٰی یَسْألْنَنِی النفقۃ، ” یہ مجھ سے خرچ کے لیے روپیہ مانگ رہی ہیں “۔ اس پر دونوں صاحبان نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول ؐ کو تنگ کرتی ہو اور وہ چیز مانگتی ہو جو آپ ؐکے پاس نہیں ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ اس وقت کیسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے اور کفر و اسلام کی انتہائی شدید کشمکش کے زمانے میں خرچ کے تقاضے مزاج مبارک پر کیا اثر ڈال رہے تھے۔
- امہات المومنین کو بتایا گیا کہ وہ عام خواتین کی طرح نہیں ہیں، بلکہ اُن کا مقام ممتاز و منفرد ہے۔ وہ خواتین اسلام کےلیے نمونہ ہیں۔
- اُنھیں اپنے گھروں میں با پردہ رہنے کا حکم بھی انہی آیات میں دیا گیا۔
- اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات ؓ کو ہر آلائیش سے پاک کردینے کا وعدہ بھی فرمایا۔
اللہ کی مغفرت کے حقدار مرد و عورت (۳۵):
֍مسلم ہوں ֍مومن ہوں ֍مطیع ِ فرمان ֍سچ بولنے والے ֍صبر کرنے والے
֍اللہ سے ڈرنے والے ֍روزہ رکھنے والے ֍شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے
֍اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے ֍صبر کرنے والے
ایک حقیقت دو رُخ (۳۷۔۴۰):
- زینب ؓ بنتِ جحش حضورؐ کی پھوپھی زاد تھیں۔ انکے بیوہ ہوجانے پر آپ ؐ نے اُن کا نکاح اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زید ؓ بن ثابت سے کردیا تھا جو غالباً زینبؓ بنتِ جحش کو پسند نہ تھے۔ چنانچہ ایک سال سے کچھ زیادہ مدت کے بعد حضرت زیدؓ نے انھیں طلاق دے دی اور عدت کی مدت گزر جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُن سے نبیؐ کو نکاح کا حکم دیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اُس وقت کے معاشرے میں منہ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ سے سسر کا نکاح جائز نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اس روایت کو توڑنا چاہ رہا تھا۔ لہٰذا اُس نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا کہ عملی طور پر اس حکم کو نافذ کرکے ، مسلم معاشرے میں دورِ جاہلیت کے روایت و قانون کو ختم کردیں۔
- آیت نمبر ۴۰ میں ایک تو تمام مشرکین کے اُس پروپگینڈے کی جڑ کاٹ دی گئی جو کہتے تھے کہ نبیؐ نے اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے جو اکہ انکی نظر میں حرام تھا۔ وضاحت کردی گئی کہ کسی کی منہ بولی اولاد ، اُسکی سگی اولاد کا درجہ نہیں پاسکتی۔ نہ تو اُس کو سگی اولاد والے حقوق اُسے ملیں گے اور نہ ہی وراثت میں حصہ۔ نسب بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
ختمِ نبوت (۴۰):
- اس ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کھلا اعلان کردیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کے آکری نبی ہیں اور انکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ختمِ نبوت کا مسئلہ اتنا ہی اہم ہے جتنا خود توحید و رسالت اور آخرت کا عقیدہ۔ اگر کوئی نبوت کا جھوٹا دعویٰ بھی کرے تو اِ س کو نبی تو کیا “مسلمان “ ماننے والا بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
ذکرِ الٰہی و اہلِ ایمان کے لیے خوشخبری (۴۱۔۴۴):
- ان آیات میں اللہ نے کثرت سے اپنے ذکر کی تلقین فرمائی ہے۔ اورآیت ۴۳ میں اہلِ ایمان کو خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کے لیے رحمتیں نازل فرماتا ہے اور فرشتے اُن کے لیے دُعا کرتے ہیں۔ ایک اور ایمان کا ذکر کیا گیا کہ جس روز یہ مومنین اپنے ربّ سے ملیں گے ان کا استقبال سلام سے ہوگا۔ ہو سکتا ہے یہ استقبال ربّ خود سلام کرکے کرے، یا فرشتے سلام کرکے ان کا استقبال کریں یا آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرکے ایک دوسرے کا استقبال کریں۔
نکاح و طلاق کے مسائل (۴۹۔۵۲):
- ان آیات میں نکاح اور طلاق کے مسائل کا تذکرہ ملتا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے خاص ہیں۔ اس سے پہلے سورۃ البقرہ میں کچھ مسائل گزر چکے ہیں اور کچھ آئندہ سورۃ الطلاق میں آجائیں گے۔
ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے اور کھانے پینے کےآداب (۵۳۔۵۵):
- ان آیات میں نبیؐ کے گھر میں آنے جانے کے آداب سیکھائے گئے ہیں جبکہ سورۃ النور میں یہی حکم تمام مسلم معاشرے کے لیے طے پایا۔ ساتھ ہی یہ ادب بھی نبیؐ کی ذات سے منسلک کرکے بتا دیا گیا کہ کھانے کے وقت کسی کے گھربغیر بلائے نہیں جانا چاہیے، اگر بلایا جائے تو کھانا کھا کر جلد ہی وہاں سے کوچ کرجانا چاہیے نہ کہ دنیاوی باتیں بنانے بیٹھ جائیں اور صاحبِ خانہ کے لیے مشکل کا باعث ہو۔
معروف آیت (۵۶):
- آیت ۵۶ نبیؐ وہ معروف آیت ہے جو اکثر خطباء جمعہ و عیدین کے خطبوں میں پڑھا کرتے ہیں۔ اس آیت میں حضورؐ کی شان کو دوبالا کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ ۭ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا “اللہ اور اس کے ملائکہ نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو”۔ آنحضورؐ پر کثرت سے درود بھیجنا اللہ کی رضا اور مغفرت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ نماز میں پڑھا جانے والا درود، یعنی درودِ ابراہیمی ؑسب سے افضل ہے۔
پردے کا حکم (۵۹):
- آیت ۵۹ میں مسلمان عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ “اے نبی ﷺ ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلوّ لٹکا لیا کریں۔یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے”۔ رہا یہ سوال کہ برقع ہو یا چادر یا کوئی اور حجاب کی چیز، اس بارے میں شریعت نے لوگوں کو آزادی دی ہے۔
اہلِ جہنم کی لعن طعن :
- سورۃ کے آخری حصہ میں قیامت کے دن اہلِ جہنم کی ایک دوسرے پر لعن طعن کا تذکرہ ہے۔ ہرکوئی ایک دوسرے کےلیے دوہرے عذاب کا مطالبہ کرے گا اور اللہ کی لعنت و پھٹکار کی دُعا کرے گا۔ اہلِ باطل دنیا میں کتنی بھی جتھا بندیاں کرلیں لیکن روزِ قیامت ایک دوسرے کے دشمن ہونگے۔
سورۃ سبا :
- یہ ایک مکی سورۃ ہے اور وہ بھی اُس زمانہ کی جب مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع نہیں ہوا تھا۔
- اس سورة میں کفار کے ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی ؐ کی دعوت توحید و آخرت پر اور خود آپؐ کی نبوت پر زیادہ تر طنز و تمسخر اور بیہودہ الزامات کی شکل میں پیش کرتے تھے۔
- حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ اور قوم سبا کے قصے اس غرض کے لیے بیان کیے گئے ہیں کہ اُن کے سامنے تاریخ کی یہ دونوں مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف حضرت داؤدؑاور سلیمانؑ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی طاقتیں بخشیں اور شوکت و حشمت عطا کی ، مگر وہ کبر و غرور میں مبتلا نہ ہوئے بلکہ اس کے شکر گذار بندے ہی بنے رہے۔ اور دوسری طرف سبا کی قوم ہے جسے اللہ نے جب اپنی نعمتوں سے نوازا تو وہ پھول گئی اور آخر کار اس طرح پارہ پارہ ہوئی کہ اس کے بس افسانے ہی اب دنیا میں باقی رہ گئے ہیں۔
توحید و آخرت :
- سورۃ کا آغاز اللہ کی حمد سے ہوتا ہے ۔ پھر اُس کی صفاتِ عالیہ بیان کی گئی ہیں۔ کافروں کے انکارِ آخرت کا جواب دیا گیا ہے۔
آلِ داؤد (۱۰۔۱۴):
- داؤدؑ و سلیمانؑ کی شان و شوکت، اُن کی حکومت کی کامیابی اور ہیبت اور اس سب کچھ کے باوجود اُن کا اللہ کے سامنے عاجز و بے بس ہونا، موت کی وادی میں اُتر جانا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ساری قوتوں کے باوجود مخلوق اللہ کے سامنے بے بس ہے۔ انہی نعمتوں پر آلِ داؤد کو شکرکا حکم دیا گیا ہے۔
- حضرت داؤدؑ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہو واہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون (موجودہ الخلیل) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے، پھر چند سال بعد تمام قبائل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا۔
- حضرت سلیمان ؑ پر ایسی حالت میں موت طاری ہوئی جبکہ وہ ایک عصا کے سہارے کھڑے یا بیٹھے تھے۔ اس عصا کی وجہ سے ان کا بےجان جسم اپنی جگہ قائم رہا اور جِنّ یہ سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں لگے رہے کہ وہ زندہ ہیں۔ آخر کار جب عصا کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلا ہوگیا تو ان کا جسم زمین پر گرگیا اور اس وقت جنوں کو پتہ چلا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔
قومِ سبا (۱۵۔۲۱):
- قومِ سبا یمن کی طاقتور اور متمدن قوم تھی۔ اس قوم نے اپنے علاقے میں تہذیب و تمدن کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ صنعت و حرفت اور زراعت و تجارت کو اتنی ترقی دی کہ دُنیا کی قوموں میں برتر ہوگئی۔
- علاقہ زرخیز ، موسم موافق اور امن و امان مثالی تھا۔ ملک میں جہاں نکل جاؤ راستے کے دونوں جانب سرسبز و شاداب باغات اور لہلہاتے کھیت نظر آتے۔ گویا زمین و آسمان قوم پر مہربان تھے۔قوم کی بدبختی کہ اللہ کا شکر گزار بننے کے بجائے اُس سے منہ موڑ لیا۔
- اللہ نے ایک ایسا سیلاب بھیجا کہ جس نے اُن کے ڈیموں کے بند توڑ دیے اوراُسکے شہر اور بستیاں ویران ہوگئیں۔ زرخیز زمین بنجر اور ناقابلِ کاشت بن کر رہ گئی۔ اور آج وہ قوم ایک افسانہ بن کر رہ گئی۔
قومِ سبا کے پیرائے میں ہماری قومی تصویر:
- جب ہم اپنے وطن عزیز پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو آئینہ ٔ قرآنی میں ہماری تصویر نظر آتی ہے۔
- ہمارے اور قومِ سبا کے درمیان مماثلت پائی جاتی ہے۔ وطنِ عزیز میں ساری نعمتیں اللہ نے ہمیں عطا فرمائی ہیں۔
- لیکن پاکستانی قوم منجملہ شکر گزار بننے کے بجائے قومِ سبا کی طرح کفرانِ نعمت کی مرتکب ہوئی ہے۔ اللہ کے دیے ہوئے عطیے کو اللہ سے بغاوت کی آماج گاہ بنا دیا۔
- پھر بھی اللہ نے چھوٹے موٹے عذاب دے کر ہماری آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہم رُجوع الی اللہ نہیں کرتے۔ اِس وقت قوم کو رُجوع الی اللہ کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ملک جس لیے قائم کیا گیا تھا اُس ڈگر پر لانےکی ضرورت ہے۔
میں نہ مانوں کی رٹ (۳۱۔۳۳):
- ۳۱ ویں آیت سے کفار کی ہٹ دھرمی کا تذکرہ شروع ہوتا ہے ۔ وہ کہتے تھےکہ ہم ہر گز اس قرآن کو نہیں مانیں گے۔ فرمایا گیا! “کاش تم دیکھو اِن کا حال اُس وقت جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے ۔ اُس وقت یہ ایک دوسرے پر الزام دھریں گے ۔ جو لوگ دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ‘‘ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔ وہ بڑے بننے والے اِن دبے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گے ’’ کیا ہم نے تمہیں اُس ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی تھی ؟ نہیں ، بلکہ تم خود مجرم تھے ۔‘‘
- پھر یہ مجرمین پچھتائیں گے اور ان کے گلے میں طوق ڈالے جائیں گے۔
نبیؐ کا مقامِ رفیع (۴۶۔۵۴):
- نبیؐ سے کہلوادیا گیا کہ میں جو نصیحت تمھیں کرتا ہوں اس پر اچھی طرح انفرادی طور اور اجتماعی طور پر غور و فکر کرلو۔ میں تو تمھیں آخرت کے عذاب سے باخبر کررہا ہوں۔ جبکہ اسکے بدلے تم سے کسی اجر کا مطالبہ بھی نہیں کررہا، دنیا کا جاہ و منصب بھی نہیں مانگتا، تمھارے مال و دولت پر بھی کوئی حق نہیں جتاتا۔ میرا اجر تو میرے ربّ کے پاس ہے۔
سورۃ الفاطر:
- سورۃ الفاطر مکی دور کی سورۃ ہے جب کہ نبیؐ کی مخالفت زور پکڑ چکی تھی۔
- کلام کا مدعا یہ ہے کہ نبی ؐکی دعوت توحید کے مقابلہ میں جو رویہ اس وقت اہل مکہ اور ان کے سرداروں نے اختیار کر رکھا تھا اس پر ناصحانہ انداز میں ان کو تنبیہ و ملامت بھی کی جائے اور معلمانہ انداز میں فہمائش بھی۔
- کفار کو بتایا جارہا ہے کہ یہ نبی جس راہ کی طرف تم کو بلا رہا ہے اس میں تمہارا اپنا بھلا ہے۔ اس پر تمہارا غصہ، اور تمہاری مکاریاں اور چال بازیاں، اور اس کو ناکام کرنے کے لیے تمہاری تدبیریں دراصل اس کے خلاف نہیں بلکہ تمہارے اپنے خلاف پڑ رہی ہیں۔
- وہ توحید کی دعوت دیتا ہے۔ تم خود عقل سے کام لے کر غور کرو، کیا للہ فاطر السمٰوات والارض کے سوا کہیں کوئی ایسی ہستی پائی جاتی ہے جو خدائی صفات اور اختیارات رکھتی ہو ؟
- وہ تم سے کہتا ہے کہ تم اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہو بلکہ تمہیں اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور اس دنیوی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جس میں ہر ایک کو اپنے کیے کا نتیجہ دیکھنا ہوگا۔ تم خود سوچو کہ اس پر تمہارے شبہات اور تعجب کس قدر بےاصل ہیں۔ کیا تمہاری آنکھیں رات دن اعادہ خلق کا مشاہدہ نہیں کر رہی ہیں ؟ ہم بنجر زمین میں بارش برسا کر اُسے ہر بھرا نہیں کرتے؟ تمھارا کچھ وجود نہیں تھا اُس ربّ نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمھارے جوڑے بنادیے اور تمھاری نسل کا ایک تسلسل چلادیا۔
- اب اگر ان سراسر معقول اور مبنی بر حقیقت باتوں کو تم نہیں مانتے اور جھوٹے خداؤں کی بندگی نہیں چھوڑتے اور اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھتے ہوئے شتر بےمہار ہی کی طرح دنیا میں جینا چاہتے ہو تو اس میں نبی کا کیا نقصان ہے۔ شامت تو تمہاری اپنی ہی آئے گی۔ نبی پر صرف سمجھانے کی ذمہ داری تھی، اور وہ اس نے ادا کردی۔
- آیت ۱۸۔۲۶: کفار کے اسلام نہ لانے پر نبیؐ کُڑھتے تھے ۔ لہٰذا بار بارآپ ؐکو تسلی دی گئی ہے کہ آپ جب نصیحت کا حق پوری طرح ادا کر رہے ہیں تو گمراہی پر اصرار کرنے والوں کے راہ راست قبول نہ کرنے کی کوئی ذمہ داری آپ کے اوپر عائد نہیں ہوتی۔ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے ان کے رویے پر نہ آپ غمگین ہوں اور نہ انہیں راہ راست پر لانے کی فکر میں اپنی جان گھلائیں۔ جس طرح اندھا اور آنکھوں والا، تاریکی اور روشنی، ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش، زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوسکتے، اسی طرح اسلام کو قبول کرنے والے اور ہٹ دھرمی اختیار کرنے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔
- ایمان قبول کرنے والوں کو اسی سلسلے میں بڑی بشارتیں دی گئی ہیں تاکہ ان کے دل مضبوط ہوں اور وہ اللہ کے وعدوں پر اعتماد کر کے راہ حق میں ثابت قدم رہیں۔
سورۃ یٰسٓ:
- سورۃ یٰسٓ بھی ایک مکی سورۃ ہے۔ نبی کریمؐ نے اسے قرآن کا دل قرار دیا ہے۔ نبیؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اسے اپنے مرنے والوں پر پڑھا کرو۔ ہمارے خیال میں مرنے والوں کے پاس پڑھنے کی اس لئے ہدایت فرمائی کہ مرنے والے پر تمام اسلامی عقائد تازہ ہوجائیں اور عالم آخرت کا وہ نقشہ ان کے سامنے آجائے جو اس سورة میں مذکور ہے۔ مگر جو لوگ قرآن کا ترجمہ ہی نہ جانتے انھیں اسے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور جب ان کے سامنے پڑھی جائے تو اس کا ترجمہ بھی پڑھ دیا جائے تو بہتر ہے۔
محمدؐ کے رسول ہونے کی شہادت (۱۔۶):
- ابتداء یٰسٓ سے کی گئی جو کہ حروفِ مقطعات میں سے ہے اور نبیؐ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اسکے فوراً بعد قسم قرآن کی قسم کھائی گئی۔ قسم گواہی کے قائم مقام ہوا کرتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حکمتوں سے لبریز قرآن حکیم اس بات پر قوی شہادت ہے کہ (١) آپ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور (٢) یہ کہ آپ سیدھی راہ پر گامزن ہیں ۔
- مطلب یہ نہیں کہ نبیؐ کو اپنے نبی ہونے پر شک تھا بلکہ کیفیت یہ تھی کہ اُس وقت کفار قریش پوری شدت کے ساتھ حضورؐکی نبوت کا انکار کر رہے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے کسی تمہید کے بغیر تقریر کا آغاز ہی اس فقرے سے فرمایا کہ ” تم یقیناً رسولوں میں سے ہو ” یعنی وہ لوگ سخت غلط کار ہیں جو تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں۔
- “تاکہ تم خبردار کرو ایسی قوم کو جس کے آباؤ اجداد نہ کیے گئے تھے” ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے حضورؐ کے دور کے ماضیٔ قریب کے آباؤ اجداد مراد ہونگے۔ کیونکہ مکہ کو آباد کرنے والے ابراہیمؑ سے جو کہ ابوالانبیاء تھے۔
عذاب کے مستحق لوگ (۷۔۱۱):
- جو کفارِ مکہ نبیؐ کی دعوت کے مقابلے میں ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے اور جنہوں نے طے کرلیا تھا کہ آپ کی بات بہرحال مان کر نہیں دینی ہے۔ ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ” یہ لوگ فیصلۂ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں اس لیے یہ ایمان نہیں لاتے ” اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نصیحت پر کان نہیں دھرتے اور خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اتمام حجت ہوجانے پر بھی انکار اور حق دشمنی کی روش ہی اختیار کیے چلے جاتے ہیں ان پر خود ان کی اپنی شامت اعمال مسلط کردی جاتی ہے اور پھر انہیں توفیق ایمان نصیب نہیں ہوتی۔ آگے چل کر اس کی وضاحت کردی گئی کہ ” تم تو اسی شخص کو خبردار کرسکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بےدیکھے خدائے رحمان سے ڈرے۔ “
- اس مقام پر مختصراً یہ اشارہ کردینا ضروری ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے بالفاظ دیگر حق کو قبول نہ کرنے یا سرکشی کی راہ اختیار کرنے کی ابتداء ہمیشہ انسان کی طرف سے ہوتی ہے۔ پھر جو راہ انسان اختیار کرتا ہے اسے اللہ کی طرف سے اسی راہ کی توفیق و تائید ملتی جاتی ہے
مثال ایک بستی کی (۱۲۔۲۱):
- اللہ نے ایک بستی کی مثال پیش کی ہے، جس میں اللہ نے بیک وقت دو رسول بھیجے۔ بستی والوں نے انھیں جھٹلایا تو اللہ نے تیسرا نبی بھیجا۔ ان تینوں نے نہایت ہمدردی سے اہلِ بستی کو سمجھایا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ جواباً انھوں نے مکہ والوں کی طرح کہا کہ “تم تو ہماری طرح کے انسان ہو، ایسے ہی جھوٹے دعوے کررہے ہو۔ اُلٹا اُن بدبختوں نے اُنھیں منحوس قرار دیا اور سنگسار کرنےکی دھمکیان دیں۔
- اس کشمکش کے دوران ہی بستی کا ایک حق شناس اور حق گو شخص دوڑتا ہوا آیا اور بازار میں کھڑے ہو کر اُس نے یوں اعلان کیا” اے میری قوم کے لوگو ! رسولوں کی پیروی اختیار کرلو۔ پیروی کرو اُن لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں۔” اگر قوم کی آنکھیں اب بھی کھل جاتیں تو اُن کا بھلا ہوجاتا لیکن نہ صرف یہ کہ اُنھوں نے سنی ان سنی کردی بلکہ اُس بندۂ حق کو نہایت بے دردی سے بھرے بازار میں شہید کردیا۔
پھر اس قوم کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ مضمون کل کی آیات میں پڑھا جائے گا۔
ان شاء اللہ بیسویں ویں تراویح کے خلاصے کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے۔ اللہ حافظ